سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام

 اردو مقالات اھلبیت ع تاریخی مناسبتیں شعبان حضرت علی اکبر (ع)

ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام

ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام

نیوزنور:حضرت علی اکبر (علیہ السلام) بن ابی عبداللہ الحسین (علیہ السلام) 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوے ـ

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور  ؛حضرت علی اکبر علیہ السلام رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ  میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ـ (2)

اس طرح علی اکبر (علیہ السلام) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے ـ

 والد کیطرف سے طایفہ بنی ہاشم سے کہ جس میں رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدۃ الساء العالمین حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب (علیہ السلام) اور امام حسن مجبتی (علیہ السلام) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ زوجہ رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ

 ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (علیہ السلام) ہے کہ اسکا نانا رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)

حضرت علی اکبر (علیہ السلام) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتا تھا ـ جس نے رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود رسولخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)

ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے ـ

حضرت علی اکبر (علیہ السلام) نے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین اوراپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے مکتب اور اپنے چچا امام حسن مجتبی اور والد امام حسین (علیہ السلام) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا ـ

امام حسین (علیہ السلام) نے انکی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر  کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پاتا تھا ـ

بہر حال ، حضرت علی اکبر (علیہ السلام) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی ـ

شایان ذکر ہے کہ حضرت علی اکبر (علیہ السلام)  عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنےکے باوجود عاشور کے دن یزید کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی نسب کو بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ھاشمی ہونے اور اھل بیت (علیہ السلام) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوے یوں رجز خوانی کرتے تھے :

أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن و بیت الله اَولی بِالنبیّ

أضرِبکُم بِالسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هاشمیّ عَلَویّ

وَلا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَاللهِ لا یَحکُمُ فینا ابنُ الدّعی

عاشور کے دن بنی ھاشم کا پہلا شھید حضرت علی اکبر (علیہ السلام) تھے اور زیارت معروفہ شھدا میں بھی آیا ہے : السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیلٍ مِن نَسل خَیْر سلیل.(7)

حضرت علی اکبر (علیہ السلام) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ھلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سرمبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آیا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کرکے شھید کیا ـ

امام حسین (علیہ السلام) انکی شھادت پر بہت متاثر ہوے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا: عَلَی الدّنیا بعدک العفا.(8)

شھادت کے وقت حضرت علی اکبر (علیہ السلام) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے (9)

مگر یہ کہ امام زین العابدین (علیہ السلام) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (علیہ السلام) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (علیہ السلام) نے فریایا ہے : کان لی اخ یقال له علی ، اکبر منّی قتله الناس ـ ـ ـ (10)

 

...........

حوالہ:

1- مستدرک سفینه البحار (علی نمازی)، ج 5، ص 388

2- أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علی مشکور)، ص 126؛ مقاتل الطالبیین (ابوالفرج اصفهانی)، ص 52

3- مقاتل الطالبیین، ص 52؛ منتهی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 373 و ص 464

4- منتهی الآمال، ج1، ص 373

5- مقاتل الطالبیین، ص 53

6- منتهی الآمال، ج1، ص 373؛ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459

7- منتهی الآمال، ج1، ص 375

8- همان

9- همان و الارشاد، ص 458

10- نسب قریش (مصعب بن عبدالله زبیری)، ص 85، الطبقات الکبری (محمد بن سعد زهری)، ج5، ص 211

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی