سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امامت حضرت فاطمہ زہراء س کے اقوال اور افکار کی روشنی میں

 اردو مقالات اھلبیت ع حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

امامت حضرت فاطمہ زہراء س کے اقوال اور افکار کی روشنی میں

آیۃ اللہ العظمی مکارم کا بیان :

امامت حضرت فاطمہ زہراء س کے اقوال اور افکار کی روشنی میں

نیوزنور: حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے ایک مضمون میں امامت کے مفہوم کو بیان کیا اور تاکید کی : حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی مظلومانہ شہادت نے بخوبی بتا دیا کہ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاہل بیت علیہم السلام کو متن حکومت اور اسلامی خلافت سے دور رکھنے کے لیے اور مقام ولایت و امامت کو نظر انداز کرنے کے لیے ایک بہت بڑی سازش رچی جا رہی تھی ، ایک ایسی سازش جو ہر پہلو سے مکمل تھی ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق  شیعہ مرجع تقلید حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے ایک مضمون میں ، امامت کے مفہوم ، امامت کی اہمیت و منزلت ، قرآن میں امامت کی اہمیت و منزلت ، شیعوں کے عقاید کے کلی اصول وضع کرنے میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کا کردار ، امامت اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی  اور اسی طرح کے دیگر موضوعات کا جائزہ لیا  اور تاکید کی : معصوم پیشواوں اور آئمہء ھدی علیھم السلام کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے منصوب اور منتخب کیے گئے ہیں ۔ آیہء ؛ یا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما انْزِلَ الَیْکَ ... (۱) اے پیغمبر جو اللہ کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے ، کہ جو داستان غدیر کے بارے میں نازل ہوا ہے اور متعدد روایات میں کہ جو تمام فرقوں کی طرف سے مختلف مقامات اور مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کے خلافت اور جانشینی کے لیے منصوب کیے جانے کے بارے میں آئی ہیں ، نیز وہ روایتیں کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کے بارہ پیشواوں اور خلفاء کے بارے میں ، اور وہ روایتیں کہ جو آئمہء معصومین علیھم السلام کی طرف سے یعنی ہر امام کی جانب سے اپنے بعد والے امام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں وہ سب اس دعوے کی گواہ ہیں (۲)

معصومین کا قول و فعل ہمارے لیے حجت ہے ، یعنی ان کے اقوال ہمارے لیے دینی معارف کو روشن کرتے ہیں نیز مختلف مواقع پر ان کا عمل اور سکوت آموزندہ اور معارف ، اخلاق اور احکام کا دریائے بے کراں ہے ، (۳) (۴) لہذا معصومین علیہم السلام لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں ۔ (۵)

اس لیے کہ آئمہء اہل بیت علیہم السلام کے علوم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں اور قرآن اور متواتر روایات کی روشنی میں اس دستور کے مطابق جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہمیں دیا ہے ، کہ ہم ان دونوں کے دامن سے اپنا ہاتھ نہ کھینچیں تا کہ ہماری ہدایت ہو جائے ، نیز اس چیز کے پیش نظر کہ ہم آئمہء اہل بیت علیہم السلام کو معصوم مانتے ہیں ان کے تمام اقوال اور اعمال ہمارے لیے حجت اور سند ہیں اسی طرح ان کی تقریر بھی یعنی ان کے سامنے کوئی کام کریں اور وہ منع نہ کریں ، ہمارے لیے حجت ہے ۔ اس بنا پر ہمارا ایک فقہی منبع قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے بعد آئمہء اہل بیت علیہم السلام کا قول ، فعل اور ان کی تقریر ہے ، (۶)

ان تفسیروں کی روشنی میں حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کا قول ، فعل اور ان کی تقریر اسلام کی ایک نمونہء عمل خاتون شخصیت ہونے کے اعتبار سے عمل و نظر کا ملاک ہیں اور دینی حجیت رکھتی ہیں ۔ (۷)

اسی لیے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت کی باتیں صرف ولایت و امامت کے محور پر ہوتی ہیں ، حالانکہ اسلام کی اس خاتون پر بہت مظالم ڈھائے گئے اور مناسب تھا کہ آپ فریاد بلند کریں لیکن نہ آپ نے فریاد بلند کی اور نہ شکایت کے لیے اپنے لب وا کیے(۸) ، بلکہ جو کچھ بھی کہا وہ سب علی علیہ السلام کی ولایت و امامت اور مسلمانوں کے مصالح کے بارے میں تھا ۔ اس حساس اور کلیدی اصل کے بارے میں تحقیق کی ضرورت  حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نظریات کے بارے میں پہلے سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے (۹)

امامت کا مفہوم ،

مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کی نظر میں امامت دین کے اصول اور اعتقاد کی بنیادوں میں سے ہے ۔ (۱۰) اور امام کا مطلب مسلمانوں کا پیشوا اور رہبر بھی ہے ۔ اور شیعوں کے اصول عقاید کے مطابق امام معصوم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ہر چیز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہو اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر مکتب کا بانی ہوتا ہے اور امام مکتب کا محافظ اور پاسدار ہوتا ہے ۔ پیغمبر ص پر وحی نازل ہوتی ہے لیکن امام پر نہیں ، اس کی تعلیمات کا سرچشمہ پیغمبر ہوتا ہے اور وہ غیر معمولی علم کا مالک ہوتا ہے ۔ (۱۱)

دوسرے لفظوں میں امام وہ ہوتا ہے کہ  جو دین کے قوانین اور احکام الہی کو اجرا کرے ، اس بنا پر نبوت ، بیان قانون ، رسالت ابلاغ قانون ، اور امامت اس کا اجراء ہے ۔ امام احکام الہی کے اجراء کے لیے حکومت تشکیل دیتا ہے تا کہ شرعی حدود کا اجراء کر سکے مظلوموں کا حق لے ، معاشرے میں نظام کو قائم کرے ، امن کو فراہم کرے اور دین سے مربوط تمام امور کو منظم کرے ۔ (۱۲)

اسی لیے امام وہ ہوتا ہے کہ جس کے اقوال اعمال اور جس کی سیرت لوگوں کی زندگی کے لیے نمونہء عمل ہو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی معنی میں ان کی رسالت کی ابتدا سے ہی امام شمار کیا جاتا ہے اور ان کی گفتار اور ان کا کردار لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہء عمل تھے (۱۳) اسی بنا پر امامت لوگوں پر حکومت اور ریاست سے بڑھ کر ہے ، بلکہ انبیاء ع کی تمام ذمہ داریاں وحی کو دریافت کرنے اور اس جیسی چیز کو چھوڑ کر اماموں کے لیے ثابت ہیں اسی دلیل کی بنا پر عصمت کی شرط جو انبیاء کے لیے ہے وہی امام کے لیے بھی ہے (۱۴)

ان تفسیروں کی روشنی میں امامت کا مطلب ہے دینی پروگراموں کو وجود دینا جس وسیع معنی کے اعتبار سے حکومت اور حدود کا اجراء ، احکام الہی ،عدالت اجتماعی اور اسی طرح ظاہر و باطن میں نفوس کی تربیت و پرورش شامل ہے (۱۵) پس امام معصوم صرف اسلامی حکومت کے رہبر کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ مادی ،معنوی ، ظاہری ، باطنی رہبری خلاصہ اسلامی معاشرے کی ہمہ جانبہ رہبری اس کے ذمہ ہوتی ہے ۔ وہ بغیر کسی اشتباہ اور انحراف کے  اسلامی عقاید اور احکام کی پاسداری کرتا ہے (۱۶) وہ خدا کا منتخب بندہ ہوتا ہے ، (۱۷)

اس تعریف کے مطابق امام کا تعین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے خدا کی طرف سے ہوتا ہے ، اس کے اندر مقام نبوت کو چھوڑ کر وہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضایل و امتیازات ہوتے ہیں ، اس کا کام صرف دینی حکومت تک محدود نہیں ہوتا ، اسی لیے امامت کا عقیدہ اصول دین کا حصہ شمار ہوتا ہے ، نہ کہ دین کی فرع اور عملی ذمہ داری ، (۱۸)

البتہ  ہر عصر و زمانے میں خدا کا ایک نمایندہ چاہے وہ پیغمبر یا امام معصوم ہو روئ زمین پر ہوتا ہے تا کہ وہ دین حق کی حفاظت کرے اور حق طلبوں کی رہنمائی کرے اور اگر کسی زمانے میں وہ کچھ وجوہات کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے غایب ہو جائے تو اس کے نمایندے اس کی طرف سے تبلیغ احکام اور تشکیل حکومت کے ذمہ دار ہوں گے ۔ (۱۹)

امامت کی اہمیت و منزلت ،

عام طور پر ولایت و رہبری کا مسئلہ اور خاص طور پر پیغمبر کی جانشینی کے معنی میں امامت کا مسئلہ تاریخ اسلام کی اہم ترین عقیدتی ، تفسیری ، اور روائی بحثوں میں سے ہے (۲۰) یہ وہ مسئلہ ہے کہ جو دینی اعتبار سے تاریخ ساز ہے ، اور یہ کسی بھی بنا پر شخصی پہلو نہیں رکھتا ، اور برخلاف اس کے کہ جو بعض نادان لوگ سوچتے ہیں یہ صرف ماضی سے مربوط ایک تاریخی بحث نہیں ہے بلکہ اس کے آج ،کل اور آنے والے کئی کل  کے لیے بہت زیادہ آثار ہیں وہ اسلام کے اصول و فروع  سے متعلق  مسائل پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ع نے اپنی ظاہری خلافت کے زمانے میں بار بار اس مسئلے کی یاد دہانی کرائی ہے ۔ (۲۱)

بہر حال اگر عادل حکومت نہ ہو اور امامت صحیح معنی میں برسرکار نہ ہو تو امت کا نظام بکھر جائے گا ظالم مظلوموں پر غالب آ جائیں گے اور فساد برپا کرنے والے اور مفسد لوگ حساس پوسٹوں پر قابض ہو جائیں گے اور مسلمانوں کا بیت المال تباہ ہو جائے گا اور ہر جگہ بد امنی پھیل جائے گی چنانچہ عصر حاضر کی اور ماضی کی  تاریخ نے اس کے دسیوں نمونے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں ۔ (۲۲)

اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آئمہ ع کی امامت کی ذمہ داریوں کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے زمانے اور مکان دونوں اعتبار سے ، یہ ذمہ داری عالمی اور جاویدانی ہے ۔ یعنی پورے روئ زمین کو بھی شامل ہے اور قیامت تک ہر زمانے کے لیے ہے ۔(۲۳) پس اسلام امامت و رہبری کے بغیر ایک عالمی ، ہر زمانے پر حاوی اور آخری دین نہیں ہو سکتا ، آخری دین کو ہر زمانے میں لوگوں کی ہر ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے اور یہ چیز ہر زمانے میں امام معصوم کے وجود کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ (۲۴)

اس بنا پر امامت کا مسئلہ صرف کل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کا آج کا مسئلہ ہے  اور امت کی رہبری کا مسئلہ ہے جو نبوت کی بقاء اور اس کے استمرار اور اسلام کی سرنوشت کا مسئلہ ہے ۔ (۲۵) (۲۶)

امامت و رہبری کا مسئلہ صرف ایک دینی اور تشریعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس نے پوری کائنات اور عالم تکوین کو اپنے بال و پر کے نیچے رکھا ہے ، خدا وند عالم سارے جہان ہستی اور اس کے مختلف مجموعوں کا امام ہے اور ان سب کی رہنمائی ، ہدایت اور تدبیر کرتا ہے ۔ (۲۷)

امامت کی اہمیت و منزلت قرآن کی روشنی میں ،

قرآن مجید بھی امامت کے لیے خاص اہمیت کا قائل ہے اور اس نے امامت کو انسان کی تکاملی سیر کا آخری مرحلہ قرار دیا ہے کہ جس تک صرف اولوالعزم پیغمبر پہنچ پائے ہیں ۔ جیسا کہ آسمانی کلام میں ملتا ہے :" وَ اذا ابْتَلى ابْراهیمَ رَبُّهُ بِکَلِماتٍ فَاتَمَّهُنَّ قال انّى جاعِلُکَ لِلنّاسِ اماماً قالَ وَ مَنْ ذُرَّیَّتى قالَ لایَنالُ عَهْدِى الظّالِمینَ" اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا نے مختلف وسایل سے ابراہیم کی آزمائش کی ، ابراہیم علیہ السلام اس امتحان میں پوری طرح کامیاب ہو ئے تو خدا نے ان سے فرمایا : میں نے تمہیں لوگوں کا امام اور پیشوا بنایا ہے ۔ (۲۸) (۲۹)

لیکن سچ مچ یہ کونسا مقام ہے  کہ حضرت ابراھیم ؑ  مقام نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد  اس منصب پر فائز ہوئے؟  بالیقین  یہ ان تمام مقامات سے بالاتر اور بلند تر مقام تھا  کہ جو انہیں تمام تر آزمائشات پر کھرا اترنے کے بعد ذات خداوندی کی طرف سے عطا ہوا ۔  (۳۰)

لہٰذا قرآن مجید سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے  کہ مقام امامت وہ بلند ترین مقام ہے کہ جس تک ایک انسان پہنچ سکتا ہے  حتی  ٰ یہ مقام ، مقام نبوت و رسالت سے بڑھ کر ہے۔ (۳۱)

اس ترتیب کے ساتھ  حضرت ابراھیم ؑ ، مرحلہ نبوت و رسالت سے گذرنے  اور مختلف امتحانات کو سر کرنے کے بعد  اس مقام بلند و بالا ، انسانوں کے باطنی و ظاھری ، مادی و معنوی  پیشوا کے مقام تک پہنچ پائے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام نبوت و رسالت کے علاوہ مقام  امامت و رھبریء خلق پر فائز تھے ، بقیہ پیغمبروں کا ایک گروہ بھی اس مقام پر فائز تھا۔ (۳۲)

شیعوں کے کلی عقائد کو بیان کر نے میں حضرت زھرا (سلام اللہ علیہا) کا کردار

یہ بات قابل  بیان ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اتنی چھوٹی اور  رنج و غم سے بھری زندگی کے باوجود  عمیق اور بلند و بالا معارف کو زمانے پر بیان کیا (۳۳) مسئلہ توحید    و صفات پروردگار  و اسمای حسنیٰ اور مسئلہ خلقت کی عمیق ترین اور واضح ترین تحلیل ؛ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلند و بالا مقام  پر تاکید  اور آنحضور کی خصوصیات  اور ان کے اھداف اور  ذمہ داریاں  اور اسی طرح   قرآن کی اھمیت ، اور تعلیمات اسلامی کی گہرائیوں ، اور فلسفے کو بیان کرنا (۳۴) تاکہ اپنے ماننے والوں پر عیاں کیا جا سکے  اور گمراہوں کو نجات دی جائے اور حق و عدالت کا دفاع کیا جا سکے (۳۵)

مثال کے طور پر  حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا نے خطبہء فدک میں جو خاتون اسلام کا پہلا خطبہ ہے ، پوری بات توحید ، مبداء و معاد ، فلسفہء احکام ، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے واقعات آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی برکات اور غصب خلافت کے مسئلے کے بارے میں کی ہے (۳۶) اسی طرح دوسرے خطبے میں (جو مہاجرین اور انصار کی عورتوں کے لیے تھا ) آپ کی گفتگو صرف ولایت و امامت کے محور پر استوار تھی ۔(۳۷)

اسی طرح ہم نے دیکھا کہ وہ عقیدتی مباحث کہ آپ جن کو اہمیت دیتی تھیں وہ  اللہ کی معرفت کا وجوب تھا کہ علم کلام و عقاید کے علماء شکر منعم کے وجوب کے عنوان کے تحت  خدا شناسی کے مسئلے میں جس کو بیان کرتے ہیں۔ (۳۸)

اس بنیاد پر اس خاتون اسلام کی عمیق تحلیلیں تاریخ کے مختلف اوقات میں خاص کر آپ کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں پیچیدہ ترین اعتقادی مسائل میں آپ کی دقیق علمی صلاحیت کی عکاس ہیں ۔ (۳۹) وہ بے مثال تفسیریں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر نیک اختر نے اہم ، سیاسی ،عقیدتی اور اجتماعی مسائل کے سلسلے میں کی ہیں ان سے شیعہ عقاید کے کلی خطوط کی تبیین ہوتی ہے ۔(۴۰)

امامت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی ،

شیعوں کے اصول عقاید میں امام اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر چیز میں پیغمبر ص کا جانشین ہو ۔(۴۱) اس لیے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ کا تقرر و تعین خدا کی طرف سے ہونا چاہیے (۴۲) پس شیعوں کے نظریے کے مطابق خلیفہ کی تعیین انتصابی ہے ۔ (۴۳)

اس بنا پر امام کو چاہیے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر سنت سے آگاہ ہو ، اسے چاہیے کہ لوگوں کی مشکلات کو حل کرے ، اور واضح ہے کہ ایسا کرنے کے لیے بڑی سطح پر علم و آگاہی کی ضرورت ہے ۔ (۴۴)

دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام اور خلیفہ وہ ہو سکتا ہے کہ جو سب سے زیادہ ،آگاہ ، بہادر ، فدا کار اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ ایثار گر ہو ۔ اور چونکہ امامت و خلافت کا مسئلہ انتصابی ہے ، اسی لیے خدا وند عالم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ کا انتصاب خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح کرتا ہے ۔ (۴۵)

ام سلمی کہتی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے ملاقات کے لیے گئی اور میں نے ان کا حال پوچھا تو آپ سلام اللہ علیہا نے جواب میں یہ پر معنی جملے ارشاد فرمائے (۴۶) اے ام سلمی میرے حال کے بارے میں کیا پوچھتی ہو ، میں انتہائی رنج و الم کے دور سے گذر رہی ہوں ایک طرف میں نے اپنا باپ کھو دیا ہے اور دوسری طرف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں کہ ان کے جانشین علی علیہ السلام پر ستم ڈھایا جا رہا ہے ۔ (۴۷)

یہی وجہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نے خطبہء فدکیہ میں حضرت علی علیہ السلام کی عظیم خدمات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خطر ناک حوادث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں مقابلے کے لیے بھیجتے تھے اور وہ غیر معمولی ، جانبازی ، فداکاری اور ایثار گری کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے فتنوں کی آگ کے اندر گھس جاتے تھے اور اسے بجھاتے تھے اور کامیابی کے ساتھ واپس آتے تھے ۔ اپنی تلوار سے سرکشوں کے سر اڑاتے تھے اور شیطانوں کی ناک زمین پر رگڑتے تھے ۔ اور ہر جگہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یار و یاور اور حامی و ناصر ثابت ہوتے تھے ۔ (۴۸)

تاریخ اسلام کی یہ بہادر خاتون اس مسئلہ کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتی ہیں : میرے چچازاد علی علیہ السلام سے اس مقام کے لیے کون زیادہ مناسب ہے کہ جس نے وحی کی آغوش میں پرورش پائی اور خود کاتبان وحی میں تھے اس نے قرآن اور اس کی تفسیر کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہونٹوں سے سنا تھا (۴۹) ۔؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ہمارے گھر میں نازل ہواہے ، اور اھل البیت ادری بما فی البیت ۔ (۵۰) گھر والے سب سے بہتر جانتے ہیں کہ ان کے گھر کے کونوں میں کیا ہے ۔ (۵۱) 

حضرت نے اس اہم چیز کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر خلافت کا معیار روحانی اور جسمانی طاقت ، خلوص نیت ، زہد و پارسائی اور عصمت اور امت کے لیے دلسوزی اور مہربانی ہے تو یہ شرطیں امیر المومنین علی علیہ السلام سے زیادہ کس کے اندر پائی جاتی ہیں ؟ اور اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنی جانشینی کے عہدے پر منصوب کیا تھا اور بار بار اس بات کو مختلف عبارتوں  کے قالب میں ڈھالا تھا اور بیان کیا تھا اور ان کو اس مقام کے لیے سب سے لایق قرار دیا تھا  تو یہی وجہ تھی کہ ان کے خدا نے بھی انہیں سب سے زیادہ لایق قرار دیا تھا ۔ (۵۲)

تاریخ اسلام کی ہمیشہ پیشگام شخصیت ،

حضرت علی علیہ السلام ہر پیشگام سے آگے اور ہر سابق سے پہلے تھے ۔(۵۳) معروف مفسر ابن عباس کہ شیعہ اور سنی دونوں جسے مانتے ہیں کہتا ہے : سابِقُ هذِهِ الْامَّةِ عَلِىُّ بْنُ ابی طالِبٍ   (۵۴) اس امت میں سب سے پہلے علی علیہما السلام ہیں ۔ (۵۵) ایک اور روایت میں وہی کہتے ہیں : یُوشَعُ بْنُ نُونْ سَبَقَ الى  مُوسى ، وَ مُؤْمِنُ آلِ یاسین سَبَقَ الى  عیسى ، وَ عَلِىُّ بْنُ ابی طالِبٍ سَبَقَ الى  مُحَمَّدٍ (۵۶) حضرت موسی کی امت میں یوشع ابن نون پیشگام تھے ، حضرت عیسی علیہ السلام کی امت میں حبیب نجار ، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں علی ابن ابیطالب  علیہما السلام پیشگام ہیں ۔ (۵۷)

اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عقد ازدواج کے مبارک ترین صیغے کو اجرا کرنا چاہتے تھے اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو علی علیہ السلام کے عقد میں دینا چاہتے تھے تو اپنی بیٹی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : زَوَّجْتُکِ باوَّلِ مَنْ آمَنَ بى وَ عَرَفَنى وَ ساعَدَنى  (۵۸) میری بیٹی فاطمہ ؛ میں نے تمہارے لیے ایسے شوہر کا انتخاب کیا ہے کہ جو مجھ پر سب سے پہلے ایمان لایا ، جس نے مجھے پہچانا اور میری مدد کی۔ (۵۹)

جی ہاں ! ان روایات  اور دیگر روایات کے مطابق علی ع مسلمانوں کے پیشگاموں  میں سب سے پیشگام ہیں ۔ تو کیا یہ مناسب ہے کہ علی علیہ السلام کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا شخص پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنے ؟ (۶۰)

عربی زبان کے ایک شیرین کلام شاعر خزیمہ بن ثابت نے کیا خوب کہا ہے ! أَ لَیْسَ اوَّلُ مَنْ صَلَّى بِقِبْلَتِهِمْ وَ اعْلَمُ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ وَ السُّنَنِ ؛ کیا ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علی علیہ السلام نے سب سے پہلے قبلہ کی جانب نماز پڑھی اور وہ مسلمانوں میں قرآن و سنت سے سب سے زیادہ آگاہ ہیں ؟ پس کیوں علی ع کے ہوتے ہوئے دوسروں کے دروازے پر کہ جو خود معترف ہیں کہ علی ان پر فوقیت رکھتے ہیں جاتے ہو ؟ (۶۱)     

اسی کے بارے میں حضرت  فاطمہ زہراء خطبہء فدکیہ میں فرماتی ہیں : ....؛ اوْ نَجَمَ قَرْنٌ لِلشَّیْطانِ،اوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَذَفَ اخاهُ فِی لَهَواتِها...؛ ، جب شیطان کا سینگ نکل رہا تھا اور مشرکین کے فتنے آگ اگلتے تھے تو میرے والد علی علیہ السلام کو ان کا مونہہ بند کرنے کیے بھیجتے تھے اور علی ع کے ذریعے انہیں کچلتے تھے اور وہ ان خطر ناک ماموریتوں سے اسی وقت واپس آتے تھے کہ جب دشمنوں کے سر کو کچل دیتے تھے اور ان کی ناک زمین پر رگڑ دیتے تھے ۔ ۔(۶۲)

رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نے حضرت علی کی پیشگامی اور عظیم خدمات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خطر ناک واقعات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں مقابلے کے لیے بھیجتے تھے اور وہ غیر معمولی ایثار گری اور جانبازی اور مکمل فداکاری کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے فتنوں کے اندر گھس جاتے تھے اور ان کی آگ کو خاموش کرتے تھے اور کامیاب ہو کر واپس آتے تھے اپنی تلوار سے سرکشوں کے سروں کو تن سے جدا کرتے تھے اور شیطانوں کی ناک زمین پر رگڑتے تھے اور ہر جگہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارو یاور اور حامی اور پشت پناہ تھے۔ جی ہاں ایسا ہی شخص  اس عظیم انقلاب کے راستے کو آگے بڑھا سکتا ہے اور اسے انحراف سے روک سکتا ہے ۔ (۶۳)

دین و سیاست کا جوڑ ، فاطمی افکار میں امامت کی حقیقت ،

آئمہء اہل بیت علیہم السلام کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتے تھے اور اس تعبیر کی روشنی میں جو بعض زیارتناموں میں آئی ہے ، وہ ساسۃ العباد ،یعنی خدا کے بندوں کے سیاستمدار تھے ۔ (۶۴)

امام خمینی قدس سرہ کی تعبیر کے مطابق ، اگر کوئی دین کو سیاست سے الگ سمجھے تو اس نے گویا خدا رسول اور آئمہء معصومیں علیہم السلام کو جھٹلایا ہے ۔(۶۵) اسلام وہ دین ہے جو سیاست کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ (۶۶) (۶۷)

اسی طرح علامہء شہید مرتضی مطہری اپنی کتاب «ولاءها و ولایتها»میں کہتے ہیں : ولاء محبت یعنی اہل بیت ع کے ساتھ عشق و علاقہ ، اور ولاء امامت یعنی آئمہء علیھم السلام کو اپنے اعمال، اقوال اور اپنی رفتار کا نمونہ قرار دینا ، اور ولاء زعامت یعنی آئمہ علیھم السلام کا سیاسی اور اجتماعی رہبری کا حق اور (۶۸) ولاء تصرف یا ولاء معنوی کہ جو ولاء کا سب سے بلند مرحلہ ہے (۶۹)

اس طرح حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے امامت کے مفہوم کی حقیقت کو اسلامی معاشرے میں امام کی دینی اور سیاسی مرجعیت کے ساتھ جوڑ کر بیان فرمایا ہے اور ایک طرف احکام و عبادت کے فلسفے کو اجاگر کیا ہے تو دوسری جانب اسلامی شریعت کے سیاسی کارناموں کو گنوایا ہے اور فرمایا ہے : عظیم اسلامی کانفرنس یعنی حج نے اسلامی بنیادوں کو مستحکم کیا ہے اور مختلف فکری ، سیاسی ، ثقافتی اور فوجی میدانوں میں مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ کیا ہے ۔ (۷۰)

 اسی لیے خطبہء فدک میں توحید ، مبداء و معاد اور فلسفہء احکام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے زمانے کی بات کی گئی ہے ،جب کہ دوسرے خطبے یعنی مہاجرین اور انصار کی عورتوں کےلیے خطبے میں آپ کی گفتگو خلافت و امامت اور مسلمانوں کے مفادات کے محور پر گھومتی ہے ۔ (۷۱)

حضرت فاطمہ اور امامت و رہبری کے اجتماعی نظام کی صورت کشی ،

قابل ذکر ہے کہ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو امت کی امامت کے لیے منتخب کر کے دین اسلام کو کامل کیا اور اسلام کے دشمنوں کو نا امید کر دیا ۔(۷۲) ولایت بھی صاحب اختیار سر پرست اور امت کی امامت کے معنی میں ہے اور یہ تمام معنی بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ذات  میں نمایاں ہو گئے ۔(۷۳) 

امامت  کو ، نبوت کی جانشینی کے اعتبار سے ایمان کی حفاظت اور لوگوں کی زندگی کے اجتماعی اور فردی امور کو منظم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور امت کے درمیان  امامت کا وجود ایک لازمی اجتماعی مسئلہ ہے ۔ (۷۴)

ایک سالم اور الہی معاشرے میں امتیازات اور خاص کر پوسٹوں کی تقسیم بندی خدائی اقدار اور معیارات  کے مطابق  ہوتی ہے ، سیاسی جوڑ توڑ ، گروہ بندی ،موقعے کی تلاش میں رہنا قومی اور قبایلی تعصب اور آخر کار (۷۵) بازار سیاست کے پردے کے پیچھے کے سوداگروں کے معاملات ان پوسٹوں کو حاصل کرنے میں کام نہیں آتے ۔ (۷۶)

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا نے مدینے کی عورتوں کے مجمعے کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا : کیوں ؟ اور کس جواز کے تحت آپ کے مردوں نے خلافت کے محور کو اس چیز سے کہ جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صریح بیانات اور روشن کلام میں بیان فرمایا تھا ، منحرف کیا ؟ ۔(۷۷) حقیقت میں خاتون اسلام نے انہیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرائی (۷۸) کہ رہبران الہی کی ایک شرط امت کی دلسوزی اور خیر خواہی ہے ۔ تو کیا علی علیہ السلام سے زیادہ خیر خواہ کوئی اور ان کی نظر میں تھا ؟ وہ شخص  کہ جس کی پوری کوشش بھوکوں کا پیٹ بھرنے اور پیاسوں کی پیاس بجھانے کی تھی ،لوگوں کے دردو رنج سے انہیں رنج پہنچتا تھا اور ان کے غم و اندوہ سے آپ کا دل دکھی ہوتا تھا ۔ (۷۹)

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی روح بزرگ حضرت علی علیہ السلام کی خاطر پریشان نہیں تھی بلکہ آپ امت اسلامی کے لیے پریشان تھیں کہ شورائی خلافت کے ذریعے جس کا مستقبل کس قدر بھیانک منحوس  اور تاریک ہونے والا تھا۔ (۸۰)

وصایت و وراثت ،

 اصل  بحث امامت  کے بارے میں  ہے ، کہ خدا زمین کو کبھی بھی اپنی حجت یعنی پیغمبر یا امام  سے خالی نہیں چھوڑتا چاہے وہ ظاہر اور آشکار ہو یا مخفی اور پنہان ، (۸۱)

اسی لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صریحا علی علیہ السلام کو اپنی وصایت اور جانشینی کے لیے منتخب فرمایا (۸۲) علی  علیہ السلام نے بھی اپنے حسن علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر کیا انہوں نے حسین علیہ السلام کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اسی طرح یہ سلسلہ بارہویں امام تک چلا کہ جو مہدیء منتظر ہیں ۔(۸۳)

یہ مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ خدا کے تمام پیغمبروں نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم تک اس پر عمل کیا اور سب نے اپنے لیے جانشین مقرر کیا ۔ (۸۴) (۸۵)

لیکن افسوسناک یہ ہے کہ سقیفہ میں امر خلافت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیتوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا جب کہ سبھی جانتے تھے کہ پیغمبر ص نے مشہور روایت کے مطابق فرمایا تھا :" إنّی تارک فیکم الثّقلین: کتاب اللّه و عترتی، ما إن تمسّکتم بهما لن تضلّوا بعدی أبدا " ؛ میں دو گرانقدر چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر آپ ان سے متمسک رہو گے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ایک کتاب خدا اور دوسری میرے اہل بیت ،(۸۶) اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نہ ایک بار بلکہ کئی بار مختلف مواقع پر اس چیز کو بیان کیا ۔ (۸۷)

اپنی دعوت کے آشکار کرنے کے پہلے دن سے ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مکرر وصیتیں کہ جو حدیث دار میں منعکس ہوئی ہیں جن میں صاف طور پر علی علیہ السلام کی وصایت اور خلافت کی بات کہی گئی ہے یا جو کچھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی آخری گھڑیوں میں سامنے آیا کہ جو داستان قلم و دوات کے نام سے مشہور ہے کیا وہ کافی نہیں تھا کہ کم سے کم علی علیہ السلام کی خلافت کی بات کی جاتی کہ جو سب سے زیادہ لایق تھے ؟ یقینا انتہائی تعجب کی بات ہے !! لیکن ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ تعجب کی بات نہیں ہے ! اس لیے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور آخری پیغام لکھنے کے لیے کاغذ قلم اور دوات سے روکا جاتا ہے اور یہاں تک کہ آدم علیہ السلام کی ذریت کی پاک ترین فرد یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بد ترین کلمات زبان پر جاری کیے جاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سے ہی خلافت کے لیے منصوبہ بنایا جا چکا تھا کہ جس کی راہ میں کوئی چیز حتی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی تو ایسے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ عہدے کا مسئلہ ہے جو انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور ہر چیز کو طاق نسیاں کے سپرد کر دیتا ہے ۔ (۸۸) (۸۹)

لہٰذا حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے ایک اقتباس میں  فرمایا:" فَقْدِ النَّبِىِّ (صلى الله علیه وآله) وَ ظُلْمِ الْوَصِیِ " رسول اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کے وصی مظلوم ہو گئے (۹۰)

بے شک حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی  مولائے کائینات کے حق میں پر درد فریاد  ان کے وصی و جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کے عنوان سے تھی کہ چند سیاسی کھلاڑیوں نے  امیرالمومنین کے متعلق آیات قرآن اور   رسول اکرم  کی موکد وصیتوں کو بھلا دیا تھا ۔    پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانشینی کی حقیقت مفھوم امامت کو آشکار کرتی ہے۔  (۹۱)

نص و تنصیص

 مسئلہ امامت و ولایت میں شیعوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امامت و خلافت نص کے ساتھ ہے یعنی   بعد از رسول خلیفہ یا امام کا تعین خدا  کی جانب سے ہوتا ہے۔  آیات قرآنی بھی اس نظریے کی تائید کرتی ہیں  اور احادیث مثل حدیث غدیر ، منزلت و ثقلین بھی اس چیز پر گواہ ہیں  اس کے علاوہ  اس مسئلے پر شیعوں کے پاس عقلی دلائل بھی موجود ہیں۔ (۹۲)

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے انصار کی عورتوں کے درمیان اپنے خطاب میں فرمایا: وَ تَا اَللہِ لَو  مَا لو عَنِ المحَجّۃِ  الّائِحۃ ، وَ زَالو عَن قَبولِ الحجۃ الوَا ضِحَۃ ، لَرَدَّھم اِلَیھا ، وَ  حَملَھم  عَلَیھا وَلَسا رَبِھِم سَیرا سجحا ؛ خدا کی قسم  اگر  علی ؑ کو  اس منصب پر کہ جو پیغمبر نے انہیں عطا کیا تھا بٹھا دیتے اور اس واضح حجت خدا کو قبول کرتے تو ہر ایک کو حق کی طرف لے جاتے اور ہر ایک کو اس کا حق مل جاتا  اس طرح کہ کسی کو پریشانی نہ اٹھانی پڑتی اور ہر  کوئی چنے ہوئے میوے کھاتا۔ (۹۳)

اور اس طرح سیدہ زہرا نے ولایت کے منصوص  من اللہ ہونے کی بنیاد پر سقیفہ کی پیدائیش ، خلافت کا انکار کیا اور جیسا کہ حضرت نے پہلے ہی فرما دیا تھا  خلافت آخر کار  سلطنت ظلم و ستم میں تبدیل ہو گئی۔ (۹۴)

امامت علم و عصمت کے پرتو میں

امام علی ؑ کے اہم شرائط میں سے ایک ان کا معصوم ہونا ہے یعنی وہ ہر خطا اور گناہ سے پاک ہیں تاکہ  امت کی ظاھری و باطنی  ، مادی و معنوی امامت کے منصب پر فائز ہو سکیں  اس اہم امر کی تشخیص  خداا ور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر ممکن نہیں ہے وہی ہیں جو جانتے ہیں کہ روح عصمت کس کے اندر جلوہ فگن ہے اور وہی ہیں جو جانتے ہیں کہ مقام امامت کے  لیے  لازمی علمی  نصاب  کا دریا  کس کے اندر موجزن ہے (۹۵)

اس طرح جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا کی طرف سے ہونا لازمی ہے ، دوسرے الفاظ میں اس سلسلے میں نہ  لوگوں کاانتخاب  ، نہ اجماع امت ، اور نہ ہی معمولی افراد  کے انتخاب کی کوئی حیثیت ہے  کیونکہ امام معصوم کے اندر پائے جانے والی خصوصیت کے متعلق  سوائے خدا کے کوئی آشنا نہیں ہوتا ، اور اس میں اہمترین  وہی مقام عصمت  اور علم مخصوص ہے کہ امام ان دو بال و پر کے بغیر  فضای امامت اور رھبری مخلوق کی فضاوں میں پرواز نہیں کر سکتا۔ (۹۶)

سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی زبان سے جو الفاظ مسلمانوں اور خلیفہ کے خلاف احتجاج کے طور پر ظاہر ہوئے ہیں وہ اس طرح ہیں : اِ نّ مَن اَذھَبَ اَ للہ عَنھم الرِّ جسَ وَ طَھَّرَھم تَطھِیرا  لا تَجوز عَلَیھِم شَھادَۃ  لِاَنّھم مَعصومونَ  مِن کلِّ سوء مطَھّرونَ مِن کلِّ فَاحِشَۃ   ؛  وہ کہ خداوند عالم نے رجس و پلیدی کو جن سےدوررکھا ہے اور جو ہر عیب سے پاک ہیں  جائز نہیں ہے کہ ان کے خلاف گواہی کو قبول کرو کیونکہ وہ معصوم ہیں  اور   ہر برائی سے پاکیزہ ہیں اور  ہر عمل قبیح سے مبرہ ہیں ۔ (۹۷)

اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) انصار و مہاجرین کی خواتین کے درمیان علم امام کی طرف اشارہ کرتی ہیں : وَیحَھم اَنّی زِعزَعوھا عَن رَواسی  الرِّسالَۃ وَ قَواعِدِ النّبوّۃ وَ الدَّلالَۃ ، وَ مَھبِطِ الرّوح الاَمین  وَ المطَّلعین بِامورِ الدّنیا و الدّین ؛ وای ہو ان پر کس طرح انہوں نے خلافت کو رسالت کے محکم پہاڑوں ،  مقام نزول  امین وحی ، اور عالم امور دنیا و دین سے دور رکھا؟ (۹۸)

حرف آخر : ( امامت محوری ؛  حضرت فاطمۃ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کا راز )

آخر میں  یہ بات کہنا بجا ہےکہ سیدہ زہرا کی مظلومانہ شہادت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے  کہ اہل بیت اطہار کو ہر عنوان سے حکومت و خلافت اسلامی سے دور رکھنے کی سازشیں کی جا رہی تھیں ۔  (۹۹)

لیکن  احیا ئےامامت و مظلومیت علی ؑ کو اجاگر کرنے کے لئے سیدہ زہرا کی بے بدل کوششیں  امت اسلامی کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئیں (۱۰۰)

خدایا: ہمیں رسول کی اس با عظمت بیٹی اور ان کے شوہراور بیٹوں کی محبت پر زندہ رکھ ، اور ان کی محبت کے ساتھ محشور فرما (۱۰۱)

بار الٰھا: ہمیں ان کے مکتب کی پیروی اور ان کے نور سے ہدایت حاصل  کرنے اور ان کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ (۱۰۲)

حوالہ جات:

·         ۱۔ سورہ مائدہ : آیہ ۶۷

·         ۲۔ پیام قرآن ؛ ج۱ ص ۱۴۰

·         ۳۔ اخلاق درقرآن ؛ ج۳؛ ص ۸۷

·         ۴۔ ربا و بانکداری اسلامی ؛ ص ۳۰

·         ۵۔ اخلاق اسلامی در نھج البلاغہ  (خطبہ متقین) ج۲؛  ص۳۴۵

·         ۶۔ اعتقاد ما ؛  ص ۸۸

·         ۷۔ ترجمہ گویا و شرح فشردہ ای بر نھج البلاغہ ؛ متن و ترجمہ ؛ ج۱؛ ص ۳۹۰

·         ۸۔  زھرا (س) برترین بانوی جھان ؛ ص۲۱۳

·         ۹۔ گذشتہ ؛ ص۲۱۴

·         ۱۰۔ پیام قرآن ؛ ج۹؛ ص۱۹

·         ۱۱۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان؛ ص ۲۳۷

·         ۱۲۔ قہرمان توحید ،  شرح و تفسیر آیات مربوط بہ حضرت ابراھیم ؑ ، ص۱۹۴

·         ۱۳۔ گذشتہ

·         ۱۴۔ پیام قرآن ، ج۹ ، ص۲۱

·         ۱۵۔ قہرمان توحید ، شرح و تفسیر آیات مربوط بہ حضرت ابراھیم ؑ ، ص۱۹۴

·         ۱۶۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان ، ص۲۳۸

·         ۱۷۔ گذشتہ ، ص۲۳۸

·         ۱۸۔ پیام قرآن ؛ ج۹، ص۲۱

·         ۱۹۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان ؛ ص۲۳۸

·         ۲۰۔ پیام قرآن ؛ ج۹ ، ص۱۸

·         ۲۱۔ پیام امام امیر المومنین ؑ ؛ ج۱، ص ۳۳۴

·         ۲۲۔ گذشتہ  ؛ ج۱۴، ص ۱۰۳

·         ۲۳۔ پیام قرآن ؛ ج۷، ص۲۴۷

·         ۲۴۔ آیات ولایت در قرآن ؛ ص ۵۷

·         ۲۵۔ امامت و رھبری ؛ ص۱۳

·         ۲۶۔ پیام قرآن ؛ ج۹، ص۱۹

·         ۲۷۔ گذشتہ ؛ ص۲۸

·         ۲۸۔ گذشتہ

·         ۲۹۔ سورہ بقرہ؛ آیہ ۱۲۴

·         ۳۰۔ پیام قرآن ؛ ج۹ ، ص۲۹

·         ۳۱۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان؛ ص۲۴۹

·         ۳۲۔ گذشتہ  ؛ ص۲۵۰

·         ۳۳۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص۲۱۳

·         ۳۴۔ گذشتہ : ص۱۴۹

·         ۳۵۔ گذشتہ  : ص۲۱۳

·         ۳۶۔ گذشتہ

·         ۳۷۔ گذشتہ

·         ۳۸۔ گذشتہ : ص۱۵۴

·         ۳۹۔ گذشتہ : ص۱۴۲

·         ۴۰۔ گذشتہ

·         ۴۱۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان؛ ص۲۳۷

·         ۴۲۔ کیونکہ پیغمبر (ص) کے جانشین کا معصوم ہونا لازمی ہے اور عصمت  کی تشخیص ذات خدا کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا بس خداوند متعال  ایک شخصیت معصوم کو خلیفہ کے عنوان سے متعارف کروائے گا۔

·         ۴۳۔ آیات ولایت در قرآن ؛ ص۴۴۴

·         ۴۴۔ گذشتہ ؛ ص۴۰۲

·         ۴۵۔ گذشتہ  ؛ص۲۸۱

·         ۴۶۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان ، ص۱۹۴

·         ۴۷۔ گذشتہ ؛ ص۵۰

·         ۴۸۔ گذشتہ  ؛ ص۱۷۹

·         ۴۹۔ گذشتہ  ؛ ص۱۹۳

·         ۵۰۔ بحار الانوار ؛ ج ۵۰ ، ص۳۱۱

·         ۵۱۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان ، ص۱۹۴

·         ۵۲۔ گذشتہ ؛ ص۲۲۸

·         ۵۳۔ آیات ولایت در قرآن ؛ ص۳۹۰

·         ۵۴۔ احقاق الحق؛ ج۳۔ ص۱۱۴

·         ۵۵۔ آیات ولایت در قرآن ؛ ص۳۹۰

·         ۵۶۔ احقاق الحق ؛ ج۳۔ ص۱۱۵

·         ۵۷۔ آیات ولایت در قرآن ؛ ص۳۹۱

·         ۵۸۔ روضۃ الاحباب : ج۳۔ ص۱۰ ( بہ نقل از احقاق الحق: ج۳۔ ص۱۱۷)

·         ۵۹۔ آیات ولایت در قرآن : ص۳۹۱

·         ۶۰۔ گذشتہ

·         ۶۱۔ گذشتہ

·         ۶۲۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص۱۷۶

·         ۶۳۔ گذشتہ : ص۱۷۹

·         ۶۴۔ دائرۃ المعارف فقہ  مقارن : ج۱۔ ص۵۳۱

·         ۶۵۔ صحیفہ نور: ج۲۰۔ ص۲۸۔۲۹

·         ۶۶۔ گذشتہ  : ج۹۔ ص۱۳۶

·         ۶۷۔ دائرۃ المعارف فقہ مقارن : ج۱۔ ص۵۵۱

·         ۶۸۔ اخلاق در قرآن : ج۱۔ ص۳۹۳

·         ۶۹۔ گذشتہ  : ص۳۹۴

·         ۷۰۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص۱۷۰

·         ۷۱۔ گذشتہ : ص۲۱ٍ۳

·         ۷۲۔ کلیات مفاتیح نوین : ص۸۸۷

·         ۷۳۔ آیات ولایت در قرآن : ص۱۰۰

·         ۷۴۔ دائرۃ المعارف فقہ مقارن : ج۱۔ ص۵۳۷

·         ۷۵۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص ۲۲۵

·         ۷۶۔ گذشتہ : ص ۲۲۶

·         ۷۷۔ گذشتہ

·         ۷۸۔ گذشتہ

·         ۷۹۔ گذشتہ : ص ۲۲۷

·         ۸۰۔ گذشتہ : ص ۲۱۲

·         ۸۱۔ آیین ما ( اصل الشیعہ) : ص ۱۵۷

·         ۸۲۔ مجمع الزوائد؛ ج۸۔ ص۲۵۳ و ۶۶۵۹۔ ج۱۔ ص۱۱۳، تاریخ دمشق ؛ ج۳۔ ص۵، الریاض النضرۃ : ج۲۔ ص۱۷۸، کنز العمال : ح۱۱۹۲

·         ۸۳۔ آیین ما ( اصل الشیعۃ) : ص ۱۵۷

·         ۸۴۔ اثبات الوصیۃ :ص ۵۔۷۰ ، تاریخ یعقوبی : ج۱۔ ص۴۶ و ۳۴۳

·         ۸۵۔ آیین ما (اصل الشیعۃ) : ص ۱۵۷

·         ۸۶۔  اس حدیث کو ۲۳ صحابہ کرام نے بلا واسطہ رسول اکرم سے نقل کیا ہے ۔ بیشتر اطلاعات کے لئے۔ ر۔ک: پیام قرآن : ج۹۔ ص ۶۲ تا ۷۹ ۔ خلاصہ عبقات الانوار : ص۱۰۵ تا ۲۴۲۔ احقاق الحق: ج۴۔ ص۴۳۸ اور سیرہ حلبی ، مستدرک حاکم ، صواعق ، اسد الغابہ اور سنن بیھقی۔

·         ۸۷۔ پیام امیر المومنین ؑ : ج۳۔ ص ۱۲۱

·         ۸۸۔  قلم و دوات والی داستان میں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ) نے جناب عمر کے آخری  لحظات میں کہا تھا کہ لایا جائے  اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جانشین قطعی حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق فرمان لکھ دیں اور جو کچھ پہلے کہا تھا اس کی تائید کریں ، ایک شخص (خلیفہ دوم ) کی مخالفت اس بات کا سبب بنی کہ  بقیہ لوگوں نے بھی مخالفت میں آواز بلند کی  اور  پیغمبر کے بالمقابل کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ سرکار دو عالم کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے کہ جس کی تشریح  صحیح بخاری اور بقیہ کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہے  ( ر۔ک: صحیح مسلم : ج۳، کتاب الوصیۃ : باب ۵۔ ص ۱۲۵۹) ( پیام امیر المومنین ؑ : ج۱۳۔ ص ۶۵۴)

·         ۸۹۔ پیام امیر المومنین ؑ : ج۳۔ ص ۱۲۲

·         ۹۰۔  زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص۴۹

·         ۹۱۔ گذشتہ : ص۱۴۱

·         ۹۲۔ ر۔ک : پیام قرآن : ج۹

·         ۹۳۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص ۲۲۳

·         ۹۴۔ عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ، رویدادھا ، پیامدھا : ص۲۰۰

·         ۹۵۔ پنجاہ درس اصول عقائد برای جوانان : ص۲۵۹

·         ۹۶۔  پیام قرآن : ج۹۔ ص۱۵۲

·         ۹۷۔ زھرا (س) برترین بانوی جھان : ص۱۲۶

·         ۹۸۔ گذشتہ  : ص ۲۲۴

·         ۹۹۔ گذشتہ : ص ۱۳۵

·         ۱۰۰۔ گذشتہ: ص ۲۱۲

·         ۱۰۱۔ گذشتہ : ص ۱۰۶

·         ۱۰۲۔ گذشتہ۔

          

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی