سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران مذھبی سیاسی محضر امام خمینی رہ

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

کا

الہی سیاسی وصیت نامہ

ترجمہ از قلم: ابو فاطمہ موسوی عبدالحسینی(مدیر اعلی نیوزنور ڈاٹ کام)

پیش لفظ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم

قالَ رسولُ الله صلی الله علیه و آله و سلّم: إنّی تارکٌ فیکُمُ الثَقلَینِ، کتابَ اللهِ و عترتی اهلَ بیتی فإِنَّهُما لَنْ یفْتَرِقا حَتّی یرِدَا عَلَیّ الْحَوضَ

(رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں  کتاب اللہ اور اپنے اہلبیت (علیہم السلام )چھوڑے جا رہا ہوں،یہ دونوں ایکدوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔)

الحمدُلله و سُبحانَکَ؛ أللّهُمَّ صلّ ‌علی محمدٍ و آلهِ مظاهر جمالِک و جلالِک و خزائنِ أسرارِ کتابِکَ الذّی تجلّی فیه الأَحدیه بِجمیعِ أسمائکَ حَتّی المُسْتَأْثَرِ منها الّذی لایعْلَمُهُ غَیرک؛ و اللَّعنُ علی ظالِمیهم أصلِ الشَجَره الخَبیثه.

(تمام حمد و ثناء اللہ کیلئے ہیں اور تو پاک ہے۔ اے اللہ! حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور انکے اہلبیت (علیہم السلام)پر درود و سلام  بھیج جو تیرے جمال و جلال کے مظہر اور تیری کتاب کے اسرار کے خزانہ دار ہیں کہ جس میں احدیت ،تیرے تمام اسماء کے ساتھ حتی کہ اس خاص اسم کے ساتھ بھی جسے تیرے سوا  اور کوئی نہیں جانتا جلوہ گر ہے اور لعنت ہو ان ظالموں پر کہ جو شجرہ خبیثہ کی جڑ ہیں۔)

و اما بعد:

مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے "ثقلین" کے بارے میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ کچھ قاصر تذکر دوں،وہ بھی نہ  انکے  غیبی ، معنوی اور عرفانی  مقامات کے حوالے سے کہ جس کے بارے میں میرے جیسے انسان کا قلم جسارت کرنے سے عاجز ہے،جن مقامات کےتمام دائرہ وجود پر انکے عرفان کے ساتھ عالم ملک سے ملکوت اعلی اور وہاں سے بزم لاہوت تک اور جو کچھ میرے اور آپ کے ذہن میں نہیں سما سکتا،سنگین اور اسے تحمل کرنا طاقت فرسا ،اگر ناممکن نہیں ممتنع ضرور ہے؛ اور نہ ہی بشریت کو"ثقل اکبر" اور "ثقل کبیر"جو کہ  ہر چیز سے اکبر ہے ثقل اکبر کو چھوڑ کر کہ جو خود مطلق ہے کے والا مقام کے حقائق سے مہجور   رکھنے کے بارے میں ہے؛ اور نہ ہی ان دو ثقل پر خدا کے دشمنوں اور طاغوتی کھلاڑیوں کہ جن کی گنتی بیان کرنا مجھ جیسے کم معلومات اور کم وقت رکھنے والے کیلے میسر نہیں ہے بیان کروں؛ بلکہ ان دو ثقل پر کیا گزرا کے حوالے سے یہاں پر سر سری اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

شاید کہ یہ جملہ" لَنْ یفْتَرِقا حتّی یرِدا عَلَی الْحوَض "اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مقدس کے بعد ان میں سے ایک پر جو گزری ہے وہی دوسرے پر گزری ہے اور یہ دونوں مہجوریت اور کسمپرسی  کے عالم میں "حوض"  پر رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ جائیں گے ۔اور کیا یہ "حوض" وحدت سےکثرت کے جاملنے اور سمندر میں قطروں کے ضم ہونے کی جگہ ہے یا کوئی اور چیز جس تک انسانی عقل و عرفان  کی رسائی نہیں ۔ بلاشبہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دو امانتوں پر  طاغوتوں نے جو ستم ڈھائے ہیں وہ صرف ان ہی دوپر نہیں بلکہ یہ مظالم ساری ملت اسلامیہ  بلکہ پوری انسانیت پر ہوئے ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔

 یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حدیث "ثقلین" مسلمانوں میں حدیث متواتر کی حیثیت رکھتی ہے اور اہلسنت کی "صحاح ستہ" کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں مختلف مقامات پر الفاظ میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے اور یہ حدیث شریف تمام انسانوں خصوصا مسلمانوں کے سارے فرقوں کیلئے حجت قاطعہ ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں کو جن پر اس حدیث کے ذریعہ اتمام حجت ہو چکی ہے کو جو ابد ہی کیلئے تیار رہنا چاہئے ؛ اور اگرسادہ لوح عوام کو معذور سمجھیں لیکن مسالک کے علماء کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں ہے ۔

خود خواہوں اور طاغوتیوں نے قرآن کریم اور عترت سے کیا کیا

 اب آئیے یہ دیکھیں کہ خدا کی کتاب پر جو الہی امانت اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا ترکہ تھی پرکیا گزری ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے ایسےافسوسناک مسائل شروع ہوگئے جن پر خون کے آنسو بہانا چاہئے۔ خود خواہوں اور طاغوتیوں نے قرآن کریم کو اپنی قرآن دشمن حکومتوں کیلئے ایک وسیلہ بنالیا اور قرآن کے حقیقی مفسرین اور اس کے حقائق سے با خبر ہستیوں کو جنہوں نے پورا قرآن رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا تھا اور جن کے کانوں میں " اِنّی تارکٌ فیکُمُ الثقلان"  کی آواز گونج رہی تھی انہیں پہلے سے طی کردہ اپنے سوچے سمجھے منصوبوں اور مختلف بہانوں سے  پس پشت ڈال دیا اور اس طرح انہوں نے اس قرآن کو جو حقیقی معنوں میں انسانیت کیلئے حوض کوثر پر پہنچنے کا ذریعہ اور مادی و روحانی زندگی کیلئے عظیم دستور کی حیثیت رکھتا تھا اور ہے ، عملی زندگی سے دور کردیا اور اس طرح  عدل الہی پر مبنی حکومت جو کہ اس مقدس کتاب کے جملہ مقاصد میں سے ایک ہے کی راہ بند کردی اوردین خدا، کتاب اور سنت  الہی سے انحراف  کی بنیاد ڈالی یہاں تک کہ یہ کام وہ حدیں پار کر گیا کہ قلم جس کی شرح بیان کرنے سے شرم محسوس کرتا ہے۔

اور یہ ٹیڑھی بنیاد جوں جوں اوپر اٹھتی گئی،اسکا ٹیڑا پن اور انحراف بھی نمایاں تر ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ قرآن جو دنیا والوں کے رشد و کمال کیلئے اور مسلمانوں بلکہ جملہ کنبہ انسانی کو ایک نقطے پر جمع کرنے کیلئے ، مقام شامخ احدیت سے  کشف تام محمدی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا تھا تاکہ انسانوں کو اس مقام تک پہنچائے جہاں انہیں پہنچنا چاہئے۔اور" عَلَّمَ الْأَسْمَاءَ " کے اس مظہر کو شیاطین اور طاغوتوں کے شر سے نجات دلائے اور کائنات کو عدل و انصاف سے معمور کرے اور حکومت کو معصومین اولیاء اللہ علیہم صلوات الاولین و الآخرین کے حوالے کرے تاکہ وہ اس حکومت کو ایسے شخص کے سپرد کردیں جو انسانیت کیلئے مفید ہو۔ لیکن ان خود پرستوں اور طاغوتیوں نے اس قرآن کریم کو میدان سے یوں ہٹادیا جیسے کہ ہدایت کے سلسلے میں اس کا کوئی کردار ہی نہ ہو اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ قرآن کریم ظالم حکومتوں اور طاغوتیوں سے بھی بدتر خبیث ملّاؤں کے ہاتھوں ظلم و فساد کی برقراری اور دشمنان خدا ، نیز ظالموں کی بد اعمالیوں کی توجیہ کا ذریعہ بن گیا ۔ اور افسوس کا عالم یہ ہے کہ سازشی دشمنوں  اور جاہل دوستوں کے ہاتھوں یہ تقدیر ساز کتاب قرآن کو صرف قبرستانوں اور مرنے والوں کے ایصال ثواب کی مجالس تک محدود  کردیا ۔ اور جہاں  اس قرآن کریم کو تمام مسلمانوں اور سارے انسانوں کی یکجہتی کا ذریعہ اور ان کی زندگی کا لائحہ عمل بننا چاہئے تھا لیکن اس کے بجائے وہ تفرقہ و اختلاف کا باعث بن گیا یا مکمل طور پر عملی زندگی سے ہٹادیا گیا۔ہم نے دیکھا کہ اگر کسی نے اسلامی حکومت کی بات کی یا سیاست  کہ  جس میں رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ، قرآن اور سنت کا کردار بہت ہی واضح ہے  کا نام لیا تو گویا اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے؛"سیاسی ملّا" کا لفظ بے دین ملّا کے مترادف ہو گیا تھا اور آج تک یہ صورتحال باقی ہے۔

قرآن بمقابلہ قرآن

اورحال ہی میں بڑی شیطانی طاقتوں نے اپنی  آلہ کار  اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ نام نہاد اسلامی حکومتوں نے مقاصد قرآن کو مٹانے اور بڑی طاقتوں کے شیطانی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے قرآن کو خوبصورت رسم الخط میں چھاپ کر  دنیا بھر کیلئے روانہ  کیا ہے اور اس شیطانی حیلے  سے قرآن کریم کو عملی زندگی سے نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ہم سب نے دیکھا کہ محمد رضا خان پہلوی(ایرانی بادشاہ)نے  جب قرآن شائع کرایا تھا اور کچھ لوگوں کو اغفال کردیا اور مقاصد اسلامی سے بے خبر بعض ملّا قرآن کی اس اشاعت پر اس کے شیدائی بن گئے تھے اور اسی طرح دیکھتے ہیں کہ شاہ فہد(سعودی عرب کا بادشاہ) بھی یہی کر رہا ہے وہ   ہر سال عوام کی بے پایاں دولت کا وافر حصہ قرآن کریم کی طباعت اور قرآن دشمن مذہب کے تبلیغی  زر خریدوں کیلئے خرچ کرتا ہے اور سراپا بے بنیاد اور خرافاتی مسلک وہابیت کی ترویج کرکے بھولی بھالی قوم کو بڑی طاقتوں کی گود میں پہنچا رہا ہے اور اسلام عزیز اور قرآن کریم کو مٹانے کیلئے خود اسلام اور قرآن کا  سہارا لے رہا ہے۔

ہمارے قوم کے افتخارات

ہمیں  اوراسلام و قرآن کے ساتھ وفادار ہماری قوم کو فخر ہے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی پیرو ہے  کہ جو یہ چاہتی ہے کہ ان قرآنی حقائق  کوجو  سراسرمسلمانوں کے درمیان  بلکہ تمام انسانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ایجاد  کرنے کی دعویدار ہے ، کومقبروں اور قبرستانوں سے اور بشرکو  نجات دلانے کیلئے سب سے بڑے نسخے کے طور پر ان تمام بندشوں سے  جنہوں اسکے  ہاتھ پیر،قلب و عقل کو جکڑا رکھا ہے اور اسے  فنا و نابودی اور استعمار کی غلامی اور نوکری کی طرف کھینچے جا رہے ہیں سے نجات دے۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے مذہب کے پیرو ہیں جس کی بنیاد خدا کے حکم سے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی اوربشر کو اسارتوں اور غلامیوں سے رہائی دلانے کیلئے تمام قیود سے آزاد  امیر المومنین علی بن ابیطالب کو مقرر فرمایا۔

اور ہمیں فخرہے کہ کتاب نہج البلاغہ کہ جو قرآن کے بعد مادی و معنوی زندگی کیلئے سب سے بڑا دستور العمل اور بشر کو آزادی دلانے کیلئے سب سے بڑی کتاب  اور اسکے معنوی و حکومتی دستورات نجات کیلئے سب سے بہترین طریقہ ہے،ہمارے معصوم امام کی ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ ائمہ معصومین،  حضرت علی ابن ابیطالب سے لے کر انسانیت کے نجات دہندہ حضرت مہدی صاحب الزمان علیہم آلاف التحیات و السلام تک جو قادر مطلق کی قدرت سے زندہ اور ہمارے امور کے شاہد و نگران ہیں  ہمارے ائمہ ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ حیات بخش دعائیں کہ جنہیں "قرآن صاعد" بھی کہا جاتا ہے ہمارے ائمہ معصومین کی ہے۔ہمارے معصومین علیہم السلام کی"مناجات شعبانیہ" اور حضرت حسین بن علی علیہما السلام کی "دعائے عرفات"،  "صحیفہ سجادیہ" یہ زبور آل محمد اور زہرای مرضیہ  سلام اللہ علیہا پر خدا کی جانب سے الہام شدہ کتاب "صحیفہ فاطمیہ" ہماری ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ"باقر العلوم" تاریخ کی عظیم ترین شخصیت  ہے اور جن کے مقام و منزلت کو خدای تعالی، رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے سوا کسی نے نہیں پہنچانا اور نہ ہی ان کے سوا کوئی سمجھ سکتا ہے ،ہمارے امام ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مسلک "جعفری" ہے ہماری فقہ جو کہ بحر بیکراں ہے ،ان کے آثار میں سے ایک ہے ۔اور  ہمیں فخر ہے کہ ہم نے تمام ائمہ معصومین -علیہم صلوات اللہ- کی پیروی کا عہد کر رکھا ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین -صلوات اللہ و سلامہ علیہم- نے دین اسلام کے اعلی مقاصد کی راہ میں اورقرآن کریم کو عملانے کیلئے کہ  جسکا ایک پہلو عدل و انصاف پر مبنی حکومت کا قیام ہے، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں جھیلنی پڑی  اور آخر کار اپنے زمانے کی ظالم اور طاغوتی حکومتوں کے خاتمے کی کوششوں میں شہید ہو گئے۔اور ہمیں آج اس بات کا  فخر ہے ہم قرآن و سنت کے مقاصد  کو عملانا چاہتے ہیں اور ہماری قوم کے  مختلف طبقات اس عظیم  تقدیر ساز راہ میں والہانہ انداز میں اپنے جان و مال اور عزیزوں کو خدا کی اس راہ میں نچھاور کرنے میں پیش پیش ہیں۔

ہمیں فخر  ہے کہ  سبھی پیر و جوان و خرد و کلان خواتین و بانوان ثقافتی، اقتصادی اور فوجی شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ یا ان سے بہتر انداز میں اسلام اور قران کے مقاصد کی سربلندی و ترقی کیلئے سرگرم عمل ہیں؛اور جن میں جنگ کی توانائی ہے وہ فوجی تربیت کہ جو اسلام اور اسلامی مملکت  کے دفاع کی خاطر اہم واجبات میں سے ہے سیکھ کر شامل ہوتی ہیں، اور  ان خواتین نے بڑی دلیری اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے آپ کو ان مایوسیوں سے جو دشمنوں کی سازشوں اور اسلام و قرآن سے ناواقف دوستوں نے ان پر ، بلکہ اسلام اور مسلمانوں پر مسلط کررکھا تھا ، نکال لیا ہے، نیز انہوں نے اپنے آپ کو ان خرافاتی بندشوں سے بھی جنہیں دشمنوں نے اپنے مفادات کیلئے نادانوں اور مسلمانوں کے مفادات سے بے خبر ملّاؤں کے ذریعے مسلط کیا تھا، آزاد کرالیا اور جو  خواتین جنگ میں شریک نہیں ہوسکتیں وہ سرحدوں کی پشت پر اپنے قابل قدر انداز سے مختلف خدمات انجام دے رہی ہیں کہ ان کی خدمات کو دیکھ کر عوام کے دل شدت شوق اور فرط جذبات سے کھینچے لگتے ہیں۔ دشمنوں اور ان سے بدتر جاہلوں کے دلوں کو غیظ و غضب سے دہلا دیتے ہیں ۔ ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ معزز خواتین حضرت زینب ـ علیها سلام الله ـ کےا نداز میں فریاد بلند کررہی ہیں کہ ہم اپنے بیٹوں کو قربان کر چکے ہیں اور انہوں نے خداوند عالم اور اسلام عزیز کی راہ میں کسی چیز سے دریغ نہیں کیا ہے اور انہیں اس پر فخر بھی ہے کہ وہ جانتی ہیں کہ جو کچھ انہوں نے ان قربانیوں کے بدلے میں حاصل کیا ہے وہ بہشت برین سے  بھی بالاتر ہے تو پھر دنیا کی ناچیز پونجی اس کے مقابلے میں کیا حقیقت رکھتی ہے؟

اورہمارے عوام ، بلکہ تمام مسلمانوں اور دنیا کے مستضعفین کو یہ فخر ہے کہ ان کےدشمن جو خدائے بزرگ و برتر ، قرآن کریم  اور اسلام عزیز کے دشمن ہیں وہ ایسے درندے ہیں جو اپنے ظالمانہ مقاصد کیلئے کسی بھی جرم و خیانت سے دریغ نہیں کرتے اور اقتدار تک پہنچنے ، نیز اپنے گھناؤنے مفادات کے حصول کیلئے دوست  اور دشمن کا بھی لحاظ نہیں کرتے ۔ امریکہ ان میں سر فہرست ہے جو بذات خود ایک ایسی دہشت گرد حکومت ہے جس نے پوری دنیا میں آگ لگا رکھی ہے اور عالمی صیہونزم اس کا  اتحادی ہے  جو اپنے حریصانہ مقاصد کے حصول کیلئے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے کہ جس کے تذکرے سے قلم کو حیا اور زبان کو شرم آتی ہے ؛ اور ان کا احمقانہ خیال" وسیع اسرائیل"! انہیں ہر جرم پر اکساتا رہتا ہے ۔ مسلمان اقوام اور مستضعفین عالم کو یہ فخر ہے کہ ان کے دشمنوں میں اردن کا پھیری لگانے والا جرائم پیشہ شاہ حسین ہے اور شاہ حسن اور حسنی مبارک جیسے اسرائیل کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ظالم افراد ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کی خدمت میں اپنی قوم کے ساتھ کسی قسم کی خیانت سے باز نہیں آتے ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دشمن صدام عفلقی ہے جسے دوست و دشمن اس کے جرائم اور انسانی و بین  الاقوامی حقوم کی خلاف ورزی کی وجہ سے خوب پہجانتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ عراق کی مظلوم قوم اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اس کی خیانت ، ایرانی قوم کے ساتھ ہونے والی خیانت سے کم نہیں ہے۔

اور ہمیں اور دنیا بھر کی مظلوم قوموں کو فخر ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ اور تشہیراتی ادارے،ہر جرم و خیانت کیلئے جن کا حکم خود بڑی ظالم طاقتیں دیتی ہیں کیلئے ہمیں اور دنیا بھر کے مظلوموں کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔اس فخر سے بڑ کر کون سا فخر ہوسکتا ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر دعوؤں اور ہر طرح کی جنگی ساز و سامان، اور اپنی تمام پٹھو حکومتوں، اور پسماندہ مظلوم اقوام کےبے حساب مال و ثروت کو اپنے اختیار میں لیئے اور تمام اجتماعی ذرائع ابلاغ اپنے اختیار میں لیئے ہوئے ایران کی غیور قوم اور حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ ـ ارواحنا لمقدمه الفداء ـ  کے ملک کے مقابلے میں اس قدر عاجز و رسوا ہو گیا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آر ہا ہے کہ کہاں پناہ لے!وہ جس کی طرف رخ کرتا ہے اسے نفی میں جواب ملتا ہے!اور یہ سب کچھ حضرت باری  تعالی ـ جلَّت عظمتُه ـ کی غیبی مدد کا کرشمہ ہے کہ اس نے مختلف قوموں خصوصا اسلامی ایران کے عوام کو بیدار کیا اور ستم شاہی کے اندھیرے سے نور اسلام کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

تمام مظلوموں سے وصیت

 میں اب تمام معزز مظلوم قوموں اور ایران کی عزیز قوم سے وصیت کرتا ہوں کہ  اس سیدھے راستے سے جو نہ ملحد مشرق سے اور نہ ظالم اور کافر مغرب سے جڑا ہوا ہے، بلکہ  اس راستے  سے کہ جسے  خداوند عالم نے انہیں نصیب فرمایا ہے اس پرنہایت استحکام ، ذمہ داری اور پائیداری کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ، ایک لمحہ کیلئے  بھی اس نعمت کا شکر ادا کرنے سے غافل نہ رہیں اور بڑی طاقتوں کے ایجنٹوں کے ناپاک ہاتھ ، خواہ یہ ایجنٹ بیرونی ہوں یا ان سے بھی بدتر اندرونی ، ان کی پاکیزہ نیت اور آہنی ارادوں میں رخنہ نہ ڈال سکیں؛ اور یاد رکھیں کہ عالمی ذرائع ابلاغ اور مشرق و مغرب کی شیطانی و سامراجی طاقتیں جو کچھ الٹا سیداھا ہانک رہی ہیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ الہی قدرت کے مالک ہیں اورخدائے بزرگ و برتر انہیں اس دنیا میں اور عالم آخرت میں بھی سزا دے گا۔ إنَّه ولی النِّعَم وبِیدِه ملکوتُ کلِّ شیءٍ-(بے شک تمام نعمتوں کا مالک ہے اور سب کچھ اس کے دست قدرت میں ہے)۔

اورانتہائی سنجیدگی اور عاجزی کے ساتھ تمام مسلمانوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ائمہ اطہار (علیہم السلام)اورعالم انسانیت کے ان عظیم رہنماؤں کی سماجی ، اقتصادی ، فوجی اور سیاسی ثقافت کو کمال شایستگی کے ساتھ اور دل و جان و جانفشانی اور اپنے عزیزوں کو نچھاور کرنے کے ساتھ پیروی  کریں۔ان میں سے فقہ سنتی( مروجہ فقہ) کہ جو مکتب رسالت و امامت کو پیش کرتا ہے اور اقوام کی عظمت و ترقی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، چاہے وہ احکام اولیہ ہوں یا احکام ثانویہ جو کہ دونوںمکتب فقہ اسلامی  ہیں،ذرہ برابر بھی ان سے منحرف نہ ہوں اور حق و مذہب کے دشمنوں کی وسوسہ اندازیوں کی طرف توجہ نہ کریں، اور جان لیں  ہر منحرف قدم،  مذہب اور احکام اسلامی اور عدل الہی کی حکومت کے زوال کا مقدمہ ہے۔ان میں سے نماز جمعہ اور جماعت ہے جو کہ  نماز کی سیاست کو بیان کرتے ہیں کے نسبت ہرگز غفلت نہ برتیں، کیونکہ یہ نماز جمعہ جمہوری اسلامی ایران پر حق تعالی کی طرف سے عظیم ترین عنایتوں میں سے ہے۔اور عزاداری ائمہ اطہار خصوصا سید مظلومان اور سرور شہیدان حضرت ابی عبداللہ الحسین –آپ کے عظیم حماسی روح پر بے انتہا الہی صلوات اور انبیاء، ملائکہ اللہ اور صلحا کا درود ہو- کی جیسی  مجالس و تقاریب کے نسبت کبھی بھی غفلت نہ برتیں۔اور جان لیں جو کچھ اسلام کی اس تاریخی حماسہ کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرنے کے حوالے سے ائمہ -علیہم السلام- کا حکم ہے اور جوکچھ اہل بیت -علیہم السلام-  پر ظلم وستم روا رکھنے والوں پر لعنت و نفرینیں کرنا ہے ، یہ سب ابتدائے تاریخ سے قیامت تک کیلئے ظالم اور جابر حاکموں کے خلاف بہادر قوموں کا صدائے احتجاج ہے۔اور کیا جانتے ہیں کہ بنی امیہ  -لعنہ اللہ علیہم-جو کہ ظلم و ستم کی وجہ سے واصل جہنم ہو چکے ہیں اور ان کی نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے کے باوجود ان کے ظلم و ستم کیلئے ان پر لعن و نفرین کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں[سے مراد کیاہے]،ایسا کرنا حقیقت میں دنیا بھر کے تمام ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا  اور اس ستم شکن آواز کو زندہ رکھنا ہے۔

اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نوحوں میں اور مرثیہ کے اشعار میں اورائمہ حق – علیہم سلام اللہ- کے  مدحیہ اشعار میں ہر زمان و مکان کے ہر ظالم کے مظالم اور کارستانیوں کو پوری شدت  کے ساتھ بیان کیا جائے؛ اور دور حاضر میں عالم اسلام امریکا اور سویت یونین اور انکے سبھی حلیف ملکوں من جملہ عظیم حرم الہی سے خیانت کرنے والے آل سعود-لعنہ اللہ و ملائکتہ و وسلہ علیہم- کی وجہ سے مظلومیت کےدور سے گذر رہا ہے  ان کے جرائم و مظالم کا موثر انداز میں تذکرہ کیا جائے اور ان پر لعنت  و نفرین کی جائے۔ اور ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ یہی سیاسی تقاریب ہیں جو اتحاد مسلمین کا سبب اور مسلمانوں خصوصا ائمہ اثنا عشر  -علیہم صلوات اللہ و سلم- کے شیعوں کی قومیت کے نگہبان ہیں۔

اور جس نکتے کی یاد دہانی ضروری ہے  وہ یہ ہے کہ میری یہ سیاسی اور الہی وصیت صرف ایران کی عظیم قوم کیلئے مخصوص نہیں، بلکہ یہ تمام اسلامی قوموں اور دنیا کے ہر مذہب و ملت کے مظلوموں کیلئے ہے۔

میری خدائے  عز و جل سے عاجزانہ دعا ہے کہ ایک لحظے کیلئے بھی ہمیں اور ہماری قوم کو اپنے حال پر نہ چھوڑے اور ان فرزندان اسلام اور عزیز مجاہدوں پر لمحہ بھر کیلئے بھی اپنی غیبی عنایات سے دریغ نہ فرمائے۔

روح اللہ الموسوی الخمینی

 


 

وصیت

بِسْمِ اللهِ الْرَحْمنِ الْرَّحیمْ

اس عظیم الشان اسلامی انقلاب کہ جو لاکھوں ذی وقار انسانوں اور ہزاروں جاویداں شہیدوں اور عزیزالقدر متاثرین،ان زندہ شہیدوں کی محنت کا ثمرہ ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں اور  مستضعفین کی امیدوں کا مرکز ہے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا حق ادا کرنا زبان و قلم کے دائرے سے باہر ہے۔میں روح اللہ موسوی خمینی ، اپنی تمام تر خطاؤں کے باوجود خدائے بزرگ و برتر کے عظیم کرم سے مایوس نہیں ہوں اور میرے پر خطر راستے کا توشہ  وہی کریم مطلق کا کرم ہے۔ میں ایک حقیر طلبہ کی حیثیت سے جو اپنے دوسرے برادران ایمانی کی طرح جو اس انقلاب اور اس کے نتائج  کی ترقی و بقا اور اس کی روز افزوں کامیابی کی امید رکھتے ہیں موجودہ اور آنے والی قابل احترام نسلوں کیلئے بطور وصیت کچھ باتیں عرض کررہا ہوں، اگر چہ اس وصیت میں بہت سی باتیں تکراری ہیں ،بخشنے والے خدا سے میری التجا ہے کہ وہ ان یاد دہانیوں کے رقم کرنے میں مجھے خلوص نیت عطا فرمائے۔

اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے اور اسکی کامیابی کا راز

1۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ عظیم انقلاب  کہ جس نے  ایران ِبزرگ سے عالمی لٹیروں اور ستمگروں کے ہاتھ کاٹ پھینک دیے،الہی غیبی تائیدات سے کامیاب ہوا ۔ اگر اس میں خدائی عنایت کار فرما نہ ہوتی تو  تین کروڑ ساٹھ لاکھ نفوس پرمشتمل آبادی اسلام مخالف اور خاص کر پچھلے ایک صدی سےعلماء مخالف پروپگنڈے کے چلتے اور قومیت کے نام قوم دشمن اور اسلام دشمن محافل و مجالس ، تقاریر ، جریدوں ، قلم کاروں اور بکی ہوئی زبانوں کے ذریعے قوم میں تفرقہ  ڈالنے کی وہ بے شمار کوششیں اور وہ  شاعری اور بذلہ گوئیاں، اور وہ سارے عیاشی اور بے حیایی اور جوئے اور شراب اور منشیات کے مراکز جو کہ سب کے سب فعال جوانوں کو کہ جنہیں اپنے عزیز وطن کی تعمیر و ترقی کیلئے سرگرم عمل ہونا تھا کو فساد اور فاسد شاہ اور اسکے غیر مہذب باپ اور حکومتوں اور  تشریفاتی پارلمنٹ کو کہ جنہیں بڑی طاقتوں کے سفارتخانوں کی طرف سے قوم پر مسلط کیا جاتا رہا کے نتائج کے نسبت لا پرواہ  پروان چڑانے کیلئے ہیں ،اور ان سب سے بد تر یونیورسٹیوں، کالجوں اور تعلیمی مراکز   کی حالت کہ جن کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر سازی کا اختیار دیا جاتا ہے میں ایسے سو فیصد اسلام مخالف اور اسلامی ثقافت مخالف  مغرب نواز یا مشرق نواز معلموں اور استادوں کو رکھنا ، اگرچہ ان میں فرض شناس اور دلسوز لوگ بھی تھے لیکن انکی واضح اقلیت اور گھٹن ساز ماحول کے سبب وہ کچھ نہیں کر پا رہے تھے اور ایسے میں اور ایسے دسوں دوسرے مسائل،من جملہ علماء کو الگ تھلگ اور گوشہ نشینی کرنے اور پروپگنڈے کی طاقت کے بل پر ان میں بہت ساروں میں فکری انحراف پیدا کرنے کے تناظر میں ممکن نہیں تھا کہ یہ قوم یک جٹھ ہو کر قیام کرے اور ملک بھر میں ایک مقصد اور ایک نعرے"اللہ اکبر" اور  حیرت انگیز اور معجز نما  فداکاریوں کے ساتھ سبھی ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کوبرطرف کرکے خود ملک کی تقدیر کی بھاگ دوڑ ہاتھوں میں لیں ممکن نہیں تھا۔اسلئے اس میں کوئی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ ایران کا اسلامی انقلاب، تمام انقلابات سے الگ ہے۔ بلاشبہ یہ ایک الہی تحفہ اور ہدیہ غیبی ہے جو خدا کی طرف سے اس مظلوم اور لٹی قوم کو عنایت ہوا ہے۔

2۔ اسلام اور اسلامی حکومت مظہر خداوندی ہے کہ جس پر عمل پیرا ہونے سے وہ  اپنے فرزندوں کیلئے دنیا  و آخرت کی اعلی ترین سعادت کی ضمانت فراہم  کرتا ہے اور  اس میں یہ قدرت موجود ہے کہ  ظلم وستم، لوٹ مار، بدعنوانیوں اور جارحتیوں باطل کرکے انسانوں کو اپنے کمال مطلوب تک پہنچادے۔ یہ وہ مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس انسان کے  سبھی انفرادی ، اجتماعی ، مادی ، معنوی ، ثقافتی ، سیاسی ، فوجی اور اقتصادی شعبوں میں نظارت و دخالت رکھتا ہے اور  اس سے انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی و معنوی ارتقا کے سلسلے میں معمولی سے معمولی نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے؛اور ترقی کے راہ میں انفرادی اور اجتماعی رکاوٹوں اور مشکلات سے خبردار کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کا سلیقہ بتایا ہے ۔اب جبکہ خداوند عالم کی تائید و توفیق سے فرض شناس قوم کے توانا ہاتھوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے اور اس وقت اسلامی حکومت نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ اسلام اور اس کے ترقی یافتہ احکام ہیں ۔ ایران کی عظیم الشان قوم کا فریضہ ہے کہ ہر طرح سے اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی حفاظت و نگہداشت میں کوشاں رہے ، کیونکہ اسلام کی حفاظت تمام واجبات میں سرفہرست ہے اور حضرت آدمعلیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیائے عظام  نے اس راہ میں مسلسل جدوجہد اور جانثاری و فداکاری کی ہے اور کوئی بھی رکاوٹ انہیں اس عظیم فریضے کی ادائیگی سے نہیں روک سکی ۔ اس طرح ان کے بعد ان کے وفادار اصحاب اور ائمہ اسلام علیہم صلوات اللہ نے اس کی حفاظت میں سروتن کی بازی لگائی ہے۔ اورآج ایرانی عوام  پربالخصوص اور دیگر تمام مسلمانوں پر بالعموم واجب ہے کہ اس  الہی امانت کی کہ جس کاا یران سے سرکاری طور پر اعلان ہوا ہے اور مختصر وقت میں عظیم نتائج کو پروان چڑھایا ہے اپنی  تمام تر توانائیوں کے ساتھ اسکی حفاظت کریں  اور اس کی راہ سے رکاوٹیں اور مشکلات دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور امید ہے کہ اسکے نور کا پرتو تمام اسلامی ممالک پر سایہ فگن ہوگا اور تمام حکومتیں اور اقوام آپس میں اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں ، اور  دنیا بھر کے مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے سر سے استعماری بڑی طاقتوں  اور تاریخ کے مجرموں کی بالا دستی ہمیشہ کیلئے ناممکن بنائیں۔  

میں چونکہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوں اسلئے ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ  ایکطرف جو اس الہی امامت  کی حفاظت اور بقا کیلئے لازمی ہے اور دوسری طرف جو رکاوٹیں اور خطرات در پیش ہیں کے بارے میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کیلئے کچھ عرض کروں اور پروردگار عالمین کی بارگاہ میں  سب کی توفیق اور تائید کا طلبگار ہوں۔  

الف)

 بلا شبہ اسلامی انقلاب کی پائیداری کا راز  وہی ہے جو اسکی کامیابی کا راز ہے؛اور قوم کامیابی کا راز جانتی ہے۔ اور آئندہ نسلیں تاریخ میں ضرور پڑھیں گے کہ اس کے دو بنیادی رکن ؛اسلامی حکومت کے عالی مقصد کے نسبت الہی جذبہ اوراس مقصد و جذبے کیلئے ملک بھر میں ملت کے درمیان اتحاد و یکجہتی۔

میں موجودہ اور آئندہ تمام نسلوں سے وصیت کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلام اور اللہ کی حکومت برقرار رہے اورملکی اور غیرملکی سامراجی اوراستعماری ہاتھ آپ کے ملک سے کٹ کر رہ جائیں ، تو اس الہی جذبے کہ خداوند متعال نے قرآن میں جسکی سفارش کی ہے کو ہاتھ سے جانے  نہ دیں؛ اوریہ جذبہ  جو کہ کامیابی اور پائیداری کا راز ہے کے مقابلے میں، مقصدکوبھولنا، تفرقہ اور اختلاف ہے۔خواہ مخواہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں پروپگنڈوں کی صدائیں اور انکے علاقائی ہمنوا افوا باز ی اور تفرقہ بازی پیدا کرنے والے جھوٹ پھیلانے میں تمام تر صلاحتیں بروی کار لاتے ہیں اور کروڑوں ڈالر اس پر خرچہ کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کی اس خطے  میں مسلسل آمد و رفت بے مقصد نہیں ہے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  ان میں بعض سرکردہ شخصیتں  اور اسلامی حکومتیں جو اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے دیکھنے کو ملتے ہیں؛ نیز بعض نام نہاد علما بھی ان میں شامل ہیں۔

حال و مستقبل میں ایرنی عوام اور دنیا  بھرکے مسلمانوں کو جو چیزیں در پیش ہیں اور ہمیشہ اس کی اہمیت کو مد نظر رکھنا چاہئے وہ خانہ بر انداز و تبا ہ کن تفرقہ انگیز افواہیں ہیں کہ جن کو ہمیشہ ناکام بنانا ہے۔تمام مسلمانوں خاص کر ایرانیوں اور بالخصوص عصر حاضر کیلئے میری وصیت یہ ہے کہ ان سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، ہر  ممکن طریقے سے اپنا اتحاد و اتفاق بر قرار رکھیں اور اپنے اتحاد سے کافروں نیز منافقوں کو مایوس کردیں۔

صدی کی سب سے اہم سازش

 (ب)

 حالیہ صدی میں رچی گئی سب سے اہم سازش، خاص کر گذشتہ چند دہائیوں میں اور بالخصوص انقلاب کی کامیابی کے بعد جو واضح طور پر نظر آرہی ہے وہ وسیع پیمانے پر تبلیغ و تشہیر کے ذریعہ مختلف پہلوؤں سے  ملت اسلامیہ کو بالعموم اور ایران کی جانثار قوم کو بالخصوص اسلام سے نا امید کرنا ہے۔کبھی دبے الفاظوں  میں تو  کبھی واشگاف الفاظوں میں کہا جاتا ہے کہ اسلامی احکام1400 سال قبل بنائے گئے ہیں اور دور حاضر میں ملکوں  کا نظام نہیں چلا سکیں گے۔یا یہ کہ اسلام ایک رجعت پسند دین ہے اور نوآوری اور نئی تہذیب کا مخالف ہے، اور عصر حاضر میں ملکوں کو عالمی تہذیب اور اس کے نئے اندازوں سے دور نہیں رکھا جاسکتا، اور اس قسم کے احمقانہ پروپگنڈے کرکے اسلام سے بدظن کیا جاتا ہے اور کبھی موذیانہ اور شیطنت آمیز انداز میں اسلام کے تقدس کے طرفدار کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام اور دوسرے الہی ادیان کا سروکار معنویات،تہذیب نفس ، دنیوی مقامات سےدوری اختیار کرنے اور ترک دنیا اورعبادات و اذکارو  ادعیہ کہ جو انسان کو خدا سے نزدیک اور دنیا سے دور کرتے ہیں میں مشغول رہنے کی دعوت دیتا ہے ،اور حکومت و سیاست اور سررشتہ داری سے دلچسپی اس عظیم معنوی مقصد و مقصود کے بر خلاف ہے ، کیونکہ یہ سب تعمیر دنیا کیلئے ہے اور انبیائے عظام علیہم السلام  کا یہ شیوہ نہیں رہا ہے!  افسوس کہ اس قسم کے پروپگنڈوں نے اسلام سے بے خبر بعض دینداروں اور علما کو اتنا متاثر کیا کہ وہ حکومت و سیاست میں حصہ لینے کو ایک گناہ وفسق سے تعبیر کرتے تھے شاید بعض لوگ آج بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک عظیم المیہ ہے جس میں اسلام مبتلا رہا ہے۔

پہلی جماعت ( کہ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام چودہ سو سال پرانا مذہب ہے)کے بارے میں کہنا پڑے گا کہ یا تو وہ حکومت ، قانون اور سیاست سے یا واقفیت نہیں رکھتے یا پھر جان بوجھ کر خود کو انجان ظاہر  کرتے ہیں ۔کیونکہ عدل و انصاف کے معیار پر قوانین کا نفاذ  اور ظالم و بے رحم حکومت کا روک تھام کرنا اور انفرادی اور اجتماعی انصاف کو رواج دینا اور  فساد و فحشا  اور مختلف غلط کاموں سے منع کرنا ،عقل و انصاف پر مبنی آزادی،  استقلال ، خود کفیلی ،  استعمار ، استثمار ، استبداد، اور ایک معاشرے سے فساد اور تباہی روکنے کیلئے میزان عدل و انصاف کے رو سے حدود و قصاص اور تعزیرات کا اجرا کرنا، اور سیاست اور معاشرے کو عقل اور عدل و انصاف کے معیار کے مطابق چلانا اور ایسی ہی اور بھی سیکڑوں چیزیں، یہ ایسے موضوعات نہیں ہیں کہ جو وقت کے گزرنے کے ساتھ تاریخ انسانی اور معاشرتی زندگی میں پرانی ہو جاتی ہیں۔یہ دعوی ایسا ہے جیسے کہا جائے کہ عصر حاضر میں عقلی اور ریاضی اصولوں کو بدلنا چاہئے اور ان کی جگہ نئے قوانین رائج ہونے چاہئیں ۔اگر ابتداء آفرینش میں ، اجتماعی عدل و انصاف کے نفاذ کا رواج تھا اورستمگری اور لوٹ کھسوٹ اور قتل  کی روک تھا م ہوتی تھی ،اور ہم چونکہ ہم ایٹمی صدی کے لوگ ہیں ہمارے لئے وہ طریقہ پرانا ہو چکا ہے!اور یہ دعوی کہ اسلام  نوآوری کا مخالف ہے ایک احمقانہ الزام ہے۔جسطرح کہ معزول محمد رضا پہلوی بھی یہی کہتا تھا کہ یہ لوگ اس دور میں بھی خچروں پر سفر کرنا چاہتے ہیں ، درحالیکہ یہ ایک احمقانہ الزام سے بڑھ کرنہیں ہے ، کیونکہ اگر نوآوری اور نئی تہذیب سے مراد وہ اختراعات ، ایجادات اور ترقی یافتہ صنعتیں ہیں جو انسانی ترقی و تمدن میں دخل رکھتی ہیں تو اسلا م اور کسی بھی توحیدی مذہب نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ کرے گا، بلکہ اسلام اور قرآن کریم نے تو علم و صنعت پر زور دیا ہے ۔لیکن اگر نوآوری اور نئی تہذیب سے مراد تمام ممنوعہ چیزوں اور بدکاریوں حتی کہ ہم جنس بازی وغیرہ کی آزادی و استعمال ہے جیسا کہ بعض پیشہ ور اور روشن خیال کہتے ہیں تو اس کے تمام آسمانی مذاہب ، دانشور اور عاقل افراد مخالف ہیں ، اگرچہ مشرق و مغرب پرست افراد اندھی تقلید کرتے ہوئے اس کی ترویج کرتے ہیں۔

و اما دوسری جماعت جو موذیانہ منصوبے رکھتے ہیں اور اسلام کو حکومت و سیاست سے جدا  سمجھتے ہیں ۔تو ان نادانوں سے کہنا چاہئے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حکومت و سیاست کے بارے میں جتنے احکام پائے جاتے ہیں اتنے باقی موضوعات کیلئے نہیں ملتے ہیں؛ ، بلکہ اسلام کے بہت سے عبادی احکامات ، عبادی اور سیاسی ہیں اور ان سے غفلت ہی ان تمام مصیبتوں کا سبب بنی ہے۔رسولخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کی دیگر حکومتوں کی مانند حکومت تشکیل دی لیکن ان کا مقصد انصاف کو فروغ دینا تھا۔ اسلام کے ابتدائی خلفا بھی وسیع حکومتیں رکھتے تھے اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلا م کی حکومت  بھی  اسی طرح تھی کہ جس میں یہ جذبہ زیادہ وسیع اور جامع انداز میں نمایاں تھا، یہ باتیں تاریخ کے نمایاں حقائق میں ہیں اور اس کے بعد بھی حکومت بتدریج اسلام ہی کے نام سے منسوب رہی اور اس وقت بھی بہت سے اسلام اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں اسلامی حکومت کے دعویدار ہیں۔

میں اس وصیت نامے میں صرف اشارہ کرکے آگے بڑھتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ مصنفین ، ماہرین سماجیات اور مورخین ، مسلمانوں کو اس غلطی سے نکال لیں گے۔ اور جو کچھ کہا جا چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا کام معنویات سے ہے اور انہوں نے حکومت اور علائق دنیوی کو ٹھکرادیا ہےاور انبیاء و اولیاء، نیز بزرگ ہستیاں اس سے پرہیز کرتے تھے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ،  یہ نہایت ہی افسوسناک غلطی ہے  کہ جس کا انجام امت اسلامیہ کو تباہ کرنا اور خونخوار سامراجیوں کیلئے راستہ کھولنا ہے ، کیونکہ جو کچھ ناقابل قبول اور مردود ہے وہ شیطانی، آمرانہ اور ظالمانہ حکومتیں ہیں کہ جو سلطہ جوئی اور منحرف منصوبوں اورایسی دنیا کہ جس سے دوری کی جائے؛مال و دولت جمع کرنا، اقتدار کی ہوس اور طاغوت کی پیروی ہے اورسر انجام ایسی دنیا ہے کہ جس میں انسان  حق تعالی سے غافل رہے۔لیکن حق کی حکومت مستضعفان کے فائدے کیلئے اور ظلم و جور کے روک تھام اور اجتماعی عدل و انصاف کو رواج دینے کیلئے کہ جس کے لئے سلیمان بن داوود علیہما السلام اور اسلام کے عظیم الشان  بنی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپکے عظیم اوصیای جس کیلئے کوشاں تھے؛اسلامی حکومت بزرگترین واجبات میں سے اوراسلامی حکومت کا قیام والاترین عبادات میں سے ہے ، چنانچہ صحیح و سالم سیاست ہی ان حکومتوں میں بنیادی اور لازمی امور  رہی ہے۔ایران کی بیدار اور ہوشیار قوم کو چاہئے کہ وہ اسلامی بصیرت کے ساتھ ان سازشوں کو ناکام بنائے۔ اور فریضہ شناس مقررین اور مصنفین قوم کی مدد کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں  اور فتنہ گر شیطانوں کے ہاتھ کاٹ پھینکیں۔

انقلاب اسلامی کا تمام انقلابوں کے ساتھ موازنہ

 (ج)

 اسی قسم کی سازشوں میں سے شاید اس سے زیادہ موذیانہ وہ افواہیں ہیں جو ملک بھر میں اور چھوٹے شہروں  میں وسیع پیمانے پر پھیلائی جارہی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔ بے چارے عوام ، جنہوں نے طاغوت کی ظالمانہ حکومت سے نجات پانے کیلئے اتنے ذوق وشوق سے فدکاری کا مظاہرہ کیا تھا وہ اس سے بدتر حکومت کے تسلط میں آ گئے ہیں! مستکبرین ، زیادہ مستکبر اور مستضعفین زیادہ مستضعف ہو گئے ہیں! قید خانے ان نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں جو ملک کا مستقبل ہیں! سزائیں  سابقہ حکومت سے بھی بدتر اور غیر انسانی ہیں! اسلام کے نام پر ہر روز کچھ کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ! اے کاش ! انہوں نے اس جمہوریہ کو اسلام کے نام سےمنسوب نہ کیا ہوتا! یہ دور رضا خان اور اس کے بیٹے کے دور حکومت سے زیادہ بدتر ہے ! لوگ مشکلات ، مصائب اور ہوشربا گرانی میں غطے کھا رہے ہیں اور صاحبان اقتدار اس حکومت کو کمیونسٹ حکومت کی طرف لے جا رہے ہیں! لوگوں کا مال ضبط کیا جا رہا ہے اور ہر معاملے میں ملت کی آزادی کو اس سے سلب کیا جاچکا ہے ۔اور اسی طرح کی بہت سی باتیں، جن کے پس پردہ کوئی گہری سازش کار فرما ہے، اس بات کی دلیل کہ یہ باتیں باقاعدہ کسی سازش اور منصوبے کے تحت ہیں ،یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ہر طرف اور ہرگلی و کوچے میں کوئی نہ کوئی نئی بات مشہور ہو جاتی ہے، ٹیکسیوں میں وہی بات ، بسوں میں بھی وہی بات اور باہمی اجتماع میں بھی وہی بات اور جب یہ بات کچھ پرانی ہو جاتی ہے تو کوئی نئی بات پھیلا دی جاتی ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ بعض علما بھی جو شیطانی حیلوں اور ہتھکنڈوں سے بے خبر ہیں ایک دوسازشی ایجنٹوں کے کہنے سے خیال کر لیتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے۔ درحقیقت جو لوگ ان باتوں کو سنتے اور اس پر یقین کرتے  ہیں وہ دنیا کے حالات ، عالمی انقلابات اور انقلاب  کے بعد در پیش ہونے والے حتمی واقعات و مشکلات سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں اور نہ یہ حضرات انقلاب کے بعد ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ ہیں جو در حقیقت اسلام کے مفاد میں ہے حقائق سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔ آنکھ بند کرکے یہ باتیں سنتے ہیں اور نتیجہ میں دانستہ یا نادانستہ انہیں لوگوں سے جاملتے ہیں۔

میں ان سے نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا کی موجودہ صورتحال کا مطالعہ کرنے سے پہلے اورایران کے اسلامی انقلاب کا جملہ انقلابوں سے موازنہ کرنے  اور ممالک کی صورتحال اور جو اقوام حالت انقلاب میں ہیں اور   انقلاب کے بعد ان پر کیا کچھ گذر رہی ہے کو جاننے سے پہلے ، اور اس طاغوتزدہ ملک(ایران)کے مشکلات پر توجہ کرنے سے پہلےجو رضا خان  اور اس سے بھی بدتر محمد رضا  نے جو اپنی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اس حکومت کیلئے وراثت میں چھوڑی ہیں ، عظیم ویران کن وابستگیوں سے لے کر،وزارتخانوں، اداروں،اقتصاد،فوج، عیاشی کے اڈوں، شراب خانوں،،تمام شعبہ ہای زندگی میں بے راہ روی پیدا کئے جانےوالے عوامل،تعلیم و تربیت کے حالات،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حالات، سینما گھروں اور عشرتکدوں کے حالات،جوانوں  اور عورتوں کے حالات،علماء،متدین حضرات،پابند عہد حریت پسندوں، ستم رسیدہ پاکدامن خواتین اور مساجد کے حالات جاننے اورطاغوت کے زمانے میں مساجد کے حالات اورسزائے موت اور عمر قید کی سزا پانے والوں کی فائلوں کا جائزہ  لینے اورجیلوں کے حالات اور ذمہ داروں کی کار کردگی کا جائزہ لینے، سرمایہ داروں، بڑے  زمینداروں،سٹہ بازوں اور گرانفروشوں کے بارے میں تحقیق کرنے،  عدلیہ اور انقلابی عدالتوں کا جائزہ لینے  اور سابقہ عدلیہ اور قضات کے حالات کے ساتھ موازنہ کرکے اورمجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ) کے ارکان اور  حکومتی عہدہ داروں ،گورنروں/کمشنروں اور سبھی افسروں جو کہ اس دور میں آئے ہیں تک اور اس سے پہلے دور کے ساتھ موازنہ کریں کہ حکومت اور ادارہ جہاد سازندگی  پسماندہ علاقوںمیں جو سبھی بنیادی سہولتوں حتی پینے کے پانی اور ڈسپنسریوں سے محروم تھے  کسطرح خدمات انجام دے رہے ہیں کو پچھلی حکومتوں کی پوری تاریخ کے ساتھ موازنہ کریں ساتھ ہی (صدام کی طرف سے)مسلط کردہ جنگ کے مشکلات اور اس کے نتائج جیسے لاکھوں مہاجر اور شہداء  کا گھر بار اور جنگی متاثرین اور افغانستان اور عراق کے لاکھوں مہاجر اور  اس پر (عالمی) اقتصادی پابندیاں اور امریکہ اور غیرملکی پٹھوں پر انحصار کرنے والے ملکی عناصر کی مسلسل سازشیں ،ضرورت کے حساب سے مسائل شناس ماہر مبلغ اور قاضی شرع کے فقدان کو بھی اس میں اضافہ کریں اور  مخالفین اسلام ، منحرفین  اور حتی ناداں دوستوں نے جو حرج و مرج پیدا کرنے کا بیڑا ہاتھوں لیا ہوا ہے اور دوسرے دسوں مسائل کے پیش نظر  درخواست یہ ہے کہ مسائل سے واقفیت پیدا کرنے سے پہلے،غلطیاں نکالنے اور شدید تنقید اور فحاشی کرنے کے لئے قد علم نہ کریں؛اور اس غریب اسلام کہ جو صدیوں سے ظالم بدمعاشوں اور جاہل عوام کے چنگل سے نکل چکا ہے اور آج  نوزائیدہ بچے کی شکل میں ابھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے نکلا ہے جبکہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے  محاصرے میں لے رکھا ہے، پر رحم کریں۔اور آپ اشکالات تراشنے والوں کو چاہئے کہ ذرا غور کریں کہ کیا سرکوبی کے بجائے اصلاح اور مدد کی کوشش کرنا بہتر نہیں ہوگا؛  اور منافقوں، ستمگروں ، سرمایہ داروں اور خدا سے بے خبرسٹہ بازوں کی طرفداری کے بجائے مظلوموں ،ستم رسیدہ لوگوں اور محروموں کےحمایتی بن جائیں؛اور  بلوائیوں ، مفسد دہشتگردوں اور ان کی بالواسطہ حمایت کے بجائےمظلوم مذہبی رہنماؤں سے لے کر  فریضہ شناس مظلوم خدمتگاروں تک دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں پر توجہ دیں؟

میں نے نہ کبھی کہا ہے اور نہ ہی کہتا ہوں کہ آج اس جمہوریت میں عظیم اسلام  پرہر اعتبار سے عمل ہو رہا ہے اور  کچھ لوگ اپنی جہالت ، بغض اور بے نظمی کی وجہ سے اسلامی احکام کے خلاف عمل نہیں کررہے ہیں؛ لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ اس کے باوجود قوہ مقننہ(پارلمنٹ) ، عدلیہ اور انتظامیہ(حکومت) اس ملک کو اسلامی بنانے کیلئے انتھک کوشش کررہی ہے اور کروڑوں عوام بھی ان کے طرفدار اور مدد گار ہیں؛ اور اگریہ مٹھی بھر اشکالتراش اور قدم قدم پر روڑے اٹکانے والوں کا بھی تعاون حاصل ہو جائے، تو ان مقاصد کا حصول آسان ہو جائے گا ۔اور اگر خدانخواستہ یہ لوگ ہوش کے ناخن نہ  بھی لیں ،تو بھی چونکہ کروڑوں عوام بیدار ہو چکے ہیں اور مسائل کی طرف متوجہ ہیں اور حکومت کے دوش بدوش ہیں اس لئے خداوند عالم کی مشیت سے اسلامی اور انسانی مقاصد اعلی پیمانے پر پایہ تکمیل پر پہنچیں گے اور گمراہ و اشکالتراش افراد اس طوفانی سیلاب کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکیں گے۔

عصر حاضر میں ایرانی قوم کی صدر اسلام کے مسلمانوں پر  سبقت

میں جرئت کے ساتھ دعوی کرتا ہوں کہ دور حاضر کی ایرانی قوم اور اسکی کروڑوں عوام عہد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجازی قوم  اور عہد امیرالمومنین اور عہد حسین بن علی -صلوات الله و سلامه علیهما - کے کوفی و عراقی قوم سے بہتر ہیں۔ وہ حجاز کہ عہد رسولخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں  وہاں کے مسلمان بھی آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے اور بہانہ بازی کرکےمحاذ جنگ پر نہیں جاتے تھے، جس پر خداوند عالم نے سورہ "توبہ" کی چند آیات میں ان کی سرزنش فرمائی اور ان کیلئے عذاب کا وعدہ  کیا ہے ۔اور ان لوگوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس قدر جھوٹی باتیں منسوب کیں کہ روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منبر سے ان لوگوں کیلئے بددعا فرمائی ہے ۔اور ان کوفہ والوں اور عراقیوں نے کسقدر امیرالمومنین علیہ السلا م کے ساتھ ناروا سلوک  کیااور  انکی فرمانبرداری سے انکار کرنا  کہ جس پر حضرت نے ان کی جو شکایتیں کی ہیں ان سے روایات و تاریخ بھری ہیں ۔ اور وہ عراق و کوفہ کے مسلمان کہ جن سے حضرت سید الشہداء- علیہ السلام- کے ساتھ جو پیش آیا وہ پیش آ گیا ۔اور  جن لوگوں نے ان کی شہادت میں اپنے ہاتھ کو آلودہ نہیں یا معرکہ جنگ سے بھاگ گئے یا خاموش بیٹھ گئے یہاں تک کہ تاریخ کاوہ عظیم جرم رونما ہو گیا ۔لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ  ملت ایران مسلح افواج،پولیس اور سپاہ پاسداران اور بسیج سے لیکرقبائلی  اور عوامی رضاکار فورسزتک  اور سرحدوں پر افواج اور انکی پشت پناہی پر موجود عوام تک،سبھی کمال شوق و اشتیاق کے ساتھ کس کس قسم کی قربانیاں پیش کرتے ہیں اور کس طرح کا فاتحانہ اور حماسی کارنامے انجام دے رہے ہیں۔اور دیکھ رہیں ہے کہ محترم عوام ملک بھر سے کتنی گرانقدر امداد کررہے ہیں۔اور دیکھ رہے ہیں کہ شہداء کے لواحقین اور جنگ متاثرین افراد نیز ان کے متعلقین کس فاتحانہ انداز میں اور مشتاقانہ اور اطمنان بخش گفتار و کردار کے ساتھ ہم سے اور آپ سے ملتے ہیں۔اور یہ سب  خداوند متعال ، اسلام اور جاودانی زندگی پر ان کے سرشار ایمان اور عشق و محبت کی وجہ سےہے ۔ جبکہ  نہ تو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے محضر مبارک میں ہیں اور نہ ہی امام معصوم –صلوات اللہ علیہ –کے محضر میں۔اور ان کا جذبہ ایمان اور غیب پر اطمینان ہے۔ اور مختلف پہلوؤں میں فتح و کامرانی کا راز یہی ہے۔ اوراسلام کو فخر کرنا  چاہئے کہ اس نے اس طرح کے فرزندوں کی تربیت کی ہے، اور ہم سب کو فخر کرنا چاہئے کہ ایسے دور میں اور ایسی قوم کی خدمت میں ہیں۔

حکومت اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کے نام وصیت

اور میں یہاں پر ایک وصیت ان لوگوں سے کرتا ہوں جو مختلف محرکات کے سب اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرتے ہیں اور ان جوانوں،لڑکیاں ہوں یا لڑکے  کہ جو موقع و مفاد پرست منحرفین و منافقین اور سود جوؤں کے ہتھے چڑے ہیں سے کرتا ہوں کہ وہ آزاد فکری اور بیطرفانہ طور فیصلہ سنانے بیٹھیں اور جو لوگ پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کو گرانا چاہتے ہیں  اور ان کے عمل کی کیفیت  اورمحروم عوام کے ساتھ رفتار اوروہ جماعتیں اور حکومتیں جو ان کی حمایت کرتے تھے اور کرتے ہیں اور وہ جماعتیں اور وہ اشخاص جوایران میں ان سے جا ملے ہیں اور انکی حمایت کرتے ہیں اور اپنے حامیوں کے ساتھ انکے اخلاق و رفتار کو اور مختلف حالات میں انکے موقف میں تبدیلیوں کو، سنجیدگی کے ساتھ اور جذبات سے ہٹ کر پرکھیں، اورجو اس اسلامی جمہوریہ میں  منافقین اور منحرفین کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں ان کے حالات کا مطالعہ کریں،اور انکے دشمنوں اور انکے درمیان فرق کو تشخیص دیں؛ان شہیدوں کے کیسٹ کسی حد تک دستیاب ہیں اور مخالفین کے کیسٹ بھی شاید آپ کے پاس موجود ہوں،اور دیکھئے کہ ان میں سے کون لوگ سماج کے محروموں اور مظلوموں کے حامی ہیں۔

براداران!آپ یہ اوراق میری موت سے پہلے نہیں پڑھیں گے۔ ممکن ہے کہ میرے بعد پڑھیں ، اس وقت کہ جب میں آپ کے درمیان نہ ہوں گا کہ اپنے مفاد میں آپ کی توجہ کو مبذول کرنے اور مقام و مرتبے، نیز اقتدار کے حصول کیلئے آپ کے جوان دلوں سے کھیلنا چاہوں ، چونکہ آپ شائستہ جوان ہیں ، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی جوانی  کو، اللہ ، اسلام عزیز اور اسلامی جمہوریہ کی راہ میں لگائیں تاکہ دونوں جہاں کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اور خداوند غفور سے دعا کرتا ہوں کہ انسانیت کے سیدھے راستے پر آپ کی ہدایت کرے اور ہمارے اور آپ کے ماضی کی لغزشوں کو اپنی رحمت واسعہ کے ذریعے در گزر فرمائے۔ آپ بھی خلوتوں میں خداوند عالم سے یہی دعا کریں،کیونکہ وہ ہادی اور رحمن ہے۔

ایرانی عوام اور دیگر تمام مسلمانوں کے نام وصیت

اورایک وصیت ملت ِشریف ایران   اور سپرپاورں کے چنگل میں پھنسی فاسد حکومتوں میں مبتلا اقوام سےکرتا ہوں؛ البتہ ملت عزیز ایران کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نعمت جو آپ نے اپنے عظیم جہاد  اور اپنےبلند اقبال جوانوں کے خون سے حاصل کی ہے ،اسے سب سےانمول سمجھیں اور اس کی حفاظت و پاسداری کریں اور اس ضمن میں ، کہ جو عظیم الہی نعمت اور خداوند عالم کی عظیم امانت  ہےکی بقا کیلئے کوشش کریں اور اس صراط مستقیم میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ گھبرائیں ، کیونکہ :" إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ ینْصُرْکُمْ وَیثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ(محمد/7)"۔اوراسلامی جمہوریہ حکومت کی مشکلات میں دل و جان سے شریک رہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں ۔ حکومت اور مجلس (پارلمنٹ) کو اپنی سمجھیں،  اور ایک عزیز و محبوب سمجھ کر اس کی حفاظت کریں۔

اور مجلس(پارلمنٹ)، حکومت اور عہدیداروں سے نصیحت کرتا ہوں کہ اس قوم  کی  قدر سمجھیں اور ان کی خدمتگذاری  میں خاص کر مستضعفین، محرومین اور ستم رسیدہ لوگوں کی جو ہماری آنکھوں کے نور اور سب کے ولی نعمت ہیں اور اسلامی جمہوریہ ان ہی کی مساعی کا نتیجہ ہے اور ان ہی کی فداکاریوں سے وجود میں آئی ہے اور اس کی بقا بھی ان ہی کی خدمات کی مرہون منت ہے کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں اور خود کو عوام سے اور عوام کو خود سے سمجھیں اور طاغوتی حکومتیں کہ جو ڈاکو،غنڈے اور عقل سے عاری(لوگوں پر مشتمل ٹولہ) تھے اور ہیں کی ہمیشہ مذمت کریں،البتہ اس انداز کے ساتھ کہ جو ایک اسلامی حکومت کے شایان شان ہے۔

اور مسلمان اقوام سے وصیت کرتا  ہوں کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور ایران کی مجاہد قوم سےسبق سیکھیں اور اپنی ظالم حکومتوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں کہ وہی ملت ایران کا بھی مطالبہ ہے کو اگر تسلیم نہیں کرتے ، تو پوری  طاقت کے ساتھ ان کو اپنی اوقات بتائیں،جو کچھ مسلمانوں کی بدبختی کا سبب ہے وہ ان کی حکومتوں کا مشرق اور مغرب سے وابستہ رہنا ہے۔ اور میں تاکید کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ  اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کے پروپگنڈے کے شور شرابے پر دھیان نہ دیں کیونکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو میدان سے نکال باہر کریں تاکہ بڑی طاقتیں اپنی مفادات کو حاصل کر سکیں۔

یونیورسٹیوں اور مذہبی تعلیمی اداروں (حوزہ/دارالعلوم) کو ایکدوسرے سے جدا کرنے کی سازش

(د)

بڑی استعماری اور استثماری طاقتوں کے شیطانی منصوبوں میں سے ایک  یہ ہےکہ جسےبڑی مدت سے عملایا جا رہا ہے اور ایران میں رضا خان کے زمانے میں عروج کو پہنچا  اور محمدرضا کے زمانے میں  مختلف طریقوں سے اسے جاری رکھا گیا،علمائے دین کو گوشہ نشین کرنا ہے؛یوں کہ رضاخان کے زمانے میں علماء کے ساتھ زور زبردستی ،خلع لباس (علماء کو اپنا لباس پہننے پر پابندی  لگانے)،جلاوطنی،توہین و تذلیل ، سزائے موت وغیرہ(جیسے حربوں سے سماج سے الگ کرنا) اور محمدرضا کے زمانے میں دوسرے انداز میں اس منصوبے کو عملایا گیا  جن میں سے ایک یونیورسٹیوں اور علمای دین کے درمیان عداوت و نفرت پیدا کرنا تھا، اس حوالے سے وسیع پیمانے پر پروپگنڈے ہوئے؛اور افسوس کہ طرفین کی  شیطانی سازش سےلاعلمی کے سبب بڑی طاقتوں نےجس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ایکطرف کوشش یہ کی گئی کہ مڈل اسکولوں سے لیکر یونیورسٹیوں تک کے استادوں،پرنسپلوں اور لیکچراروں ،پروفسروں اور چانسلر/وائس چانسلروں کو مغرب پرست یا مشرق پرست یا اسلام اور سبھی ادیان سے منحرف لوگوں میں سے انتخاب کرکے عہدہ دیا جائےتاکہ فرض شناس مؤمن اقلیت میں رہ جائیں اور  مستقبل میں حکومت کی باگ دوڑ جن کے ہاتھوں میں آ جائے وہ بچپن سے نوجوانی تک اور نوجوانی سے جوانی تک اس طرح تربیت پائیں کہ ادیان سے بالعموم اور اسلام سے  بالخصوص  اور دین سےوابستگی رکھنے والے علماءاور مبلغین سےنفرت رکھتے ہوں۔اور انہیں اس زمانے میں پہلے برطانیہ کے ایجنٹ، اور سرمایہ داروں اور غاصب زمینداروں کے حامی اور رجعت پسندی کے حمایتی اور اسکے بعد انہیں تمدن و ترقی کے مخالفین کے طور سے پیش کرتے رہے۔ اور  دوسری طرف غلط پروپگنڈوں کے ذریعے علماء ، مبلغین اور متدین افراد کو یونیورسٹی اور یونیورسٹی والوں سے ڈراتے پھرتے اور سب پر بے دین ،لاپرواہ اور اسلام و ادیان کے مظاہر کے مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے تھے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حکام ادیان و اسلام اور متدینین کے مخالف رہتے ؛اور عوام  جو مذہب اور مذہبی پیشواؤں سے محبت رکھتے  ان کا حکومت اور جو کچھ بھی حکومت سے تعلق رکھتی ہے کا مخالف رہنا ،اور  حکومت اور عوام میں اور یونیورسٹی اور مذہبی پیشواؤں کے درمیان گہرے اختلافات سے لٹیروں کیلئےاسقدر راہ ہموار رہے کہ  تمام ملکی امور انکے دست قدرت میں رہے اور قوم کے سبھی خزانے ان کے جیبوں میں خالی ہوتے رہیں،جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اس مظلوم قوم پر کیا گزری ، اور کیا گزرنے والی تھی۔

اب جبکہ خداوند متعال کی مرضی اور  مذہبی پیشواؤں  اوردانشگاہیوں سے لے کر تاجروں، مزدورں ، کسانوں اور دیگر تمام طبقات  تک  مجاہد قوم نے بند اسارت کو کاٹ پھینکا اور بڑی طاقتوں کی طاقت کو روندکر  اور ملک کو ان بڑی طاقتوں  اور انکے ہم نوالہ حمایتیوں کے چنگل سے نجات دلا دی ہے،ان سے میری وصیت یہ ہے کہ موجودہ اور آئندہ نسلیں غفلت سے کام نہ لیں اور دانشگاہیوں اور عزیز و کار آمد جوانوں کو چاہئے کہ علما اور اسلامی علوم کے طالب علموں سے دوستی و ہم آہنگی کے رشتے کو زیادہ مستحکم اور مضبوط  بنائے رکھیں اورغدار دشمن کے منصوبوں اور سازشوں سے غافل نہ رہیں اور جیسے ہی کسی فرد یا جماعت کو دیکھیں جو اپنے قول و عمل کے ذریعے نفاق و اختلاف کی کوشش میں مصروف ہے تو اس کی ہدایت و نصیحت کریں؛ اور اس کا اثر نہ ہو تو اس سے روگرداں ہو جائیں ، اس کو الگ تھلک کردیں اور سازشوں کے جڑ پکڑنے کی اجازت نہ دیں، کیونکہ ابتدا میں آسانی سے روک تھا م کی جاسکتی ہے ۔ خاص طور پر اگر اساتذہ میں ایسا شخص نظر آئے جو انحراف پیدا کرنا چاہتا ہو، تو اس کی ہدایت کریں اور اگر ہدایت نہ پائے تو اسے اپنی بزم سے دور کردیں اور تدریس سے روک دیں ۔ میری اس وصیت کے زیادہ تر مخاطب علمائے دین اور دینی علوم کے طالب علم ہیں۔اور دانشگاہوں میں ہونے والی سازشیں خاص گہرائی رکھتی ہیں اور معاشرے کے ہر محترم طبقے کو کہ  جوسماج کا مغز متفکر ہیں کو سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

مغرب نوازی اور مشرق نوازی کا روگ

 (ھ)

ان سازشوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے مع الاسف ملکوں میں اور خاص کر ہمارے پیارے ملک میں اپنے گہرے اثرات چھوڑے اور کافی حد تک اس کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں،وہ یہ کہ استعمارنواز ممالک کو خود سےدور کرنا، اور ان کو مغرب نواز اور مشرق نواز بنانا ہے اسطرح کہ جیسے کہ خود ان کے پاس ثقافت و صلاحیت کا فقدان ہے اور مغرب(یورپ و امریکہ) اور مشرق(سویت یونین) کی دو بڑی طاقتوں کی نسلوں کو امتیازی نسل اور انکی ثقافت کو  اعلی معیاری اور ان دو طاقتوں کو اپنا قبلہ گاہ سمجھنا اور ان میں سے کسی ایک کے زیر سایہ رہنا نا قابل اجتناب فرائض کے طور پر پیش کرنا!اور اس غم انگیز حقیقت کی داستان طویل اور اس سے جو چوٹیں کھائیں ہیں اور ابھی بھی کھاتے ہیں مہلک اور تکلیف دہ ہے۔

اور اس سے بھی زیادہ غم انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زیر اثر ستم رسیدہ اقوام کو ہر چیز میں پیچھے  رکھا اور ان کےکوکنزیومراور مصرفی ممالک میں تبدیل کردیا اور ہمیں اسقدر اپنی ترقیوں اور انکی شیطانی طاقتوں سے  ڈرایا کہ ہم میں کسی بھی تخلیقی کا م کرنے  کی ہمت پیدا نہیں ہو پاتی اور  اپنی ہر چیز اور اپنی سرنوشت اور اپنے ملکوں کو ان کے سپرد کرکے  اور چشم و گوش بستہ ان کے احکامات کی تابعداری  کرتےہیں۔اور یہ مصنوعی کھوکھلاپن اور تہی مغزی اس بات کا سبب بنی ہے کہ ہم کسی کام میں اپنی فکر و دانش پر بھروسہ نہ کریں اور مشرق و مغرب کی اندھی تقلید کریں بلکہ  ثقافت ، ادب ، صنعت اور خلاقیت و ابتکار اگر تھی بھی، تو مغرب نواز اور مشرق نواز  بی فرھنگ قلمکاروں اور مقرروں نے اس قدر نکتہ چینی کی اور مذاق اڑایا کہ ہماری اپنی فکری استعداد دب کررہ گئی اور ہمیں مایوس کیا اور آج بھی ایسا کررہے ہیں اور غیروں کے آداب و رسوم کو خواہ وہ کتنے ہی خراب اور  شرمناک کیوں نہ ہوں  قول و فعل اور تحریروں کے ذریعے رائج کررہے ہیں اور ان کی تحسین و تعریف کے ساتھ اقوام پر مسلط کرتے پھررہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کتاب، تحریر یا تقریر میں کچھ مغربی الفاظ ہوں تو ان کے محتوا اور مواد پر توجہ  کئے بغیر حیرت کے ساتھ قبول، اور ان کے بولنے یا لکھنے والوں کو دانشور اور روشن خیال سمجھتے ہیں۔ اور گہوارے سے قبر تک جو کچھ بھی لیں اگر مغربی اور مشرقی زبان میں انکی نام گذاری کی جائے تو اسے پسندیدہ اور قابل توجہ ، نیز ترقی و تمدن کی علامت سمجھا جاتا ہے ،اور اگر اس جگہ مقامی الفاظ کا استعمال  کیا جائے تو مسترد اور رجعت پسندانہ ہوگا ۔ ہمارے بچے اگر مغربی نام رکھیں تو افتخار؛ اور اگر مقامی نام رکھیں تو شرمندگی اور پسماندہ ہیں۔ سڑکوں ، گلیوں اور دکانوں ، کمپنیوں ، دواخانوں ، لائبریریوں ، کپڑوں اور دیگر چیزوں کے ناموں کو خواہ وہ ملک ہی میں بنی ہوں ، غیر ملکی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس سے راضی ہوں اور اسے قبول کریں۔سرتا پا مغربیت اور تمام نشست و برخاست ، معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں مغرب نوازی ، فخر اور سربلندی ، نیز تمدن و ترقی کا باعث ہے،اور اس کے مقابلے میں اپنے آداب و رسوم ، قدامت پرستی اور پسماندگی ہے۔ ہر بیماری و علالت میں خواہ ملک کے اندر قابل علاج اور معمولی ہی کیوں نہ ہو، بیرون ملک جانا لازمی اور اپنے ڈاکٹروں اور دانشمند اطبا کی مذمت اور ان کو مایوس کرنا ۔برطانیہ ، فرانس، امریکہ اور ماسکو جانا بہت فخر کی بات ہے اور حج ، نیز دیگر متبرک مقامات  کیلئے جانا قدامت پرستی اور پسماندگی ہے۔اس چیز سے بے اعتنائی ، جس کا تعلق مذہب اور معنویات سے ہے ، روشن خیال اور تمدن کے علامت ہے اور اس کے مقابلے میں ان امور کی پابندی ، پسماندگی اور قدامت  پرستی کی نشانی ہے ۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خود ہمارے پاس سب  کچھ ہے ؛معلوم ہے کہ ہمیں تاریخی دور میں خاص طور پر حالیہ صدیوں میں ہر ترقی سے محروم رکھا گیا  اور خائن حکام مملکت ،خاص طور پر پہلوی خاندان اور اپنی(دیسی) کامیابیوں کے خلاف تشہیراتی مراکز نیز ہماری اپنی چھوٹی سوچ اور احساس کمتری نے ہمیں ترقی کیلئے ہر طرح کی کوشش  کرنےسے محروم کردیا ۔ ہر قسم کے مال  کا در آمد کرنا ، خواتین اور مردوں خاص طور پر جوان طبقے کو مختلف قسم کی در آمداتی اشیا، مثلا میک اپ کے وسائل ، زینتی اور تجملاتی اشیا اور بچگانہ کھیلوں میں مشغول کرنا، خاندانوں میں مقابلے کی دوڑ شروع کرنا اور زیادہ سے زیادہ کنزیومر اور مصرفی بننے کی شکل میں پروان چڑھانا ، جو خود غم انگیز داستانوں کا حامل ہے،بدکاریوں اور عیاشیوں کے اڈوں کو فراہم کرکے ان جوانوں کو تباہی کی جانب لے جانا ، جو سماج کے فعال ارکان ہیں اور اس قسم کی سوچی سمجھی دسیوں مصیبتیں ہیں جو ممالک کو پسماندہ رکھنے کیلئے ہیں۔

اپنے ماہرین پر بھروسہ کرنے کی ضرورت

میں ملت عزیز سے ہمدردانہ و خادمانہ وصیت کرتا ہوں کہ اب جبکہ وہ بہت نمایاں حد تک (بچھائے گئے) ان جالوں سے نجات پا چکی ہے اور موجودہ محروم نسل نیا کچھ کر دکھانے کیلئے کمر بستہ ہوگئی ہے اور ہم نے دیکھا کہ بہت سے کارخانوں اور ترقی یافتہ وسائل بنانے جیسے ہوائی جہاز اور دیگر چیزوں کہ جن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ایرانی ماہرین اپنے ان کارخانوں کو اور ایسی صنعت کو خود چلا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورسبھی مشرق یا مغرب کی جانب اپنے ہاتھ پھیلا ہوئے تھے کہ ان کے ماہرین ان کو چلائیں، اقتصادی ناکہ بندی اور مسلط کردہ جنگ، کے باعث خود ہمارے جوانوں نے ضرورت کے تمام پرزوں کو خود بنایا اور سستی قیمتوں کے ساتھ تیار کرکے ضرورت کو برطرف کردیا اور ثابت کردیا کہ اگر چاہیں تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔

آپ کو بیدار و چوکنا اور ہوشیار رہنا چاہئے کہ مغرب و مشرق سے وابستہ سیاستدان شیطانی وسوسوں  کے ذریعے آپ کو ان بین الاقوامی لٹیروں کی جانب نہ لے جائیں ؛اور آپ اپنی پختہ ارادی ، ہمت اور فعالیت کے ساتھ غیروں پر انحصار کرنے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

 اور جان لیں کہ آریائی اور عرب نسل، امریکہ ، روس اور یورپ کی نسلوں سے کم ذہین نہیں اور اگر آپ اپنی خودی کو بحال کریں اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردیں ،اور اپنے علاوہ کسی غیر  سے توقع نہ رکھیں، تو طویل عرصے میں ہر کام اور ہر چیز بنانے کی توانائی پیدا کرلیں گے۔ آپ سے شباہت رکھنے والے انسان جہاں تک پہنجے ہیں آپ بھی وہاں پہنچ جائیں گے، بشرطیکہ آپ خداوند عالم پر بھروسہ اور اپنی ذات پر اعتماد رکھیں ،اور دوسروں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں ، شرافتمندانہ زندگی کے حصول اور غیروں کے تسلط سے باہر نکلنے کیلئے سختیوں کو برداشت کریں۔

 اور ہر زمانے کی حکومتوں اور عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ وہ نسل حاضر اور آنے والی نسلوں میں پیدا ہونے والے اپنے ماہرین کی قدردانی کریں اور مادی و معنوی تعاون سے ان میں کچھ کر دکھانے کیلئے حوصلہ افزائی کریں اورگھریلو کھپت اور گھروں کے سکون کو چھین لینے والی چیزوں کو روکیں اور ان کے پاس جو کچھ ہے اسی پر قناعت کریں یہاں تک کہ خود ساری چیزیں خود بنانے پر قادر ہو جائیں۔

اور جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں سے میری توقع یہ ہے کہ استقلال و آزادی اور انسانی اقدار کو تجملات ، عیش و عشرت ، بے راہ رویوں اور بدکاریوں کے ان اڈوں پر فدا نہ کریں، جو مغرب اور وطن دشمن ایجنٹوں کی جانب سے آپ کیلئے بنائے گئے ہیں ، خواہ سختیاں اور دشواریاں ہی برداشت کرنی پڑیں ؛ کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ آپ کی تباہی اور آپ  کو اپنے ملک کی سرنوشت سے غافل بنانا چاہتے ہیں، آپ کے ذخائر کو لوٹنے ،استعمار کی زنجیروں اور وابستگی کی ذلت میں جکڑنے، آپ کی قوم اور ملک کوکنزیمر اور مصرفی بنائے رکھنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتے اور چاہتے ہیں کہ ان وسائل اور اس قسم کی ا شیا سے آپ کو پسماندہ اور ان ہی کی اصطلاح میں "نیم وحشی" باقی رکھیں۔

تعلیمی و تربیتی اداروں میں دشمنوں کی سرمایہ کاری

 (د)

ان کی بڑی سازشوں میں سے ایک یہ ہےکہ جس کی طرف اشارہ بھی کیا اور مسلسل یاد دہانی کرتا آیا ہوں،وہ تعلیم و تربیت کے مراکز اور خاص طور پر یونیورسٹیوں  کو اپنے  اثر و رسوخ میں لینے کی سعی ہے، کیونکہ ملکوں کا مستقبل یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ان کا طرز عمل جو علماء اور دینی مدارس کے ساتھ ہوتا ہے وہ یونیورسٹیوں  اور کالجوں کے طرز عمل سے مختلف ہوتا ہے۔ان کا منصوبہ مذہبی شخصیات کو راستے سے ہٹاکر انہیں گوشہ نشین کرنا ہوتاہے؛ یا تو  جبر و تشدد اور توہین کے ساتھ کہ جسے رضا خان کے زمانے میں عملایا گیا لیکن  اس کانتیجہ الٹا نکلا ؛یا توغلط پرپگنڈوں ، تہمتوں اور شیطانی سازشوں کے ذریعے تعلیم یافتہ طبقے باصطلاح روشن خیال لوگوں کو علما سے الگ کرنا کہ اس کو بھی رضا خان کے زمانے میں عملایا گیا  اورجبر و تشدد کے مرحلے میں تھا؛اور(پھراس کے بیٹے) محمد رضا کے زمانے میں یہ عمل موذیانہ طور پر جاری رہا لیکن کسی جبر وتشدد کے بغیر بلکہ عیاری و مکاری کے ساتھ۔

 لیکن یونیورسٹیوں کے سلسلے میں ان کا منصوبہ ایسا ہے کہ جوانوں کو اپنی تہذیب و ثقافت ، اپنے طور طریقے اور اقدار سے منحرف کریں اور مشرق یا مغرب کی تہذیب کا دلدادہ بنائیں اور ان ہی میں سے سرکاری عہدہ داروں کا انتخاب اور  ممالک کی سرنوشت کا حاکم بنائیں تاکہ ان کے ذریعے جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسے انجام دے سکیں ۔یہ لوگ ملک کو لوٹ کھسوٹ اور مغرب نوازی کی جانب لے جائیں اور علمائے دین اپنی گوشہ نشینی ، غیرمقبولیت و بے بسی اور شکست کے باعث روک تھام نہ کرسکیں۔ اور تحت تسلط ممالک کو پسماندہ رکھنے اور انہیں لوٹنے کیلئے یہ بہترین طریقہ ہے ، کیونکہ بڑی طاقتوں کیلئے کسی زحمت اور  کسی سرمایہ کاری کےاور قومی معاشروں میں کسی شور و غل کے بغیر جو کچھ بھی ہے وہ  ان کی جیب میں چلا جاتا ہے ۔

 لہذا اب جبکہ یونیورسٹیوں اور دانشسراہوں کی اصلاح  اور پاکسازی  کی جارہی ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ مربوط ذمہ داروں کی مدد کریں ،  کبھی بھی اس کی اجازت نہ دیں کہ یونیورسٹیوں کو منحرف کیا جائے ؛اور جہاں بھی انحراف نظر آئے فوری اقدام کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ حیاتی کام پہلے مرحلے میں یونیورسٹیوں اور  دانشسراہوں کے جوانوں ہی کے قابل ہاتھوں سے انجام پانا چاہئے، کیونکہ یونیورسٹی کو انحراف سے نجات دلانا،خود ملک و ملت کی نجات ہے۔

اورمیں سب سے پہلے تمام نوجوانوں اور جوانوں پھر ان کے والدین اور انکے دوستوں اور اس کے بعد،سرکاری عہدہ داروں اورملک کے ہمدرد و روشن خیالوں سے وصیت کرتا ہوں کہ اس مہم کام میں کہ  جو تمہارے ملک کو نقصان پہنچنے سے محفوظ  رکھ سکتا ہے،کی دل و جان کے ساتھ کوشاں رہیں اور یونیورسٹیوں کو بعد کی نسل کے حوالے کریں ۔اور  میں تما م آنے والی نسلوں سے نصیحت کرتا ہوں کہ خود اپنی عزیز ملک اور انسان ساز اسلام کی نجات کیلئے یونیورسٹیوں کو انحراف اور مغرب نوازی و مشرق نوازی سے محفوظ رکھیں اور اپنے اس انسانی اور اسلامی عمل کے ذریعے اپنے ملک سے بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کریں اور ان کو ہمیشہ کیلئے نا امید کردیں ۔خدا آپ  کا مدد گار و محافظ رہے۔

مجلس شورای اسلامی (پارلمنٹ)، خبرگان رہبری اور شورای نگہبان کے منتخب نمایندگان کا اپنے حلف پر باقی رہنا لازمی

 (ز)

مہم ترین ذمہ داریوں میں سے مہم مجلس شورای اسلامی (پارلمنٹ) کے ممبران کا اپنے حلف پر باقی رہنا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام اور اسلامی ملک ایران نے منحرف اور غیر صالح مجلس شوری (پارلمنٹ) کے بدولت ، مشروطیت کے بعد سے لےکرمجرم پہلوی حکومت اور ہر زمانے سے بدتر اور زیادہ  خطرنا ک  اس تھوپی گئی حکومت تک کس قدر درد بھری چوٹیں کھائی ہیں؛ اور کسقدر مصیبتیں اور جان فرسا نقصانات ان ہی بے ارزش مجرموں اور نوکر مآبوں کے ذریعے ملک و ملت کو جھیلنے پڑے ہیں۔ اس(مذکورہ) پچاس سالہ دور میں ایک منحرف مصنوعی اکثریت  کے مقابلے میں ایک مظلوم اقلیت کا ہونا سبب بنا کہ  جو کچھ برطانیہ، سویت یونین اور آخر کار امریکہ نے چاہا ،ان خدا سے بے خبر منحرف لوگوں کے ذریعے  انجام دیا  اور ملک کو تباہی و نابودی کے دہانے پر پہنچا دیا۔مشروطیت کے بعد سے لے کر، آئین کے تقریبا کسی بھی مہم دفعات پر عمل نہیں ہوا۔رضاخان سے پہلے مغرب نوازں اور مٹھی بھر خان اور زمین خوار جاگیرداروں ؛اور پہلوی رژیم  کے زمانے میں تو اس سفاک  رژیم  اور اس سے وابستہ اور فرمانبرداروں کا دور چلا۔

اب جبکہ پروردگار کی عنایت اور عظیم الشان قوم کی ہمت سے ملک کی سرنوشت لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے اور نمایندے عوام سے اور خود ان ہی کے انتخاب سے، حکومت ، خان اور زمین خوار جاگیرداروں کی مداخلت کے بغیر مجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ) میں پہنچ جاتے ہیں، اور امید ہے کہ  اسلام اور ملکی مفادات کے ساتھ ان کی حلف برداری ہر قسم کے انحراف کی روک تھام کو یقینی بنائے رکھیں گے۔میری وصیت موجودہ عوام اور آنے والی قوم کیلئے یہ ہے کہ اپنے پختہ ارادے ، اسلامی احکام اور ملکی مفادات کے نسبت اپنے تعہد کے ساتھ انتخابات کے دوران جو اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ وفادار ہو کہ ایسے افراد زیادہ تر معاشرے کے متوسط اور محروم طبقے کے درمیان ہوا کرتے ہیں اور صراط مستقیم سے نہ  بٹکے ہوئے   -مغرب یا مشرق کی طرف جھکاو نہ رکھنے والے-اور انحرافی مکاتب کے نسبت جھکاو  نہ رکھنے والے دانشوروں اور حالات حاضرہ اور اسلامی سیاست پر کڑی نظر رکھنے والوں کو منتخب کرکے مجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ) میں بھیج دیں۔

اور علمای دین کےمحترم معاشرےخصوصا مراجع معظم سے وصیت کرتا ہوں کہ سماجی مسائل کے بارے میں خاص کرصدر جمہوریہ کے انتخاب اور مجلس(پارلمنٹ) کے نمایندوں کے انتخابات میں اپنے آپ کو الگ تھلگ نہ رکھیں اور ان دیکھی نہ کریں۔آپ سب نے دیکھا اور  آئندہ نسل سنے گی کہ مشرق و مغرب نواز  سیاستدانوں نے مذہبی شخصیات کو کہ جنہوں نے بڑی زحمتیں اور تکالیف اٹھاکر مشروطیت کی بنیاد رکھی تھی ، سیاسی میدان سے نکال باہر کیا اور علماء بھی ان سیاستدانوں سے دھوکا کھا گئے اور ملک اور مسلمانوں کے مسائل (سیاست) میں مداخلت کرنے کو اپنی توہین سمجھا اور میدان کو مغرب نوازوں کے حوالے کردیا اس طرح مشروطیت ،   آئین،ملک اور اسلام پر ایسا ظلم کیا جس کی تلافی کیلئے ایک طویل مدت درکارہے۔

اب جبکہ بحمدللہ رکاوٹین دور ہو چکی ہیں اور ہر عوامی طبقے کیلئے عمل دخل رکھنے  کیلئے آزاد فضا قائم ہوگئی ہے ،کسی قسم کے عذر کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور نا قابل معافی سب سے بڑا گناہ، مسلمانوں کے مسائل سے متعلق  لاپرواہی ہے ۔جس سے جتنا ہو سکے اور جسقدر اثر و رسوخ رکھتا ہو کو چاہئے کہ اسلام اور ملک کی خدمت کریں؛اور مغرب و مشرق کی دو بڑی سامراجی طاقتوں سے وابستہ  اور سب سے بڑے مکتب اسلام سے منحرف لوگوں کے اثر و رسوخ کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ روک تھام کریں، اور جان لیں اسلام اور اسلامی ممالک کے مخالفین یہی بڑی استعماری طاقتیں بین الاقوامی ڈاکو  ہیں، آہستہ آہستہ اور خوبصورتی کے ساتھ ہمارے ملک اور دیگر اسلامی ممالک میں رخنہ پیدا کرنے کے ساتھ،اقوام  کے اپنے لوگوں کے ہاتھوں ممالک کو استحصال کے جال میں پھانس لیتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ چوکس رہیں اور(انکے) اثرو رسوخ کے پہلے ہی قدم کی آہٹ کومحسوس کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہو جائیں اور انہیں  مہلت نہ دیں، تمہارا خدا تمہارا مددگار و  نگہبان ہے۔

عصر حاضر اورعصر مستقبل کے نمایندگان مجلس شورای اسلامی (پارلمنٹ) سے میری خواہش ہے کہ اگر خدانخواستہ منحرف عناصرسازش اورسیاسی چالبازی سے اپنی نمایندگی کو لوگوں پر تھوپ دے،مجلس ان کےاعتبارنامے کو نا منظور کردے اورکسی ایک بھی  منحرف و وابستہ تخریب کار کو مجلس(پارلمنٹ)تک رسائی حاصل کرنےکی فرصت نہ دیں۔

اورمیں ملک کی سرکاری مذہبی اقلیتوں سے وصیت کرتا ہوں کہ وہ پہلوی حکومت کے زمانے سے عبرت حاصل کریں اورایسے شخص  جو اپنے مذہب اور اسلامی جمہوریہ کا وفادارہو اور جہانخوار طاقتوں سے وابستہ نہ ہو اور ملحد ،انحرافی اور التقاطی مکاتب کی طرف رجحان نہ رکھتا ہو کو اپنا نمایندہ انتخاب کریں۔

اور سبھی نمایندگان سے میری خواہش ہے کہ نہایت نیک نیتی اور بھائی چارگی کے ساتھ اپنے پارلیمانی ساتھیوں سے سلوک کریں اور سبھی یہ کوشش کریں کہ قوانین خدانخواستہ اسلام سے منحرف نہ ہوں ۔ آپ سب اسلام اور اس کے آسمانی احکامات کے وفادار ہیں تاکہ آپ کو دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل ہوسکے۔

رہبر یا شورای رہبری کے نام وصیت

میں محترم شورائے نگہبان(آئین کی محافظ کونسل)سے توقع رکھتا ہوں اور سفارش کرتا ہوں  خواہ وہ موجودہ نسل سے ہوں یا  آئندہ نسل سے کہ وہ اپنے اسلامی اور قومی فرائض کو انتہائی دقت اور صلاحیت کے ساتھ اداکریں اور کسی بھی طاقت سے متاثر نہ ہوں، شریعت مطہرہ اور بنیادی آئین کے خلاف قوانین کی  بلا جھجک روک تھام کریں اور ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے جن پر کبھی احکام ثانویہ اور کبھی ولایت فقیہ کے ذریعے عمل ہونا چاہئے کا خاص خیال رکھیں۔

اور ملت شریف کیلئے میری وصیت یہ ہے کہ تمام انتخابات میں ، خواہ وہ صدر جمہوریہ کا ہو یا مجلس شورائے اسلامی(پارلمنٹ) کے ممبران کا یا مجلس شورای نگہبان کا ہو یا  شورای رہبری یا رہبر کے انتخاب کیلئے مجلس خبرگان رہبری کا ، ہر ایک میں برابر شریک رہے اور جن  کا بھی انتخاب ہو اس ضابطے کے مطابق ہو جو معتبر ہیں ، مثال کے طور پر شورای رہبری(قیادتی کونسل) یا رہبر (قائد) کے تعین کیلئے خبرگان رہبری کے انتخابات میں خاص خیال رکھیں کہ اگر غفلت برتی اور خبرگان کو شرعی معیار اور قانون کے مطابق منتخب نہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ اسلام اور ملک کو ایسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے جن کی تلافی نہ ہوسکے۔ اور ایسی صورت میں سبھی خداوند عالم کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

اس طرح ملت، مراجع تقلید و سرکردہ علماء سے لے کر  تاجر، کسان، مزدور ،ملازم اور دیگر سبھی طبقات تک کی طرف سے عدم دخالت کی صورت میں سب کے سب ملک اور اسلام کی سرنوشت کے ذمہ دار ہیں؛ خواہ موجودہ نسل سے تعلق رکھتے ہوں خواہ آئندہ نسل سے ؛اور بہت ممکن ہے کہ، بعض مواقع پر شرکت نہ کرنا اور لاپرواہی سے کام لینا، ایسا گناہ ہے جو کہ گناہ کبیرہ کے سر فہرست میں قرار پاتا ہے۔تو پھر(خبردار رہیں) ایسی آفت کا علاج اس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل کرنا چاہئے نہیں تو کام سب کے حد اختیار سے نکل جائے گا ۔اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا احساس ہم نے اور آپ نے مشروطیت کے بعد کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر بہترین علاج کچھ نہیں  کہ قوم پورے ملک میں ان کاموں کو جو ان سے متعلق ہوں  کو اسلامی اصولوں اور آئین کے مطابق انجام دے؛اورصدر جمہوریہ اور  ارکان مجلس (پارلمنٹ/اسمبلی)  کے چناو کے وقت متعہد  تعلیم یافتہ طبقہ ، حالات زمانہ پر وسیع نظر رکھنے والے ،سامراجی طاقتوں سے بیزار با تقوی اوراسلام  اور جمہوریہ اسلامی کے وفادار افراد سے مشورہ کریں، اور جمہوریہ اسلامیہ کے متعہد باتقوی علما ء اور مذہبی پیشواؤں سے بھی مشورہ کریں ؛اور  اس بات کا خیال رکھیں صدر جمہوریہ اور مجلس (پارلمنٹ/اسمبلی)کے نمایندگان ایسے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں جنہوں نے معاشرے کے مستضعف  اور دبے کچلے طبقات کے لوگوں کی محرومیت اور ان کی مظلومیت کو محسوس کیا ہو اور وہ ان کی  فلاح و بہبود کیلئے فکر مند ہوں ، نہ کہ ان سرمایہ داروں ، غاصب زمینداروں ، عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والوں کو منتخب کریں جوکہ  بھوکوں اور غریبوں کے دکھ درد کو نہیں سمجھ سکتے ہوں ۔

اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر صدر جمہوریہ اور ممبران مجلس(پارلمنٹ/اسمبلی)  اسلام کے وفادار ، متعہد  اور ملک و ملت کے خیرخواہ ہوں، تو بہت سارے مشکلات تو پیدا ہی نہیں ہونگے ؛اور اگر کچھ مسائل پیدا بھی ہونگے بھی توبآسانی برطرف کئے جاسکتے ہیں۔اسی طرح  شورای رہبری (قیادتی کونسل) یا قائد(رہبر) کے تعین کیلئے مجلس خبرگان کے انتخاب کے وقت خاص اہمیت کے ساتھ مدنظر رکھنا چاہئے؛ خبرگان کہ جن کا انتخاب قوم کے ذریعے ہوتا ہے اگر نہایت توجہ  اور ہر عصر کےمراجع عظام، ملک بھر کے سرکردہ  علماء کرام اورمتعہد ارباب فکر و دانش  کے مشورے کے ساتھ مجلس خبرگان کیلئے منتخب ہوں،تو شورای رہبری یا رہبر کیلئے لائق ترین اور متعہدترین شخصیتوں کو منتخب کرنے سے بہت ساری سختیوں اور مشکلوں کا سامنہ نہیں پڑ گا یا اگر پیش آئیں توشایستگی کے ساتھ حل ہو جائیں گے ۔ آئین کی دفعہ109  اور 110  کے رو سے ، عوام پرخبرگان  اور نمایندگان کی طرف سے رہبر( قائد) یا شورای رہبری( قیادتی کونسل) کے انتخاب میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس سے بخوبی واضح ہوتا ہے  کہ اس انتخاب میں ذرا سی غفلت اسلام ،ملک اور اسلامی جمہوریہ کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے ،جو کہ اہمیت کے سب سے اعلی سطح پر قرار پانے کے پیش نظران کے لئے تکلیف  الہی بن جاتا ہے۔

اوراس عصر  میں جوکہ بڑی طاقتوں اور انکے ہمنواؤں کی طرف سے  ملک کے اندر اور باہر سے اسلامی جمہوریہ  در حقیقت اسلام کے خلاف جارحیت کا عصر ہے  رہبر اور شورای رہبری  سےمیری وصیت یہ ہے کہ اپنے آپ کو اسلام، اسلامی جمہوریہ ، محرومین اور مستضعفین کی خدمت کیلئے وقف کردیں؛ اور یہ خیال نہ کریں کہ  قیادت کا منصب ان کیلئے کوئی تحفہ یا اعلی عہدہ ہے، بلکہ یہ ایک ایسی سنگین اور خطیرناک ذمہ داری ہے جس میں خدا نخواستہ اگر خواہشات نفسانی کی وجہ سے کوئی لغزش پیدا ہوئی تو اس دنیا میں ابدی شرمساری اور آخرت میں بھی خدائے قہار کے غضب کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میں خداوند منان ہادی سے نہایت عجز و انکساری کے ساتھ  درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہم  اور آپ کو اس خطرناک امتحان میں سروخرو ئی کے ساتھ اپنےحضور میں قبول کرلے اور نجات دے اور اس  سے قدرے ہلکا خطرہ  حال اور مستقبل کےاسلامی جمہوریہ کے جمہوری سربراہوں اور اعلی و ادنی ذمہ داروں اور حکومتوں کیلئے ان کے منصب کے اعتبار سے ہر دور میں پایا جاتا رہے گا، لہذا انہیں چاہئے کہ خداوند عالم کو حاضر و ناظر اور اپنے آپ کو ہمہ وقت اس کے حضور میں تصور کریں ۔ خداوند عالم ان سب کی مشکلات کو برطرف فرمائے۔

قضاوت و عدالت اسلامی

 (ح)

مہم ترین امور میں ،قضاوت کا مسئلہ ہے کہ جس کا تعلق لوگوں کی جان و مال اور ناموس سے ہے۔رہبر(قائد) اور شورای رہبری( قیادتی کونسل) کیلئے میری وصیت یہ ہے کہ عدلیہ کے اعلی ترین عہدیدار کے تعین کرنے میں جوان کی ذمہ داری ہے ،کوشش کریں کہ سابقہ دار متعہد اور شرعی و اسلامی ، نیز سیاسی امور میں صاحب نظر اشخاص کو نصب کریں۔

اور شورای عالی قضائی( اعلی عدالتی کونسل) سے چاہتا ہوں کہ قضاوت کے حوالے جو سابق حکومت میں افسوسناک اور غم انگیز رخ اختیار  کر چکے تھے اسکی بڑی سنجیدگی کےساتھ اصلاح کرکےنظم و ضبط بخشیں؛ اور ایسے ہاتھ جو لوگوں کی جان و مال سے کھیلتے ہیں اور ان کے لئے  اسلامی عدل و انصاف کی کوئی اہمیت نہیں کی  اس اہم عہدے  تک رسائی ناممکن بنائیں، اور بے وقفہ اورسنجیدگی کے ساتھ  تدریجی طور پر عدلیہ میں تبدیلی لائیں؛  اور شرایط پر پوری طرح اترنے والے قضات اور منصفوں ،کہ ان شاءاللہ  جن کی حوزہ ہای علمیہ خاص کر حوزہ مبارکہ علمیہ قم  میں سنجیدگی کے ساتھ تعلیم و تربیت  کی جائے گی اور انہیں متعارف کیا جائے گا، جن میں مقررہ  اسلامی شرائط نہیں ہیں ان قضات کی جگہ مقرر کیا جائے ۔تاکہ ان شاءاللہ بہت جلد  ملک بھر میں اسلامی قضاوت کا دور دورہ  وجود میں آئے گا۔

اورعصر حاضر اور آئندہ ادوار کے محترم منصفوں کیلئے میری وصیت یہ ہے کہ ان احادیث کو مدنظر رکھیں جو انصاف کی اہمیت اور منصفی کے عظیم خطرے کے بارے میں معصومین علیہم السلام سے منقول ہیں اور ان روایات کو بھی مدنظر رکھیں جو ناحق فیصلوں کے بارے میں آئی ہیں پھر اس عظیم و خطیر کام کی ذمہ داری قبول کریں اور اس کا موقع نہ دیں کہ یہ منصب نا اہل کے حوالے کیا جائے اور وہ لوگ جو اس کام کی لیاقت رکھتے ہیں، اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار نہ کریں اور نا اہل لوگوں کو موقع نہ دیں اور جان لیں کہ اس عہدے کا خطرہ عظیم ہے اور اس کا اجرو ثواب بھی عظیم ہے اور آپ جانتے ہیں کہ قاضی کے عہدے کو قبول کرنا اس کی لیاقت و اہلیت رکھنے والے کیلئے واجب کفائی ہے۔

منحرف افراد کا حوزہ علمیہ میں نفوذ پیدا کرنے کا خطرہ

(ط)

میری وصیت حوزہ ہائے مقدسہ علمیہ( دینی تعلیمی مراکز) کیلئے یہ ہے جو مکرر عرض  کرتا رہا ہوں کہ اس زمانے میں جبکہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے مخالفوں نے اسلام  کا تختہ پلٹنے کیلئے کمر کس رکھی ہے اور وہ اس شیطانی مقصد کیلئے ہر ممکن طریقے سے کوشش کررہے ہیں،جن میں اسلام اور اسلامی حوزات  کیلئے انکے منحوس اور خطرناک مقصد کیلئے ایک اہم راستہ  منحرف اور تخریب کار افراد کو حوزہ ہای علمیہ پہنچانا ہے جس کا قلیل المدت میں بڑا خطرہ ناشایستہ  اخلاق و اعمال اور انحرافی طریقہ   کارکے ذریعہ حوزات کو بدنام  کرنا ہے اور اس کا طویل المدت میں انتہائی عظیم خطرہ  یہ ہے کہ ایک یا چند ایسے شیاد کا اعلی مقام تک پہنچنا جو اسلامی تعلیمات کے بارے میں جانکاری کے سبب اپنے آپ کو عوام اور  پاکدل لوگوں کے درمیان مقام بنا کر اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لے اور وقت آنے پر اسلامی حوزات، اسلام عزیز اور ملک پر مہلک وار کرنا ہے۔

اور ہم جانتے ہیں کہ  بڑی  غارتگر طاقتوں نے مختلف سماجوں میں  قوم پرست، نقلی  روشن خیال اور نام نہاد علماء جیسے مختلف افراد کہ اگر  ان  کو فرصت ہاتھ آ جائے تووہ سب سے زیادہ خطرناک اور نقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں سنبھال کر رکھے ہیں جو کہ حتی تیس-چالیس سال اسلامی خدو خال اور مقدس مآبی یا "پان ایرانزم" اور وطن پرستی اور دیگر حیلوں کے ذریعے، صبر اور بردباری کے ساتھ عوام کے درمیان زندگی گزارتے ہیں اور مناسب موقع پر اپنے مشن کو انجام دیتے ہیں۔اور ہماری عزیز قوم نے اس مختصر مدت میں  انقلاب کی کامیابی کے بعد "مجاھد خلق"، "فدایی خلق"، "تودہ ھا" اور دیگر  عناوین کے ساتھ ایسے نمونے دیکھے ہیں،اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی اس قسم کی سازشوں کو ہوشیار ی کے ساتھ ناکام بنائیں اور حوزہ ہای علمیہ  کی ذمہ داری اس میں سب سے زیادہ  اور ضروری ہے کہ مراجع وقت کی تائید کے ساتھ اساتید اور سابقہ دار افاضل کے ذریعہ اس میں تنظیم و تصفیہ انجام دیا جائے۔اور شاید یہ نظریہ کہ "نظم بے نظمی میں ہے" خود انہی منحوس سازش کاروں کے مشن کا حصہ ہو۔

حوزات کو نظم دینے کی ضرورت

 بہر صورت میری وصیت یہ ہے کہ ہر زمانے میں خصوصا عصر حاضر میں جبکہ منصوبوں اور سازشوں میں سرعت و قوت پیدا ہو گئی ہے، حوزہ ہای علمیہ کو نظم و ضبط عطا کرنے کیلئے قیام کرنا ضروری بن گیا ہے؛ اسطرح کہ علما، مدرسین اورعظیم الشان افاضل وقت صرف کرکے  دقیق صحیح  پروگرام کے تحت  حوزہ ہای علمیہ  بالخصوص  حوزہ علمیہ قم  اور سبھی دوسرے بڑے  اہم مراکز کو اس نازک وقت میں ہر احتمالی چوٹ سے محفوظ بنائیں ۔

اور لازمی امر ہے کہ محترم علما و مدرسین اس بات کی اجازت نہ دیں کہ فقہی اور اصولی میدانوں جو فقاہت سے متعلق دروس ہیں میں مشایخ معظم کے طرز تدریس کو  جو کہ اسلامی فقہ کی حفاظت کا اکلوتا طریقہ ہے سے منحرف  ہو پائے ،اور کوشش کریں آئے دن دقت وظرافت میں،مباحثے میں،نظریات میں ، ابتکار اور تحقیق میں اضافہ ہوتا رہے؛اور  سنتی فقہ(روایتی فقہ) جو کہ سلف صالح کی میراث ہے سے انحراف یعنی  تحقیق و تدقیق کی بنیادوں کو کمزور کرناہے،اسکی حفاظت کرتے ہوئے تحقیق و تدقیق میں اضافہ ہونا چاہئے۔اور البتہ ملک اور اسلام کی ضروریات کے پیش نظر سائنس کے دیگر شعبوں میں پروگرام تیار کیا جائے گا اور ان شعبوں میں شخصیتوں کی تربیت ہونی چاہئے۔اور  سب سے اعلی ترین اور والا ترین  میدان کہ  جس میں سب کے سب تعلیم و تعلم ہونا چاہئے وہ معنوی اسلامی علوم ،جیسے علم اخلاق، تہذیب نفس، سیروسلوک الی اللہ ہے-رزقناالله وایاکم- کہ   یہی جہاد اکبر ہے۔

قوہ مجریہ(انتظامیہ) میں غیر صالح بیوروکریٹوں کا خطرہ

 (ی)

جن امور کی اصلاح وتصفیہ اور انکی مراقبت  لازمی امر ہے وہ قوہ اجراییہ (انتظامیہ) ہے۔کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ مجلس(پارلمنٹ/اسمبلی) سماج کیلئے مفید و مترقی قوانین کو پاس کرے،شورائی نگہبان بھی اس کی تائید کرے اور وزیر مسئول بھی انہیں نافذ کرنے کا اعلان کردے ، لیکن جب غیر صالح بیوروکریٹوں کے ہاتھوں لگ جائے  وہ قانون کا حلیہ بگاڑکر اور  قواعد و ضوابط کے برخلاف یا کاغذبازی کے پیچ و خم  کے سہارے کہ  جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں یا  دانستہ طور لوگوںمیں اس حوالے سے تشویش پیدا کرکے ایسے قانون کے نفاذ کی اہمیت کو عوام کے نظروں سے کم کریں  تاکہ آہستہ آہستہ لاپرواہی کی فضا قائم ہو جائے اور انکے لئے لوٹ مار کا بازار کھلا رہے ۔

دور حاضر اور مستقبل کے ادوار کے مسئول وزراء سے میری وصیت یہ ہے کہ اسکے باوجود کہ آپ لوگ اور محکموں کے ملازمین جس بجٹ سے روزی حاصل کرتے ہیں وہ ملت کا سرمایہ ہے ، اسلئے سبھی ملت اور  خاص کر پسماندہ طبقات کی خدمت کریں ،اور عوام  کیلئے مشکل پیدا  کرنا اور فریضہ کے خلاف عمل کرنا حرام ہے اور خدانخواستہ کبھی ایسا کرنا غضب الہی کا سبب بنتا ہے، آپ سب ملت کی حمایت کے محتاج ہیں۔یہ ملت بالخصوص پسماندہ طبقات کی حمایت کا نتیجہ تھا کہ کامیابی نصیب ہو گئی اور ستم شاہی  کے چنگل سےملک اور ملکی ذخائر  کونجات حاصل ہوئی۔اور اگر کبھی آپ بھی ان کی حمایت سے محروم ہو گئے ،تو آپ سب کو بھی ہٹایا جائے گا اور اسی طرح آپ کی جگہ ظالم شاہی حکومت  جیسے ستمگر آئیں گےاورآپ کے عہدوں پر قابض ہو جائیں گے۔لہذا اس واضح حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے، ملت کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہیں اور غیر اسلامی–انسانی سلوک روا رکھنے سے پرہیز کریں۔

اوراسی جذبے کے ساتھ مستقبل کی پوری تاریخ میں ملک کے تمام وزرائے داخلہ  سے میری یہی وصیت ہے کہ کمشنروں کے انتخاب میں پوری توجہ اور دقت نظر سے کام لیں ، لائق ، متدین، پابند عہد، فہیم اور عوام سے ہم آہنگ لوگوں کا تقرر کریں تاکہ ملک میں پوری طرح امن و امان قائم رہے ۔

سفارتخانوں میں طاغوتیت ختم کرنے کی ضرورت

اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگرچہ  تمام وزیروں اور محکموں پر اپنے اپنے دائرے کار کو اسلامی بنانے اور اس کے مطابق نظم بخشنے کی ذمہ داری عائد ہے لیکن ان میں بعض محکموں کو خاص اہمیت حاصل ہے؛ جیسے وزارت خارجہ کہ جس پرملک سے باہر سفارتخانوں کی ذمہ داری عائد ہے۔میں نے انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی وزرائے خارجہ کو سفارتخانوں کے طاغوتی رنگ سے خبردار کیا اور انہیں اسلامی جمہوریہ کے شایان شان سفارتخانوں میں تبدیل کرنے کی نصیحت کی ہے، مگر ان میں سے بعض یا مثبت کام نہ کرسکے یا انہوں نے کرنا نہیں چاہا اب جبکہ کامیابی کو تین سال ہو رہے ہیں، اگرچہ موجودہ وزیر خارجہ نے اس سلسلے میں اقدام کیا ہے اور امید ہے کہ لگاتار محنت اور وقت صرف کرکے یہ اہم کام انجام دیا جاتا رہے گا۔

اورعصر حاضر  اور مستقبل کے وزرائے خارجہ سے میری وصیت یہ ہے کہ آپ کی ذمہ داریاں انتہائی سنگین ہیں،چاہے وہ وزارت خارجہ اور سفارتخانوں میں اصلاح و بہتری  لانے کے حوالے سے ہو؛اورچاہے خارجہ سیاست میں ملک کے مفادات اور خود مختاری کا تحفظ اور ان ملکوں جو ہمارے ملکی امور میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے ہوں کے ساتھ اچھے روابط استوار کرنے کے حوالے سے ہو  ہے۔ اور ہر اس کام سے سختی سے پرہیز کریں کہ جس میں کسی بھی پہلو سے سامراجی وابستگی کا شائبہ ہو۔ اورآپ کو  معلوم ہونا چاہئے کہ بعض امور میں وابستگی اگر چہ ممکن ہے بظاہر پر فریب ہو یا فوری کسی فائدے کا باعث ہو، لیکن آخر کار ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کردے  اور آپ کو اسلامی ملکوں کے ساتھ روابط بہتر بنانے ، حکام کو بیدار کرنے اور اتحاد و وحدت کی دعوت دینے کی کوشش میں رہنا چاہئے ،کہ خدا آپ کے ساتھ ہے۔

مسلمان ممالک کے اقوام کے نام وصیت

اور اسلامی ممالک کے ملتوں سے میری وصیت ہے کہ اس بات کے منتظر نہ رہیں کہ اسلام اور اسلامی احکام کے نفاذ کیلئے کوئی باہر سے آکر آپ کی مدد کرنےآئے گا؛بلکہ آپ اس حیات بخش نظام کیلئے جو آزادی و خود مختاری کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیلئے خود قیام  کریں ۔اور اسلامی ممالک کے علمای اعلام اور خطبای محترم حکومتوں کو بڑی بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے کے بجاے اپنی ملت سے مفاہمت کرنے کی دعوت دیں؛ایسا کرنے سے کامیابی اپنے آغوش میں سما لے جائے گی۔نیز لوگوں کواتحاد و یکجہتی کی دعوت دیں؛اور نسل پرستی جو کہ اسلامی احکام کے خلاف ہے سے پرہیز کریں؛ اوراپنے ایمانی بھائیوں کہ جو  جس کسی ملک  یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں کی طرف بھائی چارے کا ہاتھ بڑھائیں کہ اسلام بزرگ نے انہیں بھائی کہا ہے۔ اگر یہ ایمانی بھائی چارہ حکومتوں اورملتوں کی ہمت اور خداوند متعال کی تائید سے وجود میں آتی ہے، دیکھیں گے  کہ دنیا کے سب سے بڑی طاقت (سپرطاقت)مسلمین تشکیل دیں گے۔امیدہے کہ پروردگار عالم کی عنایت سے یہ برادری اور برابری ایک دن حاصل ہوجائے گی۔

تبلیغات اور وزارت ارشاد اسلامی کی ذمہ داریاں

اور میری وصیت وزارت ارشاد اسلامی کے تمام ادوار بالخصوص دور حاضر کہ  جو خاصی اہمیت کا حامل ہے سے یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں حق کی تبلیغ اور اسلامی جمہوریہ کے حقیقی خدو خال پیش کرنے کی کوشش کرے۔ہم اسوقت،ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جب ہم نے اپنے ملک سے سپرطاقتوں کے ہاتھوں کو کاٹ پھینکا ہے،اسلئے سپرطاقتوں اور ان سے وابستہ تمام ذرائع ابلاغ کے تشہیراتی جارحیت کا سامنا ہے۔وہ کون سا جھوٹ اور تہمت نہیں کہ بڑی طاقتوں سے وابستہ قلمکاروں اور مقررین  نے اس نوخیز اسلامی جمہوریہ پر نہ لگائے ہوں۔

مع الاسف اسلامی خطے کی اکثر  حکومتیں جنہیں حکم اسلام کے رو سے ہماری طرف بھائی چارے کا ہاتھ بڑھانا چاہئے، (اسکے برخلاف) یہ ہمارے اور اسلام کے ساتھ دشمنی پر اتر آئے ہیں اور  عالمی لٹیروں کی خدمت کرتے ہوئے ہر طرف سے ہم پر حملہ کررہے ہیں۔ اور ہماری ذرائع ابلاغی طاقت بہت ہی کمزور اور ناتواں ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل کی دنیا ذرائع ابلاغ پر چلتی ہے۔اور انتہائی افسوس کا مقام ہے قلمکار کہ جو روشن خیال کہلاتے ہیں کا جھکاو دو بلاکوں کی طرف ہے،بجائے اس کے کہ ملک و ملت کے استقلال اور آزادی کیلئے فکر مند ہوں،انہیں خودغرضی ، موقع پرستی اور انحصار پسندی اس بات کی اجازت نہیں  دیتی کہ  ایک لمحہ کیلئے بھی ملک و ملت کی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھیں،اور اس جمہوریت میں استقلال اور آزادی کو سابقہ ظالم حکومت کے ساتھ موازنہ کریں اوراس باوقار شرافتمندانہ زندگی میں کچھ کھونے کے ساتھ کہ جو  تھوڑی سی آسائش اور عیش پرستی سے عبارت ہےکو، جو کچھ ستمشاہی حکومت میں گزاررہے تھے  جو انحصار پسندی،نوکر مآبی ، چاپلوسی اور  فساد کے جراثیم  کے پھیلاو اور ظلم و فحشا کے بول بالے سے عبارت تھی کے ساتھ موازنہ کریں؛ اور اس نوخیز اسلامی جمہوریہ پر ناروا الزامات لگانے سے دستبردار ہو جائیں اور حکومت و ملت کے ساتھ ایک صف میں آکر اپنی زبان اور قلم کو طاغوتوں اور ستمگروں کے خلاف استعمال کریں۔

اورتبلیغ کا مسئلہ صرف وزارت ارشاد ہی کی ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ تمام دانشوروں ، مقررین ، قلمکاروں اور فنکاروں کا فریضہ ہے ۔ وزارت خارجہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ سفارتخانے تبلیغی جرائد شائع کرتے رہیں اور دنیا والوں پر اسلام کا نورانی چہرہ آشکارا کریں۔ اگر اس کا وہ حسین و جمیل چہرہ ، جس کے تمام پہلوؤں کی قرآن و سنت نے دعوت دی ہے، دوستوں کی کج فہمی اور مخالفین اسلام کے محاصرے سے باہر آجائے تو اسلام عالم گیر ہو جائے گا اور اس کا پر افتخار پرچم ہر جگہ لہرا اٹھے گا ۔ کتنی اندوہناک اور غم انگیز بات ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایسی متاع ہے جو ابتدائے عالم سے اختتام عالم تک کوئی نظیر نہیں رکھتی لیکن نہ صرف یہ کہ اس گوہر گراں بہا کو جس کا ہر انسان اپنی آزاد فطرت کے تحت طالب ہے ، پیش نہ کرسکے، بلکہ خود بھی اس سے غافل اور ناواقف ہیں اور کبھی اس سے بھاگتے بھی ہیں!

تعلیمی و تربیتی  مراکز میں  تخریبی عنصر

 (ک)

انتہائی اہم  اور سرنوشت سازمسائل میں سے بچوں کے ابتدائی مدارس سے لے کر یونیورسٹیوں تک کےتعلیم و تربیتی مراکز کا مسئلہ ہے جس کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر دوہراتا رہا ہوں اور یہاں پر صرف  اشار کر رہا ہوں۔وہ یہ کہ  دشمن کی غارتگری کا نشانہ بننے والی اس قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ گذشتہ(انقلاب اسلامی کی کامیابی1979 سے پہلے) آدھی صدی کے عرصے میں جس قدر ایران اور اسلام پر مہلک حملات کئے گئے ہیں اس کے بڑے حصے کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے ۔ اگر دانشگاہیں اور تعلم و تربیت کے دوسرے مراکز اسلامی اور قومی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ملکی مفادات کی راہ میں بچوں ، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا کام انجام دیتے رہتے، تو ہرگز ہمارا وطن برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے چنگل میں  نہ جاتا  اور ہرگز تباہ کن معاہدے  غارتزدہ محروم ملت پر تھوپے نہیں جاتے اور ہرگز غیر ملکی استعماری مشیروں کیلئے ایران میں راہ ہموار نہیں ہوتی اور ہرگز ایران کے ذخائر اور اس ملت رنجدیدہ کا  کالا سونا(تیل) شیطانی طاقتوں کی تجوریوں میں نہیں چلا جاتا اور ہرگز پہلوی خاندان اور اس سے وابستہ افراد اس قوم کی دولت و ثروت کونہیں لوٹتے اور ملک اور ملک سے باہر مظلوموں کی لاشوں پر محل وباغات تعمیر نہیں کرتے اور غیر ملکی بینکوں کو ان مظلوموں کی محنت کی کمائی سےبھرکر اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی عیاشی اور ہرزگی پر خرچ نہیں کرتے۔ اگر مجلس(پارلمنٹ)، حکومت ، عدلیہ اور دوسرے سبھی اداروں کا منبع اسلامی اور قومی دانشگاہیں ہوتیں تو آج ہماری قوم تباہ کن مشکلات میں مبتلا نہ ہوتی۔اور اگر اسلامی و قومی جذبات رکھنے والی پاکدامن ہستیاں،(وہ بھی) حقیقی معنی  رکھنے والی  نہ کہ جو آج کل(اسی اصطلاح کے ساتھ) اسلام کا توڑ کرنے کیلئے قد بلند کرتے  ہیں،دانشگاہوں سے  سہ گانہ مراکز(مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ)میں جاتیں ،تو ہمارا آج آج سے مختلف اور ہمارا وطن اس  آج کےوطن سے مختلف ہوتا،اور ہمارے پسماندگان پسماندگی کی قید سے رہا ،اور ظلم و ستم شاہی کی بساط الٹی ہوتی اور فحاشی و منشیات کے اڈے   اور عشرتکدے  جو کہ فعال  ہونہار جوان نسل کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں ویران ہو‏ئے ہوتے،درہم پیچیدہ  اور ملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچانے والی اور انسان برانداز یہ میراث ملت کو نہیں پہنچنی تھی۔اگر دانشگاہیں اسلامی-انسانی-قومی ہوتیں،تو سینکڑوں اور ہزاروں مدارس کو سماج کے حوالے کرتیں؛ اورہمارے عزیز مجبور اور مظلوم جوان ان بڑی استعماری طاقتوں سے وابستہ ان بھیڑیوں  کے دامن میں پروان چڑ گئے اور قانونگذاری، حکومت اور عدلیہ کی کرسیوں پر بیٹھ  گئے ، اور انکی مرضی کے مطابق، یعنی  ستمگر پہلوی رژیم کے حکم پر عمل کرتے تھے۔

اب بحمدللہ تعالی دانشگاہ بیرونی مجرمین کے چنگل سے آزاد ہو چکی ہے اور ہر دور میں عوام اور اسلامی جمہوریہ حکومت کا فریضہ ہے، کہ گمراہ مکاتب یا مشرقی و مغربی رجحان رکھنے والے فاسد عناصر کو کالجوں اور یونیورسٹیوں  اورتعلیم و تربیت کے دیگر مراکز میں اثر و رسوخ پیدا کرنے نہ دیں اور پہلے ہی مرحلے میں روک تھام کریں تاکہ مشکل پیش نہ آئے اور اختیار ہاتھ سے جاتا نہ رہے۔

اور میری وصیت اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے عزیز جوانوں سے یہ ہے کہ وہ خود انحرافات کا شجاعت کے ساتھ مقابلہ کریں تاکہ اپنی اور اپنے ملک و ملت کی خودمختاری اور آزادی محفوظ و مصون رہے۔

مسلح افواج کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت

 (ل)

فوج،سپاہ ،ژاندارمری(مضافاتی پولیس) اور شہربانی(شہری پولیس)سے لے کر انقلابی کمیٹیاں ،بسیج اور عشائر تک مسلح افواج مخصوص اہمیت رکھتی ہیں۔یہ اسلامی جمہوریہ کے طاقتور اور مضبوط بازو   اور سرحدوں کے نگہبان  اور راستوں ، شہروں اور دیہاتوں کے محافظ ہیں اور  بہرحال یہ امن و سلامتی کو یقینی بنانے اور ملت کیلئےباعث اطمینان ہیں،اسلئے  ملت ، حکومت اور  مجلس (پارلمنٹ) کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ اور انہیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ دنیا میں  بڑی  طاقتوں اور تخریبی سیاستوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے  سب سے زیادہ جس گروہ سے  کام لیا جاتا ہے وہ مسلح افواج ہے۔مسلح افواج ہی ہے کہ جو سیاسی کھیل سے بغاوتوں  ، حکومتوں کی تبدیلی اور  اقتدار کا تختہ پلٹنے کا کام انجام دیتے ہیں؛اور دغل باز سود جو ان کے بعض سربراہوں کو خریدتے ہیں اوران کے ذریعے اور فریب خوردہ کمانڈروں کے ذریعے ملکوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں،اور مظلوم اقوام پر اپنا تسلط جماتے ہیں اور ملکوں کی آزادی و خودمختاری سلب کرلیتے ہیں۔ اور اگر  قیادت پاکدامن کمانڈروں کے ہاتھوں ہو تو ممالک کے دشمنوں  کی طرف سے بغاوت یا ملک پرقبضہ کرنے کا امکان کبھی بھی پیش نہیں آ سکتا اور اگر پیش بھی آئے تو  متعہد کمانڈروں کے ہاتھوں ناکام ہو کےرہ جائے گا  ۔ اور ایران میں بھی اس دور کا یہ معجزہ  ملت کے ہاتھوں انجام پایا ہے، جس میں متعہدمسلح افواج اور  ملک دوست پاکدامن کمانڈروں کا کردار عمدہ رہا ہے۔

اور آج جبکہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے حکم اور مدد سے صدام تکریتی کے ذریعے مسلط کردہ لعنتی  جنگ میں تقریبا دو سال بعد جارح بعثی فوج اس کے طاقتور حامیوں اور ان کے زر خریدوں کو سیاسی اور فوجی شکست کا سامنا ہے، ایک بار پھر مسلح افواج ،نظامی و انتظامی، سپاہی اور عوامی فوج نے سرحدوں پر ملت کی بے دریغ حمایت سے اس بڑے افتخار  کو سر کرلیا اور ایران کو سربلند کردیا؛ اور اسی طرح ملک کے اندر  شرارتوں اور سازشوں کہ جو مغرب او ر مشرق  کے ہاتھوں بنے کھلونوں کی طرف سے اسلامی جمہوریہ  کو ختم کرنے کیلئے متحرک  کیا گیا تھا کو انقلابی کمیٹیوں، پاسداران، بسیج اور پولیس جوانوں کے طاقتور ہاتھوں اور غیرتمند ملت کی مدد سےکچلا گیا۔یہی فداکار عزیز جوان ہیں جو راتوں کو بیدار رہتے ہیں تاکہ کنبے کے افراد اپنے گھروں میں آرام سے سوئیں ۔ خدا ان کا ناصر و مددگارر ہے۔

مسلح افواج کی پارٹی بازی سے گریز کرنے کی ضرورت

لہذا عمر کے ان آخری لمحات میں مسلح افواج سے بالعموم میری برادرانہ وصیت یہ ہے کہ اے عزیزو!تم جو اسلام کے عاشق ہو اور لقاء اللہ کے عشق کے ساتھ سرحدوں پر اور  ملک بھر میں فداکاری  کے ساتھ اپنے ارزشمند کام کو انجام دے رہے ہو، بیدار رہیں اورہوشیار کیونکہ سیاسی کھلاڑی اور مغرب ومشرق نواز پیشہ ور سیاستداں اور پردے کے پیچھے جنایتکاروں کے خفیہ ہاتھوں میں انکی خیانت اور جنایتکاریوں کے تیزدھار اسلحوں کا رخ ہر طرف اور ہر گروہ سے زیادہ آپ عزیزوں کی جانب ہے؛اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ عزیزوں سے کہ جنہوں نے  اپنی جانفشانی کے ساتھ انقلاب کو کامیاب اور اسلام کو زندہ  کردیا  استعمال کرکے اسلامی جمہوریہ کو اکھاڑ پھینکیں؛اور آپ کو اسلام  اور قوم و ملت کی خدمت  کے نام پر اسلام اور ملت سے الگ کرکے دو جہانخوار  قطبوں کی جھولی میں ڈال دیں،اور آپ کی زحمتوں اور فداکاریوں پر سیاسی مکاری کے ساتھ اور بظاہر اسلامی اور ملی صورت میں اسکا خاتمہ کر دیں گے۔

میری تاکیدی وصیت مسلح افواج سے یہ ہے کہ جس طرح  سیاسی پارٹیوں، دڑہ بازیوں اور جماعتوں میں فوج کی عدم مداخلت فوجی قواعد و ضوابط میں سے ہے اس پر عمل پیرا رہیں؛ مسلح افواج مطلقا،نظامی ہوں یا انتظامی ،پاسدارو بسیج وغیرہ  کوئی بھی کسی بھی سیاسی جماعت یا دڑے میں شامل نہ ہوں اور خود کو سیاسی کھیل سے دور رکھیں۔اس طرح اپنی فوجی طاقت کی حفاظت  اور پارٹیوں کے داخلی اختلافات سے محفوظ رہ سکتے ہو۔ اور کمانڈروں پر لازم ہے کہ اپنے زیر کمان افراد کو  سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے سے روکیں۔ اور چونکہ اس انقلاب کا تعلق پوری ملت سے ہے  اور اسکی حفاظت سب کو کرنی ہے،حکومت و ملت،شورای دفاع اورمجلس شورای اسلامی کا شرعی اور وطنی وظیفہ ہے کہ  اگر مسلح افواج  کے اعلی کمانڈر ہوں یابڑے درجے یا نیچے درجے کے  کمانڈر اسلام اور ملکی صوابدید کے خلاف کوئی کام انجام دینا چاہیں گے یا سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنا  چاہیں گے- جوکہ یقینی طور پر نقصاندہ - اور یا سیاسی کھیل میں کودنا چاہیں گے، پہلے ہی مرحلے میں ان کی مخالفت کریں۔اور رہبر اور شورای رہبری کو چاہئے کہ سختی کے ساتھ اس کا روک تھام کریں تاکہ ملک نقصان سے محفوظ رہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی صنعت میں خود کفائی حاصل کرنے کی ضرورت

اور اس خاکی زندگی کے آخری ایام میں جملہ مسلح افواج سے میری مشفقانہ وصیت ہے کہ اسلام جوکہ خودمختاری اور حریت پسندی کا اکلوتا مکتب ہے اور خداوند متعال اس کے نور ہدایت کے ذریعے سے سب کو اعلی انسانی اقدار کی طرف دعوت دیتا ہے ،چنانچہ آج آپ اس کے وفادار ہیں،تو اس وفاداری میں ثابت قدم رہیں کیونکہ یہ آپ کو اور آپ کے ملک و ملت کو ان  طاقتوں کی وابستگیوں اور پیوستگیوں کی ذلت سے نجات دلاتا ہے جو آپ سب کو  اپنا  غلام بنانے  کےسوا اور کچھ نہیں چاہتے ہیں اور آپ کے اپنے عزیز ملک و ملت کو پسماندہ رکھ کر  اور آپکے ملک کو اشیائے صارفین کا بازار  تک محدوداور ستم پذیری کی ذلت بار سایے میں رکھنا چاہتے ہیں سے نجات دلاتا ہے،اور   آپ کوبا وقار انسانی زندگی گذارنے ہر چند غیروں کی ذلت بار غلامی  اور حیوانی رفاہ کے مقابلے میں سختیوں کے ساتھ ہونے کو ترجیح دیں؛ اور آپ کو جان لینا چاہئے  جب تک ترقی یافتہ صنعتی ضرورتوں کیلئے دوسروں کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاتے رہیں گے اور زندگی گذارنے کی بھیک مانگتے رہیں گے آپ میں ایجادات و اختراعات اور پیش رفت  کی صلاحیت پیدا نہیں ہوگی۔اور آپ نے اچھی طرح  عملی طور پر دیکھا کہ اقتصادی ناکہ بندی کے بعد اس تھوڑے سے عرصے میں وہی لوگ جو ہر چیز بنانے سے خود کو عاجز سمجھتے تھے اورانہیں کارخانے چلانے سے مایوس کیا جارہا تھا نے اپنی فکر و صلاحیت کو استعمال میں لاکرافواج کی اور کارخانوں کی بہت سی ضروریات کو پورا کردیا۔اور یہ جنگ  ، اقتصادی  پابندیاں اور غیر ملکی ماہرین کا اخراج  ایک الہی تحفہ تھا جس سے ہم غافل تھے ۔ آج اگر حکومت اور فوج خود ہی عالمی لٹیروں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور خلاقیت و ابتکار کی راہ میں تلاش و کوشش جاری رکھیں ، امید ہے کہ ملک خود کفیل ہو جائے گا اور دشمن کے آگے ہاتھ پھیلانے سے نجات حاصل ہو سکے گی۔

اور یہاں پر  یہ بھی اضافہ کروں کہ اس پوری مصنوعی پسماندگی  کے باوجود ہمیں غیرملکوں کی بڑی صنعتوں کی ضرورت ہے جو غیر قابل انکار حقیقت ہے۔ اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں پیشرفتہ سائنس میں دو قطبوں میں سے کسی ایک سے وابستہ ہو جائیں۔ حکومت اور فوج کو چاہئے کہ متعہد طالبعلموں کو ان ممالک میں بھیجیں جو ترقی یافتہ بڑی صنعتوں کے مالک تو ہیں لیکن استعمار و استحصال کے خو گر نہیں ہیں اور امریکہ، سویت یونین یا ان دیگر ممالک میں جو ان دو بلاکوں کے راستے پر ہیں طالب علم بھیجنے سے پرہیز کریں، مگر یہ کہ ان شاءاللہ ایک دن ایسا آجائے یہ دونوں طاقتیں اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوں اور انسانیت ، انسان دوستی ، نیز دوسروں کے حقوق کے احترام کا راستہ اختیار کرلیں؛ یا ان شاءاللہ مستضعفین عالم، بیدار قومیں اور متعہد مسلمین انہیں انکی اوقات بتادیں ۔ ایسے دن کا انتظار ہے ۔

عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داریاں

 (م)

ریڈیو،ٹی وی،مطبوعات،سینما اورتھیٹر اقوام کو خاص کر نوجواں نسل کو لاپرواہی کے پروان چڑھانے اور منحرف کرنے کیلئے موثر  وسائل  رہے ہیں۔حالیہ ایک صدی خاص کر پچھلی آدھی صدی میں ان وسائل سے کیسے کیسے منصوبوں کو نہیں عملایا گیا ، چاہے  اسلام اور خدمتگزار مذہبی قیادت کے خلاف ، چاہے مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں  کی حمایت کیلئے  اور ان وسائل کو تجارتی منڈی بناکرمصنوعات کی فروخت خاص کر ہر طرح کے تجملاتی اور آرائشی ہائی فائی مصنوعات کی تشہیر،تعمیراتی ڈیزائن اور اندرونی سجاوٹ میں ان کی تقلید کرانے کیلئے،حتی خوردونوش کے مصنوعات استعمال کرنے اور ضابطہ لباس میں انکی تقلید کرنے کیلئے استعمال میں لایا گیا، اسطرح کہ بڑے یا متوسط امیر طبقے کی خواتین کیلئے سب سے بڑا فخر زندگی کی ہر ادا کو، بول چال اور رہن سہن کو فرنگی چال ڈھال میں ڈالنا تھا اور آداب معاشرت میں بات کرنے ، لکھنے اور بیان کرنے میں مغربی اصطلاحات کو اس قدراستعمال میں لایا جاتا کہ اکثر لوگوں کیلئے سمجھنا نا ممکن   اور خود ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کیلئے بھی مشکل تھا!ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فلمیں چونکہ مشرق  یا مغرب کی پیداوار تھیں جنہوں نے نوجوان خواتین و مردوں کو زندگی کے عام راستے ، کام کاج، صنعتی پیداوار بڑھانے اور خود علم و دانش کی راہ پر گامزن ہونے  سے ہٹا کر ان کے اندر اپنی ذات اور شخصیت سے بیگانگی اور اپنی نیز اپنے ملک کی ہر چیز ادب و ثقافت حتی گرانقدر علمی و ثقافتی تخلیقات سے بھی بد ظن بنادیا تھا۔ ہمارے ان گرانقدر آثار میں سے کچھ مفاد پرست خائنوں کے ذریعے مشرق و مغرب کے میوزیم اور کتب خانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح جرائد کی حالت افسوسناک تھی ، وہ اخلاق سے گرے مقالات اور افتضاح بار اور اسف انگیز تصویروں سے بھرے تھے، نیز اخبارات اپنی ثقافت کے خلاف اور اسلام کی مخالفت میں مضامین شائع کرکے فخر کے ساتھ عوام خصوصا موثر نوجوان طبقے میں تقسیم کرتے اور اسلام کی مخالفت میں مضامین شائع کرکے فخر کے ساتھ عوام خصوصا موثر نوجوان طبقے میں تقسیم کرتے اور اس طرح انہیں مغرب یا مشرق کا دلدادہ بناتے تھے۔ ان جرائد میں اخلاقی بدعنوانی کے اڈوں،عیش و عشرت کی جگہوں ، قمار خانوں اور لاٹری کے مراکز ، لگژری کی اشیاء آرائش کے سامان کھیل کود کے وسائل کی دکانوں ، شراب خانوں بالخصوص مغرب سے وارد کی جانے والی اشیاکی وسیع پیمانے پر ترویج کی جاتی اور پٹرول گیس ، نیز دیگر زیر زمینی ذخائر کی برآمد کے بدلے میں گڑیاں ، کھیل کود کے سامان اور آرائشی اشیا اور اسی قسم کی سینکڑوں چیزیں در آمد کی جاتی تھیں جن سے ہم جیسے لوگ بے خبر ہیں۔اگر خدانخواستہ یہ تباہ کن پٹھو پہلوی حکومت باقی رہتی تو ہمارے بلند اقبال جوان جو اسلام و وطن کے مستقبل کا سرمایہ ہیں، جن سے ملت کی امیدیں وابستہ ہیں ، فاسد حکومت ، اس کے ذرائع ابلاغ اور مشرق نواز و مغرب  نواز روشن خیالوں کے شیطانی منصوبوں اور سازشوں کے ذریعے ملت اور اسلام کے دامن سے نکل گئے تھے۔ یہ جوان خود کو یا اخلاقی بدعنوانی کے مراکز میں تباہ و برباد کردیتے یا عالم خوار  استعماری طاقتوں کے خدمتگار بن کر ملک کو تباہ کر ڈالتے۔خداوند عالم نے ہم پر اور ان پر رحم کیا اور سب کو لٹیروں اور مفسدین کے شر سے بچایا۔

اب موجودہ و آئندہ کی مجلس شورائے اسلامی(پارلمنٹ) ، صدر جمہوریہ اور بعد میں آنے والے جمہوری سربراہوں نگہبان کونسل، عدالتی کونسل اور ہر دور کی حکومت سے میری وصیت ہے کہ ان اخبارات ، پریس اور جرائد کو اسلام اور ملک کے مفادات سے منحرف نہ ہونے دیں۔ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مغربی طرز کی آزادی ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تباہی کا موجب اور اسلام و عقل کےنزدیک قابل مذمت ہے۔ اسلام میں ملک کے مفاد اور عفت و پاکدامنی کے خلاف کی جانے والی تشہیرات ، مضامین ، تقاریر، کتب اور جرائد حرام ہیں اور ہم سب پر اور تمام مسلمانوں پر ان کی روک تھام واجب ہے۔مخرب اخلاق آزادی پر پابندی ہونی چاہئےاور جو چیزیں اسلامی ملک و ملت کے راستے کے خلاف اور اسلامی جمہوریہ کی حیثیت و عظمت کے منافی ہیں اگر انہیں سختی سے نہ روکا گیا تو ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ حزب الہی نوجوان اور عوام اگر مذکورہ باتوں میں سے کوئی بات دیکھیں تو متعلقہ اداروں سے رجوع کریں اور اگر وہ کوتاہی کریں تو خود اپنے تئیں روکنے کی کوشش کریں۔ خداوند عالم سب کا حامی و مدد گار رہے۔

انقلاب اسلامی مخالفین کے  سربراہوں کے نام نصیحت و صیت

 (ن)

میری نصیحت اور وصیت ان جماعتوں ، تنظیموں اور افراد سے جو ملت ، اسلامی جمہوریہ اور اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں ، سب سے پہلے ملک کے اندر اور باہر موجود ان کے لیڈروں سے یہ ہے کہ تم لوگوں نے جس طرح سے  بھی اقدام کیا ، جو سازشیں بھی رچی اور جس ملک کا بھی سہارا لیا ان سب کے طولانی تجربے سے تم کو جو خود کو عالم و عاقل سمجھتے ہو معلوم ہونا چاہئے کہ دہشتگردی ، بم کے دھماکے اور بے بنیاد و بے سرو پیر کے جھوٹے پروپگنڈوں  اور غیر سنجیدہ حرکتوں سے ایک فدا کار ملت کو اس کے راستے سے نہیں ہٹا یا جاسکتا ، کسی بھی حکومت کو ان غیر انسانی اور غیر منطقی طریقوں سے اقتدار سے نہیں محروم کیا جاسکتا ہے، خاص طور سے ایرانی قوم جیسی قوم کو جس کے کمسن بچوں سے لے کر عمر رسیدہ مرد اور بوڑھی خواتین سبھی اسلامی جمہوریہ ، قرآن، مذہب اور مقصد کی راہ میں فداکاری وجاں نثاری کررہی ہیں۔ تم تو جانتے ہی ہو اور اگر نہیں جانتے ہو تو بہت ہی سادہ لوحی سے سوچتے ہو، کیونکہ ملت تمہارے ساتھ نہیں ہے۔ فوج تم لوگوں کی دشمن ہے اور اگر بالفرض فوج اور عوام تمہارے ساتھ اور تمہارے طرفدار تھے بھی تو تمہارے احمقانہ افعال اور مجرمانہ اقدام نے جو تمہاری شر سے انجام پاتے ہیں عوام کو تم سے الگ کردیا اور تم لوگ صرف دشمن بنانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔

میں عمر کے ان آخری ایام میں  تم لوگوں سے خیر خواہانہ وصیت کرتا ہوں کہ اولا ًتم اس طاغوت کے ہاتھوں ستائی ہوئی رنج دیدہ ملت کہ جس نے2500 سالہ ستم شاہی دور کے بعد اپنے بہترین جوانوں اور فرزندوں کو نثار کرکے پہلوی حکومت اور مشرق و مغرب کے خون آشام مجرموں کے ستم سے نجات حاصل کی ہے کے ساتھ بر سر پیکار ہوئے ہو ۔کس طرح ایک انسان کا ضمیر چاہے وہ کتنا ہی پست اور پلید کیوں نہ ہو اس بات پر  راضی ہوسکتا ہے کہ کسی منصب کے حصول کی امید پر اپنے وطن اورملت کے ساتھ اس طرح پیش آئے اور اس کے چھوٹے بڑے کسی پر بھی رحم نہ کرے؟۔میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان بے فائدہ اور غیر عاقلانہ کاموں سے ہاتھ کھینچ لو۔ عالمی لٹیروں کے دھوکے میں نہ آؤ۔ جہاں بھی ہو، اگر تم نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے تو اپنے وطن اور اسلام کی آغوش میں واپس آجاؤ اور توبہ کرلو، کیونکہ خداوند عالم رحمن اور رحیم ہے اور ان شاءاللہ اسلامی جمہوریہ اور عوام تمہارے ساتھ در گزر سے کام لیں گے اور اگر کسی ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا خداوند کریم نے معین کردی ہے، اس کے باوجود آدھے راستے سے واپس آجاؤ توبہ کرو اور اگر تمہارے اندر ہمت ہے تو سزا قبول کرلو اور اپنے اس فعل سے خود کو خدا کے سخت عذاب سے بچاؤ اور اگر یہ ہمت نہیں تو جہاں کہیں بھی ہو اپنی زندگی اس سے زیادہ تباہ نہ کرو اور کسی دوسرے کام میں مشغول ہو جاؤ، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔

مخالفین کے حامیوں کے نام نصیحت و صیت

اوراس کے بعد ان لوگوں کے اندرونی اور بیرونی حامیوں سے وصیت کرتا ہوں کہ کس جذبے کے تحت ان لوگوں کیلئے جن کیلئے اب ثابت ہو چکا ہے کہ وہ  لٹیرے طاقتوں کے لئے کام کرتے ہیں  اور ان کے منصوبوں پر عمل کرتے ہیں اور نادانستہ طور ان کے جال میں پھنس گئے ہیں اپنی جوانی تباہ کررہے ہو ؟ اور تم لوگ کس کیلئے اپنی قوم پر ظلم کررہے ہو؟ تم ان کے دھوکے میں آ چکے ہو ۔اور اگر ایران میں ہو تو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ کروڑوں عوام اسلامی جمہوریہ کے وفادار اور اس کے خیر خواہ ہیں؛ اور واضح طور مشاہدہ  کرتے ہو کہ موجودہ حکومت اور گورنمنٹ جان و دل سے عوام اور پسماندہ طبقات کی خدمت میں مصروف عمل ہے؛ اور جو"خلقی"( عوامی )ہونےاور"مجاہد" و "فدایی"( عوام کیلئے مجاہد و فدا کار) ہونے کے جھوٹے دعویدار ہیں ، وہ خلق خدا کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں اور تم جیسے سادہ لوح لڑکوں اور لڑکیوں سے اپنے مقصد کے حصول یا ان دونوں لٹیرے سپر پاوربلاکوں کے مقاصد کیلئے کھیل رہے ہیں اور خود یا ملک سے باہر دونوں جرائم پیشہ سپرپاور بلاکوں میں سے ایک کی آغوش میں بیٹھ کر عیاشی اور تفریح میں وقت گزار رہے ہیں یا ملک کے اندر دہشت گرد اڈوں والے عالیشان محلوں میں بدقسمت مجرمین کی طرح امارت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور تم نوجوانوں کو موت کے منہ میں دھکیلتے ہیں۔

ملک کے اندر اور باہر موجود تم نوجوانوں اور جوانوں کو میری  مشفقانہ نصیحت ہے کہ غلط راستے سے واپس آجاؤ اور معاشرے کے محروم لوگوں سے جو جان و دل سے اسلامی جمہوریہ کی خدمت کررہے ہیں کے ساتھ متحد ہو جاؤ، اورآزاد و خود مختار ایران کیلئے کام کرو تاکہ ملک و ملت دشمن کے شر سےنجات پائے اور سب ایک ساتھ با عزت زندگی گزاریں۔ کب تک اور کس لئے ایسے لوگوں کے اشارے پر چلتے رہو گے جو صرف اپنے ذاتی مفادات کے سوا کچھ نہیں سوچتے اور خود بڑی طاقتوں کی آغوش و پناہ میں بیٹھے اپنی ہی ملت سے جنگ کررہے ہیں اور آپ کو اپنے منحوس مقاصد اور اقتدار پسندی کیلئے فدا کرا رہے ہیں؟۔ آپ نے انقلاب کی کامیابی کے ان چند برسوں میں دیکھا کہ ان کے دعوے ان کے کردار و عمل کے منافی ہے۔ یہ دعوے صرف صاف دل جوانوں کو دام فریب میں پھانسنے کیلئے ہے۔اور جانتے ہو کہ ملت کے سیل خروشاں کا آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ہو اور تمہارے کاموں کا نتیجہ خود تمہارے نقصان اور عمر کی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔چونکہ ہدایت کرنا میرا فریضہ تھا وہ میں نے ادا کردیا ہے ۔ امید ہے کہ اس نصیحت پر جو میری موت کے بعد تم تک پہنچے گی اور اس میں اقتدار پسندی کا کوئی شائبہ نہیں ہے ، عمل کرو گے اور خود کو سخت عذاب سے نجات دلاؤگے۔ خداوند منان تمہاری ہدایت فرمائے اور تمہیں  صراط مستقیم دکھائے۔

کمینسٹ اور چپ گرایان کے نام صیت

میری وصیت بائیں بازوالوں ، جیسے کمیونسٹوں ، فدائی خلق کے چھاپہ ماروں اور بائیں بازو کی طرف جھکاو رکھنے والے دوسرے گروہوں سے، یہ ہے کہ آپ لوگوں نے مکاتیب اور خاص کر اسلام کے ماہرین  سے مکاتیب  اور مکتب اسلام کی صحیح چھان بین کئے بغیر ، کس طرح راضی ہوگئے کہ  ایک ایسے مکتب  کو کہ جو آجکل دنیا میں شکست کھا چکی ہوکو اختیار کرلیا اور یہ کیا ہو گیا ہےکہ آپ  کئی"ایزم" جوکہ ہر اہل تحقیق کیلئے کھوکھلا ہےکو اختیار کرنے کیلئے خوش ہوئے ہو ؟ وہ کون سا محرک ہے جس نے تم کو اس پر اکسایا ہے کہ اپنے ملک کو سویت یونین یا چین کے دامن میں لے  جانا چاہتا ہو؛اور"تودہ دوستی"(عوام دوستی) کے نام پر اپنی قوم سے جنگ پر کمر بستہ ہوئے ہو یا ملک کو نقصان پہنچاکر اجنبیوں کو فائدہ پہنچانے اور ستم رسیدہ عوام کے خلاف سازش کررہے ہو؟آپ دیکھ رہے ہو کہ کمیونزم کی پیدائش ہی سے اس کی طرفدار، آمریت پسند، مطلق العنان اور اقتدار طلب حکومتیں رہی ہیں۔ کتنی قومیں ہیں کہ جنہیں عوام کی طرفداری کے علمبرداری کےمدعی سویت یونین نے پیروں تلے روند کر صفحہ ہستی سے مٹادیا۔روسی عوام مسلمان اور غیرمسلمان دونوں قومیں ، کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ میں اب تک ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں اور عالمی  ڈکٹیٹروں کے گھٹن سے بھی زیادہ سخت گھٹن میں ہر قسم کی آزادی سے محروم ہو کر زندگی گزار رہی ہیں۔ اسٹالن جو پارٹی کی نام نہاد شخصیتوں میں سے تھا اس کی آمد و رفت اس کے طنطنے اور اس کی شان و شوکت ہم نے دیکھی ہے۔آج تم دھوکہ کھائے لوگ اس حکومت کے عشق میں جان دے رہے ہو جبکہ سویت یونین اس کے زیر نگین افغانستان جیسے دوسرے پٹھو ممالک کے مظلوم عوام ان ہی کمیونسٹوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو رہے ہیں اور تم لوگ تو عوام کی طرفداری کے دعویدار ہو لیکن جہاں کہیں بھی تم لوگوں کی رسائی ہوئی وہاں تم نے ظلم کیا ۔ تم ہی لوگوں نے تو آمل شہر کے شریف باشندوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے اگر چہ غلط طور پر انہیں اپنا طرفدار بتاتے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں  کو بہلا پھسلا کر عوام اور حکومت سے جنگ کیلئے بھیجا اور وہ مارے گئے۔ کون سے جرائم ہیں جن کا ارتکاب تم نے نہیں کیا ۔ اور تم "طرفدارفدائی خلق محروم"( پسماندہ طبقات کے حمایتی) کو ڈھال بناکر  ایران کے مظلوم و محروم خلق کو سویت یونین کی ڈیکٹیٹرشپ کے حوالے کردینا چاہتے ہو  اورایسی خیانت  پر "فدای خلق" اور پسماندہ طبقات کی حمایت کے نام پر عملانے کے درپے ہو ، فرق اتنا ہے کہ "حزب تودہ "( تودہ پارٹی) اور اس کے رفقائے کار اسلامی جمہوریہ کی طرفداری کی نقاب ڈال کر سازشوں میں مصروف ہیں اور دوسری تنظیمیں  ، اسلحے ، دہشتگردی اور بم کے دھماکوں کے ذریعے یہ خیانت کررہی ہیں۔

میں آپ سبھی  جماعتوں اورتنظیموں  یا جو کہ بائیں بازو کے نام سے مشہور ہیں ، گرچہ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ یہ امریکی  کمیونسٹ ہیں۔ یا وہ تنظیمیں جو مغرب سے ارتزاق اور الہام حاصل کرتی ہیں ، یا وہ گروہ جو کہ  کردستان اور بلوچستان کی حمایت اور"خودمختاری"کے نام پر ہتھیار بدست ہوئے ہیں  اور کردستان اور دیگر جگہوں کے پسماندہ لوگوں  کو ہستی سے نابود کرنے اور ان  صوبوں تک جمہوری حکومت کی طرف سے  ثقافتی،طبی، اقتصادی اور تعمیر نو کی خدمات پہنچانے  کیلئے رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، جیسے کہ حزب "دموکرات"(ڈیموکریٹک پارٹی) اور "کومله"(کوملہ پارٹی) سے وصیت کرتا ہوں کہ عوام  سے ملحق ہو جاؤ، اور ابتک  اس کا تجربہ کیا ہے کہ ان علاقوں کے مکینوں کو بدقسمت بنانے کے علاوہ تم لوگوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی کرسکتے ہو۔اسلئے تمہارا،تمہارے قوم کا اور علاقے کے عوام کا فائدہ اسی میں ہے کہ حکومت کا ساتھ دیں اور سرکشی ، غیروں کی خدمت اور اپنے وطن سے خیانت سے دستبردار ہو جائیں اور ملک کی تعمیر میں لگ جائیں ۔ یقین رکھیں کہ اسلام ان کے جرائم پیشہ مغربی بلاک(امریکہ اور یورپ) اور ڈکٹیٹر مشرقی بلاک(سویت یونین) دونوں سے بہتر ہے اور عوام کی انسانی آرزوئیں بہتر طریقے سے پوری کرسکتا ہے۔

مغرب نوازیامشرق نوازی کی غلطی کرنے والے  ایرانی مسلمان جماعتوں کے نام وصیت

اور میری  ان مسلمان جماعتوں سے جو غلطی سے مغرب یا  ممکن ہے کہ مشرق کی طرف جھکاو رکھتے ہیں اور منافقین کی جن کی خیانت اب آشکار ہو چکی ہے، کبھی (اسلام کی)طرفداری کرتے تھے اور اسلام کے مخالفین  اور بد خواہوں پر غلطی سے لعن کرتے اور طعنہ دیتے تھے،  سے  وصیت یہ ہے کہ اپنی غلطی پر اصرار نہ کریں اور اسلامی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کریں، اور رضائے خدا کیلئے حکومت  اور مجلس شورای اسلامی( پارلمنٹ) اور مظلوم قوم کے شانہ بہ شانہ  ہو جائیں ، تاریخ کے ان مستضعفین کو مستکبرین کے شر سے نجات دلائیں اور پاکیزہ فکر، پاک سیرت اور متدین عالم جناب مدرس مرحوم کے اس کلام کو یاد کریں جو انہوں نے اس دور کی افسردہ و غمزدہ  پارلمنٹ میں کہا تھاکہ:اب جبکہ ہمارا خاتمہ ہونے والا ہی ہے تو کیوں اپنے ہاتھوں سے ہی  اپنا خاتمہ کریں۔

میں بھی آج  راہ خدا کے اس شہید کی یاد  میں آپ مؤمن بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ  اگر ہم امریکہ اور سویت یونین کے ظالم ہاتھوں صفحہ ہستی پر سے مٹ جاتیں ہیں اور شرافتمندانہ سرخ خون کے ساتھ اپنے خدا کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ ہم مشرق کی فوج کے سرخ  اور  مغرب کے سیاہ  پرچم تلے عیش و عشرت کی زندگی گزاریں۔ اور یہ انبیای عظام ، ائمہ مسلمین  اور بزرگان دین کی سیرت رہی ہے اور لازمی طور ہمیں ان کی پیروی کرنی ہوگی، اور لازمی طور عقیدہ پیدا کرنا ہوگا کہ اگر ایک ملت ٹھان لے کہ غیروں پرانحصار کئے بغیر زندگی بسر کریں تو کر سکتے ہیں؛ اور عالمی طاقتیں ایک ملت پر ان کے عقیدے کے خلاف عقیدہ نہیں تھوپ سکتے ہیں۔  

افغانستان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ اگر چہ اس ملک کی غاصب حکومت اور بائیں بازو کی پارٹیاں سویت یونین کے ساتھ تھیں اور اب بھی ہیں ،مگر اب تک عوام کو جھکانہ سکیں۔اس کے علاوہ اب دنیا کی  پسماندہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور اب وہ دن دور نہیں گا کہ یہ بیداریاں ، ایک تحریک اور انقلاب میں تبدیل ہو جائیں گی اور اپنے آپ کو ستمگروں اور سامراجوں کی چنگل سے نجات حاصل کرلیں گی۔ اور آپ اسلامی اصولوں کے پابند مسلمان ، دیکھ رہے ہیں کہ مشرق و مغرب سے جدائی و علیحدگی کی برکا ت سامنے آرہی ہیں۔اور مقامی متفکر دماغوں نے کام کرنا شروع  کردیا اور خود کفیلی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور جو کچھ مغربی اور مشرقی خائن ماہرین نے ہماری ملت  کیلئے انجام پانا ناممکن  ٹھہراتے رہے، آج نمایاں طور پر ملت  کے ہاتھوں اور صلاحیت  نے اسے ممکن کر دکھایا اور ان شاء اللہ تعالی  طویل عرصے کیلئے انجام دیتے رہیں گے۔ اور صد افسوس کہ یہ انقلاب تاخیر سے وقوع پذیر ہوا اور کم از کم محمد رضا کی کثیف جابرانہ حکومت کے اوائل ہی میں نہیں آیا، اگر اسی وقت یہ انقلاب آگیا ہوتا توغارت زدہ ایران اس ایران کے بجائے کچھ اور ہوتا۔

قلمکاروں ، مقررین ، روشن خیالوں ، اعتراض کرنے والوں اور کینہ رکھنے والوں کے نام وصیت

میری قلمکاروں ، مقررین ، روشن خیالوں ، اعتراض کرنے والوں اور کینہ رکھنے والوں سے  وصیت یہ ہے کہ بجائے اس کےکہ اپنا وقت اسلامی جمہوریہ کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے ، اور اپنی پوری صلاحیت کو مجلس(پارلمنٹ)،حکومت اور سبھی خدمتگذاروں  کی بدبینی، بدخواہی اور بدگویی کرنے میں صرف کرتے ہو ، اور اس کام سے اپنے ملک کو سپرطاقتوں کی جھولی میں ڈالنے کی طرف دھکیلتے ہو، اپنے خدا کے ساتھ ایک رات خلوت میں بیٹھ کر اور اگر خدا پر عقیدہ نہیں رکھتے ہو تو اپنے ضمیر کے ساتھ خلوت میں پوچھیں اور اپنے باطنی  انگیزے کہ جس سے اکثر انسان بے خبر رہتے ہیں کا جائزہ لیں،دیکھیں کہ  کیا معیار اور کس انصاف کے تحت  سرحدوں پر اور شہروں میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ان جوانوں کے خون سے آنکھیں چراتے ہو اور اس ملت کے ساتھ جو ملکی اور غیر ملکی لٹیروں اور ستمگروں کی سامراجیت سے رہائی چاہتی ہے اور  اپنی جان اور اپنے عزیز فرزندوں کی خون کی قیمت پر آزادی و خود مختاری حاصل کی اور فداکاری و جاں نثاری کے ساتھ اسکی حفاظت کرنا چاہتی ہے، آپ اس قوم سے نفسیاتی جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اختلاف انگیز اور خیانت آمیز سازشیں کررہے ہیں اور مستکبرین ، نیز ستمگروں کیلئے راستہ کھول رہے ہیں۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ اپنی فکر اور قلم وبیان کو وطن کی حفاظت کیلئے اور حکومت ، مجلس اور ملت کی رہنمائی میں استعمال کریں؟۔کیا بہتر نہیں ہوگا کہ اس مظلوم ومحروم قوم کی مدد کریں اور اپنی مدد سے اسلامی حکومت قائم کریں؟۔ کیا  یہ مجلس(پارلمنٹ) ، صدر جمہوریہ ، حکومت اور عدلیہ کو سابقہ دور حکومت سے بدتر سمجھتے ہیں؟ کیا  ان مظالم کو بھول گئے  جو کہ اُس لعنتی حکومت نے اس بے کس مظلوم قوم پر روا رکھے تھے ؟ کیا  نہیں جانتے کہ یہ اسلامی ملک اُس زمانے میں امریکہ کا فوجی اڈہ تھا اور اس کے ساتھ ایک کالونی جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ پارلمنٹ سے لے کر حکومت اور فوج سب پر ان کا قبضہ تھا۔ ان کے مشیر، صنعتکاراور ماہرین  اس ملت اور ملت  کے ذخائر کے ساتھ کیا کرتے تھے؟کیا ملک بھر میں بدکاری  اور مراکز فساد کو پھیلانے کیلے،عشرتکدوں ،قمارخانوں، میخانوں،شراب کی دکانوں اور سینماگھروں سے لے کر   دیگر  مراکز تک کہ جو جوان نسل کو تباہ کرنے کے بڑے  ذرائع تھے کو بھول چکے ہیں؟کیا اس حکومت کے   ذرائع ابلاغ،سراسر فساد انگیز غیر اخلاقی جرائد اور اخبارات کو بھول گئے ہیں؟اور اب جبکہ ان غیر اخلاقی اڈوں کے آثار تک موجود نہیں ہیں،اسلئے چندعدالتوں میں یا چند جوانوں کہ شاید ان میں اکثرمنحرف گروہوں کی طرف سے اثر و رسوخ پیدا کئے ہوں تاکہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کو بدنام کرسکیں  غلط کام انجام دیتے ہیں، اور جو مفسد فی الارض  ہیں اور اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف  اٹھے ہیں ایسے چند افراد  کو کیفر کردار تک پہنچانے  پر آپ چیخ اٹھتے ہیں ،اور ان کے ساتھ  جو کھلے عام اسلام کی مذمت کرتے ہیں  اور اسکی مخالفت میں ہتھیاروں کے ساتھ یا قلم اور زبان کے ساتھ جو کہ مسلحانہ جنگ سے بھی بدتر ہے، بر سر پیکار ہیں  سے جا ملے ہیں اور ان کے ساتھ برادری کا ہاتھ بڑا رہے ہیں؛جنہیں خداوند نے مھدور الدم فرمایا ہے انہیں نورچشم کے طور یاد کرتے ہو، جن لوگوں نے 14اسفند(5مارچ1979) حادثے کو وجود میں لایا اور  بے گناہ جوانوں کو زد و کوب کرکے شہید کیا ان کے ساتھ آپ بیٹھ کر معرکہ کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں،ایک اسلامی اور اخلاقی عمل ہے!اور حکومت و عدلیہ معاندوں، منحرفوں اور ملحدوں کو اپنے کیفر کردار تک پہنچا رہے ہیں، اور اس پر آپ  فریاد بلند کرتے ہوئے مظلومیت کی دہائی دے رہے ہیں؟میں آپ بھائیوں کیلئے کہ آپ کے گزشتہ حالات سے کسی حد تک مطلع ہوں اور آپ میں سے بعض  سے لگاؤ رکھتا ہوں اور آپ کے حالات پر افسوس ہو رہا  ہے، لیکن ان لوگوں کیلئے کوئی افسوس نہیں، جنہوں نے خیرخواہانہ لباس میں شرارتیں کیں ، چرواہے کے بھیس میں بھیڑیئے تھے اور ایسے کھلاڑی تھے جو سب کا کھلواڑ اور مذاق بنا کر ملک و ملت کو تباہ کرنے اور دولٹیری سپر طاقتوں میں سے ایک کی خدمت کرنے کی فکر میں تھے ۔ وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے پلید ہاتھوں سے جیالے جوانوں، بزرگ شخصیتوں اور معاشرے کی تربیت کرنے والے علماء کو شہید کیا اورمظلوم مسلمان بچوں پر رحم نہیں کیا ،اسطرح خود کو سماج میں رسوا  کیااور خداوند قہار کی بارگاہ میں مخذول ہوئے اور اب ان کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ  ان پر نفس امارہ کا شیطان  حکومت کر رہاہے۔

لیکن آپ مؤمن بھائی حکومت اور مجلس(پارلمنٹ) کہ جو پسماندہ طبقات،مظلوموں،سراسر بے سروسامان اور زندگی کی تمام نعمتوں سے محروم بھائیوں کی خدمت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں کی شکایت کرنے کے بجائے ان کی مدد کیوں نہیں کرتے ہو؟ کیا اس مختصر وقت میں ان مشکلات اور اس بحران کے کہ  جو ہر انقلاب کا لازمہ ہے، اور اس پر مسلط کردہ جنگ سے تباہی اور بے شمار نقصانات اور لاکھوں غیرملکی مہاجر اور ملکی  پناہ گزینوں کی بھرمار اور  سنگین بے ضابطگیوں کے باوجود حکومت اور جمہوری اداروں کی خدمات کے اندازے کو سابق حکومت  کے آبادکاری کے کاموں کے ساتھ موازنہ کیا ہے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ اس زمانے میں آبادکاری کے کام صرف شہروں  وہ بھی متمول محلوں کے لئے مخصوص تھے؛ اور غریب عوام اور پسماندہ طبقات  کا ان کاموں میں انتہائی کم حصہ ہوتا یا اصلا نہیں ہوتا تھا؛ اور موجودہ حکومت  اور اسلامی ادارے ان پسماندہ طبقات کی دل و جان سے خدمت کررہے ہیں؟ آپ مؤمن افراد بھی حکومت کے حامی بنیں تاکہ کام جلدی انجام پائیں اور پروردگار کی خدمت میں چاہے نہ چاہے حاضر ہونا  ہی ہے وہاں اسکے بندوں کی خدمتگذاری کے تمغوں کے ساتھ جائیں۔

اسلام ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف

 (س)

جن امورات میں سے ایک کی سفارش اور یادہانی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ  اسلام  نہ صرف ستم رسیدہ اور مظلوم عوام کو پسماندہ رکھنے   والے بے حساب اور ظالمانہ سرمایہ داری کا موافق نہیں ہے، بلکہ کتاب وسنت میں اس کی سخت مذمت بھی کی گئی ہے اور اس کو سماجی انصاف کا مخالف سمجھتا ہے۔اگر چہ اسلامی نظام حکومت سے بے خبر بعض کج فہم لوگوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں ایسا ظاہر کیا ہے اور آج بھی اس پر باقی ہیں کہ اسلام بے حد و حساب سرمایہ داری اور مالکیت کا طرفدار ہے اور اس طرح اپنی کج فہمی سے  جو اسلام کے بارے میں سمجھیں ہیں اس سے اسلام کے نورانی چہرے کو ڈھک دیا ہے اور خودغرضوں اور اسلام دشمن عناصر کیلئے راہ ہموار کر دی  ہے تاکہ وہ  اسلام پر چڑھائی کر سکیں ، اور اسلام کے ماہرین سے رجوع کئے بغیر ان نادانوں کے قول و فعل کو بنیاد بنا کرذاتی غرض کے تحت یا احمقانہ طور پر اسلامی حکومت کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر لوٹ کھسوٹ کرنے والی سرمایہ دارانہ مغربی حکومتوں جیسی حکومت سمجھیں ہیں ۔اور   کمیونزم، مارکسزم اور  لینن ازم جیسی حکومت نہیں ہے جو فردی ملکیت کے مخالف اور اشتراکیت کے قائل ہیں  جن میں قدیم ادوار سے اختلافات کے باوجود عورت اور ہمجنس بازی میں اشتراکیت کے قائل رہے ہیں اور ایک مطلق العنان و آمریت کے علمبردار ہیں۔

بلکہ اسلام ایک معتدل حکومت ہے کہ  جو مالکیت کی شناخت رکھتے ہوئے محدود حد تک مالکیت اور مصرف   کے احترام کا قائل ہے ، اگر اس پر صحیح طور پر عمل ہو تو صحتمند اقتصادیات کے پہئے گھومنے لگیں گے اور سماجی انصاف جو ایک صحتمند حکومت کا لازمہ ہے عملی ہو جائے گا۔یہاں پر بھی کچھ کج فہم لوگ اسلام اور اسلامی اقتصادیات سے ناواقفیت کی وجہ سے پہلے گروہ کے ہم خیال ہو گئے ہیں  اور کچھ جگہوں پر بعض آیات یا نہج البلاغہ کے جملوں کا سہارا لے کر اسلام کو مارکس اور اس کی مانند  افراد کےانحرافی مکاتب فکر کا موافق بتایا اور دیگرسبھی  آیات اور نہج البلاغہ کے فقرات پر توجہ نہیں دی اور خودسرانہ طور اپنی ناقص سمجھ کے ساتھ"مذہب اشتراکی"(مشترکہ مذہب) کیلئے کھڑے ہوکر اسکے پیچھے چل دیے اور کفر و آمریت اور انسانی اقدار کو نظر کرنے والے گھٹن کے ماحول اور ایک اقلیتی پارٹی  جو لوگوں کی کثیر تعداد کے ساتھ جانورں جیسا سلوک کرتی ہے کی حمایت کرتے ہیں۔

میری مجلس شورای اسلامی (پارلمنٹ)، نگہبان کونسل، کابینہ ، صدر جمہوریہ اور عدالتی کونسل سے وصیت یہ ہے کہ خداوند عالم کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہیں؛ اور سرمایہ داری ظالم لٹیروں کے قطب اور ملحد اشتراکی و کمیونسٹ قطب کے حامیوں کے کھوکھلے پروپگنڈوں سے متاثر نہ ہوں اور اسلامی دائروں میں رہنے والی ملکیت اور جائز سرمایوں کا احترام کریں، قوم کو اطمنان دلائیں تاکہ سرمائے اور تعمیری سرگرمیاں جاری رہیں اور حکومت و ملک کو خود کفیل بنائیں، بڑی اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیں۔

اور جائز پیسے والوں اور دولتمندوں سے وصیت کرتا ہوں کہ اپنی حلال کمائی کو کام میں لگائیں ۔ کھیتوں ، دیہاتوں اور کار خانوں میں تعمیری اور مفید کام انجام دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ، کیونکہ یہ خود ایک قابل قدر عبادت ہے ۔

اور سب سے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کی کوشش کیلئے وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ دنیا و آخرت میں آپ کی بھلائی معاشرے کے ان محروموں کی حالت بہتر بنانے میں ہے جنہوں نے ظالمانہ شاہی حکومت اور قبائلی سرداری ، جاگیردارانہ نظام کی تاریخ میں رنج و زحمتیں برداشت کی ہیں۔کتنا اچھا ہے کہ مالدار طبقے کے لوگ رضا کارانہ طور پر جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے مکان اور آسائش فراہم کریں اور مطمئن رہیں کہ دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہےاور یہ انصاف نہیں ہے کہ ایک تو بے گھر ہو اور ایک کے پاس کئی فلیٹ ہوں۔

اسلامی جمہوریہ مخالف علماء اور نام نہاد ملاؤں کے نام وصیت

 (ع)

میری ان علماء اور نام نہاد ملاؤں کے اس طائفے کہ جو مختلف محرکات کے تحت اسلامی جمہوریہ اور اس کے اداروں کی مخالفت کرتے ہیں  اور اس کا تختہ الٹنے کیلئے اپنا وقت وقف کئے ہوئے ہیں اور سازش کار مخالفوں اور سیاسی کھلاڑیوں کی مدد کرتے ہیں، نیز بعض اوقات جیسا کہ نقل کیا جاتا ہے ، اس مقصد کیلئے ان کو خدا سے بے خبر سرمایہ داروں سے  بھاری رقومات اور بڑی مدد ملتی ہے ،  سے وصیت یہ ہے کہ آپ لوگوں نے ابھی تک اس غلط کام کا روک تھام نہیں کیا اور بعد میں بھی مجھے نہیں لگتا کہ کوئی روک تھام کرو گے۔ بہتر یہ ہے کہ اگر آپ نے دنیا کی خاطر یہ کام کیا ہے تو ہرگز خدا آپ کو آپ کے منحوس مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دے گا۔جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے خداوند عالم کی بارگاہ میں عذر خواہی کرلیں اور مظلوم و نیاز مند ملت  کے ہمنوا بن جائیں اور اسلامی جمہوریہ  جو کہ ملت کی قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے  کی حمایت کریں ، کیونکہ دنیاوآخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔ اگرچہ مجھے  نہیں لگتا کہ آپ  کوتوبہ کرنے کی توفیق حاصل ہوگی ۔ اور ہاں مگر وہ جماعت کہ جن سے جانے یا انجانے میں بعض غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوئی ہیں اور ان کی مخالفت اسلامی احکام کے ساتھ رہی ہے، اسلامی جمہوریہ اور اسکی حکومت کی بنیاد کی شدید مخالفت کرتے ہیں  اور خدا کے لئے اسکا تختہ پلٹنے کیلئےسرگرم عمل ہیں  اور ان کا اپنا تصور یہ ہے کہ یہ حکومت سلطنتی حکومت  سے بھی بری یا ویسی ہی ہے، انہیں چاہئے کہ خلوت میں نیک نیتی کے ساتھ غور و فکر کریں  اور اس حکومت کا سابقہ رژیم سے موازنہ کریں۔اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ دنیا کے انقلابوں میں ہرج و مرج ، غلط رویوں اور موقع پرستیوں کا ہونا اجتناب نا پذیر امر ہوتا ہے اور اگر آپ توجہ کریں اور اس جمہوریہ کے مشکلات کو مد نظر رکھیں –از جملہ  اس کے خلاف کئے جانے والی  سازشیں ،جھوٹے پروپگنڈوے ، ملک کے اندر اور ملک کے باہر کے مسلحانہ حملوں ، اسلام اور اسلامی حکومت سے ملت کو ناراض کرنے کیلئے تمام سرکاری اداروں میں کچھ مفسدوں اور مخالفین اسلام کا  اجتناب نا پذیر اثر و رسوخ ، اکثر یا بہت سے ملازمین کی ناتجربہ کاری  اوران لوگوں  کہ جو جائز طریقے  سے خطیر فوائد حاصل کرنے سے  رہ گئے کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے پروپگنڈے، شرعی قاضیوں کی نمایاں کمی ، کمر توڑ اقتصادی مشکلات ،لاکھوں ملازمین  کے تہذیب اور تصفیہ میں عظیم خامیاں ، ماہر و صالح لوگوں کی کمی اور اس جیسی دسیوں مشکلات  کہ انسان جب تک خود اس میں داخل نہیں ہوتا وہاں کے حالات سے بے خبر ہے۔ اور دوسری طرف خودغرض سلطنت طلب بڑے سرمایہ دار اشخاص کہ  جو بدعنوانی ، سود جویی ، زرمبادلہ کو ملک سے باہر نکالنے،حیرت انگیز گراں فروشی ،اسمنگلنگ اورسفتہ بازی و زخیرہ اندوزی سے معاشرے کےغریب اور  پسماندہ طبقات کو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا کردباو بنائے ہوئے ہیں اور معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلتے ہیں، یہی لوگ آپ حضرات کے پاس دھوکہ دہی اور شکایت کیلئے آتے ہیں اور بعض اوقات اپنے آپ کو خالص مسلمان ثابت کرنے کیلئے سہم امام( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے عنوان سےکچھ رقم بھی دیتے ہیں۔ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور آپ کو غصہ دلاکر حکومت کی مخالفت پر اکساتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ناجائز فائدوں کے ذریعے لوگوں کا خون چوستے ہیں اور ملک کی اقتصادیات کو تباہ کرتے ہیں۔

سادہ اندیش مؤمنوں کے نام نصیحت

میں انکساری کے ساتھ برادرانہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ حضرات اس قسم کی افواہوں سے متاثر نہ ہوں اور خدا  اور اسلام کی تحفظ کیلئے اس اسلامی جمہوریہ کی مدد کریں۔جان لینا چاہئے کہ اگر یہ اسلامی جمہوریہ ناکام ہوتی ہے تو اسکی جگہ حضرت بقیة اللہ - روحی فداہ- کی پسندیدہ یا آپ حضرات کی فرمانبردار حکومت وجود میں نہیں آئے گی، بلکہ (سپرپاور) دو بلاکوں میں سے ایک کی فرمانبردار  حکومت قائم ہو جائے گی اور دنیا بھر کے پسماندہ اور محروم طبقات کے لوگ جن کی امیدیں اسلام اور اسلامی حکومت سے زندہ ہو چکی ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں وہ مایوس ہو جائیں گے اور اسلام ہمیشہ کیلئے گوشہ نشین ہوجائے گا؛ اور اس روز آپ لوگ اپنے عمل پر پشیمان ہوں گے لیکن وقت گزر چکا ہوگا اور اس وقت پشیمانی بے سود ہوگی۔اور  اگر آپ حضرات کو یہ توقع ہے کہ ایک رات میں سبھی مسائل اسلام اور خداوند متعال کے احکام کے مطابق تبدیل ہو جائیں تو یہ  ایک  بھول ہے اور  پوری انسانی تاریخ میں ایسا معجزہ نہ کبھی رونما ہوا ہے  اور نہ ہوگا۔ اور اس دن جب ان شاءاللہ مصلح کل امام زمانہعجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور فرمائیں گے تو آپ یہ خیال نہ کریں کہ کوئی معجزہ رونما ہوگا اور ایک دن  میں  پورے عالم کی اصلاح ہوجائے گی؛بلکہ کوششوں اور فداکاریوں سے ستمگروں کی سرکوبی ہوگی پھر کہیں جاکر وہ الگ تھلگ پڑ جائیں  گے۔اور اگر آپ لوگوں کی رائے بعض منحرف عوام کی طرح یہ ہے کہ اس بزرگوار(امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کیلئے کوشش یہ رہنی چاہئے کہ  کفر و ظلم کا میدان کھلا چھوڑا جائے تاکہ پورا عالم ظلم میں غرق ہو جائے اور ظہور کے مقدمات فراہم ہونگے تو : فإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیهِ رَاجِعُونَ۔

تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعفین کے نام وصیت  کہ وہ اپنے استقلال اور آزادی کیلئے قیام کریں

 (ف)

میری سبھی  مسلمانوں اور دنیا بھرکے پسماندہ طبقات  سے وصیت یہ ہے کہ  آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھیں اور اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ملک کے حکام یا  غیر ملکی طاقتیں آئیں گے اور آپ کیلئے آزادی اور خودمختاری کا تحفہ لائیں گی۔ہم اور آپ(مظلوم عوام )نے کم سے کم  پچھلی  ایک صدی  کہ جس میں بڑی جہانخوار استعماری طاقتوں کیلئے سبھی اسلامی اور کمزور ممالک کیلئے آہستہ آہستہ دروازے کھل گئے ہیں کا مشاہدہ کیا ہے یا یہ کہ صحیح تاریخ   ہمیں یہی کچھ بتاتی ہے کہ ان ممالک پر حکمفرما حکومتوں میں سے کوئی بھی اپنی قوم کی آزادی ، خودمختاری اور آسائش کی فکر میں نہ کل تھی اور نہ آج ہے؛بلکہ ان میں سے حد اکثر یا خود ہی اپنی قوم پر ظلم و ستم روا رکھے رہے اور جو کچھ کیا بھی وہ صرف ذاتی یا گروہی منفعت کے لئے انجام دیا ہے؛یا تو متمول طبقات کی رفاہ اور آسائش کیلئے کیا گیا اور جگی جونپڑیوں میں رہنے والےمظلوم طبقات، زندگی کی تمامترنعمات حتی پانی، روٹی اور قوت لایموت سے محروم رہے، اور ان بدبختوں کو متمول اور عیاش طبقات کے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے اور یا  یہ کہ بڑی طاقتوں  کی حمایت سے  اقتدار پر قابض ہوئے اسلئے ممالک اور ملتوں  کو وابستہ بنانے کیلئے  جو کچھ ان سے بن سکا اسے بروی کار لایا اور  مختلف بہانوں سے اپنے ممالک کو مشرق و مغرب کیلئے منڈی میں تبدیل کردیا اور ان کے مفادات کو پورا کیا اور ملتوں کو پسماندہ رکھا اور مصرفی پروان چڑھایا اور اسوقت بھی اسی نقشے پر عمل پیرا ہیں۔

اور آپ دنیا بھر کے پسماندہ لوگو! اے اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانو! اٹھ کھڑے ہو  جاو اور اپنے حق کو اپنے زور بازو سے حاصل کرو اور بڑی طاقتوں اور ان کے ضمیر فروش فرمانبرداروں کے تشہیراتی شور و غل سے نہ ڈرو؛وہ مجرم حکام  کہ جو آپکی محنت کی کمائی کو آپکے اور پیارے اسلام کے دشمنوں کے حوالے کرتے ہیں کو اپنے ملک سے نکال باہر کردو،اور خود اور خدمتگذارمتعہد طبقات ،ملک کی باگ دوڑ  سنبھالیں اور سبھی اسلام کے سربلند پرچم کے نیچے جمع ہو کر اسلام اور سبھی ستم رسیدہ انسانوں کے دشمنوں کےمقابلے میں دفاع کرنے کیلئے کھڑے ہو جاو؛اورخودمختار و آزاد جمہوریتوں کے ساتھ ایک اسلامی حکومت کی جانب آگے بڑھیں کیونکہ ایسا کرنے سے ،دنیا بھر کے سبھی سامراجوں کو انکی اوقات دکھا سکتیں ہیں اور اس طرح تمام  پسماندہ طبقات (مستضعفین) کو  زمین کی وراثت و امامت تک پہنچا سکو گے ۔ اس دن کی امید کے ساتھ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمایا ہے۔

ایرانی عوام سے ایک مخصوص وصیت

 (ص)

پھر ایک بار اس وصیت نامے کے اختتام پر ایران کے شریف عوام سے وصیت کرتا ہوں کہ دنیا میں رنج و مشقتوں،قربانیوں، جانثاریوں اور محرومیتوں کو برداشت کرنے کا پیمانہ اسقدر ہی ہوتے ہیں کہ جسقدر ان مقاصد کے مراتب  اعلی اور قیمتی ہوں ،جس مقصد کیلئے آپ شریف اور مجاہد قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور اس راہ پر گامزن ہے اور اس کی حفاظت کیلئے جان و مال کو نثار کررہی ہیں، یہ وہ والاترین، بالاترین اورارزشمندترین مقصد و مقصود ہے کہ  ازل میں صدر عالم سے لیکر پھر اس کائینات میں ابد تک پیش کیا گیا اور کیا جاتا رہے گا؛اور اپنے وسیع معنی کے ساتھ وہ مکتب الوہیت اور نظریہ توحید کے رفیع پہلوؤں کہ جو تخلیق کائینات کی اصل و اساس ہے اور وجود کی وسعتوں میں اسکی عنایت اور غیب و شہود  کے درجات و مراتب میں ہے؛   اور وہ  سب مکتب محمدی  -  صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم - میں تمام مفاہیم ، درجات اور پہلوؤں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے ؛ اور تمام انبیای  عظام - علیہم سلام اللہ - اور اولیائے کرام - سلام اللہ علیہم - کی کوشش اسی کو جامہ عمل پہنانا رہی ہے اور کمال مطلق ، نیز لامتناہی جلال و جمال تک رسائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ خاکیوں کو ملکوتیوں پر اور ان سے والاتر شرف عطا کیا ہے،اور جو کچھ خاکیوں کو اس راہ میں حاصل ہوتا ہے وہ پوری خلقت میں کسی کو بھی سِر و عَلن میں حاصل نہیں ہوتا۔

 اے ملت مجاہد، آپ ایسے پر چم کے نیچے چل رہے ہیں جو تمام مادی و معنوی دنیا پر لہرا رہا ہے،  اسے پائیں یا نہ پائیں، آپ اس راہ پر گامزن ہوئے ہیں جو تمام انبیاء- علیہم سلام اللہ - کا اکلوتا راستہ  ہے اور سعادت مطلق کی واحد راہ ہے ۔ اس میں وہی جذبہ ہے کہ جس کے تحت تمام اولیا اس کی راہ میں شہادت کو اپنی آغوش  میں لیتے ہیں اور شہادت کو"احلی من العسل" (شہد سے زیادہ شیرین) سمجھتے ہیں؛اور آپ کےجوانوں نے سرحدوں  پر اس کا ایک گھونٹ پیا  اور وہ وجد میں آ گئے ہیں اوریہ ان کی ماں ،بہنوں، باپ اور بھائیوں میں متجلی ہے۔اور حق تو یہ ہے کہ ہم کہیں: یا لیتنا کنّا معکم فنفوز فوزاً عظیماً۔مبارک ہو ان کیلئے وہ نسیم دل آرا اور وہ ولولہ انگیز جلوہ ۔

اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس جلوے کا ایک پہلو جھلستے کھیتوں ، جاں فرسا فیکٹریوں ، ورکشاپوں ، صنعت ، اختراعات اور ایجادات کے مراکز،ملت کی اکثریت ، بازاروں ، سڑکوں ، دیہاتوں اور تمام ان لوگوں میں جو اسلام ، اسلامی جمہوریہ اور ملک کی ترقی و خود کفیلی کیلئے خدمت میں مشغول و مصروف ہیں ، جلوہ گر ہے۔

اورجب تک معاشرے میں تعاون اور ذمہ داری کا یہ جذبہ باقی ہے ان شاءاللہ تعالی ہمارا عزیز ملک زمانے کے نقصان سے محفوظ رہے گا۔اوربحمدللہ تعالی دینی مراکز ، یونیورسٹیاں اور تعلیم و تربیت کے مراکز کے جوان اس غیبی و خدائی خوشبو سے لطف اندوز ہیں اور یہ مراکز مکمل طور پر ان کے اختیار میں ہیں اور خدا سے امید ہے کہ وہ ان کو تخریبکاروں اور منحرف لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

اور میری وصیت ان سبھوں سے ہے کہ جو خدای متعال کی یاد کے ساتھ خود شناسی ،خودکفایی اور استقلال کیلئے ہر اعتبار سے آگے بڑ رہے ہیں،اوریقین جانیں کہ خدا کی عنایت آپ کے ساتھ ہے ، اگر آپ اسکی خدمت میں رہیں  گےاور ملک کی ترقی و تعالی کیلئے تعاون کے جذبے کو  جاری و ساری رکھیں گے۔

اور میں ملت عزیز میں جو بیداری، ہوشیاری،تعہد، فداکاری اور خدا کی راہ میں  صلابت و استقامت کو مشاہدہ کررہا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ خداوند متعال کے فضل سے یہ انسانی اقدار اگلی پشت میں منتقل ہو جائے اور نسل در نسل اس میں اضافہ ہوتا رہے۔

پرسکون دل،اطمنان قلب ، خوشحال روح اور  فضل خدا کی امیدوار ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں، اور ابدی مقام کی طرف سفر کرتا ہوں۔ اور آپ کے دعای خیر کا بہت زیادہ محتاج ہوں۔ خدا ی رحمان و رحیم سے درخواست کرتا ہوں کہ  خدمتگذاری میں کوتاہی، قصور و تقصیر کیلئےمیری معذرت قبول فرمائے۔  

اور ملت سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ میری  کوتاہیوں، قصور و تقصیر کیلئے میری معذرت قبول کریں۔ اور طاقت کے ساتھ اور مصمم ارادے کے ساتھ آگے بڑھیں اور جان لیں کہ ایک خادم کے چلےجانے سے ملت کے فولادی سد میں کوئی خلل نہیں پڑنے والا کیونکہ ایک سے ایک بڑکر خدمتگذار موجود ہیں ، اوراللہ اس ملت کا اور دنیا بھر کے مظلوموں کا نگھدار ہے۔

 

 و السلام علیکم و علی عبادالله الصالحین و رحـمة‌الله و برکاته

26بهمن 1361 1جمادی‌الاولی 1403(15 فروری 1983)

روح‌الله الموسوی الخمینی

 

بسمہ تعالی 1

یہ وصیتنامہ میری موت کے بعد،احمد خمینی لوگوں کے لئے پڑھے؛اور عذر کی صورت میں ، صدر جمہوریہ یا رئیس محترم مجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ اسپیکر) یا رئیس محترم دیوان عالی کشور(چیف جسٹس)،اس زحمت کو گوارا فرمائیں ؛ اور عذر کی صورت میں ، شورای نگہبان میں سے کوئی ایک فقیہ محترم یہ زحمت گوارا فرمائیں۔

روح‌الله الموسوی الخمینی

بسمہ تعالی 2

اس 29 صفحات پر مشتمل وصیتنامے اور مقدمے کے نیچے چند نکات کے بارے میں تذکر دیتا ہوں:

(1)۔  ابھی جبکہ میں زندہ ہوں ، حقیقت سے بعید کچھ باتیں مجھ سے منسوب کی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ میرے بعد اس  مقدار میں اضافہ ہو جائے؛ لہذا عرض کرتا ہوں کہ جو کچھ مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے میں اس کی تصدیق نہیں کرتا مگر یہ کہ اس حوالے سے میری آواز یا ماہرین کی تصدیق کے ساتھ میرے دستخط کے ساتھ میری تحریر ہو؛ یا جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری ٹی وی پر کچھ کہا ہو۔

(2)۔ کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ  میرے بیانات لکھتے تھے۔ میں اس بات کی پوری شدت کے ساتھ تکذیب کرتا ہوں ، ابھی تک میرے بیانات کو میرے بغیر  کسی اور نے نہیں لکھے ہیں۔

(3)۔ میں نے نہضت  اور  انقلاب کے دوران بعض سالوسی اور اسلام نما افراد کا نام لیا اور ان کی تعریف کی ہے اور بعد میں سمجھ گیا کہ میں ان کی دغل بازیوں سے اغفال ہوا تھا۔وہ سبھی تمجید اس وقت تھی جب  وہ اپنے آپ کو اسلامی جمہوریہ کے  عہد و پیمان کےوفادارہونے کا دعوی کرتے تھے اور ان مسائل سے غلط استفادہ نہیں کیا جانا چاہئے ؛ اور ہر کسی کا میزان اس کا حالِ فعلی ہے۔

روح‌الله الموسوی الخمینی

 

 

 


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی