سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

حضرت فاطمہ (س) ولایت و مقاومتکی تحریک کی بانی شہیدہ

 اردو مقالات مکالمات کتابخانہ اھلبیت ع اھلبیت ع حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ھدایت ٹی وی کے ساتھ

حضرت فاطمہ (س) ولایت و مقاومتکی تحریک کی بانی شہیدہ

 اسلام میں رشتہ داری اولویت نہیں رکھتی بلکہ تقوی اولویت رکھتا ہے اسلئے تقوی کا تقاضا یہی بنتا تھا کہ اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر حق کی آواز بلند کرے  اور خدا، اسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدا کی طرف سے ترسیم شدہ راہ مستقیم کی حفاظت کرنے کی راہ میں مقاومت کا محاذ کھول دیا جس راہ میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی اوراس راہ کی بانی شہیدہ قرار پائی ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران  ایام فاطمیہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

شہیدہ ولایت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولایت مداری کیا تھی ؟

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ[1]۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى [2]

خدا، اسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اوصیای رسول اللہ علیہم صلوات اللہ اور خدا کی طرف سے ترسیم شدہ راہ مستقیم کی حفاظت کرنے کی راہ میں مقاومت  کرنے والی بانی شہیدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے ہمارے زمانے کے امام اور نبی اخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری وصی حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں بالخصوص اور آپ کے نائب ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای مدظلہ العالی اور جملہ مراجع عظام تقلید اور دنیا بھر کے سبھی با بصیرت وہ انسان جو سیدۃ النساء العالمین فاطمہ الزہرا  سلام اللہ علیہا  کی شخصیت سے آشنا ہیں اور ان سے عقیدت رکھتے  ہیں اور اس مکالمے کو دیکھنے ، سننے اور پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض تسلیت کرتا ہوں۔

ولایت کی پہلی شہیدہ کے بارے میں غور و فکر کرنا امت کیلئے ایک کلیدی موضوع ہونا چاہئے۔ کیونکہ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا امت کو سیاسی مسائل کے بارے میں اندیکھی کرنے سے روکتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کیلئے سیاست ؛

·         وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ (النحل/113)

·         لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولًا (آل عمران/164)

·         وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ (البقرة/101)

یہاں ان تین آیات میں ہمیں "رَسُولٌ مِنْهُمْ"،"فِیهِمْ رَسُولًا"،"رَسُولٌ ...مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ"۔یہ ؛مِنْهُمْ/فِیهِمْ/مَعَهُمْ۔اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ سیاست و حکومت الہی انبیاء اور اصیای انبیاء کا وظیفہ ہے۔ یہ نعرہ آف دی پیپل، بائی دی پیپل ،فار دی پیپل۔ جو آج کل سیکولر دنیا میں دیا جا رہا ہے یہ کھوکھلا نعرہ ہے۔ اللہ کے فرمان کے مطابق مذہب و حکومت ایک سکے کے دو پہلو ہیں جس میں حاکم و لیڈر ان ہی لوگوں میں سے ہے، ان لوگوں کے درمیان ہی ہے اور ان لوگوں کے ہی ساتھ ہے"مِنْهُمْ"،فِیهِمْ،"مَعَهُمْ"۔البتہ ایک قاعدے اور قانون کے ساتھ۔ جس طرح اللہ نے طبیعت پر ایک قانون حاکم رکھا ہے اسی طرح معاشرے کیلئے بھی ایک قاعدے اور قانون کو بیان کیا ہے۔لیڈر کا "مِنْهُمْ"،فِیهِمْ ،"مَعَهُمْ" ہونا اسلئے ہے کہ کل قیامت کے دن اس لیڈر کو شہادت دینی ہے۔ وہ اس قابل ہونا چاہئے کہ کل قیامت میں وکالت کر سکے شہادت دے سکے۔

قرآن نے جہاں کسی کو سزا دینے کی بات کی ہے اس سزا کی دلیل بھی پیش کی ہے اور جس کو جزا دینے کی بات کی ہے اس جزا کی دلیل بھی بیان فرمائی ہے۔

اگر کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دی ہے اس کی دلیل بیان کی ہے کہ اس میں شفاعت کرنے کی اجازت کیوں ہے۔

جہاں پر کسی  کی نہ دعا نہ شفاعت و وساطت قبول کی ہے وہاں اس کی دلیل بھی پیش کی ہے ۔

اور جہاں کسی کے چھوٹے جرم سے لیکر بڑے جرائم بخشنے کی بشارت دی ہے وہاں اس کی دلیل بھی بیان کی ہے ۔

اور حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا امت میں یہ شعور زندہ کرنا چاہتی ہے کہ مسائل کو رشتہ داری اور روابط کے معیار پر نہیں پرکھو بلکہ قرآن معیار و میزان ہے جس کے قواعد و ضوابط کے مطابق عمل ہونا چاہئے نہ کہ اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق ۔اور اپنے ذوق و سلیقے کو خدا کے قواعد و ضوابط پر فدا کرنا تقوی کہلاتا ہے اور تقوی انسان کی انسانیت کا جوہر ہے ۔

اور جس طرح سورہ نحل آیت 125 میں ہمیں دعوت دینے کے اصول کو بیان کیا گیا ہے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اس کا معراج پیش کیا۔ ارشاد الہی ہوا ہے:

  ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ(النحل/125)

اللہ کی راہ میں حکمت اور نیک موعظہ کے ساتھ دعوت دو اور نیکی کے ساتھ مجادلہ کرو۔

اور اس آیت میں جو آفاقی پیغام ہے جس میں مذہب و سیاست کے جملہ رموز چھپے ہوئے ہیں از جملہ یہ کہ موعظہ ، مجادلہ اور حکمت کو سمجھ کر چلنا ہے ۔

 موعظہ اور مجادلہ کے ساتھ لفظ حسنہ  کا استعمال اور حکمت میں بغیر حسنہ کے ساتھ بیان کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ موعظہ غلط بھی ہوتا ہے اور مجادلہ بھی  غلط  ہوسکتا ہے۔ اسلئے خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ موعظہ کے وقت غلط موعظہ نہ ہونے پائے اور مجادلہ کے وقت غلط مجادلہ نہ ہونے پائے اور جس کے لئے میدان کھلا چھوڑا گیا ہے وہ ہے حکمت یعنی عقل۔

عقل ہر انسان چاہے وہ جس قوم و قبیلے، جس مذہب و مکتب ، جس رنگ و نسل کا ہو اسکے لئے عقلی معیار مساوی ہیں۔

اور حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا نے خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی اور امت کے امام کے بارے میں سطحی اجتہاد کو غلط موعظہ اور غلط مجادلہ  قرار دیتے ہوئے عقلی اور نقلی دلائل پیش کرکے امت کو خبردار کیا۔

جس طرح خود اللہ نے خبردار کیا ہے  اپنے لیڈر کے انتخاب میں خبردار رہا کرو میں جب قیامت کے دن حساب و کتاب لوں گا امت کے لیڈر سے شہادت طلب کروں گا:

وَیوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ أُمَّةٍ شَهِیدًا عَلَیهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَهِیدًا عَلَى هَؤُلَاءِ وَنَزَّلْنَا عَلَیکَ الْکِتَابَ تِبْیانًا لِکُلِّ شَیءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِینَ(النحل/89)

اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بناکر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے ۔

تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر امت کیلئے نبی آخر الزمان کا وصی ہونا ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس سے فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا انکھیں نہیں چرا سکتی تھی۔اگر کسی نے امامت کے معیار کو رشتہ داری قرار دیا کہ "داماد" افضل ہے یا "سسر "تو اگر حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا بھی رشتہ داری کی نظروں سے دیکھتی کہ یہ موضوع میرے شوہر سے متعلق ہے تو  اس لئے میری ذمہ داری نہیں بنتی ۔ لیکن  چونکہ اسلام میں رشتہ داری اولویت نہیں رکھتی بلکہ تقوی اولویت رکھتا ہے اسلئے تقوی کا تقاضا یہی بنتا تھا کہ اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر حق کی آواز بلند کرے ۔ اور خدا، اسکے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدا کی طرف سے ترسیم شدہ راہ مستقیم کی حفاظت کرنے کی راہ میں مقاومت کا محاذ کھول دیا جس راہ میں آپ کو شہادت نصیب ہوئی اوراس راہ کی بانی شہیدہ قرار پائی ۔موضوع یہ ہے ، اس لئے آپ کو ولایت کا بانی شہیدہ کہا گیا ہے۔

 حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا کی شہادت کیوں اور کیسے ہوئی؟

یہ بڑادردناک سوال ہےکہ کیوں کر  فاظمہ زہراسلام اللہ علیہا جیسی شخصیت کہ جسے آنحضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پورے دور میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اہمیت اور محور ہونے کے بارے میں بیان کیا  ہے اوروہ ایسا کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ مجھ پر ایسی مصیبتیں ڈھائی گئی کہ اگر وہ دن پر پڑے  تو رات میں تبدیل ہو اور اگر راپ پر پڑے تو دن ہو جاتا۔تو اس سے  پتہ چلتا ہےکہ اس مختصروقت میں 75 دن یا95 دنوں میں کیاکچھ فاطمہ زہرا سلام علیہ کےساتھ سلوک روا رکھاگیا کہ جس سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو اتنی مصیبتیں جھیلنے پڑی اورآپ کو وصیت کرنی پڑی کہ میری قبر کو پوشیدہ رکھاجائے اور میرے جنازے میں وہ لوگ شریک نہ ہوں۔

میں ڈرہا ہوں کہ  وقت شائد اجازت نہ دے کہ میں ان پہلوں کو اُجاگر کروں کہ جہاں امت بیدار ہوجائے کہ کہاں پر ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کےساتھ خیانت کی  کہ اتنے مختصروقت میں فاطمہ زہرا سلام علیہ کو اتنی مصیبتیں اٹھانی پڑی ۔

یہ [سیرت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انحراف پیدا کرنے کا] ابتدائی مرحلہ تھا کہ جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے محسوس کیا اور[ آپ کو] دیکھنا پڑا۔اگرچہ امام حسین علیہ السلام کے نام  سے تقریبا دنیا کے اکثر اہل شعورانسان آشنا ہیں اور ان کو واقعہ کا پتہ ہے [ لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اسی دن ایسے زمانے سے خبردار کررہی تھیں] یہ وہی [احتجاج] تھا کہ حق وحقیقت کو کیسے چھپایا جائےگا۔ اگر ابھی تک دنیا گمراہ ہے۔حق و حقیقت کے لئے سرگراں ہیں۔ فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا اسی دن اس کے لئے مرثیہ سرائی کرتی  تھی، کہ جو علم ہے جو ماہرین ہیں ،جو عقلمند اور ہدایت یافتہ انسان کامل ہیں جن کے ہاتھوں میں امور و قیادت ہونی  چاہئے۔جس طرح اللہ نے قاعدہ قانون ہرذرے کیلئےحاکم بنارکھا ہے معاشرے کو چلانے کیلئے بھی ایک اصول و قانون قائم کیا ہے اسے منحرف کیاجارہاہے۔"أُمَّةً وَسَطًا" جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کو امتوں کا میزان و معیار درمیانی امت قرار دیا گیا ہے  اس سے منحرف کیا جا رہا ہے۔اگر آج ہم یمن میں مظلوموں کی آہ  و بکا سن رہے ہیں۔ یا ہم دنیا کے  کسی اورملک میں مظلوموں کی آہ و فغاں سنتے ہیں ،یہ دراصل وہی نعرہ ہے جو  فاطمہ زہرا سلام  اللہ علیہا  کا نعرہ ہے وہ اس دن چلا رہی تھی کہ کیا کچھ کیا جائے گا کہ  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بدل کے ایک نئی سیرت قائم کی گئی ہے اس سے انسان کو کیا جھیلنا پڑےگا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس کو دیکھ رہی تھی اور اسی پر نوحہ کناں تھی ۔اورجو ہر زما نے میں مسلمانوں کی حالت رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ جس کے بارے میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کہتی ہیں کہ مجھ پر وہ مصیبتیں ڈھائی گئی کہ اگر دن پر ڈھائی جاتی رات میں تبدیل ہو جائے۔ وہ اپنے اقتدار کی بات نہیں کررہی تھی۔ مصیبت یہ ہے کہ[ولایت کو نہیں سمجھتے پائے ہیں] جب ہم کوئی گناہ کریں تو اہلبیتؑ کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور یہ تکلیف کیوں ہوتی ہے[اسلئے] کہ ہم کو اللہ نے جنت کیلئےبنایا ہے ہم اپنے آپ کو جہنم کیلئے تیار کررہے ہیں یہ اہلبیت ؑ کیلئے مصیبت کا مرحلہ ہے۔ اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمارے [انسانیت کے]نسبت کتنی فکر مندتھی۔ مگر اسکے باوجود ہم نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فرمارہی ہیں کہ مجھ پراس مختصر وقت میں  جومصیبتیں   پر ڈھائی گئی اگردن پر ڈھائے جاتے  تو رات ہوجاتی۔

 تو یہ اتنا سنگین  مرحلہ اورسوال ہےکہ فاطمہ زہرا سلام علیہ سے کیاا نتقام لینا چاہتے تھے کہ جب   اپنے اس چہر ےکو چھپانے کیلئے  دوسرے دن آئے وہ  لوگ جنازے میں شرکت کرنے کیلئے اور  ان سے کہاگیا کہ جناب ان کی تدفین  تو ہو چکی  ہے۔ کہاکہ وہ کیسے ہوسکتا ہے!کیونکہ وہ جانتے تھےکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معیار قراردیا ہے اللہ کی رضا کیلئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کیلئے ،فاطمہ  کی رضاکو محور قراردیاہے،اب لوگوں کو کیامنھ دکھائیں۔ تو کہا کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے اگرہمیں  نبش قبر بھی کرنا پڑے ہم پھر سے نماز جنازہ پڑھیں گے۔ اورجب حضرت علی ؑ تک یہ بات پہنچی کہاکہ اگر میں نے امت کی بقاء و اتحاد کیلئے سب کچھ قبول کیا مگر علی ؑ یہ کبھی برداشت نہیں کرےگا کہ علی ؑ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی فاطمہ زہر ا سلام علیہ کی قبر کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھےگا ۔تو مولاؑ جنت البقیع میں زرہ پہن کے آئے۔ جبکہ اس کی پہلے سے ہی تدبیر  بھی کر چکے تھے حضرت علی علیہ السلام نے ایک قبر نہیں کھودی تھی بلکہ 40 قبریں کھودی تھی۔ تو کیا کرنا چاہتے تھے یہ لوگ؟ ۔

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو غسل دیتے ہوئے علی مرتضیٰ ؑ چلااٹھے  فاطمہ! مجھ سے کیوں نہیں کہا کہ دروازے اوردیوار کے بیچ میں جسم اطہر اسقدر چور چور ہوا ہے۔ دروازے اور دیوار کے بیچ "فاطمہ" کا عالم۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا علی مرتضی علیہ السلام کو دُکھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی ۔جو علی مرتضی علیہ السلام کی اس حوالے سے مرثیہ پڑھتے ہیں  تو پتہ چلتا ہے کہ  فاطمہ زہرا سلام اللہ  علیہا نے مولاؑ کےسامنے یہ بھی اظہار نہیں کیا کہ آپ کی پسلیاں چور چور ہو گئی ہیں۔ مگر غسل کے وقت مولا ؑ نے یہ دیکھاکہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نہ صرف یہ کہ آپ کے بطن میں "محسن" کو شہید کیاگیا مگر خود فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو کیاجھیلنا پڑا، کس قدر جسم داغدار ہوچکا تھا ۔

لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ(الأعراف/44)...وَسَیعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ(الشعراء/227)

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی