سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

بارہ رجب ؛شھر کوفہ ہوا حضرت علی علیہ السلام کا دار الخلافہ منتخب

 اردو مقالات مذھبی سیاسی تاریخی مناسبتیں رجب

بارہ رجب ؛شھر کوفہ ہوا حضرت علی علیہ السلام کا دار الخلافہ منتخب

بارہ رجب ؛شھر کوفہ ہوا حضرت علی علیہ السلام کا دار الخلافہ منتخب

اصحاب جمل پر فتح حاصل کرنے اور طلحہ زبیر اور مقتول خلیفہ جناب عثمان کے حامیوں کو خاموش کرنے کے بعد جب امام علی (علیہ السلام) شھر بصرہ کے لوگوں کو کہ جنہوں نے شاہ ولایت کی عوامی منتخب خلافت کے خلاف ہونے والی سا‌‍زشوں میں شرکت کی تھی اور اب شکست کھانے کے بعد زخمیوں اور قیدیوں کی حالت میں تھے  ان سبوں کو بخشا اور اس طرح اصحاب جمل کے فتنے کے خاتمہ کے بعد بصرہ کے لوگوں نے اپنی مرضی کے ساتھ امام علی(علیہ السلام) کے ہاتھ پر دوبارہ بیعت کی اور جنہوں نے امام کے خلاف ہونے والی سازشوں میں شرکت کی  تھی اس پر افسوس اور پشیمانی کا اظہار کیا۔

بہر حال حضرت نےکچھ  دن بصرہ میں قیام کرکے لوگوں کے درمیاں بیت مال تقسیم کرکے اور جنگی زخمیوں کا مداوا کیا اور عبداللہ بن عباس کو اس شہر کا حاکم منصوب کر کے خطبہ دیا اور خطبہ میں لوگوں کو عبداللہ بن عباس اور حکومت اسلامی کے قوانین کی اطاعت کرنے کا حکم دیا اور پھر اس شھر (بصرہ) کو چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوے۔

شھر کے بزرگوں، قبیلوں اور طوایف بصرہ کے سرداروں نے شھر سے باہر کئی میل تک ساتھ چل کر  حضرت کو الوداع کہا اور امام علی علیہ السلام نے انکو خداحافظی کر کے بڑی لشکر کے ہمراہ کوفہ کی طرف روانہ ہوے۔(1)

امام علی (علیہ السلام) 12 رجب سن 36 ھ کو کوفے میں داخل ہوے(2) اور کوفے کےلوگوں نے شاہ ولایت وصی رسول اللہ امام المومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین علی بن ابیطالب علیہ السلام کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور امام سے درخواست کی کہ حکومتی محل میں پڑاو ڈالیں لیکن امام نے ایسا نہ کیا بلکہ ایک کھلی فضا میں اتر کر کوفہ کی جامع مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی (3) اور کوفہ کے لوگ جوکہ امام کی زیارت اور ان کا روح نواز خطبہ سننے کیلۓ بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے تھے ان کیلۓ خطبہ دیا؛ خداکی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

اما بعد، فالحمد لله الذی نصر ولیه، و خذل عدوه، و اعز الصادق المحق، و أذل الکاذب المبطل، علیکم یا أهل هذا المصر بتقوی الله و طاعه من اطاع الله من أهل بیت نبیکم، الذین هم اولی بطاعتکم من المنتحلین المدعین القائلین: الینا الینا، یتفضلون بفضلنا، و یجاحدونا أمرنا، و ینازعونا حقنا، و یدفعونا عنه، و قد ذاقوا و بال ما اجترحوا فسوف یلقون غیا. قد قعد عن نصرتی منکم رجال و أنا علیهم عاتب زار، فاهجروهم، و اسمعوهم ما یکرهون، حتی یعتبونا و نری منهم ما نحب.(4)

یعنی:حمد اس خداکی کہ جس نے اپنے دوست کی مدد کی اوراسکے دشمنوں  کو ذلیل و خوار کیا ، سچے حقیقت پسندوں کی عزت رکھی اور جھوٹھے مفسدوں کو ذلیل و خوار کیا، اے اس شھر [کوفہ] میں رہنے والے لوگو! تقوای الہی اختیار کرو  اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت(علیہم السلام) میں سے جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں ان کی اطاعت کرو ، وہی لوگ جوکہ سب جھوٹھے دعویداروں کے نسبت فرمانبرداری اور اطاعت کیلۓ لایق اور شایستہ ہیں،وہ جھوٹھے دعویدار مسلسل لوگوں کو اپنی اطاعت کروانے کیلۓ دعوت دیتے رہتے ہیں اور ہماری ولایت کی وجہ  سے جو فضیلت حاصل کی ہے اس سے بڑکپن کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے امور کو [امامت اور ولایت] کا انکار کرتے ہیں، ہمارا حق ضایع کرتے ہیں اور ہمیں ولایت کا حق استعمال کرنے نہیں دیتے۔ جی ہاں انہوں نے اپنے برے رفتار اور کردار کا تلخ گھونٹ پی لیا ہے اور جلدی اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے۔

تم میں سے بعض لوگوں نے ہماری ولایت کی مدد کرنے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور اس طرح ہماری ولایت کےدشمنوں کو مضبوط کیا اور اپنے رفتار سے مجھے پریشان اور غمگین کیا۔ اب تم لوگ بھی ان سے دوری اختیار کرو اور اپنی باتوں سے ان کو انکے کۓ کراۓ پر شرمندہ کراو تاکہ اپنی ناروا کردار پر شرمندہ ہوں اور ہماری طرف آ جائیں اور جو ان سے توقع رکہتے تھے اسکو پورا کریں۔

اس طرح حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے اپنے دوستوں اور کوفہ کے لاکھوں مسلمانوں کے نسبت عنایت فرما‏ئی اور عہد شکنوں کی سرزنش کی اور اس کے بعد شہر کوفہ کو عدالت پر قائم حکومت کا دار الخلافہ قرار دیا۔

 



 

1_ أنساب الاشراف (احمد بن یحیی بلاذری)، ج2، ص 180

2_ الأخبار الطوال (دینوری)، ص 152؛ انساب الاشراف ،ج2، ص 182؛ تاریخ الیعقوبی، ج2، ص 184

3_ الاخبار الطوال، ص 152

4_ الارشاد، ص 249

 

 

 

 

بزرگان، ریش سفیدان و رؤسای قبایل و طوایف بصره، آن حضرت را تا چند میلی بیرون بصره، بدرقه کردند و آن حضرت با آنان خداحافظی و به همراه بسیاری از سپاهیان خویش به سمت کوفه حرکت نمود.(1)

ورود امام علی(ع) به کوفه، مصادف بود با دوازدهم رجب سال 36 قمری.(2) اهالی کوفه استقبال شایانی از آن حضرت به عمل آوردند و از وی درخواست کردند که در کاخ حکومتی این شهر فرود آید. ولی آن حضرت از رفتن به کاخ حکومتی امتناع نمود و فرمود: به جای کاخ در فضای باز فرود خواهم آمد.

آن گاه به مسجد اعظم کوفه رفت و دو رکعت نماز به جای آورد3 و برای اهالی کوفه، که برای زیارت آن حضرت و شنیدن صدای روح نواز وی لحظه شماری می کردند، خطبه ای ایراد نمود.

آن حضرت پس از حمد و ثنای الهی، در فرازی از سخنانش فرمود: اما بعد، فالحمد لله الذی نصر ولیه، و خذل عدوه، و اعز الصادق المحق، و أذل الکاذب المبطل، علیکم یا أهل هذا المصر بتقوی الله و طاعه من اطاع الله من أهل بیت نبیکم، الذین هم اولی بطاعتکم من المنتحلین المدعین القائلین: الینا الینا، یتفضلون بفضلنا، و یجاحدونا أمرنا، و ینازعونا حقنا، و یدفعونا عنه، و قد ذاقوا و بال ما اجترحوا فسوف یلقون غیا. قد قعد عن نصرتی منکم رجال و أنا علیهم عاتب زار، فاهجروهم، و اسمعوهم ما یکرهون، حتی یعتبونا و نری منهم ما نحب.(4)

یعنی: سپاس خدا را که دوست خود را یاری کرد و دشمنش را خوار نمود و راستگوی حقیقت خواه را آبرو داد و دروغ گوی مفسده جو را زبون نمود. ای مردمی که در این شهر ]کوفه[ زندگی می کنید! بر شما باد تقوای الهی و پیروی کسی از اهل بیت پیامبرتان که خدا را پیروی می کند. همان هایی که از سایر مدعیان باطل گو، به اطاعت و فرمانبرداری شایسته ترند. آن مدعیانی که همواره مردم را به سوی خود می خوانند و بر اثر فضیلتی که از ما به دست آورده اند، اظهار برتری می کنند و امر ما ]ولایت و امامت[ را انکار می نمایند و حق ما را از بین می برند و ما را از استفاده حق خودمان منع می کنند. آری، آنان آب تلخ بدرفتاری و بدکرداری خویش را چشیدند و به زودی هم به بدفرجامی خود می رسند.

عده ای از میان شما نیز، از کمک و یاری ما دست برداشته ]و از این طریق، دشمنانمان را تقویت نمودند[ و مرا از کردار خویش ناراحت و نگران نمودند. اینک شما نیز از آنان دوری کنید و با گفتارتان، آنان را از کرده خویش شرمنده کنید، تا از کردار ناروای خود شرمگین شده و به ما روی آورند و آن چه از آنان انتظار داشتیم برآورده کنند.

بدین ترتیب آن حضرت دوستداران و یاران خویش و توده های میلیونی مسلمانان کوفه را مورد عنایت و کارشکنان و واپس گرایان را سرزنش و توبیخ نمود و از آن پس، این شهر بزرگ را مقر حکومت عدالت جویانه خویش قرار داد.

1_ أنساب الاشراف (احمد بن یحیی بلاذری)، ج2، ص 180

2_ الأخبار الطوال (دینوری)، ص 152؛ انساب الاشراف ،ج2، ص 182؛ تاریخ الیعقوبی، ج2، ص 184

3_ الاخبار الطوال، ص 152

4_ الارشاد، ص 249

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی