سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۱

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امت کو اپنے رات کو دفن کرنے اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت سے ایک پیغام دینا چا ہتی ہیں /اسلام میں رشتہ داری سے مراد تقوی ہے

 اردو مقالات مکالمات اھلبیت ع اھلبیت ع حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا مذھبی سیاسی جمید الاول جمید الثانی ھدایت ٹی وی کے ساتھ

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  امت کو اپنے رات  کو دفن کرنے اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت سے ایک پیغام دینا چا ہتی ہیں /اسلام میں رشتہ داری سے مراد تقوی  ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  امت کو اپنے رات  کو دفن کرنے اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت سے ایک پیغام دینا چا ہتی ہیں /اسلام میں رشتہ داری سے مراد تقوی  ہے

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  امت کو اپنے رات  کو دفن کرنے اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت سے ایک پیغام دینا چا ہتی ہیں کہ قرآ ن کو پا لو ، رسول کو پا لو ایسا نہ ہو کہ آ پ تک  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات توڑ مروڈ کے پیش کی جا ئے آ پ بیدار ہو جاؤ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ مہاجر عبدالحسین عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران  ایام فاطمیہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

 

س؛ قبلہ اس وقت ہماری گفتگو کئی یوم سے سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کے اوپر جاری و ساری ہے ہم نےان کی فضائل کے اوپر بات کی کہ قرآن نے ان کی ذکر کی ہے اس پر بات کی مگر یقیناً یہ ایک سیگمنٹ اور یہ پروگرام ان تمام موضوعات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ چودہ سو سال ہوگئے ان شخصیات کے اوپر بات ہوتے ہوئے اور ابھی تک جو ہے جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو  نئی نسل کے لئے نئی بات سامنے آتی ہے کیونکہ معصومین کی  شخصیات ہی ایسی جامع ہیں، تو آج بھی ہم چاہیں گے کہ کچھ اس وقت کا اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں کے اوپر گفتگو کی جائے ۔ تو میں چاہوں گا کہ آپ  ان کی  سیرت طیبہ پر گفتگو کا آغاذ فرمائیں؟

 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ[1]۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى [2]

ج)پہلے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام فاطمیہ کی  مناسبت سے صاحب کون ومکان امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں بالخصوص اور آپ کے نائب حضرت امام خامنہ ای اور جملہ مراجع اعظام تقلید اور دنیا بھر کے سبھی با بصیرت وہ انسان جو سیدۃ النساء العالمین فاطمہ الزہرا  سلام اللہ علیہا  کی شخصیت سے آشنا ہیں اور ان سے عقیدت رکھتے  ہیں کی خدمت میں عرض تسلیت کرتے ہوئے ، آج اس مناسبت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حضرت فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کو ہر زمانے میں اور زیادہ سے زیادہ زاویوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شخصیت ہی کچھ ایسی ہے۔ 

ولادت؛

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت  روز جمعہ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال اور معراج کے تیسرے سال بعد، مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے۔

فرزندان رسولخدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم؛

رسولخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 8 اولاد تھے:ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے 7 اور ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ سے ایک۔

 بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد کی ولادتیں؛

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے بعثت سے پہلے جن4 اولادوں کی پیدائش ہوئی ان کے نام اسطرح ہیں:قاسم۔ زینب۔ امّ کلثوم۔ رقیّه۔

اور بعثت کے بعد جن 3 اولادوں کی پیدائش ہوئی ان کے نام اسطرح ہیں: طاهر۔ عبداللّه۔ فاطمه زہراء سلام اللہ علیہا.

اور بعثت کے بعد حضرت خدیجہ کے بغیر  جوکسی دوسری زوجہ سے اولاد نصیب ہوئی وہ حضرت ماریہ قبطیہ ہیں اور اس فرزند کا نام :ابراہیم ہے۔

اسطرح بعثت اور اعلان رسالت کے بعد رسولخدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے 3 اولاد ہوئے 2 لڑکے(طاہر اور عبداللہ) اور  ایک  لڑکی(حضرت فاطمہ الزہراء) ۔ بعثت کے 13 سال بعد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا وفات کر گئی اور اسکے بعد آنحضرت نے کئی بیواؤں کو اپنے عقد میں لیا جن میں صرف ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ سےایک  لڑ کا (ابراہیم)پیداہوا۔ جبکہ اسلام سے پہلے  ایک لڑکا (قاسم) اور تین لڑکیاں (زینب ، ام کلثوم اور رقیہ)کی پیدائش ہوئی تھی اور قاسم طفولیت میں ہی فوت ہو گئے اور زینب ، ام کلثوم اور رقیہ کی دور جاہلیت میں شادی ہو چکی تھی اور اپنے شوہروں کے گھروں کو روانہ ہو چکی تھی(ان تین صاحبزادیوں نے اسلام کو اپنے شوہروں کے گھروں سے حاصل کیا نہ کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے)۔

اسطرح رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 8 اولادوں میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اہمیت اور عظمیت خود بخود عیاں ہو جاتی ہے۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا امتیاز صرف رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ہونا نہیں ہےبلکہ کٹھن ترین پانچ سالہ  آغاز وحی ،اعلان رسالت اور معراج عالم کا نچوڑ ہے۔فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا  کی شخصیت  کو اس زاوئے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس وجہ سے فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اتنی عظمت حا صل ہو ئی ہے جس نے انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا وارث و کوثر بنا دیا ہے ۔

اسی لئے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو دیکھنے کے لئے دو قسم کی آنکھیں ملتی ہیں  ایک الہی اور دوسری شیطانی۔

الہی آنکھیں فاطمہ زہراء کو رسولخدا خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جوہر جو کہ قرآن اور اسلام کو تحریف ہونے سے بچانے کا سبب اور قرآن ناطق سمجھتے ہیں اور شیطانی آنکھیں صرف ایک بیٹی کہ جس سے عرب جاہلیت کے بقول جس سے باپ کا رشتہ ٹوٹتا ہے تو جبکہ قرآن اسے کوثر کہہ کر یاد کرتا ہے۔

جو ہم محمد وآل محمد یا اہلبیت علیہم السلام کا ورد کرتے رہتے ہیں اس سے مراد صرف 14 معصومین علیہم السلام ہیں نہ کہ ہر کوئی رشتہ دار۔

 کیونکہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے رشتہ داری کا معیار قرآن ہے  اور قرآن کا معیار اس پر عملی کردار ہے۔

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنے عمل سے کردار ، رفتار و گفتار سے اور اپنے معصوم اولادوں سے  اپنے قرآنی معیار کو ثابت کر دکھایا نہ صرف رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خونی رشتے کے طور پر۔

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل پرچھائی ہے۔ جبکہ خود اللہ سبحان و تعالی نے فرمایا ہے کہ عوام الناس رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے نہیں بن سکتے اسلئے آنحضرت میں کسی بھی ایک صفت کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائیں ؛

"لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "(الأحزاب/21)

 اس آیت میں یہ جو " فِی " جوہے  یہاں پہ ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکمل پرچھائی بننا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے  اسلئے آنحضور سے میں کسی بھی صفت کو اپنے لئے سرمشق بناو۔ نمونہ کامل یہ چودہ معصو مین ہیں ایک ہی نور ہیں اور فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان چو دہ نو روں میں سے ایک نور ہے جسے قر آ ن مجید میں النساء کہہ کے ذکر گیا جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پو ری تر جما نی کر تے ہیں جیسے کہ قر آ ن ایک طرف کہتا ہے کہ؛

" مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِیینَ"(الأحزاب/40)

  یعنی آنحضورکسی کا باپ نہیں ہے مگر دوسری طرف فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں (أمّ أبِیْها ) کہاہے ۔ یعنی یہ اسقدر کم سنی کے باوجود سبھی انبیاء کی  ماں کہلانے کی صلا حیت رکھتی ہے۔تو یہ جا مع عظمت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہو نے کے  عنوان سے ہی نہیں ہو سکتی ہے  بلکہ  یہ تو مکمل پر چھا ئی ہے رسو ل خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔  یہ قر آ ن کی مکمل تعبیر و تفسیر ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  اور آپ کی  معصوم اولادوں سے قر آ ن اور وحدا نیت صاحب قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔آپ سلام اللہ علیہا کی اولا دوں کو ہی لیں امام حسن  علیہ السلام کو لیں، امام حسین علیہ السلام  کو لیں۔ آپ کے سقط شدہ حضرت محسن علیہ السلام کو لیں جسکا نام رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود رکھا تھا۔ وہ بتا رہے ہیں کہ فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کس پیغام کی پیغمبر تھیں اور کس طرح سے وہ قر آ ن نا طق کی مجسمہ تھیں اور کس چیز نے آپ سلام اللہ علیہا کو سید ۃ النساء العالمین بنایااور اتنی سی کم عمر میں اتنی جامع کمالات حاصل کر نے والی خا تون کہ جسکا  کو ئی ثا نی نہیں ہے۔

 فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  ہر اعتبار سے بے نظیر ہیں۔  روا یات میں ہے کہ اگر خدا حضرت علی  علیہ السلام کو خلق نہیں کر تے تو فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کوئی ہم کفو نہیں تھا۔یعنی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک ایسی نو رانی شخصیت  ہیں وہ عالی ترین مقامات کا محور ہیں از  جملہ یہ کہ  وہ معراج کا نچوڑ ہے،کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معیار قرار دیتے تھے کہ جس سے فاطمہ راضی نہیں اسے میں راضی نہیں اور جس سے میں راضی نہیں اسے اللہ راضی نہیں۔

قَالَ رَسُولُ اللّهِ (صلی الله ‏علیه و آله): إِنَّ اللّهَ تَعَالَى یَغْضَبُ لِغَضَبِ‏ فَاطِمَةَ وَ یَرْضَى‏ لِرِضَاهَا۔ 

اور جب فاطمہ سلام اللہ علیہا  آ نحضرت کے حضو ر میں تشریف لاتی تھیں تو آ نحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکی تعظیم کیلئے کھڑ ے ہو جا تے تھے، جسکی کسی اور بیٹی کے تئیں کو ئی  ایسی مثال نہیں ملتی ہے اور نہ یہ ماں باپ کے رشتے میں اور نہ ہی عرب دنیا میں ایسی کوئی ریت  و روایت ملتی تھی کہ باپ اپنی بیٹی کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جا ئیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اس خاص مقام کا پتہ دیتے تھے کہ یہ فاطمہ کون ہیں اور میں معراج سے کیا لیکر آ یا ہوں اور یہ زمین پر کس نور کا نام ہے ۔

 اور یہی نہیں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیکھتےتھے تو ان کو سو نگھتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تم میں وہی خو شبو پا تا ہوں جو میں نے معراج میں ایک بہشتی درخت سے محسوس کی تھی ۔

اور دوسری  طرف فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ اتنی کم سنی کی عمر میں عر فان الہی کے جو دریچے فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا نے کھو ل دئے وہ اس مقدس وجود کا پتہ دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑ ھکر کہ جسکی طرف سیرہ نگار کم تو جہ دیتے ہیں وہ ہے آنحضور کے بعد جبر ئیل امین کا نازل ہو نا۔ یہ کو ئی چھو ٹی بات نہیں ہے کیو نکہ اگر جبر ئیل امین پیغمبر اکر م  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زمین پر نا زل ہو ئے تو صرف فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیلئے۔ اور جبر ئیل امین علیہ السلام حضرت فاطمہ کیلئے جو بھی پیغام لاتے تھے اسکے کا تب امیر المو منین علی علیہ السلام بنے،تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سمجھنے کیلئے ہمیں ان الٰہی پیغا مات  اور نشانات کو دیکھنا ہے ۔ جو اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  آنحضور کی ایک اکلوتی بیٹی تھی  اور کسی بھی دوسری بیٹی سے جس کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔

 

(س) قبلہ یہ جتنے بھی فضا ئل ہیں وہ شیعہ سنی کتب میں درج ہیں  اور ان تمام فضا ئل پر تمام فر قوں میں کلی اتفاق ہے اور ان سے کو ئی انکار نہیں کر تا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اُ مت نے ڑُ خ بد ل دیا،" غدیر" کی سند کو جھٹلایا اور پھر سیدۃ النساء العالمین کو در در پر دستک دینی پڑی اور ہر  کسی نے آپ کو پہچاننے سے انکا ر کیا ، کسی نے کہا میں بہرا ہو گیا ہوں ، کسی نے کہا میں اند ھا ہو گیا ہوں ،یہ کیا وجو ہات پیدا ہو ئیں اور جو سسٹم" ولایت" تھا  وہ نا فذ ہو تا تو دنیا کے مسلمان کس نہج پر ہو تے اسکے بارے میں بیان فر مائیں ۔

 

(ج) دیکھئے قر آ ن جو ہے یہ اسکا بین ثبوت ہے جسکی ابتدا فا تحة الکتاب سے ہوئی ہےکہ جس میں رحمت، رحمت ، رحمت کا ورد ہے۔ اگر ہم  انسانیت سوز واقعات دیکھتے ہیں اور بہت سارے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ الٰہی عذاب نا زل کیوں نہیں ہوتی، یعنی ایسی حالت ہوتی ہے کہ الہی عذاب نازل ہونا لازمی نظر آتی ہے مگر عذاب نازل نہیں ہوتی اسکی وجہ یہی ہے کہ  مسلمان شعوری اور لا شعوری طور پر جو قرآن و نماز پڑ ھتا ہے وہ خدا سے" رحم" ،"رحم"، "رحم" کی در خواست کر تا  رہتا ہے اور اس درخواست رحمت کی سبب عذاب الٰہی نا زل نہیں ہو تی اور رحم کی جو جا مع تر جمانی ہے وہ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ انہیں رحمت اللعا لمین بنا کے بھیجا گیا ہے؛

 "وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ(الأنبیاء/107)

 اور رحمۃ للعالمین کے او صیا جو بارہ ہیں صبح قیامت تک انکی قیادت خدا نے مقرر کر رکھی ہے وہ آنحضرت کے بعد اس رحمت کی کڑی ہیں اگر اس رحمت اور امامت کو اپنی جگہ پر رکھا جاتا تو قطعاً ساری دنیا اس رحمت سے لبر یز ہو تی اور؛

"إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا"(الواقعة/26)

 امن و سلامتی  کی فضا حاکم اور رحمت خدا ہر سو سرازیر ہوتی ۔

 حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک جامع شخصیت ہو تے ہوئے ہمیں یہی پیغام ملتا ہے کہ فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو جو شہید ولایت کہتے ہیں  یعنی آپ نے رحمت خدا کی حاکمیت اور امامت کی قیادت کے اجرا کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا ۔دیکھئے  وہ کب میدان میں نکلتی ہیں جب علی علیہ السلام سے بیعت لینے کیلئے زبر دستی کی جا تی ہے جنہیں رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین قرار دیا ہے اور یہ لقب صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ہے  تو اس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یہ بتا تی ہیں کہ امت کا کر دار کیا بنتا ہے اور مسلمانوں کا کر دار کیا بنتا ہے  یعنی علی ابن ابیٰ طالب علیہ السلام فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شو ہر ہے مگر فا طمہ سلام اللہ علیہا کی یہی رحمت و امامت  کی معرفت ہمیں پیغام دیتی ہے کہ اب ہمیں رحمت کو بچانا ہے امامت اور قر آ ن کے نو رانی پیغام کو عملی شکل میں دیکھنا  ہے تو ولایتمداری لازمی ہے۔ کیو نکہ علی ؑ نہ صرف فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شو ہر ہیں بلکہ امام وقت ہیں خلیفہ بلا فصل ہیں اور امام المو منین اور حجت خدا ہیں تو وہ ان کے دفاع کیلئے میدان میں اُ تریں۔

 تو یہاں پر یہ پتہ چلتا ہے کہ امت کو بیدار کر نے کیلئے کہ امامت اصول دین ہے اور آ پ کو امامت کی بقا کیلئے ولایت کیلئے اپنے آپ کو کیا بلکہ اپنے تمام متعلقات کو قر بان کر نے کیلئے تیار رکھنا ہے تب جاکے آپ حقیقی مو من اور مسلمان کہلا ئیں گے ۔اور فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا نے یہی کچھ عملی طور پر انجام دیا۔ اور جو وہ ہر در با میں گئی، یہی سنت اور سیرت زندہ رکھنے کیلئے کہ تمام مشکلات کا حل آ پ کے پا س امامت کو اصول دین ماننے سے ہے اور امامت کے قیام کیلئے لئے حالت قیام میں رہیں۔

امامت اور ولایت یعنی اللہ کے بندوں پر اللہ کے حکم کو نافذ کرنے والا اور  اسطرح امام قطعاً عادل اور معصوم  ہو نا چاہئے اور جسطرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ووسلم  اور قرآن نے اس امامت اور ولایت کی طرف  رہنمائی کی ہے۔ آپکو اس پر ڈ ٹے رہنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیکھتے ہیں ولایت اور امامت کو اپنے محور سے دور کرنے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے نکلی،ان کا صدائے احتجاج کسی مال متاع کیلئے نہیں تھا خدانے دنیا اور آخرت کی تمام تر سعادتیں ان کو عطا کی تھی ، وہ آ ج کل کے زمانے کے لوگوں کی طرح نہیں تھے کہ جن کا مقصدبہترین گھر، بہترین کھا نا کھانے،اور رفاہ کی زندگی بسر کرنے کیلئے تمع  کر تے کہ اقتدار ہما رے پاس ہو تا، بلکہ امامت کے پا س اقتدار ہو نا یعنی عدل و احسان کا اجرا ء ہو نا ،رحمت کا سزا وار بننا اور اللہ کی خو شنودی کے ساتھ اللہ کے بندوں پر اللہ کی حاکمیت یقینی ہو نا ہے۔ اسی لئے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی جگہ چھوڑ کر میدان میں اُ تر کر یہ سنت قا ئم کی کہ آ پ میدان میں اُ تر کر اس سنت  کی احیاء کیلئے سب کچھ قر بان کر یں ۔   

 

(س)    قبلہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا استقبال کھڑ ے ہو کر کیا کر تے تھے کیا وہ  ان کا استقبال بیٹی ہو نے کے نا طے سے کر تے تھے یا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کمالات و صفات یا شخصیت اس کی مظہر تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لو گوں کو بتا نا چا ہتے تھے کہ وہ آ پ کا مل شبیہ تھیں۔ ہم  جاننا  چاہتے ہیں کہ بہت سارے لو گوں کی رشتہ داریاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں ان میں سے کچھ حجت خدا ہیں کچھ حجت خدا نہیں ہیں تو اسلامی اعتبار سے ان کی کیا حیثیت تھی۔

 

(ج) جہاں تک رشتہ داری کا مو ضوع ہے اگر اہلبیت رشتہ داری کا عنوان ہے مگر اس سے مراد و مفہوم قطعی طور پر ایک مخصوص معنی ہے اور جہاں پر ہم اہلبیت کہتے ہیں وہاں  صرف چو دہ معصومین مراد ہیں اور جو ایک نسلی تسلسل ہے وہ قطعی اس اسلامی اعتبار سے با لکل مختلف ہے ۔       

· رشتہ دار ہونا معیار نہیں ہے ،

امام رضا علیہ السلام ایک دن ایک مجلس میں موعظہ فرما رہے تھے ،ایک کونے میں زید( کہ جو" زید النار" کے نام سے مشہور ہےاور امام رضا علیہ السلام کا بھائی ہے )یہی زید سادات اور اولاد پیغمبر کے حالات اور اس چیز کے بارے میں کہ ان کی حالت الگ ہے گفتگو کر رہا  تھا ، اور بار بار کہہ رہا تھا : ہم خاندان اہل بیت ایسے اور ویسے ہیں وغیرہ ۔ امام رضا علیہ السلام نے زید کو  سختی کے ساتھ ٹوکتے ہوئے فرمایا : اے زید ! تو نے کوفے کے سبزی فروشوں کی باتوں پر یقین کر لیا ہے ۔اور انہیں لگاتار لوگوں کو سنا رہے ہو۔ یہ جو تم نے سنا ہے کہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی ذریت آگ سے محفوظ ہے اس سے مراد ان کے بلا فصل فرزند ہیں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام اور ان کی دو بہنیں۔اگر تیری بات درست ہو تو تجھے خدا کی بارگاہ میں اپنے والد حضرت امام موسی ابن جعفر  علیہ السلام سے زیادہ معزز ہونا چاہیے ،اس لیے کہ وہ خدا کی اطاعت اور عبادت کے ذریعے بہشت میں جائیں گے جب کہ تو اس کی معصیت اور نافرمانی کر کے بہشت میں جائے گا ۔میرے جد امام سجاد علیہ السلام فرماتے تھے ؛ ہم اہل بیت میں سے جو گنہگار ہوگا وہ دوگنا عذاب پائے گا ،ایک گناہ کا عذاب اور دوسرا اس بات کا کہ اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت اور آبرو کو ختم کیا ہے ۔ نوح علیہ السلام کا بیٹا خونی رشتہ اور خاندانی نسبت کی وجہ سے نجات نہیں پا سکا۔ابدی سعادت و شقاوت کا معیار معنوی رشتہ ، عمل صالح اور خدا کی اطاعت ہے۔ جو بھی خدا کی اطاعت کرے گا وہ ہم اہل بیت میں سے ہے چاہے وہ خاندانی نسبت نہ رکھتا ہو۔(عیون اخبار الرضا (ع) ج۲ ص۵۶۴ )سے میں نے روایت نقل کی ہے۔

اس سے یہ ایک وا ضح پیغام ملتا ہے کہ اسلام نے رشتہ داری کا جو معیار بتا یا ہے وہ کچھ اور ہے  اوروہ عمل صالح ہے ،وہ خدا کی اطاعت ہے ۔اور جو اس پر کھرا اُ تر تا ہے وہی اسکا دعوی ٰ کر سکتا ہے۔ اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  نے  رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام   کا پیکرہو نے کا عملی طور پر مظاہرہ کیا ہے اور اہلبیت علیہم السلام چودہ معصومین سے اسلئے مخصوس ہیں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ میرے بعد میرے با رہ خلیفے ہیں اگر چہ ان میں سے فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گیا رہ او لاد ہیں اور فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا  حسنین علیہما السلام سے امام اباصالح بن حسن عسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تک صرف گیا رہ اولا دیں نہیں تھے  بلکہ ہر زمانے کیلئے مخصوص امام   اللہ کی طرف سے منتخب ہو ئے، جو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلافصل خلفاء ہیں جنہوں نے قر آ نی کر دار دنیا کیلئے پیش  کیا اسکو عملی طور پر نا فذ بنا نے والے ایک معصوم وجود لازمی امر بنتا ہے جو صرف اہلبیت علیہم السلام کیلئے مخصوص ہے۔جسطرح ہم درود پڑ ھتے ہیں؛

 (اللّٰھمَ صلّی علٰی محمّدِ وّ آل محمّد و عجّل فرِ جھم) یہی و" عجّل فرِ جھم "

 اس بات کا گواہ ہے کہ ہما رے فر ہنگ و ثقافت میں  مکتب تشیع میں اہلبیت علیہم السلام سے مراد یہی چو دہ معصومین ہیں اور چو دواں معصوم پر دہ غیب میں ہے اورہم انکی تعجیل ظہور کیلئے دعا کر تے ہیں ۔

 

 (س) قبلہ ایک چیز اور ہے  کہ ازواج نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ زندگی حضرت خدیجہ ؑ نے گذاری ہے مگر توا ریخ میں دیکھتے ہیں تو احا دیثوں سے با لکل نہیں ملتی چند ایک حدیث ہیں حالانکہ ان کی زند گی تو سب سے زیادہ ہے توا تر کے ساتھ انکے بارے میں حدیثیں ہو نی چاہئے  لیکن نہیں ہیں اسکی کیا وجہ ہے ۔

 (ج) جزا ک اللہ آ پ نے بہت ہی ظریف نقطے کی طرف اشارہ کیا ، دیکھئے المیہ یہی ہے اگر ہم   آنحضور کے نسبت رشتہ داری کی بات کرتے ہیں لیکن  اس میں عمل اور کر دار دیکھنے کے بجائے کسی خود غرض مقصد  کی آبیاری کی جاتی ہے  ۔اسی لئے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا عظیم المرتب صحابیہ/ام المؤمنین/ اور محدثہ ہیں تو پھر کیوں یہ شناخت امت میں نہیں ملتی۔ حضرت خدیجہ وہی عظیم شخصیت ہے کہ جس نے عرب دنیا میں  سب پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اپنی نظریں جمائی اور آنحضرت کی سیرت کو انتہائی حساسیت  اور سنجیدگی کے ساتھ پرکھ رہی تھی۔ پہلے اپنی تجارت ان کو سونپ دی اور پھر خود آنحضرت کی شریک حیات بنی اور اسکے بعد عرب دنیا کی سب سے مالدار اس خاتون نے اپنی تمام ثروت اور ملکیت آنحضرت  کے دین مبین اسلام پر نچھاور کی اور  اسلام کے باغ بنانے کے اصلی دوران میں یعنی اعلان نبوت سے پہلے اور نزول وحی کے سلسلہ کے تیرہویں سال تک اکلوتی شریک حیات  رہی  اور مجموعا 40  سال آنحضرت کے ساتھ زندگی بسر کی۔رسولخدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے 7 اولادوں کو جنم دیا۔رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے حیات میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ ٹھیک اسی طرح  امیرالمومنین نے بھی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے حیات میں کوئی  دوسرا نکا ح نہیں کیا۔ لیکن سیرہ نگاروں نے اس حقیقت سے چشم پوشی کی ہے کہ جو بجائے خود ایک بہت بڑا سوال ہےکہ جناب خدیجہ  علیہا السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس کلیدی دور میں اسلام کے گلستان کو تشکیل دینے میں شانہ بہ شانہ رہی تھی اور یہ دور سب سے اہم دور کہلاتا ہے یہ دور نہال پروری اور کیڈرسازی کا دور تھا  اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ علیہا السلام نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے شانہ بہ شانہ ایک کلیدی  کر دار نبھایا ہے۔ مگر کیا کریں اس پر مکمل پردہ پوشی ہوتی رہی ہے۔ شاید  یہ کہنا پڑے گا  کہ گلستان اسلام کی جامع و کامل باغبان اور امت کی ماں  حضرت خدیجہ  علیہا السلام نے گلستان اسلام کو کسطرح  آباد کیا کے بارے میں جا نکاری حا صل نہیں ہونے دی جاتی ہے ،   شاید اس لئے کہ وہ کسی خلیفے کی بیٹی نہ تھی بلکہ صرف گلستان دین مبین اسلام کی باغبان اور امت کی ماں تھیں، اسلام و مسلمین کی اس بڑی ماں کے  بارے میں عالم اسلام کو انتہا ئی کم معلو مات حاصل ہیں۔ جو کہ بجا ئے  خود ایک سوال ہے۔ میں نہیں جانتا ہے کہ اس حوالے سے میں یہاں پر کس حد تک وقت کی محدودیت میں حضرت خدیجہ سلام اللہ کے بارے میں بات کروں کیونکہ ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا ہے ۔ آ پ دیکھئے کہ ان ماں بیٹی کے در میان کتنی بڑی  مما ثلت ملتی ہے شاید ایک دوسرے کی شخصیت کو دیکھکر ہمیں بہت سارے سوا لوں کا جواب بھی ملے گاکہ جسطرح حضرت خدیجہ علیہا السلام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہی سلوک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےبارے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ اولادوں میں سے اکلوتی بیٹی جو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردا رو گفتار  و رفتار میں آنحضرت کی سالم اور کامل پرچھائی تھیں۔ اور انکی اس نورای وجود سے برابر چشم پوشی کی جا رہی ہے۔

ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ صرف  75 یا 95 دن یا بعض روایات کے مطابق 6 مہینے زندگی بسر کی اور اس بیچ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے علم اور حقائق دین مبین اسلام سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قبر رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہوئی اور قبر مطہر سے مٹی اٹھاکر اپنے آنکھوں پر ملتے ہوئے مرثیہ سرائی کرنے لگی:

مَا ذَا عَلَى الْمُشْتَمِّ تُرْبَةَ أَحْمَدَ- أَنْ لَا یَشَمَّ مَدَى الزَّمَانِ غَوَالِیَا-

بھلا جو آنحضور کی تربت کی مہک کو محسوس کرے۔اسے تو پھر عمر بھر کسی خوشبو کی ضرورت کیونکر ہو سکتی ہے

 صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائِبُ لَوْ أَنَّهَا-صُبَّتْ عَلَى الْأَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا

مجھ پر تو مصائب کے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے اگر دن پر پڑتے تو رات ہو جاتی ۔

 فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ اس مختصر وقت میں جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی خوشنودی کا معیار قرار دیا تھا کیا کچھ پیش آیا ،فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کیا دیکھنا پڑا ان مختصر دنوں میں کہ  وہ کہے کہ مجھ پر ایسے مصا ئب ڈ ھا ئے گئے کہ اگر دن پر پڑھتے تو رات ہو جا تی اور وہ آ نحضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تر بت کو سونگھ کر یہ  کہے کہ:

" مَا ذَا عَلَى الْمُشْتَمِّ تُرْبَةَ أَحْمَدَ- أَنْ لَا یَشَمَّ مَدَى الزَّمَانِ غَوَالِیَا"-

اس سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کتنی نورانی شخصیت ہے کہ وہ تر بت قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہک کو محسوس کر رہی ہے اور اس کے بارے میں اتنی ظریف نکات کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ جو ایک بار اس مہک کو محسوس کرے اسے عمر بھر کسی خوشبو کی ضرورت نہیں پڑے گی  مگراسی رسولخدا کی خوشبو  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پہ ایسےکتنے مصائب ڈھائے گئے وہ بھی اتنے قلیل وقت میں وہ  جو کہ بجائے خود ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جسے اُ مت  کے ہر فرد کو جا ننے کی ضرورت ہے کہ آخر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ایسی مرثیہ کیوں پڑھی جبکہ ہم جناب حاکم نیشا پوری (متوفی۴۰۵ )کہ جو اہلسنت کے ایک معروف دانشمند شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ،المستدرک علی الصحیحین،  کی ج۳ ص۱۱۶ حدیث ۴۷۶۴ میں حذیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ جو ایک صحابی تھے ،حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ : 

« نَزَلَ مَلَکُ مِنَ السَّمَاءِ فَاسْتَأْذَنَ اللَّهَ أَنْ یُسَلِّمَ عَلَیَّ، لَمْ یَنْزِلْ قَبْلَهَا. فَبَشَّرَنِی أَنَّ فَاطِمَةَ سَیِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ » ،

یعنی ایک فرشتے نے خدا سے اجازت لی کہ وہ زمین پر آئے اور مجھے سلام کرے ،کہ یہ فرشتہ اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا تھا ۔اس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں.

 فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر ایسی کون سی مصیبت ڈھائی گئی کہ وہ کہتی ہیں کہ جو مجھ پر مصیبت ڈ ھائے گئے اگر دن پر پڑ تے تو رات ہو جاتے ۔

 حاکم نیشا پوری ، اسی کتاب کے ص ۱۱۹ حدیث ۴۷۷۵ میں  ام المومنین حضرت  عایشہ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ؛ 

«مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَشْبَهَ کَلَامًا وَحَدِیثًا مِنْ فَاطِمَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. وَکَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْهِ رَحَّبَ بِهَا، وَقَامَ إِلَیْهَا فَأَخَذَ بِیَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِی مَجْلِسِهِ»؛

یعنی خواتین میں سے کوئی ایک بھی لہجے اور سخن کے اعتبار سے فاطمہ کے برابر پیغمبر کے مشابہ نہیں تھی۔جب بھی حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا)آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں پیغمبر ان کا استقبال کرتے تھے اور سراپا ان کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے ،فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا ہاتھ  پکڑ کر چومتے تھے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے.

تو یہ خود ام المو منین حضرت عا ئشہ نقل کرتی  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کیلئے اگر باقی بیٹیاں تھی مگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے کردار میں اکلوتی بیٹی تھی جس کی کوئی نظیر نہیں ہے.مگر کیا کہیں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کے نسبت مسلمانوں میں معرفت  کا فقدان کیوں ہے ۔

 حضرت خدیجہ کے بارے میں آپ نے پوچھا کہ وہ بھی اسی طرح مظلوم ہیں۔کس حد تک امت اسلامی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اس نورانی شخصیت سے آشنا ہیں کہ جن کے بطن سے گیارہ معصوم  امام اللہ نے منصوب کئے ہیں اور ان ہی کیلئے ایسے حالات بنائے گئے ہیں کہ زبان ہکلا جاتی ہے کہ انسان کس طرح ان حقائق کو بیان کرے ۔

 (س) ایک اور چیز ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی قبر کو پوشیدہ کرنے کی اور اس کو چھپا نے کی وصیت کیو ں کی ۔ یہ بھی ایک  سراپا مظلو میت ہے ۔

(ج) میں اسی نکتے کی طرف پہنچ رہا تھا کہ آ پ نے صحیح جگہ اشارہ کیا کہ میر ے پاس الفاظ نہیں مل رہے تھے  کہ میں  اس مر حلے کو کس طرح نقل کروں کہ اسی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کیوں ایسا کچھ ہوا  اور کچھ لو گوں نے سوال کئے ہیں ائمہ معصومین سے با ر بار  کیو نکہ یہ  مرحلہ بہت ہی سنگین ہے کہ وہ ایسی مثالی خا تون ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی خاتون جس کے ساتھ ہر مسلمان کو اپنی عقیدت نچھا ور کر نے کا حق بنتا ہے انہوں نے ایسی وصیت کیوں کی ہے ۔ تو شیخ صدوق علیہ الرحمہ آنحضرت کے رات کو دفن کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی حَمْزَةَ عَنْ أَبِیهِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام لِأَیِّ عِلَّةٍ دُفِنَتْ فَاطِمَةُ (علیها السلام) بِاللَّیْلِ وَ لَمْ تُدْفَنْ بِالنَّهَارِ قَالَ لِأَنَّهَا أَوْصَتْ أَنْ لا یُصَلِّیَ عَلَیْهَا رِجَالٌ [الرَّجُلانِ‏].

علی بن ابوحمزه نے امام صادق علیه السلام پوچھا:مولاحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو کیوں رات کو دفن  کیا گیا؟

فرمایا:حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے وصیت کی تھی کہ انہیں رات کو دفن کرنا تاکہ وہ لوگ ان کے جنازے میں شرکت نہ  کر پائیں۔

 یعنی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  امت کو اپنے رات  کو دفن کرنے اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وصیت سے ایک پیغام دینا چا ہتی ہیں کہ قرآ ن کو پا لو ، رسول کو پا لو ایسا نہ ہو کہ آ پ تک  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات توڑ مروڈ کے پیش کی جا ئے آ پ بیدار ہو جاؤ۔

 تو یہ انتہائی سخت سوال ہے میں امام زمان ؑ سے معذ رت چا ہتا ہوں کیونکہ اس سے  انکے زخم تازہ ہو تے ہیں ۔

 وا قعہ ایسا  ہوا کہ جب دوسرے دن یہی حضرات آئے علی الصبح فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام  کے گھر  پہنچے تو "مقداد" نے  آواز دی کہ کل رات فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو دفن کیا گیا۔تو یہ لوگ اس بات پہ ناراض ہو گئے کہ نہیں اس کو کیوں رات کو دفنایا گیا ہے  اور اس پر  بعض نے خواتین کو نبش قبر کرنے  کا حکم دیا تاکہ وہ جائیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو قبر سے نکالیں اور ان کا  جنازہ پڑھا ئیں۔  ہی وجہ ہے کہ ایک قبر نہیں بنائی گئی تھی۔ علی مرتضیٰ  علیہ السلام نے اسی وجہ سے چالیس قبریں بنائی تھیں ۔

 اس اعتبار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس حد تک  یہ سنگین سوال ہے  اور ایسے میں جب علی علیہ السلام تک یہ پیغام پہنچا کہ بات یہاں تک پہنچی کہ یہ اپنی ساخت کو بچانے کیلئے ایک ایسا ڈرامہ رچا نا چا ہتے ہیں کہ حضرت فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو قبر سے نکال کر انکا جنازہ پڑھا جائے. تو امام علیہ السلام نے جنگی لباس پہن کر ذو الفقار ہاتھ میں لیکر وہ جنت البقیع چلے گئے اور کہا کہ اگر خلافت و امامت کیلئے میں نے امت کو بچا نے کیلئے خاموشی اختیار کی کہ کہیں امت تفرقے میں مبتلا نہ ہو جائے کہ پہلے ہی مر حلے میں امت بٹ گئی اور  لوگ مر تد ہو جا ئیں  مگر کم سے کم یہاں پر میں اسکی اجا زت نہیں دونگا کہ میرے ہو تے ہوئے  فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کو کھو لا جائے ۔یاد رکھو اگر کو ئی اس قسم کی حر کت کر تا ہے میں ان کے خون سے زمین کو سیراب کروں گا ۔اور اس پر وہ لوگ خا  موش ہوگئے ۔

تو یہاں پر بھی ہمیں  فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس سوال کے بارے میں علی مر تضی علیہ السلام کی تا کید ملتی ہے کہ اس سوال کے جواب کو ضرور  ڈھو نڈو یہ ہر زمانے کیلئے  تا صبح  قیامت آ پ کیلئے ایک سوال ہے ۔

لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ(الأعراف/44)...وَسَیعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ(الشعراء/227)

تبصرے (۱)

  1. این اللهیاری که خیلی مشکل داره، مزدور اسلام ستیزها و تفرقه جوهاست
    به اندازه کافی دستش توسط تحلیل گرها رو شده

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی