سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

طاغوت اور اسکے پراکسی کینڈیٹ کو پہچان کرہی تفرقہ کو طاقت میں بدلا جاسکتا ہے

 اردو مقالات مکالمات مذھبی سیاسی ھدایت ٹی وی کے ساتھ

طاغوت اور اسکے پراکسی کینڈیٹ کو پہچان کرہی تفرقہ کو طاقت میں بدلا جاسکتا ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

شام رسوائی کے بعد امریکی منحوس تکون کی حکمت عملی اور شیرازی فرقہ

13مارچ 2018 کی انٹرویو

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ شیرازی فرقے کے بارے میں تفصیلی گفتگو:

طاغوت اور اسکے پراکسی کینڈیٹ کو پہچان کرہی تفرقہ کو طاقت میں بدلا جاسکتا ہے

نیوزنور: معیار یہ ہے کہ جو قرآن نے دیا  ہے "فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ"میں جب طاغوت کا مخالف ہوں تو صحیح، جب میں طاغوت کا ہم صدا ہوں ،ہم نوا ہوں، شعوری طورپہ غیر شعوری طورپہ میں طاغوتی ہوں، چاہئے میں شیعہ ہوں، چاہئے میں سنی ہوں، چاہئے میں غیر مسلمان ہوں۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سے13 مارچ 2018 کوآنلاین مکالمے کے دوران لندن میں جمہوری اسلامی ایران کے سفارتخانے پر شیرازی فرقے کی طرف سے ہوئے حملے کے پیش نظر "شام رسوائی کے بعد امریکی منحوس تکون کی حکمت عملی اور شیرازی فرقہ " کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کہ جس میں لندن، بریکفد،پیرس،جرمنی اور امریکہ سے آنلاین کالر نے حصہ لے کر موصوف سے سوالات پوچھے کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

لندن میں جمہوری اسلامی ایران کے سفارتخانے پر شیرازی فرقے کے حملے کے پیچھے چھپے عوامل کیا ہیں اورامریکہ کو اسلام کےساتھ  دشمنی ہے کیا؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔امام بعد؛

قال اللہ سبحان و تعالی ؛

لاَ إِکْرَاهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لاَ انْفِصَامَ لَهَا وَ اللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ‌ ﴿البقرة، 256صدق اللہ العلی العظیم

جی ؛پہلے اسی کا جواب دیتا ہوں کہ امریکہ کو اسلام کے ساتھ کیا دشمنی ہے۔ اس کا جواب ہمیں امام خمینیؒ کے  ایک جملے سے ملتا ہے۔ امام خمینی فرماتے ہیں کہ :"جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ مبعوث ہوئے تو شیطان نے فریاد بلند کی او ر شیطانوں کو اپنے اردگرد جمع کرلیا اور ان سے کہا کہ اب اس کے لئے کام مشکل ہو گیا۔اس اسلامی انقلاب  میں امریکہ نے جو کہ بڑا شیطان ہے نے اپنے اردگرد شیطانوں کو اکھٹے کر رہا ہے چاہے شیطان کے بچے جو ایران میں ہیں چاہے دیگر جگہوں میں جو شیطان ہیں ان کو اکٹھے کیا ہے اور ہیاہو شروع کیا ہے" ۔

جب امریکہ کے سامنے  ایک ایسی قوت اُبھر رہی ہے  کہ جو اس کے سارے جو منصوبے ایک ایک کرکے ناکار آمد بناکے چھوڑے ظاہر سی بات ہے وہ ایسی قدرت سے پریشان ہوگا ہی۔ جسطرح خود  آنحضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے شیطان پریشان ہوگیا کہ  اب ایسے میں کیاکروں،تو شیطان نے اسلام کا مقابلہ کرنے کیلئے  گیم پلان بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اپنے چیلوں کو جمع کرکے  شورمشورہ شروع کیا۔ تویہ جو امام خمینیؒ  نورانی  ویژن اُمت کودیا کہ آپ ہو کیا اور آپ کے مد مقابل کون ہے اور جس اسلام سے امریکہ کو تکلیف ہے وہ یہی وژن ہے۔ امام خمینیؒ نے  ملت ایران کو بیدار کیا کہ اپنے مدمقابل کھڑے حریف کے بجائے اس کی ریڑ کی ہڑی کو پہچانویا جس کے بدولت وہ   آپ کا حریف بن سکا ہے۔ اور  امریکہ کو اس موقف سے ، اسی ویژن سے تکلیف ہے۔

امام خامنہ ای اس حوالے سے  فرماتے ہیں کہ:" استکبار ایک قرآنی اصطلاح ہے کہ جو قرآن میں فرعون جیسے بدخواہ اور مخالفین حق و حقیقت کے لئے استعمال ہوا ہے ،ابھی تک استعمار باقی ہے ماضی میں بھی باقی تھا ،تمام زمانوں میں استکبار کا ڈھانچہ ایک ہی رہا ہے البتہ طریقے کار  ہر زمانے میں مختلف ہوتے ہیں ۔اس وقت بھی استکبار اور استکباری نظام موجود ہے اور دنیا میں جس کی چوٹی پر امریکی حکومت ہے۔بزرگوار امام خمینی نے فرمایا: امریکہ بڑا شیطان ہے ۔یہ بڑا شیطان بہت گہرا معنی رکھتا ہے ۔دنیا بھر کے شیطانوں کا سربراہ ابلیس ہے  لیکن قرآن کی صراحت کے رو سے وہ ایک ہی کام کر سکتا ہے کہ انسانوں کو اغوا کردیتا ہےاوراغوا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا ،انسانوں کو اغوا کرتا ہے،دوکھہ دیتا ہے، وسواس پیدا کرتا ہے۔لیکن امریکہ اغوا بھی کرتاہے، قتل وغارت بھی کرتا ہے ،پابندیاں بھی عائد کرتا ہے،دوکھہ بھی دیتاہے ، ریاکاری بھی کرتا ہے۔طاغوت اعظم امریکہ ہے،شیطان اکبر امریکہ ہے ،جو کوئی  ان کی سیاست کے مطابق کام کررہے ہیں وہ طاغوت سے جڑے ہوئے ہیں ، وہ طاغوت کے کافر نہیں ہیں" فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لاَ انْفِصَامَ لَهَا﴿البقرة، 256"  اگر خدا پر ایمان ہو،اگر طاغوت کا کافر ہو ،  یہ عروہ وثقی کے ساتھ تمسک ہے۔ یہ طاقت کی خمیر ہے ، یہ اقتدار کی خمیر ہے۔ پہلی شرط  "فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ"ہے۔ یہ ایرانی قوم جو امریکہ کی زیادہ خواہی کے مقابلے میں کھڑی ہوئی ہے یہ ایران کے اقتدار کا اصلی نکتہ ہے۔قرآن کے ساتھ متمسک رہنا چاہئے۔عالم اسلام کوضرورت ہے کہ  حبل اللہ کو  تھامیں ،اپنےآپ کو مضبوط کریں،اپنی ایستادگی کو تضمین کریں ،آج کل عالم اسلام کی ضرورت ہے ،ہمیں کمزور نہیں ہونا چاہئے ، ہمیں طاقتور ہونا چاہئے۔طاقت صرف ہتھیاروں سے نہیں ،طاقت صرف پیسے سے نہیں ہے ،طاقت کا اصلی جوہر ایمان ہے ۔استقامت ہے، اللہ پر ایمان ہے ۔ ہم اس وقت طاقتور قوم ہیں ،دشمن طاقتور اسلام سے ڈرتا ہے،دشمن بہادر اسلام سے ڈرتا ہے ۔ اسلامی جمہوری سے اس لئے ڈرتے ہیں، اسلئے  حملے کرتے ہیں  ،ان کا حملہ ان کے ڈر کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں ،طواغیت کے وعدے جمہوری اسلامی اور ملت ایران کودھوکہ نہیں  دے سکے ہیں    نہ ہی   دھمکیوں سےڈرا سکے ہیں ۔ہم نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان کے دھوکے میں آ سکتے ہیں،یہ ضروری ہے ۔اس کے پیچھے چلنا چاہئے یہ وہ چیز ہے  امت اسلامی کو جس کی ضرورت ہے"۔

یہ جو امام خمینیؒ نے ایک ایسی بیداری شروع کی اورامام خامنہ ای اسی امام خمینیؒ کی سیرت پر چلتے ہوئے میدان میں کھڑے ہیں امریکہ قطعی طورپر پریشان ہے۔

جہاں ایکطرف اسلام کی تعبیر جو بتاتے تھے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اسلام یعنی بس صرف مسجد میں نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا وغیرہ ہے۔ مگر جب اصلی اسلام ،قرآنی اسلام میدان میں آ گیا تب مسلمان کی اصلی تصویر ظاہر ہونے لگی کہ مسلمان یعنی جو طواغیت کے مقابلے میں کھڑے ہو"فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ" اگر آپ طاغوت کے کافر  ہیں پھر آپ مومن ہیں۔جس کی تفسیر   امریکہ آج کل خود اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اسی لئے اس اسلام سے دشمنی ہے۔

جو اسلام امریکہ کے طاغوتی مفادات ،شیطانی مفادات کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے اس کا مخل نہ ہونے پائے وہ اسلام امریکہ کو قبول ہے، اس اسلام سے نہ امریکہ کو نہ ہی شیطان کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔  امریکہ کو پریشانی اس اسلام سے ہے جو اس کی دھوکہ داری،مکاری  جو کہ شیطان کا اپنا جوہر ہے اگر اس سے پردہ فاش نہ کرے۔ اگر اس میں کوئی خلل نہیں پہنچاتا ہے تو  اس اسلام سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہے ۔جو ان طواغیت نے ابھی تک ڈراما رچے ہوئے ہیں، ہر  ملک کو  بیوقوف بناتے پھرتے ہیں، کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ اورہیں۔ طواغیت کی ایسی پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔شام میں امریکہ کر کیا رہا ہے، شام میں جتنے بھی اس نے ڈراما رچے اور جھوٹے اورپروپیگنڈے سے کتنے لوگوں کو گمراہ کردیا مگر جب اس کے مقابلے میں یہی قرآنی اسلام"فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ" سینہ سپر ہوا اور اس کے شیطانی عزائم سے عوام کو آگاہ کرتے رہے،شامی عوام کو آگاہ کرتے رہے کہ یہ جو آپ کے درمیان اختلافات بھڑکا رہا ہے اس کا اصلی محرک کون ہے،جو آپ کے درمیان نفرت کے نعرہ بازی کروا رہا ہے کون کروا رہا ہے۔جب ان کے سامنی تصویر سامنے کی گئی تو دشمن ہر فرنٹ پر ناکام ہوئے تو یہی تکلیف رہی کہ جب شام میں کس قوت کے ساتھ پوری دنیا کو جوڑ دیا امریکہ نے مقابلہ کرنے کے لئے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ تو  امریکہ کو مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔اسی تکلیف چیختا سر پیٹتا نظر آتا ہے کیونکہ حیران ہے کہ اسے شام میں کیسے ناکامی ہوئی جب کہ پوری دنیا شام کے مقابلہ میں یکصدا کھڑی ہوگئی پھر بھی ان کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔آپ نے بھی جس طرح صحیح اشارہ کیا کہ شام کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔اور جو حکومت کے خلاف  فرنٹ لائن پر مسلمانوں کو رکھا گیا ہے وہ سبھی امریکہ کےٹول اور مہرے ہیں۔شامی عوام بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ ساری جنگ صرف اسرائیل کو بچا نے کے لئے چھیڑی گئی ہے ۔یہ کوئی اسلام کی جنگ  نہیں ہے بلکہ یہ صرف شیطان کو بچانے کی جنگ ہے۔

اوراس اسلام اوراس بیداری سے اسرائیل کو تکلیف ہے ،امریکہ کو تکلیف ہے  اوروہابیت کو تکلیف ہے۔کیوں؟  کیونکہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ  وہ قدرت وہ قوت جو اللہ نے اسلام کو عطا کی ہے وہ کسی بھی شکل اپنا سراُٹھائے۔ یہ مشکل اور پریشانی  ان طواغیت کو ہے۔ یہ مشکل اور پریشانی شیطان کو ہے۔ یہ  جنگ ہمیشہ سے  رہی ہے، شیطان کی رحمانیت سے   ہمیشہ جنگ رہی ہے ۔اورہمارے زمانے میں جسطرح امام خمینیؒ نے فرمایاکہ؛"امریکہ بڑا شیطان ہے" مراد وہی ٹولہ ہے جو دنیا بھر کے لئے نقشے کھینچتے  رہتے ہیں، وہی طاغوتی تھینک ٹینک جو دنیا بھر کے حالات کو کس طریقے سے  اپنے شیطانی مفادات کے حق میں حالات کو نہج دینےکے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں ،سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ وہ سارے شیطانی منصوبوں کے تحت  ہی  عمل کرتےر ہیں۔ اوریہی وجہ ہے کہ  وہ نہیں چاہیں گے کہ  ایسی حقیقی انسانی اقدار کی ترجمان تحریک جو کہ قرآنی اسلام ہے اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنی موجودیت کا اعلان کرے۔وہ اس تحریک اور ایسے اسلام سے خائف ہیں ،ڈرتے ہیں کہ کنہی  مسلمان اور انسانی اقتدار کی بالادستی کے حامی انسان متحد نہ ہونے پائیں اوروہ ایسااتحاد وانسجام پیش کریں جس سے خوشگوار مستقبل دنیا کے سامنے ظہور کرے اور طواغیت اور شیطان کے منصوبے خاک میں مل جائیں۔

سوال :ایسے میں ہم اندر سے کیوں اختلاف کا شکار ہو رہے ہیں دشمن کو چھوڑ کر آپس میں دست بہ گریباں کیوں ہیں؟

ج)یہ وہ نسخہ ہے جو روز ازل سے ہی کار گررہا ہے ۔یہ نسخہ بڑا ہی کار آمد رہا ہے۔ خود ہمارے بابا حضرت آدم علیہ السلام  بھی اسی نسخے کے جال   میں پھنس گئے، جب شیطان  دوست بن کر ظاہر ہو گیا اور کہاکہ میں تمہارا  خیر خوا ہوں، مجھے تم لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ آپ لوگ اگر ممنوعہ پھل کو کھاوگے،اس سے آپ کو وہ  سارے اختیارات  حاصل ہونگے جوپروردگارعالم نے اپنے لئے مخصوص  رکھے ہیں۔ میں آپ کے فائدے کے لئے کہہ رہاہوں، اپنے لئے تھوڑی نا کہہ رہاہوں وغیرہ۔

  یہ دشمن کابظاہر خیر خواہی کی شکل میں ظاہر ہونے کا نسخہ ہر زمانے میں کارگر رہا ہے۔ دشمن جب دیکھتا ہے کہ دشمنی کے میدانوں میں حریف کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے کامیاب نہیں ہوتا ہے  تو وہ دوست کی شکل میں آتا ہے، اس کے لئے اندر کے صفوں میں اختلاف ڈالا جاتا ہے اور صفوں کے اندر ہی سےدشمن کو دوست تسلیم کرنے کی بات چھیڑ کر عملی طور اس کےلئے میدان صاف کردیتے ہیں۔ایسے میں ہم دیکھتے  ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں  شیعہ اورسنی کے نام پر دست بہ گریباں کیا جاتا ہے۔ اب شیعوں کو اندر سے شیعہ اورشیعہ کو آپس میں دست بہ گریباں کرکے کھوکھلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح سنیوں کو اندر سے آپس میں دست بہ گریباں کیا جا رہا ہے۔ یہ  کون کرارہا ہے؟ اس کا فائدہ کس کو حاصل ہوتا ہے ؟ اگر شیعہ اورسنی آپس میں دست گریباں ہوں، ایک دوسرے کا خون بہائیں کیا اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہے ؟نہیں۔اگر شیعہ آپس میں خون خرابہ کریں کیا اس سے قرآن کا مقصد حاصل ہوتا ہے؟ نہیں۔کیا اگر سنی آپس میں خوں خرابہ کریں اس سے اسلام کو کوئی فائدہ ملتا ہے؟ نہیں۔

جب ہم کسی بھی جگہ، کسی بھی اعتبار سے،کسی مقصد سے اینوسمنٹ کرتے ہیں،سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہم گھر بناتے ہیں کسی مقصد کیلئے،اسی لئےاس پہ اینوسمنٹ کرتے ہیں کیونکہ یہ  ہمارے رہنے کیلئے جگہ ہے۔ گاڑی لیتے کسی  مقصد سے،غرض ہر کوئی چیز جیسا نتیجہ دے اسی اعتبارسے اس پر  اینوسمنٹ کی جاتی ہے۔یہ ایک واضح بات ۔تو پھر یہ کیوں واضح نہیں کرتے کہ مسلمانوں کے اندر اختلافات کی جو زہر اگلتےہیں اس سے فائدہ کس کا ہے!

 اگر ہم اس تناظر میں دیکھیں ہمارے اکثر مسائل خودبخود حل ہونگے۔ جسطرح امام خامنہ ای  نے واضح الفاظوں میں کہاکہ؛" طاغوت اعظم امریکہ ہے،شیطان اکبر امریکہ ہے ،جو کوئی  ان کی سیاست کے مطابق کام کررہے ہیں وہ طاغوت سے جڑے ہوئے ہیں ، وہ طاغوت کے کافر نہیں ہیں "یعنی دیکھنا ہے کہ کون کس نہج پر چل رہا ہے۔ اگر ہم شیطان کے مقاصد کو پورا کررہے ہیں ہم شیطان  یا طاغوت ہیں۔ اگر ہم شیطان کو تکلیف پہنچارہے ہیں اگر ہم شیطان  کے کافر ہیں شیطانوں کے مقابلے میں ہیں تو ہم مومن ہیں۔ اس میں ہمیں پھر شیعہ وسنی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ طاغوت شیعہ بھی ہوسکتا ہے یہ طاغوت سنی بھی ہوسکتا ہے یہ مومن شیعہ بھی ہوسکتا ہے یہ مومن سنی بھی ہوسکتا ہے اس پہ "فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ" کااطلاق آجانا چاہئے ۔

شیعہ اور شیعہ فرقے

سوال: معاملات کچھ اس طرح  ہیں کہ بہت سارے عوامل ہیں ، بعض چینلیں تو اسطرح کی ہیں جو صرف پروپیگنڈہ میشنری ہیں،جن کے ٹرانسمشن کا مقصد کچھ نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کے اندر اختلافات پیدا کئے جائیں ،تشیع کے چہرے کو بگاڑ تے رہتے ہیں ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل تشیع کا چہرہ کیا ہے اور شیعہ کسے کہتے ہیں؟

ج)شیعہ اس شخص کو کہاگیا،جبکہ اس زمانے میں ہر کسی کو اس کے لیڈر کا شیعہ  کہاجاتا تھا۔پھر آخر میں  شیعہ اس جماعت  کیلئے مخصوص ہوگیا جو حضرت علی  علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل اور سیّداوصیا ی رسول اللہ کے عقیدے کا اظہار کرنے لگا ۔ تو جس نےحضرت علی ؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بلافصل اورامام اوّل مانا، سیّد اوصیای رسول اللہ مانا، اسے شیعہ کہاگیا۔ مگر اسی زمانے سے لیکر حضرت علی  ؑ کے شیعہ تقسیم ہوئے اورفرقوں میں بٹ گئے اور فرقوں کے اندر فرقے بنتے رہے۔ اگر آپ شیعہ فرقوں کی تعداد ڈھونڈنے بیٹھیں سب سے زیادہ مسلمان فرقوں میں شیعہ فرقوں کی تعداد زیادہ ہے[[1]]۔اس بیچ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان میں شیعہ سے مراد کیا ہے۔

  شیعہ سے مراد ؛ بارہ امامی/ اثناعشری اصولی جو جعفری کہلاتے ہیں ہونا چاہئے جن کی دنیا بھر میں اکثریت ہے۔عموما جب بات آتی ہے شیعہ کی تو اس میں وہ  شیعہ بھی شامل ہوتا ہے کہ جوحتی نماز پڑھنے کا قائل نہیں ہے۔اب جب  ایسے ہی شیعہ کی کتاب کا حوالہ دیکر اصلی شیعوں پر تھوپ دیا جاتا ہے تو عوام کیلئے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

 وہ  بھی  کیسے کیسے شیعہ ،مجھے ان کا نام ذکر کرنا اچھا بھی نہیں لگتا ان کا نام لوں لیکن ان پر شیعہ لفظ اطلاق  ہوتاہے۔ ان کا نام ذکر کیوں نہیں کرو؟ کیونکہ ان کے اندراتنے خرافات ہیں کہ انسان شرمندہ ہوجاتا ہےکہ ان کو یہ نسبت دی جائے یہ شیعہ ہیں۔

 جب بھی آپ دیکھتے ہیں مکتب آل محمد مکتب جعفریہ کے دشمن وہابی وغیرہ جوشیعوں پر تیر چلاتے رہتے ہیں از جملہ یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ شیعوں نے اماموں کو خود مارا اورپھر خود ہی ان پر روتے پیٹتے ہیں۔ایک اعتبار سے یہ صحیح ہے،وہ شیعہ تھے۔خارجی مولا کی لشکر میں تھے اور وہی تو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف ہوگئے اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو توبہ کرنے کو کہا، کہنے کیلئے ان کو بھی شیعہ کہاجائےگا۔ ابن ملجم کو بھی شیعہ کہاجاسکتا ہے۔ عمرسعد کو بھی شیعہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ سلسلہ اصطلاحی حد تک رہا ہے اورجو فرقے شیعوں میں ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ مگر جومعیار ہے تشیع کا،جس کا تعلق قرآن سے  ہے ،جسے کا تعلق اہلبیت ؑ سے ہے وہ شیعہ اثنا عشری ہے ، دنیا بھر میں جن شیعوں کو اکثریت حاصل ہےاورجن کا عقیدہ ہے  کہ بارہواں امام پردہ غیب میں ہے ان کی غیبت  میں مجتہد جامع شرائط ان کا نائب ہے اوروہ نائب بھی زندہ ہو۔ جو ابھی شیعہ مرجع تقلید  وفات پاجائے،اس کا فتوی اب حجت نہیں ہے، اس کی پھر تقلید نہیں کی جاسکتی مگر یہ کہ  زندہ مجتہد جامع الشرایط اسکی تقلید کرنے پر باقی رہنے کا فتوی دے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شیعہ مکتب زندہ مکتب ہے۔مگر جانے انجانے میں اس بات کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔

 آپ دیکھئے کہ جو شیعوں پر الزاموں پہ الزام لگاتے رہتے ہیں کہ ان کی اس کتاب میں لکھا ہوا ہے اس کتاب میں لکھاہے وغیرہ۔ہاں لکھا ہے۔ کیوں نہیں لکھا ہے۔ اس کی اس کی  توہین کی گئی مگر یہ نہیں کہتے کہ وہ شخص کس عقیدے کا تھا،کس شیعہ فرقے سے تعلق  رکھتا تھا اور کیا یہ اس کا قول تھا یا نقل قول تھا۔ایسا نہیں کہیں گے۔ کیوں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ  وہاں علمی بحثیں بیان ہوئے  ہیں اور وہاں یہ بحث کیوں چھیڑی گئی ہے۔اسلئے  نہیں بتاتے ہیں کہ شیعہ ایک زندہ قوم ہے ان کا عقیدہ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت یتیم نہیں ہوئی، امامت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔سورہ قدر کی آیت"تَنَزَّلُ الْمَلاَئِکَةُ وَ الرُّوحُ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ ﴿القدر، 4" کی تفسیر ہر زمانے میں ہر شب قدر کی رات کو ہوتا ہے۔اور"وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجاً ﴿النصر، 2" کا انتظار ہے کہ کب اس آیت کی تکمیل ہوتے ہوئے اسلام میں فوج فوج لوگ داخل ہوجائیں گے۔ جو شب قدر میں ملائکہ ناز ل ہوتے ہیں وہ امام معصوم پہ نازل ہوتے ہیں یہ بات وہ لوگ نہیں بتاسکتے ۔

سوال:تو شیعوں کے درمیان یہ کون سا نیا فرقہ ہاتھ پیر مار رہا ہے،شیراز ی فرقہ نامی نئی اصطلاح شیعوں کے اندر سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے یہ کیا ہے؟

ج) ان لوگوں کو پہچا نے کیلئےرہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام علی خامنہ ای نے بدھوار 11ستمبر2014کو امام باڑہ امام خمینی تہران میں ادارۂ حج کے ملازمین اور عہدہ داروں سے ملاقات کے دوران فرمایا:" امام خمینیؒ سمیت جملہ مستند شیعہ علماء ہمیشہ  امت مسلمہ کے مابین اتحاد باقی رہنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ بنا بریں  جس شیعت کی،اختلافات کی آگ بھڑکانے کے مقصد سے لندن اور امریکہ  میں قائم ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تبلیغ کی جا رہی ہے وہ  اصل شیعہ طرزفکر نہیں ہے"۔

یعنی جس فرقے کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں کہ جو شیرازی فرقہ کےنام سے یعنی ابھی مشہور ہونے جارہا ہے اگر آپ مجھے اس حوالے سے پوچھیں گے تو میں بہت ہی ایسے معلومات آپ کے اختیار میں رکھ سکتاہوں مگر اس کیلئے مجھے خاصی فرصت چاہئے تاکہ میں اس کا مقدمہ بیان کرکے اس کی وضاحت کرسکوں ۔

سوال : میں چاہوں گا اس بارے میں جو آپ کی ون ٹوون ملاقات تھی آیت اللہ صادق شیرازی کے ساتھ اس کی تفصیلات بیان کریں ؟

ج)میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حوزہ علمیہ میں سطحیات میں پڑھتے دوران یا تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہونے کے ساتھ ہی طالبعلموں کی کوشش رہتی ہے کہ انہیں اساتذہ اور مراجع تقلید سے سند حاصل ہو اسی طرح میں نے بھی سال2010میں  کوشش کی اپنے استاتذہ کے علاوہ مراجع تقلید سے بھی اجازات حاصل کروں جس دوران مجھے یہاں ایران کے ایک دوست  عالم دین نے پوچھا کیا میرے پاس سید صادق شیرازی صاحب کا اجازت نامہ ہے ۔ میں نے کہا کہ اگر وہ مجتہد جامع الشریط ہیں تو کیوں نہیں چاہوں گا۔تو اس طرح میں نے ان کے نام اجازت نامے کی درخواست لکھی جبکہ اس سے پہلے مجھے حضرات آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی  کی طرف سے وکالت حاصل ہے لیکن مجھے سید صادق شیرازی صاحب کا اجازت نامہ مل کر کچھ زیادہ ہی خوشی محسوس ہوئی کیونکہ اس میں مذکورہ دومراجع عظام تقلید کے استجازات سے زیادہ فصیح و بلیغ اختیارات بھی بیان کئے گئے تھے ۔ کشمیر لوٹنے پر متوجہ ہوا کہ یہ شیرازی صاحب وہ ہیں کہ جن کی علمی صلاحیت اور موقف کے حوالے سے علماء کو محفوظات ہیں ،مجھے احساس ہونے لگا کہ اجازت نامہ حاصل کرنے کی لالچ نے مجھے اندھا کردیا یہاں تک کہ2014میں امام خامنہ ای نے لندن سے تشیع کے مرکز کو اجاگر کرنے کی سازش سے پردہ ہٹایا تو مجھ جیسے صحافی کو تحقیق کرنے کا بہانہ ہاتھ آیا اوراسطرح میں اس دن سے آج تک  اس گروہ کو بے نقاب کرنے کے سلسلے میں نےتقریبا30مقالے برطانوی شیعیت کے عنوان سے تحریر یا ترجمہ کرکے نیوزنورڈاٹ کام پر شائع کر دیے ہیں۔اس دوران میں کشمیر سے ایران آکر یہاں مقیم ہو گیا اور میں نے15جمادی الثانی1438مطابق 14مارچ2017 یعنی ٹھیک آج کے دن ایک سال پہلے سید صادق شیرازی صاحب کو وہ اجازت نامہ واپس کردیا جو انہوں نے میرے نام تحریر کیا تھا ۔جس کے ساتھ ان کے نام خط لکھا جس میں اس اجازت نامے کو واپس کرنے کی وجہ بتائی کہ جناب سید صادق شیرازی صاحب آپ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جانی دشمن جیسے یاسر حبیب، محمد ہدایتی وغیرہ کے مرجع تقلید ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں جہاں کنہی بھی کسی شیعہ کا مظلومانہ قتل کیا جاتا ہے اس قتل کے مقدمات فراہم کرنے والے یہی لوگ ہیں اور اسطرح آپ کے ہاتھ شیعوں کے خون سے رنگے ہیں۔اور میں قم میں رہتا ہوں اگر آپ کی طرف سے کوئی سوال ہو میں حاضر خدمت ہونےکے لئے تیار ہوں۔

میری طرف سے اس طرح اعلام برائت کرنے کا کوئی جواب نہیں آیا۔مگر میں خاموش نہیں بیٹھا، جس دوست نے مجھے ان سے اجازت نامہ دلایا تھا میں ان سے مسلسل دباو بناتا رہا کہ مجھے سید صادق صاحب سے اکیلے میں ملاقات کراو۔آخر کار28نومبر2017 کو میں ان سے ملنے میں کامیاب ہوا۔لیکن انہوں نے انکار کیا کہ میرا لندن میں سرگرم ان افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں نے کہا کہ پھر ان سے بیزاری کا اعلان کیوں نہیں کرتے ۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میں کچھ کہوں وہ جواب دیں گے اور پھر مجھے ان کے جواب میں جواب دینا پڑے گا اور یہ سلسلہ پھر نہیں روکے گا۔

میں نے بظاہر ان کی باتوں پر یقین کر لیا ، کیونکہ انہوں نے  جس انداز کے ساتھ کچھ دلائل جو پیش کئے، وہاں پر طالب علم گمراہ ہوسکتا ہے، حقیقت میں فرق کرنے میں چونک سکتا ہے کیونکہ جس ظاہر کے ساتھ وہ پیش آتے ہیں،جس سادگی اور تواضع کا وہ مظاہرہ کرتےہیں ،بظاہر حقیر کمرے  میں  بیٹھے ہیں ، لگتا ہے بالکل سادہ زندگی گذارتے ہیں، ان کو بڑا ہی آخرت پہ ایمان وغیرہ ہے۔ تو بظاہر طالب علم وہاں چوک جاتا ہے یہ فیصلہ کرنے میں چوک جاتا کہ کیا یہ کسی سازش کا شکار ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ایسے ماحول میں ، میں نے ان سے صاف طورپر کہاکہ میں لندن میں مقیم آپ کے بھائی "مجتبی" ، اسکے داماد "یاسر حبیب"،"محمد ہدایتی" وغیرہ کے خلاف لکھتا رہتا ہوں۔اور میں شاید واحد وہ قلم کار ہوں جس نے اردو زبان میں اس شیرازی گروپ کی پول کھولنے میں صف اوّل کا ہوں، مگر جب یہ گروپ اپنی کارستانیوں کی نسبت آپ (آیت اللہ صادق شیرازی ) سے دیتے ہیں میرا قلم ٹوٹ جاتا ہے، وہاں آگے نہیں بڑ ھ پارہاہوں،آپ کے خلاف کھل کر نہیں لکھ پا رہا ہوں۔

جواب میں انہوں نے کہا کہ پیغمبر کے صحابی جب غلط نسبتیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ سے دیتے تھے ،آنحضور اس کی صفائی دینے کیلے سامنے نہیں آتے تھے۔اسی لئے میں بھی خاموش رہتا ہوں۔

 تو مجھے بظاہر ان کی باتوں کا یقین کرنا پڑا۔  مجھے  انداز ہ نہیں تھا کہ یہاں صورتحال کیا ہوتی ہے اسی لئے میں کہتا ہوں طالبعلموں کو وہاں سے بچنا بڑا مشکل ہے۔

سید سے ملاقات کرکے باہر مجھے اچھا خاصہ موٹا لفافہ دیا گیا۔ مگر اللہ نے مجھے توفیق دی کہ میں اس لفافے کے چکر میں نہیں آیا کیونکہ  اسی قلم کی برکت سے ،میں ترجمہ کرکے ،ایڈیٹنگ وغیرہ کرکے اچھی کمائی کرتا ہوں۔ میں نے الحمداللہ کبھی بھی ایک بھی ریال یا ایک بھی روپیہ شہریہ کے طور پر نہیں لیا تھا نہ لیتا ہوں نہ ان شاءاللہ آیندہ لینے کا ارادہ ہے۔صرف یہی اپنے قلم سے جوبھی کماتا ہوں اسی پہ اکتفا  کرتا ہوں۔ تو مجھے جو لفافہ تھمایاگیا میں نے کہاکہ جناب میں شہریہ نہیں لیتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ یہ شہریہ نہیں ہے،یہ امام زمانہ عج کی طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بات سن کر طالبعلم کی حالت کیا ہوتی ہوگی ۔ میں نے کہاکہ شہریہ بھی تو امام زمانہ عج کا ہوتا ہے میں وہ بھی نہیں لیتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ میں امام زمانہ عج  کےسامنے پھر جوابدہ زیادہ بن جاتا ہوں جس کے قابل نہیں ہوں، کہ جب مجھے وہ پوچھیں گے کہ میں نے تمہاری تربیت کی، تم پر اتنا خرچہ کیا تو نے اس کے بدلے میں کیا کیا؟ میں اس کا کیا جواب دوں۔ میں امام کی پکڑ سے ڈرتا ہوں۔ جس نے مجھے یہ لفافہ دیا کہاکہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں، آپ یہ بات آیت اللہ صادق شیرازی صاحب سے خود کہیں۔ تو پھراندر چلے گئے،ان سے بات کی پھر مجھے اندر بلایا گیا ، میں جب داخل ہو گیا اس بار پہلے سے کچھ زیادہ گرم استقبال کیا ،وہ دوبارہ کھڑے ہوگئے اور میرا ہاتھ پکڑا اور کچھ زیادہ احترام کےساتھ کے پیش آئے اورکچھ دو چار باتیں اچھی سی کہی۔ کہاکہ جناب یہ میری طر ف سےتھوڑی  ہے ، یہ ہدیہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  صدقہ نہیں لیتے تھے مگر جب کوئی آنحضور کو ہدیہ دیتا تھا وہ بھی لیتے تھے۔ جب اس طریقے سے باتیں کی تو مجھے سرنڈر کرنا پڑا۔میں نے کہا جی شکریہ۔ تو جب میں باہر چلا پھر وہاں سے مجھے ایک خاص کمرے میں لیاگیا جہاں پر خزانہ تھا، میں کہوں گا کہ وزیر خزانہ نے مجھے اپنے خزانے میں لیا اورجو پہلے لفافہ دیا  تھا اس کو اورمزید موٹا کیاگیا۔ اسی دوران وہ  مجھ سے پوچھ تاچھ کرتا رہا اورخود پیسے گنتا رہا۔ مجھے بھی وسواس ہورہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے،میری قیمت جو لگائی گئی ہے،پیسے ڈالر میں  ہیں یا پونڈ میں یا ریال میں وغیرہ....۔مگر الحمدللہ ،اللہ نے میری لاج رکھی۔ جب انہوں نے وہ لفافہ میرے ہاتھ میں تھمایا،میں نے لیا شکریہ کیا اور اپنے جیب میں ہاتھ ڈال کر جتنا بھی موٹا پیسہ تھا نکال کے اس لفافے پہ رکھا، اور کہاکہ جو کوئی مستحق آدمی ہو یہ لفافہ اس کو میری طرف سے دیجئے گا۔ مگر سید سے نہیں کہنا کہ میں نے نہیں لیا۔یہ بھی بتاتا چلوں اس ملاقات کی بڑی داستان ہے انہوں نے کیمرہ مین وغیرہ بھی تیار رکھے تھے لیکن میں نے کہاکہ میری کوئی تصویر نہ لی جائے ۔ میں نے ان کےسامنے چار سوالات تحریری طورپر اورایک مشورہ سامنے رکھا کہ اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔از جملہ یہ کہ:

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ شیعوں کے جانی دشمنوں کی ریڑ کی ہڑی بن گئے ہیں؟

کیا یاسرحبیب، مجتبی، محمد ہدایتی آپ کے معتمدین ہیں کہ جو شیعوں کا قتل عام کرانے کے اصلی ذمہ دار ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو شیعوں کے صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

کیا جو12سے21سٹلائیٹ چنلیں (ان کے ناموں کے ساتھ) کا تعلق آپ سے ہے ؟

یہ چار سوالات اورایک مشورہ ۔مشورہ یہ کہ ؛ اگر آپ کو شیعہ سماج کے ساتھ لگاو ہے تودنیا بھر میں جہاں جہاں شیعہ اقلیت میں ہیں ان کو امام زمانہ عج کے زیر سایہ اپنے حال پر چھوڑ دیں اور خود اپنی توجہ آذربایجان جیسے ملک کی طرف متوجہ کریں جہاں94فیصد لوگ شیعہ اثنا عشری ہیں لیکن اکثر اپنے دین سے بر خبر ہیں ، وہاں کام کریں مگر اس کے باوجود آپ نے دیکھاکہ جو کچھ قم سے لندن تک ڈرامہ رچا گیا کیا یہ اتفاقی  ہوسکتا ہے ۔ ان کا بیٹا سعودی ولیعہد کے دورہ لندن کے موقعہ پر وہی بات کرتا ہے جواسلام کے ازلی دشمن کرتے ہیں ۔

ان کا فرزند ایسے حالات میں وہی بات کرنے لگا ہے جو اسلام دشمن پہلے سے کہتے رہے۔اس بحث کو چھیڑنے کا مدعی اور مقصد کیا ہو سکتا ہےکہ ایران عراق جنگ کوئی دفاع مقدس نہیں اور ولایت فقیہ فرعونیت ہے۔کیا شیعہ سماج میں اس سے کوئی تکلیف ہے۔دیکھنا ہے کہ ولایت فقیہ سے تکلیف کس کو ہے ۔ اسلامی انقلاب اورولایت فقیہ نے سیاسی دنیا میں زلزلہ پیدا کیا اور انسان و انسانیت کا جو ازلی دشمن شیطان ہے اس کے چہرے سے نقاب نوچ کر سمجھارہا ہے کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے۔اور سید صادق شیرازی صاحب کا بیٹا قم میں بیٹھ کر رسمی طورجو ان کے ٹیلی ویژن پر  بھی چلایا گیا اورسوشل میڈیا میں بھی چل رہا ہے وہ کھلے عام واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ طاغوت جو ہے وہ ولی فقیہ ہے،  امام خامنہ ای ہے۔کیا آپ  اس بحث سے کوئی مخصوص  پیغام  نہیں دیکھتے؟ جو آل سعود جو وہابی کہتے ہیں کہ امریکہ کو کچھ نہ کہو اسرائیل کو کچھ نہ کہو جو کچھ فتنہ ہے اور  وہ ایران ہے۔امریکہ اور پوری طاغوتی لابی تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی یہی کہتے رہے  اور اب یہی بات شیعہ علماء لباس پہن کر ایک سید کہہ رہا ہے کہ طاغوت ولی فقیہ ہے۔اور وہ بھی ایسے وقت پر جب سعودیہ کا ولیعہد  لندن کے دورے پر آیا ہے اور اس کے خلاف لندن میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور قم میں شیرازی صاحب کا بیٹا بیان دیتا ہے اور لندن میں ایران کے خلاف مظاہرے شروع کئے جاتے ہیں یہ سب اچانک ہو سکتا ہے بلکہ ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ لندن میں ایرانی سفارتخانے کے ساتھ جو سانحہ ہوا، آپ بتائے کہ کیا اس کام کا کوئی بھی پہلو اسلامی تھا، شیعی تھا جس جذبے کے تحت ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح آپ  نے بھی اشارہ کیا کہ جمہوری اسلامی ایران کے پرچم کی توہین کی گئی جس پر 72 بار اللہ اکبر اور بیچ میں اللہ واضح طورپر لکھا ہوا ہے، اس کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔جبکہ یہ وہی لوگ ہیں جب یہاں ایران میں طاغوت نظام تھا شاہی نظام حاکم تھا اس وقت اس پرچم  کو بہت مقدس سمجھتےتھے، مگراب جبکہ حکومت اسلامی ہے اور اس کے پرچم کیلئے مراجع کا فتوا ہے کہ اس پرچم کو وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے۔  تو اسی پرچم کےساتھ یہ لوگ ایسی اہانت کرتے ہیں۔اورغیر مسلمانوں کو کہ  جو طاغوت کے سرغنہ ہے (ملکہ الزبت) کہتے ہیں ان کی تعظیم واجب ہے  اورکسی زاویے کے ساتھ اس  شخصیت کو اہلبیت ؑ سے نسبت دیتے ہیں۔  مگر اس کے مقابلے میں امام خامنہ ای جیسےفقیہ جامع الشرایط،مرجع تقلید اور عالمی معتبر شخصیت تو ایک طرف ایک سیّد کے اعتبار سے بھی ان کی تعظیم نہیں کرتے اور اتنے  رکیک الفاظوں کے ساتھ ان  کی توہین کرتے ہیں۔ کیا یہ کوئی عقیدی حرکت ہے ۔نہیں،یہ صرف مادی مفادات  کا کھیل ہے  اس کے پیچھے صرف طاغوت کا پیسہ ہے اور کـچھ نہیں۔آیت اللہ سید صادق شیرازی صاحب اس فرقے  کے سربراہ ہیں مگر یہ کہ خود کو رسمی طور پر ان سے جدا کریں۔

سوال : پہلے انہوں نے  انقلاب اسلامی  جوکہ مسلمانوں کو جوڑ رہا ہے، قریب لارہا  ہے، صدیوں کی پڑی ہوئی خلشوں کو مٹا رہاہے،  ایک دوسرے مسلمانوں کو گلے ملارہا ہے کہ شیطان بزرگ کا مقابلہ کیا جائے،  القدس شریف کو بچایا جائے،حرم اہلبیت کو بچایا جائے،ایسے میں انہوں نے اہلسنت مقدسات کی کھل کر توہین کرنے کا فتنہ شروع کیا اور جب اس میں ناکامی ہوئی اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی شخصیت پر حملہ کرنا شروع کردیااب اس کے بعد کیا کرنے جا رہے ہیں ؟

ج)آپ کا کہنا صحیح ہے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ، آپ دیکھئے کہ جو یہاں سے بھاگے ہوئے سلطنتی   اورطاغوتی لوگ  ایران سے جو بھاگے ہوئے  ہیں ،آپ  ان کے ٹیلی ویژن چینل کو دیکھئے، ان کے باتوں کو دیکھئے،اسی طرح آپ آل سعود وہابیوں کی باتوں کو دیکھئے اور پھر ان شیرازی فرقے کی باتوں کو دیکھیں یہ تکون ایک ہی مقصد کی آبیاری کرتے ہیں وہ طاغوت کے آبیاری ہے نہ کہ اسلام کی،لگتا ہے کہ آگے بھی یہی کریں گے  ۔

اگر یہ   شیرازی فرقہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو سمجھے ہوتے تو شاید ان کو اس اتحاد مسلمین  سے تکلیف نہیں ہوتی۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں  غیر مسلمان بھی اور غیر شیعہ بھی شامل ہوئے تھے۔  آپ دیکھئے وہب کلبی کیوں اور کیسے شہید کربلا بنے، وہ تو شیعہ یا مسلمان نہیں تھے۔یا   اگر آپ  ظہیرقین کی مثال لیں تو شیرازی فرقے کے استدلالوں کے رو سے امام حسین علیہ السلام کو ظہیر قین کی طرف دعوت کا ہاتھ نہیں بڑھانا تھا،بلکہ ا ن  کو گالیاں دینی تھی  وغیرہ۔آپ ظہیرقین  کے بارے میں جانکاری حاصل کریں۔ ظہیرقین ایک ایسی  شخصیت ہے گویا آجکل کی اصطلاح میں  کٹر سنی تھے جنہوں نے نہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنا پہلا امام قبول کیا، نہ  امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو اپنا دوسرا امام قبول کیا تھا،بلکہ خلفای ثلاثہ کے شیدائی تھے اورجب حضرت علی علیہ السلام  کو چوتھا خلیفہ بنا یا  گیا تب یہ کہہ کر کہ اب اختلاف ہوگیا،  معاویہ کو لے کر چوتھا خلیفہ بھی تسلیم نہیں کیا اور پھر اسی طرح  امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کوبھی نہیں مانا۔ تو اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام   اسی ظہیرقین کو کہتے ہیں کہ  میری مدد کو آو۔  کیا شیرازی فرقے کے رو سے امام حسین علیہ السلام  کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ  ظہیرقین کو کہتے  کہ تم تو میرے مولا کے دشمن ہو،  پہلے امام حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ یہ کیا،دوسرے   امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام  کے ساتھ وہ  کیا وغیرہ۔مگر چونکہ  اسلام کے مقاصد بڑے ہیں ،یہ دین ہر انسان کا اصلی اور فطری دین ہےا ورجب تک آپ پہلے مرحلے میں ہر سنی کو اور پھر  ہر غیر مسلمان کو  اپنے  کاروان میں شامل نہیں  کریں آپ اہلبیتؑ کی تحریک کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ کیوں؟ کیونکہ اہلبیتؑ  رسول اللہ (علیہم صلوات اللہ) کی  وہ تفسیر ہے کہ جس کے بارے میں اللہ نے کہاکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو" رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ " بنا کے بھیجا"وَ مَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ‌﴿الأنبیاء، 107"  اوراس رحمت کا پرتو اہلبیتؑ کے ذریعے سے ہی  ممکن ہے ۔انقلاب  اسلامی ایران نے تبھی کامیابی حاصل کی  جب یہ اہلبیتؑ سے تعلیم حاصل کرسکا ہے اور آج سنی  ہو یا غیر مسلمان ا س پرچم تلے  اپنے عزت  اوراپنے تابناک مستقبل کو یقینی سمجھتے ہیں اور جس سے تکلیف طاغوت کو ہے۔اسی سے  پتہ چلتا ہے کہ ایران میں چونکہ "فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ ﴿البقرة، 256" کا پرچم بلند ہے جسے مقاومتی محور کہتے ہیں جس کو سرنگوں کرنے کے لئے شیطان اپنے چیلوں کے ہمراہ ہرممکن کوشش میں سرگرم نظر آتا ہے۔

سوال:دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے  دشمن نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ میدان میں کس حد تک کامیاب ہے؟

ج) بس صرف ایک میدان کھلا تھا، کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہےگا کہ دشمن حلیہ بدل کے خیرخواہی کے نعرے کے ساتھ اندرونی صفوں میں گھس کر  اختلاف ڈالنا کارگر رہا ہے۔ اورصرف  اسی نسخے نے ہمیشہ دشمن کے منصوبے کا  جواب دیا ہے ا وراس کا جواب  صرف بصیرت سے ممکن ہے۔ ایک وہ آنکھ کہلاتی ہے جس کو ظاہر نظر آتا ہے دوسری وہ کہ  جس کونتائج نظر آتے ہیں اور اسی کو بصیرت کہتے ہیں ۔ یہ کہنا بڑ امشکل ہے کہ دشمن کس حد تک کامیاب ہوگا کہ  نہیں البتہ  ایران نے  عملی طوردکھایا  ہم دشمن کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔

 آپ نے دیکھا کہ یہاں ایران میں لوگوں کا  حکومت کے خلاف بعض مسائل کو لے کرخدشات جو  تھے اوردشمن  نے اس کو کیش کرنے کی کوشش کی  لیکن لوگوں نے جلدی دشمن کی چالوں کو سمجھا اور  کہاکہ ہمارے حکومت  سے اختلافات ضرور ہیں، ہماری کـچھ مانگیں ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دشمن  کے کھلونا بن جائیں۔یہ بصیرت کہلاتی ہے، لیکن یہ بصیرت  ہر قوم میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے  کہ ان کو پتہ چلے  کہ ان کا اصلی دشمن کون ہے اور اس کا مقصد کیاہے جوکہ غالبا امریکہ ہے۔ایران جو اصلی دشمن کو صاف دیکھ رہا ہے اس پر خود بھی نظریں بنائے ہوئے ہے اور دوسروں کو اس سے بچنے کیلئے خبردار بھی کررہا ہے اسی لئے ایران سے اسے تکلیف ہے  کیونکہ اسکے سارے مزموم عزائم  جو ہیں  ناکام ہوجاتے ہیں۔

 جب امتوں میں یہ بصیرت دیکھنے  کو ملے ، جس طرح ملت ایران نے  عملی طورپر دکھایا،جبکہ یہاں ایران میں  سارے انقلابی نہیں ہیں لیکن جو لوگ  اہلبیتؑ  کی بصیرت افزا تعلیمات  کو سمجھے ہیں وہ میدان میں ہیں  اور یہی طاغوت  کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

جب جو بھی جانے یا انجانے میں طاغوت کا  ہم پیالہ ہم نیوالہ  بنے نظر آئے وہ بھی بھی طاغوت ہے اورجب تک یہ بصیرت عوام میں پیدا نہ ہو تب تک دشمن کامیاب ہوتا رہےگا ۔

سوال: جس طرح آپ نے کہاکہ شیطان بزرگ نے اپنے تمام چیلوں کو جمع کیا اور جو بھی شیطانی افکار رکھنے والے افراد ہیں  مل کر اسلام کے قلب کے اوپر  مسلسل حملہ کررہے ہیں ،مسلمانوں کے اندر اتنا سینس نہیں ہے  وہ اتحاد کر کے دشمن کے اوپر  حملے کریں؟

ج)شعور کیوں نہیں ہے۔ میں غالبا نہیں چاہتا ہوں کہ اس بات کو بتاؤں مگر چونکہ آپ نے سوال ہی اتنا  پیچیدہ کیا تو اس کے  جواب میں اپنی ہی مثال دیتا ہوں کہ  میں کشمیر چھوڑ کر ایران میں کیوں ہوں ؟اس لئے ہوں کہ میرا بعض علماء  سے اختلاف رائےہے اور جب یہ اختلاف ایسا رخ اختیار کرگیا کہ اگر میں اپنے موقف پر ڈٹا رہوں ہمیں آپس میں ٹھن جائے گی اور عوام میں تفریق پیدا ہوگااور جس کا فائدہ دشمن کو ہوگا،اسلئے میں نے میدان چھوڑ دیا اور کہا کہ آپ صحیح اور میں غلط ہوں اور اسطرح اپنے آپ کو زندہ دفن کردیا۔میدان سے ہٹ گیا اور جبکہ اس طرح میرے خلاف سارے الزامات سچ ثابت ہو رہے ہیں لیکن میں اسی پر راضی ہوں کہ عوام کو اگر ابھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے مجھے تو سمجھ میں آ گیا ہے اور یہ سب  اللہ دیکھ رہا ہے۔ مجھ پر جتنے  الزام لگانے ہیں لگائیں،  مگر کل تو ہمیں فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیہا  کے روبرو ہونا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو کیا منھ دکھائیں گے۔  میں اس عقیدے  کے ساتھ میدان چھوڑ کر نکلا ہوں۔

  اگرہوس  اقتدار نہ ہو،من مانی نہ ہو، میری جی حضوری ہونی چاہئے، میرا ہی منصب ہونا چاہئے وغیرہ اس رسہ کشی میں جب تک ہم رہیں گے دشمن  اس کا بھرپور فائدہ اُٹھاتا رہے گا۔  اگر ہم اپنے آپ کو  بڑے مقاصد کیلئے  قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں کامیابی امت کی ہے اور ضروری  نہیں کہ  میدان جنگ میں کود کر  قربانی دیں بلکہ اپنے اس انا کو  قربان کرنا ہوگا۔ جب اپنے  دین کے مقاصد کیلئے  ہم ایسا جذبہ پیدا نہیں کریں گے  تو دشمن کامیاب ہوگا  ۔

سوال: لوگوں کو کیسے سمجھایاجائے،   عوام الناس ان تمام دقائق  کو نہیں جانتے  ظاہری چہرے کو دیکھتے ہیں،ایسے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟

ج)یہی  ذرائع ابلاغ ایک موثر ذریعہ ہے جس طرح ابھی آپ   اپنے پروگرام کے ذریعے  ،میں اپنی نیوز نور کے ذریعہ،اسی طرح ہر کوئی   اہل قلم، اہل بیان کو  جس طریقے سے ممکن ہوسکے،جو بھی ٹولز اس کے پاس ہیں  وہ ان کو استعمال میں  لائیں دونوں  باتوں کو سامنے رکھیں ۔

اگر آپ نیوز نور  ڈاٹ کام کو دیکھیں اور   اکثر میری یہی کوشش رہتی ہے کہ  جو خود  شیطان بزرگ کے  پرودہ لوگ جو کسی وقت اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت امریکہ نے کہاں کہاں اور کس طرح کے انسانیت سوز جنایات انجام دیے ہیں  اور ان کا نام نہاد مین سٹریم میڈیا یا ان باتوں کو غیر ضروری پیش کرنے کی کوشش  کررہے ہیں یا  وہ جگہ  نہیں دیتے  جہاں لوگوں کے نظروں  میں آئے، میں ان کا ترجمہ کرکے اردو زبان لوگوں کے  سامنے رکھنےکی کوشش کرتا ہوں۔  اسی طرح آپ بھی اپنی طرف سے کوشش  کررہے ہیں۔کسی بھی انسان کو پرکھنے کیلئے بس اتنا کافی ہے کہ دیکھا جائے کہ طاغوت کا کسی بھی اعتبار سے کافر ہے یا کہ مؤمن،چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلمان۔

سوال: جن مسائل پہ ہم بات کررہے ہیں وہ تو ظریف ہیں لوگوں کو ابھی تک  شام کی جنگ سمجھ میں نہیں آئی  لوگ ابھی بھی سمجھ رہے ہیں کہ وہاں پر جو ہے  مجاہدین جارہے ہیں ، نہیں یہ نہیں پتہ کہ  اسرائیل کی نوکری کرنے جارہے ہیں،  واصل جہنم ہونے جا رہے ہیں۔  اصل اسلام کا جو  مرکز ہے جو  جو مقاومتی محور کے بیچ وبیچ  کھڑا ہے اس کو نہیں پہنچانیں ؟

ج)ایسے سیاسی وقائع کی زمینی صورتحال سامنے آنے میں وقت لگتا ہے ۔جس طرح  حلب کے بارے میں  ہوا، پھر دنیا نے دیکھا کہ شام میں حلب کے بارے میں جو ایک فضا قائم کی گئی تھی وہ صحیح نہیں تھی بلکہ شامی حکومت پیشقدمی کررہی تھی اور دہشتگرد دہشتگردی کررہے تھے اور  شام جو اپنے آپ کو ثابت  کردکھارہا ہے  اس کی تصویر آہستہ اہستہ صاف ہونے جا رہی ہے تویہ زیادہ  پریشانی کے مسائل نہیں ہیں۔ مسائل  یہ ہیں کہ جن کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے۔ میں ہمیشہ وہاں کشمیر  میں بھی ممبر پہ یہ کہتا رہاہوں کہ  آپ کو دشمن سے زیادہ اس  عبدالحسین سے خطرہ ہے ، اس کی ہر بات پہ یقین نا کرو، اس کو پرکھ لو کہ کیا یہ طاغوت کے فائدے کی بات  کررہا ہے یا دین و دنیا و آخرت کے فائدے کی  بات کررہا ہے۔ اس کو  پرکھنا عوام کا کام ہے۔دشمن کو دشمن کے لباس میں پہچاننا کوئی ہنر نہیں بلکہ جذبات کے لباس میں پہچاننا ہنر ہے۔    مجھے ممبر پہ جانا ہے  مجلس پڑھنی ہے،یہ کافی نہیں ہے۔  یہ امتحان ہے ہر ایک کے لئے۔ اللہ نے  انسان کو بھیجا ہے"لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً " تمہارا امتحان لیا جائے گا۔کہا کہ تمہے  آزماونگا۔  میں نے موت وحیات اسی لئے پیدا کیا کہ تمہیں امتحان کروں ،آزمالوں کہ  تم میں سے کون صحیح  کررہا ہے اور کون غلط تاکہ اسی اعتبار سے جزاء اور سزا دوں۔ تو  جسطرح حضرت علی علیہ السلام  نے کہاکہ عقلمندی   یہ نہیں کہ جو صحیح اورغلط میں فرق  جان سکے بلکہ  دو غلط میں تشخیص دے سکے کہ زیادہ غلط کیا ہے  یہ شعور ہونا چاہئے۔

سوال:یعنی آپ کا اشارہ شخصیت پرستی کو چھوڑ کر امامت کی پیروی ہے کیا؟

ج) اس حوالے سے حضرت علی علیہ السلام کا  قول ہے کہ آپ شخصیت  سے دین نا لیں بلکہ" اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ اَهْلَهُ وَ اعْرِفِ الْباطِلَ تَعْرِفْ اَهْلَهُ "۔حق اور باطل کوپرکھنے کیلئے شخصیت کو معیار قرار نہ دیں ، بلکہ ا ٓپ  حق کو پہچانہیں اہل حق کو خودبخود پہچانوگے۔ آپ باطل کو پہچانو تو  اہل باطل کو خودبخود پہچانوگے[[2]]  ۔ ایران کی میں اس حوالے سے بار بار مثال دتا ہوں کیونکہ یہاں عملی مثال دیکھ رہاہوں۔  یہاں امام خمینیؒ نے جب کہا کہ آقای منتظری حاکم عادل کے عہدے کے لئے مناسب نہیں ہیں جبکہ اس وقت آقای منتظری کی مقبولیت امام خمینی ؒ سے اگر  زیادہ نہ تھی لیکن کم بھی نہیں تھی،ایران بھر کے در و دیواروں پر  ان کی باتیں رہنما اصول کے طور پر نقش تھے۔  مگر جب امام خمینیؒ نے کہاکہ لوگو!  اب آپ اپنے ایمان کا خیال رکھو یہ  جناب بصیرت  کھو چکے ہیں،انہیں ایسے میں، حاکم عادل کا جانشین نہیں ہونا چاہئے۔ تو یہ پیغام سنتے ہی ایرانی عوام نے آقای منتظری کو گویا زندہ دفن کردیا۔اسے کہا جاسکتا ہے کہ امام علی کے مکتب کا شاگرد۔ اورمجھے  ایمان ہے کہ اگر خدانخواستہ  امام خامنہ ای جس کے نام پر  کروڑوں لوگ جان چھڑکنے کیلئے تیار ہیں،ولایت کی صلاحیت سے فاصلہ اختیار کرگئے ہیں تو ان  کو بصیر عوام مسترد کردے گی، اوراسے بصیرت کہتے ہیں۔

  جو ہمیشہ اسلام  میں دھوکہ کھایاہے مقام کے ذریعہ ،منصب کے ذریعہ وہ اسی بصیرت کے فقدان کی وجہ سے رہا ہے،بصارت اور بصیرت میں فرق نہیں سمجھا گیا۔ مگر الحمدللہ ہمارے زمانے میں  ایران نےاس غلطی کا ازالہ کرنا شروع کردیا ہے اسی لئے ہر امتحان میں اس زمانے میں سرخ رو نکلتا نظر آتا ہے۔البتہ ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ اکثریت یہاں کی بصیرت رکھتی ہے،چونکہ یہاں کا رہبر و قائد اسلامی قواعد و ضوابط کے مطابق حکیم،مدیر و مدبر ہے اس لئے یہاں کی اکثر عوام بصیر نظر آتی ہے۔جبکہ یہاں علماء کی شکل میں  بھی ایسے ابلیس  ملیں گے جن کے بارے میں امام خمینیؒ  اپنے زمانے میں فرما گئے ہیں کہ اگر آپ ان کو منبر سے نہیں اتاریں گے تو یہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو منبر سے  اُتاریں گے ۔

 تو جب یہ پہچان جب آگئی  تبھی ظاہری صورت عوام کو دھوکہ نہیں دے پا رہی ہے یہ کہ  کوئی عمامہ پہن کے ہے، سید ہے، سفید دھاڑی  ہے وغیرہ یہ  لوگوں کے لئے  معیار نہیں ہے بلکہ  معیار قرآن ہے معیار اہلبیتؑ ہے،حق ہے۔جس سے یہ سیکھ مل جاتی ہے کہ اگر آپ  حق پہچاننے میں کامیاب ہوگئے تو  آپ کبھی نہیں چوکوگے،حق کے راستے سے نہیں بٹک سکتے ہو ۔  مثلاً اگر کوئی میرا فین بن جائے  اور کہتا ہوگا کہ عبدالحسین اچھا مبلغ ہے۔ کل میں حق سے  پلٹ جاؤں تو وہ بے دین ہوجائےگا۔کیوں؟ کیونکہ اس نے مجھے اپنا آئیڈیل بنایا تھا۔ اسی لئے میں بعض اوقات جوانوں کو کہتا ہوں کہ جب آپ اسلام کو  جاننا چاہتے ہیں  یا پرکھنا چاہتے ہیں یا اس کی تنقید کرنا چاہتے ہیں  تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی علیہ السلام کو معیار قرار دینا چاہئے کیونکہ ان کو اللہ نے حق کی سند عطا کی ہےان سے ہٹ کر کسی شخص کو معیار قرار نہیں دینا چاہئے۔   کیونکہ میں خود جوانی سے گذر کے بڑھاپے کی طرف جارہاہوں اس دور سے گذرا ہوں کہ کسی مذہبی شخص کی غلطی کو مذہب کی غلطی سمجھتا تھا۔ میرا اختلاف کسی خاص عالم سے ،کسی  شخص سے ہو  تومیں اس اختلاف کو اسلام پر ٹھوکتا ہوں،کیونکہ یہ شخص غلط کررہا ہے اسلئے اسلام بھی غلط ہے۔ ہمیں جب یہ سمجھ میں آجائے گا کہ شخص  غلط ہوسکتا ہے  لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلط نہیں ہوسکتے،قرآن غلط نہیں ہو سکتا ہے،  اہلبیت علیہم السلام غلط نہیں ہوسکتے ہیں۔  کیوں غلط نہیں ہوسکتے؟ اسی لئے کہ ان ہی کو عصمت حاصل ہے۔  یہ قرآن سے جد ا نہیں ہیں۔اللہ حق ہے اور یہ حق سے جدا نہیں ہیں۔ اگر ہمیں یہ بصیرت حاصل ہوجائے توپھر ہم گمراہ نہیں ہوسکتے۔  پھر ہم ہیروورشپ کی طرف نہیں بڑے  گے۔ حق اور باطل کوپرکھنے کیلئے شخصیت کو معیار قرار نہیں دیں گے۔

سوال :قوم کی ذمہ داری کیا ہے ایسے افراد کے ساتھ جب وہ شناختہ شدہ ہوجائیں کہ یہ فتنے کے بیج بو رہے ہیں  اور اصل مکتب اہل بیت کی تعلمیات کے خلاف عمل کررہے ہیں تو ایسے افراد کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہئے ؟

ج)صرف یہی کہ حال دیکھ کر قضاوت کریں۔  جسطرح ہمیں کربلا نے سبق سکھایا ہے  کہ صرف حال دیکھو ماضی  نہیں دیکھو  ،عبدالحسین ابھی ٹھیک بات کررہا ہے ابھی ٹھیک ہے،جب ٹھیک بات نہیں کرےگا ، اسکے ساتھ خداحافظی کرنی ہے۔ صرف حال  معیار ہے  جس زمانے میں   کوئی بھی صحابہ عمل کرتا رہا اس کا  حال  معیار قرار پایا ہے نہ  کہ اس کا ماضی۔ اور مستقبل  کے بارے میں کوئی رائے ہی قائم  نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ صرف  حال معیار ہے۔ جب  ہم اس چیز کو دیکھیں کہ ابھی کیا کہہ رہا ہے، ابھی کیا کررہا ہے ، ابھی کس کے مفاد میں جارہا ہے، ابھی کس کے نقصان میں جارہا ہے،اس ابھی کے معیار سے فیصلہ صحیح ہے۔ جس طرح ہم نے  حُر کو دیکھا۔ حُر کا  سارا ماضی طاغوتی ہے اورمیدان کربلا میں امام حسین  علیہ السلام  کے خلاف سارا محاذ حُر  نے تیار کیا  مگر جب  صحیح  لائن پہ آگیا،حق پر آ گیا  وہ صحیح قرارپایا۔ حر کا حال دیکھا گیا اس کا ماضی  نہیں دیکھا گیا۔  تو جب تک ہمیں  اس معیار میں  یہ نہیں پتہ چلے گا کہ عبدالحسین  ابھی ٹھیک ہے کہ نہیں ہے تو قضاوت کرنے والا حق سے دور ہے اس پر معیار قرار دیا جائے کہ کل خراب ہوجائےگا،اور  کل خراب ہو جائے کا احتمال دے کر معیار دینا حق کی تعلیمات میں نہیں ملتا ہے۔کسی بھی شخصیت سے آنکھیں بند کرکے جڑے رہنا حق کی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسا معیار آنکھیں بند کرکے یا کھول کے جڑے رہنے کا معیار صرف قرآن اور محمد و آل محمد اہلبیت علیہم السلام ہیں کہ جن کے ساتھ ہمیں  ہر شکل میں،  ہر صورت میں  جڑے رہنا ہے، اس میں کوئی ذرا بھر بھی  تبدیل نہیں ہونی چاہئے۔

سوال : ابھی اس گفتگو کو ایک اور جہیت میں آگے لے جائیں گے تاکہ جو شبہات ہیں وہ ذائل ہوجائیں وہ یہ کہ ایسے میں عوام  کی ذمہ داری کیا بنتی ہے، متعدین افراد  کی ذمہ داری کیا بنتی ہے اور  علماء کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔ اس کو تین حصوں میں تقسیم کر کے  سب سے پہلے ہم علماء کی ذمہ داری سے جاننا چاہیں گے کہ ان کے پاس ممبر ہوتا ہے، گفتگو کرنے کیلئے وقت ہوتا ہے  ان کا منصب ہوتا ہے ایسے میں  ان کی شرعی مسئولیت کیا  بنتی ہے ؟

ج)ہمیں اس حوالے سے ایک ہی اصول بیان کیاگیا ہے۔ قرآن نےکہا ہے کہ؛ ہر قوم کو  اپنے اپنے امام کے ساتھ مشہور کیا جائےگا[[3]]۔ایسے میں ہمیں دیکھنا ہے کہ  ہم کس عالم کے ذریعے سے اپنے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف  کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔اس پر ڈرامہ نہیں رچنا ہے عملی طور جڑنا ہے۔  ہمارے  ہاں ایک صاحب تھے وہ جلسے میں امام زمانہ عج کیلئے الگ کرسی رکھتے تھے وغیرہ۔اس پر مجھے ان  سےہمیشہ اختلاف رہتا تھا کہ  کیا آپ کو امام زمانہ عجل کے ساتھ رابطہ ہے۔جبکہ  امام زمانہ عج نے اس ملاقات کی دکان کو ہی بند کر کے رکھ دیا ہے یہ فرماکر کہ  جو بھی یہ دعویٰ کرے کہ   میں  امام سے ملتا ہوں وہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم امام زمانہ عج کے نائب مرجع تقلید مجتہد جامع شرائط کی رہنمائی میں امام زمانہ عج کے فرمانبردار رہیں۔جب حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل مبلغین علماء مجتہد جامع شرائط  کے ترجمان بن کر سرگرم رہیں یعنی ہم امام زمانہ عج سے  جڑے ہیں۔ اوراگر مراجع عظام کے درمیان کسی موضوع کو لیکر فتوا میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کے علمی پہلو کے ساتھ بیان کریں کہ د ومراجع میں کیوں فتوے میں اختلاف ہے یہ عام انسان کے سمجھ میں بھی آئے گا یہ اختلاف نور ہے کیونکہ اس  مرجع  کو خود ہی اپنے مقلد کی جگہ جواب دینا ہے۔ کیونکہ مقلد نے مرجع کو اس لئے پکڑا ہے کہ مرجع نے امام زمانہ عج  کوپکڑا ہے اور امام زمانہ عج نے  امام حسن عسکری  اور آپ نے امام علی النقی الھادی اور آپ نے امام محمد جواد  آپ نے امام علی الرضا آپ نے امام موسی کاظم آپ نے امام جعفر صادق آپ نے امام محمد باقر آپ نے امام علی زین العابدین آپ نے امام حسین آپ نے امام حسن آپ نے امام علی علیہم السلام اور آپ نے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پکڑا ہے۔ یعنی یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےبارہ اماموں کے ذریعے استنباط کرکے مرجع تقلید مقلد کے اختیار میں دیتا ہے اور قیامت میں جس کا  جواب اس مرجع تقلید کو اکیلے دینا ہے،  یہ مجتہد دوسرے مجتہد کے استدلال کی روشنی میں فتوا نہیں دےسکتا ہے، جب تک   نہ اس کیلئے یہ  تمام علمی  مراحل کے ذریعے خود ثابت نہ ہو ں۔ کیونکہ وہ کہہ رہا ہے  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ تمہے جواب دیتا ہوں۔

 ہم کیوں تقلید کررہے ہیں؟ہم اسلئے تقلید کررہے ہیں کہ  دراصل ہمیں اسلام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  اب یہاں پر ہمیں  کیا کرنا ہے تو کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں  نہیں ہیں،اور جو امامت و ولایت کا سلسلہ ہے جس سے اللہ نے ہمیں رسول اللہ سے جڑے رہنے کا راستہ بتایا ہے اسی امامت کے بدولت اجتہاد کا علمی راستہ  جو اہلبیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے جس کا ایک سلسلہ ہے اور یہی سلسلہ جو  ہمارے درمیان موجود ہے جس سے مجتہد جامع الشرایط حاصل ہوتا ہے اور وہ مرجع تقلید قرار پاتا ہے اس کے ذریعہ سے رسول اللہ تک جڑنے کے سلسلے کو تقلید کہا جاتا ہے۔مجتہد جامع شرائط کہتا ہے کہ جو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال پوچھنا چاہتے ہو وہ  مجھ سے پوچھو، کل میں  آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں تمہاری  طرف سے جواب دوں گا اورجس عمل کو میرے کہنے پر انجام دیا ہوگا اس عمل کا  ضامن بنتا ہو ں۔ تو اس طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ  وہ فقہی اختلاف  کتنی بڑی نعمت ہے ۔یہ ذمہ داری مبلغین و علماء کی بنتی ہے ۔

گفتگو کی دوسری نشنت:

سوال :ایک ایسے نوظہور گروہ جو امام خامنہ ای کی توہین کرتے رہتے ہیں کے بارے میں علماء کی ذمہ داری کیا ہے؟

ایک کالر:شیرازی کے بارے میں جانا چاہتاہوں؟

سید صادق شیرازی صاحب کا دعوی ہے کہ وہ مجتہد جامع الشرایط ہیں اس سے پہلے یہ دعوی  ان کےبڑے بھائی کرتے تھےجنہیں بعض مجتہد تسلیم کرتے ،جبکہ بعض نامی گرامی مراجع تقلید ان کے اجتہاد  کے بارے میں  شبہات  ظاہر کرتے تھے۔ البتہ ان کا گھرانہ  ہمیشہ سے تقریبا 200 سالوں سے نامی گرامی رہا ہے کیونکہ  ان کا جو علمی تعاون رہا ہے   خاص کر جو ان  کے جد اعلیٰ حضرت آیت اللہ العظمی مجدی شیرازی جنہوں نے تمباکو  حرام قراردیکر برطانوی سازش کو اس زمانے میں آج سے 150 سال پہلے ناکام بنایا تھا غیر قابل انکار امتیاز ہے اس گھرانے کا۔

ایک اورکالر :جو یہ علماء جنہوں نے اپنی ذات کے ساتھ یہ حلف اُٹھا لیا ہے ہمیں دین کی خاطر کام کرنا ہے دین کیلئے مرنا جینا ہے اس کی ہم نےمثال  عراق میں دیکھی  کہ علماء بارڈر پہ جاکے ،عمامہ پہن کے  اپنے ملک کو بچانے کے لئےفوج کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہےاور آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے سے پوری قوم اٹھ کھڑی ہو گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ داعش کو ذلیل و خوار کرکے وہاں سے نکالا گیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمای حق کے پاس بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور اگر وہ چاہیں وہ جنگ کا پاسہ پلٹ سکتے ہیں اگر سامنے امریکہ اور بڑی بڑی طاقتیں کھڑی ہوں ،ایران میں امام خمینی نے دو ہزار سالہ بادشاہت کو نیست و نابود کردیا تو برصغیر میں ایسے علماء حق کیوں نہیں ملتے اگر ہیں تو وہ قیام کیوں نہیں کرتے،ان کی خاموشی کی وجہ کیا ہے ؟

سوال : پہلے شیرازی کی وضاحت کریں ؟

ج ) یہ سید صادق شیرازی صاحب آیت اللہ العظمیٰ مجد  شیرازی کے پڑ پوتے ہیں۔ آیت اللہ مجد شیرازی  نے ایک بہت ہی انقلابی اقدام  کیا تھا  کہ اس زمانے میں  مرجعیت  کی سیاسی  طاقت کا جو مظاہر کیا تھا کہ  جو برطانیہ  کی یہاں  ایران کےساتھ  جو تمباکو معاہدہ ہوا تھا اور تمباکو کو  ڈھال بناکر جو سازشیں  رچی جارہی تھی اسے ناکام بنانے کیلئے جو حضرت آیت اللہ  مجدشیرازی نے فتوا دیا کہ تمباکو  حرام ہے جس پر  سارے لوگوں نے حتیٰ بادشاہ ایران نے بھی اس پہ بلافاصلہ عمل کیا اور  ہر فرد نے تمباکو پینا چھوڑ دیا اور درپردہ استعماری سازش ناکام ہوگئی ۔ اسی زمانے میں ہی حضرت آیت اللہ العظمیٰ مجد شیرازی  نے یہ جملہ فرمایا تھاکہ؛  "میں ڈر رہاہوں کہ استعمار کو مرجعیت کی  طاقت کا اندازہ ہوگیا، اب یہ مرجعیت کے اندر اثرورسوخ پیدا کرنے  کی کوشش کرکے انتقام لینے کی ضرور کوشش کریں گے "۔مگر بدقسمتی  کا عالم یہ ہے کہ ایک سو پچاس سال بعد  استعمار نے اسی آیت اللہ العظمیٰ مرزا مجد شیرازی  کے  ہی پڑ  پوتے کو استعمال میں لایا۔ اورجس مرجعیت کو  جو ایک بہت ہی عظیم طاقت عالم تشیع کی تسلیم کی جاتی ہے اسی پہ  حملہ اس گھرانے کے ذریعہ سے کیا جا رہا ہے۔

  دشمن بخوبی سمجھ گیا ہے کہ امام خمینیؒ نے ایک مرجع تقلید ہوکے کس طرح  اسلامی انقلاب کو وجود میں لایا ہے اور  آیت اللہ العظمیٰ حضرت سید سیستانی نے ایک جملے سے کس طرح عراق کو  بھی بچایا اور اس مرجعیت کے اختیارات کا بھی پتہ دیا ہے۔ اس لئے ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں گے  یہ مرجع ہے، وہ  مرجع ہے،  وہ ہے، یہ نہیں ہے وغیرہ کی ثقافت کو فروغ دے ۔اس  طرح مرجعیت کی قداست کو زیر سوال لانے کیلئے  فضا رچی جارہی ہے۔

 اگرچہ بعض لوگوں کو  یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے ، جسطرح میں نے اپنی مثال بھی دی  کہ میں خود ان بظاہران ملاؤں کو  صحیح سمجھ گیاتھا۔مگر اب میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ  یہ جناب شیرازی صاحب اس جال میں پوری  طرح  سے پھنسے ہوئے ہیں بلکہ سامراجی سازش کا حصہ بن چکے ہیں، نہیں تو میری گذارشات پر دھیان دیتے  یا کم سے کم میری  اس رپورٹنگ کو،تحریری شکایت کو چاہئے غلط ہی سمجھ کر، تہمت ہی سمجھ کر اس کاتسلی بخش جواب دینے کی کوشش  کرتے۔جو کہ انہوں نے نہیں کیا ،بلکہ لفافہ دے کر میرا منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں یہ جو شیرازی فرقہ بنا ہے اگرچہ ابھی تک یہ صادق شیرازی کو اپنا مراجع تقلید بتاتے  ہیں اور خود صادق شیرازی دبے الفاظوں میں کہتے  ہیں کہ:"میرا ان کےساتھ تعلق نہیں ہے"۔ مگر اب چونکہ ان کے بیٹے  نے  جو کھل کے  وہی زبان اختیار کی کہ جس سے  امریکی جرائم   اورسعودیہ جرائم کو چھپایا جائے اور نشانہ ایران کو بنایا گیا اور عالم تشیع میں تفرقہ پھیلانے کی کوشش کرکے ولایت فقہ کو فرعونیت قراردے دیا اور اس پر سید صادق شیرازی نے بیزاری کا اعلان نہیں کیا۔ تو    اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ  ابھی یہ شیرازی فرقہ پوری طرح سے ننگا ہوگیا ہے کہ یہ طاغوتی فرقہ ہے یہ امریکہ ،سعودیہ اوراسرائیل  کا پراکسی کنیڈیٹ ہے۔جو ابھی تک شیعہ مرجعیت سے  امریکہ کے اہداف  کو،اسرائیل کے اہداف اور وہابیوں کے اہداف کو جو زبردست چوٹ پہنچی ہے،اب اسی مرجعیت کا انتقام گھر کے اندر سے  لینا چاہتے  ہیں، اسی لئے انہوں نے شیرازی نام کو ڈھال بناکے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔

سوال:ان کے پاس طاقت کیا ہے ؟

ج)صرف  پیسہ ۔آپ دیکھئے کہ یہ شیرازی والے ایک چینل کے  اپ لینک کیلئے ماہانہ  ایک لاکھ ڈالر کا فیس دیتے ہیں اور ایسی ہی ان کی 20 چینلیں ہیں ، آپ ذرائع ابلاغ پر ان کی ایسی ہیوی  انوسمنٹ سے کیا سمجھ سکتے ہیں۔البتہ کبھی ان ہی استعماری مہروں کی طرف سے دھبے الفاظوں  میں ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ جس سے ان کے منابع کا پتہ چلتا ہے،حال ہی میں ایران کا ایک مخالف نے جو کہ مخلوع شاہ ایران کا حامی ہے نے ایک   ٹی وی ڈبیٹ  میں کچھ سٹلائیٹ چینلوں کا نام لے کے جو کہ اس شیرازی فرقے کے معروف چنلیں ہیں کے بارے میں  کہا کہ اسرائیل  ان چینلوں کی کتنی فنڈنگ کرتا ہے ۔

اس کے علاوہ موثق ذرائع میں یہ بھی پڑھنے کو ملا ہے کہ کویت کے جو دو بنک اکاؤنٹ بتائے جاتے ہیں جن کے بارے میں  کہاجاتا کہ یہ عوام کا پیسہ ہے،  لوگ اپنا خمس وزکات وغیرہ دیتے ہیں۔ پھر پتہ چلا ایک ہی اکاؤنٹ سے دونوں اکاونٹ چارج ہوتے ہیں،کوئی خمس و زکانت کا پیسہ نہیں ہے  اوروہ اکاونٹ چارج کرنے والا اسرائیل ہے کہ جس کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔

 ان کے پاس جو پیسے کی کمی نہیں ہے وجہ یہی ایک ذریعہ ہے،اسی لئے   ایک محدود ٹولہ ہونے کےباوجود  اتنے وسیع پیمانے پر موثر انداز میں  عالم تشیع میں اپنا  کردار ادا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔

سوال:جو ابھی نقوی صاحب (کالر)نے کہاکہ جو علماء کی مرجعیت کی طاقت اس وقت دنیا  نے دیکھی اوروہ ان کو دندان شکن جواب دیا عراق میں بھی اورانقلاب اسلامی نے  پوری دنیا میں،اس طاقت کی کس طرح حفاظت کرنی ہے؟

ج)ہم سب کو ولی فقیہ کا تابع رہنا ہے ، ہمارے نامی گرامی مسلمہ  مراجع عظام تقلید ہیں از جملہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی ،حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی، حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی، حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی ،حضرت آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سبحانی ہیں یہ زندہ مراجع عظام ہیں، دیکھئے کہ وہ ولایت فقیہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای کے بارے میں کیا بیان فرماتے ہیں،اس پر عمل کریں ۔

ایک کالر :علّامہ صاحب  ہمیں سمجھ نہیں آتی کوئی کہہ رہا ہے وہ  امریکہ کا ایجنٹ ہے کوئی کہہ رہا ہے وہ اسرائیل کا ایجنٹ ہے یا برطانیہ کا ایجنٹ ہے، ہم  لوگ علماء کرام ، ذاکرین اہلبیتؑ سے محبت کرنے والے ہیں ان کو کس طرح پہچانیں؟

ایک اورکالر : میں یہ کہناچاہتی ہوں کہ امریکہ کی شام میں کامیابی ہے اور شیعہ وہاں رسوا ہو رہے ہیں ۔

ج)میں پہلے اس بزرگوار سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ علماء کو پرکھنے کیلئے صرف یہی فرق کرنا ہے کہ جو آپ مجھے علامہ صاحب کہتے ہیں، مجھے ایک طالب سمجھنا ہے اور علّامہ کو علامہ، پھر آپ کو کوئی گمراہ نہیں کرسکے گا۔

آپ دیکھیں کہ جب سے ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا اور ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی ایک مجتہد جامع شرائط کے ہاتھ میں حکومت ہے اس کے پاس کتنے وسائل ہیں اور ایران جیسے اتنے امیر ملک کے وسائل اختیار میں ہیں مگراس کے باوجود بھی دیکھتے ہیں کہ یہ اسلامی حکومت وہ  سب کچھ نہیں کرپا رہی ہے کہ جو یہ صاحب شیرازی گروپ  والےجس شد و مد سے  کام کررہے ہیں۔ اس کیلئے وسائل کہاں سے آگئے ۔

جس کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس ولایت فقہ سے،اس اسلامی حکومت سے  کس کو تکلیف ہورہی  اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔

آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہی ایران امریکہ کا سب سے محفوظ مرکز تھا اور جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ، تو معلوم ہوا کہ یہاں امریکی سفارتخانہ، سفارتخانہ نہیں بلکہ جاسوسی کا گھونسلہ تھا، جہاں پر تمام سازشیں رچی جا رہی تھی۔یہی ایران میں بیٹھ کے ہوتی تھی کہ دنیا بھر  میں لوگوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جائےگا۔ جب  یہی  ان کا ہیڈ آفس ان سے چھینا گیا، ایک مرجع تقلید نے، ایک ولی فقہ نے انہیں یہاں سے نکال باہر کیا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا انتقام لینے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔اور حالات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ چوٹ امریکہ کو پہنچی ہے۔

 اورجو اس  کالربہن نے کہاکہ شام میں  شیعوں کی رسوائی ہوگئی ہے۔ تو اگر آپ  ایسا سمجھتے ہیں، ا ٓپ کی آنکھوں کا شکریہ کہ ایسا دیکھ رہی ہیں۔  آپ کو یہ نہیں نظر آرہا ہے کہ امریکہ نے کتنے سالوں سے مسلمانوں کا خون بہایا، مسلمانوں کے افکار کو گمراہ کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا،لیکن شیعوں کی سنیوں کی مدد کرنا کھٹکتا ہے۔

البتہ وہاں کے شامی عوام عینی شاہد ہیں،شامی عوام اس حقیقی دشمن  امریکہ کے ان سازشوں کو  دیکھ رہے ہیں، جو یہ ڈرامہ والی بات بتا رہے ہیں، جو دہشتگرد جن کو امریکہ سب سے سفسٹکیٹڈ ویپن پروائیڈ کرتا ہے،پیشرفتہ ہتھیار فراہم کرتا ہے وہ نہتے عوام کا قتل کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ حکومت نے کیا  ہے۔ حکومت کو جب اتنا اپر ہینڈ /بالادستی ہے اورحکومت کےساتھ عوام ہے اوردہشتگردوں کےساتھ صرف امریکہ ،اسرائیل اورسعودی عرب ہے۔یہ ابھی شام میں سعودی عرب ،امریکہ اوراسرائیل کی حکومت شام سے جنگ ہے، عوام سے جنگ ہے۔ اس کی اصلی تصویر تب کھل جائےگی جب یہ ابھی حکومت کی80سے85 فیصد کامیابی حاصل ہوگئی ہے اور ابھی امریکہ اوران کے اتحادیوں کی جو وہاں حاضری  ہے وہ 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہے  جب وہ بھی ختم ہوگی پھر آپ ایک بار پھر رابطہ کرکے دیکھیں کہ جن شیعوں نے یہ کامیابی دلائی اپنے مشورے سے اپنی رہنمائی سے،اپنی جان فشانی سے کیاوہ  شیعہ رسوا  ہوئے ہیں کہ یا امریکہ رسوا ہوگیا ہے ۔

 ایک اورکالر :آپ کو پتہ ہے کہ آج کےد ور میں میڈیا کتنا اہم ہوگیا ہے اورمیڈیا  جس کے ہاتھ میں وہی کامیاب  ہوتا ہے پروپیگنڈے میں بھی ہرقسم کے چیز سے کامیاب ہوتا ہے میڈیا کی وجہ ہے کیم ایران اور پاکستان مل  کر اپنا آزاد میڈیا قائم نہں کرسکتے ہیں؟

ایک اورکالر :کیا ہم سب  کو صرف تکلیف ومصیبتیں برداشت کرنی ہیں ہم دشمن پر غالب کیوں نہیں آسکتے ہیں،ان حالات کے چلتے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

ج)اس میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ  کسی پہ کوئی ٹیگ تو نہیں ہے۔ جس طرح میں نے پہلے بھی اشارہ کیامعیار یہ ہے کہ جو قرآن نے دیا  ہے "فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ"میں جب طاغوت کا مخالف ہوں تو صحیح، جب میں طاغوت کا ہم صدا ہوں ،ہم نوا ہوں، شعوری طورپہ غیر شعوری طورپہ میں طاغوتی ہوں، چاہئے میں شیعہ ہوں، چاہئے میں سنی ہوں، چاہئے میں غیر مسلمان ہوں۔ جو کوئی بھی اس معیار سے دیکھے تو مسائل کا سمجھنا آسان ہوگا اورجہاں تک شیعوں کا تعلق ہے  خود علمای تشیع کے درمیان اپنے عالم پہ خاص نظر رکھی  جائے کہ اس نئے فرقے  جو امریکی سازشوں سے پروان چڑھا ہے اور طاغوتی عزائم کا شیلڈ بن کے شیرازی گروپ اُبھرا ہے اور  اس نے جو حرکات عملی طورپر دکھائی ہیں ان سے اگروہ عملی طورپر اعلان برائت نہیں  کریں گے  اورمصلحت سے کام  لیں گے ایسے علماء سے احتیاط سے کام لیں۔ کیوں؟  کیونکہ ان کے طریقے کارسے ایمان  اور اعمال پہ متاثر  ہونے کا خدشہ ہے اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔



[1] امامیہ اثناعشریہ: 20فرقوں از جملہ(شیخیہ-کاملیہ-حسنیہ-باقریہ-حاضریہ-ناووسیہ-عماریہ-افطحیہ/فطحیہ-اسحاقیہ-ھشامیہ-زراریہ-نعمانیہ-واقفہ/فاقفیہ-قطعیہ-احمدیہ-مؤلفہ-محدثہ-یونسیہ-جعفریہ-عسکریہ) میں تقسیم ہیں۔

غلاۃ:15 فرقوں( از جملہ؛سائبہ-بیانیہ-مغیریہ-منصوریہ-جناحیہ- خطابیہ-مخمسہ- غرابیہ- ذمیہ-مفوضہ/تفویضیہ-حربیہ-غلبائیہ-نصیریہ-دروزیہ-علی الہیان) میں تقسیم ہیں۔

 کیسانیہ: ان کے مختاریہ اور ہاشمیہ کے ساتھ کل ملاکے آٹھ فرقے)ہیں۔

زیدیہ:انکے15فرقےہیں۔(از جملہ؛جارودیہ-سلیمانیہ/جریریہ-بتریہ/ابتریہ-نعیمیہ-صباحیہ-یعقوبیہ-عجلیہ-مغیریہ-مخترعہ-مطرفیہ-دکینیہ-خشبیہ-حسینیہ-ادریسیہ قاسمیہ)ہیں۔

اسماعلیہ: کے23فرقے ہیں۔(ازجملہ؛باطنیہ- قرامطہ-مبارکیہ-میمونیہ-شمطیہ-خلفیہ-خلطیہ-برقعیہ-تعلیمیہ-سبعیہ-مہدویہ-مستعلویہ-نزاریہ-صباحیہ/حمریہ-ناصریہ-ابوسعیدیہ/جنابیہ-غیاثیہ-خنفریہ-دروزیہ-بہرہ-آغاخانیہ وغیرہ

[2] اِنَّ الْحَقَّ وَ الْباطِلَ لا یُعْرَفانِ بِاَقْدارِ الرِّجالِ، اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ اَهْلَهُ وَ اعْرِفِ الْباطِلَ تَعْرِفْ اَهْلَهُ [ روضة الواعظین ، ص 31.]

[3] یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴿الإسراء، 71

برچسب ها شیرازی فرقہ

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی