سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کس طرح رسولخدا کےدسویں وصی امام علی نقی علیہم السلام نے محمدی اخلاق کے ذریعے شیعیت کو پھیلایا ؟

 اردو مقالات اھلبیت ع حضرت علی النقی علیہ السلام مذھبی

کس طرح رسولخدا کےدسویں وصی امام علی نقی علیہم السلام نے محمدی اخلاق کے ذریعے شیعیت کو پھیلایا ؟

کس طرح رسولخدا کےدسویں وصی امام علی نقی علیہم السلام نے محمدی اخلاق کے ذریعے شیعیت کو پھیلایا ؟

نیوزنور:امام علیہ السلام کی گفتگو شیرین اور ان کی سرزنش جھنجھوڑ دینے والی ہوتی تھی ۔ اس طرح کہ آپ کا استاد بچپنے میں ہی آپ کی گفتگو کا فریفتہ ہوگیا تھا۔ جب آپ بہر تکلم لب گشائی فرماتے تھے  تو سننے والے کی روح کو تازگی بخش دیتے تھے ، اور جب اس پر عتاب فرماتے تھے توخالص جملوں پر مشتمل آپ کا کلام آتشی شمشیر بن کر آپ کے دشمن کے پیکر کو تار تار کر دیتا تھا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دسویں وصی امام المؤمنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین حضرت امام علی نقی علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ خوش اخلاق اور سچے تھے ۔ جو شخص آپ کو نزدیک سے دیکھتا تھا وہ کہہ سکتا تھا کہ اس نے سب سے زیادہ خوش اخلاق انسان کو دیکھا ہے ، اور اگر آپ کی آواز کو دور سے سنتا تھا تو کہہ سکتا تھا کہ میں نے کامل ترین انسان کی آواز کو سناہے ۔ جب کوئی ان کے حضور میں خاموش بیٹھتا تھا تو آپ کی ہیبت اور شان رفعت اس پر چھائی ہوتی تھی اور جب کوئی بولنے کا ارادہ کرتا تھا تو آپ کی عظمت اور بزرگی اس پر رحمت کا سائباں بن جاتی تھی ۔ آپ خاندان رسالت و امامت سے اور ورثہ دار اور جانشین خلافت تھے ، پر برگ و بار شجر نبوت کے شاخسار اور درخت رسالت کی سبد کا دلکش ترین پھل تھے (۱)

امام علیہ السلام  ہر انفرادی پہلو کے اعتبار سے چاہے وہ ظاہری ہو یا اخلاقی زباں زد ہر خاص و عام تھے ۔ ابن صباغ مالکی اس سلسلے میں رقمطراز ہے : ابوالحسن امام علی ابن محمد ہادی کی فضیلت تمام روئے زمین پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کی شاخیں آسمان کے ستاروں سے ملی ہوئی تھیں کوئی فضیلت ایسی نہیں جو ان پر ختم نہ ہوئی ہو اور کوئی عظمت ایسی نہیں جو بطور اتم و اکمل آپ سے متعلق نہ ہوئی ہو ، کوئی بڑی خصلت ایسی دکھائی نہیں دیتی کہ جس کی ارزش کا گواہ آپ کی ذات کے اندر موجود نہ ہو ۔ آپ شائستہ ، منتخب اور بزرگوار ہیں اور ایک بلند طینت کے مالک اور پسندیدہ ہیں ۔ ہر نیک کام آپ کے وجود سے رونق پاتا ہے ۔ آپ شان و شوکت ، متانت ، پاکی اور پاکیزگی کے لحاظ سے نبوی روش اور علوی نیک خلق پر آراستہ ہیں ، ایسے کہ مخلوق میں کوئی فرد آپ جیسا نہیں ہے اور آپ تک نہیں پہنچتا اور آپ تک پہنچنے کی امید بھی نہیں رکھ سکتا ۔ (۲)

مناسب اور بجا ہے کہ تحریر کے اس حصے کو آپ کی طبع مبارک کی خوبصورتیوں سے آراستہ کیا جائے :

۱ ۔ عبادت ،

معبود اور معشوق ازلی کے ساتھ عاشقانہ رشتہ جوڑنا اور بے انتہا عبادت کرنا امام ہادی علیہ السلام کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے ، اس سلسلے میں لکھا ہے : آپ ہمیشہ مسجد سے جڑے رہتے تھے اور دنیا کی طرف بالکل راغب نہیں تھے ۔ آپ ایسے عبادتگذار فقیہ تھے کہ راتوں کو عبادت کی حالت میں صبح سے ملا دیتے تھے اور ایک لمحے کے لیے بھی قبلہ سے رخ نہیں موڑتے تھے ۔ بدن پر ایک پشمینے اور قدموں کے نیچے چٹائی کی جانماز رکھ کر آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ عبادت کا شوق جب رات کو پورا نہیں ہوتا تھا تو تھوڑی دیر کے لیے  سو جاتے تھے اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے ۔ دھیمی آواز میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور دکھی آواز میں قرآن پڑھتے تھے اور اشک بہاتے تھے اس طرح کہ جو بھی آپ کی مناجات کی آواز کو سنتا تھا رو پڑتا تھا ۔ کبھی ریت اور خاک پر بیٹھ جاتے تھے ۔ آدھی رات کو استغفار میں مشغول ہوتے تھے اور رات کو جاگتے ہوئے بسر کر دیتے تھے (۳) رات کو سجدے اور رکوع میں جاتے تھے اور محزون اور غمگین آواز میں کہتے تھے : خدایا ! یہ گنہگار تیری بارگاہ میں آیا ہے ، خدایا ! اس محتاج نے تیری درگاہ کا رخ کیا ہے ، خدایا ! اس راہ میں اس کے رنج کو بغیر پاداش کے نہ رکھنا ، اس پر رحم کر اس کو بخش دے اور اس کی لغزشوں سے در گذر فرما (۴)

۲ ۔ سادہ زیستی،

امام علی نقی علیہ السلام کی دوسری نمایاں اخلاقی خصوصیت سادہ زیستی اور دنیا سے دوری تھی ۔ اس سلسلے میں بھی آیا ہے کہ : آپ کی زندگی کی بساط میں دنیا کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ایک منزہ انسان تھے ، اس رات جب آپ کے بیت الشرف پر حملہ کیا گیا حملہ آوروں نے دیکھا کہ آپ تنہا ہیں صرف ایک پشمینہ ہے جو آپ کے تن نازنین پر ہے اور ایک گھر ہے جس میں اسباب زندگی میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔مٹی کا فرش تھا اور آپ ایک چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے ، پشمی ٹوپی سر پر تھی اور اپنے پروردگار سے دعا میں مشغول تھے (۵)

۳ ۔ علم ،

ایک سب سے بنیادی محور اور امامت کا ایک مضبوط ترین پشتپناہ امام کا علم ہوتا ہے کہ جس کی بنیاد پر انسانوں کو نابودی کی طرف لے جانے والے تاریک راستوں سے نجات ملتی ہے ۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شخصیت بچپنے سے ہی اور آپ کی امامت سے پہلے ہی بن چکی تھی ۔ علمی مناظرے ، اعتقادی اعتراضات کے  جوابات ، اور نمایاں شاگردوں کی تربیت امام علی نقی ع کی بلند و بالا شخصیت کے آشکارا نمونے ہیں ۔ آپ بچپنے سے انتہائی مشکل اور پیچیدہ فقہی مسائل کو کہ جنہیں بڑے بڑے علماء حل نہیں کر پاتے تھے حل کر دیا کرتے تھے ۔آپ کا علم کا ایک بے کراں خزانہ اور بینش کے بلند تےرین مقام پر سرفراز تھے ۔ سادہ لوح دشمن آپ کو علمی میدان میں نیچا دکھانے کے لیے علمی مناظرے کرواتا ہے لیکن رسوائی اور فضیحت کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا ، لہذا وہ امام کے رتبے کی بلندی کا اعتراف کرتا ہے اور سرتسلیم خم کر دیتا ہے (۶)

اس کے باوجود متوکل آپ کے علوم کی نشرو اشاعت میں رکاوٹ ڈالتا تھا اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ امام ع کی علمی شخصیت لوگوں پر آشکار نہ ہو ۔ اسی لیے اس نے امام ع کو شدید فوجی پہرے میں رکھا ہوا تھا اور مختلف علوم کے علماء اور عام لوگوں کو آپ سے ملنے سے روکتا تھا ۔ دشمن اس آفتاب علم و معرفت  کے گیتی افروز پرتو کو دیکھتا تھا ، اور چمگادڑ صفت شب زدہ آنکھوں سے شب پرستی کے خیال میں آپ کی چمک سے آنکھیں بند کر لیتا تھا اور ایک شمع کے سہارے سورج سےلڑنے کے لیے نکل پڑتا تھا اور مناظرہ کرنے کی جسارت کرتا تھا ۔ لیکن امام ع اپنے بے انتہا صبر کے ساتھ لمحوں کا استعمال کرتے تھے اور جہالت کی تاریکی کو اپنے علم کے نور سے کافور کر دیتے تھے ۔

آپ علم کے چودہ آفتابوں کی تابانیوں کے بیان میں فرماتے تھے : خدا کے اسم اعظم کے ۷۳ حرف ہیں ان میں سے صرف ایک حرف آصف بن برخیا کے پاس تھا اور جب اس نے اس کے واسطے سے خدا کو پکارا تو زمین کی طنابیں کھینچ دی گئیں اور وہ تخت بلقیس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لے آئے ۔ اس کے بعد زمین کو پھر سے بچھا دیا گیا اور وہ اپنی اصلی حالت پر آ گئی ۔ اور یہ سب کچھ صرف پلک جھپکنے میں ہو گیا ۔ لیکن ہمارے پاس اس اسم اعظم کے ۷۲ حرف ہیں ۔ اس کا ایک حرف خدا کے پاس ہے اور باقی اس نے ہمیں عطا فرمائے ہیں اور وہ ایک اس کے علم غیب کے خزانے صرف اسی سے مخصوص ہے (۷)

آپ اپنے زمانے کی تمام زبانوں منجملہ ہندی ، ترکی ، فارسی وغیرہ سے آگاہ تھے۔ یہاں تک کہ لکھا ہے کہ آپ اہل فارس کے مجمع میں خود ان کی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔ (۸)

بختیشوع کے شاگرد یزدانی نصر کے امام علیہ السلام کے علم کے بارے میں بیانات بہت اہم ہیں ۔ وہ معتصم کے دربار کا مخصوص ڈاکٹر تھا علم میں امام کی مہارت نے اس کو اس قدر امام کا گرویدہ بنا دیا تھا کہ اس نے امام ع کے علمی مرتبے کی توصیف کے بارے میں کہا تھا : اگر کسی ایسی مخلوق کا نام لینا ہو کہ جو علم غیب سے آگاہ ہو تو وہ امام علی نقی ع ہو ں گے ، یہ بات امام کے ساتھ اس کی ایک مختصر ملاقات کا نتیجہ تھی (۹)

۴ ۔ بہت ساری روایات کی بنیاد پر امام معصوم جب بھی کسی ایسی چیز سے آگاہ ہونا چاہے جو اس پر پوشیدہ ہو تو خدا ان کو اس چیز سے آگاہ کر دیتا ہے ۔ امام علی نقی ع بھی دوسرے اماموں کی طرح غیب کی خبر دیتے تھے ۔ آنے والے وقت کو صاف طور پر دیکھتے تھے افراد کے باطن سے آگاہ ہوتے تھے اور لوگوں کی موت کے وقت کے بارے میں جانتے تھے ۔

ابوالعباس احمد ابی النصراور ابو جعفر محمد بن علویہ کہتے ہیں : اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں میں سے ایک شخص اصفہان میں رہتا تھا ۔ ایک دن اس سے پوچھا گیا کہ اس شہر میں تیرے شیعہ ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کہا : میں ایک مفلس آدمی تھا لیکن بات کرنے میں تیز تھا ایک سال کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے متوکل کے دربار میں گیا ۔ جب  ہم اس کے قصر کے دروازے پر پہنچے تو ہم نے سنا کہ اس نے امام ہادی علیہ السلام کو حاضر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ میں نے پوچھا کہ علی ابن محمد کون ہے کہ جس کے بارے میں متوکل نے ایسا حکم دیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ علوی ہے اور رافضی اس کو اپنا امام مانتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید متوکل نے ان کو قتل کرنے کے ارادے سے طلب کیا ہے ۔ میں نے طے کر لیا کہ میں وہیں رہوں گا تا کہ ان سے ملاقات کر سکوں ۔کچھ دیر کے بعد ایک سوار آہستہ آہستہ متوکل کے قصر کے نزدیک آیا وہ ایک خاص وقار اور تمکنت کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھا تھا اور لوگ دونوں طرف اس کے ساتھ چل رہے تھے ۔ میں نے جب اس کے چہرے کی طرف نگاہ کی تو اس کی ایک عجیب محبت میرے دل میں بیٹھ گئی۔ میں نا خواستہ اس سے محبت کرنے لگا اور میں نے خدا سے دعا کی کہ دشمن کے شر کو اس سے دور رکھے وہ بھیڑ کے درمیان سے گذرتا ہوا مجھ تک پہنچا ۔ میں اس کے چہرے کے دیدار میں محو تھا اور اس کے لیے دعا کر رہا تھا جب وہ میرے سامنے پہنچا تو اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور مہربانی کے ساتھ فرمایا : خدا تمہاری دعا کو میرے حق میں مستجاب فرمائے تیری عمر کو طولانی کرے اور تجھے مال اور اولاد کی کثرت سے نوازے ۔ 

جب میں امام کی باتیں سنیں ، تو اس تعجب کی بنا پر کہ وہ کیسے میرے باطن سے آگاہ ہیں میرے دل پر خوف طاری ہو گیا ۔میں اپنا توازن کھو بیٹھا اور زمین پر گر گیا۔لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ کیا ہواہے ، میں نے بات چھپائی اور کہا : میں ٹھیک ہوں ان شاء اللہ اور میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ،یہاں تک کہ میں اپنے گھر آگیا ۔ امام ہادی علیہ السلام کی دعا میرے حق میں مستجاب ہوئی ۔ خدا نے میرے مال میں ا ضافہ کر دیا ۔ مجھے دس فرزند عطا فرمائے اور میری عمر بھی اس وقت ۷۰ سال ہو رہی ہے ۔ میں نے بھی اس کی امامت کو کہ جو میرے دل سے آگاہ تھا قبول کر لیا اور شیعہ ہو گیا (۱۰)

خیران اسباطی نے بھیامام کے اسرار سے آگاہ ہونے کے بارے میں بتایا :میں مدینے میں امام ابوالحسن الھادی علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا ۔ امام علیہ السلام نے پوچھا عباسی خلیفہ واثق کی کچھ خبر ہے ؟ میں نے عرض کی : میں آپ پر قربان ہوجاوں ، وہ ٹھیک تھا اور میں سب سے آخر میں اس سی ملا تھا ۔لیکن ادھر دس دن ہو چکے ہیں کہ میں نے اس کو نہیں دیکھا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : مدینے کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مر گیا ہے ۔ میں نے کہا : میں سب سے زیادہ اس سے ملتا ہوں اگر ایسا ہوتا تو مجھے بھی خبر ہوتی ۔ آپ نے دوبارہ فرمایا : مدینے کے لوگ کہتے ہیں وہ مر چکا ہے ۔ اس لفظ پر امام علیہ السلام کے تاکید کرنے سےمیں سمجھ گیا کہ لوگوں سے امام کا اشارہ اپنی طرف ہے ۔

اس کے بعد فرمایا :جعفر متوکل عباسی کا کیا حال ہے ؟ عرض کی وہ جیل میں ہے اور بد ترین حالات میں ہے ۔ فرمایا : جان لو کہ وہ اس وقت خلیفہ ہے ۔ اس کے بعد پوچھا ، واثق کے وزیر ابن زیات (۱۱)کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا لوگ اس کے حامی اور فرمانبردار ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ حکومت اس کے لیے منحوس تھی ۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپ نے فرمایا :خدا کے احکام اور فرامین پر عملہونا چاہیے اور اس کے مقدرات سے گریز نہیں ہے ۔ اے خیران ! جان لو کہ واثق مر چکا ہے اور متوکل اس کی جگہپر بیٹھ چکا ہے اور ابن زیات کو بھی قتل کر دیا گیا ہے ۔میں نے عرض کی : میں آپ پر فدا ہو جاوں ایسا کب ہوا ؟! آپ نے اطمینان کے ساتھ فرمایا : تمہارے وہاں سے نکلنے کے چھ دن بعد (۱۲)

۵ ۔ سخنوری ،

امام علیہ السلام کی گفتگو شیرین اور آپ کی سرزنش دل دہلا دینے والی ہوتی تھی۔  اس طرح کہ آپ کا استاد بچپنے میں ہی آپ کی گفتگو کا فریفتہ ہوگیا تھا۔ جب آپ بہر تکلم لب گشائی فرماتے تھے  تو سننے والے کی روح کو تازگی بخش دیتے تھے ، اور جب اس پر عتاب فرماتے تھے تا کالص جملوں پر مشتمل آپ کا کلام آتشی شمشیر بن کر آپ کے دشمن کے پیکر کو تار تار کر دیتا تھا ۔

اس وقت کہ جب دشمن اپنی عشرت طلبی کے لیے آپ سے شعر پڑھنے کو کہتا ہے تا کہ اپنی بزمکو اس کے ذریعے کامل کر سکے تو آپ اپنے لب کھولتے ہیں اور چند بیت پڑھتے ہیں اور ایسی آگ اس کے وجود میں لگا دیتے ہیں کہ اس کی بزم عیش و نوش تباہ ہو جاتی ہے ۔ اور دنیا کو اس اندھیرے کے پجاری دشمن کی آنکھوں میں تاریک کر دیتے ہیں ۔ امام کے اشعار یہ تھے :

·         ۔ پہارون کی بلندیپر انہوں نے رات کو صبح میں بدل دیا ایسی حالت میں کہ طاقتور لوگ ان کی حفاظت پر مامور تھے لیکن اونچے پہاروں نے بھی ان کی مدد نہیں کی ۔

·         ۔ آخر کار عزت و شکوہ کے ایک زمانے کے بعد ان کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی اور وہ قبر کے گودالوںمیں گر گئے اور کتنی بری اور نا پسندیدہ جگہ میں ان کو ٹھکانہ ملا ہے ۔

·         ۔ جب ان کو خاک کے سپرد کر دیا گیا اور فریاد کرنے والے نے فریاد بلند کی وہ ہاتھوںکے کنگن ، تاج اور زیورات اور فاخرہلباس کہا گئے ؟

·         ۔ کہاں گئے وہ تمہارے ناز پروردہ اور نازنین چہرے ؟

·         ۔ ان کی قبریں ان کی جگہ آواز دیں گی :ان ناز پروردہ چہروں پر اس وقت کیڑے مکوڑے چل رہے ہیں ۔

·         ۔ انہوں نے بہت کچھ کھایا اور پیا ۔لیکن اس وقت اس تمام شکم پریکے بعد خود کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن رہے ہیں ۔

متوکل کے سر سے مستی ہوا ہو گئی شراب کا جام اس کے ہاتھ سے زمین پر گر پڑا اور وہ لوٹ پوٹ ہو کر خوف کے مارے چیخ رہا تھا ۔ حضار رو رہے تھے اور متوکل سخت حیران اور وحشت زدہ تھا وہ اس قدر رویا کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی اور اس نے حکم دیا کہ عیش و نوش کی بساط کو سمیٹ لیں (۱۳)

۶ ۔  مہربانی،

امام علیہ السلام بہت مہربان تھے اور ہمیشہ اپنے آس پا سوالوںکی مشکلات حل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے یہاں تک کہ کبھی خود کو مشقت میں ڈال لیتے تھے ۔ وہ بھی اس زمانے میں کہ جب حکوم،ت کی طرف سے شیعوں پر سختی کی شدت اپنے اوج پر پہنچ چکی تھی ۔ محمد بن علی نے زید بن علی سے روایت کی ہے : میں شدید بیمار ہوا تو امام علیہ السلام رات کے عالم میں میرے علاج کے لیے طبیب کو لائے ۔اس نے بھی مجے ایک دوا دی ۔ لیکن دوسرے دن بہت تلاش کے باوجود وہ دوا نہیں مل پائی طبیب دوبارہ میرے علاج کے لیے آیا تو دیکھا کہ میری حالت بد تر ہو چکی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ مجھے دوا نہیں ملی ہے تو وہ نا امید ہو کر میرے گھر سے چلا گیا ۔

کچھ دیر بعد امام ہادی علیہ السلام کا بھیجا ہوا ایک آدمی میرے گھر پر آیا اس کے پا س ایک تھیلا تھا جس میں وہی دوا تھی ۔ اس نے وہ مجھے دی اور کہا : ابوالحسن نے تم سے سلام کہا ہےاور یہ دوا مجھے دی ہے تا کہ میں تجھے دے دوں ، آپ نے فرمایا ہے کہ اس کو چند دن تک کھاو ، تم ٹھیک ہو جاو گے ۔ میں نے دوا اس کے ہاتھ سے لی ، اس کے بعد میں دوا کھائی تو کچھ دن بعد میں بالکل ٹھیک ہو گیا ،(۱۴)

۷ ۔ اہل علم کااحترام ،

امام علیہ السلام لوگوں اور خاص کر اہل علم کا بہت احترام کرتے تھے ۔ تاریخ میں آیا ہے : ایک روز امام علیہ السلام ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کچھ بنی ہاشم  کچھ علوی اور کچھ  دوسرے لوگ بھی اس مجلس میں موجود تھےکہ اتنے میں شیعوں کا ایک عالم وہاں آیا ۔ اس نے ایک  اعتقادی اور کلامی مناظرے میں  کچھ ناصبیوں اور اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کوجواب دیے اور انہیں رسوا کیا تھا ۔ جیسے ہی یہ شخص مجلس میں داخل ہوا امام علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے ، اور اس کے احترام میں چند قدم آگے بڑھے اسے اپنے پاس لائے اور مجلس میں اوپر بٹھایا اور اس کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہو گئے ۔ حضار میں سے کچھ لوگ امام علیہ السلام کے اس سلوک سے ناراض ہوئے اور انہوں نے اعتراض کیا ۔

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : اگر میں قرآن سے فیصلہ کروں تو کیا تم لوگ مان لو گے ؟ کہا، ہاں ! امام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ؛ اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے  کہ مجلس میں دوسروںکے لیے جگہ بناو ، تو ان کے لیہے جگہ بناو تا کہ خدا تم پر اپنی رحمت کو عام کرے اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاو تو کھڑے ہو جاو  تا کہ خدا مومنوں اور تم میں سے اہل علمکے رتبے کو بلند کرے (۱۵) ، نیز فرمایا ہے : کیا وہ لوگ اہل علم ہیں اور وہ جو اہل علم نہیں ہیں آپس میں برابر ہیں ؟ (۱۶)

 خدا نے دانشمند مومن کو غیر دانشمند مومن پر مقدم رکھا ہے جس طرح مومن کو غیر مومن پر برتری دی ہے کیا وہ جو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا دونوں سچ مچ برابر ہیں ؟ پس تم لوگ کیوں انکار اور اعتراض کر رہے ہو ؟ خدا نے اس دانش مندمومن کو برتری عطا کی ہے مرد کا شرف اس کے علم سے ہوتا ہے اس کے نسب اور اس کی قرابتداری کی وجہ سے نہیں ۔ اس نے بھی ان محکم دلایل سے جو خدا نے اسے عطا کی ہیں ہمارے دشمنوں کو شکست دی ہے (۱۷)

۸ ۔ بخشش،

بخشش اہل بیت علیہم السلام کے گوشت اور خون کے ساتھ آمیختہ تھی ۔ وہ ہمیشہ اپنی بخشش کے ذریعے دوسروں کو حیرت اور تعجب میں ڈال دیتے تھے ۔ کبھی اس قدر بخشش کرتے تھے کہ آپ کا وہ سلوک معجزہ شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ اس مقام پر حجت امام ہادی ع کی توصیف میں کہا جاتا تھا : امام ہادی علیہ السلام اس قدر خرچ کرتے تھے کہ بادشاہوں کے علاوہ کوئی اتنی بخشش نہیں کر سکتا تھا ۔ اس زمانے تک کسی کو اتنا بخشش کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی اتنا کوئی سوچ سکتا تھا (۱۸)

اسحاق جلاب کہتا ہے : میں نے ابوالحسن علیہ السلام کے لیے بہت ساری بھیڑ بکریاں خریدیں اس کے بعد انہوں نے مجھے بلایا اور اپنے گھر سے دور ایک انجان جگہ پر لے گئے اور فرمایا کہ میں ان تمام بھیڑ بکریوں کو ان لوگوں میں کہ جن کے بارے میں آپ نے خود حکم دیا تھا تقسیم کر دوں ۔(۱۹)

بغیر اس کے کہ کوئی متوجہ ہو آپ اس کو بخشش کی نسیم دلنوا سے نواز دیتے تھے ۔ بھیڑ بکریاں خریدتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم کر دیتے تھے (۲۰) کبھی اپنی طاقت کے بقدر جو شخص جتنا مانگتا تھا اتنا اس کو دے دیتے تھے ۔ ابو ہاشم جعفری کہتا ہے :میں مالی اعتبار سے بہت تنگی میں تھا یہاں تک کہ میں ارادہ کیا کہ امام ہادی علیہ السلام سے مدد کی درخواست کروں ۔ جب میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو میرے کچھ بولنے سے پہلے امام علیہ السلام نے فرمایا : اے ابو ہاشم ! تم خدا کی کس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہتے ہو اس ایمان کی نعمت کا جو اس نے تمہیں دیا ہے تاکہ اس کے وسیلے سے اپنے بدن کو دوزخ کی آگ سے نجات دلا سکو یا سلامتی اور عافیت کی نعمت کا جو اس نے تمہیں عطا کی ہوئی ہے کہ جس سے تم خدا کی عبادت اور بندگی کی راہ میں فائدہ اٹھاتے ہو یا اس قناعت کی نعمت  کا جو تمہیں اس نے بخشی ہے کہ جس کے ذریعے وہ تمہیں لوگوںسے درخواست کرنے سے بے نیاز کر دے ؟

اے ابو ہاشم ! میں جو سخن کا آغاز کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سوچا کہ تم اپنی کچھ مشکلات کی شکایت کرنا چاہتے ہو ۔ میں نے حکم دیا ہے کہ سونے کے دو سو دینار تمہیں دیں تا کہ تم ان کے ذریعے اپنی مشقت کو بر طرف کر سکو ۔ ان کو لے لو اور اسی پر قناعت کرو (۲۱)

۹ ۔ سخت کوشی ،

 امام علی نقی علیہ السلام شیعوں کے عظیم پیشوا اور خاندان ہاشم کی بزرگ فرد تھے ۔ اسلامی حکومت کی آمدنی سب آپ کے پاس آتی تھی اور آپ اس سے بہرہ مند ہو سکتے تھے اس لیے کہ وہ آپ کا حق تھا لیکن اپنے آباءو اجداد کی طرح آپ بھی اپنی محنت کی کمائی سے بہرہ مند ہوتے تھے اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو محنت کے ساتھ پورا کیا کرتے تھے ۔ علی ابن جعفر کہتے ہیں : میں نے ابو الحسن علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ سختی کے ساتھ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں اس طرح کہ سرو صورت مبارک سے پسینہ جاری ہے ۔ میں آپ سے پوچھا : میں آپ پر فدا ہو جاوں !آپ کے کام کرنے والے کہاں ہیں ؟ کہ آپ خود اس قدر محنت فرما رہے ہیں ؟

جواب میں فرمایا : اے علی ابن حمزہ ! وہ شخص جو زمین میں بیلچہ چلا کر گذر اوقات کرتا تھا مجھ سے اور میرے باپ سے بہتر تھا ۔ میں نے دوبارہ عرض کی : آپ کی مراد کون ہے : فرمایا : رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیر المومنین علی علیہ السلام اور میرے تمام آباءو اجداد اور خاندان والے خود کام کیا کرتے تھے ۔ کھیتی باڑی پیغمبروں ، رسولوں ان کے جانشینوں اور درگاہ الہی کے منتخب افراد کا پیشہ رہا ہے ۔ (۲۲)

۱۰ ۔ بردباری ،

صبر و بردباری عظیم مردان الہی کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ہے ، اس لیے کہ ان کا نادان افراد کے ساتھ سب سے زیادہ سابقہ رہتا ہے اور انہیں ان کی ہدایت کے لیے صبر کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس طرح نجات کا دروازہ ان کے لیے کھول سکیں ۔

بریحہ عباسی حکومت کا جاسوس اور مکہ اور مدینے کے دو شہروں کا امام جماعت تھا۔ اس نے متوکل سے امام ہادی علیہ السلام کی چغلی کھائی اور اسے لکھا : اگر مکہ اور مدینے کو چاہتے ہو تو علی ابن محمد کو ان دو شہروں سے دور رکھو اس لیے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور بہت سارے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں ۔  

بریحہ کی چغلی کے نتیجے میں متوکل نے امام علیہ السلام کو رسول خدا کے پر فیض اور ملکوتی جوار سے جلا وطن کر دیا اور آپ کو سامراء بھیج دیا اس پورے راستے میں بریحہ بھی آپ کے ساتھ تھا ۔

راستے اس نے امام علیہ السلام کو مخاطب کیا اور کہا : آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری وجہ سے آپ کو جلا وطن کیا گیا ہے ۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر آپ متوکل یا اس کے درباریوں اور فرزندوں سے میری شکایت کریں گے تو میں مدینے میں آپ کے تمام درختوں کو جلا دوں گا اور آپ کے نوکروں کو قتل کر دوں گا اور اور آپ کے چشموں ، قناتوں اور آپ کی کھیتی باڑی کو تباہ کر دوں گا ۔ جان لیجیے کہ میں اپنے ارادے پر اٹل رہوں گا ۔

امام علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے بریحہ کے جواب میں فرمایا : تیری شکایت کا سب سے نزدیک راستہ یہ تھا کہ میں کل رات بارگاہ خدا وندی میں تیری شکایت کروں اور میں نے خدا کے حضور میں تیری شکایت کر دی ہے ۔ اب غیر خدا اور اس کے بندوں سے تیری شکایت نہیں کروں گا ۔

بریحہ نے جب اس کی طرف سے چغلی کے باوجود امام علیہ السلام کی مہربانی اور بردباری کو دیکھا تو حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور انتہائی تضرع و زاری کے ساتھ امام علیہ السلام سے بخشش کی درخواست کی ۔ امام علیہ السلام نے بھی بزرگواری دکھاتے ہوئے فرمایا : میں نے تجھے بخش دیا ۔ (۲۳)

۱۱ ۔ شکوہ اور ہیبت ،

چونکہ امام معصوم خدا کی عظمت اور اس کی قدرت کی تجلی کا مرکز اور اور اسرار الہی کی کان اور عالم امکان کا قطب ہوتا ہے تو ان کے اندر معنوی قداست اور بے انتہا شکوہ اور وقار ہوتا ہے ۔ زیارت جامعہ میں امام ہادی علیہ السلام کی زبان مبارک سے ملتا ہے :

ہر بزرگ اور صاحب شرافت آپ کی بزرگواری اور شرافت کے سامنے سر تسلیم خم ہے اور اپنے آپ کو ہر بڑا سمجھنے والے کی گردن آپ کے سامنے جھکی ہے ہر بڑائی والا آپ کی برتری کے آگے متواضع ہے اور ہر چیز آپ کے سامنے خوار اور ذلیل ہے ۔ (۲۴)

محمد ابن حسن اشتر کا کہنا ہے : میں اپنے باپ کے ہمراہ متوکل کے قصر کے باہر علویوں ، عباسیوں اور جعفریوں کی ایک جماعت کے ساتھ کھڑا تھا کہ اتنے میں امام ہادی ع تشریف لائے تمام لوگ آپ کے احترام اور اکرام میں اپنی سواریوں سے نیچے اترے اور آپ کے قصر میں داخل ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے زبان شکوہ باز کی اور کہا : ہم کیوں اس بچے کا احترام کریں اور اس کے احترام میں اپنی سواریوں سے اتر پڑیں ؟ نہ اس کی شرافت ہم سے زیادہ ہے اور نہ عمر میں ہم سے بڑا ہے۔ خدا کی قسم جب وہ باہر آئے گا تو ہم اپنی سواریوں سے نہیں اتریں گے ۔

ابو ہاشم جعفری نے ان کی بات کی رد میں کہا : خدا کی قسم تم سب کے سب ذلت و خواری اور شرمندگی کے ساتھ اتر پڑو گے ۔ کچھ دیر کے بعد امام علیہ السلام متوکل کے قصر سے باہر تشریف لائے۔ لوگوں کی تکبیر اور تہلیل کی آواز آسمان سے ٹکرانے لگی تمام لوگ یہاں تک کہ شکایت کرنے والے بھی اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر پڑے ۔ تب ابو ہاشم نے ان کی طرف رخ کر کے ان سے پوچھا : تم لوگوں نے تو کہا تھا کہ ان کا احترام نہیں کرو گے اور قسم کھائی تھی کہ اپنی سواریوں سے نہیں اترو گے ؟ وہ لوگ امام کی ہیبت اور ان کے جلال کا انکار نہیں کر پائے اور سب نے سر جھکا کر جواب دیا : خدا کی قسم ہم بے اختیار اپنی سواریوں سے اتر پڑے ۔ (۲۵)

حوالہ جات ؛

۱ ۔ مناقب آل ابیطالب ، ج ۴ ص ۴۰۱ ،

۲ ۔ فصول المھمہ فی معرفۃ الآئمہ، ج۲ ص ۲۶۸ ،

۳ ۔ آئمتنا، ج۲ ص ۲۱ ،

۴ ۔ وہی ، ص ۲۵۷ ،

۵ ۔ وہی ، ص ۲۱۷ ؛ اصول کافی ج۱ ص ۵۰۲ ، بحار الانوار ج۵۰ ، ص ۲۱۱ ،

۶ ۔ الفصول المھمہ ، ص ۲۶۷ ،

۷ ۔ دلایل الامامہ ، ص ۲۱۹ ، اصول کافی ،ج۱ ص ۲۳۰ ، مناقب آل ابیطالب ، ج۴ ص ۴۰۶ ،

۸ ۔ بحار الانوار ، ج۵۰ ص ۱۳۰ ،

۹ ۔ دلایل الامامہ ، ص ۲۲۱

۱۰ ۔ سفینۃ البحار ، ج۲ ص ۲۴۰ ،

۱۱ ۔ وہ واثق اور معتصم کا وزیر تھا اپنے مکالفوں کو ایک تنور میں دال دیتا تھاجس کی تہہ میں لوہے کی میخیں ہوتی تھیں لوگ اس سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ متوکل نے حکومت سنبھالنےکے بعد اس کو اسی تنور میں ڈ ال دیا ۔ مروج الذھب و معادن الجوھر ، ج۲ ص ۴۸۹ ،

۱۲ ۔ ارشاد مفید ، ج۲ ص ۴۲۴ ؛ کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمہ ج۳ ص ۲۳۶ ،

۱۳ ۔ تذکرۃ الخواص ص ۳۶۱ ، بحار الانوار ، ج۵۰ ص ۲۱۱ ،

۱۴ ۔ ارشاد شیخ مفید  ، ج۲ ص ۴۳۳ ،

۱۵ ۔ مجادلہ : ۱۱ ،

۱۶ ۔ زمر : ۹ ،

۱۷ ۔ احتجاج طبرسی ج۲ ص ۳۰۹ ،

۱۸۔ مناقب آل ابیطالب ، ج۴ ص ۴۹۸ ،

۱۹ ۔ اصول کافی ، ج۱ ص ۴۹۸ ،

۲۰ ۔ اعیان الشیعہ ج۲ ص ۳۷ ،

۲۱ ۔ بحار الانوار ، ج۵۰ ص ۱۲۹ ،

۲۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۳ ص ۲۱۶ ،

۲۳ ۔ اثبات الوصیہ ، ص ۱۹۶ ،

۲۴ ۔ مفاتح الجنان زیارت جامعہء کبیرہ ،

۲۵ ۔ حیات الامام الھادی ، ص ۲۴ ، 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی