سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

شیرازی فرقے کے بارے میں سارے تانے بانے/لندن کے امام بارے میں یہودی کیا کرتے ہیں؟تصویروں کے ساتھ

 اردو مقالات مذھبی سیاسی لندنی امریکی تشیع

شیرازی فرقے کے بارے میں سارے تانے بانے/لندن کے امام بارے میں یہودی کیا کرتے ہیں؟تصویروں کے ساتھ

شیرازی فرقے کے بارے میں سارے تانے بانے/لندن کے امام بارے میں یہودی کیا کرتے ہیں؟تصویروں کے ساتھ

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی ایک رپورٹ کے مطابق ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای نے17اگست2017کو فرمایا؛ ہم اس تشیع کو کہ جس کا مرکز و منبع لندن ہے قبول نہیں کرتے ؛ یہ وہ تشیع نہیں ہے کہ جس کی ائمہ اطہار ؑ نے تشہیر کی تھی  اور جس کا مطالبہ کیا تھا ۔ وہ شیعیت کہ جس کا مقصد اختلاف ایجاد کرنا ہے ، جس کا مقصد اسلام میں دخل اندازی کرنے کی دشمن کی سازش کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے ، یہ تشیع نہیں ہے ، یہ انحراف ہے ۔

 اکتوبر سال 2017 میں  لندن کے گولڈرس گرین[Golers Green] علاقے میںصہیونی تحریک "تبلیغ اسرائیل "کی مدد سے ایک مسجد اور امام باڑہ بنانے کا موضوع  برطانوی ذرائع ابلاغ  میں کافی مشہور رہا۔

چند ماہ قبل لندن کے محلہ گولڈرس گرین کے یہودیوں نے   اجتماعی صورت میں  دستخطی مہم چلا کر "الرسول الاعظم "نامی امام باڑہ  کی تعمیر  پر مخالفت کا اظہار کیا تھا ، لیکن صہیونیوں کی ایک تنظیم "اسرائیلی تبلیغی تحریک"   نے اس امام باڑے کو دیکھنے کے بعد  یہودیوں کو اطمینان دلایا کہ یہ امام باڑہ کسی بھی طریقے سے ان کے لئے باعث خطر نہیں ہے۔

اس تحریک کے رئیس اور بانی جوزف کوھن نے خود جاکر  خصوصی طور پر اس امام باڑے کا دورہ کیا اور کہا کہ  صہیونیوں کو چونکہ اطمینان ہو گیا ہے کہ یہ مرکز ایران کی طرح نہیں ہے ، تشیع خمینی کی مانند نہیں ہے ، اور تشیع شیرازی سے وابستہ ہے  لہٰذا ہم اس کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں ۔ کوھن نے امام باڑے کی تعمیر کے مخالف ۶۰۰۰ یہودیوں سے کہا :

یہ جگہ آیت اللہ خمینی سے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ آیت اللہ شیرازی سے تعلق رکھتی ہے ، لہٰذا اس کا یوم قدس سے کوئی ربط نہیں ہے ، ہم نے جن لوگوں سے ملاقات کی وہ بہت خوش مزاج اور مہربان تھے  اور انہوں نے ہمارا استقبال کیا ۔

اور جوزف کوھن کا یہ جملہ درست ہے کہ "لندنی شیعہ" چونکہ" خمینی  شیعہ" جیسے نہیں ہیں  لہٰذا انہیں کام کرنے کی آزادی دی جائے ۔  در اصل بات روشن اور واضح ہے کہ یہ جمہوری اسلامی کے نظریات کا مد مقابل نعم البدل تشیع ہے ۔ 

اور اس میں صہیونیوں کے  کون سے اسٹریٹیجک اہداف ہو سکتے ہیں ؟

جب  لندن  میں یاسر الحبیب کی رہبری میں اس طرح کی فرقہ سازی کی طرف دیکھا جائے ، تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ انگلینڈ کی حکومت کی جانب سے اس فرقہ کو مکمل آزادی اور چھوٹ  دی گئی ہے۔ ایران میں مقیم ایک عراقی تجزیہ نگار سید رضا قزوینی  (الغرابی)نے ،  لندن میں "فدک الصغریٰ" نامی نئے علاقے  پر ایک رپورٹ میں اپنے ٹیلیگرام چینل میں لکھا تھا:

شہر فدک الصغریٰ ، لندن کا ایک نہایت ہی خوبصورت ، سرسبز و شاداب شہر ہے، کہ  سید صادق الشیرازی کے بھائی سید مجتبیٰ شیرازی کے داماد شیخ یاسر الحبیب نے لندن میں خریدا ہوا ہے۔

تعمیراتی مراحل اور ایک مسجد کی تعمیر کے بعد سال2013میں اس شہر کا افتتاح کیا گیا اور یاسر الحبیب کے گروہ  یعنی  "جماعت خدام المہدی" کا پرچم تمام مراسم کی ادئیگی کے بعد اس گروہ میں موجود سبز فوجی یونیفارم پہنے ہوئے افراد کی جانب سے اس شہر کے وسط میں نصب کیا گیا۔

اس گروہ کی عمومی نمازیں اس چھوٹے سے شہر میں برگزار ہوتی ہیں ۔ اس شہر میں ایک  سکول اور دینی مدرسہ بھی بنایا گیا ہے ۔ یاسر الحبیب کے مطابق، یہ شہر اس کے ارد گرد زمین خریدنے کے بعد ایک شیعہ اسلامی گاؤں میں تبدیل ہو چکا ہے ، اور برطانوی باشندوں کی جانب سے شیعوں کی قیادت کی جارہی ہے۔

فوجی یونیفارم میں ملبوس ہونا ، ایک شہر کی بنیاد رکھنا  ، مذہبی مناسبتوں پر پریڈ کرنا اور یہ باور کروانا کہ اس شہر کی تعمیر کا مقصد سعودی عرب کو فتح کرنا ہے   یہ سب قابل توجہ ہے۔

یاسر الحبیب کی ، حزب اللہ لبنان کی مضحکہ خیز تقلید

حالیہ دنوں میں ایک بہت بڑے بجٹ کے  ساتھ لندن میں   یہودی آبادی والے علاقے میں" امام باڑہ رسول الاعظم"(حسینیہ الرسول الاعظم)  کا افتتاح ہونا ، اور وہاں کے مقیم یہودیوں کے شدید اعتراضات کے باوجود ،  یہودی لابی کے رہبروں اور تل ابیب کی جانب سے اسے سبز جھنڈی دکھانا ،  یہ بذات خود  بغیر کسی تمہید کے   ، انگلینڈ ، سعودی عرب اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کے تحت مستقبل میں اس فرقے کو استعمال کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  قابل توجہ نکتہ یہ ہے  کہ یاسر الحبیب اور لندن میں شیرازی گروہ کے بقیہ افراد  کے وعدے کے مطابق یہ طے پایا ہے کہ  اس  امام باڑے میں  اس فرقے کی خواہشات کے مطابق ہر طرح کی   عزاداری    منجملہ قمہ زنی ، شیشے کے ٹکڑوں پر ننگے پیر چلنا ، کانٹوں پر چلنا ، ننگے جسم پر میخ سے زخم لگانا ،  وغیرہ برپا کی جائے گی۔

اس امام باڑے کی زمین انگلینڈ میں مقیم صادق شیرازی گروہ سے وابستہ ایک اسلامی مرکز کی جانب سے ۵ میلیون پونڈ کے عوض خریدی گئی ہے۔

برطانوی روزنامے (انڈیپینڈنٹ) نے ۱۷اکتوبر ۲۰۱۷کو ایک رپورٹ پیش کی کہ  لندن کی  مشترکہ یہودی کمیونیٹی شیرازی گروہ کی جانب سے تعمیر ہونے والی اس امام باڑےکے متعلق ہر طرح کے خوف و ہراس کی مذمت کرتی ہے۔ شمال مغربی لندن میں گلدرز گرین  لندن میں یہودیوں کا سب سے بڑا محلہ ہے۔

یہ امام باڑہ اسلامی روشن خیال مرکز کی جانب سے  شیرازی فرقے کے زیر نظر مراکز میں سے ایک ہے۔

اس امام باڑے کی تبلیغ کے متعلق جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ مرکز یورپ کے سب سے بڑے اسلامی مرکز میں تبدیل ہو جائے گا۔

لندن میں مقیم یہودیوں  کی طرف سے یہودیوں کے محلے میں اس امام باڑے اور مسجد کی تعمیر کے خلاف "گلڈرس گرین سبھی ایک ساتھ "نامی مہم چلنے کے باوجود کئی ناموریہودیوں نے  اس امام باڑے اور مسجد کی تعمیر کی حمایت کی۔  راہب  "مارک گلدسمیت" محلہ گلڈرز گرین کے مرکزی کلیسہ کے راہب "مارکوس دیش[Markus Disch]"  یہودی اخبار کے سیاسی مدیر "جوییش کرونیکل" ،  "معروف پارلیمانی مشیر" جی استول ،  کہ یہ سب لوگ  انگلینڈ میں اسرائیل کے  حامی شمار ہوتے ہیں ، انہوں نے اس مسجد اور امام باڑےکی تعمیر کے دفاع  میں متعدد انٹرویو دئے اور کالم لکھے۔

اور اسی طرح  یہودی نمائیندوں کی انجمن  کے نائب مدیر "ماری ون در زیل" نے ۱۹اکتوبر ۲۰۱۷کو ایک اعلان عام میں کہا کہ ان کی تنظیم کے "مرکز روشنگری اسلامی" کے نمائندوں کے ساتھ اچھے روابط ہیں  اور ان کی جانب سے یہودیت ستیزی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے وعدے کے  بعد حوصلہ ملا ہے۔

اس مرکز کی بلڈنگ کو سال ۲۰۰۷میں صادق شیرازی کی تحریک سے وابستہ" مرکز روشنگری اسلامی" کی جانب سے ایک یہودی-مسیحی مرکز بنام" مرکز بین الاقوامی مسیحیت تبشیری الشادای" سے  مبلغ 5.25میلین پاونڈ کے عوض خریدا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سالوں تک اس بلڈنگ میں بی بی سی کا ایک اسٹوڈیو رہا ہے کہ جہاں ۳۰۰۰لوگوں کی موجودگی میں کنسرٹ ہوتے تھے۔

لندن میں شیرازیوں کے امام باڑے کا ایک جلوہ

قابل توجہ اور عجیب نکتہ یہ ہے کہ  اس" اسلامی مرکز "کے افتتاح کے خلاف گلڈرس گرین محلہ کے ساکنین یہودیوں کی جانب سے۵۴۰۰افراد کی مشترکہ دستخطی مہم کے باوجود ، یہودی لابی کی برگزیدہ شخصیات اس اسلامی مرکز کا دفاع کرتی ہیں کہ جو علی الظاہر  انتہا پسند شیعوں کے ایک گروہ سے وابستہ ہے۔

 لیکن اگر ہم لندن میں شیرازی فرقے  کی سرگرمیوں پر قریب سے نظر ڈالیں  تو یہ مسئلہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں لگتا۔ایران میں دائر عالم اسلام میں اسلامی مسالک کے درمیان قربت اور رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے  مجمع تقریب مذاہب اسلامی کے جنرل سکریٹری آیۃ اللہ محسن اراکی  کہ جنہوں نے صادق شیرازی فرقے کی تحریک اور ان کے انحرافی عقائد پر دقیق مطالعہ کیا ہے اور لندن میں بڑی مدت تک نمایندہ ولی فقیہ کے طور مقیم اور امام علی اسلامک سنٹر قائم کرکے بڑے سرگرم رہے ہیں،  انہوں نے31اگست2017 کو " خبر رساں ایجنسی مہر کو دئے گئے  اپنے ایک انٹرویو میں کہا:

جس دوران میں انگلینڈ میں تھا تو مجھ تک خبر پہنچی کہ یہ لوگ  متعدد شیعہ اور سنی جوانوں کو  اپنے جاسوسی امور کے لئے بھرتی کر رہے ہیں ۔ ان دنوں میں جب یونیورسٹیوں میں میرا آنا جانا رہتا تھا  اور دانشگاہی امور میں مشغول تھا ، تو ہم نے دیکھا کہ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں کی مساجدمیں بھی ایسی تنظیمیں موجود ہیں کہ جنہیں حکومت کی حمایت حاصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ انگریزوں کی  مشرقی ممالک میں  رسائی اور موجودگی کی ایک طویل تاریخ ہے، ان کے پاس اس میدان میں بہت تجربہ ہے؛ لہٰذا اس میدان میں مہم نظم بندی کو انگریز انجام دیتے ہیں اور انگریزی شیعیت سے بھی یہی مراد ہے ؛  یعنی وہ شیعیت کہ جو انگریزی منصوبہ بندی  اور جاسوسی تنظیموں کی وجہ سے وجود میں آئی ہے اور ان کی مالی اور تبلیغاتی حمایت کی جاتی ہے ۔  انگریزی شیعیت سے مراد وہ شیعہ نہیں ہیں کہ جو انگلینڈ میں رہتے ہیں ، کیونکہ اتفاقا  بہت سارے اچھے شیعہ بھی  بڑی تعداد ہیں کہ جو انگلینڈ میں رہتے ہیں لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ انگریز حکومت کے ہاتھوں بک چکے ہیں   تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔

آقا  اراکی نے واضح طور پر شیرازی فرقے  کو  ایک سیاسی جماعت کے طور پر بیان کیا ہے کہ  جس نے مذہبی  لباس پہنا  اور مغرب، اسرائیل اور یہاں تک کہ سعودی عرب اور  مغربی ممالک کی ، سیاسی اورمالی حمایت کو قبول کیا۔

 "یہ تحریک  کمزور سماجی بنیادوں پر استوار ہے لیکن تین چیزیں اس کے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں ،  ایک ذرائع ابلاغ  کی حکومت کہ جنہیں خارجی حمایت حاصل ہے۔  اگر آپ کو یاد ہو تو  جب یہ اعلان کیا گیا کہ امریکی کانگریس کی جانب سے  کئی میلیون ڈالر کا بجٹ   جمہوری اسلامی  کے خلاف ثقافتی جدوجہد کے عنوان سے تصویب کیا گیا ہے  اور اس بجٹ کے تصویب ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس بجٹ سے شیرازی فرقے سے وابستہ چینل بنائے گئے۔چند امریکی عہدے داروں نے صراحتا یہ بات کہی تھی کہ ہمارا اصلی ہدف یہ ہے کہ  ایک انتہا پسند گروہ کو شیعہ معاشرے میں داخل کریں اور ان کی حمایت کریں ۔ آج ۲۰سے زیادہ سیٹلائیٹ چینل  ان کے ہاتھوں میں دئے گئے ہیں  کہ جو ان کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں  ۔ دوسرا ، اس تحریک کی تنظیم بندی کرنا کہ جو واقعا منظم طریقے سے کام کرتی ہے۔  تیسرا ، بڑے پیمانے پر مالی مدد  کہ جو خارجی  عوامل کی جانب سے اس تحریک کو دی جاتی ہے۔ 

لیکن لاس اینجلس میں مقیم انقلاب اسلامی مخالف جماعت  اور پہلوی خاندان سے وابسطہ میڈیا کا سرگرم کارکن "شہرام ہمایوں" نے یورپ میں سیٹلائٹ چینلز  کے متعلق  دئے گئے  اپنے ایک بیان میں کہا کہ لندن کے مذہبی نیٹ ورک اصل میں اسرائیلی کمپنیاں  ہیں!

 یونیورسٹی کے استاد  اور مشرق وسطیٰ کے معاملات کے ایک ماہر سید ہادی سید افقہی نے  امریکی شیعیت کے جائزہ کے متعلق مئی2015 میں   ایک اجلاس میں "انگریزی علما" کے موضوع پر شیرازی تحریک کے اصلی  اہداف کو کچھ اس طرح بیان کیا :

۱۔ دشمنوں کی مدد سے مرجع سازی کی کوشش کرنا۔  ۲۔ انقلاب اسلامی ایران کی آشکارا مخالفت اور نوجوانوں کو غافل کرنا  اور انقلاب اسلامی کے خلاف نوجوانوں کی تشویق کرنا جیسے کہ صادق  شیرازی نے کئی مقام پر کہا ہے: اے نوجوانو دھوکہ نہ کھاو !! جیسا کہ تمہارے بزرگوں نے دھوکہ کھایا  ، پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ کی تاریخ  کا خود مطالعہ کرو ، جو کچھ بھی کہا جائے اسے سچ مت سمجھ لو ! اور یہ مت کہو کہ یہ درست کہہ رہے ہیں ! ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صادق شیرازی انگریزوں کے کارکن ہیں ، میں کہتا ہوں کہ کیوں آپ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جو انگریزوں کے لئے قابل استفادہ ہیں  اور وہ آپ کی باتوں سے سوء استفادہ کرتے ہیں ۔ ۳۔ حضرت امام خمینی  اور امام خامنہ ای کی شخصیت کو بگاڑ کر پیش کرنا ۔ ۴۔  عالم اسلام کے حساس ترین مسئلے ، مسئلہ فلسطین کی مخالفت کرنا ۔ ۵۔  عالمی استکبار کی حمایت کرنا ۔ ۶۔ انقلاب اسلامی ایران کے سرگرم مخالفین مجاہدین خلق کہ جو منافقین کہلاتے ہیں کی حمایت کرنا (ایک مقام پر صادق شیرازی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  نے کسی ایک منافق کو بھی قتل نہیں کیا) ۔ ۷۔ فتنہ پرور تحریکوں کی حمایت کرنا۔ ۸۔سیاسی تباہی میں ملوث تنظیموں کی حمایت کرنا۔ ۹۔  دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کر کے پیش کرنا ۔ ۱۰۔ عراق اور داعش کے موضوع پر منافقت اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا۔ ۱۱۔ اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرنا۔ ۱۲۔ شہید سازی کرنا ، اور صادق شیرازی گروہ کے مطابق  سید محمد شیرازی کو ایرانی حکومت نے شہید کیا۔  قابل توجہ بات یہ ہے کہ کبھی بھی صادق شیرازی نے داعش کے موضوع پر گفتگو نہیں کی اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے کیونکہ داعش امریکہ اور برطانیہ کی تاسیس شدہ تنظیم ہے۔

 لیکن لندن میں شیرازی فرقے کی فعالیت کے متعلق سب سے آشکار اور رسوا ترین اعتراف یاسر الحبیب نے کیا :  آیت اللہ سید صادق کا بھائی سید مجتبیٰ شیرازی کا داماد ، عالم نما کویتی شہری یاسر الحبیب کہ جو فدک چینل کا مدیر ہے  اور جن کے اہم امور میں سے ایک  ،مراجع تقلید، جمہوری اسلامی ایران کی برگزیدہ شخصیات اور اہلسنت کے مقدسات کو گالیاں دینا ہے ۔ 

اس شخص نے ایک مرتبہ اپنے  سیٹلائیٹ چینل پر ایک براہ راست پروگرام میں صراحت کے ساتھ فدک چینل اور اس طرح کے بقیہ چینل کہ جو لندن میں  چلائے جاتے ہیں کی حکمت عملی اور طریقہ کار کو بیان کرتے ہوئے کہا:"مجھے یاد آتا ہے کہ کچھ فلسطینی اور اردنی نوجوانوں نے  حالیہ سالوں میں ایمیل کے ذریعے مجھ تک پیغام پہنچایا کہ ان کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کرنے کی کوشش میں ہیں ۔  ہمیں بتائیں کہ  آپ انگلینڈ تک کیسے پہنچے  تاکہ ہم بھی وہیں آ جائیں ۔ الحمد للہ اب یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ اگر تم عائشہ کو گالیاں دو گے تو انگلینڈ بلا لیئے جاو گے  اور تمہیں یہاں پناہ دی جائے گی اور ہر ہفتے ۷۵۰پاونڈ کے علاوہ   لندن میں پارک ہایڈ کے سامنے تمہیں ایک شاندار گھر رہنے کے لئے دیا جائے گا"۔

یاسر الحبیب کے دست راست ، اور فدک چینل کے اصلی کارکن "مہند الشویلی" نے بھی اس طرح کا اعتراف کرتے ہوئے کہا :"میں انگلینڈ میں زندگی بسر کرتا ہوں ۔ میں اس ملک کا شکر گذار ہوں ۔ کیوں ؟ کیونکہ انہوں نے مجھے ایک اچھی زندگی دی ہے۔ انہوں نے مجھے گھر دیا ہے ۔ جب میرے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تو وہ (ام آئی ۶) مجھے ہر ہفتے ۷۰۰پاونڈ دیتے ہیں ۔ میرا گھر اسی امداد پر چلتا ہے ، میرے بچوں کو بھی پیسے دئے جاتے ہیں ۔ ہمارے لئے تمام طبی سہولیات مفت ہیں  اور اسی وجہ سے میں ان کا شکر گذار ہوں اور ان کا وفادار ہوں ۔

 دوسرے الفاظ میں ، اس سے زیادہ واضح طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا کہ اس منحرف تحریک کے رہنما (کہ جن کا مقصد عالم تشیع میں فتنہ برپا کرنا ہے)  ملکہ کی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر چکے ہیں ۔

 اور یہ بات بے جہت نہیں ہے کہ الشویلی کے مطابق  وہ اپنی روحانی ماں (الیزابت دوم) کے وفادار ہیں اور اسے سادات میں سے مانتے ہیں ۔یہ کوئی مذاق نہیں ہے ، اور یاسر الحبیب اور الشویلی نے کئی مرتبہ اپنے چینل پر ملکہ انگلستان کو سادات میں شمار کیا ہے! یعنی اگر مستقبل میں نیتن یاہو یا ٹرمپ  بھی شیرازی گروہ کی مالی مدد کریں تو بعید نہیں ہے کہ ہمیں اس منحرف گروہ کی زبان سے سننا پڑے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت بھی سادات میں سے ہیں ۔

آخری مرحلے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ  برطانوی حکومت کی جانب سے شیرازی فرقے کو کھلا میدان دینا اور انہیں ہر طرح کی خرافات  کی آزادای دینے کا مقصد  اسلام اور تشیع کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، جو کام داعش کو سونپا گیا ہے کہ وہ سنی انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کر کے  اسلام کے چہرے کو مسخ کرے اور لوگوں کو اسلام سے متنفر کرے ، اسی طرح شیرازی فرقے کو بھی مامور کیا گیا ہے  کہ وہ تشیع کے چہرے کو مسخ کریں اور اہلسنت کو  شیعیت سے منحرف کریں اور اپنے اس کام کو جاری رکھیں ۔      

 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی