سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

انیس رمضان المبارک کو حضرت علی علیہ سلام پر مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ

 اردو مقالات اھلبیت ع حضرت علی علیہ السلام مذھبی رمضان

ازقلم؛عبدالحسین :

انیس رمضان المبارک کو حضرت علی علیہ سلام پر مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ

باسمہ تعالی

انیس رمضان المبارک  سن 40 ہجری قمری کو حضرت علی علیہ سلام پر مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ۔

سن 40 ھ ق : حضرت علی علیہ سلام مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔
 
عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، خوارج میں ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین بڑی اسلامی ‎شخصیتوں یعنی امام علی بن ابیطالب (ع) معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کرڈالیں گے میں سے ایک تھا ۔
 
ہر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوے اور اس طرح عبدالرحمن بن ملجم مرادی کوفہ آیا اور بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔ [ بیس شعبان سن چالیس کابھی مطالعہ کریں ]۔
 
وہ شبیب بن بجرہ اشجعی ، جو کہ اسکے ہمفکروں میں سے تھااور دونوں کو » قطاب بنت علقمہ» نے اکسایا اور للچایاتھا اور اس طرح انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں کمین میں بیٹھ کر امیرالمومنین علی علیہ السلام کے آنے کاانتظار کر رہا تھا ۔(1) دوسری طرف قطام نے » وردان بن مجالد» نامی شخص کے ساتھ اسکے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کۓ تھے ۔(2)
  
اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،اس نے امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھاتا رہا ۔(3)
 
حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے اور یہ رات نہایت عجیب اور آنحضرت کے حالات غیر عادی تھے اور ان کی بیٹی ایسے حالت کا مشاھدہ کرنے سے نہایت حیران اور پریشان تھی  ۔
 
روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ  کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گیا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گیا ہے ۔(4)
 
بہر حال نماز صبح کیلۓ آنحضرت کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔
جب آنحضرت محراب میں داخل ہوے اور نماز شروع کی ، پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ دیا :» للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک » ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک  پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک شگاف ہوا ۔(5)
حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبه ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گیا ۔(6)
کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پگڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑپڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگۓ ۔
حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛(7) یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیاتھا ۔
حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لۓ  اپنے فرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔
روایت میں آیا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکراۓ آسمانی فرشتوں کی صدائیں بلند ہوئیں ، کالی گھٹائیں چھا گئ ، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرئیل امین  نے صدا دی اور ھر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا: تھدمت و اللہ ارکان اللہ ھدی، و انطمست اعلام التّقی، و انفصمت العروۃ الوثقی، قُتل ابن عمّ المصطفی، قُتل الوصیّ المجتبی، قُتل علیّ المرتضی، قَتَلہ اشقی الْاشقیاء؛(8) خدا کی قسم ھدایت کے رکن کو توڑا گیا علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گیا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گیا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گیا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گیا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گیا، اسے شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔
اس طرح بھترین پیشوا ، عادل امام  ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم ، کاملترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے (ص) کا جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے ، الھی پیغمبروں اور رسول خدا (ص) کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر گۓ ۔

مدارک اور مآخذ:
1- 
الارشاد (شیخ مفید)، ص 20؛ الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ (البری)، ص 112
2- 
وقایع الایام (شیخ عباس قمی)، ص 41؛ تاریخ ابن خلدون، ج2، ص 184
3- 
الارشاد، ص 21؛ وقایع الایام، ص 41؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 171
4- 
منتہی الآمال، ج1، ص 172
5- 
الارشاد، ص 23؛ منتہی الآمال، ج1، ص 172؛ الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ، ص 113؛ وقایع الایام، ص 41
6- 
منتہی الآمال، ج1، ص 174
7- 
منتہی الآمال، ج1، ص 174 
8- 
منتہی الآمال، ج1، ص 174

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی