سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

صدی کی سب سے اہم سازش

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران مذھبی سیاسی محضر امام خمینی رہ

 امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ /قسط05

صدی کی سب سے اہم سازش

نیوزنور: امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ /قسط05/ میں اس وصیت نامے میں صرف اشارہ کرکے آگے بڑھتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ مصنفین ، ماہرین سماجیات اور مورخین ، مسلمانوں کو اس غلطی سے نکال لیں گے۔ اور جو کچھ کہا جا چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا کام معنویات سے سے ہے اور انہوں نے حکومت اور علائق دنیوی کو ٹھکرادیا ہےاور انبیاء و اولیاء، نیز بزرگ ہستیاں اس سے پرہیز کرتے تھے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ،  یہ نہایت ہی افسوسناک غلطی ہے  کہ جس کا انجام امت اسلامیہ کو تباہ کرنا اور خونخوار سامراجیوں کیلئے راستہ کھولنا ہے ، کیونکہ جو کچھ ناقابل قبول اور مردود ہے وہ شیطانی، آمرانہ اور ظالمانہ حکومتیں ہیں کہ جو سلطہ جوئی اور منحرف منصوبوں اورایسی دنیا کہ جس سے دوری کی جائے؛مال و دولت جمع کرنا، اقتدار کی ہوس اور طاغوت کی پیروی ہے اورسر انجام ایسی دنیا ہے کہ جس میں انسان  حق تعالی سے غافل رہے۔لیکن حق کی حکومت مستضعفان کے فائدے کیلئے اور ظلم و جور کے روک تھام اور اجتماعی عدل و انصاف کو رواج دینے کیلئے کہ جس کے لئے سلیمان بن داوود علیہما السلام اور اسلام کے عظیم الشان پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عظیم اوصیا علیہم السلام نےکوشش کرتے تھے؛ یہ اہم واجبات میں سے ہے اور ایسی حکومت کو برقرار کرنا اعلی ترین عبادت ہے ، چنانچہ صحیح و سالم سیاست ہی ان حکومتوں میں بنیادی اور لازمی امور  رہی ہے۔ایران کی بیدار اور ہوشیار قوم کو چاہئے کہ وہ اسلامی بصیرت کے ساتھ ان سازشوں کو ناکام بنائے۔ اور فریضہ شناس مقررین اور مصنفین قوم کی مدد کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں  اور فتنہ گر شیطانوں کے ہاتھ کاٹ پھینکیں۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور ؛گذشتہ سے پیوست امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے الہی سیاسی وصیت نامےکی  پانچویں قسط اگلے سے پیوست ملاحظہ فرمائیں:

صدی کی سب سے اہم سازش

ب)

حالیہ صدی میں رچی گئی سب سے اہم سازش، خاص کر گذشتہ چند دہائیوں میں اور بالخصوص انقلاب کی کامیابی کے بعد جو واضح طور پر نظر آرہی ہے وہ وسیع پیمانے پر تبلیغ و تشہیر کے ذریعہ مختلف پہلوؤں سے  ملت اسلامیہ کو بالعموم اور ایران کی جانثار قوم کو بالخصوص اسلام سے نا امید کرنا ہے۔کبھی دبے الفاظوں تو  کبھی واشگاف الفاظوں میں کہا جاتا ہے کہ اسلامی احکام1400 سال قبل بنائے گئے ہیں اور دور حاضر میں ملکوں  کا نظام نہیں چلا سکیں گے۔یا یہ کہ اسلام ایک رجعت پسند دین ہے اور نوآوری اور نئی تہذیب کا مخالف ہے، اور عصر حاضر میں ملکوں کو عالمی تہذیب اور اس کے نئے اندازوں سے دور نہیں رکھا جاسکتا، اور اس قسم کے احمقانہ پروپنگنڈے کرکے اسلام سے بدظن کیا جاتا ہے اور کبھی موذیانہ اور شیطنت آمیز انداز میں اسلام کے تقدس کے طرفدار کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام اور دوسرے الہی ادیان کا سروکار معنویات،تہذیب نفس ، دنیوی مقامات سےدورے اختیار کرنے اور ترک دنیا اورعبادات و اذکارو  ادعیہ کہ جو انسان کو خدا سے نزدیک اور دنیا سے دور کرتے ہیں میں مشغول رہنے کی دعوت دیتا ہے ،اور حکومت و سیاست اور سررشتہ داری سے دلچسپی اس عظیم معنوی مقصد و مقصود کے بر خلاف ہے ، کیونکہ یہ سب تعمیر دنیا کیلئے ہے اور انبیائے عظام علیہم السلام  کا یہ شیوہ نہیں رہا ہے!  افسوس کہ اس قسم کے پروپگنڈوں نے اسلام سے بے خبر بعض دینداروں اور علما کو اتنا متاثر کیا کہ وہ حکومت و سیاست میں حصہ لینے کو ایک گناہ وفسق سے تعبیر کرتے تھے شاید بعض لوگ آج بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک عظیم المیہ ہے جس میں اسلام مبتلا رہا ہے۔

پہلی جماعت ( کہ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام چودہ سو سال پرانا مذہب ہے)کے بارے میں کہنا پڑے گا کہ یا تو وہ حکومت ، قانون اور سیاست سے یا واقفیت نہیں رکھتے یا پھر جان بوجھ کر خود کو انجان ظاہر  کرتے ہیں ۔کیونکہ عدل و انصاف کے معیار پر قوانین کا نفاذ  اور ظالم و بے رحم حکومت کا روک تھام کرنا اور انفرادی اور اجتماعی انصاف کو رواج دینا اور  فساد و فحشا  اور مختلف غلط کاموں سے منع کرنا ،عقل و انصاف پر مبنی آزادی، اور استقلال اور خود کفیلی اور  استعمار و استثمار اور استبداد، اور ایک معاشرے سے فساد اور تباہی روکنے کیلئے میزان عدل و انصاف کے رو سے حدود و قصاص اور تعزیرات کا اجرا کرنا، اور سیاست اور معاشرے کو عقل اور عدل و انصاف کے معیار کے مطابق چلانا اور ایسی ہی اور بھی سیکڑوں چیزیں، یہ ایسے موضوعات نہیں ہیں کہ جو وقت کے گزرنے کے ساتھ تاریخ انسانی اور معاشرتی زندگی میں پرانی ہو جاتی ہیں۔یہ دعوی ایسا ہے جیسے کہا جائے کہ عصر حاضر میں عقلی اور ریاضی اصولوں کو بدلنا چاہئے اور ان کی جگہ نئے قوانین رائج ہونے چاہئیں ۔اگر ابتداء آفرینش میں ، اجتماعی عدل و انصاف کے نفاذ کا رواج تھا اورستمگری اور لوٹ کھسوٹ اور قتل  کی روک تھا م ہوتی تھی ،اور ہم چونکہ ہم ایٹمی صدی کے لوگ ہیں ہمارے لئے وہ طریقہ پرانا ہو چکا ہے!اور یہ دعوی کہ اسلام  نوآوری کا مخالف ہے ایک احمقانہ الزام ہے۔جسطرح کہ معزول محمد رضا پہلوی بھی یہی کہتا تھا کہ یہ لوگ اس دور میں بھی خچروں پر سفر کرنا چاہتے ہیں ، درحالیکہ یہ ایک احمقانہ الزام سے بڑھ کرنہیں ہے۔ ، کیونکہ اگر نوآوری اور نئی تہذیب سے مراد وہ اختراعات ، ایجادات اور ترقی یافتہ صنعتیں ہیں جو انسانی ترقی و تمدن میں دخل رکھتی ہیں تو اسلا م اور کسی بھی توحیدی مذہب نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ کرے گا، بلکہ اسلام اور قرآن کریم نے تو علم و صنعت پر زور دیا ہے ۔لیکن اگر نوآوری اور نئی تہذیب سے مراد تمام ممنوعہ چیزوں اور بدکاریوں حتی کہ ہم جنس بازی وغیرہ کی آزادی و استعمال ہے جیسا کہ بعض پیشہ ور اور روشن خیان کہتے ہیں تو اس کے تمام آسمانی مذاہب ، دانشور اور عاقل افراد مخالف ہیں ، اگرچہ مشرق و مغرب پرست افراد اندھی تقلید کرتے ہوئے اس کی ترویج کرتے ہیں۔

و اما دوسری جماعت جو موذیانہ منصوبے رکھتے ہیں اور اسلام کو حکومت و سیاست سے جدا  سمجھتے ہیں ۔تو ان نادانوں سے کہنا چاہئے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حکومت و سیاست کے بارے میں جتنے احکام پائے جاتے ہیں اتنے باقی موضوعات کیلئے نہیں ملتے ہیں؛ ، بلکہ اسلام کے بہت سے عبادی احکامات ، عبادی اور سیاسی ہیں اور ان سے غفلت ہی ان تمام مصیبتوں کا سبب بنی ہے۔رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کی دیگر حکومتوں کی مانند حکومت تشکیل دی لیکن ان کا مقصد انصاف کو فروغ دینا تھا۔ اسلام کے ابتدائی خلفا بھی وسیع حکومتیں رکھتے تھے اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلا م کی حکومت  بھی  اسی طرح تھی کہ جس میں یہ جذبہ زیادہ وسیع اور جامع انداز میں نمایاں تھا، یہ باتیں تاریخ کے نمایاں حقائق میں ہیں اور اس کے بعد بھی حکومت بتدریج اسلام ہی کے نام سے منسوب رہی اور اس وقت بھی بہت سے اسلام اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں اسلامی حکومت کے دعویدار ہیں۔

میں اس وصیت نامے میں صرف اشارہ کرکے آگے بڑھتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ مصنفین ، ماہرین سماجیات اور مورخین ، مسلمانوں کو اس غلطی سے نکال لیں گے۔ اور جو کچھ کہا جا چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا کام معنویات سے سے ہے اور انہوں نے حکومت اور علائق دنیوی کو ٹھکرادیا ہےاور انبیاء و اولیاء، نیز بزرگ ہستیاں اس سے پرہیز کرتے تھے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ،  یہ نہایت ہی افسوسناک غلطی ہے  کہ جس کا انجام امت اسلامیہ کو تباہ کرنا اور خونخوار سامراجیوں کیلئے راستہ کھولنا ہے ، کیونکہ جو کچھ ناقابل قبول اور مردود ہے وہ شیطانی، آمرانہ اور ظالمانہ حکومتیں ہیں کہ جو سلطہ جوئی اور منحرف منصوبوں اورایسی دنیا کہ جس سے دوری کی جائے؛مال و دولت جمع کرنا، اقتدار کی ہوس اور طاغوت کی پیروی ہے اورسر انجام ایسی دنیا ہے کہ جس میں انسان  حق تعالی سے غافل رہے۔لیکن حق کی حکومت مستضعفان کے فائدے کیلئے اور ظلم و جور کے روک تھام اور اجتماعی عدل و انصاف کو رواج دینے کیلئے کہ جس کے لئے سلیمان بن داوود علیہما السلام اور اسلام کے عظیم الشان پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عظیم اوصیا علیہم السلام نےکوشش کرتے تھے؛ یہ اہم واجبات میں سے ہے اور ایسی حکومت کو برقرار کرنا اعلی ترین عبادت ہے ، چنانچہ صحیح و سالم سیاست ہی ان حکومتوں میں بنیادی اور لازمی امور  رہی ہے۔ایران کی بیدار اور ہوشیار قوم کو چاہئے کہ وہ اسلامی بصیرت کے ساتھ ان سازشوں کو ناکام بنائے۔ اور فریضہ شناس مقررین اور مصنفین قوم کی مدد کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں  اور فتنہ گر شیطانوں کے ہاتھ کاٹ پھینکیں۔


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی