سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

چار شعبان ولادت حضرت ابوالفضل العباس(ع)

 اردو مقالات اھلبیت ع اھلبیت ع مذھبی شعبان حضرت عباس (ع)

چار شعبان ولادت حضرت ابوالفضل العباس(ع)

چار شعبان ولادت حضرت ابوالفضل العباس(ع)

نیوزنور: امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی شھادت کے بعد کسی لمحہ بھی اپنے اماموں کی ہمراہی اور یاری کرنے سے غافل نہ رہے اور انکے حفاظت کار تھے ۔ حضرت عباس (علیہ السلام) کی وفاداری اور فداکاری عاشور کے دن اپنے اوج کو پہنچی ـ

عالمی اردو خبررساں ادارہ نیوزنور:حضرت ابوالفضل العباس بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) 4 شعبان سن 26 ھ کو جناب عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے (1)۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے 

آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام جو کہ " ام البنین " کے نام سے مشھور ہے۔اس نامدار خاتون سے  رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وصی ،حجت خدا امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابیطالب (علیہ السلام) کے 4 فرزند عباس، جعفر، عثمان ، اور عبداللہ تھے اور چاروں بھائی اپنے وقت کے امام حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی یاری کرتے کرتے یزید بن معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں دس محرم کو کربلا میں شھید ہوے ۔ (2)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن امیر المومنین (علیہ السلام) نے اپنے بھائی عقیل بن ابیطالب  سے فرمایا: تم عرب نسل کے عالم ہو ، میرے لۓ ایسی خاتون کو انتخاب کرو جس سے دلیر ، طاقتور اور جنگجو فرزند پیدا ہوں ۔

عقیل نے انساب عرب اور عرب کی شایستہ اور لایق عورتوں کے  بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے بھائی امیر المومنین (علیہ السلام) کو مشورہ دیا کہ حزام کلبی کی بیٹی فاطمہ ام البنین کے ساتھ شادی کرے، کیونکہ ان کے باپ دادا عربوں میں نہایت شجاع اور دلیر ہیں ۔

امیر المومنین (علیہ السلام) نے بھی بھائی عقیل کے مشورہ پر ام البنین کے ساتھ شادی کی اور اس سے چار فرزند شجاع اور دلیر ہوے ۔ (3)

حضرت عباس (علیہ السلام)  رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سید اوصیاءامیر المومنین علی (علیہم صلوات اللہ) اور اپنی فھیم والدہ کے آغوش میں پرورش پائی اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے اور تیسرے وصی حضرات  امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) جیسے بھائیوں کے ساتھ  زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ساتھ رہے ۔ جب امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی  عوامی خلافت کا آغازہوا حضرت عباس (علیہ السلام) دس سال کے تھے اور اسی سن میں جنگ میں شرکت کرکے فعال کردار ادا کیا۔ ایک ماھر جنگجو کے مانند جنگ کیا ـ

امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی شھادت کے بعد کسی لمحہ بھی اپنے اماموں کی ہمراہی اور یاری کرنے سے غافل نہ رہے اور انکے حفاظت کار تھے ۔ حضرت عباس (علیہ السلام) کی وفاداری اور فداکاری عاشور کے دن اپنے اوج کو پہنچی ـ

کربلا میں حضرت عباس (علیہ السلام) نے ایک نرالی تاریخ رقم کی ، رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے وصی اور وقت کے امام حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے فوج کے قابلترین اور ماہرترین سپہ سالار اور علمدار تھےاور آنحضرت کو بھی آپ سے نہایت محبت تھی اور آپ کے مشورے پر عمل کرتے تھے ـ

عاشورا کے عصر کو جب شمر بن ذی الجوشن ، نے حضرت عباس اور ان کے بھائیوں جعفر ، عثمان ، اور عبداللہ ، کے لۓ امان نامہ بھیجکر چاہا کہ امام حسین (علیہ السلام) کو چھوڑ کر عمر بن سعد کے ساتھ مل جاۓ یا دونوں کو چھوڑ کر وطن واپس چلے جائیں ـ حضرت عباس اور انکے بھائیوں نے شمر کے اس دعوت کو ٹھکرایا اور حضرت عباس نے کہا:تیرے ہاتھ ٹوٹیں اور تیرے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو ـ اے خدا کے دشمن کیا تم ہمیں حکم کرتے ہو کہ امام حسین (علیہ السلام) کی مدد نہ کریں اور اسکے بدلے ملعون اور اسکے اولادوں کی اطاعت کریں ؟ کیا ہمیں امان ہےاور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کیلۓ امان نہیں ـ (4)

اسی طر ح جب عاشور کی رات امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے تمام ساتھیوں سے کہا کہ رات کے اندھیرے کا سہارا لے کے یہاں سے چلے جاو اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاو دشمن کامعاملہ صرف  مجھ سے ہے اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ـ اس وقت سب سے پہلے حضرت عباس (علیہ السلام) نے اپنی جانثاری اور وفاداری کا اعلان کیا۔ عرض کی اے امام ! کس لۓ آپ کو چوڑ دیں ؟ کیا آپ کے بعد زندہ رہیں ؟ خدا نہ کرے ہم آپ کو چھوڑکر دشمنوں کے مقابلے میں آپ کو اکیلا چھوڑیں ـ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور اپنی آخری سانس تک آپ کی حمایت کریں گۓ ـ

حضرت عباس (علیہ السلام) کے بعد امام حسین (علیہ السلام) کے دوسرے سارے ساتھیوں نے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ـ (5)

بحر حال ، اس عظیم انسان نے دسویں محرم کو قربانی اور فداکاری کی عظیم اور بے نظیر تاریخ رقم کی اور جب تک زندہ تھے امام حسین (علیہ السلام) پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دی اور خمیہ گاہ کی طرف دشمن ترچھی آنکھ سے بھی حضرت امام حسین (‏علیہ السلام) کے خیموں کی طرف دیکھنے کی جرئت نہ کر سکا اور جب بچوں کیلۓ پانی لینے گۓ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوۓ ۔ جب فرات سے پانی بھر کر واپس لوٹ رہے تھے دشمن نے پیچھے سے وار کرکے دائنا اور پھر بائنا بازرو قلم کیا اور چاروں طرف تیر باران کیا گیا ایک تیر آنکھ میں پیوست ہوا اور سرمبارک پر جب شدید ضرب لگا گھوڑے سے زمین پرگر اے گئے اور شمشیر، نیزے اور تیروں کی نوکوں نے حضرت کے بدن کو گھیر لیا ـ

اس حال میں عباس بن علی (علیہما السلام) نے امام حسین (علیہ السلام) کو پکارا !یا حسین (علیہ السلام) مجھے پالے!

امام حسین (علیہ السلام) جب اپنے بھائی کے پارہ پارہ بدن  کے پاس پہنچۓ ، نہایت متاثر اور غمگین ہوے ان کی جدائی پر رو رہے تھے اپنے کمرپر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ألآن اِنْکَسَرَ ظَہْری وَ قَلّت حیلَتی؛ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور تدبیر اتمام کو پہنچ گئی ـ (6)

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے وصی حجت خدا حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام)  جو کہ کربلا میں حاضر تھے اور اپنے چاچا عباس (‏علیہ السلام) کی بے نظیر فداکاری اور مجاھدت کو نذدیک سے دیکھا تھا ، انکی فداکاری اور معنوی مقام کے بارے میں فرماتے تھے : رَحَمَ اللہ العبّاس، فَلَقَدْ آثَر، و أبلی، و فدی اخاہ بنفسہ حتّی قطعت یداہ، فابدلہ اللہ (عزّ و جلّ) بہما جناحین یطیر بہما مع الملائکہ فی الجنّہ، کما جعل لجعفر بن ابی طالب(ع)، و انّ للعباس عند اللہ (تبارک و تعالی) منزلہ یغبطہ بہا جمیع الشّہداء یوم القیامہ ـ (7)

یعنی :خدا میرے چاچا عباس (علیہ السلام) کو رحمت کرے کہ اپنے آپ کو اپنے بھائی پر فدا کیا یہاں تک کہ دونوں بازوں قلم ہوے اور اللہ تعالی نے ان دوہاتھوں کے بدلے دو پر دیۓ جن سے وہ جنت میں اڑتے ہیں جسطرح انکا چاچا جعفر بن ابیطالب (علیہما السلام) کو دو پر عنایت ہوے ہیں ۔ بار گاہ الہی میں حضرت عباس (علیہ السلام) کا ایسا مقام اور ایسی فضیلت ہے کہ ہر شھید اسکی آرزو کرتا ہے  ـ

حضرت عباس (علیہ السلام) 34 سال کی عمر میں شھید ہوۓ اور آپ کا ایک چھوٹا فرزند تھا جن کا نام" عبید اللہ " تھا ـ ان سے آپ کی  نسل با برکت آگۓ چلی  ـ (8)

 (ترجمہ و تحقیق: عبدالحسین)

 

حوالہ:

1- مستدرک سفینه البحار (علی نمازی)، ج5، ص 211

2- الارشاد (شیخ مفید)، ص 342؛ منتهی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 187

3- منتهی الآمال، ج1، ص 187

4- منتهی الآمال، ج1، ص 337

5- الارشاد، ص 443؛ منتهی الآمال، ج1، ص 337

6- منتهی الآمال، ج1، ص 385

7- امالی (شیخ صدوق)، ص 373

8- منتهی الآمال، ج1، ص 189

 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی