سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

عید نوروز کے بارے میں استاد احمد اسدی کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کی وصیت کے تناظر میں مکالمہ

 اردو مقالات مذھبی نوروز

عید نوروز کے  بارے میں استاد احمد اسدی کے ساتھ   امام جعفر صادق علیہ السلام کی وصیت کے تناظر میں مکالمہ

عید نوروز کے  بارے میں استاد احمد اسدی کے ساتھ   امام جعفر صادق علیہ السلام کی وصیت کے تناظر میں مکالمہ

نیوزنور:نوروز کے سلسلے میں کچھ لوگ افراطی اور کچھ تفریطی ہیں جو دونوں غلط ہیں بعض نوروز کے خلاف ہیں اور بعض اس رسم کو آسمانی ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ دونوں کجروی کا شکار ہیں ۔لوگوں کے درمیان غلط رسمیں  بہت زیادہ ہیں لیکن صحیح اور منطقی رسمیں بھی ہیں ہمیں چاہیے کہ مثبت پہلووں کو اجاگر کریں اور ان کی تشویق کریں جب کہ ان کے مقابلے میں منفی پہلووں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے"نیوزنور" کے مطابق  حوزہ علمیہ قم کے خبررساں ادارے"حوزہ"نےممتاز عالم دین حجت الاسلام و المسلمین  میرزا احمد اسدی کے ساتھ ایک گفتگو میں نوروز کے بارے میں کچھ سوالات کئے اور موصوف نے دعائے تحویل سال کے کچھ اقتباسات کی تشریح کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس سال کا نوروز گذشتہ سال کی طرح گلستان نبوت کے نورستہ پھول کے  ایام سوگواری کے ساتھ آیا ہے آپ اس تقارن کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔گفتگو کے آغاز میں ایام فاطمیہ کی آمد کے موقعے پر امام زمانہ(عج) ان کے نائب بر حق حضرت آیت اللہ العظمی  امام خامنہ ای اور ان کے سچے شیعوں کی خدمت میں تعزیت عرض کرتا ہوں ۔

نوروز کے پہلے اور دوسرے ایام فاطمیہ کے ساتھ تقارن  کو ہم نیک شگون قرار دیتے ہیں کہ روایات کی تعبیر کے مطابق ، یہ تقارن اور ہمآہنگی خدا کی ایک رحمت خاصہ ہے «إِنَّ لِلَّهِ فِی أَیَّامِ دَهْرِکُمْ نَفَحَاتٍ أَلَا فَتَرَصَّدُوا لَهَا؛ خدا وند متعال کی طرف سے تمہارے زمانے میں کچھ رحمتوں کے مواقع ہیں کوشش کیجیے کہ اپنے آپ کو اس رحمت الہی میں شامل کیجیے (۱)

تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد خدا کی یہ نسیم رحمت ہم پر چلتی ہے ۔ کبھی زمان و مکان کے حالات موقع فراہم کرتے ہیں کہ انسان حق کی جانب ایک قدم  بڑھائے ۔ یہ رحمت کی ہوائیں بہت غنیمت ہیں اور توفیقات کا سبب بنتی ہیں کہ انسان سیر الی اللہ کی جانب ایک قدم یا ایک منزل آگے بڑھ جائے اور اونچے مراتب تک پہونچے۔

یہ تقارن ممکن ہے اسی نوعیت کا ہو۔ یہی کہ ان ایام میں فاطمہ زہراء ص کا تذکرہ ہے  یہ خود توفیق کا ایک باب ہے  ہم جس قدر بھی اس باب کے نزدیک ہونگے  اتنا ہی ہم باب معرفت کے نزدیک ہوں گے ، اور جس قدر اس سے دور ہوں گے اتنا ہی ہم سعادت و معرفت سے محروم ہو جائیں گے۔

یہ جو کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں فرمایا ہے ؛ أَنَا مَدِینَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْیَأْتِ مِنَ الْبَاب (۲)یہ صرف حضرت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور دوسرے آئمہ اطہار علیہم السلام بھی اسی طرح کے ہیں ۔

آیا اس تقارن اور ایک ساتھ آنے کو ایک فرصت کہا جا سکتا ہے ؟

ہاں ، سو فیصد ،مبادا کچھ لوگ ان ایام میں لہو و لعب اور غفلت میں بسر کریں جو ان کے لیے نقصان کا باعث ہو گا ۔

حافظ کا ایک شعر ہے کہ جو ان ایام میں ہم سب کے لیے زبان حال ہے اور ہمیں فاطمیہ کو غنیمت سمجھنا چاہیے؛ حافظ از دست مدہ دولت این کشتی نوح۔۔ورنہ طوفان حوادث ببرد بنیادت ،حافظ اس کشتیء نوح کی دولت کو ہاتھ سے مت جانے دو ورنہ حوادث کا طوفان تمہیں جڑ سے اکھاڑ دے گا ۔

بہت ساری باتیں یا حدیثیں نوروز کی تائید یا اس کی رد کے سلسلے میں آئمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے پیش کی گئی ہیں ۔ کیا اس سلسلے میں کوئی روایت پائی جاتی ہے ؟

کسی بھی معصوم نے اس موضوع کو رد نہیں کیا ہے ۔اور مرحوم شیخ عباس قمی نے عید نوروز کے اعمال اور وظائف کے سلسلے میں ایک باب مخصوص کیا ہے جس میں آیا ہے :حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے معلی بن خنیس کو کہ جو ان کے خاص اصحاب میں سے تھے اور باب فقہ میں ان سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ، تعلیم دی کہ جب نوروز کا دن آ ئے  تو غسل کرو  اپنے سب سے پاکیزہ کپڑے پہنو ،اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطر کرو  اور اس دن روزہ رکھو ، اور جب نماز ظہر ، عصر اور اس کے نوافل سے فارغ ہو جاو تو اس ترکیب کے ساتھ چار رکعت نماز پڑھو، کہ پہلی رکعت میں حمدکے بعد دس مرتبہ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ پڑھو اور دوسری رکعت میں حمدکے بعد دس مرتبہ ، قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُونَ، تیسریرکعت میں حمدکے بعد دس مرتبہ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌاور چوتھی رکعت میں حمدکے بعد دس مرتبہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِاور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِپڑھے اور نماز کے بعد سجدہء شکر میں جائےاور یہ دعا پڑھے ،؛اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْأَوْصِیَاءِ الْمَرْضِیِّینَ وَ عَلَى جَمِیعِ أَنْبِیَائِکَ وَ رُسُلِکَ بِأَفْضَلِ صَلَوَاتِکَ وَ بَارِکْ عَلَیْهِمْ بِأَفْضَلِ بَرَکَاتِکَ وَ صَلِّ عَلَى أَرْوَاحِهِمْ وَ أَجْسَادِهِمْ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ لَنَا فِی یَوْمِنَا هَذَا الَّذِی فَضَّلْتَهُ وَ کَرَّمْتَهُ وَ شَرَّفْتَهُ وَ عَظَّمْتَ خَطَرَهُ اللَّهُمَّ بَارِکْ لِی فِیمَا أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَیَّ حَتَّى لا أَشْکُرَ أَحَدا غَیْرَکَ وَ وَسِّعْ عَلَیَّ فِی رِزْقِی یَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ اللَّهُمَّ مَا غَابَ عَنِّی فَلا یَغِیبَنَّ عَنِّی عَوْنُکَ وَ حِفْظُکَ وَ مَا فَقَدْتُ مِنْ شَیْ‏ءٍ فَلا تُفْقِدْنِی عَوْنَکَ عَلَیْهِ حَتَّى لا أَتَکَلَّفَ مَا لا أَحْتَاجُ إِلَیْهِ یَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ۔

 پس نوروز کی آئمہ معصومین نے تائید کی ہے؟

جی ہاں ! تائید کی ہے اور اس کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے ۔

تحویل سال کی مشہور دعا کیا ہے ؟ کیا وہ بھی مستند ہے ؟

غیر مشہور کتابوں میں آیا ہے کہ تحویل سال کے وقت یہ دعا بہت زیادہ پڑھے؛ «یَا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَ الْأَحْوَالِ حَوِّلْ حَالَنَا إِلَى أَحْسَنِ الْحَالِ ،اور ایک اور روایت میں ہے ، یَا مقلب‌القلوب وَ الْأَبْصَارِ یَا مُدَبِّرَ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ یَا مُحَوِّلَ».؛ بعض اقوال میں آیا ہے کہ اس دعا کو ۳۳۶ مرتبہ پڑھے ۔ اس دعا کے باب میں بعض نے کہا ہے ؛ جب ایسا کرو گے تو تمہارے ۵۰ سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اس روز بہت زیادہ پڑھو؛ "یَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ".

جو کچھ آپ نے پڑھا یہ "زاد المعاد"میں مرحوم مجلسی کی عبارت ہے ۔ اس روز کے عظیم ہونے میں اتنا ہی کافی ہے کہ دعاووں کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے اور نوروز کی عظمت اور اس کے افتخار میں یہی کافی ہے کہ نوروز کے آداب و اعمال کو مرحوم مجلسی نے اپنے قلم مبارک سے لکھا ہے ۔

آیا فقہی اعتبار سے  تحویل سال کی دعا کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟

فقہ و اصول میں ایک باب ہے جس کا عنوان ہے ،تسامح در ادلہء سنن، فقہاء بہت پہلے سے اس سے سرو کار رکھتے رہے ہیں اور ان کی سند بھی مشہور روایات ہیں ؛«مَنْ بَلَغَهُ عَنِ النَّبِیِّ ص شَیْ‏ءٌ فِیهِ الثَّوَابُ فَفَعَلَ ذَلِکَ طَلَبَ قَوْلِ النَّبِیِّ ص کَانَ لَهُ ذَلِکَ الثَّوَابُ وَ إِنْ کَانَ النَّبِیُّ ص لَمْ یَقُلْه (۳)

 روایات سے مراد یہ ہے کہ روایات میں کچھ آداب اور برنامے ایسے ہیں کہ جو واجبات میں شمار نہیں ہوتے اگر تم تک کوئی ایسی روایت پہونچے جو کسی سنت کی پابندی کا دستور دے  تو اس کو انجام دو چاہے پیغمبر اور اہل بیت علیہم السلام نے نہ کہا ہو ۔

 اگر کسی فرد سے کہیں کہ فلاں نیک عمل خدا وند متعال کے نزدیک فضیلت اور ثواب رکھتا ہے  اور وہ بھی اس کو اس فضیلت کے حصول کی خاطر انجام دے تو ذات اقدس الہی وہ ثواب اس کو دے گی چاہے حقیقت میں وہ امر ایسا نہ ہو ۔

اس بنا پر اس روایت اور فقہاء کے اقوال کے اعتبار سے جو دعائیں تحویل سال کے وقت پڑھی جاتی ہیں چاہے وہ معتبر سند نہ بھی رکھتی ہوں تب بھی وہ تائید شدہ ہیں ۔خود معصومین علیہم السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ان مسائل میں سند کے پیچھے نہ جائیں اور اگر سند ضعیف بھی ہو تب آپ عمل کریں آپ کو ثواب دیا جائے گا ۔

کیا قدیم علماء اس نوروز اور اس کے اعمال پر اعتقاد رکھتے تھے؟

مرحوم آقا میرزا ابو الفضل زاھدی قمی حوزویوں اور افاضل کے نزدیک مشہور ہیں اور امام راحل اور دوسرے مراجع بھی ان کو کافی اہمیت دیتے تھے ۔ مرحوم آقائے زاھدی پابندی کے ساتھ تحویل سال کے موقعے پر سال کے دنوں کے عدد کے برابر اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔

بعض نے روایت کی ہے کہ دعائے یا مقلب القلوب کے علاوہ اس دعا کو بھی نوروز کے دن سال کے دنوں کے برابر پڑھیں ؛«اللَّهُمَّ هَذِهِ سَنَةٌ جَدِیدَةٌ وَ أَنْتَ مَلِکٌ قَدِیمٌ أَسْأَلُکَ خَیْرَهَا وَ خَیْرَ مَا فِیهَا وَ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا فِیهَا وَ أَسْتَکْفِیکَ مَؤُنَتَهَا وَ شُغْلَهَا یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ (۴)

 ہم کس طرح سے اپنی عید کو اہل بیت والی عید بنا سکتے ہیں ؟

دعائیں جن کو ہم نے ذکر کیا ہے ان کے ذریعے عید نوروز اور خاندان عترت کے درمیان رابطہ برقرار کیا جا سکتا ہے ، اس طرح عید نوروز مقدس اور مبارک ہو جائے گی جیسا کہ ذکر ہوا ہے؛ "بارک لنا فی یومنا هذا"؛ہمارے لیے مبارک بنا دے  "الذی فضلته"، اس دن کو جسے تو نے فضیلت دی ہے ،"کرمته" بزرگی دی ہے ،"شرفته" شرافت دی ہے ۔

ہماری سوچ عید نوروز کے بارے میں کیسی ہونی چاہیے؟

نوروز کے سلسلے میں کچھ لوگ افراطی اور کچھ تفریطی ہیں جو دونوں غلط ہیں بعض نوروز کے خلاف ہیں اور بعض اس رسم کو آسمانی ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ دونوں کجروی کا شکار ہیں ۔لوگوں کے درمیان غلط رسمیں  بہت زیادہ ہیں لیکن صحیح اور منطقی رسمیں بھی ہیں ہمیں چاہیے کہ مثبت پہلووں کو اجاگر کریں اور ان کی تشویق کریں جب کہ ان کے مقابلے میں منفی پہلووں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں ۔

انہی دعاوں سے کہ جنہیں مرحوم مجلسی نے نوروز کے باب میں نقل کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس دن کو احترام کی نگاہ سے دیکھیں لیکن ہمیں یاد رہے کہ ہم مسلمان اور آئمہ ع کے معتقد ہیں ۔ پس جس  طرح مسائل پر ہماری نگاہ ایمانی ہے اسی طرح نوروز کو بھی ہمیں ایمان کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

احسن الحال کا کیا مطلب ہے؟

اس دعا میں بہت سارے درس پائے جاتے ہیں ۔تحویل سال کی دعاکے ایک اقتباس میں لکھا ہے : «یَا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَ الْأَحْوَالِ حَوِّلْ حَالَنَا إِلَى أَحْسَنِ الْحَالِ».،؛ہم اپنے خدا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بہترین حال کی جانب پلٹا دے۔

یہ بہترین حالت  کیسی   حالت ہے؟

وہی حالت ہے کہ جس کے بارے میں امیر المومنین ع فرماتے ہیں :جس دن  بھی آپ گناہ نہ کریں   وہ آپ کے لیے عید ہے۔پس آپ کے بقول احسن الحال وہ حالت ہے کہ جو گناہ نہ کرنے کے وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔

فقہاء کی نظر میں سب سے اچھی حالت کیسی حالت ہے ؟

اگر کسی فقیہ سے پوچھیں کہ محول الحال کیا ہے؟تو وہ اپنی فقاہت کے تقاضے کے مطابق کہے گا انسان کے لیے سب سے اچھی حالت یہ ہے کہ اس کے تمام افعال شریعت کے دستور کے مطابق ہوں اس لیے کہ فقہ کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا ہر فعل وعمل حکم کے تحت ہو۔

فقیہ کہتا ہے ؛ اس دنیا میں جب آپ مکلف ہوتے ہیں تو جو حرکت اور کام بھی آپ کریں ، چھوٹا ہو یا بڑا، انفرادی ہو یا اجتماعی ،ظاہری ہو یا باطنی، یہ سب حکم کے تحت ہیں لھذا ایک فقیہ کی نظر میں احسن الحال یعنی انسان اس مرتبے تک پہونچ جائے کہ اس کے تمام اعمال حکم الہی کے مطابق ہوں ۔

علمائے کلام احسن الحال کے کیا معنی کرتے ہیں ؟

ان افراد کی نظر میں احسن الحال ، علم کلام کے مطابق ہے علم کلام مبداء معاد اور صحیح اعتقادات سے متعلق علم ہے ۔

لھذا متکلم کی نظر میں احسن الحال یہ ہے کہ ہم اپنے اعتقادات کو کامل کریں اور تقلید کے بغیر ہم نے ان اعتقادات کو سیکھا ہو ۔

ایک فلسفی کے نزدیک احسن الحال کا کیا مطلب ہے؟

فلاسفہ اس بارے میں کہیں گے ۔ ہم انسان کو تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات سے ممتاز سمجھتے ہیں اور تمام موجودات میں انسان کا امتیاز یہ ہے کہ علمی اور عملی طاقت میں وہ سب سے آگے ہو ۔

اس فکر کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کو عملی اور نظری دو طاقتوں میں تمام موجودات سے ممتاز سمجھتا ہے ،دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کامل وہ ہے کہ جو حکمت عملی اور نظری میں کمال تک پہونچا ہو۔

 اہل معرفت کی نظر میں احسن الحال کیا ہے ؟

اگر کسی عارف سے کہیں کہ احسن الحال کا ؛«یَا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَ الْأَحْوَالِ حَوِّلْ حَالَنَا إِلَى أَحْسَنِ الْحَالِ»،آپ کے نزدیک کیا مطلب ہے؟ وہ کہے گا :احسن الحال کا مطلب خدائی ہونا ہے ، یعنی انسان کا تمام وجود خدائی ہو اس کا ظاہر باطن اور اس کا کردار اور اس کی گفتار ،خدائی ہو ۔

حالت کی تبدیلی کے لیے خداوند سے فریاد کیا صرف تحویل سال کی دعاووں میں ہے ؟

 نہیں ؛ماہ مبارک رمضان کی دعاوں میں کہ جو ہر روز پڑھی جاتی ہیں بھی احسن الحال کی تعبیر موجود ہے ؛ «اللهم غیر سوء حالنا بحسن حالک؛خدایا ہماری بد حالی کو اپنی اچھی حالت میں بدل دے ۔

پہلے تو یہ بات معلوم ہو جائے کہ خدا بھی خوشحال ہو سکتا ہے ۔ یہ ،ب اگر قسم کے لیے ہو تو اس کا ایک مطلب ہے ،اگر سببیت کے لیے ہو تو دوسرا مطلب ہے اور اگر تشبیہ کے لیے ہو تو الگ مطلب ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ،ب، الی کے معنی میں ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے حسن حال کے نزدیک ہو جائیں ۔ استاد آیۃ اللہ حسن زادہء آملی اشارات کی شرح میں ،بہجت اور سعادت کے نمط میں جو اشارات شیخ کے غنی اور دل نشین نمطوں میں سے ہے ،فرماتے تھے: یہ جو "غیر سوء حالنا بحسن حالک"ہے یہ اسی وجہ سے ہے ،اور ابن سیناء وہاں پر کہتے ہیں ، خداوند تبارک و تعالی "اجل مبتهج"،ہے (۵)

آپ نے احسن الحال کو مختلف اصناف کے نقطہء نظر سے بیان کیا ، حسن اختتام کے طور پر احسن الحال کے بارے میں اپنا نظریہ بھی بتا دیں ۔

حضرت حق بہجت ،سرور اور خوشحالی میں سب سے بڑھ کر ہے البتہ حق کا حال ہمارے حال سے الگ ہے ،ہمارے حال کا حساب الگ ہے اور حال حق تعالی کی تفسیر جداگانہ ہے دعاوں کے بہت سارے اسرار اور معارف کہ جنکے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے اور لازم ہے کہ ان پر توجہ دی جائے۔

حول حالنا عجیب عبارت ہے یہ تحول ہمارے دینی فرہنگ میں بہت اہمیت کا حامل ہے ، خلقت کی بنیاد تحرک کے ساتھ ہے اور خلیفۃ اللہ ہونا احسن الحال کی دوسری تعبیر ہے جس کا مطلب تغییر اور تحول ہے ۔

دوسرے لفظوں میں احسن الحال کا مطلب ہے کہ انسان اسماء اور صفات  میں حضرت حق کا مظہر ہو اگر آئمہ علیہم السلام خدا نمائی کی چوٹی کی بلندی پر ہیں تو ان کے شیعوں کو بھی تا حد ممکن ان کے مشابہ ہونا چاہیے۔

(۱)۔بحار الانوار (ط۔ بیروت) جلد۷۴ صفحہ۱۶۶

(۲)۔اعلام الوری باعلام الھدی صفحہ ۱۵۹

(۳)۔المحاسن، جلد ۱ صفحہ ۲۵

(۴)۔زاد المعاد ؛ صفحہ۳۲۸

(۵)۔الاشارات و التنبیھات، صفحہ ۱۴۱                                                                                                                                               ا 

برچسب ها نوروز

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی