سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی امام محمّد باقر علیہ السلام

 اردو مقالات کتابخانہ اھلبیت ع اھلبیت ع حضرت محمد باقر علیہ السلام

پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی امام محمّد باقر علیہ السلام

پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی امام محمّد باقر علیہ السلام

باسمہ تعالی

پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی کساتویں معصوم اور پانچویں امام ھدی حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی ولادت آپ سب کو مبارک ہو

از قلم:ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

   امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت  اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری   میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ آپ ؑ کی والدہ دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں  مادی اور یونانی فلسفہ  اسلامی ملکوں میں داخل ہوا  جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس  تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ  علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر  علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا   ۔ آپ  علیہ السلام نے حقیقی  عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا  اور اس علمی تحریک  کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:

  ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے[[1]]۔

  محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے[[2]]۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:

 ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔

سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔

عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔

یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔

 ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔

مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول ا ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار  کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو  ممنوع کیا ۔

  پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر  علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبدا انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے[[3]]۔

  حضرت  امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔

 پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال  کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے  کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ  ایک دن انہیں ایسا کرنے سے  روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق  علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :»جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں»۔

  آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔

 میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:

اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔

اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔

اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔

اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔

  یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک  ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔

اجتہاد کی بنیاد رکھنے میں امام محمد باقرعلیہ السلام کا کردار

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنحضور کے آخری وصی  امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں ایک مرجع دینی کی سب سے عظیم رسالت دینی منابع اور ادلہ سے شرعی  احکام کو دریافت کرنا اور انہیں مکلفین تک پہنچانا ہے ،اور یہ کام اس زمانے میں کہ جب باب علم بند ہے ایک عالم دین کا سب سے اہم کام شمار ہوتا ہے  ۔

لیکن یہاں پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے ،کہ یہ علمی جدو جہد پہلی بار ، اس دور کے اصطلاحی معنی میں کس کے ذریعے انجام پائی ، اور حقیقت میں کس نے اجتہاد کا دروازہ کھولا اور اصول سے تمسک کر کے اس کو بیان کیا  ؟اور کیا جب باب علم کھلا تھا اور معصوم وصی رسول اللہ موجود تھے تب بھی اجتہادہوتا تھا یا نہیں ؟

علم اصول کی بنیاد ،

جیسا کہ علم اصول کے تاسیسی تاریخچے  سے پتہ چلتا ہے اس علم کی بنیاد ڈالنے اور اس کے اصول کی جمع آوری  کا کام امام  محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں ہوا تھا۔ اگرچہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وصی امیر المومنین شاہ ولایت حضرت علی علیہ السلام نے طریقہء اجتہاد کے کچھ قواعد کو بیان کر دیا تھا ۔ لیکن امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا دور، اسلام کے حقیقی طالب علموں کے لئے علم الہی کے خزانوں اور دانش و حکمت سے سرشار وحی الہی کے چشموں سے علمی پیاس بجھانے کا ایسا دور تھا جو تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اس دور میں معرفت اور دانش کے کسب کرنے میں مصروف ہوں ۔

اس دور میں امام علیہ السلام کی وسیع پیمانے پر کوشش یہ تھی کہ دینی منابع سے شرعی احکام کے استنباط کے صحیح طریقوں کو بیان کیا جائے ، چنانچہ اسی کوشش نے شیعہ فقہ کو پہلے سے زیادہ ،بلند ، غنی اور توانمند بنا دیا ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے  اسلامی علماء کے اندر اجتہاد کو راسخ کیا ۔اور علم اصول کے قواعد تدوین کرنے کے بعد ان کو اپنے مکتب کے شاگردوں کو سکھا کر اجتہاد کے اعلی مقاصد کو آگے بڑھانے کے میدان میں اہم اور کارساز قدم اٹھایا ۔چنانچہ آج شیعہ سر بلندی کے ساتھ یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اجتہاد کے قالب میں دینی منابع سے استفادہ کرتے ہوئے  شرعی احکام کا استنباط کرنے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانشینوں کے علم کے وارث ہیں ۔

مرحوم صدر نے اس سلسلے میں لکھا ہے : واقعیت یہ ہے کہ سب سے پہلا شخص جس نے علم اصول اور احکام میں اجتہاد کا دروازہ کھولا اور اس کے قواعد کی تبیین اور تشریح کا کام شروع کیا وہ امام محمد باقر علیہ السلام اور ان کے بعد ان کے جانشین چھٹے وصی رسول اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ ان دو عظیم شخصییتوں نے اپنے بہت سارے شاگردوں کو ان قواعد کی تعلیم دے کر اور انہوں نے ان مسائل اور قواعد کو لکھ کر شیعہ فقہ اور اصول کی راہ میں بہت بڑا قدم اٹھایا ، اس مجموعے میں سے ،کتاب «اصول آل الرسول»، «الفصول المهمة فی اصول الائمة»، «اصول الاصلیة» قابل ذکر ہیں ۔ اور ان سب کو سچے راویوں نے اہل بیت علیہم صلوات اللہ کی طرف نسبت دی ہے[[4]]۔

علامہ سید محسن امین نے لکھا ہے : یقینا زیادہ تر اصولی قواعد کہ جو آئمہ معصومین علیہم صلوات اللہ سے روایت کیے گئے ہیں ان کا تعلق امام محمد باقر علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہے [[5]]۔

 اجتہاد کے صحیح طریقوں کی تشریح،

امام محمد باقرعلیہ السلام علم اصول کے مدوّن اور بانی کے عنوان سے اپنے زمانے میں اعلیٰ ترین شیعہ دینی مرجع کے مقام پر ہونے کی بنا پر اپنے آپ پر واجب سمجھتے تھے کہ اجتہاد کے صحیح طریقوں کی تشریح کر کے  اسلامی علماء کے درمیان اجتہاد کی ثقافت کو راسخ کرنے میں پہل کریں۔

اس بنا پر آپ نے صحیح طریقوں کو کام میں لاتے ہوئے اپنے  اصحاب اور شاگردوں کو اجتہاد کی تعلیم دینے کا اقدام کیا کہ جس کے لاتعداد نمونے اصولی کتابوں میں دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر زرارہ کہتے ہیں :میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: سر اور پاؤں کے مسح میں آپ کے نزدیک آیا پورے سر اور پاؤں کا مسح لازم نہیں ہے بلکہ آپ کچھ مقدار میں مسح کرنے کو کافی سمجھتے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس حکم  کو آپ نے کہاں سے اور کس طرح بیان فرمایا ہے۔!

امام نے مسکرا کے جواب دیا : یہ وہی مسئلہ ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے بھی جس کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے : «فَاغْسِلوا وُجُوهَکُم»؛[[6]] اپنے چہرے دھوؤ اس جملے سے سمجھ میں آتا ہے کہ چہرے کا دھونا واجب ہے اس کے بعد خدا نے ہاتھوں کے دھونے کو چہرے پر عطف کرتے ہوئے فرمایا: «وَ اَیدِیَکُم إلی الْمَرافِقِ»؛ اور اپنے ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ پس خدا نے کہنی تک ہاتھوں کے دھونے کو چہرے کے دھونے کے ساتھ ملا کر اور اس پہ عطف کر کے بیان کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ کہنی تک پورے ہاتھ کا دھونا لازم ہے۔

اس کے بعد خدا نے ان دو باتوں سے الگ کیا اور جملے کو اپنے پہلے والے جملے سے الگ کر کے ایک نئے فعل کے ساتھ شروع کیا اور فرمایا: «وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُم»؛ اور اپنے اپنے سر کا مسح کرو اس سے یہ پتا چلا کہ سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے اور یہ چیز «بِرُؤُسِکُم» کی" ب" سے سمجھ میں آتی ہے کہ جس سے مراد سر کے کچھ حصہ کا مسح ہے  کیوں کہ «وَ امْسَحُوا رُؤُسَکم» نہیں فرمایا اور اس کو «فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُم وَ اَیدِیَکُم»، کی  مانند "ب" کے بغیر ذکر نہیں کیا  حقیقت میں امام نے "ب" کو تبعیضیہ قرار دیا ہے اس کے بعد خدا وند عالم نے رجلین کو راس کے ساتھ ملا کر اس پر عطف کیا ہے جس طرح کہ یدین کو وجہ کے ساتھ ملا کر اس پر عطف کیا ہے اور جب فرمایا: «وَ أرجُلَکُم إلی الْکَعبَینِ»،   اس چیز سے کہ "رجلین" کو "راس" کے ساتھ وصل کیا ہے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پاوؤں کے کچھ حصہ کا مسح بھی کافی ہے یہ وہی چیز ہے کہ رسول خدا ﷺ نے  جس کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کیا تھا لیکن لوگوں نے آپ کی بات کی قدر نہیں کی[[7]]۔

صاف طور پر واضح ہے کہ  امام علیہ السلام نے آیۃ شریفہ کی تفسیر میں دو ادبی نکتے بیان کئے ہیں پہلا نکتہ ہاتھوں کے دھونے کا حکم بیان کرنے کیلئے  نئے فعل امر کا  نہ لانا اور  اَیدِیَکُم کو ایک صیغہ امر «فَاغْسِلوا» کے ذریعہ وُجُوهَکُم  پر عطف کرنا ہے  اور دوسرا نکتہ بِرُؤُسِکُم  میں جو حرف جر "ب" ہے اس کو تبعیضیہ قرار دے کر أرجُلَکُم کو اس پر عطف کرنا ہےاس طرح امام علیہ السلام نے اس آیہ کریمہ سے حکم کو استنباط کرنے کا طریقہ بتانے کی کوشش کی ہے ۔با لکل واضح ہے کہ آپ یہ طریقہ اختیار کئے بغیر اپنے مخاطب کو شریعت کا حکم بتا سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہ کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ امام علیہ السلام سوال کرنے والے کو اجتہاد کرنے کاطریقہ  سکھانا چاہتے تھے۔

دوسری روایت میں زرارہ اورمحمد ابن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا مسافر کی نماز کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اما م علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم فرماتا ہے: «وَ إذا ضَرَبتُم فی الأرضِ فَلَیسَ عَلَیکُم جُناحٌ أن تَقصُروا مِنَ الصَّلوة»؛ اورجب آپ سفر کیلئے نکلو اور آ پ کو ڈر ہو کہ کافر آپ کو نقصان پہنچائیں گے تو آپ پر نماز کو قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے[[8]] پس سفر میں نماز کو قصر کرنا واجب ہے جیسا کہ وطن «حَضَر» میں اس کو پورا کرنا واجب ہے ہم نے امام کی خدمت میں عرض کی خدا نے تو صرف یہ فرمایا کہ آپ پر قصر کرنے میں کوئی حرج «جُناحی» نہیں ہے «افعلوا» نہیں فرمایا ہے کہ جس کے ظاہری معنی واجب کے ہیں پس اس آیت سے یہ کیسے سمجھ آتا ہے کہ قصر کرنے کو واجب کیا گیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا خداند متعال نے صفا اور مروہ کے سلسلے میں نہیں فرمایا ہے: «فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أوِ اعتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیهِ أن یَطَّوَّفَ بِهِما»؛ پس جو خانہ خدا کا حج بجا لائے یا عمرہ کرے اس پر کوئی حرج نہیں ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرے[[9]]۔

کیا آپ کو معلوم نہیں ہے ان کے درمیان سعی واجب کی گئی ہے ؟ چونکہ خداوند متعال نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور پیغمبر اکرمﷺ نے بھی اس پر عمل کیا ہے یہی چیز سفر میں قصر  کے بارےمیں بھی ہے کہ آنحضورنے اس  پر عمل کیا ہے خداوند نے اسے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے[[10]]۔

مرحوم امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ  نے معصومین علیہ السلام کے زمانے میں اجتہاد کے پائے جانے کے دلائل کے بارے میں لکھا ہے کہ: جن میں سے ایک دلیل وہ روایات ہیں جن میں قرآن مجید سے حکم شرعی معلوم کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے مثا ل کے طور پر زرارہ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جس میں امام  علیہ السلام نے زرارہ کو قرآن مجید سے شریعت کا حکم استنباط کرنے کا طریقہ[[11]] ۔

فتوی  دینے کا حکم دینا۔

اجتہاد کی بنیادوں کو مظبوط کرنے کیلئے  اما م محمد باقر علیہ السلام نے ایک اہم اقدام یہ کیا کہ اپنے ان شاگردوں کو جو اصول اور فقہ کے مبادی کے سلسلے میں مہارت رکھتے تھے ان کو حکم دیا  کہ وہ فتوی دیں تاکہ فقہ میں اجتہاد کا راستہ  اگرچہ زیادہ تر شیعوں کے لئے ہو ہموار ہو جائے اور ساتھ ہی اپنے  فقیہ اصحاب  کی مرجعیت کا راستا  ہموار ہو جائے تاکہ لوگ امام کی غیرموجودگی میں ان کی طرف رجوع کریں  وہ افراد کہ جن کو امام کی طرف سے  براہ راست فتوا دینے کا حکم ملا   ان میں سے ایک کا نام "اوان بن تغلب" ہے۔

امام باقرعلیہ السلام نے صراحت کے ساتھ فرمایا: «اِجلِس فی المسجِد و أفتِ للنّاس فَإنّی أُحِبُّ أن یُری فی شیعَتی مِثلُکَ»؛  مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کیلئے فتوی صادر کرو  یقینا میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تم جیسے افراد میرے شیعوں  میں پائے جائیں[[12]] ۔

ایک اور روایت میں  جو مسلم بن ابی حبہ کی معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے جس میں آیا  ہے کہ راوی نے بیان کیا:میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی  خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ دیر تک آپ کی خدمت میں بیٹھا رہا  جب میں اٹھ کے جانے لگا تو امام کو خدا حافظ کہتے ہوئے میں نے عرض کی : میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے علم و آگاہی میں اضافہ کریں امام علیہ السلام نے فرمایا : «أیتِ أبانَ بن تَغلِب فَإنّه قَد سَمِعَ مِنّی حَدیثاً کثیراً فَما رَوی لَکَ فَأروهُ عَنّی»؛ ابان ابن تغلب کے پاس جاو ، اس نے مجھ سے  کثیر تعداد میں حدیثیں سن رکھی ہیں  اور وہ صرف وہی حدیثین بیان کرتا ہے جو اس نے مجھ سے سن رکھی ہیں[[13]] ۔

اجتہاد کے غلط طریقوں کے خلاف جہاد ،

اس سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی توجہ کا محور دو چیزیں رہی ہیں ۔ پہلے آپ نے اپنے اصحاب کو غلط طریقوں سے اجتہاد کو در پیش خطرات سے آگاہ کیا اور انہیں اس کے دام میں اسیر ہونے کے خطرے سے دور کیا اور دوسرے آپ نے ان غلط طریقوں کے خلاف خود جہاد کیا ۔

یہ طریقے کہ جو اس طرح کے افراد کے ذریعے اختیار کیے جاتے تھے اور حکومت کی طرف سے ان کو تقویت ملتی تھی ، انہیں ،قیاس ، استحسان ، نص کے مقابلے میں اجتہاد اور اجماع کے کچھ طریقوں کے عنوان سے گنوایا جا سکتا ہے[[14]] ۔  

جہاد کے پہلے میدان میں امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو ہمیشہ اس طرح کے طریقوں کے جال میں پھنسنے سے بچاتے تھے ، اور انہیں ان لوگوں کے تال میل رکھنے سے کہ جو ان طریقوں کو اختیار کرتے تھے اور انہیں شریعت کے احکام دریافت کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے منع کرتے تھے ۔ امام علیہ السلام نے انتہائی پابند دین اور اسلامی شہرت کے مالک عالم یعنی زرارہ سے ایک گفتگو میں فرمایا : اے زرارہ ! جو لوگ دین میں قیاس کرتے ہیں ان سے دور رہنا ، اس لیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کی حدود سے باہر نکل جاتے ہیں ،اور جو چیز ان کو سیکھنا چاہیے تھی اس سے مونہہ موڑ چکے ہیں ۔ اور جس چیز کا ان سے مطالبہ نہیں کیا گیا ہے  اس کو اختیار کر کے انہوں نے خود کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

وہ روایات اور احادیث کا اپنے ذوق یعنی استحسان کی رو سے مطلب نکالتے ہیں ، اور خدا پر بھی جھوٹ باندھتے ہیں (یعنی نص کے مقابلے میں اجتہاد کرتے ہیں ) یہ لوگ میری نظر میں ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے سامنے جا کر بھی ان کو آواز دو گے تو نہیں سنیں گے ، اس لیے کہ وہ دین اور دنیا میں حیران و سرگرداں ہیں[[15]] ۔ نیز آپ نے فرمایا : سنت اور شرعی احکام میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے ۔ قیاس کیسے کیا جا سکتا ہے اور اسے شرعی احکام کا ملاک کیسے بنایا جا سکتا ہے ، جب کہ حیض والی عورت کو حیض کے بعد چھوٹے ہوئے روزے رکھنے پڑتے ہیں لیکن نماز کی قضا اس پر واجب نہیں ہے ؟[[16]]۔

آپ ایسے فتوے کو جو جہالت اور خدا کی ہدایت کے بغیر دیا جاتا تھا سختی سے مردود قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے : جو شخص اپنی رائے کی بنا پر فتوی صادر کرتا ہے، رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ، اور جو لوگ ان کے فتوے پر عمل کرتے ہیں ان کا گناہ بھی ان کی گردن پر ہوتا ہے [[17]]۔

ایک اور حدیث میں ان غلط طریقوں پر عمل کرنے کو خدا کے ساتھ دشمنی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے : جو شخص اپنی رائے کے مطابق لوگوں کو فتوی دیتا ہے  وہ جہالت پر مبنی اقدام کرتا ہے اور جو خدا کے دین کے راستے پر علم کے بغیر چلتا ہے وہ خدا کی دشمنی پر کمر بستہ ہے اس لیے کہ از روئے جہالت حلال و حرام کا حکم دیتا ہے[[18]] ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اس خطرے سے دوچار ہونے سے بچنے کیلئے  اس بات کو ضروری قرار دیا  کہ پیچیدہ مسائل میں احتیاط کی جائے اور ان کو ان کے اہل کے حوالے کیا جائے اور اس سلسلے میں امام علیہ السلام ہمیشہ اپنے ان شاگردوں کو جو فقہی اور اصولی موضو عات میں زیادہ بحث اور تحقیق کرتے تھے اس نقطہ کو یاد دلاتے رہتے تھے محمد بن طیار کہتے ہیں: امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:کیا تم لوگوں کے ساتھ فقہی اور اصولی مسائل میں بحث کرتے ہو،میں نے عرض کی :جی ہاں فرمایا اور تم ہر سوال کا جواب دیتے ہو، میں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے ، امام نے دکھی ہو کر فرمایا بس تم کب خاموش رہتے ہو اور اس مسئلے کو اس کے اہل کے  کہ جو ہم ہیں حوالے کرتے ہو؟[[19]]۔

اسی سلسلے میں ایک اور دلچسپ داستان کو  ابو حمزہ ثمالی نے روایت کیا ہے کہ ایک دن میں مسجد النبیﷺ میں بیٹھا تھا تھوڑی دیر بعد ایک شخص مسجد میں داخل ہوا زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ پانچویں وصی رسول اللہ ابو جعفر علیہ السلام بھی مسجد میں داخل ہوئے جب کہ ان کے ساتھ خراسان اور دوسرے شہروں کے رہنے والے کچھ لوگ تھے اور آپ سے حج کے بارے میں سوال پوچھ رہے تھے، امام علیہ السلام اپنی مسند پر جلوہ افروز ہوئے ایک  دانشمند شخص ان کے نزدیک بیٹھا میں بھی  اس کے سوالوں کے بارےمیں تجسس کیلئے ایسی جگہ بیٹھ  گیا کہ جہاں میں ان کی آواز اچھی طرح سن سکوں، وہاں کچھ علما بھی موجود تھے۔

جب امام علیہ السلام لوگوں کے سوالوں کے جواب دے چکے تو اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: تم کون ہو!، اس نے کہا کہ میں "قتادہ بن دعامہ بصری "ہوں، امام نے پوچھا تم اہل بصرہ کے فقیہ ہو ؟ کہا ہاں ، امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : برا ہو تیرا اے قتادہ ! یقینا  خدا وند بزرگ و برتر نے  اپنی مخلوقات کے ایک گروہ کو پیدا کیا اور انہیں اپنی دیگر مخلوقات پر حجت قرار دیا وہ روئے زمین کے ستون ہیں جو اپنے پروردگار  کے نزدیک  ثابت قدم ہیں اور علم الٰہی کے لئے برگزیدہ ہیں  چونکہ خدا نے انہیں تمام انسانوں کو پیدا کرنے سے پہلے منتخب فرمایا اور اپنے عرش کے سائے میں انہیں جگہ دی۔

قتادہ نے کچھ دیر کے لئے سکوت اختیار کیا اور اپنا سر نیچے کر لیا  اس کے بعد عرض کی خدا آپ کو امان میں رکھے   خدا کی قسم میں  بہت سارے علما اور یہاں تک کہ ابن عباس کی بزم میں بھی بیٹھا ہوں  لیکن جتنا آپ کو دیکھ کر میں مضطرب اور پریشان ہوں اتنا ان میں سے کسی کو بھی دیکھ کر نہیں ہوا، اس کے بعد اس نے کہا :اب آپ یہ فرمایئے کہ پنیر کا کیا حکم ہے امام محمد باقر علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا بس تیرا سوال یہی تھا؟ اس نے جواب دیا: باقی سارے سوال میں بھول چکا ہوں ، امام علیہ السلام نے فرمایا: پنیر کھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے[[20]]۔

اگرچہ امام  محمد باقر علیہ السلام اجتہاد کے راستے کو اپنے اصحاب اور علما کے لئے کھولتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ اس سلسلے میں ان کی ہر نقل و حرکت پہ نظر رکھیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام کی نظر میں دین میں عقل سے کام لینے کی اہمیت ،

امام محمد باقر علیہ السلام فقہ کے لیے ایک خاص امتیازی مقام کے قائل تھے اور اس میں غورو فکر کو دین میں تفقہ مانتے تھے اور جو شخص دین میں فقیہ ہوتا تھا اسے دین میں نمایاں اور ممتاز شخصیت سے پہچنواتے تھے ۔ اور فرماتے تھے : «مُتِفَقِّهٌ فی الدّینِ أشَدُّ عَلَی الشَّیطانِ مِن عِبادةِ ألفَ عابِدٍ»؛ دین میں ایک فقیہ کی حیثیت  شیطان کے لیے ایک ہزار عبادت کرنے والوں کی عبادت سے بڑھ کر اور خطرناک ہے[[21]]۔

آپ دین میں تفقہ کے سلسلے میں دوسروں کی تشویق اور ان کو تربیب دلانے کے ضمن میں فرماتے تھے: خدا کے حلال و حرام کو سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ تم  بدو عرب نہ کہلاؤ۔

جیسا کہ خدا وند متعال  صحرا نشین عربوں کی جہالت اور نادانی کے سلسلے میں کہ جو بہت مشکل سے اسلام کو قبول کرتے تھے فرماتا ہے: «الأعرابُ أشَدُّ کُفراً وَ نِفاقاً»؛ بدو عرب کفر و نفاق میں بہت سخت ہیں  اگرچہ یہ روایت براہ راست اجتہاد پر دلالت نہیں کرتی لیکن چونکہ اس کی اصلی بنیاد دین میں تفقہ ہے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تلویحا اور لوگوں کی ترغیب اور تشویق کے طور پر اجتہاد کو حاصل کرنے کہ طور پر حاصل کیا گیا ہے۔

اس بنا پر امام محمد باقر علیہ السلام  اس سلسلے میں اپنے اصحاب اور  اپنے سے قریب لوگوں پر سختی کرتے تھے اور کبھی ان کو  خبر دار کرنے کے انداز میں ان کے اندر اجتہاد کا شوق پیدا کرتے تھے اور فرماتے تھے : اگر کسی ایسے شیعہ جوان کو میرے پاس لایا جائے کہ جو دین میں تفقہ کے درپئے نہ ہو تو میں اسے سزا دوں گا، اس بات سے اس موضوع کی اہمیت اور حساسیت  اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔

امام علیہ السلام نے تفقہ کے لئے  خاص شرائط بیان کر کے فقیہ کے کردار ادا کرنے کے لئے ایک دائرہ کار مقرر کرتے ہوئے اچھا اور سچا فقیہ اس شخص کو قرار دیا جو سادہ زندگی بسر کرتا ہو اور آخرت کی طرف مائل ہو۔

اس سلسلے میں ایک شخص نے امام علیہ السلام سے ایک مسئلہ پوچھا  اور امام علیہ السلام نے اسے جواب دیا ۔ اس شخص نے امام علیہ السلام کے جواب پہ تعجب کیا  اور کہا فقہا کی رائے اس سلسلے میں کچھ اور ہے۔ امام  علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : «وَیْحَکَ إنَّ الفَقِیهَ الزّاهِدُ فی الدّنیا، الرّغبُ فی الآخِرة و المُتَمَسِّکُ بِسُنَّةِ النَّبی(صلی الله علیه وآله)»؛ برا ہو تیرا کیا تمارے نزیک فقیہ ایسا ہی ہوتا ہے، اصلی فقیہ وہ شخص ہے جو دنیا سے دوری اختیار کرے آخرت کی طرف مائل ہو اور  پیغمبر  اعظم ﷺ کی سنت سے متمسک ہو۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے اقتصادی نظریات پر ایک نظر

حوزہ علمیہ قم کے ایک استاد سید محمود طاہری نے ایک  فارسی مقالے میں رسولخدا خاتم النبین و رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانچویں وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے اقوال کا اقتصادیات ، کھیتی باڑی ، بے روزگاری ، فقیری اور اقتصادی اعتبار سے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے کے بارے میں جائزہ لیا ہے کہ جس کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے ۔

انفاق ،

انفاق ایک ایسی اخلاقی فضیلت ہے جو معاشرے کی اقتصادی بہتری میں قابل قدر اثر رکھتی ہے ،۔حقیقت میں انفاق کی فضیلت اس چیز میں ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کے کہ شروعی طور پر اس پر کچھ واجب ہو  وہ صرف اخلاق کی پابندی اور دوسروں کی بھلائی کے احساس کے تحت ، اور اپنے اختیار سے اور خدا کی خاطر اس کام کو انجام دے ۔

پانچویں امام علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : اِنَّ رَجُلاً جاءَ اِلى عَلِىِّ بْنِ الْحُسَیْن علیه السلام فَقالَ لَهُ: اَخْبِرْنِى عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزّ وَجَلَّ: فِى اَمْوالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ [[22]] ما هذَا الْحَقُّ الْمَعْلُومُ؟ فَقالَ لَهُ عَلِىُّ بْنُ الْحُسَیْن علیه السلام: الْحَقُّ الْمَعْلُومُ، الشَّى ءُ یُخْرِجُهُ مِنْ مالِهِ لَیْسَ مِنَ الزَّکاتِ وَلا مِنَ الصَّدَقَةِ الْمَفْرُوضَتَیْنِ. قالَ: فَاِذا لَمْ یَکُنْ مِنَ الزَّکاتِ وَلا مِنَ الصَّدَقَةِ فَما هُوَ؟ فَقالَ هُوَ الشَّى ءُ یُخْرِجُهُ الرَّجُلُ مِنْ مالِهِ، اِنْ شاءَ اَکْثَرَ وَاِنْ شاءَ اَقَلَّ، عَلى قَدْرِ ما یَمْلِکُ. فَقالَ الرَّجُلُ فَما یَصْنَعُ بِهِ؟ فَقالَ: یَصِلُ بِهِ رَحِماً وَیُقَوِّى بِهِ ضَعِیفاً، وَیَحْمِلُ بِهِ کَلاًّ، اَوْ یَصِلُ بِهِ اَخاً لَهُ فِى اللَّهِ اَوْ لِنائِبَةٍ تَنُوبُهُ؛[[23]] ۔

ایک شخص رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے وصی امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : مجھے خدا کے اس قول کے بارے میں کہ جس میں فرماتا ہے" فِى اَمْوالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ " کہ ان کے اموال میں حق معلوم ہے ، یہ حق معلوم کیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : حق معلوم مال کی وہ مقدار ہے کہ جو انسان اپنے مال سے اخراج کرتا ہے ؛ اور یہ واجب زکات اور صدقہ[خمس] کے علاوہ ہے ، عرض کی پھر کیا ہے ؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا : یہ وہ مقدار ہے جسے ہر انسان اپنے مال میں سے اپنے اختیار سے اخراج کرتا ہے ، اس کی حیثیت کے مطابق  کم ہو یا زیاد ہ ، ا س شخص نے عرض کیا : اس مقدار کو کہاں خرچ کریں گے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اس سے صلہء رحم کرے ، کمزور کو طاقت دے ، کسی نادار کی مشکل کو آسان کرے ، یا اپنے دینی بھائی کی مدد کرے  یا جو حوادث پیش آتے ہیں ان میں خرچ کرے۔

غیر واجب انفاق اور معاشرے کی سلامتی میں ان کا کردار  

غیر واجب انفاق کہ جن کا ذکر مختلف عناوین کے تحت ہوا ہے عظیم اجتماعی ذخائر میں سے ہیں ، کہ جو معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اجتماعی عدل قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

ممکن ہے ابتدائی مرحلے میں دکھائی دے کہ غیر واجب انفاقات صرف اخلاقی پہلو کے حامل ہیں اور چونکہ ان میں اجرائی پشتیبانی نہیں ہے لہذا اقتصادی اعتبار سے ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ، لیکن اس چیز کو تسلیم کرنے کے بعد کہ انسان آزاد اور مختار ہے ، اور اس کے ہر عمل منجملہ اقتصادی مسائل پر عقاید کا  براہ راست اثر پڑتا ہےیہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ اخلاقی اور استحبابی احکام بھی اعتقاد رکھنے والے افراد پر کافی اثر ڈالتے ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اگر کوئی چیز واجب اور لازم نہ بھی ہو تب بھی ان کی رفتار اور ان کے اجتماعی اور اقتصادی اعمال ان کے اعتقادات کے مطابق ہوتے ہیں[[24]] ۔

نکتہ : انفاق اپنی تمام تر قدر و قیمت کے باوجود معاشرے پر اسی وقت مظبت عملی اثر ڈال سکتا ہے کہ جب انفاق ان پر کیا جائے جو اس کے اہل ہیں۔ یعنی ان لوگوں پر جو کسی برے حادثے کی وجہ سے انفاق کے حقدار بن چکے ہوں  اور ان کے لیے اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کا راستہ ہموار ہو ، اگر وہ مکمل طور پر نادار نہ ہو چکے ہوں تو  ، اور اس انفاق سے وہ اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکیں ، اگر ایسا نہ ہوا تو انفاق گدا پروری اور اقتصادی رکود کا ذریعہ بن کر رہ جائے گا ۔

استاد شہید مرتضی مطہری کی تعبیرات کے مطابق انفاق اس طرح ہو نا چاہیے کہ جو مفید ہو معاشرے میں ثروت کی زیادتی کا موجب ہو اور معاشرے کی ترمیم کرے اور معاشرے کی بہتری اور سلامتی پر خرچ ہو ، لیکن اگر فقط گدا پروری ہو تو نہ صرف اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ معاشرے کی بد بختی ناداری اور اس کے نقصان میں اضافے کا باعث ہو گا اور اجتماعی مصیبت بن جائے گا ۔ خلاصہ یہ کہ انفاق کو منطق اور حکمت کے تحت ہو نا چاہیے ۔

صحیح انفاق کا معیار ،

صحیح انفاق ترمیم اور اصلاح ہوتا ہے اور وہ بے کار نہیں جاتا اور معاشرے میں واپس آ جاتا ہے جیسا کہ سورہء بقرہ کی آیت نمبر ۲۷۲ میں آیا ہے : " وَما تُنْفِقُوا مِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ" اور جو کچھ  تم خرچ کروگے وہ واپس تمہارے پا س آ جائے گا ، ظاہرا یہی ہے جو دنیا میں انسان کے واپس آتا ہے۔

بہر حال انفاق کو حکیمانہ  منطقی اور اس کے اثر پر دھیان رکھتے ہوئے ہونا چاہیے ، صرف حسن نیت اور اخلاص کافی نہیں ہے  بلکہ حکمت ، منطق اور تعقل بھی ضروری ہے اگر انفاق نتیجے پر توجہ کیے بغیر ہو اور صرف جذباتی اور احساساتی پہلو کا حامل ہو تو نقصان دہ ہے [[25]]۔

جھوٹے کاموں سے نہی

ایک کام کہ جس سے اہل بیت محمد وآل محمد علیہم السلام اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو روکا ہے وہ جھوٹے کام ہیں ؛ وہ کام جن میں دار و مدار صرف شخصی فائدہ ہو ، اور اس میں دوسروں کے مفادات اور ان کے مفید اور منفعت کرنے کے پہلو سے چشم پوشی کی گئی ہو ۔ اس طرح کے کاموں میں معمولا کوشش کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور انسان بے تحاشہ دولت کے پیچھے ہوتا ہے ۔

شیخ الرئیس ابو علی سینا کتاب الشفا کی کتاب الہیات میں جھوٹے کاموں پر رد عمل دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں : جیسا کہ بے روزگاری ممنوع ہونا چاہیے ، اسی طرح ایسے کاموں کے رائج ہونے سے بھی کہ جو منافع اور املاک کے منتقل ہونے کا راستہ ہموار کرتے ہیں کہ جس انتقال کے بدلے میں اس کے مالک کو کوئی فائدہ نہ ہو  روکنا چاہیے  جیسے جوا کھیلنا ، اس لیے کہ جو جوا کھیلتا ہے جو کچھ وہ جیتتا ہے اس کے بدلے میں فریق مقابل کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا ۔

اس طرح کے کاموں کو روکنا چاہیے اور معاشرے کو ایسا بنانا چاہیے کہ اگر کوئی دوسرے سے کچھ لیتا ہے تو وہ کسی صنعت اور پیشے کے مقابلے میں ہونا چاہیے اور اس کا دوسروں کو مادی فائدہ ہو ۔

اسی طرح ایسے کام بھی نہ کرنا چاہییں کہ جو معاشرے کی مصلحت کے خلاف ہوں ، جیسے چوری دلالی اور اس طرح کی چیزیں سکھانا اسی طرح وہ کام کہ جو انسان کو صنعت و حرفت اور محنت سے بے نیاز کر دیتے ہیں اور باعث بنتے ہیں کہ انسان معاشرے کے نظام میں شرکت نہ کرے اور اس میں اس کا حصہ نہ ہو غیر قانونی قرار دیے جائیں ، جیسے سود لینا وغیرہ اس لیے کہ سود لینے میں جو سود لیتا ہے وہ اپنی ثروت کو بڑھاتا ہے ، لیکن وہ کوئی کام نہیں کرتا اور معاشرے کی کسی مشکل کو حل نہیں کرتا[[26]] ۔

جھوٹھے کاموں سے امام محمد باقر علیہ السلام نے جو روکا ہے اس نمونہ اس حدیث میں موجود ہے :" عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ اَبِى جَعْفَرٍعلیه السلام اَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یَتَقَبَّلُ بِالْعَمَلِ فَلا یَعْمَلُ فِیهِ وَیَدْفَعُهُ اِلى آخَرَ فَیَرْبَحُ فِیهِ؟ قالَ: لا، اِلَّا اَنْ یَکُونَ قَدْ عَمِلَ فِیهِ شَیْئاً"[[27]] محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں پوچھا  کہ جو کسی کام کو انجام دینے کا وعدہ کرتا ہے لیکن بعد میں اسی کام کو اس میں کچھ کیے بغیر دوسرے کو واگذار کر دے اور اس طرح فائدہ  حاصل کرے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں ، وہ ایسا نہیں کر سکتا  مگر یہ کہ اس نے کچھ کام کر دیا ہو ۔

اس  طرح ہم دیکھتے ہیں  کہ اس نوعیت کے کاموں میں  جو روایت میں وارد ہوئے ہیں ، اگر فائدے کے ساتھ انسان کی کوشش بھی شامل ہو تو امام علیہ السلام فورا اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے :" عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ اَبِى جَعْفَرٍعلیه السلام قالَ: سَئَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ الخَیَّاطِ یَتَقَبَّلُ الْعَمَلَ فَیَقْطَعُهُ وَیُعْطِیهِ مَنْ یَخِیطُ وَیَسْتَفْضِلُ؟ قالَ: لا بَاْسَ، قَدْ عَمِلَ فِیهِ "[[28]]   محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام سے ایک درزی کے بارے میں پوچھا کہ جو کپڑا کاٹ کر سلنے کے لیے دوسرے کو دے دیتا ہے ؟ اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے حضرت نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے چونکہ اس نے کپڑے پر کام کیا ہے ۔

سود لینا اخلاقی اور اقتصادی برائی

شرعیت میں سود تولی یا ناپی جانے والی ایک جنس کی دو چیزوں کا معاملہ ہے کہ جس ایک کو زیادہ دیا جائے ، یا ایک شخص قرض لے اور وعدہ کرے کہ لی گئی رقم سے زیادہ واپس کرے گا [[29]]۔

  سود ایک اخلاقی اور اقتصادی برائی ہے کہ دینی تعلیمات میں اس کے شدید نقصانات کی وجہ سے اس سے منع کیا گیا ہے سود کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا نے اس کو خدا اور رسول کے خلاف جنگ کا اعلان قرار دیا ہے اور فرمایا ہے :" فَاِنْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ " [[30]] اگر ایسا کرو گے تو خدا اور رسولخدا کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جاو ۔

امام باقر علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :" اَخْبَثُ الْمَکاسِبِ کَسْبُ الرِّبا " [[31]] ناپاک ترین کمائی سود کی کمائی ہے اسی طرح آنحضرت سے روایت کی گئی ہے کہ : " اِنَّما حَرَّمَ اللَّهُ الرِّبا لِئَلاَّ یَذْهَبَ الْمَعْرُوفُ "[[32]] خدا نے سود کو حرام کیا ہے تا کہ نیکی کا خاتمہ نہ ہو جائے ۔

حضرت باقر العلوم علیہ السلام ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں :" دِرْهَمُ رِبا اَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ اَرْبَعِینَ زَنْیَةً "[[33]]سود کا ایک درہم خدا کے نزدیک چالیس بار زنا کرنے سے زیادہ سنگین ہے ۔

حقیقت میں سود کچھ بیچارے لوگوں کی فنا اور نابودی ہے اور دوسرے طبقے کے پاس دولت کا ذخیرہ ہونا ہے  کہ جو بے انتہا دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ فقیر طبقے کے بوجھ میں ہر  روز اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ داروں کا سرمایہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی دولت کے بل بوتے پر لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

جی ہاں خالق کائنات تمام اسرار ہستی سے آگاہ ہے اور سود کے برے نتائج اور زندگی کی بربادی اور سرمائے کے بے جا انبار لگنے سے واقف ہے کہ کس طرح کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کروڑوں روپے جمع ہو کر بینکوں کا سرمایہ بنتے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ لوگ عیش و عشرت کرتے ہیں ، اور اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ہر چیز سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ فطرت کے بر خلاف مالدار بن کر عیش کی زندگی گذارتے ہیں  ، اور کچھ لوگ محرومیت کے نتیجے میں کام کی طاقت ہونے کے باوجود زندگی گذارنے پر قادر نہیں ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مقدس نے سختی کے ساتھ سود کے خلاف جنگ کی  ہے اور ظالمانہ لین دین کے خلاف اسلام لڑا ہے اور اس کو خدا کے خلاف جنگ قرار دیا ہے[[34]] ۔

استاد شہید مرتضی مطہری کے الفاظ میں سود کو حرام کرنے میں دین کی نظر دو اہم چیزوں پر ہے ، ۱ ۔ یہ کہ لوگ ایک دوسرے کی مشکلوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور اگر ایک دوسرے کی مساعدت اور مدد کریں تو اس کے بدلے میں کچھ زیادہ نہ مانگیں ؛ اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ معاشرے میں لازم ہے کہ جذبات کو بھی تقویت دی جائے تا کہ کچھ مشکلات محبت اور جذبات کے ذریعے حل ہو جائیں  ۲ ۔ دوسری یہ کہ وہ نہیں چاہتا کہ ایسے افراد پیدا ہوں کہ جو صرف کھائیں مگر کام نہ کریں ۔ کمینزم کا مبتکر " کارل مارکس" کہتا ہے سود کاریگر طبقے سے سرمائے کی چوری کرنے کا ایک مظہر ہے[[35]]  ۔

ذخیرہ اندوزی اور زر اندوزی اجتماعی بیماری

جو شخص ذخیرہ اندوزی اور زر اندوزی کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لالچی ، سود پرست منفعت طلب  ہے اور اس کو بنی نوع انسان کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ذخیرہ اندوزی ایک اجتماعی بیماری ہے جو بازار کے روابط اور کاروبار کو صدمہ پہنچاتی ہے اور اس کو اصلی راستے سے خارج کر دیتی ہے ۔

یہ زیادہ طلبی باعث بنتی ہے کہ کچھ لوگ اس پیسے سے جو ان کے پاس ہوتا ہے لوگوں کی ضرورت کی اجناس کو خرید لیتے ہیں اور جب فائدہ زیادہ ہونے کی امید ہوتی ہے تو اس کو فروخت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بازار کو معمولی روش سے خارج کر کے بناوٹی قحط کو جنم دیتے ہیں ۔

 اسلامی حکومت کی ذمہ داری معاشرے میں نظم بنائے رکھنا اور ہرج و مرج سے اس کو بچانا ہے ۔ اس چیز کے پیش نظر فقہی لحاظ سے اس میں کوئی تردید اور اختلاف نہیں ہے کہ اسلامی حاکم لوگوں کی حمایت میں اور احتکار کو ختم کرنے کے لیے ایک عملی اقدام کے طور پر احتکار کرنے والے کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی اجناس کو انبار سے نکالے اور ان کو بازار میں فروخت کرے ، اور اگر وہ انکار کر دے اور اپنی اجناس کو فروخت نہ کرے تو اس کی جگہ حاکم خود ان اجناس کو بیچنے کا اقدام کرے گا اور اس طرح لوگوں کو مشکلات سے نجات دلائے گا[[36]] ۔

امام باقر علیہ السلام رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :" خَمْسَةٌ لَعَنْتُهُمْ وَکُلُّ نَبِىٍّ مُجابٍ: الزَّائِدُ فِى کِتابِ اللَّهِ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِى... وَالْمُسْتَاْثِرُ بِالْفَیْى ءِ الْمُسْتَحِلُّ لَهُ " [[37]] پانچ اشخاص ایسے ہیں کہ جن پر میں اور ہر نبی جو مستجاب الدعوۃ ہے اس نے لعنت کی ہے جو شخص کتاب خدا میں اضافہ کرے ، جو شخص نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عمل نہ کرے ، اور وہ جو عام لوگوں کے مال کو اپنے لیے حلال سمجھے ۔

بے شک احتکار کرنے والا آیہ کنز میں بھی شامل ہے :" وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنفِقُونَهَا فِى سَبِیلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ * یَوْمَ یُحْمَى عَلَیْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَِنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ"[[38]]  جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو دردناک عذاب کی خبر دے دو جس دن اس کو آگ میں گرم کیا جائے گا اور اس سے ان پیشانیوں ، ان کے پہلووں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جسے تم جمع کیا کرتے تھے پس چکھو اس کا مزہ جو تم جمع کرتے تھے ۔

خزانہ لغت میں جمع کرنا اور انبار لگانا ہے جمع کیے ہوئے زیادہ مال کو کنز کہتے ہیں جو لوگ مختلف شکلوں اور طریقوں میں مال جمع کرتے ہیں اہل کنز کہلاتے ہیں ۔

شخصی سرمائے اور پیسے کو معاشرے کے مفاد میں کسی نہ کسی طرح گردش میں رہنا چاہیے اور اس کو جمع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ یہ اصل شاید اس اسلامی نظریے پر استوار ہو کہ معاشرے کا لوگوں کے ذاتی اموال میں بھی حق ہے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ذاتی مال میں بھی اسراف حرام اور ممنوع ہے ، چونکہ معاشرے کا بھی انسان کے ذاتی مال میں حق ہے اور اسراف کا لازمہ لوگوں کے اموال کو برباد کرنا ہے [[39]]۔

استاد شہید مرتضی مطہری کے لفظوں میں اسراف اور تبذیر اور مال سے ناجائز استفادہ ممنوع ہے ، نہ صرف اس لحاظ سے کہ مال کے ساتھ ایسا کرنا حرام اور ممنوع ہے بلکہ اس لحاظ سے کہ بغیر اجازت کے عمومی مال میں تصرف ہے[[40]]۔

گدائی ،

گدائی مختصر لفظوں میں اپنی شخصی عزت اور بزرگی پر کھیل کر اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ۔ہر گز ایک عزت دار انسان دوسروں کے آگے دست گدائی دراز نہیں کرتا ۔ ایک عزت دار انسان کے لیے چہرے پر طمانچے کھانا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے زیادہ گوارا ہے ۔گدائی چونکہ موجودہ حالت کو تسلیم کرنے اور اس کے آگے جھکنے کے معنی میں ہے تو یہ اس نازیبا کام کے سلسلے میں ایک طرح کی عملی تلقین ہے ، اور اسی تلقین کے نتیجے میں اس شخص کی اقتصادی حالت بہتر نہیں ہوتی اور وہ شخص ہمیشہ فقیر اور تہیدست رہتا ہے ۔

امام باقر علیہ السلام اس سلسلے میں  ایک خوبصورت حدیث میں فرماتے ہیں:" اُقْسِمُ بِاللَّهِ لَهُوَ حَقٌّ ما فَتَحَ رَجُلٌ عَلى نَفْسِهِ بابَ مَسْأَلَةٍ اِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْهِ بابَ فَقْرٍ "[[41]]  خدا کی قسم جو شخص بھی گدائی کرتا ہے وہ اپنے لیے فقیری کا دروازہ کھولتا ہے ۔

اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں:" لَوْ یَعْلَمُ السَّائِلُ ما فِى الْمَسْأَلَةِ، ما سَأَلَ اَحَدٌ اَحَداً "[[42]]  اگر گدا گر کو معلوم ہو جائے کہ گدائی کتنی بری ہے تو ہر گز کوئی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا ۔ اسی طرح آپ  علیہ السلام  سے نقل ہوا ہے کہ فرمایا:"اَلْیَأْسُ مِمَّا فِى اَیْدِى النَّاسِ عِزُّ الْمُؤْمِنِ فِى دِینِهِ، اَوَ ما سَمِعْتَ قَولَ حاتَم: اِذا ما عَزَمْتُ الْیَأْسَ اَلْفَیْتُهُ الْغِنى اِذا عَرَفَتْهُ النَّفْسُ، وَالطّمَعُ الْفَقْرُ "[[43]] لوگوں کے مال سے بے نیاز رہنا مومن کے دین میں عزت کا باعث ہے ،کیا تم نے حاتم کا قول نہیں سنا ہے ، جب بھی میں نے لوگوں اور لوگوں کے مال سے نا امید ہونا چاہا اور میرے نفس نے اس کو قبول کیا تو میں نے دیکھا کہ میں بے نیا اور توانگر ہوں ، دوسروں کے مال پر نظر رکھنا ہی ناداری ہے ۔

خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

عبدالحسین



[1] الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149

[2] الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149

[3] ابن شھر آشوب ج 4 ص 195

[4] الشیعہ و فنون الاسلام صفحہ ۹۵

[5] اعیان الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۷

[6] مائدہ/۶

[7] مسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ جلد ۱ صفحہ ۲۹۰

[8] نسا/۱۰۱

[9] بقرہ/۱۵۶

[10] بحار الانوار  جلد ۲ صفحہ ۲۷۶

[11] الرسائل (امام خمینی) جلد ۲ صفحہ ۱۲۸

[12] قاموس الرجال جلد ۱ صفحہ ۹۷

[13] گزشتہ حوالہ صفحہ ۱۰۰

[14] یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اہل سنت ہر طرح کے اجماع کو معتبر سمجھتے ہیں لیکن شیعہ فقہ میں ہر طرح کا اجماع معتبر نہیں ہے صرف وہ اجماع معتبر ہے اور حجیت رکھتا ہے کہ جس سے قول معصوم کا پتا چلتا ہو: دیکھئے اجتہاد و تقلید  صفحہ ۱۱۹

[15] مسائل شیعہ جلد ۱۸ صفحہ ۳۹

[16] بحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۰۸

[17] بحار الانوار  جلد ۲ صفحہ ۱۱۸

[18] مسائل شیعہ جلد ۱۸ صفحہ ۲۵

[19] بحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۰۷

[20] انوار البھیۃ فی تواریخ الحجم الالٰہیہ صفحہ ۱۳۶

[21] بحار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ۳۵۸

[22] سورہ معارج / ۲۴

[23] تفسیر صافی ،ج ۷ ص ۲۹۳

[24] مبانی فقہی اقتصاد اسلامی ، ص ۳۶۰

[25] یادداشتھائ شہید مطھری ج ۱ ص ۴۱۷ و ۴۲۱

[26] الالہیات من کتاب الشفاء، ص ۴۹۷ و ۴۹۸

[27] وسائل الشیعہ ، ج ۱۹ ص ۱۳۲

[28] وہی ،ص۱۳۳

[29] معارف و معاریف  ، ج ۳،ص۴۲۸

[30] سورہ بقرہ / ۲۷۹

[31] الحیاۃ ج۵ ص ۳۰۷

[32] وہی ص ۶۱۸

[33] بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۱۱۶

[34] معنویت تشیع علامہ طبا طبائی ص ۱۶۵ و ۱۶۶

[35] یاد داشتھائ استاد مطہری ،ج۴ ص ۲۸۱ و ۲۸۳

[36] مبانی فقہی اقتصاد اسلامی ، ص ۱۶۰ و ۱۶۷

[37] کافی ج۲ ص ۲۹۳

[38] سورہ توبہ / ۳۴ و ۳۵

[39] معیارھائ اقتصاد در تعالیم رضوی ص ۳۴۸

[40] نظری بہ نظام اقتصاد اسلامی ، ص ۵۴

[41] الحیاۃ ج۴ ص ۴۴۳

[42] وہی ص ۴۴۵

[43] وہی ص ۴۴۹

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی