سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ولایت فقیه اور اسلامی اتحاد

 اردو مقالات کتابخانہ ولایت فقیه یا دینی حاکمیت انقلاب اسلامی ایران

ولایت فقیه اور اسلامی اتحاد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ولایت فقیه اور اسلامی اتحاد

ازقلم:ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

ولایت فقیہ اور اسلامی اتحاد جسم میں عصبی نظام(Nerve system) کے مانند جسم کی سالمیت کے لئے لازمی ہے ۔ ولایت فقیہ یعنی اسلام کا گہرا مطالعہ رکھنے والے ماہر و ممتاز استاد کی قیادت میں چلنے والی جمہوری حکومت ہے۔جسے مردم سالاری دینی یعنی دینی جمہوری حاکمیت یا غیر سکولر نظام بھی کہتے ہیں۔ چونکہ ہم دین مبین اسلام کے پیرو ہیں اور مسلمان کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ انسان پر انسان حکومت نہیں کرسکتا بلکہ یہ حق انسان کے خالق اور رازق کا ہے۔ اسلئے انبیاء الہی علیہم السلام آئے انسان کو اپنے خالق کی حاکمیت میں زندگی بسر کرنے کا طریقہ سیکھاتے رہے تاکہ انسان کہ جس کے لئے خدا نے فرمایا: تو خدا کا جانشین ہے۔(سورہ بقرہ آیت30) جوکچھ زمین و آسمان میں ہے وہ تیرے لئے ہے۔(سورہ لقمان آیت20)تو الہی امانات کا امین ہے۔(سورہ احزاب آیت 72)تیرے اندر خدا کا روح ہے۔(سورہ حجر آیت 29)خلقت میں تو سب بہترین مخلوق ہے۔(مؤمنون آیت 14 تین آیت 4) ہم نے تمہارا اکرام کیا ہے۔(اسراء آیت 70)ہم نے تمہیں فضیلت دی ہے۔(اسراء آیت 70) اور عام اصطلاح میں اسے انسان کامل کہتے ہیں ۔جس کی مکمل تصویر ختم مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اور آنحضرت کی شریعت جملہ انبیاء الہی کی شریعت اور آخری الہی دین اسلام ہے ۔
   
خدا نے جس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرنبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعہ شریعت اسلام کی تکمیل فرمائی اسی طرح شریعت کی حفاظت کیلئے بارہ اماموں کا تعین فرماتے ہوئے آنحضرت کے اوصیاء شاہ ولایت حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام سے لے کر بارہویں وصی امام آخرالزمان حضر ت حجت ابن الحسن امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تک مشعل راہ امت کے سامنے رکھی ہے۔

    نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے انہوں نے نہ صرف تمام ادیان الہی کی تکمیل فرمائی بلکہ امت واحدہ اور اتحاد کا فلسفہ متعارف کیا اور انسانوں کو گمراہی کا راستہ چھوڑ نے اور ترقی و خوشحالی کا راستہ اپنانے کی ہدایت فرمائی ۔انسان کو انسانی اقدار کے مراتب بیان فرمائے اور انسان کو اپنی حقیقت سے باخبر کیا۔ثابت ہوچکاہے کہ جب انسان اپنی شناخت کھو دیتا ہے تو وہ حیوان بن جاتا ہے ۔ بلکہ حیوانوں سے بھی پس تر۔ جبکہ انسان کا مقام انتہائی عظیم ہے۔اس عظمت کی حفاظت کیلئے رب العالمین نے اصول و ضوابط بیان فرمائے از جملہ سورہ انفال کی آیت 46 میں فرمایا ہے کہ :خدا اور اسکے رسول (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور آپس میں ایسی لڑائی نہیں کرو کہ جس سے کمزور ہو جاوگے اور تمہارا وجود ہی لڑ کھڑا جائے ،حوصلے سے کام لو، خدا حوصلہ رکھنے والوں کے ساتھ ہے۔" وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ" یعنی خدا اور خدا کی اطاعت کا طریقہ بتانے والے کی اطاعت کرنے کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ساتھ ہی صبر و حوصلے کی سفارش کی گئی ہے۔یعنی صرف زمہ داری نبھانا ہے نتیجے کا انتظار نہیں کرنا ہے کیونکہ نتیجہ خدا کے اختیار میں ہے جسکو سمجھنے کیلئے صبر و حوصلے کی ضرورت پڑتی ہے۔

    آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ آپ کے بعد آپ کے اوصیاء ائمہ ھدی علیہم السلام اسی اصول کی پیروی اور حفاظت کرتے آئے ہیں اور ہر ایک نے فرمایا میں جو کچھ بھی کہتا ہوں وہ رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے۔ اور ائمہ ھدی علیہم السلام کے اقوال کو نقل کرنے والے روات کہلائے اور جو پیغمبر آخرالزمان کے آخری وصی امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام زمان کی توقیع کے اصول پر کھرے اترنے والے علمای ربانی علم کی چوٹی پر فائز ہوتے ہیں روات حدیث کہلاتے ہیں جو کہ انسانوں کو شریعت محمدی کے ساتھ جوڑے رکھنے کا اسلامی طریقہ کار بیان کرتے ہیں اور مجتہد جامع الشرائط یا مرجع تقلید یا نائب امام کے موسوم ہیں اور جو نائب امام اسلامی طریقہ کار کو بیان کرنے کے ساتھ اسے عملانے پر قادر بن جاتا ہے اسے ولی فقیہ یا قائد انقلاب اسلامی کہتے ہیں۔
   
دور حاضر چونکہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کبری کا دور ہے اور الحمدللہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں قرآنی اصول کی روشنی میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور خدا اور خدا کے رسول کی اطاعت کے ساتھ صبر و حوصلہ سے کام لینے والے مسلمانوں کا سر انجام بھی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک اسلام شناس ماہر اور عادل استاد حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور ولایت فقیہ کا نظام تشکیل پایا اور امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت سے ظہور کی شعائیں متجلی ہونے لگی ہیں۔

    حکومتی اور سیاسی موضوع کے حوالے سے سورہ نساء کی آیت 59 میں ارشاد ہے: اللہ،اسکے رسول اور حاکموں کی اطاعت کرو" اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ "۔ اور دور ولایت فقیہ کے آغاز تک یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اس آیت سے صرف حاکموں کی اطاعت کرو کو شہرت تو دی جاتی رہی لیکن اطاعت کے معیار پر پردہ ڈالا گیا تھا۔جبکہ جس اللہ نے اطاعت کرو کا حکم دیا اس نے اطاعت کا میعار بھی تو بیان فرمایا ہے جیسے سورہ کہف کی آیت 28 میں آیا ہے کہ جس کا دل خدا کی یاد سے غافل ،اپنی مرضی کا مالک اور اپنی زمہ داری کی حد سے تجاوز کرنے والا ہو کی اطاعت نہیں کرو۔ "وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ کَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا "۔ یا سورہ قلم کی آیت 8میں آیا ہے کہ جھوٹوں کی اطاعت نہیں کرو "فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ" اور سورہ انسان کی آیت 24 میں آیا ہے:گناہگاروں کی اطاعت نہیں کرنا"وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا "۔سورہ شعرا کی آیت 151 میں آیا ہے کہ اسراف کاروں کی اطاعت نہیں کرنا"وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ"۔ وغیرہ ۔ اوراسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں ولایت فقیہ کے عنوان سے اسلامی حکومت قائم ہوئی اسلامی حاکمیت کا نمونہ سامنے آیا کہ جس حاکم کی اطاعت کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہےاس حاکم کا معیار قرآنی معیار پر پورا اترنا چاہئے۔امام عادل اور دور حاضر میں فقیہ عادل کی اطاعت اسی لئے واجب ہے کہ وہ خالق کے احکام کو مخلوق پر نافذ کرنے کے مقصد کو لے کے حکومت پر نظارت کرے۔

اسلام چونکہ یکجہتی اور اتحادکی طرف ھدایت کرتا ہے اور ہر نماز میں سورہ حمد کی قرائت واجب ہونے کی ایک دلیل یہی اسلامی معاشرے میں اتحاد و یکجہتی کا ثقافت کا بول بالا ہونا ہے ۔اور مسلمان اگر اکیلے بھی نماز پڑے اسے کہنا ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں ہم سب کو صحیح راستہ دکھا۔"اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" اور اگر کہے کہ میں تیری عبادت کرتا ہوں۔میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں۔مجھے سیدھا راستہ دکھا" اِیَّاکَ اَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ اَسْتَعِیْنُ۔اِهْدِنَی الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ " تو اسکی نماز باطل ہوجائے گی۔اسطرح اسلامی حاکم کی بنیادی زمہ داری اتحاد " وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا "(سورہ آل عمران آیت 103)کی طرف نہ صرف دعوت دینا ہے بلکہ اسکے لئے عملی اقدام بھی کرنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہی ولی فقیہ زماں حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امت اسلامی میں اتحاد کی چوٹیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو اسلام کا عظیم مسئلہ عنوان کیانیز ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی روز قدس منانے کو کہا ۔ اور شیعہ سنی اختلافات کو دور کرنے کیلئے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ولادت کی تاریخ پر شیعہ سنی اختلاف کو اتحاد کے محور کے طور پر پیش کیا اور 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے ہفتے کو ہفتہ وحدت کا نام دے کراتحاد کی ایک اور چوٹی کی نشاندہی کی اسطرح عالمی روز قدس کی تحریک اسلامی بیداری کی لہر اور ہفتہ وحدت اسلامی مسلکوں کے درمیان اتحاد و تقریب کا عالمی اسٹیج ابھر کر آ گیا ہے ۔ اور یہ سب ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی قرآنی اصول اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکومت داری کا ثمرہ ہے۔

ولی فقیہ کی قیادت انفرادی صلاحیت کی مالک نہیں ہوتی بلکہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اور آپ سے پہلے ائمہ ھدی علیہم السلام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت کے مانند یک سو ئی کے ساتھ ہونی چاہئے کیونکہ مقصد ایک چوٹی کی طرف ھدایت کرنا ہے۔ امام عادل اور ولی فقیہ کا کام رنگ و نسل، قوم و قبیلے کے اختلاف کا خاتمہ نہیں بلکہ مقصد کی نشاندہی کرتے ہوئے اسکی طرف ہدایت کرنا ہے۔آج ہم یہاں پر جمع ہیں ہمارے درمیان کتنا اختلاف ہے ۔ عمر میں اختلاف ہے ۔شکل و صورت میں اختلاف ہے۔ رہنے سہنے میں اختلاف ہے۔ ہر کوئی اپنےاپنے گھر میں رہتا ہے۔ اپنے اپنے علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ غرض اگر گننے بیٹھیں تو انتہائی اختلاف ہمارے اس کانفرنس میں ہمارے درمیان ملیں گے لیکن اسکے باوجود بھی ہمارے درمیان اتحاد پیدا ہوا ہے ۔ یہ اتحاد کیسے پیدا ہوا ہے؟۔ ہمارے لئے ایک مقصد کی نشاندہی کی گئی اور ہمیں بلایا گیا بیٹھنے ، بولنے اور سننے کا اہتمام و انتظام کیا گیا اتحاد ہو گیا۔

ولی فقیہ یہی کام عالمی سطح پر انجام دے رہے ہیں تاکہ مثالی امت اسلامی کا ظہور یقینی بن جائے۔ " وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ " ۔اسطرح ولایت فقیہ کے نظام حکومت سے نہ صرف سیکولر ازم کا فلسفہ کھوکھلا ثابت ہوا ہے بلکہ دین کی بالادستی اور سختی اور مشکلات کے باوجود ترقی اور خوشحالی یقینی ہونے کا عملے نمونہ بھی سامنے لایا ہے۔ یہ سب " وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ" سے ممکن ہو گیا ہے ۔کیوں نہ ہو اسلام تو رستگاری اور کامیابی کا نام ہے۔ جس نے اسلام کو عملایا رستگار اور کامیاب ہوا۔اسلام یعنی اختلاف کا خاتمہ یعنی اتحاد ایک خالق و رازق کی بندگی۔ایک مقصد۔اختلاف کے باجود اتحاد۔کوئی خدا نہیں صرف ایک خدا کے۔یعنی خدائی کا دعوی کرنے والے ملیں گے لیکن انکی ہمتائی کرنے والے بھی ہونگے یعنی اختلاف مگر یہی اختلاف اتحاد میں تبدیل ہوجاتا ہے جب مقصد کی نشاندہی ہوتی ہے اختلاف اتحاد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔شرک یعنی اختلاف اور توحید یعنی اتحاد۔ ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مانند مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور قربت کو مسلمانوں کی کامیابی کا اصلی راز ثابت کر دکھایا ہے کہ مسلمان صرف مسلمان سے نقصان اٹھاسکتا ہے اور دشمن کبھی مسلمان پر دشمن بن کر غالب نہیں آسکتا ہے اسلئے جسقدر مسلمان آپس میں متحد رہیں اسقدر ہی انکی دنیا پر بالا دستی یقینی بن جائے گی۔

 جب امام خامنہ ای نے اتحاد کے حوالے فتوی دیا کہ "اہل سنت مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے "آپ نے کوئی خوبصورت شعر نہیں کہا بلکہ شارع مقدس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ ھدی علیہم السلام کے فرمائشات کو بیان فرمایا ہے ۔

ولایت فقیہ یعنی اسلامی قیادت کہ جس کو قرآن سے پرکھا جا سکے اور الحمدللہ ہم ایسے زمانے میں رہ رہے ہیں جس دور میں اسلامی حاکمیت کو مشاہدہ کررہے ہیں اور اسلامی حاکم ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے اکیلے اسلامی حاکم ہیں جس کی حکومت داری سے صدر اسلام کے دور کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔اور دور حاضر میں امام خامنہ ای امت اسلامی کو جوڑنے کااکلوتا محور ہیں ۔اگر کوئی اور ہے تو کوئی نشاندہی کرے کہ امت کو جوڑنے کیلئۓ کیا کررہا ہے۔ چونکہ دنیا بھر میں اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ہی اسلامی جمہوری حکومت ہے اسلئے اسی حکومت پر فریضہ عائد ہے کہ امت کو جوڑنے کیلئے کوشش کرے اور عالمی دباو کے پیش نظر تمام تر مشکلات کے چلتے امام خامنہ ای مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور جس طرح جسم کی سالمیت کیلئے عصبی نظام کا کلیدی کردار بنتا ہے جو جسم کے نفع و نقصان کی نشاندہی کرتا ہے ٹھیک اسی طرح دور حاضر میں امام خامنہ ای امت اسلامی کے عصبی نظام کے مانند ہیں جب بھی بدن میں چوٹ آتی ہے تو اسکی نشاندہی کرتے ہیں۔ چونکہ امت میں اختلاف کا چوٹ زیادہ تکلیف دہ ہے اسلئے اتحاد و تقریب کی چیخ و پکار امام خامنہ ای کی زبانی زیادہ سننے کو ملتی ہے۔ جو کہ در واقع خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چیخ و پکار ہے۔

اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ اے اللہ ہمیں ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای کی قیادت میں مثالی مسلمان بن ابھرنے کی توفیق عطا عطافرماا تاکہ مصلح کل حضرت حجت ابن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں ہم آپ کے یار و انصار میں گنے جائیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

سید عبدالحسین موسوی کشمیری


اتوار، 29 ستمبر 2013 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی