سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۱

اسلامی جمہوری ایران دینی و مذہبی جمہوریت کا مظہر

 اردو مقالات مکالمات انقلاب اسلامی ایران ایران مذھبی سیاسی ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی:

اسلامی جمہوری ایران دینی و مذہبی جمہوریت کا مظہر

 کوئی بھی خطرہ نہیں ہے ، نہ ہی عسکریت ، نہ ہی امریکہ سے کوئی خطرہ ہے ، نہ ایسے کوئی اتحاد سے خطرہ ہے۔ بالکل نہیں۔ اگر کوئی خطرہ ہے وہ بس صرف اندرونی صفوں میں نفوذ کا ہے، مسلمانوں کے صفوں کو توڑنے کا ہے ۔باقی کچھ نہیں ہونے والا ہے نہ لبنان میں امریکہ کی کوئی بالادستی ممکن ہے ، نہ شام میں حتیٰ انشاء اللہ  یمن کی  کامیابی بھی نزدیک تر ہوگی، بحرین کی بھی کامیابی ، پورے خطے میں اسلامی بیداری کی لہر روز بہ روز زور پکڑے گی۔ مگر جس بات کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ خود اپنے صفوں میں انتشار پھیلانے میں کسی کسی جگہ دشمن کامیاب نہ ہوجائے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ مہاجر عبدالحسین عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران حالیہ جمہوری اسلامی ایران میں منعقد ہوئے گارڈین کونسل(مجلس خبرگان رہبر) اور پارلمنٹ(مجلش شورای اسلامی) کے الیکشن کے حوالے سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

•             مجلس خبرگان رہبری (گارڈین کونسل) کی اہمیت اور قدرت

•             مجلس شورای اسلامی ایران (پارلمنٹ) اسلامی و انسانی اقدار کا علمبردار

•             ایران میں سیاسی پارٹیوں کی رقابت اور رسہ کشی

•             حالیہ پارلمانی الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی نمایندگیوں کی ماہیت

•             ولایت فقیہ نظام کی حاکمیت مسلکی و مذہبی شناخت کے ساتھ قرآن و سنت کی حاکمیت

•             جمہوری اسلامی ایران سیکولر ازم تھیوری کی کاٹ اور دینی و مذہبی جمہوریت کا مظہر

•             جمہوری اسلامی ایران کی طاقت کا راز مکتب کربلا کی پیروی 

•             ایران کی طاقت جفرافیائی اور  اسٹریٹجک اہمیت یا کچھ اور

•             ولایت فقیہ نظام تمام ادیا ن و مذاہب کیلئے رول ماڈل

•             مقاومتی اقتصاد کا مدعا و مقصد

•             ایران کے خلاف کارگر استعماری سازشیں اور اسکی کاٹ

•             عوام میں بصیرت بڑھانا بنیادی مقصد

•             اندرونی نفوذ تشویشناک

•             ولی فقیہ کی فرمانبرداری اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے بچنے کا واحد عملی ہتھیار

•             دشمن صرف اسلامی صفوں میں نفوذ کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے اسلام اور مسلمین کیلئے اکلوتا تشویشناک خطرہ

 

·       مجلس خبرگان رہبری (گارڈین کونسل) کی اہمیت اور قدرت

س) قبلہ جیسے ابھی ہم نے آپ کی اور ناظرین کی خدمت میں عرض کیا کہ ایران خطے کا ایک بااثر ملک ہے او ریقیناً وہاں پہ جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہے وہ اپنی ایک زبردست اثرات رکھتے ہیں اور ایک اسٹریٹیجک معاملات جو ہے وہ اس کو دیکھ کر ہی اس خطے میں وجود میں آتے ہیں تو وہاں پہ ابھی جو مجلس خبرگان رہبری اور پارلیمنٹ کے الیکشن ہوئے ہیں ان تمام چیزوں پہ ہم بات کرنا چاہیں گے کہ وہ کیا باتیں ہیں ہمارے ناظرین  کیلئے ان کو کھول کھول کے آپ ذرا بیان فرمائیں کہ مجلس خبرگان رہبری پہلے تو یہ کیا ہے اور اس کے الیکشن کا طریقہ کار کیا ہے۔

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ[1]۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى [2]

مجلس خبرگان رہبری (گارڈین کونسل) آٹھ سالہ دور کیلئے منتخب کی جاتی ہے اس مجلس پر کچھ خاص ذمہ داریاں عائد ہیں جس  کیلئے یہ منتخب کئے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسلامی حکومت کے قائد کا انتخاب کرنا۔ دوسرا  منتخب رہبر کو اسلامی قوانین سے انحراف  مشاہدہ کرنے کی صورت میں ازل کرنا اور تیسرا رہبر پر نظارت کرنا او چوتھا یہ جو وضع قوانین مجلس خبرگان اور انکی تفسیر اور  سالانه مجلس خبرگان کے سالانہ بجٹ کا اہتمام اور ان آخری دو عناوین سے ہمیں کچھ خاص مطلب نہیں ہے۔ میں بنیادی پہلے ذکر شدہ تین موضوعات اور نکات کی طرف اشارہ کروں کہ ان کی اہمیت کیا ہے اور مجلس خبرگان کی اہمیت کا معیار کیا ہے۔

اسلام میں چونکہ رہبری یعنی الہی قانون کی حاکمیت ہے یعنی خدا کے بندوں پر خدا کی حاکمیت  کا نظام ہے اور معصوم کے زمانے میں "نص الہی" کے رو سے رہبر معین ہوتا ہے اور   صاحب ولایت امام کی امامت کے اعلان اور اسلامی حاکمیت کو عملانے کیلئے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے امام کی بیعت کریں۔ لیکن چونکہ "زمان غیبت معصوم" میں رہبر کو تعین کرنے کے حوالے سے کوئی "نص" نہیں ہے اسلئے لوگوں کی طرف سے انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ اگرچہ ہر مجتہد جامع الشرائط کو ولایت  حاصل ہے لیکن "تولی امور مسلمین اور تشکیل حکومت اسلامی" کیلئے عوامی اکثریتی اعتماد حاصل ہونا لازمی ہے جسے صدر اسلام میں بیعت کے عنوان سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اور اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایران میں رہبر کا انتخاب دو مرحلوں میں ہوتا ہے ۔ 

·        پہلا مرحلہ ؛عوامی رائے کے ساتھ ایسے علماء کا انتخاب کرنا جو "رہبری" کے لئے مورد نیاز صلاحتیں رکھتے ہوں۔

·        دوسرا مرحلہ ؛  یہی عوامی منتخب علماء و فقہاء  رہبر کا انتخاب کریں۔

اسطرح  اس کی بنیادی  ذمہ دار ی" رہبر" کو  انتخاب کرنا  ہے اور یہ انتخاب بھی الیکشن کے ذریعے ہوتا ہے عوامی ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے اس قاعدے کے ساتھ کہ عوام علماء کو منتخب کرتے ہیں اور منتخب علماء اپنے درمیان رہبر کو منتخب کرتے ہیں اور اس مجلس خبرگان رہبری کو جس طرح رہبر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے ٹھیک اسی طرح منتخب  رہبر کو ازل کرنا بھی ہے۔

چونکہ غیر معصوم عالم دین کو معصوم امام کے نقشِ قدم پر چل کر رہبری اور قیادت کی ذمہ داری نبھانی ہے اسلئے اگر کبھی منتخب رہبر اسلامی قوانین اور شرائط سے سرپیچی و من مانی کرے تو مجلس خبرگان رہبری کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے ازل کرے اور دوسرے شائستہ رہبر کا انتخاب کرے ۔

یہاں پراس بات کی طرف اشارہ کرتا چلو کہ شیعہ اعتقادکی رو سے اگر رہبر جھوٹ بولے تو اسکی  شرعی ولایت  ختم اور وہ خود بخود اپنے منصب سے عزل ہوجاتا ہے۔

رہبر پر نظارت

·        اور تیسری ذمہ داری  اور اہمیت جو  مجلس خبرگان رہبری کی ہے وہ رہبر پر نظارت ہے۔

منتخب رہبر چونکہ معصوم نہیں ہے اور اس  سے  غلطی سرزد  ہوسکتی ہے اسلئے اس پر نظارت کرنے کی مجلس خبر گان رہبری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رہبر کے تمام اعمال ، افکار، کردار و گفتار پر نظر بنائے رکھیں ۔ اگر کہا جائے کہ رہبر کی جاسوسی کرنا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

 اور یہ تین جو بنیادی نکات ہیں یہ کلیدی ہیں۔ اور اس کے علاوہ جو وضع قوانین اور بجٹ سے  متعلق ہے وہ ہمارے لئے فرعی ہے۔ مگر جو یہ تین بنیادی مجلس خبرگان کی ذمہ داریاں ہے کہ وہ رہبر کو منتخب ، ازل اور نظارت  کا اختیار رکھتے ہیں اور یہ رہبر عوامی منتخب رہبر ہے الہی منتصب رہبر  یعنی معصوم امام نہیں ہے بلکہ یہ عوامی  انتخاب کے ذریعہ اور عوامی بیعت کے ساتھ منتخب رہبر ہے اس نظام کو عملانے کیلئے اس  مجلس کا اہتمام ہوتا ہے اور اس کا دور 8 سالہ ہے۔

·       مجلس شورای اسلامی ایران (پارلمنٹ) اسلامی و انسانی اقدار کا علمبردار

س)اچھا ابھی جو یہ ایرانی پارلیمنٹ  جو کہ پہلے اس کو مجلس شورای  ملی کہا جاتا تھا مگر انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدیہ  شورای اسلامی بن گئی ۔ اس کے الیکشن کا کیا سسٹم ہے کیا پراسیس ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس کے اوپر بھی آپ روشنی ڈالیں کیونکہ  ان دونوں کا الیکشن ساتھ ہی ساتھ ہوئے ہیں؟

ج) جی مجلس شورای اسلامی کا دور چار سالہ ہے۔ آئین اساسی  اسلامی جمہوریہ ایران اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ ایران کے سبھی ادارات منجملہ ثقافتی، اجتماعی ، سیاسی اور اقتصادی اسلامی اصول و ضوابط پر مبنی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کو پرکھنے کیلئے میزان اسلام ہے اور مجلس شورای اسلامی  کا اس میں نمایاں کردار ہے۔ کیونکہ اسے اسلام کی رو سے قانون بنانے کی ذمہ داری عائد ہے۔ مجلس شورای اسلامی نے پارلیمنٹ میں اسلامی انقلاب سے پہلے ایران  میں مجلس شورای ملی کہلاتی تھی جو کہ ایک سیکولر پارلمنٹ تھی اور انقلاب کے بعد اسلامی بن گئی اور اسلامی بننے کے ساتھ اس میں اسلامی قواعد و ضوابط کے رو سے بنیادی اور عظیم تبدیلیاں لائی گئیں۔ اب الیکشن میں کون پارٹی جیتتی ہے اور کون پارٹی ہارتی ہے وہ معنیٰ نہیں رکھتی ہے کہ جو دوسرے ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارٹی کی بالادستی ملحوظ نظر ہوتی ہے  یہاں کچھ ایسا نہیں ہے۔ یہاں اسلام کی بالادستی کو ملحوظ نظر رکھنے کیلئے رقابت ہوتی ہے۔

ایران میں سیاسی رقابت اسلامی قوانین کو بہتر سے بہتر طریقے سے نافذ کرنے کیلئے ہیں۔ میں تکرار کروں گا ایران میں سیاسی رقابت اسلامی قوانین کو بہتر سے بہتر طریقے سے ناٖفذ کرنے کیلئے ہیں۔  اسی لئے ایران میں آباد  سبھی غیر مسلمانوں کو بھی مسلمانوں کے مانند برابر حقوق حاصل ہیں۔ کیونکہ اسلام صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص دین ہیں ہے  اسی لئے یہاں شیعہ سنی کی  محدودیت کی  تو بات ہی نہیں ہے۔

ابھی جو الیکشن ہوئے کئی محاذ دیکھنے کو ملے ۔ ایک طرف تو "اصول گراہ "ہے  دوسرے"اصلاح طلب" ہے ، آزاد امیدوار ہیں ،" اعتدال پسند" ہیں اور غیر مسلمان ہیں وغیرہ...

·       ایران میں سیاسی پارٹیوں کی رقابت اور رسہ کشی

س)اچھا یہاں پر ان پارٹیز کی طرف  بات کریں کہ اس میں آپ ایک نقطے کو شامل کرئیے گا کہ مغرب کی جو اصطلاح ہے قدامت پسند اور اصلاح پسند۔ یعنی  اسلام تو اصل میں ہے ہی اصلاح پسند لوگوں کا مذہب یعنی اسلام ہی روشنی کا مذہب ہے  نور کا مذہب ہے تو وہ اس کو جو دکھانا چاہتے ہیں کہ ایک طرف قدامت پسند ہیں یعنی کہ ایک بنیاد پرست ہے اور دوسری طرف جو ہے وہ اصلاح پسند ہیں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں میں چاہوں گا کہ اس کو بھی ساتھ ساتھ اس کے ابہام کو بھی لوگوں کے ذہنوں سے دور ہوتا جائے۔

ج) بہت شکریہ جزاک اللہ ۔ اے کاش کہ اسی حساسیت کے ساتھ مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے کہ ہمارے اذہان میں اصطلاحیں ڈالی جاتی ہیں جو ہمارے میں منہ میں باتیں رکھی جاتی ہیں ۔ ہم سوچے سمجھے بغیر ہی ان کو استعمال کرتے ہیں۔ مسلمان کیلئے تو صرف ایک ہی راستہ ہے وہ انتہائی وسیع راستہ ہے ۔ صراط المسقتیم ہے اور الہٰی راستے پر اسلام نے صرف یہ بتایا ہے کہ کوئی آہستہ چلتا ہے ، کوئی تیز رفتار چلتا ہے اس میں فرق دیکھنے کو ملے گا یعنی کوئی اس میں پیدل چلنے والا ہوگا، کوئی گاڑی پہ چل رہا ہے ، موٹر سائیکل پہ چل رہا ہے ، کوئی گھوڑے پہ سوار اور کوئی جہاز کا استعمال کرکے اس سفر کو طے کرتا ہے۔ اسلئے قدامت پسند اور انتہا پسند تو معنی ہی نہیں رکھتا ہے کیونکہ قرآن نے ہمیں کہا ہے:"سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ"(الحدید/21) ‘ہمیں سبقت کرنے والا بننا ہے  ، ہم ایک دوسرے کو اس دوڑ میں پیچھے چھوڑنے والے ہیں یعنی میں کہتا ہوں خیر میں زیادہ حاصل کروں ، میں خدا کا قرب زیادہ حاصل کروں اور میں زیادہ سے زیادہ اس کا مستحق بنوں اور یہ رقابت اسلام میں ہے "سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ" تو مسلمانوں کی جودوڑ ہے وہ ایک ہی ہے  مگر ا س میں فرق جو ہے وہ ہے اس کے سلیقے میں ہے۔ کوئی دوڑ میں تیز بھاگ رہا ہے  مغفرت حاصل کرنے میں ، کوئی آہستہ بھاگ رہا ہے اور کوئی  کاہل  ہے چلنے میں وہ ابھی سستی کررہا ہے۔

·       حالیہ پارلمانی الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی نمایندگیوں کی ماہیت

س)یعنی سفر طے ہورہا ہے اور یہ جو کچھ ہے وہ خدا کے قوانین  کو نافذ کرنے کیلئے  بہتر سے بہتر طریقے سے کرنے کیلئے  ہورہا ہے نہ کہ جہاں پر مختلف پارٹیاں آپ دیکھتے ہیں وہاں پر بنیادی یاختلاف  ، اس حوالے سے مزید وضاحت کریں۔

ج) اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ جو ایران بھر کے 120 پارلمانی انتخابی حلقوں  میں سے  جو " اصولگرا نے 42 فیصد(92 سیٹیں)،اصلاح طلبوں نے 39فیصد(86 سیٹیں)،آزاد امیداورں نے 12فیصد(27 سیٹیں)،اعتدالیوں نے 5فیصد(11 سیٹیں)،اور غیر مسلمانوں نے 5 سیٹیں حاصل کی ہیں یہ تو سارے اسلامی قوانین کو بہتر سے بہتر  طریقے سےنافذ کرنے کے مقصد  سے ایک دوسرے سے سبقت ہے اور اس کیلئے میدان میں اترے ہیں۔ نہ کہ کوئی خدا نخواستہ اسلامی حاکمیت کے خلاف  ہو یا کوئی یہ چاہتا ہوگا کہ  اسلام نہیں ہم  دوبارہ سیکولر سسٹم  کا احیاء چاہتے ہیں۔ نہیں ایسا کوئی بھی یہاں پر الیکشن میں حصہ لینے نہیں آتا ہے ۔ ہر کسی کی چاہت یہی ہے کہ اسلام کو سب سے زیادہ نمایاں طور پر اور مثالی طور پر عملا کے لئے میدان میں اترتے ہیں تاکہ دنیا کیلئے ایک مثالی حکومت قائم رونما ہو جائے۔ اور اس میں کسی بھی خامی کا خدشہ نہ ہو جس طرح مسلمان اپنے لئے ترقی کا ضامن سمجھتا ہے غیر مسلمان بھی اس کو اپنی ترقی اور اپنے ملک کیلئے بہترین مستقبل کا ضامن پالے اور اس سسٹم کو  قابل عمل بنانے کیلئے ، اور امپلمنٹ اور نافذ کرنے کیلئے یہ رقابت ہے اور اس میں پارلیمٹ کا مجلس شورای اسلامی کا کلیدی کردار ہے کیونکہ اس کا کام ہی ہے قانون سازی کا ہے۔

ھدایت ٹی وی) سبحان اللہ بہت ہی مفید گفتگو ہوئی ۔ ابھی جو ہم نے بات کی ہے اس پہلے مرحلے میں اس میں ہم نے بات کی مجلس خبرگان رہبری کیا ہے اس پر بات کی  اس میں الیکشن کا کیا پراسیس ہے وہ کس لئے ہے ان کی نظارت کیا ہے ، کس طرح سے وہ رہبریت کے ساتھ چلتے ہیں ۔ یہ جان لیا کہ پارلیمنٹ کا کیا کام ہے وہاں جو پارٹیاں ہیں ان کو جو مغربی اصطلاح  میں جو یاد کیا جاتا ہے اس کو ہم نے جو  سمجھا وہ مغربی ڈبل اسٹنڈہے وہ کہتے کچھ ہیں   حالانکہ ان کے اہداف کچھ اور ہوتے ہیں ۔حالانکہ وہاں ایران  میں جو تمام چیزیں ہیں وہ اسلامی قانون کا نفاذ ہے اور قانون کو بہتر سے بہتر طریقے امپلمنٹ کرنے کیلئے مقابلہ ہوتا ہے نہ  کہ کچھ لوگ اسلام کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ تو ان تمام موضوعات پر ہم نے اس مرحلے میں بات کی ۔ اب دوسرے پہلو پر بات کرتے ہیں۔

·       ولایت فقیہ نظام کی حاکمیت مسلکی و مذہبی شناخت کے ساتھ قرآن و سنت کی حاکمیت

س) قبلہ سب سے پہلے مجلس خبر گان کی بات ہورہی تھی کیا مجلس خبرگان میں صرف شیعوں کو وہ  اختیارات حاصل ہیں جن کا ذکر ہوا یا تمام ایران کی جو مجموعی تمام اقلیتیں ہیں وہ بھی شامل ہیں؟

ج)جی یہاں اسلامی حکومت حاکم ہے نہ کہ کسی ایک مسلک کی حکومت ہے۔ اگرچہ یہاں اکثریت شیعوں کی ہے مگر یہاں شیعہ حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت ہے۔ اسلامی حکومت کا مفہوم و مطلب یہی ہے کہ جس میں تمام اسلامی مسالک کی اپنی شناخت موجود ہے۔ اور یہاں ایران میں چونکہ اہلسنت حضرات میں حنفی ، حنبلی اور شافعی آباد ہیں جس میں حنفیوں کی آبادی زیادہ  ہے۔ اور مجلس خبرگان میں بھی جو حنفی مفتی اعظم ہے وہ مجلس خبرگان کے منتخب رکن ہے جو شافعی مفتی اعظم ہے وہ مجلس خبرگان کے رکن ہے ۔ تو یہاں پر یہ جو حسن اور خوبی ہے اس نظام اسلامی میں  وہ یہی ہے کہ اگر کسی بھی  مسلک کو کوئی اعتراض ہو اس رہبریت کے حوالے سے وہ یہاں کے اسی منتخب مفتی اعظم سے سوال کرسکتے ہیں کہ بھئی آپ کو اگر یہ اختیار ہے یعنی مجلس خبرگان رہبری میں اگر ایک رکن یہ ثابت کردکھائے کہ رہبر نے خلاف قانون الہی عمل کیا ہے تو وہ اسے ازل کرسکتے ہیں۔ اتنے اختیارات کسی بھی نظام میں ممکن نہیں ہے بجز اسلام میں۔ کیوں ، کیونکہ اسلام میں خدا کی حاکمیت ملحوظ نطر ہے نہ کہ کسی شخص کی حاکمیت۔ اسی لئے یہاں پر شخصی رہبری کی حاکمیت نہیں ہے ۔ رہبر کو اس لئے رہبر انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کی حاکمیت کی ضمانت فراہم کرے۔ وہ نظارت کرے وہ  ان قوانین پر ناظر ہے اور اسطرح اس  میں اہلسنت نمایندے کو وہی قانون اختیار حاصل ہے جو شیعہ نمایندے کو حاصل ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے چاہئے وہ جعفری مسلک کا ہے، چاہئے وہ حنفی مسلک کا ہے، شافعی مسلک کا ہے، حنبلی مسلک کا ہے وہ وہی اختیار رکھتا ہے کہ جو یہاں اکثریتی شیعوں کو اختیار حاصل ہے ۔ کیونکہ جعفری ہو اس کے پاس بھی وہی ایک ووٹ ہے اور حنفی ہو، حنبلی ہو اس کا بھی ایک ایک ووٹ کا ہی اختیار حاصل ہے اور ایک ایک ووٹ کے  جمع سے وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ منتخب فقیہ، عالم دین مجلس خبرگان میں اس کی وہی اہمیت ہے جو ایک شیعہ منتخب  فقیہ کی ہے ، وہی سنی مفتی اعظم کی ہے جو بھی منتخب رکن ہوگا مجلس خبرگان میں ۔ اس میں سبھی مساوی ہیں۔

·       جمہوری اسلامی ایران سیکولر ازم تھیوری کی کاٹ اور دینی و مذہبی جمہوریت کا مظہر

س) اچھا یہاں پر ایک چیز بہت اچھی چیز ہوئی ہے آپ دیکھتے ہیں کہ جہاں پر کہ پورے ایک عرصے سے جو مغرب ایک ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا، ایک پروپیگنڈا ہورہا تھا  شرق و غرب سے پورے عربی میڈیا سے بھی  کہ جی وہاں پر جو ہے وہ مطلق العنان ایک شخص کی حکومت ہے وہاں ڈیموکریسی اور جمہوریت نہیں ہے ۔ مگر اس الیکشن میں چونکہ پچھلی دفعہ بین الاقوامی پابندیاں عائد تھی ، بائیکاٹ تھا اس دفعہ سارے انٹرنیشنل میڈیا نے خود کوریج دی اور جو میڈیا ہاؤسس ایران میں ڈیموکریسی کی مخالفت کرتے تھے انہوں نے اس ڈیموکریسی کوآن آئر کیا نشر کیا یہ ایک بہت اچھی چیز ہوئی ہے؟

ج) بالکل صحیح ، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ  کیونکہ حق کو تو عیاں ہونا ہی ہے۔ جو مغرب ہے وہ اپنے جھوٹ کے جال میں خود پھنسا جارہا ہے۔ ہر بار مغرب نے اسلام کو مسخ کر کے پیش کرنے کی بہت زیاد ہ کوشش کی ہے  اور ہر قت توڑ مروڑ کے حقائق پیش کرتے رہے۔ اور ایران کے حوالے سے کبھی کہتے تھے کہ  یہاں آمریت ہے یہ ایک صاحب جو رہبر ہے اسی کے اختیارات میں سب کچھ ہے اس میں عوام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اور چونکہ عالمی سطح پر پابندیاں تھیں لوگ یہاں  کی حقیقت حال کو  نہیں جانتے تھے ۔لیکن اس الیکشن میں اس حوالے سے زیادہ  اہمیت یہ رہی کہ الیکشن ایران پر بین الاقوامی پابندیاں ہٹائی گئی ہیں اور اس الیکشن کو کور کرنے کیلئے غیر ملکی جرنلسٹ جو یہاں آئے تھے 600 بتائے گئے۔ اورحالیہ ایران کے الیکشن کی اہمیت عیاں ہو گئی۔ جہاں دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ ایران میں آمریت ہے اور  کسی ایک رہبر نامی شخص نے لوگوں کو ہائی جیک کیا ہے۔ اور لوگوں پر اس کی من مانی حاکم ہے اسے جو جی میں آئے کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ آج وہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ  الیکشن میں وہ کینڈیٹ ہونا چاہئے یہ کینڈیٹ ہونا چاہئے۔ ان کے جھوٹے پروپگنڈوں کی  پول ہر سطح پہ خود کھلتی ہے۔

 آپ  ذرا غور کریں کہ امریکہ نے کتنی سازشیں رچائی کہ ایران کو یہ ثابت کرنے کیلئے کہ  ایران کو ایٹم بم بناناہے اور ہم اس کو ایٹم بم بنانے نہیں دینگے۔ جبکہ اسلامی حکومت اس دعوے کی مخالفت کرتی رہی ہے  رہبر کا فتویٰ اس حوالے سے موجود ہے کہ ایٹم بم بنانا شرعا حرام ہے، اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ وہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بنانے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے  اور اسلام میں ایٹم بم بنانا حرام ہے۔ اور یہ ایک اسلامی موقف ہے۔ اسلئے اسلامی حکومت پہ زیادہ ذمہ داری بنتی ہے اس اصول پہ عمل کرنے کی۔ تو اگر اسلام اس کی  اجازت دیتا تو امریکہ جس طرح دیگر مسائل میں کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے اس میں بھی وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا  تھا ۔ اگر اسلام اجازت دیتا ایران  ضرورایٹم بم بناتا۔ اور اس بات کو امریکا بخوبی جانتا  ہے  مگر دنیا کو انہوں نے کیا بتایا کہ ایران ایٹم بم بنانے جا رہا  ہے اور وہ  ہر کسی کو ختم کرنا  او رخود زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ مگر آخر کار اسی  اسلامی جمہوری نظام نے سفارتی میدان پر بھی اپنا سکہ جمایا اور ثابت کردیا کہ نہ ایران ایٹم بنانے جارہا ہے اور نہ ہی ایران میں آمریت ہے بلکہ  یہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے جہاں قوانین اور ضوابط کے ساتھ سیاست کی جا رہی  ہے ۔اور ثابت کر دکھایا کہ  نہ اس امریکی پروپگنڈے میں  حقیقت تھی کہ ایران ایٹم بم  بنانا چاہتے تھا  نہ اس اس میں حقیقت ہے کہ ایران میں عوام کی حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود امریکہ اور مغربی ممالک اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ وہ سیکھے کہ کتنے سخت شرائط میں یہ نطام اس طرح قائم رہ سکا ۔ اس اسلام میں کیا ہنر ہے ہر قسم کی پابندی اس اسلامی حکومت پہ عائد کی گئی مگر اس کے باوجود یہ روز بہ روز طاقتور  ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ  یہ لوگ چاہتے تھے کہ عوام کے اذہان کو گمراہ کرکے اس کو توڑ مروڑ کے پیش کر ے...

·       جمہوری اسلامی ایران کی طاقت کا راز مکتب کربلا کی پیروی  

س) جی بالکل کیونکہ ایک زمانے میں کہا جارہا تھا کہ اس قدر پابندیاں ہیں کہ صرف آکسیجن جارہی ہے باقی کوئی چیز جو ہے وہ وہاں جانے نہیں دیتے چاہے بینکنگ کا شعبہ ہو، زراعت کا شعبہ ہو ، چاہے  صنعتی اسپئر پارٹس  کے واردات پر پابندیاں ،دوائیوں تک پر پابندیاں لگائی گئی ۔ مگر ان تمام چیزوں کے چلتے وہ کیا ہنر اور راز  ہے جس نے ایران  اور اس انقلاب کو زندہ رکھا۔ یہ کیسا مکتب اسلام ہے ان کے اندر کتنی تحمل استقامت کا مادہ ہے کہ انہوں نے دہشتگردی کا جواب دہشتگردی سے نہیں دیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس قدر ایران کو معرکے کے اندر لانے کیلئے کوشش کی گئی کہ کہیں پر ایران خطا کر جائے، یہاں تک کہ ایران کے پورے سفارتی عملے  کو  مار دیا گیا ، افغانستان میں پوری ایمبیسی پہ حملہ ہوگیا ، کراچی کے اندر حملہ ہوا ۔ بہت کوشش کی گئی کہ وہ بھی اشتعال میں آگر جوابی کاروائی کرے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے  صبر و تحمل کے دامن کو نہیں چھوڑا ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس پہ تھوڑی سی گفتگو ہو؟

ج) جی اس کی وجہ صرف کربلا کی تربیت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں  کہ کربلا میں یزید تو خود میدان میں نہیں تھا مگر ہم چودہ سو سالوں سے صرف یزید کو کوستے آرہے ہیں۔ کیوں؟۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ  کربلا کو کس چیز نے وجود میں لایا۔ اور کربلا کو وجود میں لانے اور امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک قلم کرنے میں کس کے مفادات حاصل ہوتے تھے۔ یزید کے۔ اور اسی مکتب سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے عمل پیرا ہیں۔ اس وقت " یزید" استعمار اور استکبار کی جامع شکل تھی اور آج امریکا اور اسرائیل ہے ۔ اور ایران میں اس مکتب کی تربیت میں لوگوں کو اسقدر بالغ نظر بنایا گیا ہے ایسی ثقافت کو پروان چڑھایا گیا ہے کہ  آج اگر دو مسلمان آپس میں لڑیں تو کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی ساز ش ہے ۔یہ ایسا کیوں کہتے ہیں کیونکہ یہ  وہی مکتب کربلا کی  تربیت ہے ۔کربلا  ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ مسلمان کا خون بہانے سے اسلام کے کس  اصلی دشمن  کو فائدہ پہنچتا ہے،اس کو پہچانیں اور اسلام کے لباس میں انسان کے لباس کو دیکھنے کے بجائے اس انسان کے اندر چھپی حقیقت اور اسکے مقاصد کو سمجھیں ۔  اسی فکر نے ایران کو مضبوط بنایا ہے۔

 آپ دیکھیں کہ سنی کے لباس میں کیا کچھ نہیں کیا گیا کہ شیعہ سنی کو  آپس میں  دست بہ گریبان کریں۔ مگر اس کربلا کی تربیت نے ان کو وہی آنکھیں دی ظاہر کو دیکھنے کے بجائے بصیرت سے کام لیں ۔آپ نے اشارہ کیا سفیروں کو قتل کرنے کی ۔جی ہاں جب افغانستان میں  طالبان نے ایرانی سفارت پر قبضہ کیا اور تمام سفارتکاروں کو شہید کیا اور اس پہ جو بین الاقوامی قانون کے موجب ایران اس کی جوابی کاروائی کرسکتے تھے۔ ایران نے اپنے تمام ترعسکری طاقت کا  مظاہرہ کیا، سرحدوں پر وار گیمز کی مشقیں شراع کی مگر کوئی عملی حرکت نہیں کی۔ کیوں؟ کیونکہ ایران نے کہا کہ یہ افغانستان کا کام نہیں ہے ۔بلکہ یہ یزیدِ زمان امریکہ کا کام ہے۔ یہ گیم پلان اس کا ہے۔ یہ وہی چاہتا ہے کہ مسلمان مسلمانوں کا خون بہائے ۔ تو اسی ماڈل سے ،اسی کربلائی تحریک سے استعماری اور استکباری دنیا خائف ہے اور یہ نہیں چاہتے  ہیں کہ  دنیا کیلئے میدانی طور پر اور عملی طور پر  کربلا کا پیغام گھر گھر پہنچ جائے جو انسانی اقدار کی بالادستی کی تعلیم کو عام کرے۔ اس لئے اس حقیقت کو توڑ مروڑ کے پیش کرتے ہیں۔ الحمد للہ اس پوری مدت میں اس کربلا کے توسط سے ایران نے اپنا صالح فرزند ہونے کا ہنر ثابت کردکھایا اور اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا کہ  ہمارے لئے صرف اسلام کی بالادستی سرخ لکیر ہے قوم کی نہیں ہے ، زبان کی نہیں ہے یا قبیلے کی نہیں ہے ، خطے کی نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے صرف  اسلام کی بالادستی مدعا و مقصد ہے۔

·       ایران کی طاقت جفرافیائی اور  اسٹریٹجک اہمیت یا کچھ اور

س) یہ تو بہت خوبصورت چیزیں ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ ایران کی جغرافیائی حدود کی  اہمیت کیا ہے کیونکہ آج کل تمام چیزیں جفرافیایئ اور اسٹریٹجک  نکات کی اہمیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہیں جس سے ملک کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے تو خطے کی پوری صورتحال  کو دیکھ کرایران کی جغرافیائی حدود کی  اہمیت کیا ہے؟

ج) جی جغرافیہ کے حوالے سے جو اہمیت بنتی ہے اسے نکارا نہیں جاسکتا مگر ایران نے جس چیز کو سب سے مہم اور طاقتور  بنایا ہے  وہ اسلام ہے نہ کہ اس کی جغرافیائی  خد و خال۔اسلامی انقلاب سے پہلے بھی ایران یہی ایران تھا ۔  یہی ایران  اسلامی انقلاب سے پہلے امریکا کا  سب سے  پرامن اور  مورد اعتماد مرکز تھا ۔ اور ایران میں بیٹھ کے وہ دنیا بھر کی سازشیں رچا رہا تھا۔ تو ایران، اسلامی حکومت کی وجہ سے اتنی بڑی طاقت بن گیا ہے نہ کہ اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹجک  حیثیت سے۔ اگر چہ جغرافیائی پوزیشن   کی اہمیت کو نکارا نہیں جاسکتا کہ اس کی جو سلک روڈ کی کنیکٹیوٹی اور اتصال ہے   اور تیرہ ممالک(1۔پاکستان،2۔افغانستان،3۔ترکمنستان،4۔جمہوریآذربایجان،5۔ارمنستان،6۔ترکی،7۔عراق،8۔امارات،9۔قطر،10۔بحرین،11۔سعودی عرب،12۔کویت،13۔عمان) کے ساتھ سرحدیں ملنا ہے  تو یہ اہمیت  اپنی جگہ ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں اسلامی انقلاب سے پہلے  ایران کی پوزیشن کیا تھی ۔ وہ سائنس میں کہاں تھا، وہ ٹیکنالوجی میں کہاں تھا، وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کس قسم کی نمایاں کارکردگی حاصل کرنے میں وہ اپنی ساخت بنانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ ایسا کوئی فخریہ کار کردگی  ہمیں  نہیں مل رہی ہے  کہ جسے سر اونچا کر کے اس کو نقل کیا جائے۔ کیوں؟ ، کیونکہ ایران اسلامی انقلاب سے پہلے بالکل سعودی عرب  کی طرح مغرب کے کرموں اور اشاروں  پہ چلتا تھا اور جس طرح ابھی باقی عرب ممالک ، اسلامی ممالک ہیں جن کا سارا انحصار امریکہ اور یورپ پر ہے ایران کی حالت بھی یہی تھی۔ جبکہ اگر توانائی کے اعتبار سے عالم اسلام میں سب سے زیادہ توانیاں  موجود ہیں۔ مگر کیوں وہ کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی دوسرے کے ایجنڈے کو پُر کررہے ہیں۔ اسلام کے ایجنڈے کو پورا نہیں کررہے ہیں۔ ایران اسلئےمہم بن گیا کیونکہ اس نے اسلام کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کیا ہے اور مغرب اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس استقلال نے ایران کو با اثر بنایا ہے ۔

·       ولایت فقیہ نظام تمام ادیا ن و مذاہب کیلئے رول ماڈل

س) تو یہ تو ایک اور ذاویے کی بات ہوگئی یعنی جو جغرافیائی حدود کی اہمیت  کہ جس کی جہاں پر بات کی جاتی ہے وہاں آپ نے فرمایا کہ پہلے بھی تو جغرافیائی حدود وہی تھی،لیکن چونکہ اس وقت استعمار کا  سب سے بڑا آلہ کار تھا اسلئے بے اثر تھا  لیکن سارا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ نے ایران کے جفرافیایی اہمیت کو اپنی شناخت اور قوت دی  ہے جس سے استعماری طاقتیں اب اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔کیونکہ انہیں نے ابھی تک مسخ شدہ اسلام دیکھا تھا کبھی بنی امیہ کی شکل میں ،کبھی بنی عباس کی شکل میں، کبھی کسی اور شکل میں لیکن جب  حقیقی شکل لوگوں کو اسلام کی نظر آئی تو دنیا والے اس کی طرف متوجہ ہونے لگے ہیں  اور اسلام کی لہر تیزی سے بڑھنے لگی ہے تو وہ اس کو روکانا چاہتے ہیں چھپانا چاہتے ہیں۔ استعماری اور استکباری طاقتوں کا خوف  حقیقی اسلامی ریاست سے ہے کہ  اسلام کا اصل چہرہ  عیاں نہ ہوجائے۔  تو یہ بہت خوبصورت بات ہوئی جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ۔  تو  یہ اسلامی ریاست  جو کافی پاورفل بن ہوچکی ہے، اس کی عسکری قوت بھی اتنہائی  زبردست ہے، اس کی دفاعی صلاحیت بھی انتہائی اچھی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے کہا کہ ان کی جو اسلامی ثقافت اور اسلامی تعلیمات پر بصیرت بھری نگاہ ہے ۔ اس حوالے سے پورے مڈل ایسٹ میں اور پوری دنیا کی پالسیز اور چلینجز کے چلتے  ایران کی  اہمیت اور ذمہ داری کیا  بنتی ہے۔؟

ج)  اسلام کا جو اصلی پیغام ہے اسے نافذ کرنے میں ایران کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے۔ ایران ابھی یہ دعویٰ نہیں کررہا ہے کہ  یہاں ہر کام سو فیصد اسلامی ہے بلکہ اعتراف  کرتے ہیں کہ اصلی مقصد تک پہنچنے میں قدرے فاصلہ ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک کے پاس تو صرف نام اسلامی ہے وہ  مکمل اسلامی ہونے کا ڈنڈورا پیٹتے اور اس پہ بڑا فخر کرتے ہیں۔ مگر یہاں پر میں چونکہ زندگی کرتا ہوں اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ  الحمد للہ مجھے ہر چیز اسلامی نظر آرہی ہے ،یہاں کے در و دیوار اسلام کی ترجمانی کرتے نظر آرہے ہیں  مگر اس کے باوجود میں دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہوں کہ ایرانی حکام موجودہ حالات سے اطمان کا اظہار نہیں کرتے اتنا فخر نہیں کرتے ہیں کہ ہم پورے سو فیصد اسلام نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں!۔

اسی لئے اس حقیقت کو جاننے کیلئے میں کہنا چاہتا ہوں کہ  لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایران کا سفر کریں یہاں کے شیعوں سے نہ ملیں ،بلکہ یہاں کے عیسائی سے جاکے ملے اور پوچھیں کہ  آپ کو اسلام کیسا لگتا ہے ،یا یہاں کے زر تشتوں سے ملے اور پوچھیں کہ آپ کو اسلام کیسا لگا ،  یہاں کے یہودیوں سے ملیں اور پوچھیں کہ آپ کو اسلام کیسا لگا ہے۔ اگر آپ کو یہاں جو غیر مسلمان ہیں ان کو آپ پائیں گے کہ وہ انتہائی امن و امان کا  احساس کرتے ہیں اور ان کیلئے ہر قسم کی سہولیت کے دروازے اسی طرح  کھلے ہوئے ہیں جس طرح اکثریتی شیعوں کیلئے تب جاکے آپ کو اسلام کا ایڈرس ملے گا اور پتہ  چلتا ہے کہ یہاں کس حد تک اسلام نافذ ہونے میں کامیاب ہوا ہے۔ اور  پھر یہاں کے سنیوں سے ملیں تو وہ آپ کو شیعوں کا پتہ دینگے ، یہاں کے شیعوں سے ملے وہ آپ کو سنیوں کا پتہ دینگے۔

 اور یہاں جو اسلامی حاکمیت نے ، اسلامی نظام نے جو صدر اسلام میں اسلام کا جو پرچم بلند کیا تھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی  پرچھائی آج دیکھنے کو ملتی ہے یہ وہی إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا(الواقعة/26)  کا مصداق ہے کہ ہر جگہ امن و انصاف کی بالادستی کی طرف رواں دواں  چلتا نظر آ رہا ہے۔

اور اسی اسلام کو  اسلام کی حقیقی یہی تعلیم دنیا پر عیاں ہوگی تو سبھی اس کا استقبال کرینگے ۔ اسی لئے استعماری طاقتوں کی کوشش ہے کہ اس کی اصلی صورت  لوگوں تک نہ پہنچے،  اسی لئے داعش کی شکل میں اور دہشتگردوں کی شکل میں اسلام کو پیش کیا جاتا ہے۔ اور جو امام خامنہ ای نے یورپ کےجوانوں کے نام جو خط لکھا ہے ان کیلئے بھی یہی دعوت دی  کہ آپ اصل اسلام کا مطالعہ کریں۔ یہ دہشتگرد اسلام کے  ترجمان نہیں ہیں۔ آپ اصل اسلامی متون کو دیکھ کر اسلام کو دیکھیں اور الحمد  للہ ایران اس چیز میں کامیاب ہوا ہے کہ وہ عملی میدان میں اپنے آپ کو یہ مثالی مسلمان دکھانے میں کامیاب ہوا ہے ۔اور اسی سے  استعمار و استکبار خائف ہے کہ یہ رول ماڈل دوسرے ممالک کی طر ف  نہ بڑ جائے ، دوسرے لوگوں تک نہ پہنچے، کیونکہ یہ صرف شیعہ سنی کیلئے رول ماڈل نہیں بن رہا ہے ، ابھی واٹیکان بھی اس بات کو محسوس کررہا ہے کہ جو ایران نے ولایت فقیہ کا جو ماڈل انٹرڈیوس کیا ہے متعارف کیا ہوا ہے  وہ ہر دین اور مذہب کیلئے فِٹ آتا ہے اور مناسب ہے کہ ہر دین کا جو سب سے دیندار اور خدا ترس انسان ہو ، جس کا جذبہ حقیقی انسان اور انسانی اقدار کی خدمت ہو اس کے ہاتھ میں اقتدار ہونا چاہئے نہ کہ ظالموں کے ہاتھ میں۔ بلکہ اسی طرح ہر دین میں یہ جذبہ اوریہ لہر پیدا ہوگئی ہے کہ اگر ہم اپنے دین کا دعویٰ کرتے ہیں کیوں ہماری زندگی میں دین کا عمل دخل نہیں ہے۔ تو اس ماڈل سے استعماری طاقتیں  ڈر رہے ہیں کہ ایران  خود بخود دنیا کے سامنے قابل تقلید  ماڈل کی شکل میں ابھر رہا ہے  اسی لئے ہر ممکن طریقے سے اس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

·       مقاومتی اقتصاد کا مدعا و مقصد

س) تو ابھی جو یہ الیکشن ہوئے اس کے بعد آپ کیا تبدیلی دیکھتے ہیں۔ جو کہ نئے لوگ سامنے آئے ہیں ایک نیا خون کہ جسے آپ کہیں کہ نیا بلڈ دوبارہ انقلاب کو ملا ہے؟ 

ج)  جی الحمد للہ یہی تعبیر بالکل صحیح ہے نیا خون ہے کیونکہ اس میں جو مجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ) کی قانون کے حوالے سے اہمیت ہے کہ وہ ایسے قوانین  بنائیں ایسے دور میں جب سینگشنز اٹھی ہیں(ظالمانہ بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوئی ہیں)  اور یہ اچھی فرصت ہے کہ ایسے قوانین کو میدان میں لایا جائے   جو امام خامنہ ای نے یہاں ایک سلوگن دیا ہے  اقتصاد مقاومتی  [Resistance Economy]کا وہ یہ کہ ایران کے خلاف استعمار اور استکبار کے اس پیچ خم اور مہرے بدلنے سے ایران کے کسی بھی شعبے کو متاثر نہ کرنے پائے کے حوالے سے مؤثر ہوں ۔  جو کہ الحمد اللہ اول سے  ہی یہاں یہی سیاست رہی ہے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے ابھی تک سینگشنز کا بھی بھرپور مقابلہ کیا ہے اور اب یہ اچھی فرصت ہے اس الیکشن میں وہ ایسا قانون وضع کرینگے کہ جسے وہ اور زیادہ مضبوط  بناسکیں اور البتہ اس بار وہ زیادہ تراکانومی   او ر ٹیکنالوجی پہ زیادہ فوکس کریں گے۔

·       ایران کے خلاف کارگر استعماری سازشیں اور اسکی کاٹ

س) اب ایران کو کن چلینجز کا سامنا ہے اور مغرب کی کیا سازش ہوسکتی ہے؟

ج) جی چلینج تو اندرونی بہت زیادہ ہیں ۔ سب سے زیادہ جو استعماری طاقتوں کیلئے کارگر  ثابت ہوسکتا ہے  وہ مسلکی علمی کلامی اختلافات کو میدانوں اور سڑکوں پہ لانے کی کوشش ہے ۔ ایکطرف شیعوں کے اندر علماء کو ایک دوسرے کے سامنے لانے کی کوشش کرینگے۔ اور دوسری طرف سنیوں کو اسی طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے لائیں گے۔ اور پھر شیعہ سنی مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش کریں گے۔ یعنی در واقع اس میدان میں اچھی خاصی انوسٹمنٹ ہورہی ہے ۔ مثلاً ابھی اسرائیل میں تل ابیب یونیورسٹی میں شیعہ شناسی کیلئے  ایک شیعبہ قائم ہے وہ  شیعہ کتابوں کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں اور وہاں سے نکات   کاٹ چھاٹ کر نکال کر وہ سوشل میڈیا میں عام طالب علموں کے ہاتھ میں دیتے ہیں جس کے سیاق و سباق سے بے خبر لوگ پریشان ہو جاتے ہیں ان کے لئے اسلام کے بارے میں شک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ علمای اسلام کے نسبت بد بین بن جاتے ہیں ان علمی نکات  کو  سوشل میڈیا پہ لاکے اس پورے نظام کو جس نے استعمار و استکبار کی نیندیں حرام کی ہیں اس کو زیر سوال لاتے۔ اگر ان شبہات اور سوالوں کا جواب ڈھونڈنے  میں صداقت ہوتی تو انہیں سوشل میڈیا پر لانے کے بجائےعلمی محفلوں میں پیش کئے جاتے جسطر کہ حوزات علمیہ میں علمی اختلافی موضوعات صرف علمی محفلوں میں محدود رہتے ہیں اور استعماری طاقتیں اس سنت کو توڑنے کے در پے ہیں کہ علمی اختلافات علمی محفلوں میں نہ رہے ۔یہ ایک قسم کی سازش ہے۔ دوسرا نفوذ کا ہے کہ مثلا کچھ ایرانیوں کو  اس طریقے سے بڑھانے کی کوشش کریں جو کل اسقدر از خود راضی ہو جائیں اور کانفڈنٹ ہو جائیں کہ وہ جو احتیاطی تدبیریں جس کے ساتھ جو کام کرتے آئے تھے انہیں غیر ضروری سمجھیں  اور وہ اس  احتیاط کو ہاتھ سے چھوڑ دیں تو یہ دوسرے قسم کا نفوذ ہوگا۔ اور ایک نئے قسم کے  نفوذ ہے وہ ہے وہ یہ ہے ایک سافٹ ویئر  ٹائپ کا منصوبہ  جو یہاں کیا اکانومی او ر ٹیکنالوجیس کو اس طریقے سے انٹرپٹ کریں .......

ناظرین کی طرف سے لائیو کال:

جی بالکل ایسا ہی ہے اتفاقاً انہوں نے بہت اچھی بات کہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ البتہ یہ پریشانی والی بات تب ہوگی کہ جب اس موضوع کو لیکر اندیکھی کی جاتی  جو میں کہہ رہا ہوں اس میں کوئی عیب نہیں ہے ایسا نہیں ہے۔یہ ایک اور ذاویہ ہے کہ جس کی طرف لائیو کالر نے اشارہ کیا  میں اس میں اضافہ کرنا چاہوں گا  کہ  جو ایران سے باہر ایرانی مقیم ہیں جو یہاں سے اکتا گئے ہیں اس پاک و صفاکے ماحول سے  بھاگ کر وہ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور وہاں بعض ان میں سے اتنی شرمناک حرکتیں کرتے ہیں کہ غیر مسلمان  نہیں کرے گا کہ جو وہ ایرانی وہاں کرتے ہیں۔ تو کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو انکو ماڈل دیکھ کےکہیں  گے کہ سبھی ایرانی ایسے ہونگے۔ مگر یہ خدشہ بھی دور ہونے جا رہا ہے  کیونکہ اب بین الاقوامی پابندیاں ، سینگشنز اٹھی ہیں پورے دنیا کا فلو اور آمد و رفت ایران کی طرف اب شروع ہوچکا ہے  اور اسلامی ایران کی حقیقی تصویر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔  جو یہاں ابھی تک آیا  ہے  وہ سبھی حیران ہوجاتے ہیں کہ اتنی سیولائز اور ترقی یافتہ قوم ، اتنے پڑھے لکھے اور اتنی مہذب قوم یہ دنیا کے ہر کونے میں  مثالی لوگ کے طور پر متعارف ہو نے چاہئے۔ تو اس کیلئے تو کاؤنٹر پابندیاں اٹھنے سے خود بخود وجود میں آیا گیاہے ۔اگر پابندیاں بھی نہیں اٹھتی پھر بھی جو یہاں ایران سے باہر ہوگئے وہ اتنا اس اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

 لیکن جو اندر ہائیر کئے گئے ہیں ایران میں امریکہ کی طرف سے ، یورپ کی طرف سے، اسرائیل کی طرف سے وہ خطرناک  قطعی ہیں اس میں کوئی تردید نہیں ہے اب دیکھنا ہے کہ ان کیلئے  کس حد تک ان کا اثر و رسوخ  پر اس پہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ چھپ کے نہیں بلکہ حلیہ بدل کے کام کرتے ہیں۔ ایران میں بیٹھ کے مثلاً یہی نائٹ کلب کی بات جس کی طرف لایو کالر  اشارہ کررہے ہیں یا جنسی مسائل کو لیکر کے موضوعات ہیں ، کوئی ویڈیو  کلپ بنا کے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے تو  باہر سے دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ شاید ایسا ہے کچھ ہے۔  ہاں یہاں کے لوگ ایسے بھی آباد ہیں۔ کیونکہ یہاں سبھی لوگ مومن نہیں ہیں۔ جب صدر اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں وہ سبھی مومن  نہیں بنے تھے  اس وقت بھی  منافق  تھے ۔آج تو منافقوں کا دور ہی دور ہے اس میں ایران میں کہاں سب کے سب مومن نکلیں گے وہ تو قطعی ممکن نہیں ہے۔البتہ صدر اسلام کے مانند مومنین کی تعداد یہاں بہت ہے۔

 مگر جہاں تک اس ماڈل کو محفوظ رکھنے میں جس نفوذ کا خطر ہ ہے وہ صرف اندرسے ہے کہ جو فقہی اعتبار سے اور جو علمی اعتبار سے جو ماحول تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں کس حد تک  کنٹرول کیا جاسکتا ہے  یہ وقت ہی بتائے گا کہ ہم  اورآپ کس حد تک بیدار ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ سمجھیں اور سمجھائیں کہ جب بھی کوئی عالم اختلاف کی بات کرے تو سمجھیں کہ اس سے مجلس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ کسی ایجنسی کا شعوری یا غیر شعوری آلہ کار ہے کہ جو اختلافی مسائل کو مخالف  گروہ کے مدافع کے حضور کے بغیر بیان کرتا ہے۔ کیونکہ آپ دیکھیں شیعہ  محفل میں بیٹھیں ہیں، بولنے والا بھی شیعہ ، سننے ولا بھی شیعہ اور میں جاکے سنی کے خلاف بولوں تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ کوئی اور مقصد رکھتا ہے۔ یاسنی محفل میں  بولنے والا بھی سنی، سننے والا بھی سنی مگر وہ شیعہ کے خلاف بات کررہا ہے تو  ظاہر سےی بات  ہے کہ  وہ کسی  مجہول مقصد کی آبیاری کرنے کیلئے ایسا کرتا ہے۔ اگرچہ شیعہ کو کوئی سوال ہے سنیوں کے بارے میں تو وہ سنی علماء سے کرے۔ یا سنی کو کوئی سوال ہے وہ شیعہ علماء سے سوال کرے،  یہ تو عوام میں بات کرنے والی بات تو ہے ہی نہیں جو سن کر فیصلہ سنا سکے۔ کیونکہ علمی باتیں علمی ماحول میں ہی اپنا ثمرہ دیتی ہیں اس سے خارج ہوکر تو وہ ضایع ہوجاتی ہیں۔اور دشمن کافی حد تک اختلافی موضوعات کو علمی محفلوں سے نکالنے میں  کامیاب ہوا ہے ۔اگر لوگ اس میں بیداری کا مظاہرہ نہ کریں ، ایسے علماؤں کی کاٹ کریں  جو اختلافی موضوعات کو عوام میں مجادلے کیلئے چھوڑتے ہیں تو دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ عوام میں واضح ہونا چاہئے کہ ہر مسلک کے پاس اپنی  علمی دلیل ہے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ  شیعہ اپنے عالم کو کہے کہ جناب میں اختلافی موضوع پر آپ کی بات  سننے کیلئے تیار ہوں لیکن آپ سنی عالم کو بھی  لائیں تاکہ بیٹھ کر آپ دونوں  کو سنتے ہیں ۔ اور سنی بھی اسی طرح  اپنے سنی عالم کو کہے کہ اختلافی موضوپ پر آپ کی بات سننے کیلئے تیار ہوں لیکن آپ شیعہ عالم کو بھی لائیں ہمارے سامنے آپ دونوں کی سنیں گے ایک طرفہ بات نہیں چلے گی۔ تو اس قسم کی عوامی بیداری کیلئے اگر چہ بہت کچھ کام کیا جارہا ہے مگر پھر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ....

·       عوام میں بصیرت بڑھانا بنیادی مقصد

س) مگر ان تمام چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انقلاب ہمیں الرٹ نظر آرہا ہے۔انہوں نے بیان بھی دیدیا کہ ہم نفوذ بالکل اثر انداز ہونے نہیں دینے والے  ہیں کسی بھی حوالے سے سوشلی، اخلاقی مطلب کسی طرح سے بھی انہیں نفوذ کرنے نہیں دیں گے ۔ تو اس کے اوپر نبردآزما ہونے کیلئے ابھی کیا پلاننگز آپ دیکھتے ہیں  یہ کہ چھوٹے چھوٹے کلپز ڈالے جاتے ہیں  وغیرہ کیوں انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا ؟

ج) اگر یہ موضوع گرفتاری  سے حل ہونے والا مسئلہ تھا تو یہ تو مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ اگر مثلاً میں عبا قبا پہن کے عمامہ لگا کے میں کوئی قانونی جرم کرتا ہوں اور مجھے آکے پولیس پکڑتی ہے دشمن تاق میں بیٹھا اسی لمحے کا منتظر ہوتا ہے وہ  میرا  اس حال میں فوٹو نکال کر   سوشل میڈیا میں ڈالا  دیتا ہے اور اس پرمثلا عبارت لکھتا ہے کہ  دیکھئے اس عالم کے ساتھ یہ اسلامی حکومت کیسا سلوک کرتی ہے۔ دیکھنے والے بھی  یہ نہیں پوچھتے  کہ کیوں پکڑا؟ اس نے کیا کیا تھا؟ وغیرہ.... تو دشمن کی طرف سے میڈیا کی گرفت کے چلتے ابھی اتنی سوشل ایویرنیس نہیں ہے یا بصیرت نہیں ہے کہ عوام  مجرم کو کسی بھی لباس میں  پہچانے۔

اس حوالے  سے پوری طرح یورپ کی مثال  دقیق ملتی ہے کہ وہ عوام کے اذہان کے ساتھ کون سا کھیل کھیلتے ہیں۔ آپ  جانتے ہیں دنیا  بھر میں ڈرگ ٹریفکنگ کو روکنے میں سب سے زیادہ جانی قربانی دینے والا ملک جو ہے وہ ایران ہے۔ کیونکہ ایران کے ہمسایہ ملک سے جو ڈرگس یورپ سمگل کئے جاتے ہیں وہ ایران کے تھرو اسمگل کئے جاتے ہیں۔ تو ان کو کنٹرول کرنے میں ہر سال اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کو بہترین کارکردگی ایوارڈ دیتا ہے کہ آپ  ڈرگ ٹریفکنگ کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہی اقوام متحدہ ایران پہ حقوق بشر کی خلاف ورزی کا الزام لگا لیتے ہیں کہ جناب آپ نے اتنے لوگوں کو پھانسی دےدی ہے یہ نہیں کہتے کہ ڈرگ ٹریفکنگ کے ملزموں کو انہوں  نے پکڑا  اور ان کو سزائے موت دی گئی ہے۔ یہ نہیں بتاتے کہ  انہوں نے اتنے لوگوں کو  جو مارنے کا اہتمام کیا ہے ان کا جرم کیا تھا۔ جس طرح ایوارڈ دینے پر بتاتے ہیں کہ  یہ ایوارڈ کیوں دیا گیا  وغیرہ.... ۔ تو یہ وہ باتیں ہیں کہ جنہیں عوام کو بصیرت کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اورجو اندر سے دشمن کے  نفوذ والی بات ہے وہ بھی یہی ہے وہ   اگر پکڑ دھکڑ سے مسئلہ حل ہوجاتا تو یہ کب کا حل کیا  جاتا جبکہ یہ ثقافتی او رتہذیبی موضوع ہے۔ اس میں  کوشش جاری ہے کہ اس  سلسلے میں ثقافتی میدانوں میں بہت کام کیا جاتا ہے کہ علمی میدانوں کے اندر علمی باتوں کو علمی معیار سے سمجھنے کی صلاحیت عوام میں پیدا ہو۔نہ کہ جس طرح وہابی کرتے ہیں کہ "ہاں"یا "نا" میں جواب لیتے ہیں اور فتوی صادر کرتے ہیں کہ  آپ نے یہ کیا ، وہ کیا کافر ہوگئے،  آپ نے یہ نہیں کیا تو آپ کافر نہیں ہوگئے۔ جبکہ فرہنگ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ خود بھی دلیل پیش کرتا ہے اور طرف کو بھی دلیل پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔اسلام نے ہمیں تحمل اور اعتدال کا دعوت دیا ہے اور وہ تبھی ممکن ہوگا کہ جب ہم اُس اسلامی ثقافت کو پورے اعتبار سے نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ اگرچہ ایران ثقافتی میدان  میں بہت محنت کررہا ہے مگر ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔

·       اندرونی نفوذ تشویشناک

س)  تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ابھی اندر کچھ شرارت کی جاسکتی ہے ؟ اس کیلئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ابھی کیا ما حول ہے؟

ج) ماحول انتہائی سوالیہ ہے کیونکہ ایران پورے عالم اسلام میں اکیلا ہے  کیونکہ اگر کوئی دوسرا ملک بھی ہمصدا ہوتا اور وہ بھی ان اسلامی شعار  اوراسلامی اہداف کی آبیاری میں تعاون کرتے تو شرایط بالکل مختلف ہوتے۔ لیکن ابھی تک ایران خالص اسلامی ماڈل کو پیش کرنےاکیلئے لڑ رہا ہے اور یہ اسی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ اگرچہ عوامی سطح پر ہی سہی سنی علماء، شیعہ علماء ایسے اسلامی اہداف کی آبیاری کیلئے وہ تعاون تو کرتے ہیں، گرچہ صرف بیان بازی ہوتی ہے، اخباروں میں  آتے ہیں کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ۔ مگر جو میدانی ضرورت ہے وہ ابھی تک پوری نہیں کی جاسکی ہے۔ اس تناظر میں میری نظر میں تشویش باقی ہے۔البتہ  امام خامنہ ای نے اطمنان دلایا ہے کہ یہاں ہر قسم کا جو نفوذ ہے اس کو روکنے کیلئے ہر اقدام کرینگے ۔باہر سے کی جانے والی ہر سازش کیلئے ناقابل تسخیر تدبیریں موجود ہیں اور ایران استعمار و استکبار خاص کر امریکہ پہ  انحصار توڑنے میں میدانی شکل میں ایران کامیاب ہوگیا ہے۔ آپ دیکھیں آئے روز امریکا کواسلام کے مقابلے میں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔امریکہ نے جو افغانستان کے ذریعہ جو جال ایران کے خلاف بنا نتیجہ کیا ہوا ۔ عراق کا کارڈ کھیلا نتیجہ کیا ہوا، اب شام  میں ہاتھ پیر مارتا ہے  نتیجہ کیا ہوا، یمن اور بحرین کیلئے کیا کررہا ہے جو بھی گیم پلان امریکا نے اسلامی ایران کے خلاف کھیلا ہمارے سامنے ان سب کے نتائج موجود ہیں  وہ یہ  کہ اسلامی ایران کے خلاف امریکا ہر سطح پر ناکام ہورہا ہے ۔اب امریکا کیلئے صرف اندر سے  نٖفوذ کرنے کاراستہ رہا ہے وہ ہر سطح پہ اس میں  سرگرم رہے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ جس طرف آپ نے بھی اشارہ کیا اور میں کہتا رہا ہوں کہ  موضوع تشویشناک ہے کیونکہ اب جو بین الاقوامی پابندیاں اٹھنے کے بعد ماحول بننے بن رہا ہے اور دشمن کے راستے مزید کھل گئے ہیں اس سے اس تشویش کی سنگینی بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔

·       ولی فقیہ کی فرمانبرداری اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے بچنے کا واحد عملی ہتھیار

س) تو ابھی آپ کیا کہتے ہیں کہ دشمن کی سازشوں کے پیش نظر پبلک ایوئرنس  اورعوامی بیداری کی صورتحال کیا ہے؟

ج) ولی فقیہ حکیم و رہبر کے ہوتے ہوئے کہ جب کبھی بھی معاشرے میں چوک ہوتی وہ انہیں بیدار کرتے ہیں ایسے بیدار اور ہوشیار رہبر کے ہوتے ہوئے  پریشانی والی بات نہیں  اور اطمنان حاصل ہے ۔ مگر رہبر کی رہبری اپنا اثر تب دکھاتی ہے جب عوام فرمانبرداری کا عملی مظاہرہ کرے۔ ہم صرف زبان سے نہیں کہیں گے کہ امام خامنہ ای  ہمارے رہبر ہیں ، نائب امام زمان عج ہیں اور ہمارےقائد ہیں، اور کل قیامت میں انہیں ہمارے سوالات کا  جواب دینا ہے۔ ہمارے نامہ اعمال جب رہبر کی رہبری کے عین مطابق ہوں تو ہمارے اعمال  نورانی بن جاتے ہیں بلکہ ایسا کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں عملی طور پر جتنا ہم مظاہرہ کرینگے اتنا ہی دشمن کا  نفوذ کا اثر بے اثر ثابت ہوگا ورنہ باتیں کرنے کیلئے تو بہت کچھ کہا جاتا ہے۔

·       دشمن صرف اسلامی صفوں میں نفوذ کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے اسلام اور مسلمین کیلئے اکلوتا تشویشناک خطرہ

س) آپ مجموعی طور پر صرف  اندرونی چلینجز سمجھتے ہیں  مگر بیرونی چلینجز بھی تو ہیں یہ  جو تنظیمیں بنائی جارہی ہیں ، 34 ملکی اتحاد کو سامنے لایا جارہا ہے ، کیا وہ حقیقی خطرہ بن سکتا ہے؟

ج) کوئی بھی خطرہ نہیں ہے ، نہ ہی عسکریت ، نہ ہی امریکہ سے کوئی خطرہ ہے ، نہ ایسے کوئی اتحاد سے خطرہ ہے۔ بالکل نہیں۔ اگر کوئی خطرہ ہے وہ بس صرف اندرونی صفوں میں نفوذ کا ہے، مسلمانوں کے صفوں کو توڑنے کا ہے ۔باقی کچھ نہیں ہونے والا ہے نہ لبنان میں امریکہ کی کوئی بالادستی ممکن ہے ، نہ شام میں حتیٰ انشاء اللہ  یمن کی  کامیابی بھی نزدیک تر ہوگی، بحرین کی بھی کامیابی ، پورے خطے میں اسلامی بیداری کی لہر روز بہ روز زور پکڑے گی۔ مگر جس بات کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ خود اپنے صفوں میں انتشار پھیلانے میں کسی کسی جگہ دشمن کامیاب نہ ہوجائے۔

تبصرے (۱)

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی