سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

حدیث؛ اہل تشیّع اور اہل تسنّن کی نظر میں

 اردو مقالات مذھبی

بسمہ تعالی

حدیث؛ اہل تشیّع اور اہل تسنّن کی نظر میں

تحریر:مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ حاج شیخ علی مشکینی قدس سرہ

شیعہ کہتا ہے”کلّ حدیثٍ صَدَر مِن المعصومین مِن علی الی مولینا العسکری، فھو سلسة الذّھب“ اور سنی کہتا ہے کہ” کلّ حدیثٍ رواہ الشافعی عن مالک عن نافع عن ابنِ عمر، فھو سلسلة الذّھب

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الحمدللہ الذی خلق فرزق والھم فانطق و ابتدع فشرع وعلا فرتفع و قدّر فاحسن و صوّر فاتقن و احتجّ فابلغ وانعم فاسبغ واعطی فاجزل ومنح بافضل(۱)والصلاۃ و سلام علی رسوله الکریم محمد وآله الطاھرین۔

اسلامی معارف کا مجموع جیسے اصول ، اخلاق، فروع فقہی، اور باقی علوم و آثار جو کہ مبداء اعلی سے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچیں ہیں،آنحضرت کے ذریعے انسانی معاشرے تک دو طریقوں سے پہنچا ہے،کتاب اور سنت۔

کتاب
کتاب یعنی الفاظوں کا وہ مجموعہ جو زبان مبارک پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آله وسلم سے سناگیا، لیکن اسکے الفاظ اور معنی دونوں معجزے کے طور پر حق تعالی کی طرف سے بطور معجزہ اور ہمیشہ کیلئے باقی رہنے والاکلام جامعہ انسانی کے تحویل میں دے دیا گیاہے ۔ یہ کلام "کتاب ﷲ"،" کلام ﷲ"،" قرآن"، اور فرقان وغیرہ.... کے نام سے جاناجاتا ہے
نزل به الروح الامین علی قلبک لتکون من المنزرین، بلسانٍ عربی مبین۔ [۲]

البتہ حدیث قدسی بھی حق تعالی سے منقول کلام ہے؛لیکن وہ ایسے الفاظ ہیں جوکہ خدا نے سابق پیغمبروں کو بھی القا کئے ہیں۔

سنت
سنت کہ جسے روایت ،حدیث،نص وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ایسا کلام ہے کہ جسکے الفاظ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے اور اسکے محتوا اورمعنی خدا کی طرف سے ہیں۔البتہ علم اصول میں سنت کی تین قسمیں ہیں
الف:قول معصوم 
ب :فعل معصوم 
ج : تقریر معصوم 
لیکن ان تین قسموں سے اصولین کا مقصد پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے صادر شدہ سنت مراد ہے۔ اسلئے کتابت کو سنت کے جزءمیں نہیں لایا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اگر سنت امام معصوم کے واسطے حاصل ہوا ہو،چوتھی قسم بھی اس میں شامل ہوگی اور وہ کتابت ہے۔کتاب اور سنت دونوں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے عوام تک پہنچنی چاہئے تاکہ اس پر عمل کیا جائے۔کتاب کا آجتک نسلاً بعد نسلٍ انسانوں تک پہنچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

بحمداﷲکتاب خدا ان ہی الفاظ،کلمات،خصوصیات واردہ، متواتر اور قطعی طور پر ہم تک پہنچی ہے اور اس میں کسی قسم کا تحریف یا تغیر نہیں ہوا ہے ۔اور اس بارے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے ،مسئلہ یا قول (تحریف کتابﷲ)جو کہ کچھ علماءفریقین سے صادر ہواہے ،وہ باطل ہے اور قابل قبول نہیں ہے ؛بلکہ غلطی اور لغزش ہے اور زلّة الکبیر، زلّة کبیرة۔[۳](بڑوں کی لغزش بہت بڑی لغزش ہے)۔

سنت اور حدیث
سنت اور حدیث جو کہ ہمارے لکھنے کا موضوع ہے اس بارے میں کئی طرح کے بحث ہوتے ہیں
اولاً: صدر اسلام سے لیکر ہمارے زمانے تک پیغمبر اسلام کی سنت اورکلمات کا امت اسلامی تک پہنچنے کی کیفیت کیا رہی ہے؟ 
ثانیاًسنت حاصل کرنے کے طریقے کے بارے میں ہمارے مسلک(شیعہ امامیہ اثناء عشریاور ہمارے دوسرے تمام مسلمان بھائیوں کے مسلک کے درمیان کیا اختلاف ہے؟

اس بارے میں چند نقاط کی طرف اشارہ کیا جائے گا
اول؛ اہل تشیّع کے نزدیک سنت اور حدیث وہی سنت اور حدیث ہے جو کہ اہل تسنّن کے درمیان ہے اورفریقین کااس سے مراد" وہ الفاظ اور مطالب ہیں جوکہ پیغمبر اسلام سے صادر ہوئے ہوں اور علوم و معارف الہی کے عنوان سے مقام بیان میں القا ءہوئے ہیں"۔اور یہ تہمت کہ شیعہ امامیہ اور فرقہ جعفریہ کے نزدیک اسکا دوسرامعنی ہے ۔ یہ توہم کہ انکا عقیدہ ہے کہ ائمہ معصومین علیھم اسلام،خود ہی خود حضرت حق سے مطالب حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کیلئے بیان کرتے ہیں باطل ہے۔ بلکہ عالم تشیّع اور امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ احکام الھی اور معارف دینی از جملہ اصول و فروع وغیرہ جو کہ معصومین سے صادر ہوتے ہیں وہ سب بعنوان نقل سنت پیغمبر اسلام اور آنحضرت سے دریافت شدہ معارف ہیں۔

ھشام بن سالم اور حماد وغیرہ ، وہ لوگ کہتے ہیں
سمعناابا عبداﷲ(ع)یقول: حدثنی ابی و حدیث ابی حدیثُ جَدّی و حدیث جَدّی حدیث الحسین و حدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث امیر المومنین و حدیث امیر المومنین حدیث رسول ﷲ و حدیث رسول اﷲ قول اﷲ عزوجلّ۔[۴]

اور جابر انصاری سے بھی نقل ہے کہ کہا
قلتُ لابی جعفر(‏ع) اذا حدثتنی بِحدیثٍ فاسندہ لی،فقال: حدّثنی ابی عن جدّی عن رسول اﷲ عن جبرئیل عن ﷲ تبارک و تعالی و کلّ ما اُحدّثکَ بھذا الاسناد۔[۵
(
امام باقر سے عرض کی جب آپ میرے لئے حدیث نقل کرتے ہیں ،اسکے راویوں کے سلسلے کو بھی میرے لئے نقل کیجئے۔پھر حضرت نے فرمایا:میرے لئے میرے والد نے حدیث نقل کیا ،میرے والد نے میرے دادا سے، میرے دادا نے رسول خدا سے،رسول خدا نے جبرئیل سے، جبرئیل نے خداوند تبارک و تعالی سے؛جو کچھ بھی تمہارے لئے حدیث نقل کروں ،اسی سند سے ہے۔)

دوّم: گذشتہ موضوع کی روشنی میں اھل سنت اور ہم (اھل تشیع )میں حدیث حاصل کرنے کے طریقے اور سند کے تسلسل میں فرق ہے،جو کچھ ”سنت نبوی“ کے عنوان سے پیغمبر اکرم سے ہم تک پہنچا ہے،وہ(قطعی اکثریت کے ساتھ) امامان معصوم کے ذریعہ وصول ہوا ہے یہ وہی بارہ شخص ہیں جو کہ خدا کی طرف سے خلیفہ منصوب ہیں جو کہ تمام اھل اسلام کے عقیدے کے مطابق صاحب تعظیم و تکریم پاک انسان ہیں اور طایفہ امامیہ ،کے عقیدے کے مطابق گناہ،خطا،اور اشتباہ سے معصوم ہیں۔

شیعہ نظریہ
شیعہ نظریئے کے مطابق ،چونکہ امامان معصوم کی زندگی(بارہویں امام کی غیبت تک)۲۶۰ ہجری تک تھی،اس بنا پر ،پیغمبر صلی اﷲ علیه و آله وسلم کے احادیث اور انکی سنت اس تاریخ تک کسی اشتباہ اور خطا سے مصون رہی ہے اورغیر معصوم راویوں کا سلسلہ اس زمانے سے لیکر ہمارے زمانے تک کا ہے ۔

سنی نظر یہ
مگر سنی ، نظریئے کے مطابق غیر معصوم راویوں کا سلسلہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ارتحال سے شروع ہوتا ہے۔دوسرے الفاظوں میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی شریعت بیان کرنے کے اعتبار سے اور احکام الھی ، معارف اسلامی اور حلال و حرام دینی کو مصون رکھنے کیلئے ،سنی نظریئے کے مطابق۲۳ سال( یعنی بعثت سے لیکرآنحضرت کے رحلت تک)اور شیعہ نظریئے کے مطابق ۲۷۳ سال ( یعنی بعثت سے لیکر گیارویں امام کے رحلت تک) ہے۔

نتیجے کے طور پر،معصوم سے حاصل شدہ احکام، معارف اور علوم اسلامی ،شیعہ کی نظر سے،کمیت میں بہت زیادہ اور کیفیت میں،قریب العہد زمانہ معصوم ہے اور عامّہ کے نظریئے کے مطابق ،نقل شدہ اورسیکھے گئے مجموع احادیث ان ہی ۲۳ سالوں تک محدود ہے،زیادہ سے زیادہ فاصلہ اور طولانی سے طولانی زمانے کے ساتھ ہے۔اس ضمن میں یہ بھی واضح ہو کہ فرقہ شیعہ کا عقیدہ ہے پیغمبر اکرم صلیﷲ علیہ و آلہ وسلم نے، وہ سب کچھ جو کہ جامعہ بشری کو ضرورت ہے از جملہ احکام اصولی و فروعی اور ان دو کے علاوہ ،سب کچھ اپنے خلفای معصوم کو بیان کئے ہیں اور ان تک منتقل کئے ہیں، اور ان کے پاس ودیعہ ہے۔ ان میں سے پیغمبر اسلام کے خطبہ حجة الوداع کے کلمات ہیں جو کہ اس حقیقت کا بین سند ہے،آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے بار ہا اس موضوع کوتصریح کے ساتھ بیان کیا ہے از جملہ : 
یا ایھا الناس! واﷲ ما من شیئٍ یقرّبکم من الجنّة و یباعدکم من النار الّا وقد امرتُکم بہ،و ما من شیئٍ یقرّبکم من النار و یباعدکم من الجنة الّا وقد نھیتکم عنہ۔[۶
(
اے لوگو! کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو جنت کے نزدیک اور جہنم سے دور رکھ سکے ،مگر یہ کہ میں نے آپکو اسکا حکم دیا ہو اور کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو جنت سے دور رکھے اور جہنم کے نزدیک کر لے مگر یہ کہ میں نے اس سے آپکو منع کیا ہو۔
اور ایسے مطالب کا دعویٰ علماءاھل سنت نہیں کرتے،کس کو اس مقام کا مصداق جانیں؟

سوّماحادیث پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے صادر اور وصول ہونے پر اطمنان اور اتقان طریق ،استحکام نقل کا مسئلہ ہے جو کہ شیعہ مسلک کے مطابق ۲۶۰ ہجری تک ثابت ہے اور عامہ(اھل سنت) اس کو قبول نہیں کرتے ہیں۔وضاحت کے طور پر اشارہ کیا جائے کہ اگر فرض کریں کہ اھل بیت اطہار کی امامت ثابت نہ ہو ،ہمیں ماننا پڑے گا کہ انکے حجیت گفتاراورنقل احادیث اور اسی طرح واجبی طور ان سے تمسک رکھنا ،ان سے احکام الھی اور علوم و معارف قرآنی حاصل کرناثابت اور مسلمہ امر ہے؛آیة شریف اس بات کی دلالت کرتی ہے
انّما یُریدُ اﷲ لیُذھب عنکم الرّجسَ اھلَ البیت و یُطَھّرکم تطھیراً۔[۷]
 
اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے گفتار کے مطابق
اِنّی تارک فیکم الثّقلین کتاب اﷲ و عترتی اھلَ بیتی، ماان تمسّکتم بھمالَن تضلّوا۔[۸
اس لئے کتاب اور سنت، دونوں اھل بیت علیھم السلام کے قول کی حجت کی دلیل اوران سے رجوع کرنے اور ان سے احکام حاصل کرنے کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس میں کوئی تردید نہیں ہے کہ ان کی اَنس ، عکرمہ ، ابوہریرہ وغیرہ ۔۔۔ جیسے محدث لوگوں کے ساتھ بنیادی فرق ہے اور انکے احادیث انکے بغیرکسی بھی حدیث کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے۔کیونکہ ”جھوٹ“، پلیدی اور رجس کا تعلق روح و رواں سے ہے اور مذکورہ آیة شریف کے ا عتبار سے انکو ہر رجس اور پلیدی سے دور رکھا گیا ہے اور پاکیزہ جانا گیا ہے۔اسی طرح حدیث متواتر ثقلین بھی تمام امت کو ان سے انکے علوم سیکھنے اور حاصل کرنے کی دعوت دیتاہے۔

چہارم؛ ہر کوئی، پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل شدہ احادیث میں دقت اور تامل کرے اس کے لئے واضح ہو جائے گا کہ طول تاریخ میں سنت جس راستے سے حدیث صادر ہونے کے زمانے سے لیکر آج تک عالم تشیع میں کسی بھی صورت میں محذور سنّت عامہ نہیں ہوئی ہے؛ کیونکہ جو عامّہ (اھل سنت )کی طرف سے سنت حاصل کی گئی ہے وہ بڑی مدت کیلئے ممنوعیّت کتابت سے دوچار رہی،اور صرف از طریق "السنہ واذ ھان سابقین بہ لاحقین" منتقل ہوتا رہا ہے۔

چونکہ خلیفہ دوّم نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ارتحال کے بعد حدیث لکھنا قدغن کیا اور”کفانا کتابﷲ“جیسے دلائل سے سنّت اور حدیث کو لکھنا ممنوع کیا؛اس طرح کہ کچھ لوگوں کو حدیث لکھنے کے جرم میں کوڑے مارے اور یہ سلسلہ اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک جاری رہا۔البتہ افراد مختلف الحال کے ہاتھوں مطلب کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل کرنے کے لئے کیسے خطرات پیش آتے ہیں اور کس حد تک الفاظ معانی اور نکات کا تغیر و تبدیل اور تحریف ہوناہے،ایک واضح بات ہے ۔

لیکن شیعوں کے درمیان سیر سنّت کا طریقہ دوسرا رہاہے اور ابتدا سے ہی جب پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا
قیّدوا العلم َ بالکتاب۔[۹
(
علم کو لکھنے کے ساتھ قید کرو محفوظ کرو۔
جوکچھ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے تھے،علی لکھتے تھے ، اور اسلئے اھل بیت علیھم السلام کے پاس ایک کتاب تھی ،اکثر اپنے قریبی اصحاب کیلئے اس سے نقل کرتے تھے اور وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی املا اور علی کی تحریر تھی[۱۰] اور یہ علوم و معارف اس کے علاوہ تھے کہ وہ سب بزرگواران ،اپنے اصحاب اور شاگردوں کو سکھاتے اور لکھنے کا حکم دیتے تھے۔

دوسری اور ایک کتاب بھی حضرت زھرا سلام اﷲ علیھا کے املا اور حضرت امیر علیہ السلام کی کتابت کے ساتھ ہے جو کہ علوم و احکام متنّوعی میں جو کہ زھرای مرضیّہ سلام اﷲ علیھا نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھے تھے یا خود ہی الہام الھی کے ساتھ ذہن میں رکھتی تھی اھل بیت کے پاس موجود رہی ہے۔[۱۱]

اسی طرح اھل بیت کی روایات میں آیا ہے
اکتبوا ما تسمعون،فانّکم سوف تحتاجون الیھا“[۱۲]او ”اکتبوافانّکم لا تحفظونَ حتّی تکتبوا“ [۱۳
(”
جو کچھ سنتے ہو اسکو لکھو؛کیونکہ جلدی اسکی ضرورت پڑے گی“) یا(”لکھو، کیونکہ لکھنے کے بغیر محفوظ نہیں رکھ سکو گے“۔)

یونس بن عبد الرحمن کہتا ہے: امیر مومنان  علی کی ایک کتاب ”فرائض“ کے بارے میں مجھ تک پہنچی تھی۔ اسکو آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا؛ انہوں نے فرمایا صحیح ہے۔[۱۴]

اسی طرح عمرو متطبّب کہتا ہے :میں نے ظریف بن ناصح کی کتاب ”دیات “امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی؛انہوں نے تائید فرمائی۔[۱۵]

حسن بن الجھم بھی نقل کرتا ہے یہی کتاب(دیات) کو امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی انہوں نے تائید فرمائی۔[۱۶]

جن دلائل کا ذکر ہوا اسکے علاوہ کلام پیغمبراکرم ہے جو کہ خطبہ مسجد خیف میں فرمایا
نَظّراﷲ عبداًسمع مقالتی فوعاھا و حفظھا و بلّغَھا من لم تبلغہ [۱۷]

لکھنے کی ضرورت پردوسری واضح دلیل ہے کیونکہ محفوظ رکھنے کا بہترین مصداق لکھنا ہے۔ اور روایت میں آیا ہے کہ سفیان سوری ،نے امام صادق کے ایک اصحاب سے امام سے ملاقات کرنے کیلئے وقت مانگا، اجازت حاصل کرکے مقرر وقت پر سفیان حاضر ہو ا ،اور قلم و دوات کی درخواست کرکے کہا:رسول اﷲ نے جو خطبہ مسجد خیفہ میں دیا اسے بیان کیجئے۔حضرت نے فرمایا
اکتب بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔خطبة رسول اﷲ فی مسجد الخیف، فقال: نَظّراﷲ عبداًسمع مقالتی فوعاھا و۔۔۔۔(جیساکہ بیان ہوا)۔[۱۸]

اسی ترتیب کے ساتھ لکہنا پڑے گا کہ تشیّع کے نظریئے کے مطابق آغاز صدورسنّت سے لیکر تمام شرائط حفظ و رعایت کے ساتھ مقیّد بہ کتابت رہا ہے۔سنّت کی ایسی حالت عامّہ(اھل سنت) کے پاس نہیں ہے مگر ان میں سے کچھ؛اور اس لئے ان کے درمیان معروف ہے:” کلّ حدیثٍ رواہ الشافعی عن مالک عن نافع عن ابنِ عمر، فھو سلسلة الذّھب“۔

مگرعلماءشیعہ کے پاس ”کلّ حدیثٍ صَدَر مِن المعصومین مِن علی الی مولینا العسکری، فھو سلسة الذّھب“ اور اس کے علاوہ حد فاصل میں معصومین اورہمارے علماءمیں بھی ایسے راوی ہیں کہ ان سے روایت حاصل ہونا بھی سلسلة الذھب ہے؛ جیسے ذرارہ، محمد بن مسلم ، ابان ، ابن ابی عمر اور یونس وغیرہ ہیں۔

اسلئے کہا جا سکتا ہے کہ ”حقیقی اھل سنّت“ فرقہ شیعہ جعفری ہے نہ کہ جو ”اھل سنت“ کے نام سے معروف ہیں کہ حدیث کے بارے میں جب مضیقہ میں پڑ گئے،قیاس ، استحسان اور استقراءوغیرہ کو کتاب و سنت کا ایک منبع قرار دیا۔لیکن انصاف یہ ہے کہ علماءاھل سنت نے ،احادیث کے نقل اور تنظیم میں ہم سے زیادہ زحمت اٹھائی ہے؛چنانچہ تفسیر کلام اﷲ میں بھی ایسا ہی ہے۔

خدا سے تمام بی دریغ نعمتوں، از جملہ ”سنّت“ تک دسترسی جو کہ حیات طیبہ کیلئے راہ گشا ہے، اور نعمت راہ یابی ولایت اھل بیت کہ وہ امامان حق ہیں، شکر کرتا ہوں۔۔۔۔ یا اھلَ بیت النبوّة!۔۔۔ عندکم ما نَزَلت بہ رسلُہ و ھبطت بہ ملائکتہ ۔۔۔۔۔ مَوالیّ۔۔۔ بکم علّمنا اﷲ معالم دیننا واصلح ما کان فَسَد مِن دنیانا۔۔۔[۱۹]

الھمّ انّا نشکرک علی ان عرّفتنا نفسک ورسلک وخاتم رسلک وحُجَجِک و خاتمَ حُججِک، وما نَدرِی ما نشکرا جمیل ما تنشر ام قبیح ما تستر، ام عظیم ما ابلیتَ و اولیتَ ام کثیر ما منہ نجیت و عافَیت۔ 
والسلام علیکم ورحمة اﷲ 
علی مشکینی 
مدارک 
۱ عیون اخبار الرّضاں:۱۷۳/۲ ؛البحار:۳/۲۵۷/۸۵ 
۲ سورہ مبارکہ الشعرائ:۱۹۵-۱۹۳ 
۳ بزرگوں کی لغزش بہت بڑی لغزش ہے۔ 
۴ الکافی:۱۴/۵۳/۱ ؛ وسائل الشیعہ: ابواب القضائ، ب ۸ ح۲۶ 
۵ امالی المفید:۱۰/۴۲ ؛ حلیة الابرار:۹۵/۲ ؛الخرائج و الجرائح:۸۹۳/۲ ؛البحار:۲۱/۱۴۸/۲ 
۶ الکافی:۲/۷۴/۲ 
۷ سورہ مبارکہ الاحذاب:۳۳ 
۸ البحار:۱۹۱/۳۳۱/۳۶ 
۹ المستدک علی الصّحیحین:۱۰۶/۱ ؛ عوالی اللئالی:۶۸/۱ ؛منیة المرید:۲۶۷ ؛ کنزالعمال:۱۴۷/۱۰ ؛ البحار:۱۵۱/۲ اورکچھ نقلوں میں ایسا آیا ہے:”قال رسول اﷲ:قیدوا العلم۔قلتُ و ما تقییدہ؟ قال: کتابتہ“ 
۱۰ بصائر الدرجات:۱۴۹ ؛ الکافی:۲۹۶/۱ 
۱۱ الکافی:۲۹۷/۱ 
۱۲ الکافی:۹/۵۲/۱ 
۱۳ الکافی:۱۰/۵۲/۱ 
۱۴ الکافی:۱/۳۳۰/۷ 
۱۵ الکافی:۸/۳۲۴/۷ 
۱۶ الکافی:۹/۳۲۴/۷ 
۱۷ الکافی:۱/۴۰۲/۱ (خدا اس بندے کو خوشحال بنائے جو میری بات یاد رکھے اسکی حفاظت کرے اور جن تک نہیں پہنچا ہو ان پہنچائے۔
۱۸ الکافی:۲/۴۰۳/۱ 
۱۹ الکافی:۲/۴۰۳/۱

................
ترجمہ از عبدالحسین 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی