سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امریکی عہدے داروں کی جانب سے سعودی عرب کی بد حالی اور یمن میں انصار اللہ کی بالا دستی کا اعتراف

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل یمن

امریکی عہدے داروں کی جانب سے سعودی عرب کی بد حالی اور یمن میں انصار اللہ کی بالا دستی کا اعتراف

امریکی عہدے داروں کی جانب سے سعودی عرب کی بد حالی اور یمن میں انصار اللہ کی بالا دستی کا اعتراف

نیوزنور:امریکی عہدے داروں نے بین الاقوامی روابطی کمیٹی کے اجلاس میں  یمن کے  متعلق اعتراف کیا کہ  در حال حاضر  سعودی عرب مذاکرتا کے میز پر آنے کا ارادہ نہیں رکھتا ، اور بالمقابل ، یمن میں انصار اللہ کی  گرفت مضبوط ہو چکی ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ،  جہاں ایک طرف مغربی ممالک کی جانب سے یمن کی جنگ میں   سعودی اور اماراتی اتحاد کی  جنایتوں  کی حمایت جاری ہے ، وہیں دوسری جانب  ایک امریکی سینئیٹر  نے ایک جلسے میں یمن کے بارے میں کہا کہ   سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات   مذاکرات کے ذریعے کوئی سیاسی راہ حل نہیں چاہتے  اور  اسی طرح اپنی نا قابل قبول فوجی کاروائیوں پر مصر ہیں ۔

رئیل کلیر پالیٹیکس کی رپورٹ کے مطابق ،  امریکی کانگریس کے رکن  اور سینئیٹر  ،کہ جو یمن کی جنگ کے منتقدین میں شمار کئے  جاتے تھے ،  انہوں   بین الاقوامی روابطی کمیٹی کے  اجلاس میں  امریکی وزیر خارجہ کے موقت  حمایتکار  دیود ساتر فیلد  کے سامنے  یمن کے متعلق سوالات رکھے اور اسی طرح اس جنگ میں واشنگٹن کے کردار پر تنقید کا اظہا ر کیا ۔

انہوں نے کہا : کسی انسان کے لئے اپنی غلطی تسلیم کرلینا ایک مشکل کام ہے  اور امریکی خارجی سیاست کی سب سے بڑی غلطیاں اس وقت حادث ہوتی ہیں کہ جب ہمیں پہلے  فوجی اقدامات کا فیصلہ کرتے ہیں  اور اس کے بعد  اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میدانی حقائق میں رونما ہونے والی ہماری غلطیاں کھل کر سامنے آئیں ۔  جنون اور دیوانگی کی حد یہ ہے کہ  آپ ایک کام کو بار بار انجام دیں  اور پھر مختلف نتایج کا انتظار کریں  اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ  ہم اس وقت  جنگی مراحل میں ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں  کہ جہاں کچھ بھی بدل نہیں سکتا بلکہ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔

انصار اللہ کی  گرفت میں مضبوطی کا اعتراف

اس امریکی سینئیٹر نے مزید کہا : حوثیوں کا اپنے علاقوں کا ابھی بھی اتنا ہی تسلط باقی ہے کہ جو اس جنگ اور انسانی تباہی سے پہلے تھا  اور ہم ابھی بھی یہیں بیٹھے ہوئے  ایک روشن مستقبل کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں  لیکن زمینی  حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں ۔ 

انہوں نے مزید کہا : جناب ستر فیلڈ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ آپ بین الاقوامی روابطی کمیٹی میں بیان کر رہے ہیں  کہ  ایرانی مذاکرات کے خواہاں نہیں ہیں  اور سعودی اور اماراتی مذاکرات چاہتے ہیں ، یہ اس موضوع کے متعلق آپ کی مغالطہ کوئی ہے ، کیونکہ ہماری  جانب سے آپ کو بندر گاہ الحدید کو ہدف قرار دینے کے متعلق مورد  سوال قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب  کا ہر سوال جواب میں کہنا ہے کہ  یمن کی جنگ میں جب تک  فوجی توازن میں تبدیلی نہیں آتی ہے وہ کسی  بھی طرح کے مذاکرات کے قائل نہیں ہیں  اور جب تک حوثی   اپنی پہاڑیوں سے اپنی فوجوں کو واپس نہیں بلا لیتے  تب تک سعودی عرب کسی بھی طرح کے مذاکرات کرنے کے حق میں نہیں ہے  اور پھر اس سب کے با وجود  آپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پیش قدمی کر ررہا ہے  جب کہ جنگ کو پانچ سال گذر جانے کے بعد بھی سعودی عرب اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پایا ۔ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ  سعودی عرب مذاکرات کا خواہاں ہے جب کہ  پانچ سال سے مسلسل نا کامیوں کے با وجود بھی وہ لوگ جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں؟  ہماری  آپ سے اس طرح کے سوالات کرنے کی دلیل یہ ہے کہ  سعودی حکام  فون کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ لوگ الحدید کو نشانہ بنانے کی نقشہ سازی کرر ہے ہیں  اور وہ ایسا صرف اور صرف مذاکرات سے پہلے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے کر رہے ہیں ۔

مشرق وسطیٰ کے امور میں  امریکی وزیر خارجہ کے موقت حمایت کار دیود ستر فیلڈ نے بھی ان سوالوں کے جواب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ  یمن میں انصار اللہ کا وجود پہلے سے زیادہ قوی تر اور مضبوط ہے ۔

اس نے جواب میں کہا : فوجی اعتبار سے ، تین سال قبل کہ جب یہ جنگ شروع ہوئی ،  نہ فقط یہ کہ ہم نے حالات کو سنبھالا نہیں بلکہ شاید  ہم حالات کے بگڑنے کے ذمہ دار تھے ۔  تین سال پہلے کی بنسبت حوثی آج زیادہ مستحکم ہیں ۔ حوثی مخالف  گروہ منجملہ  علی "عبد اللہ صالح سے وابستہ گروہ " اور"  ملی عوامی پارٹی" جیسے گروہوں کا وجود نابود ہونے کی زد پر ہے  اور اسی طرح بقیہ عناصر ، جیسے "الاصلاح پارٹی" " علی محسن (صالح الاحمر) "  بھی اس جنگ میں گم ہو کر رہ گئے ہیں  اور حالات پر اثر انداز ہونے کی قوت نہیں رکھتے  اور اسی وجہ سے شرائط سخت ہو چکے ہیں  اور راہ حل کی حصول یابی مشکل ہو چکی ہے ۔ حالات اس حد تک تبدیل ہو چکے ہیں  شاید  صرف فوجی  طاقت کی بنیاد پر حوثیوں کو مذاکرات کے میز تک لانا اور ان سے اپنی شرائط منوانا نا ممکن ہے ، اور ہم نے اس بات کا فیصلہ سعودی عرب پر ہی چھوڑ دیا ہے ۔

سینئیٹر  مورفی نے پھر سے سوال کیا : لیکن  پانچ سال پہلے سعودیوں کا موقف یہ تھا کہ  اوسطا ہر روز 15 ہوائی حملے کر کے وہ لوگ حوثیوں کو مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیں گے ۔  یہ سعودی اتحاد کا موقف تھا ۔ کیا ایسا نہیں تھا ؟

امریکی وزارت خارجہ کے عہدے دار نے جواب دیا : سعودیوں کا موقف یہ تھا کہ مسلسل فوجی اقدامات کئے جائیں ۔ سعودیوں  کی حمایت کے متعلق ہمارا موقف یہ تھا کہ  سیاسی اعتبار سے فوجی اقدامات قابل قبول نہیں ہیں اور احتمالا آئیندہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے ۔

بین الاقوامی روابطی کمیٹی کے رکن نے وزارت خارجہ کے اس عہدے دار کے جواب میں کہا کہ :  اور ہم ان پانچ سالوں میں اس کا نقطہ نظر تبدیل نہیں کر سکے  اور پھر بھی ہم اس انتظار میں ہیں کہ حالات تبدیل ہو جائیں ؟           

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی