سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

روایتی قمہ زنی نقلی ہے ، یہ ان کاموں میں سے ہے جنکا دین سے کوئی تعلق نہیں

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران اھلبیت ع مذھبی مذھبی سیاسی عزاداری امام حسین علیہ السلام محضر امام خامنہ ای محرم

روایتی قمہ زنی نقلی ہے ، یہ ان کاموں میں سے ہے جنکا دین سے کوئی تعلق نہیں

نیوزنور:یہ غلط ہے کہ کچھ لوگ ہاتھوں میں قمہ لے کے سروں پر دے ماریں ، اپنے آپ کو لہو لہان کریں ۔ ایسا کرنے سے کیا ہوگا !یہ کیسی عزاداری ہے؟ جبکہ سر اور صورت پیٹنا ایک قسم کی عزاداری ہے ۔ آپ نے کئ بار خود مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کسی کو مصیبت پیش آتی ہے وہ سر اور صورت پیٹتا ہے ۔ یہ معمول کی عزاداری ہے ۔ مگر آپ نے کہاں دیکھا کہ کوئی اپنے عزیز ترین عزیز کیلئے تلوار کو ہاتھ میں لے کر اپنے دماغ اور سر پر مارتا ہے خون بہاتا ہے !کہاں ایسا کرنا عزاداری ہے ! روایتی قمہ زنی نقلی ہے ۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جنکا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں خدا بھی اس کام سے راضی نہیں ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق محرم الحرام کے استقبال میں 28ذیحجہ 1414 کو ایران کے صوبہ کهگیلویه و بویر احمد میں علماء اعلام کے اجلاس میں مرجع عالیقدر ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای  نے  پہلی بار عزاداری امام حسین علیہ السلام میں موجود غیر ضروری عزاداری کے انداز کے حوالے سے علماء کی خاموشی کو توڑ کر مستدل انداز میں عزادری  کے نام پر کی جانے والی قمہ زنی ( خونی ماتم) کو غیر اسلامی غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس سے پرہیز کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئےعزاداری کے حوالے سے مطلوب ضوابط کی نشاندھی فرمائی۔نیوزنور کے بانی اور چیف ایڈیٹر عبدالحسین عبدالحسینی نے ان ہی دنوں جون1994 میں امام خامنہ ای کے پورے خطبے کا ترجمہ کیا تھا اور آج 28ذیحجہ کی مناسبت اور محرم الحرام کے استقبال کے پیش نظر اسے دوبارہ نقل کیا جارہا ہے۔

مسئلہ قمہ زنی کے حوالے سے امام خامنہ ای مدظلہ العالی کے تاریخی خطبے کا اردو ترجمہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین. والصلاة والسلام علی سیدنا محمد وآله الطاهرین۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محرم کے حوالے سے دو باتیں ہیں ایک عاشورا کی تحریک کے بارے میں ،اگرچہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ کہا اور لکھا جاتا ہے نہایت عمدہ باتیں اس سلسلے میں بیاں ہوتی رہتی ہیں ۔لیکن حقیقت میں عمر بھر اس کی درخشاں حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ جتنا بھی عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں غور کریں تو معلوم پڑھتا ہے کہ یہ معاملہ کئ اعتبار سے پر کشش اور کئ اعتبار سے تفکر کرنے اور بیان کرنے کے قابل ہے ۔

محرم کے حوالے سے دوسری بات جو بحث کرنے کے قابل ہے اور اس بارے میں کم ہی گفتگو کی جاتی ہے وہ حسین بن علی علیہ السلام کی عزادارای ، اور عاشورا کو زندہ رکھنے کی برکتیں ہیں۔حقیقت میں اسلامی معاشرے میں شیعوں کا سب بڑا امتیاز اپنے دوسرے مسلمانوں پر یہ ہے کہ شیعہ معاشرے کے پاس عاشورا کی یاد ہے ۔جس دن سے حسین بن علی علیہ السلام کی مصیبت بیان کرنا ایک باب بن گیا ، اھل بیت علہم السلام کے چاہنے والوں اور ماننے والوں کے ذہنوں سے معنویت اور فیض کے چشموں نے پھوٹنا شروع کیا ، یہ چشمے ابھی تک جاری اور ساری ہیں اور آج کے بعد بھی جاری رہیں گے۔ جس کا راز عاشوار کی یاد ہے ، عاشورا کو بیان کرنا صرف ایک واقعہ کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے حادثے کو بیان کرنا ہے کہ جس کی طرف ابتداء میں بھی اشارہ کیا گیا کہ اس کے بے شمار اعتبارات ہیں ۔اسلئے یہ یادحقیقت میں ایک ایسا عمل ہے جو کہ بے شمار برکات پر محیط ہو سکتا ہے ۔

آپ توجہ فرمائیں کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں رونا اور رلانا اپنی جگہ ایک مقام رکھتا ہے ۔کوئی خیال نہ کرے کہ فکر ، استدلال اور منطق کے سامنے رونے کا کیا کام۔ اور یہ تو پرانی بات ہے ! نہیں ! ایسا سوچنا غلط ہے ۔ جذبات کا اپنا مقام ہے۔ اور منطق و استدلال کا اپنا مقام ہے ، ہر ایک کا ،انسان کی شخصیت میں اپنا کردار ہے ۔ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو کہ محبت اور جذبات کے ساتھ حل کئے جا سکتے ہیں اور ان میں منطق اور استدلال کاعمل دخل نہیں ہے۔ اگر آپ انبیاء کی تحریکوں کو دیکھیں ، تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ جب پیغمبر مبعوث ہوتے تھے ، پہلے جو انکے ارد گرد جمع ہوتے تھے اس کا عامل منطق اور استدلال نہیں ہوتا۔ پہلا مرحلہ جذباتی اور احساساتی ہے ، البتہ ہر سچے جذبے کے پیچھے ایک فلسفی برھان موجود ہوتا ہے ۔

مگر بحث اس بات پر ہے کہ جب نبی اپنی دعوت شروع کرتا ہے وہ اپنا فلسفی استدلال بیان نہیں کرتا ۔بلکہ سچا احساس اور جذبہ بیان کرتا ہے ۔ پہلے معاشرے میں جو ظلم جاری ہے ، جو طبقاتی اختلاف موجود ہے لوگوں پر « انداد الله » انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی طرف جو دباو ہے اسکی طرف معطوف کرتا ہے۔یہ وہی جذبات اور احساسات ہیں ، البتہ جب تحریک اپنی معقول اور عادی سطح پر پہنچ جاتی ہے تو استدلال اور منطق کی نوبت آ جاتی ہے۔

عاشورا کا حادثہ ، ذاتی طور ایک سچے جذبے کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ ایک عظیم انسان ، جسکی نورانی ، پاکیزہ اور ملکوتی شخصیت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، جن کے مقصد کے بارے میں منصفین عالم کا اتفاق ہے کہ وہ معاشرے کو ظلم و جور سے نجات دلانے کیلئے ہے ، تعجب بر انگیز حرکت شروع کردیتے ہیں ، اپنی حرکت کا فلسفہ جور کا مقابلہ قرار دیتے ہیں ، بحث مقدس ترین مقصد کے بارے میں ہے جو کہ منصفین عالم بھی قبول کرتے ہیں۔اس قسم کی شخصیت ایسے مقصد کیلئے مشکل ترین جنگ برداشت کرتا ہے۔

 مشکل ترین جنگ غریبی کی جنگ ہے ، عام و خاص کی داد تحسین اور ھیا ھو کی فضا میں جنگ لڑنا مشکل نہیں ہے ، جس طرح صدر اسلام میں حق و باطل کے سپاہیوں کی صفیں ایک دوسری کے مقابلے میں کھڑی ہیں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سپاہیوں سے پوچھا : کون تیار ہے میدان میں نکل کر دشمن کا فلان معروف جنگجو کا خاتمہ کرلے ،لشکر اسلام کا ایک جوان رضاکارانہ طور سامنے آتا ہے۔ پیغمبر نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے وداع کیا، مسلمانوں نے بھی اس کے حق میں دعا کی اور وہ میدان جنگ کی طرف روانہ ہوکر جہاد کرتے کرتے مارا گیا۔ یہ بھی ایک قسم کا مرنا ہے اور جہاد ہے ۔

 دوسری قسم کی جہاد وہ جہاد ہے جس میں جب انسان میدان میں جاتا ہے ، لوگ یا اسے جانتے نہیں ، یا اسکے مخالف ہیں ، یا اس سے آنکھیں چراتے ہیں ، یا اسکے مقابلے میں آتے ہیں ۔ جو کوئی دلی طور انہیں داد تحسین دیتے ہیں ان کی تعداد کم ہے ۔ ان میں جرئت نہیں ہے کہ زبانی داد تحسین دے سکیں، حتی عبداللہ بن عباس ، اور عبدااللہ بن جعفر جیسے افراد جو کہ خود بھی اسی شجرہ طیبہ اور خاندان بنی ھاشم سے ہیں،جرئت نہیں کرتے مکہ یا مدینہ میں بیٹھ کر فریاد بلند کرکے امام حسین علیہ السلام کے نسبت اپنی حمایت ظاہر کریں ۔ایسی جنگ غریبی کی جنگ ہے اور غریبی کی جنگ مشکل ترین جنگ ہے ۔

سب انسان کے دشمن ،سبھی انسان کے مخالف ، امام حسین علیہ السلام کی جنگ میں حتی کچھ دوست بھی مخالف ، کہ ان میں سے کسی ایک سے جب فرمایا: آو میری مدد کرو ، اور اس نے اپنے بدلے میں اپنے گھوڑے کو حضرت کیلئے بھیجا اور کہا کہ میرےگھوڑے کو استعمال میں لائیں ،کیا اس سے بھی بڑ کر غریبی ہے ، اس سے بھی بڑکر غربت کی جنگ ہے !

 اس غریبی کی جنگ میں اپنے سب سے عزیز آنکھوں کے سامنے مارے جائیں ، اسکے اپنے اولاد ، بھائی ، بھتیجے ، چچیرے بھائی، بنی ھاشم کے یہ پھول انکی آنکھوں کے سامنے مسل کر رکھ دیئے جائے، حتی چھے مہینے کا بچہ مارا جائے ، ان تمام مصیبتوں سے بڑ کر یہ معلوم ہونا کہ جب ان کے جسم مطہر سے جان خارج ہوجائے گی ، ان کی بے دفاع اور بے پناہ اہل و عیال پر حملہ کیا جائے گا۔جانتے ہیں کہ بوکھے بیڑھیے ان کی چھوٹی ، بڑی بیٹیوں پر حملہ کریں گے ، ان کو ڈرا دھمکائیں گے ، انکے مال و اسباب کو لوٹ لیں گے ،غارت کریں گے ، انکی اہانت کریں گے ۔ جانتے ہیں کہ امیر المومنین کی والا مقام بیٹی زینب کبری سلام اللہ علیہا جوکہ اسلام کی عظیم خاتون ہے ان کے ساتھ جسارت کی جائے گی۔ یہ سب جانتے ہیں اور اس پر اپنی ، اپنے اہل و عیال کی تشنگی کے عالم کو بھی اضافہ کریں ، چھوٹے چھوٹے بچے بیاسے ،بچیاں پیاسی، بوڑھے پیاسے ، حتی کہ شیر خوار بچہ بھی پیاسا، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ جنگ کتنی مشکل جنگ ہے۔

ایک ایسا عظیم انسان ، پاک و مطہر کہ جس کو دیکھنے کیلئے آسمان کے ملائکہ ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہیں اور حسین بن علی کی زیارت کی تمنا کرتے ہیں تا کہ ان سےمتبرک ہوسکیں ، ایک ایسا انسان کہ جس کے مقام کی آرزو انبیاء واولیا کرتے ہیں ایسے جنگ میں ان شدید ترین حالات میں شہادت پاتے ہیں ، ایسی شخصیت کی شہادت ، عظیم حادثہ ہے۔

کس انسان کا جذبہ اس حادثے سے جریحدار نہیں ہو سکتا ! اس حادثے کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کون اسکا عاشق نہیں بن سکتا؟کبھی کوئی کسی نعمت سے محروم ہے اس سے اس نعمت کے بارے میں سوال بھی نہیں ہوگا ۔ لیکن جب کوئی کسی نعمت سے بہرہ مند ہے اس سے اسکے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت حسین بن علی علیہ السلام کی یاد ہے ، یعنی مجالس عزاداری کی نعمت ، محرم کی نعمت ، عاشورا کی نعمت ، ہمارے شیعہ معاشرے کے لئے ہے ، افسوس کہ مسلمانوں میں غیر شیعہ بھائیوں نے اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے ،جبکہ وہ بھی اس نعمت سے خود کو بہرہ مند کر سکتے ہیں اور امکانات بھی موجود ہیں ۔

 اب جبکہ محرم اور عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی یاد ہمارے درمیاں رائج ہے اس یاد اور ان مجالس سے ہم کیا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور اس نعمت کا شکرانہ کیا ہے ؟اسی موضوع میں پر گفتگو کرنا میرا مقصد ہے۔یہ عظیم نعمت دلوں کو اسلامی ایمان کے منبع سے جوڑتی ہے۔ ایسا کام کرتی ہے جوکہ پوری تاریخ میں انجام دیا ، ستمگر حاکم عاشورا سے ڈرتے ہیں ، اور امام حسین علیہ السلام کی نورانی قبر سے خائف تھے ۔ واقعہ عاشورا اور اسکے شہداء سے ڈرنے کا سلسلہ خلفای بنی امیہ سے شروع ہوا اور ہمارے زمانے تک جاری ہے اور آپ لوگوں {ایرانی عوام کی طرف اشارہ}نے اپنے انقلاب کے دوراں خود اسکا نمونہ مشاہدہ کیا، اس منحوس(پہلوی) حکومت کی موجود گزارشوں میں سے اشارات بلکہ واضح طور ملتا ہے کہ محرم کے آنے کے ساتھ ان کے ہوش اڑجاتے تھے۔ یہ محرم ، مجالس عزاداری اور امام حسین علیہ السلام کی یاد کی نعمتوں کا ایک نمونہ ہے جو آپنے دیکھا ۔ اسلئے علماء اور عوام کو ان نعمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

عزاداری سے متعلق عوام کی ذمہ داریاں

عوام کا فائدہ اٹھانا ؛یہ ہوا کہ سید الشہدا علیہ السلام کی عزاداری کی مجالس کے ساتھ لو لگائیں اور ان کا انعقاد ہر سطح پر زیادہ سے زیادہ کیا کریں۔ لوگ خلوص کے ساتھ مجالس عزاداری سے بہرہ مند ہونے کی غرض سے شرکت کیا کریں ، نہ کہ وقت بتانے کیلئے یا عامیانہ طریقے سے صرف ثواب اخروی حاصل کرنے کی غرض سے ،بطور مسلم ان مجالس میں شرکت کرنےسے اخروی ثواب حاصل ہوتے ہیں ، لیکن مجالس کیلئے کیوں ثواب ہیں ، کس وجہ سے ہیں ؟ یقینا کسی وجہ سے ہیں ، اگر وہ وجہ اس میں نہ ہو ثواب بھی نہیں ہوگا۔کچھ لوگ اس نقطے کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔

سبھوں کو ان مجالس میں شرکت کرنی چاہئے ، ان مجالس کی قدر و منزلت جاننی چاہئے ، ان مجالس سے فائدہ اٹھائیں اور دل و جان سے ان مجالس کو اپنے اور حسین بن علی علیہ السلام ، پیغمبر کے خاندان ، اسلام اور قرآن کے روح کے ساتھ جوڑنے کا وصیلہ بنائیں ۔یہ ذمہ داری عوام کیلئے مخصوص ہے ۔

عزاداری سے متعلق علماء کی ذمہ داریان

اور اب علماء کی ذمہ داری کے بارے میں ؛ یہ مسئلہ سخت تر ہے ، چونکہ مجلس عزا کی روح یہ ہے کہ لوگ جمع ہوجائیں اور ایک عالم دین ان کے درمیاں حاضر ہو کرمجلس عزا قائم کرے تاکہ باقی اس سےمستفید ہو جائیں۔ ایک عالم دین کو کس طرح مجلس عز ا قائم کرنی چاہئے ؟میرا یہ سوال ان سبھوں سے ہے جو اس بارے میں احساس مسئولیت کرتے ہیں ۔ میرے عقیدے کے مطابق مجلس حسینی کی تین3 خوبیاں ہونی چاہئے۔

1۔           مجالس حسینی سے اھل بیت علیہم السلام کے نسبت دلی لگاو پیدا ہو نا چاہئے ۔ کیونکہ دلی لگاو ایک انمول ذریعہ ہے ۔آپ علماء دین کو چاہئے ایسا سلیقہ اختیار کریں کہ جس سے مجلس میں شرکت کرنے والوں میں حسین بن علی علیہ السلام اور خاندان پیغمبر کے نسبت محبت بڑنے کے ساتھ ساتھ ،معرفت الھی میں بھی اضافہ ہونا چاہئے ۔اگر خدا نا خواستہ آپ مذکورہ معنویت کے بجائےمجلس میں ایسی حالت پیدا کریں کہ سننے والا یا اس ماحول سے دور انسان دلی طور اھل بیت علیہم السلام کے نزدیک ہونے کے بجائے دوری اور بیزاری کا احساس کرے ، ایسی مجلس نہ صرف اپنے سب سے بڑے فائدے سے محروم رہی بلکہ ایک اعتبار سے نقصان دہ ہے۔اب جبکہ آپ مجلس کے بانی یا مقرر ہیں ، تدبر کریں کہ آپ ایسا کیا کچھ کرسکتے ہیں کہ جس سے لوگوں کے درمیاں ان مجالس میں شرکت کرنے سے،حسین بن علی علیہم السلام اور اھل بیت پیغمبر علیہم افضل صلواۃ اللہ کے نسبت دن بہ دن معرفت و محبت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو سکے ۔

2۔           مجالس حسینی میں واقعہ عاشورا کے بارے میں عوام کی معرفت زیادہ شفاف اور زیادہ روشن ہونی چاہئے ۔ایسا نہ ہو کہ ہم حسین بن علی علیہ السلام کی مجلس میں جائیں ، ممبر پر بیٹھ کر تقریر کریں لیکن اس مجلس کے لوگ اس فکر میں ڈوبے ہوں کہ" ہم تو اس مجلس میں آئے ، شرکت کی ، گریہ زاری بھی کیا آخر کس لئے ؟ یہ کیا بات تھی ؟آخر امام حسین علیہ السلام کیلئے کیوں رونا ہے ، آخر کیوں امام حسین علیہ السلام کربلا گئے اور عاشورا کو وجود میں لایا ؟" اسلئے ایک واعظ یا مقرر ہونےکی حیثیت سےآپ ایسے موضوعات کو زیر بحث لائیں کہ جن سے ایسے سوالات کیلئے جوابات حاصل ہوں۔ واقعہ عاشورا کے بنیادی عوامل و اسباب کے بارے میں لوگوں میں معرفت پیدا کرنی ہوگی ۔

3۔ ان مجالس کی تیسری ،ضروری خاصیت، لوگوں میں ایمان اور دینی معرفت میں اضافہ ہے ۔ ان مجلسوں میں چاہئے دین سےایسے نکات عنوان کئے جائیں جن سے مخاطب اور سننے والوں میں ایمان اور معرفت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو سکے۔یعنی واعظ اور خطیب ایک صحیح موعظہ ، ایک صحیح حدیث، سبق آموز تاریخ کا کوئی حصہ ، آیہ قرآن کا صحیح تفسیر یا کسی ایک اسلامی عالم اور عظیم مفکرکی باتیں اپنے بیانات میں شامل کرے اور سننے والوں اور اس مجلس میں شرکت کرنے والوں تک پہنچائے ۔ایسا نہ ہو کہ جب ہم ممبر پر جائیں ، تھوڑی بہت لفاظی کریں اور باتیں کریں اور اگر اس بیچ کوئی بات بھی کریں وہ ضعیف ہو، جس سے سننے والوں کے ایمان میں اضافہ ہونے کے برعکس سست اور کمزور ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو ہم ان مجلسوں میں مذکورہ فوائد اور مقاصد کو نہیں پہنچے ۔

غیر معتبر واقعات بیان کرنے سے پرہیز:

مجھے نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ کبھی کبار ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے ،یعنی کبھی کوئی مجلس میں ایسی بات نقل کرتا ہے جو کہ عقلی اور نقلی استدلال کےاعتبار سے بھی سست ہیں اور سننے ، سمجھنے، اور اھل منطق و استدلال کی ذھن کیلئے بھی تباہ کن ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کتاب میں کوئی بات لکھنے والے نے لکھی ہے اور اسکو جھٹلانے یا صحیح ثابت کرنے کیلئے دلیل بھی نہیں ہے ، ممکن ہے کہ سچ ہو ، ممکن ہے کہ جھوٹ ہو ، اگر آپ یہ نقل کریں گے ،گرچہ یہ مسلم نہیں ہے کہ خلاف واقع ہو ، لیکن اسکے سننے سے ، مستمعین میں پڑھے لکھے جوان یا رزمندہ یا انقلابی کے ذھن میں سوال اور مسئلہ پیدا ہو جائے ۔شک وشبہ پیدا ہو جائے، ان باتوں کو بیان نہیں کرنا چاہئے ۔ اگرچہ اسکی سند بھی صحیح ہو؛ کیونکہ گمراہی اور انحراف کا سب بنتی ہے نقل نہیں کرنا چاہئے؛ جبکہ بعض کتابوں میں مندرج اکثر ایسی باتوں کی کوئی سند بھی نہیں ہے۔

 کوئی کسی کی بات کو کہ میں جی ،فلاں سفر میں فلاں جگہ پر تھا وہاں ایسا واقعہ رونما ہوا۔ کہنے والا کسی سند یا سند کے بغیر کہہ دیتا ہے ، سننے والا اس پر یقین کرتا ہے اور کتاب میں اسکو تحریر کرتا ہے اور یہ کتاب میرے اور آپ تک پہنچ جاتی ہے ۔ میں اور آپ کیوں اس بات کو جس کو ایک بڑے مجمع میں ، ہوشیار اور بیدار اذھان کیلئے توجیہ نہیں کیا جاسکے بیان کریں !کیا جو کچھ بھی جہاں کنہی بھی لکھا جائے، انسان کو ضروری پڑھنا ہے اور دوسروں کیلئے بیان کرنا ہے۔

 آج ملک بھر کے عام جوان ۔ لڑکوں ،لڑکیوں سے لے کر مرد اور خواتین ،حتی غیر جوانوں کے اذہاں کھلے ہیں۔ اگر کل ،انقلاب سے پہلے صرف جوان پڑھے لکھے طبقے میں یہ خوبی پائی جاتی تھی ،لیکن آج صرف انکے لئے مخصوص نہیں ہے ۔ آج سبھی ، مسائل کو بصیرت اور استبصار کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں ۔آج ہمارے معاشرے کا مہم حصہ شک و شبہات میں گھیرا ہوا ہے ، یعنی دشمن شکوک پیدا کرتا ہے ۔ دشمن بھی نہیں ، منکرین میری اور آپکی ذہن میں شک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔

مہم یہ ہے کہ آپ ایسے مطالب بیان کریں جن سے یہ شبہات دور ہوجائیں ، نہ کہ ان شبہات میں اضافہ ہو جائے۔کچھ لوگ اس مہم مسؤلیت کی طرف توجہ کئے بغیر ممبر پر چڑ جاتے ہیں ، اور ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جس سے نہ صرف سننے والے کے ذہن سے، موجود الجھن دور ہوتی ہے بلکہ الجھنوں میں اضافہ ہو جاتاہے ۔ اگر ایسا کچھ ہوا ، ہم نے ممبر پر ایسی بات کی کہ جس سے دس جوان ، حتی ایک جوان کے ذھن میں دین کے سلسلے میں کوئی الجھن پیدا ہو جائے اور بعد میں ہماری مجلس سے چلا جائے اور ہم بھی اسے نہیں جانتے ہوں،توکس طرح اس کی اصلاح کی جائے؟ کیا اس کی تلافی ممکن ہے ۔بہت مشکل کام ہے ۔

 میں یہ نہیں کہتا کہ ہر مجلس میں یہ تمام خوبیاں ہونی چاہئے اور ان تمام موضوعات پر بحث ہونی چاہئے ؛ نہیں ، آپ اگر ایک معتبر کتاب سے ایک صحیح حدیث نقل کریں اور اسکا ترجمہ کریں کافی ہے ۔کچھ واعظ و خطیب حضرات ایک حدیث کی اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ اسکا اصلی معنی ہی گم ہو جاتا ہے ۔

اگر آپ اپنے سننے والے کیلئے ایک حدیث کا صحیح معنی بیان کریں گے ممکن ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں اسکا عمدہ حصہ اسی میں ہو۔اگر مصائب بیان کرنے کیلئے مرحوم محدث قمی کی کتاب نفس الہموم کو کھول کر پڑھا جائے سننے والوں کیلئے گریہ آور ہے ۔اور اس سےوہی جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے ۔ کیا ضرورت ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں کہ جس سے عزاداری کی مجلس اپنے اصلی فلسفے سے دور رہ جائے ۔

خرافات اورخونی ماتم سے پرہیز:

حقیقت میں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ خدانخواستہ اس دور میں جوکہ ظہور اسلام، بروز اسلام ، تجلی اسلام اور تجلی فکر اھلبیت علیہم الصلاۃ والسلام ہے اپنے وظیفے کو انجام نہ دے سکیں ۔کچھ کامیں ایسی ہیں کہ جس کے انجام دینے سے لوگ خدا اور دین کے نزدیک ہوتے ہیں ، ان کاموں میں سے ایک یہی روایتی عزاداری ہے جو کہ لوگوں کو دین کے ساتھ جڑے رکھنے کا سبب بنتا ہے ۔یہ جو امام فرماتے تھے " روایتی عزاداری کیا کریں" اسی سےجڑنے کے لئے کہتے تھے ۔عزاداری کی مجلسوں میں بیٹھنا ، مرثیہ پڑھنا ، رونا ، سر اور سینے کو پیٹنا ، عزاداری کے جلوس نکالنا ، یہ سب پیغمبر کے خاندان کے نسبت لوگوں کی محبت میں حرارت پیدا کرتا ہے اور بہت ہی اچھا اور مستحسن کام ہے ۔ اس کے برعکس کچھ ایسے کام بھی ہیں کہ جنہیں انجام دینے سے کسی کو دین ہی سے بگا دیتا ہے ۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے ان تین چار سالوں سے محرم میں عزاداری کے دوران کچھ غلط کامیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ جنہیں غلط ہاتھوں کے ذریعے ہمارے معاشرے میں رائج کیا جاتا ہے ۔ ایسا کام انجام دیا جاتا ہے جو کہ دیکھنے والے کیلئے سوال بر انگیز ہے ۔مثال کے طور پر ، پرانے زمانے میں طبقہ عوام الناس میں معمول بن گیا تھا کہ عزاداری کے دنوں میں اپنے آپ کو تالا باندھتے تھے !البتہ جب بزرگوں اور علما نے ایسا کرنے سے منع کیا یہ غلط رسم ختم ہو گئ ۔ لیکن اب اس رسم کو دوبارہ ترویج کرنا شروع کیا گیا ہے اور میں نے سنا کہ ملک کے مختلف حصوں میں کچھ لوگ اپنے بدن پر تالا چڑھاتے ہیں ! یہ غلط کام ہے۔ کیوں کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں !

قمہ زنی بھی ایسا ہی ہے ۔ قمہ زنی بھی خلاف کاموں میں سے ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ ضرور کہیں گے کہ " فلانی کو قمہ زنی کا نام نہیں لینا چاہئے تھا" ، ضرور کہیں گے کہ"آپکو قمہ زنی سے کیا مطلب تھا ، کچھ لوگ کرتے ہیں کرنے دیجئے" ۔نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا ، ایسی غلط حرکت کے مقابلے میں خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی ۔ جس طرح ان چار، پانچ سالوں سے جس طرح قمہ زنی کو رائج کیا جاتا ہے اگر امام (خمینی)رضوان اللہ علیہ کی حیات مبارکہ میں ایسا ہوتا وہ قطعا اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ۔

یہ غلط ہے کہ کچھ لوگ ہاتھوں میں قمہ لے کے سروں پر دے ماریں ، اپنے آپ کو لہو لہان کریں ۔ ایسا کرنے سے کیا ہوگا !یہ کیسی عزاداری ہے؟ جبکہ سر اور صورت پیٹنا ایک قسم کی عزاداری ہے ۔ آپ نے کئ بار خود مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کسی کو مصیبت پیش آتی ہے وہ سر اور صورت پیٹتا ہے ۔ یہ معمول کی عزاداری ہے ۔ مگر آپ نے کہاں دیکھا کہ کوئی اپنے عزیز ترین عزیز کیلئے تلوار کو ہاتھ میں لے کر اپنے دماغ اور سر پر مارتا ہے خون بہاتا ہے !کہاں ایسا کرنا عزاداری ہے ! روایتی قمہ زنی نقلی ہے ۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جنکا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں خدا بھی اس کام سے راضی نہیں ہے ۔

علماء سلف کےہاتھ بندھے تھے ،نہیں کہہ سکتے تھے کہ " یہ کام غلط اور خلاف ہے " آج اسلام کی حاکمیت اور اسلام کے جلوہ کا دن ہے ۔ایسا کوئی کام نہ کیا جائے کہ جس سے اسلامی معاشرے کا برترین طبقہ یعنی محب اھل بیت علیہم السلام کا معاشرہ جو کہ امام زمان ارواحنا فداہ کے نام مقدس ، حسین بن علی علیہ السلام کے نام اور امیرالمؤمنین علیہ الصلاۃ و السلام کے نام سے مفتخر ہیں ، باقی مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی نظروں میں ایک خرافاتی قسم کا معاشرہ متعارف کیا جائے ۔

 حقیقت میں ، میں نےجتنا بھی اس قمہ زنی کے بارے میں جو کہ یقینا ایک خلاف اور غلط کام ہے غور کیا ، دیکھا کہ اپنے عزیز لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ ایسا نہ کریں ۔یقینا میں اس کام سے کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہوں ۔اگر کسی نے قمہ زنی کا مظاہرہ کیا ، میں دلی طور اس سے ناراض ہوں ۔یہ بات میں نہایت تاکید کے ساتھ عرض کرتا ہوں ۔

 ایک زمانہ تھا ، اطراف و اکناف میں کچھ لوگ جمع ہوتے تھے ، عمومی نظروں سے پوشیدہ قمہ زنی کیا کرتے تھے اور ان کے کام کا مظاہرہ آج کل کا جیسا نہ تھا ، کسی کو اسکے اچھا یا برا ہونے سے کوئی مطلب نہ تھا۔ کیونکہ ایسا ایک محدود دائرے میں انجام پاتا تھا۔ لیکن جب اچانک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا تہران کی یا قم یا آذربایجان یا خراسان کے جیسے شہروں میں سڑکوں پر ہاتھوں میں قمہ اور تلواریں لے کے سر و صورت پر مارتے ظاہر ہونا ہو ۔ قطا یہ غلط کام ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اس طریقے سے راضی نہیں ہیں ۔میں نہیں سمجھ پاتا کہ کون سا سلیقہ اور کہاں سے یہ عجیب بدعات اور خلاف کام اسلامی معاشرے اور انقلابی معاشرے میں لائے جاتے ہیں !۔

پچھلے دنوں میں ،زیارت کے سلسلے میں بھی ایک عجیب و غریب اور نامانوس بدعت کو کھڑا کیا گیا ہے ! اس طرح کہ جب ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کرنا چاہتے ہیں ، صحن کے دروازے سے داخل ہوتے ہی اپنے آپ کو سینے کے بل گراتے ہیں اور سینہ خیز اپنے آپ کو حرم تک پہنچاتے ہیں !آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر صلواۃ اللہ علیہ کی قبر مطہر اور قبور امام حسین ، امام صادق ، موسی بن جعفر، امام رضا اور باقی ائمہ علیہم السلام کی سبھی لوگ ،علماء اور بڑے فقہا ، مدینہ ، عراق اور ایران میں زیارت کرتے تھے ۔کیا آپ نےکبھی بھی سنا کہ ائمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک نے ایسا کیا ہو اور یا علما جب زیارت کو جانا چاہتے تھے اپنے آپ کو صحن کے دروازے سے گراتے تھے اور سینہ خیز اپنے آپ کو حرم تک پہنچاتے تھے!اگر ایسا کرنا مستحسن اور مستحب ہوتا ، مقبول اور صحیح ہوتا ، ہمارے بزرگ ایسا کرتے ، لیکن نہیں کیا ۔ جبکہ نقل کیا گیا ہے کہ مرحوم آیت اللہ العظمی آقای بروجردی رضوان اللہ تعالی علیہ ، وہ بڑے عالم اور قوی ، عمیق اور روشن فکر مجتہد ، ضریح کو چومنے سے منع کرتے تھے جوکہ شاید مستحب ہے ۔ احتمالا ضریح چومنے کے بارے میں روایت بھی موجود ہیں ۔ دعا کی کتابوں میں ہے ۔ میرے ذہن میں بھی ہے کہ ضریح چومنے کے سلسلے میں روایت موجود ہے ۔اسکے باوجود کہ ضریح کو چومنا مستحب ہے انہوں نے کہا:" ایسا نہ کریں ، مبادا دشمن خیال کرے کہ سجدہ کرتے ہیں اور شیعوں کے خلاف الزام تراشی کیلئے نیا بہانہ پائیں"۔

 لیکن آج جب کچھ لوگ صحن مطہر علی بن موسی الرضا علیہ الصلاۃ و السلام میں داخل ہوتے ہیں خود کو زمین پر گراتے ہیں اور دوسو میٹر سینہ خیز چلتے ہیں تاکہ خود کو حرم تک پہنچائیں ! کیا ایسا کرنا صحیح ہے ، نہیں ۔ یہ غلط کام ہے ۔یہ تو دین اور زیارت کی اہانت ہے ۔کون اس قسم کے بدعتوں کو لوگوں میں رائج کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ کام دشمن کا ہو ! یہ باتیں لوگوں کو سمجھائیں ، اور ذھنوں کو اجاگر کریں ۔

دین منطقی ہے ۔ اسلام منطقی ہے اور اسلام کا منطقی ترین حصہ وہ تفسیر ہے جو کہ شیعہ اسلام کا ہے ؛ایک محکم تفسیر ۔ شیعہ متکلمین اپنے اپنے زمانے میں آفتاب کی طرح چمکتے رہے اور کوئی انہیں نہیں کہہ سکتا تھا کہ"آپ کی منطق کمزور ہے" یہ متکلمین ، چاہے ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں تھے ۔ جیسےکہ "مومن طاق" اور "ھشام بن حکم" چاہے ائمہ علیہم السلام کے زمانے کے بعد" بنی نوبخت" اور" شیخ مفید" جیسے اور چاہے ان کے بعد والے زمانے میں مرحوم "علّامہ حلی" جیسے بہت زیادہ تھے ۔

ہم منطق و استدلال والے ہیں ، آپ دیکھیں شیعت کے بارے میں کیسی استدلالی محکم کتابیں لکھی گئ ہیں !ہمارے زمانے میں مرحوم "عبدالحسین شرف الدین " کی کتابیں اور مرحوم "علّامہ عبدالحسین امینی" کی "الغدیر"سرتا پا استدلالوں سے بھری پڑی ہیں ۔ یہ تشیع ہے یا وہ مطالب اورموضوعات کہ جن کے لئے نہ صرف استدلال نہیں ہے بلکہ خرافات سےبھرے ہیں " اشبہ شی بلخرافہ" ! کیوں ان کو لاتے ہیں!یہ بہت بڑا خطرہ ہے جسکا خیال دین اور دینی معارف کے سرحدوں کی حفاظت کرنے والے علماء کو رکھناہے۔

البتہ؛ کچھ لوگ جب یہ باتیں سنیں گے ، یقینا ہمدردی سے ضرور کہیں گے " آج فلانی کو ان باتوں کو نہیں چھیڑ نا تھا " نہیں ؛ مجھے یہ کہنا چاہئے تھا۔ میں یہ باتیں ضرور کرتا رہوں گا۔ میری مسئولیت دوسروں سے زیادہ ہے ۔ البتہ دیگر حضرات کو بھی ایسا کہنا چاہئے ۔ آپ حضرات بھی ضرور کہیں ۔ بزرگوار امام ایسے خط شکن تھے کہ جہاں کنہی بھی انحراف پاتے تھے ، پوری قدرت کے ساتھ اور کسی لحاظ کے بغیر اسے بیان فرماتے تھے۔اگر ایسی بدعت اور خلافکاری اس بزرگوار کے زمانے میں ہوتی یا اس حد تک پہنچی ہوتی، بے شک اسے بیان کرتے ۔البتہ جن لوگوں کا ان کاموں سے دل لگا تھا ان کو تکلیف ہو گی کہ کیوں فلانی نے ہماری پسندیدہ کام کو اس طرح بے دردی اور اس لہجہ کے ساتھ بیان کیا ۔ وہ بھی اکثر مؤمن ، سچے اور بے غرض لوگ ہیں ؛ لیکن غلط کرتے ہیں۔

جو سب سے بڑی زمہ داری روحانین اور علماء حضرات پر ،ہر بخش میں اور ہر جگہ پر ضروری طور عائد ہوتی ہے وہی ہے جو کچھ عرض کیا گیا۔ عزای حسین علیہ الصلاۃ والسلام کی مجلس ، ایسی مجلس ہونی چاہئے جس سے معرفت حاصل ہو اور ان تین خوبیوں کا کہ جن کو عرض کیا گیا کے نکھرنےکا مرکز ہو نا چاہئے ۔

امید کرتا ہوں کہ خداوند متعال آپ کو کامیاب رکھے تاکہ جو کچھ پروردگا کی رضایت کا سبب ہے اسے قدرت ، شجاعت، تلاش وکوشش اور جھد مسلسل کے ساتھ بیان کریں اور انشااللہ اپنی زمہ واری کو انجام تک پہنچائیں ۔

والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاته .

28ذیحجہ 1414ہ ق

بیانات مقام معظم رهبرى در جمع روحانیون استان «کهگیلویه و بویر احمد» در آستانه ماه محرّم


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی