سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امریکہ اور سعودی عرب نامی کالونی/ پیسہ پھینکو تماشا دیکھو ٹرمپ کی عرب پالیسی!

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل

امریکہ اور سعودی عرب نامی کالونی/ پیسہ پھینکو تماشا دیکھو ٹرمپ کی عرب پالیسی!

امریکہ اور سعودی عرب نامی کالونی/ پیسہ پھینکو تماشا دیکھو ٹرمپ کی عرب پالیسی!

نیوزنور:امریکی صدر نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد سے اب تک  سعودی عرب پر ایک خاص نگاہ مرکوز کی ہوئی ہے  اور اس ملک کو  ایک تجوری  کے عنوان سے دیکھتا ہے ۔اور یہ بات مسلم ہے  کہ  اگر ریاض امریکہ کا سایہ  رحم و کرم اپنے سر پر چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یمن کی جنگ میں سعودی جرائم سے امریکہ چشم پوشی کر لے تو اسے اس کے مقابلے میں امریکہ کو رشوت ادا کرنی پڑے گی اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا ۔   

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ،  امریکی صدر  ڈونلڈ  ٹرمپ اس وقت پورے طریقے سے آل سعود سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے ۔ اس نے ابتدا میں امریکی فوج کو شام سے نکالنے کا اقدام کیا  لیکن جب اس نے کہا " سعودی عرب ہمارے فیصلے پر خاص توجہ دیتا ہے  اور ہم اگر شام میں رہنا چاہیں تو آپ کو اس کے پیسے دینے ہوں گے "  یہ  امراس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  امریکہ سعودی  عرب  کو اور زیادہ دوہنے کے چکر میں ہے ۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب ٹرمپ نے سعودی عرب سے پیسے کا تقاضا کیا ہے  کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ  سعودی عرب ، امارات  اور خلیج فارس کے بقیہ  ثروت مند شیوخ سے پیسوں کا تقاضا کر چکا ہے  اور پھر بھی ٹرمپ کا اصرار ہے کہ  یہ ممالک داعش کے مقابلے کے لئے   اطمینان بخش پیسہ نہیں دے رہے ہیں ۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے اظہار نظر کرتے ہوئے کہا  کہ ،  خلیج فارس کے ثروت مند حکمران اس بات پر مجبور ہو جائیں گے  کہ  امریکہ کی علاقے سے عقب نشینی کے بعد  اپنے خصوصی ہوائی جہازوں  اور شاہانہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔

اس نے صراحتا کہا : تم ہمارے بغیر دو ہفتے بھی زندہ نہیں رہ سکتے ۔

 ٹرمپ نے  شام میں امریکی فوجی موجودگی کے لئے پیسوں کا تقاضاکیا ہے  اور یہ حیلہ گری  شام پر امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کے حملے کے بعد سے اسی طرح جاری ہے  اور وائیٹ ہاوس کے ترجمان سارا سندرز نے اپنے ایک بیان میں کہا : امریکہ کی ذمہ داریوں میں تبدیلی نہیں آئی ہے ۔  امریکی صدر  جلد سے جلد شام سے امریکی فوجی انخلا پر مصر تھے ۔

ٹرمپ نے وائیٹ ہاوس میں  ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی  والے سعودی عرب کے وفد کے ساتھ ایک جلسے میں   کہا : سعودی عرب ایک بہت زیادہ ثروت مند ملک ہے  اور جیسا کہ ہمیں امید ہے  وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ ہمیں دیں گے ۔ 

روسی ماہر الکساندر دومرین نے روسی الیوم سے بات کرتے ہوئے کہا : ٹرمپ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ  اگر  سعودی عرب   شام میں امریکہ کا وجود چاہتا ہے  تو اسے مالی مدد کرنی پڑے گی  اور اگر  وہ پیسے  نہیں دیتے ہیں تو انہیں  اکیلے ہی ایران اور روس کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ البتہ یہ چیز امریکی سیاست کے ساتھ بھی جڑی ہے ۔ لیکن یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ   ٹرمپ کے یہ اقدامات  کوتاہ بین سیاست کے نتیجے میں ہیں یا مکارانہ سیاست کے نتیجے میں ؟  اور اب تک جو بات  سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ  ٹرمپ بہت چھوٹی بازی نہ کہ لمبی بازی کھیلنا چاہتا ہے ۔

مشرق وسطیٰ/ مغربی مشرق کے تحقیقی امور کے مدیر" سیمیون با گداساروف"  نے روسی الیوم پر اعلان کرتے ہوئے کہا :  ٹرمپ جان بوجھ کر منافع لینے کے چکر میں ہے ۔  پیسہ دو  یہ ٹرمپ کی متداول ٹیکنیک ہے ۔  اگر سعودی عرب پیسے دے گا  تو یہ ہمارے لئے دائمی فائدہ ہے۔ سعودی عرب  اور علاقے کے دیگر ثروتمند ممالک امریکی فوج کے لئے پیسہ فراہم کرتے ہیں  اور جنگوں میں اس کی مدد کرتے ہیں  اور امریکہ اس طولانی بیزنس میں سرمایہ گذاری کرتا ہے ۔

پیسہ پھینکو اور تماشا دیکھو یہ ٹرمپ کی متداول ٹیکنیک ہے

بین الاقوامی روابط کے ماہر رائد المصری نے بھی اسپوتنیک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :  ڈونلڈ ٹرمپ  ایک محرک   طریقہ اپناے ہوئے ہے۔  ٹرمپ کا شام سے عقب نشینی کی بات کرنا در اصل  شام میں باقی رہنے کے لئے سعودی عرب سے پیسہ اینٹھنے کا ایک طریقہ ہے ۔ امریکہ جانتا ہے کہ شام میں اس کا وجود بے ہدف ہے  کہ جس کا کوئی سیاسی اور فوجی فائدہ نہیں ہے  اس لئے وہ ایسے  طریقے اختیار کرتا ہے کہ جو محمد بن سلمان کو محرک کریں ۔   کوئی بھی ٹرمپ کے ان فیصلوں کو بدل نہیں سکتا   اور اس ٹیکنیک کا مقصد خلیج فارس کے ثروت مند ممالک سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے ۔

روسی فوجی ماہر  ویکٹر مورا خووسکی نے  وائیٹ ہاوس کے ترجمان سارا سندرز کے شام سے عنقریب  عقب نشینی  کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : شام سے امریکی فوج کے انخلا کے متعلق وائیٹ ہاوس کے فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ  شام میں اس چھوٹی سی فوج کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔  شام میں امریکی فوج کا وجود سیاسی  اھداف کے حصول میں فائدہ مند نہیں ہے ۔ عراق میں امریکی فوج کی ایک  تعداد پائی جاتی ہے  اور شام میں بھی امریکہ  اپنی خصوصی فوج  کو موجود رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔  شام میں امریکی فوج کا وجود بے معنی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ  شام میں موجود ہ سازشیں زیادہ دیر تر باقی رہنے والی نہیں ہیں  اور یہ سب کچھ ترکیہ کے اختتام اور شامی حکومت کی بالا دستی پر ختم ہوگا ۔  شام میں خصوصی امریکی فوج کا وجود واشنگٹن کی موقت پالیسیوں میں سے ہے ۔

بہر حال ٹرمپ نے ابھی تک اس بات کا اظہار کیا ہے  کہ خلیج فارس کے ثروت مند ممالک  بالخصوص سعودی عرب کو  دوھنے میں کوئی کثر باقی نہیں  رکھی  اور اس کی حالیہ تقریروں نے اس بات کو بخوبی ثابت کر دیا ہے ۔

وہ واضح طور پر شام سے امریکی فوج کے انخلا کی بات کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹور سکے ۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے  کہ یہ اخراجات سعودی عرب اور علاقے کے دوسرے ثروت مند ممالک کو ادا کرنے ہوں گے ۔

اور اسی طرح اگر ہم  شام میں امریکہ کے فوجی وجود پر گہری نظر ڈالیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے  کہ جنگ میں ان فوجیوں کا کوئی  کردار نہیں رہا  اور ان میں سے بیشتر فوجی پراکندہ ہیں ۔  اور یہ پراکندہ فوجی تا حد امکان دشمن سے رو برو مقابلہ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں  تاکہ کوئی ایسا نقصان نہ ہو کہ جس کی بھرپائی ٹرمپ کی حکومت کو کرنی پڑے ۔  شام سے امریکی فوجی انخلا کے تمایل کے متعلق امریکی صدر کی تقریریں در اصل امریکی عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ہیں  کیونکہ وہ بخوبی یہ بات جانتا ہے  کہ امریکی عوام اپنے فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں ۔

اس ترتیب کی بنا پر  امریکی صدر  مالی ، اقتصادی اور عوامی اعتبار سے فائدے میں ہے ۔ امریکی بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ شام میں امریکی موجودگی حالات پر اثر انداز ہونے میں فائدہ مند نہیں ہے  کیونکہ بقیہ کھلاڑیوں کا وجود بہت زیادہ قوی ہے ۔  اس بنا پر ٹرمپ کا مقصد سعودیوں سے ٹیکس وصول کرنا ہے ۔

امریکہ کا سعودی عرب سے وہی رابطہ ہے جو ایک امپراطوری کا کالونی سے ہوتا ہے

امریکہ کا سعودی عرب سے وہی رابطہ ہے جو ایک امپراطور ی کا کالونی سے ہوتا ہے ٹرمپ سعودیوں سے پیسہ اینٹھنے اور ان کے اثاثے نگلنے کے چکر میں ہے  اس حساب سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  سعودی عرب کے کاندھوں پر   یمن کی جنگ کے بھاری اخراجات  اور اس جنگ کے لئے خریدنے والے مہنگے ہتھیاروں  کی ادائیگی  کے بعد اس طرح کی پالیسیوں کی ادائیگی کس طرح سے ہوگی ؟

محمد بن سلمان  نے سعودی عرب کی نو سازی اور اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے اس کو صرف  تیل پر منحصر نہ کرنے کی بات کی ہے  لیکن اس  اربوں ڈالر کے اخراجات کی ادائیگی کس طرح سے ہوگی ۔  بالخصوص ذرائع کی رپورٹ کے مطابق مبلغ ۵۰۰ ارب ڈالر  اور تقریبا ۱۰ ارب  ڈالر  کے اثاثے محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں ۔

شام اور عراق میں سعودی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے اخراجات  بھی نظر میں رکھے جائیں ۔  ہر چند کہ محمد بن سلمان  نے  شھزادوں اور رووسا سے  ۱۰۰  ارب  ڈالر کی رقم اینٹھی ہو  اور تقریبا اتنی ہی رقم آرامکو سے کمائی ہو  لیکن پھر بھی  امریکہ کی جانب سے سعودی عرب سے مزید پیسہ  وصولنے کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے  یہ سوال پیدا ہوتا ہے  کہ  ان اخراجات کی ادائیگی کہاں سے ہو گی ؟ 

 لیکن مذکورہ نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے  اگر امریکہ چاہتا ہے کہ  سعودیوں سے پیسے وصولتا رہے تو اسے  ایسے ہی تحرکات کو جاری رکھنا ہوگا  اور ایران ہراسی کی پالیسی پر گامزن رہنا ہوگا ۔

یہ بات مسلم ہے  کہ  اگر ریاض امریکہ کا سایہ  رحم و کرم اپنے سر پر چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یمن کی جنگ میں سعودی جرائم سے امریکہ چشم پوشی کر لے تو اسے اس کے مقابلے میں امریکہ کو رشوت ادا کرنی پڑے گی اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا ۔   

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی