سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

شام اسلامی مقاومتی محور کا محاذ اور خیری شری من اللہ فلسفے سے اب انحراف نا ممکن

 اردو مقالات شام مذھبی سیاسی

شام اسلامی مقاومتی محور کا محاذ اور خیری شری من اللہ فلسفے سے اب انحراف نا ممکن

جمعه، 13 آوریل 2018

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی:

شام اسلامی مقاومتی محور کا محاذ اور خیری شری من اللہ فلسفے سے اب انحراف نا ممکن

نیوزنور: الحمداللہ اب  اس خیری شری من اللہ فلسفے کی بھی پول کھلتی جارہی ہے۔ اب مسلمان کا عدل اورعدالت  کے علاوہ  کوئی معیار نہیں چلنے والا ہے، معیار صرف میدانی عمل ہے یعنی وہی تقویٰ  اورعدالت ہے اورمیدانی عمل یعنی"فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ ﴿البقرة، 256"  ہے  کہ جو طاغوت  کےساتھ ٹکر لینے والا ہوگا وہی صحیح مسلمان ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےجمعه، 13 آوریل 2018 کوآنلاین مکالمے کے دوران " شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا رسوائی کاسامنا" کے عنوان کے تحت شام پر امریکی حملے اور اس کے حاشیے سے متعلق لئے گئے انٹرویو کہ جس کو مغربی ممالک میں خاص کر  لندن،جرمنی اور امریکہ سے آنلاین کالر نے حصہ لے کر موصوف سے سوالات پوچھے کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال :قبلہ بڑی عجب صورتحال ہے مغربی اور مشرقی بلاک آمنے سامنے ٹکرانے جا رہے ہیں ،اس وقت  امریکہ اوراسکے اتحادیوں نے باقاعدہ دوبارہ   جھوٹے کمیکل اٹیک کا بہانہ بناکر شام پر حملے کی تیاری کررہے ہیں کیا شام پر حملہ ہو گا؟

ج) آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں 27 رجب کی مناسبت سے جو کہ "عید مبعث "ہے جس دن زمین اورآسمان  کا رابطہ برقرار ہوگیااور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کااعلان ہوگیا ،قرآن کی پہلی چند آیتیں نازل ہوگئی اوریہ بہت ہی عظیم دن ہے اسےبڑی عید کہاجاتا ہے۔اگرچہ ہمارے اہلسنت بھائی اس بارے میں اس کو شب معراج کہتے ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق یہ  "روزمبعث " ہے، جس دن  قرآن کے نزول کا آغاز ہوا ۔اس مناسبت سے میں ناطق قرآن و حافظ  قرآن  امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت  میں مبارک مبادعرض کرتے ہوئے آپ کے جانشین  امام خامنہ ای اور  جملہ مراجع عظام تقلید اور مومنین ومسلمین کی خدمت میں  مبارکباد عرض کرتے ہوئے میں  آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں کہ جنگ ہوگی کہ نہیں  ۔

جنگ کا انہوں نے طبل تو بجادیا، بہرحال امریکہ کی جو ساکھ تھی وہ اس  کیفت میں  اب نہیں ہے کہ وہ اپنی من مانی ثابت کردے۔ بلکہ ٹکر دینے والے اب میدان میں ہیں ۔ آپ نے مشرق اورمغرب بلاک کی طرح صحیح اشارہ کیا، بالکل اس وقت صورتحال کودیکھیں، ابھی دوبلاک آمنے  سامنے آگئے ہیں۔  مغرب کی قیادت  امریکہ کررہا ہے جس پہ اگرچہ  انوسمنٹ مشرق زمین سے سعودی عرب کررہا ہے جبکہ مغرب بلاک کے خلاف مشرق زمین کی قیادت  ایران کررہا ہےاور الحمدللہ مشرق کا سارا بلاک  اس میں شامل نظر آتا ہے کہ شام کےساتھ نہ صرف ایران ہے بلکہ عراق اس کے بغل میں کھڑا ہے، روس بھی اس کےساتھ ہے، مشرق  زمین کا بڑا بلاک چین   جنگ کا مخالف ہے۔ غرض پوری مشرق زمین اس بات پر متفق ہے  کہ اگر شام پر حملہ ہوتا ہے جنگ چھڑ جاتی ہے تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے مقابلے میں مغرب  کا بلا ک بکھرتا نظر آرہا ہے۔ کینڈا نے پہلے اعلان کیا  کہ ہم اس جنگ میں شامل نہیں ہونگے،  پھر جرمنی نے اعلان کیا ہم اس جنگ میں شامل نہیں ہونے والے ہیں،  اس کے بعد اٹلی نے کہاکہ ہم  آپ کی لاجسٹک سپورٹ دینے کیلئے تیار ہیں مگر  جنگ میں شامل نہیں ہونے والے ہیں ۔

ایسے میں سعودیہ جو جنگ پرانوسمنٹ کرنے کیلئے تیار ہے، اس کے اتحادی سبھی اس بات پر  متفق نہیں ہیں جیسے کویت نے کہاکہ جنگ سے بہتر مذاکرات ہیں ۔ ابھی یواین اے میں  اس موضوع پہ گفتگو شروع ہوئی ہے کہ ان مسائل کو کیسے حل کریں۔اس طرح بنیادی طورپر اور ٹیکنکلی  پہلے ہی سٹیج  پہ امریکہ یہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہار گیا ہے۔

 اب دوسری سٹیج کو دیکھنا ہے کہ کھل کے جنگ ہوتی ہے یا نہیں اگر ہوتی ہے تب بھی امریکہ کی ہار ہے اگر نہیں ہوتی ہے تب بھی امریکہ کی ہار ہے ۔

سوال :اگر جنگ نہیں ہوتی تو کس طرح سے امریکہ کی ہار ہے ؟

ج)امریکہ نے جو بھی ابھی تک گیم پلان بنایا تھا شام میں وہ ہر مرحلے میں ناکام ہوا۔ سات سال پہلے جو سنیریو شام میں بنایا تھا کہ بشارلااسد حکومت کو گرانے کیلئے اور دہشتگردوں کو پرورش کرکے وہاں ان کے لئے ہر قسم کی انوسمنٹ کی مگر دنیا نے دیکھا کہ جو بھی اس نے اس حوالے سے ٹاسک فریم کیا  اس میں اس کو کوئی کامیابی حاصل  نہیں ہوئی۔

آپ  دیکھیں، اس وقت جب  سیریا ان تمام حملوں کےساتھ نمٹنے کیلئے تیار نہیں تھا اس کے باوجود وہ اچھی طرح سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگیا جبکہ اس کے ہاتھ  سے پورا ملک سمجھو نکل گیا تھا لیکن وہ اپنے ملک کو واپس لانے میں  کامیاب ہوگیا۔ اور آخر میں یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ شام کا معاملہ تجارت کا تھا،امریکہ اپنے تجارتی مفادات کے لئے حکومت مخالف تنظیموں کی مدد کرتا رہا ہے۔ٹرمپ چونکہ ایک تاجر ہے زیادہ تجارت کے زوائے سے مسائل کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے حال ہی میں یہ بات کہی کہ ہم شام کو چھوڑ رہے ہیں۔ جبکہ  وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ جو  سعودیہ کا ناپختہ ولی عہد ہے جو شام کا ہیرو بننا چاہتا ہے اس کے منھ سے یہ اگلوانا چاہا کہ جو اس پہ  خرچہ آتا ہے یہ آپ نے اُٹھانا ہے۔ تو ایسا ہوا  بھی۔ سعودیہ نے کہاکہ آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں کہ شام سے اپنی فوج نکالیں۔ امریکہ نے کہاتو آپ کو اس کیلئے پیسہ دینا پڑے گا اور سعودیہ نے کہا جی ہاں ہم دیں گے۔ تو وہاں پر بھی ٹرامپ اپنی بزنس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اب  اگر جنگ نہیں ہوتی ہے  تو امریکہ پہ سوال پہ سوال اٹھنا شروع ہو جائے گا، اگر امریکہ سوپر پاور ہے وہ شام سے کیوں ڈر گیا وغیرہ۔امریکہ جس عنوان سے، جو بالادستی کا دعوی کرتا ہے،جو فوجی بالادستی بتاتا ہے اس کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ جائے گا کہ پھر امریکہ کی کون سی بالا دستی ہے  وغیرہ ۔تو اسطرح  امریکی سوپر میسی بہت برُی طرح سے پٹ جائے گی ،اگر جنگ نہیں ہوگی۔

اب  اگر جنگ ہوگی تو امریکہ کی پول کھل جائے گی وہ اپنے کسی بھی مقصد کو حاصل نہیں کر پائے گا۔

اسطرح اگر جنگ نہیں بھی ہوتی ہے  تب بھی میدانی طور پر امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور جو دبہ دبہ ابھی تک انہوں نے  ہالی ووڈ فلموں کے ذریعے سے ،ایک امپریشن  قائم کیا ہوا  ہے کہ امریکہ  بہت بڑی طاقت ہے اس کی پول کھل جائے گی کہ  وہ جنگ چھیڑ نہ سکا اور شام میں ایسی کیا بات ہے کہ امریکہ اتنی جرت نہیں کرسکا وغیرہ۔ گویا اگر  امریکہ جنگ  چھیڑے گا تب بھی اس کی ہار ہوگی اور اگروہ  نہیں بھی جنگ چھیڑے گا پھر بھی اس کی بینڈ بج جائےگئی ۔

سوال:اگر  جنگ چھڑ جاتی ہے کیا اس سے اسرائیل  کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟

ج)امام خامنہ ای نے فرمایا کہ اگلے پچیس سال نہیں دیکھے گا اسرائیل ۔اور  اسرائیل کے پاس ابھی دوآپشن ہیں؛ ایک دم مرنا اور دوسرا آہستہ آہستہ  مرنا ہے اورتیسر ا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر جنگ چھڑتی ہے تو سب سے پہلی فرصت میں اسرائیل کیلئے الٹی گنتی شروع ہو جائے گی اور  منٹوں یا گھنٹوں میں بالکل نیست نابود ہوجائےگا اور اگر جنگ نہیں چھڑتی ہے تو تھوڑی دیر کیلئے اسرائیل جی سکے گا۔

سوال : تھوڑی وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ اگر جنگ چھڑتی ہے  یا نہیں چھڑتی ہے دونوں صورتوں میں کس طرح اسرائیل  تباہ ہوگا؟

ج) فلسطین میں جو حماس اور غزہ پٹی میں مقاومتی محور سرگرم ہے اور جو ابھی  تیسرا جمعہ تھا ہرجمعہ میں جو عوام کی بھر پور شرکت کے ساتھ واپسی کا احتجاج نامی مظاہروں میں دیکھنے کو ملتا  ہے جو اس میں ابھی نئی جان آگئی ہے خاص کر ٹرمپ  کے بیان کے بعد جس میں ٹرمپ نے  قدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیا جس کیلئے سعودی عرب بہت ہی ہاتھ پیر ماررہا ہے کہ یہ معاملہ ہو جائے کیونکہ سعودیہ ولیعہد کو ابھی یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ  سعودی عرب ، اسرائیل کو تسلیم کرے، مگر اس کا جو   الٹا اثر یہ نکلا کہ  اسرائیل کے خلاف پوری  نفرت عرب دنیا میں ابھرنے لگی، سعودیہ کے خلاف آواز بھڑک اٹھی ہے۔ اب جو کسی زمانے میں صرف امام خمینیؒ  اسرائیل کی نابودی کی بات کررہے تھے اور پھر امام خامنہ ای نے اس نعرےکو زندہ رکھا اب آج فلسطین کا بچہ بچہ عملی طورپر اسرائیل کی نابودی کا بیڑا اٹھائے ہے، وہ  میدان میں بڑی ہی کامیابی کے ساتھ آگے بڑ رہے ہیں۔اب ان کے بغل میں شام بھی مضبوط ہوگیا ہے۔ ان کے بغل میں حزب اللہ لبنان پوری طرح شامل ہے ۔حشد الشعبی عراق نے بھی کہاکہ ہم  آپ کے بغل میں ہی ہیں۔  نہ صرف حشد الشعبی عراق کہہ رہا ہے بلکہ حوثی یمن نے کہاکہ اگر ہم سعودیہ کے ہاتھوں مر رہے ہیں،   پٹ رہے ہیں مگر ہم  فلسطینی مسلمانوں  کے شانہ بہ شانہ  ہیں اوران کےساتھ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ تو عملی طورپر اسرائیل کی نابودی کےسارے مقدمات فراہم ہیں۔ اس میں وقت تو لگے گا لیکن اگر جنگ ہوتی ہے تو حالات میں تیزی آئے گی کیونکہ اس بیچ  اسرائیل نے تیفور ائیر بیس پر حملہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے  ۔گویا  اسرائیل نے جو  فضائی بیس پر حملہ کیا اس نے  اپنے پیروں پہ کلہاڑی ماری ہے۔

سوال:کیا اسرائیل ایران کے ساتھ دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار ہو رہا ہے ؟

ج)بالکل،ایسا ہی لگتا ہے ۔ کیونکہ جب  2015ء میں اسرائیل کی ایک ائیر سٹرائیک سے سپاہ پاسداران ایران کے کچھ سپاہی شہید ہوگئے تو اس پہ اسرائیل نے بلافاصلہ بیان دیا  کہ سپاہ پاسداران کو ٹارگیٹ بنانا ہمارا مقصد نہیں تھا۔ مگر اب کے بار اسرائیل نے اسی جگہ کو ٹارگیٹ بنایا جس کے بارے میں  اسرائیل کو بخوبی معلوم تھا کہ وہاں ایرانی ہیں۔ کیا ان سے چوک ہوگئی ہےیا نہیں لیکن اب انہوں نے ڈریکٹ ایران سے  چھیڑ لی ہے اور ایران  اس موضوع کو لیکر خاموش نہیں بیٹھےگا۔

جب ایران کہہ رہا ہے کہ میں کچھ کرونگا وہ کرکے دکھاتا ہے وہ امریکہ یاسعودی عرب کی طرح کہتا کچھ اور کرتا کچھ اور نہیں ہے ۔امریکہ نے کہا کہ عراق میں  ماس ڈسٹرکشن ویپن ہے پھر کہا؛ انفارمشین غلط تھی۔  ابھی شام کے بارے  میں کہہ رہے ہیں کہ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کل کہیں گے کہ انفارمیشن غلط تھی۔ایران اس قسم کی کاروائی نہیں کرسکتا ہے۔

کالر : یہ مصر اورسعودیہ والے مزید گمراہ کرنے کی کوشش  کرتے ہیں ،ہر وقت سنی ورلڈ کی ساخت کو نقصان پہنچایا، اب پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ طاغوت کےساتھ لڑائی  صرف  اورصرف  اہلبیت ؑ کے ماننے والے کرتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی سارے طاغوت سعودیہ اور مصر کی سربراہی میں امریکہ اور اسرائیل کے پیچھے نظر آرہے ہیں یہ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ قرآن تو کہتا ہے کہ طاغوت کے خلاف آواز اُٹھاو،ان عرب مسلمان حکام کے اندر نہ عربی غیرت نہ ہی مسلمانی کیوں نظر نہیں آتی ہے؟

ج) مجھے تو  بڑی انقلابی فرق نظرا ٓرہی ہے  کہ آج جس کا خلاصہ ابھی سیّد مقاومت  میری  جان ان پہ قربان سید حسن نصراللہ نے یہی جملہ سعودیہ ولی عہد کے بارے میں اپنے فصیح وبلیغ  انداز میں بیان کیا لیکن خلاصہ یہی تھا کہ  جو اس بزرگ کالرنے کہا کہ آپ کی عربیت کہاں  گئی، آپ کی عربیت یہی رہی کہ آپ  مغرب کو پیسہ دے رہے ہیں کہ وہ آکےعربوں کو مارے۔جبکہ اکثر عرب اتنے بد بخت اورفقیر  ہوتے جارہے ہیں، ان کا خیال نہیں کرتے ہیں ان کے اقتصادی مسائل کو حل کرنے  کی طرف دھیان نہیں دیتے ہیں مگر آپ کی عربیت یہی رہی ہے کہ امریکہ کو سنگین اقتصادی مسائل میں نجات دلا سکیں۔

اینکر: کیا امام حسین ؑ نے  یزیدی فوج سے یہ جملہ نہیں کہاتھا کہ اگر آپ میں مسلمانیت نہیں ہے تو کم سے کم عربیت ہی کی لاج رکھو؟

ج) بالکل  ،میں اسی بات پہ اونگا۔ کہ اسی طرح جو یہ امریکہ کا ایک تصورتھا اس کے بارے میں جو منجھے ہوئےسیاستدان ہیں وہ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ امریکہ کھوکھلا ہوچکا ہے، اور ابھی آپ دیکھیں کہ  عام انسان بھی اسی تحلیل  پر پہنچا ہےکہ عوام جس  امریکہ سے ہم ڈرتے تھے کہ وہ دنیا کی بڑی طاقت ہے، مگر آخر کار  اس کی طاقت سمجھ گئے ہیں کہ  یہ ویت نام پہ حملہ کرسکتا مگر جیت نہیں سکتا ہے،  یہ افغانستان پہ حملہ کرسکتا ہے لیکن جیت نہیں سکتاہے، یہ یمن پہ حملہ کرسکتا ہے لیکن جیت نہیں سکتا۔  کمزورں پہ حملہ کرنا اس کا طرہ امتیاز بن گیا ہےجبکہ ان کمزوروں کے ہاتھوں آخر کار پٹ جاتا ہے۔  ابھی اس کو کوئی کامیابی نہیں مل پا رہی ہے یعنی  امریکہ  کی روز بہ روز پول کھلتی جارہی ہے۔ جو اس نے امپرشن دیا تھا کہ امریکہ کے دست قدرت میں سب کچھ ہے،لیکن میدانی صورتحال بدل چکے ہیں۔

اینکر:  اب سعودیہ کے مفتیوں کو کون سمجھائے وہ تو امریکہ کو ہی خدا سمجھتے ہیں!

اب  میں اسی کربلا کے پیغام  پہ اونگا، حضرت زینب  سلام اللہ علیہا نے  جس تحریک کو زندہ رکھا الحمدللہ  ہمارے زمانے میں امام خمینیؒ  کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران میں جو انقلاب رونما ہوا اس نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فلسطے کو سمجھ کر دنیا کیلئےعیاں کردیا ہے۔

 اب ایسا نہیں کہ اس زمانے میں دو ایسی تصویریں سامنے جائے جس میں قاتل اور قتول کے مشترک کاموں ڈھال بناکر ایسی صورت پیش کی جائے کہ جس سے انسانیت کا قتل کرنے والا اور انسانیت کو بچانے والے کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوجائے۔یزیدی فوج  روزہ بھی رکھتے تھے نماز یں بھی پڑھتے تھے،شمر کی کبھی روزے قضا نہیں ہوئے تھے اور ان کے جرم کو جنایت پر اندیکھی کرکے ان کے روزے اور نمازوں کی بات کریں،  جناب زینب سلام اللہ علیہا نے  دنیا کےسامنے ان کی اصلیت سامنے رکھی۔ اب جو اسلامی انقلاب آیا جو کہ کربلا کے انقلاب کی کڑی ہے اسی لئے کربلا والے چاہئے وہ شیعہ ہے  یاسنی، فلسطین میں ابھی کربلا والے ہیں اگرچہ سنی ہیں، یمن میں کربلا والے ہیں اگرچہ سنی ہیں اور ایران ،عراق  ، حزب اللہ شیعہ  کربلا والے ہیں جہادی ہونا ان کی میراث ہے شیعہ ہے اور سنی حتیٰ غیر مسلمان بھی جب طاغوت کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے کربلائی ہے۔چونکہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کی عملی سیرت پر  عمل کر کے  میدان میں آگئے ہیں  اسی وجہ سے  مظلوم کی بالادستی نظر آرہی ہے اورظالم  کا خاتمہ نطر آرہا ہے ۔

ایک اورکالر :کیا شیعہ سنی مل کر دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں؟

ج) یہ امت کے دل کی بات ہے، اس میں شیعہ سنی نہیں ہے اور حاکم حکمران شیعہ ہو یا سنی ہو جب طاغوتی ہو تو اس کا حشر ایک جیسا ہوگا۔جوحشر رضا شاہ پہلوی کا ہوا وہی حشر سعودی بادشاہ کا ہوگا اور جو بن سلمان  نے اپنا چہرہ دکھا یا اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایران میں اسلامی انقلاب آیا  اسی طرح مستقبل میں سعودی عرب میں بھی اسلامی انقلاب  آئےگا ۔اورجب یہاں ایران میں طاغوتی حاکم تھا وہ شیعہ ہوکے اہلبیت ؑ پہ رونے والا ہوکے  یہاں کے خواتین کا پردہ نوچ کر پردہ کرنے کی  اجازت نہیں دے رہا تھا،  بالکل وہی سب کچھ جو ابھی بن سلمان کرنے جارہاہے یہ پہلوی شاہ نے ایران  میں عملا کردکھایا ہے مگر اس کا آخر نتیجہ کیا ہوگیا؟ یہ وہابی اورآل سعود ان کاموں سے اپنی قبرخود کھود رہے ہیں۔ جو امریکہ نے شاہ ایران کے ساتھ کیا وہی شاہ سعودی عرب سے بھی کریں گے۔

یہ جووہابیت  ہے جوصرف مسلمانوں کو شیعہ اور سنی میں بانٹ کرصرف قتل و غارت کا بازار گرم رکھنے میں کامیاب رہا اور آخرکار سعودی ولیعہد نے اعتراف بھی کیا کہ مغرب کے کہنے پر اس عقیدے کو پروان چڑایا گیا۔جبکہ امام خمینیؒؒ  پہلے ہی  فرمایا تھا کہ جو آپ کو شیعہ سنی نام سے لڑوارہے ہیں یہ نہ شیعہ  ہیں اورناہی سنی  بلکہ یہ مشترکہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔

صیہونیت اسلام کا کھلا دشمن ہے۔ امریکہ بڑا شیطان ہے جس سے  ہم سب کو خبردار رہناہے ۔الحمدللہ امت بیدار ہوگئی  ہے   اب اپنے دشمن کو پہچان رہے ہیں کہ اگر مسلمان کے لبادے میں بھی ہو، مگر وہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار کو پہنچاتے ہیں، یہ بری خوش قسمتی ہے یہ وہ دور ہے جس سے ہم بڑے اسلامی انقلاب کے  دن  نزدیک ہونے کو دیکھ رہے ہیں ایسے میں جب مسلمان اپنے دوست اوردشمن کو پہنچانے  میں کامیاب ہوتے ہیں تو مسلمانوں کا مستقبل تابناک ہونا یقینی ہے ۔

سوال: شیعوں کے خلاف زہریلے پروپگنڈے کے پیش نظر کسطرح سے سنی ورلڈ کو مطمعین کریں گے؟

ج) یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیا بنی امیہ حکومت نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ ثابت نہیں کردیا تھا کہ وہ بے نمازی تھے، وہ چور تھے معاذاللہ۔ انہوں نے ثابت نہیں کیا کہ امام حسین علیہ السلام باغی  تھے، وہ واجب القتل تھے۔ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار سے حسین علیہ السلام کا گلا کاٹا گیا۔ تو یہ  نئی بات نہیں ہے پہلے سے ہی طاغوت کا طریقہ کار جھوٹ کو سچ پیش کرکے کام نکالنا رہا ہے۔ جس طرح  امریکہ  کھیل کھیل رہا ہے ۔ ایران پر امریکہ نے خود صدام کے ذریعہ  کمیکل ویپن استعمال کئے اس کیلئے اس  کو مواخذہ نہیں ہے ۔ عراق کو تباہ کرکے کہاکہ وہاں ماس ڈسٹرکشن  ویپن ہے  جو کہ نہیں تھے۔ ا ورشام میں  اقوام متحدہ  نے خود  شام  میں کیمیائی ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کا صفایا کیا اور خود سرٹیفکیٹ دی کہ یہاں پر  اب کوئی کمیکل ویپن بنانے کی  فیکڑی نہیں ہے ۔اوراس وقت  جب شام دہشتکردی کا مقابلہ کرنے کیلئے طاقت کے  انتہاپر کامیابی کی چونٹی پر ہے اس وقت  اس پر الزام لگایا رہے ہیں کہ وہ اپنے نہتے شہریوں کو ماررہا ہے۔

آپ دیکھیں اس کی  سب سے بڑی مثال فلسطین ہے فلسطین میں ایک بھی شیعہ نہیں ہے مگر صرف شیعہ ان کیلئے جان کی بازی لگا بیٹھا ہے ۔ ایران و عراق سے حزب اللہ  لبنان تک سبھی شیعہ فلسطین کے سنیوں کے دفاع کے لئے میدان میں ہیں  اگر فلسطینی سنی کہیں گے کہ شیعہ ہمارا دشمن ہے تو معنی رکھتا ہے یا یمن کے مظلوم اہلسنت کہے کہ شیعہ ہمارا دشمن ہے تو معنی رکھتا ہے۔ اگر دنیا الزام لگار ہا ہے کہ یمن کو میزائل ایران دے رہا ہے اورامام خامنہ ای  صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ میں ان مظلوموں کو  ایک  کیا سینکڑوں میزائل دیتا مگر کیا کریں سارے راستے بند ہیں۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں  ہے۔شیعہ کا جرم یہ ہے کہ وہ مظلوم کی کھل کے حمایت کرتاہے۔

ایک اورکالر :وہابیت کے اسلام دشمن کارکردگی کے پیش نظر کیا خانہ کعبہ کے وہابی  پیش نمازی کے پیچھے نماز ادا کی جاسکتی ہے جبکہ خطبہ بھی حکومت لکھ کے دیتی ہے؟

ایک اور کالر: باقی مسلمان ممالک سے روس بہتر ہے جو مسلمانوں کا ساتھ دے رہا ہے۔

ج)جہاں تک خانہ کعبہ کے پیش نمازی کا سوال ہے بالکل، ہمیں ان کےپیچھے نماز پڑھنی ہے یہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت رہی ہے یہ  سوال نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت کیوں خطبہ لکھ کے دیتی ہےاگر حکومت سعودیہ خود خطبہ لکھتی پھر بھی کوئی بات تھی مگر ولیعہد بن سلمان کے بقول  امریکہ اور مغرب کے ایما پر سب کچھ ہورہا ہے۔ سوال یہاں ہونا چاہئے کہ یہ کونسا ملک ہے جو خادمین  حرمین شریفین  ہونے کا مدعی ہے لیکن جس کی  پوری  بھاگ دوڑ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں  ہیں؟ اور اس پر مسلمان  زبان نہیں کھول پارہے ہیں آخر ماجرہ کیا ہے؟

 اور  جو ہمارے دوسرے محترم کالر نے روس کی بات کی ، الحمداللہ  یہ جو روس نے اس مقاومت کا ساتھ دیا یہ اس لئے نہیں کہ اس کو مسلمانوں پر کوئی  ترس آگیا اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی ہے بلکہ روس نے بخوبی محسوس کرلیا کہ امریکہ کےساتھ ٹکر لینے والے مجاہد ایران والے ہیں تب جاکے میدان میں آگیا ہے۔  امریکہ نے  چونکہ پہلے خود سویت یونین  کی بینڈ بجائی تھی اور تب سے امریکہ سے انتقام لینے کی کوشش میں ہے مگر اب  جب مسلمانوں کی کربلائی  حرارت دیکھی تب اس کو اطمنان ہوگیا اور فیصلہ کیا کہ  ان  کےساتھ چل کے اپنی آبرو بھی رکھنی ہے اور امریکہ سے انتقام بھی لینا ہے اس طرح  روس نے کوئی احسان نہیں کیا کہ وہ مقاومتی  خیمے  میں وہ شامل ہوگیا بلکہ اس نے اپنے برابری کا  ساتھی  پایا کہ وہ   طاقت رکھتے ہیں  اگرروس کے پاس اسلحہ ہے مگر مقاومتی محور کے پاس عسکری قوت کے علاوہ جو ایمان ہےاور قوت ایمانی ہے استقامت ہے وہ اس طاقت کو مکمل کرتے ہیں اس لئے میدان میں ساتھ دے رہے ہیں ۔

سوال:شام میں امریکی فوج کے انخلا کا کس حد تک ممکن ہے؟

ج)امریکہ شام سے پوری طرح اپنا فوجی انخلا کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہےکیونکہ حکومت شام نے وہاں اسے چھپنے کیلئے اب جگہ باقی بھی نہیں چھوڑی ہے  اور بہانے کی تلاش میں ہے کہ جب تک مخمصے میں پھنسا ہوا ہے اس وقت تک سعودیہ کو کس طرح مزید لوٹ سکے گا جس طرح ٹرمپ نے صدارتی الیکشن  کے دوران سعودی عرب کو  دودھ دینے والی گائے تشبیہ دے کر کہا کہ  جب تک دودھ دے دودھ لیتے رہیں گے اور جب دودھ دینا بند کردے تو اس کا گوشت کھائیں گے۔ تو اس بات کا  منہ بولتا ثبوت شام سے امریکی فوج نکالنے کا اعلان اور سعودی عرب کی طرف سے وہاں رکنے کی درخواست کہ امریکہ شام سے فوج نہ نکالے اور اس پر امریکہ نے سعودیہ سے کہا کہ اس کا بڑا خرچہ آتا ہے اگر خرچہ دیتے ہو روکیں گے اور سعودیہ نے ہاں بھر لی۔اس طرح دودھ لینے اور گوشت کھانے کا کام ہے ۔جبکہ امریکہ کو پتہ ہے کہ وہ چونکہ شام میں کامیاب نہیں ہوا ہے اسے آج یا کل وہاں سے اپنا بوریاں بستر گول کرکے وہاں سے نکل جانا ہے ۔

سوال: کیا عراق سے بھی امریکی افواج کا انخلا ہوگا؟

ج) جی نہ صرف شام سے امریکی افواج کو نکلنا ہے بلکہ عراق سے بھی اسے نکلنا ہی ہےاور دیر سویر مشرق زمین سے نکال باہر کیا جائے گا۔مشرق زمین پر رونما ہونے والے انقلابی حالات امت کو اس خوشخبری کی نوید دے رہی  ہے کہ جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ؛ مشرق زمین سے ہی ایک قوم اُٹھے گی  جو امام مہدی آخرالزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مدد کریں گے اور مہدی کا دور شروع ہوجائےگا ،اوران شاءاللہ ہم اسی امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف  کے انقلاب کےد ور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور امت میں وہ شعور  بڑھتا نظرآرہا ہے وہ طواغیت اور ان کے آلہ کار کو سمجھنے لگے ہیں اور امت اسلامی پر مسلط جو یہ  اسلام دشمن طاقوں کے آلے کار، اسلام کا استحصال کرنے والے حکام کا  دور اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ جو کل تک ہم  سائنس میں پیچھے تھے، ٹیکنالوجی میں پیچھے تھے اس پسماندگی کا خاتمہ شروع ہوگیا اور آج کل ہمیں کرسچن اورلاطینی امریکی ممالک  کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لئے فیکڑیاں لگاؤ،اپنی سائنسی پیشرفت سے ہمیں مستفید کرو،گاڑیاں ، جہاز وغیرہ  بناکے دو۔ اب اسلام دوبارہ اپنی اصلی شکل میں  ہر میدان میں واپس لوٹ کر سائنس میں نئی جان پیدا کرنے کا عزم لئے میدان میں ظاہر ہوا ہے،جس سے امریکہ کوپریشانی ہے۔ امریکہ کو مسلمانوں کی عسکری سوپر میسی نہ ملٹری بالا دستی سے تکلیف ہے بلکہ سائنس اوراورٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی سوپرمیسی سے تکلیف کہ جس سے وہ اپنی سوپرمیسی ختم ہوتی محسوس کررہا  ہے۔

سوال : مگر  جو خیری وشری من اللہ تعالی  ماننے والے ہیں ان کا کیا ہوگا وہ تو اس عقیدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں؟

ج) ان کو طواغیت اور ظالموں کا حمایتی دین سمجھایا گیا ہے ، جس طرح  سعودی ولی عہد بن سلمان نے بتایا کہ   امریکہ نے کہاتھاکہ  وہابیت کو پھیلاؤ ہم نے پھیلایا ، اسی طرح یہ لوگ بھی ایک دن  اس بات کا اعتراف کریں گے کہ خیری و شری من اللہ تعالی کو اسلامی عقیدے میں شامل کرنا کس طاغوت نے کہاتھا۔جبکہ اسلام کا طاغوت کے ساتھ دور  کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ عملی  طورپرجب خالص اسلام ہر میدان میں آجائے تو مسائل خودبخود صاف ہوجائیں گے ۔

سوال : نوجوانوں کیلئے "خیری و شری من اللہ " پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیجئےکہ موضوع کیا ہے؟

ج)یہ  بنی امیہ کا سیاسی فلسفہ ہے "الخیر والشر من اللہ" جس کو پوری طرح سے امیر شام نے بڑی وسعت کے ساتھ اس کو  پروان چڑھایا اور اسی کو ڈھال بناکے ہر ظلم کے لئے  یہی فلسفہ بیان ہوتا رہا کہ  جب کوئی  ظالم ،ظلم کرتا تو کہتا میں کچھ نہیں کررہا ہوں  یہ اللہ مجھ سے کرواتا ہے، اس نے مجھے یہ اختیارات دیے ہیں،  اب میں کیا کروں! اگر  کسی کے حق میں ٹھیک ہورہا ہے یہ اللہ کروارہا ہے اور اگر کسی کو ظلم  ہورہا ہے یہ اللہ کروارہا ہے۔ تو اس  طریقے سے ظالموں کے لئے ہاتھ کھلے رکھے گئے مگر اہلبیت  علیہم السلام نے جس سیرت کو  زندہ رکھا  کہ  اللہ نے جس کو رحمۃ للعالمین بناکے بھیجا  اورجس نے  کہاکہ اگر آپ  کسی پرندے کو ناحق ماریں گے،  کسی کو ازیت دیں گے تواللہ اس کو اپنے جنت کی خوشبو سونگنا نصیب نہیں کرے گاچہ بسا کہ ظلم کرے۔اسلام تو ہر ذرے کی سالمیت کی ضمانت دینے والا ہے اسی دین کو وحشی اور ظالم اوردرندہ مذہب بنایا گیا ہے ۔یہ" خیری شری "فلسفہ پروان چڑھانے سے مسلمانوں میں  ظالم بادشاہ زیادہ رہے اور عادل بادشاہ کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

 مگر الحمداللہ اب  اس خیری شری من اللہ فلسفے کی بھی پول کھولتی جارہی ہے۔ اب مسلمان کا عدل اورعدالت  کے علاوہ  کوئی معیار نہیں چلنے والا ہے، معیار صرف میدانی عمل ہے یعنی وہی تقویٰ  اورعدالت ہے اورمیدانی عمل یعنی"فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ ﴿البقرة، 256"  ہے  کہ جو طاغوت  کےساتھ ٹکر لینے والا ہوگا وہی صحیح مسلمان ہے ۔

 

برچسب ها شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی