سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کیوں ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت دن بدن مشکل ہو رہی ہے ؟

 اردو مقالات سیاسی ایران سعودی عرب

کیوں ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت دن بدن مشکل ہو رہی ہے ؟

کیوں ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت دن بدن مشکل ہو رہی ہے ؟

نیوزنور:سعودیوں کو امید ہے کہ ٹرامپ کے دور میں وہ ایران کی شکست کا نظارہ کریں گے ۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایران بالکل اکیلا دنیا سے الگ تھلگ اور سخت دباو میں ہے ، اس کے باوجود وہ یہ نہیں چاہتے کہ ایران کو علاقے کے کھیل سے بالکل الگ کر دیا جائے ، اس لیے کہ ایران کے ساتھ دشمنی نئے حکام کے لیے کسب جواز کے وسیلے میں تبدیل ہو چکی ہے ۔

ایران اور سعودی عرب کے تعلقات موجودہ دہائی میں اپنے بدترین دور سے گذر رہے ہیں ۔ ایسی حالت میں کہ جب دونوں فریقوں کی حامی طاقتیں علاقے کے کئی ملکوں میں شدید رقابت اورجھڑپوں میں سرگرم ہیں اور سعودیہ والے مشرقی ایشیا میں ملیشیا سے لے کر ریاستہائے متحدہ تک ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر حربے کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ چیز کہ آیا دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنے کی کوئی امید ہے یا نہیں اس پر الجزیرہ نے اپنی توجہ مبذول کی ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی الجزیرہ کے حوالے سے  رپورٹ کے مطابق، دسمبر ۱۹۹۱ میں ایران کے اس وقت کے صدر ہاشمی رفسنجانی نے سنیگال کے پایتخت ڈاکار میں اسلامی کانفرنس کے سربراہوں کے اجلاس میں اس وقت کے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کے ساتھ ملاقات کی ۔ایک غیر معمولی ڈیپلومیٹیک جوئے کی بازی میں دونوں نے سمجھوتہ کیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے کہ جو ایران عراق کی جنگ اور اسی طرح ۱۹۸۷ میں ایرانی حاجیوں کے قتل عام کی وجہ سے منقطع ہو گئے تھے ، مذاکرات کریں ۔

ہاشمی رفسنجانی نے جرمنی میں ایران کے سفیر سید حسین موسویان کو سعودی شہزادے کے ساتھ بات چیت کرنے کی ذمہ داری دی ، کہ جو کچھ مدت کے بعد ، شاہ فہد کی بیماری کی وجہ سے تمام امور کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھا ، اور اس کے مرنے کے بعد بادشاہ بن گیا ، مراکش میں کازابلانکا میں ایک ابتدائی ملاقات کے بعد ، موسویان نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور مذاکرات کے کئی دور انہوں نے عبد اللہ کی ذاتی اقامتگاہ میں منعقد کیے ۔

تین راتوں کے لگاتار مذاکرات  نے کہ جو دو طرفہ تعلقات اور سیکیوریٹی کے مسائل کے بارے میں تھے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو کشیدگی تھی اس کو ختم کرنے کا راستہ کھول دیا تھا ۔ ان مذاکرات کو دونوں ملکوں کے اعلی حکام کی حمایت حاصل تھی ۔

موسویان نے  ۱۹۹۶ میں ملک فہد کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں  الجزیرہ کو بتایا :سعودی بادشاہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری سے خوش تھا ، لیکن اس بات سے کہ دونوں ملکوں کے روابط میں عراق کے ساتھ تعاون کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی ناراض لگ رہاتھا۔

سال ۱۹۹۷ میں شہزادہ عبد اللہ کے تہران کے دورے کے لیے لال فرش بچھایا گیا ۔ اگلے سال ہاشمی رفسنجانی کو سب سے بڑے ایرانی عہدیدار کے عنوان سے فدک کی زیارت کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ۔ موجودہ صدر حسن روحانی اس سفر میں ہاشمی رفسنجانی کے ہمراہ تھے ۔ اس سفر نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے راستے کو مزید ہموار کر دیا اور سال ۲۰۰۱ کا سیکیوریٹی کا سمجھوتہ دو ملکوں کے درمیان جو دہشت گردی کے خلاف اور منشیات کی اسمگلینگ کے خلاف جنگ اسی کا ثمرہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ ہاشمی رفسنجانی کا اپنی عمر کے آخر یعنی سال ۲۰۱۷ تک یہی نظریہ تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو استوار کیا جائے ۔

سنیگال میں ہاشمی رفسنجانی اور شاہ عبد اللہ کی ملاقات کو تین دہائیاں گذرنے کے بعد سعودی عرب اور ایران اختلافات کا بہت بڑا شگاف وجود میں آ چکا  ہے ، جس نے عراق سے بحرین تک اور یمن سے شام میں جھڑپوں کے جاری رہنے تک پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔

تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان لفظی جنگ نے دشمنی میں شدت پیدا کر دی ہے اور کسی سیاسی راہ حل تک پہنچنے کا چانس بہت کم نظر آتا ہے ۔ ایک مہینے پہلے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ایران کے ایک اعلی حکمران کا ہٹلر سے مقایسہ کیا تھا جس کے جواب میں ایرانیوں نے اسے نابالغ اور کند ذہن سے توصیف کیا تھا ۔ اسی ہفتے میں ریاض میں عرب سربراہوں کے اجلاس میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان نے عربی ملکوں کے امور میں مداخلت کے بہانے سے ایران کی مذمت کی تھی ۔

ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں امریکہ کا کردار ،

موسویان جو اس وقت پرینسٹن یونیورسٹی میں ایک محقق کے عنوان سے کام میں مشغول ہے ۔ اس کا یہ مانناہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں اس وقت کھٹاس پیدا ہوئی کہ جب سال ۲۰۰۳ میں امریکہ کی رہبری والے گٹھ بندھن نے عراق پر حملہ کیا تھا ۔ سعودی بادشاہ عبد اللہ کا ماننا تھا کہ جارج بش کے عراق پر حملے کے فیصلے سے اس ملک میں شیعوں کی طاقت میں اضافہ ہو گا اور نتیجے میں علاقے میں طاقت کا توازن  ایران کے حق میں ہو جائے گا ۔ اتفاق سے عبد اللہ کی پیشینگوئی سچی ثابت ہوئی ۔

اس کے باوجود شاہ عبد اللہ نے ایران کے ساتھ تعلقات کی حفاظت کی ، اور سال ۲۰۰۷ میں اس نے ایران کے نئے صدر احمدی نژاد کی میزبانی کی ، یہاں تک بحرین میں شیعوں کی اکثریت اور سنیوں کی حکمران اقلیت کے درمیان شدید اختلافات کے رونما ہونے کے باوجود احمدی نژاد نے سال ۲۰۱۱ اور اس کے بعد سال ۲۰۱۲ میں ریاض کا دورہ کیا ۔

سال ۲۰۱۵ میں شاہ عبد اللہ دنیا سے چلا گیا اور سعودی عرب میں حکومت کی باگ ڈور بادشاہ کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبد العزیز کے ہاتھ میں آ گئی جس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان رسہ کشی میں شدت پیدا کی ۔ اسی سال ایران اور مغربی ملکوں کے درمیان جوہری سمجھوتہ ہو گیا ۔

قطر میں ایک یونیورسٹی میں ایران کے مسائل کے استاد محجوب زویری کا عقیدہ ہے کہ امریکہ کے سابقہ صدر باراک اوباما کا ایران کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کرنا باعث بنا کہ سعودیوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ الگ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ سعودیہ والوں کے لیے اچھی خبراوباما کے دور کا خاتمہ اور ٹرامپ کا بر سر اقتدار آنا ہے جس نے اپنی کابینہ میں ایران کے قسم خوردہ دشمنوں کو رکھا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو ختم کر دے گا ۔ زویری کے عقیدے کے مطابق سعودیوں کو امید ہے کہ ٹرامپ کے دور میں وہ ایران کی شکست کا نظارہ کریں گے ۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایران بالکل اکیلا دنیا سے الگ تھلگ اور سخت دباو میں ہے ، اس کے باوجود وہ یہ نہیں چاہتے کہ ایران کو علاقے کے کھیل سے بالکل الگ کر دیا جائے ، اس لیے کہ ایران کے ساتھ دشمنی نئے حکام کے لیے کسب جواز کے وسیلے میں تبدیل ہو چکی ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا بہانہ ملے کہ وہ دعوی کرے کہ اس کے لیے اندر اور باہر دونوں جگہ خطرے موجود ہیں ۔

امریکی یونیورسٹی کے استاد رامی الخوری کا ماننا ہے کہ مشکل کی کچھ وجہ یہ ہے کہ ایران کے بیانات اختلافات کو پر امن طور پر حل کرنے کے سلسلے میں ہمآہنگی نہیں رکھتے ۔ بہت سارے عربی ملک خود سے پوچھتے ہیں کہ ایسی صورت میں کہ جب ایرانی حکام کشیدگی کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو کیوں ایرانی فوج ، پیسا اور ہتھیار اور اس کی نیابتی فوج اور ایرانی ٹیکنالوجی عربی ملکوں میں گردش کر رہی ہے ؟

تعلقات میں کھٹاس پر ایک نظر ،

عربی ملکوں کے گٹھ بندھن کا رہنما ہونے کے عنوان سے سعودی عرب کی یمن میں فوجی مداخلت ، سال ۲۰۱۵ میں  حج کے موقعے پر سینکڑوں ایرانی زائرین کی جانیں چلی جانا ،اور سال ۲۰۱۶ میں سعودی عالم دین آیت اللہ  شیخ باقر نمر النمر کو پھانسی کی سزا دینا دونوں ملکوں کے تعلقات میں زیادہ رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب بنا ۔ النمر کی موت کے بعد کچھ لوگوں نے تہران میں سعودی عرب کے سفارت کانے پر حملہ کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں شگاف زیادہ ہو گیا ۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی اس مرحلے میں پہنچ چکی ہے کہ موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا بھی امکان نہیں رہا۔ چہ جائیکہ گفتگو کا کوئی نتیجہ حاصل ہو ۔ سعودی حکمرانوں منجملہ محمد بن سلمان اور عادل الجبیر کے شدید اللحن بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو ایک ایسا کھیل سمجھتے ہیں کہ جس کا نتیجہ حاصل جمع صفر ہے ۔

وہ دونوں ایران کو علاقے میں کشیدگی میں اضافے کا باعث اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والی حکومت مانتے ہیں ،کہ سعودی عرب حال ہی میں علاقے میں ان کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے ۔ اس بنا پر ان کا ماننا ہے کہ ایران کے ساتھ ہر طرح کی گفتگو علاقے میں ایران کی برتری کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف  ہے ۔     

دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے کی ایران کے وزیر خارجہ ظریف اور صدر روحانی کی کوششیں اب تک سعودی عرب کی طرف سے ٹھکرا دی گئی ہیں ۔ روحانی نے سال ۲۰۱۳ میں سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے مسئلے کو چھیڑا تھا ، اور ظریف نے بھی گذشتہ سال آٹلانٹیک میں ایک مقالے میں دونوں ملکوں کے مستقبل میں تعلقات کے لیے ایسے راہ حل کا مطالبہ کیا کہ جس میں کسی کی ہار نہ ہو۔ایران کے وزیر خارجہ نے اسی سال جنوری میں علاقے کے لیے سلامتی کی ایک اور قرار داد کی تجویز رکھی تھی ۔

ایسی حالت میں کہ جب ایران میں انتخابات کے نتیجے سے روحانی کی حکومت کی خارجی سیاست کی مقبولیت کی تائیید ہوتی ہے ، محجوب زویری کا ماننا ہے کہ عرب ملکوں کی رائی عامہ ایران پر دوستانہ نگاہ نہیں رکھتی ۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی فراکدلی کی راہ میں اصلی رکاوٹیں کیا ہیں ؟

ایک سیاسی تجارتی ماہر اسفندیار باتما نقلیچ کا عقیدہ ہے کہ ایران کے ساتھ لفظی جنگ میں سعودیوں کا پلڑا بھاری ہے ۔اس کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کا امریکہ کا حالیہ دورہ ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی افراد ، نامور شخصیتوں ، ذرائع ابلاغ اور امریکہ کی سیاسی فضا میں ان کو بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہے ۔

اہم مسئلہ یہ ہے کہ  جب تک ایران کے ساتھ کشیدگی کو جاری رکھنے سے سعودی عرب کی رائے عامہ میں بن سلمان کی محبوبیت میں اضافہ ہوتا رہے گا اس وقت تک وہ ایران کے ساتھ سیاسی طریقوں کو استعمال کرنے کی طرف زیادہ مایل نہیں ہو گا ۔

سعودیوں کا یہی سلوک باعث بنے گا کہ اگرصدر روحانی سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اندر سے اس کی سخت مخالفت ہو گی ۔ایسے حالات میں واضح نہیں ہے کہ کون شخص دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کرے گا ۔ ٹرامپ تو ایران کے ساتھ گہری دشمنی رکھتا ہے وہ سعودیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مناسب نہیں ہے اور عمان کہ جو ہمیشہ علاقائی اختلافات میں ثالثی کے فرائض انجام دیتا رہا ہے اس کو بھی اپنی کامیابی کا کوئی چانس نظر نہیں آتا ۔

امریکہ کاجوہری سمجھوتے برجام سے الگ ہونا ایک اور سبب ہے کہ جو مستقبل میں سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی کم کرنے کی امیدوں پر پانی پھیر سکتا ہے خاص کر ایسی صورت میں کہ جب ایسا اقدام ایران کی طرف سے علاقے میں امریکہ کے اقدامات کی زیادہ مخالفت پر منتہی ہو سکتا ہے ۔            

 

برچسب ها ایران سعودی عرب

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی