سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

شام پر حملہ ، بڑے شوروغل سے لے کر میزائلوں کی رسوائی تک

 اردو مقالات سیاسی شام امریکہ/اسرائیل

شام پر حملہ ، بڑے شوروغل سے لے کر میزائلوں کی رسوائی تک

شام پر حملہ ، بڑے شوروغل سے لے کر میزائلوں کی رسوائی تک

نیوزنور:جن میزائلوں کو انٹرسپٹ کر کے تباہ کیا گیا ہے یہ وہی ہیں کہ ٹرامپ جنہیں ، خوبصورت ، پیشرفتہ ترین ، ہوشمند اور نہ جانے کیا کیا کہتا تھا ، لیکن اب ان کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ، یہ یقینا اس کے اور اس کے اتحادیوں کے لیے شکست  ہی نہیں بلکہ ایک رسوائی شمار ہوتی ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی تجزیہ نگار علی رضا کریمی شام پر امریکی سربراہی میں تین ملکوں کی طرف سے میزائل داغنے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہےکہ ؛ حزب اللہ لبنا کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے گذشتہ رات ڈونالڈ ٹرامپ کے بارے میں دلچسپ جملہ کہا کہ :" امریکہ کی حکومت کی بد نظمی ایک مسئلہ ہے اور ٹرامپ نام کی چیز ایک اور مسئلہ !وہ جلدی بھڑک اٹھنے والا جذباتی شخص ہے ۔ ٹوئیٹر پر آتا ہے تو دھمکانا شروع کر دیتا ہے ۔ جنگی بیڑا شمالی کوریا روانہ کرتا ہے ، دھمکی دیتا ہے اور پھر بغیر کچھ کیے واپس آجاتا ہے اس کے بعد مذاکرات شروع کر دیتا ہے !"

دمشق کے غوطہ شرقی پر ٹرامپ نے جیسے ہی کیمیکل ہتھیاروں سے حملے کی  بات سنی تو فورا ٹوئیٹر پر ظاہر ہوا اور شام کے صدر کو دھمکی دی اور ان کی توہین کی ۔ اس نے 12 اپریل کے دن بھی ٹوئیٹر پر  ایک روسی عہدیدار کے خبر دار کرنے کا جواب اسی طرح دیا : روس کہتا کہ جو میزائل بھی شام کی طرف چھوڑا جائے گا وہ اسے گرا دے گا ، روس تیار ہو جا ! اس لیے کہ ہمارے میزائل ضرور آئیں گے ، خوبصورت میزائل ، جدید اور ہوشمند میزائل ! تم لوگ اس حیوان کے شریک نہ بنو کہ جو کیمیاوی گیس سے اپنے لوگوں کو مارتا ہے اور خوش ہوتا ہے !

چند دنوں میں مغربی حکام نے شام پر فوجی حملے کا انتظار کرایا ، اس کے اس حملے کا اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ سوشیل میڈیا پر خبر نگار بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کہ اور مغربی حکام کے نظریات اور خیالات کو نشر کر رہے تھے ، بعض کو انتظار تھا کہ ایک مکمل جنگ ہونے والی ہے ۔

مقاومتی  تحریک نے ٹرامپ اور اس کے اتحادیوں کی گیدڑ بھبھکیوں پر زیادہ دھیان نہیں دیا ۔لبنان کی حزب اللہ کے معاون شیخ نعیم قاسم  نے اس ملک کے روزنامہ الجمہوریہ کے ساتھ گفتگو میں کہا : میں تاکید کرتا ہوں کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ ایک مکمل جنگ ہو ہاں اگر ٹرامپ اور نیتن یاہو واقعا پاگل ہو چکے ہیں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ : امریکہ کا شام پر کسی بھی طرح کا حملہ طاقت کے اس توازن کو جو اس وقت شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے حق میں ہے بدل نہیں سکتا ۔

14اپریل  کی صبح کو آخر کار ٹرامپ اور اس کے فرانسیسی اور برطانوی دوستوں نے اپنے وعدے پر عمل کیا اور ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ، شام کے مختلف مقامات پر ۱۰۰ سے ۱۲۰ میزائل داغے ۔ روس نے داغے گئے میزائلوں کی دقیق تعداد ۱۰۳ بتائی ہے ۔ ہر چیز سے پہلے اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اتنی تعداد میں میزائل داغنا فوجی اعتبار سے ایک محدود کاروائی شمار ہوتی ہے۔

روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے اس سلسلے میں لکھا ہے : ایسی حالت میں کہ ڈونالڈ ٹرامپ حملے سے پہلے ایسے بات کر رہا تھا کہ گویا وہ ایک بڑا فوجی حملہ کرنے والا ہے لیکن عملی طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک محدود حملے پر ہی اکتفا کیا ۔

اس امریکی روزنامے نے یہ بھی لکھا ہے کہ پچھلے سال کے اسی طرح کے حملے کے مقابلے میں صدر ٹرامپ نے اس بار شام پر حملے میں زیادہ ٹھکانوں کو زیادہ طاقت کے ساتھ نشانہ بنایا ہے ۔ لیکن آخر کار جو کچھ اس نے کیا وہ ایک محدود کاروائی تھی کہ کھلے طور پر اس کی منصوبہ بندی ایسے کی گئی تھی کہ روس اور ایران میں جو شام کے حامی ہیں ان کی تحریک کا باعث نہ بنے ۔

جیسا کہ نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ شام میں فوجی کاروائی کے سلسلے میں ٹرامپ کا بہت شور مچانا  آخر کار ایک بالکل محدود حملے پر ختم ہو گیا کہ جو نہ توقع پر پورا اترا اور نہ میدانی اعتبار سے اس کا کوئی خاص اثر ہوا ۔

اس حملے نے جیش الاسلام کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا کہ یہ حملہ تھا یا مذاق ! جیش الاسلام جو براہ راست سعودی عرب کی حمایت میں ہے وہی گروہ ہے جو اس وقت شہر دوما میں موجود ہے اور اسی نے کیمیاوی حملے کی نمائش دکھائی ہے ۔

لبنان کی  ایک ویبگاہ" النشرہ" نے بھی اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ شام میں طاقت کا توازن بالکل نہیں بدلا ہے ، اس نے پیرس لندن اور واشنگٹن کے سنیچروار کے شام پر  صبح سویرے کیے گئے حملوں کا مقصد سیاسی  اور تبلیغاتی بتایا۔ سی این این نے بھی رپورٹ دی ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ حملے صرف دکھانے کے لیے تھے اور بس ۔

لیکن جو کچھ ان حملوں کے سلسلے میں دکھائی دیتا ہے  وہ صرف ان کا محدود ہونا اور پہلے کیے گئے دعووں کے برخلاف ہونا نہیں ہے ، بلکہ جو میزائل داغے گئے ہیں ان کی کار کردگی کا طریقہ بھی ہے روس کی مشترکہ فوج کے ترجمان سرگئی رودسکوی نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ داغے گئے ۱۰۳ میزائلوں میں سے شام کی اینٹی ائیر کرافٹ نے ۷۱ میزائلوں کو تباہ کر دیا ۔

روس کا کہنا ہے کہ شام کی فوج نے ان میزائلوں کو نشانہ بنانے کے لیے ، ۱۲۵ ایس اور ایس ۲۰۰ اور بوک اور سام سے کام لیا ہے ۔ توجہ رہے کہ مذکورہ سسٹم اگرچہ کام کے ہیں لیکن ایس ۔۳۰۰ اور ایس ۔ ۴۰۰ کے مقابلے میں قدیمی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ شام کی فوج نے قدیمی سسٹم کے ساتھ اپنی سرزمین کی جانب داغے گئے ۶۰ سے ۷۰ میزائلوں کو تباہ کر دیا ہے ۔ شام نے جو میزائلی دفاعی سسٹم استعمال کیا ہے اور اس سے امریکہ ،فرانس اور برطانیہ کے میزائلوں کو تباہ کیا ہے یہ تیس سال پرانا ہے جسے سوویت یونین نے بنایا تھا ۔

جن میزائلوں کو پکڑا گیا گیا ہے یہ وہی ہیں کہ ٹرامپ جنہیں ، خوبصورت ، پیشرفتہ ترین ، ہوشمند اور نہ جانے کیا کیا کہتا تھا ، لیکن اب ان کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ، یہ یقینا اس کے اور اس کے اتحادیوں کے لیے شکست  ہی نہیں بلکہ ایک رسوائی شمار ہوتی ہے۔ سی این این چینل نے آج کے  شام پرحملوں کی تحلیل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماسکو نے یہ بتا کر کہ شام کا جو دفاعی سسٹم ہے وہ سوویت یونین کے زمانے میں بنایا گیا تھا واشنگٹن پر طنز کیا ہے کہ یہ قدیمی سسٹم امریکہ کے پیشرفتہ ترین اور ہوشمند میزائلوں کو گرانے کے لیے کافی ہے ۔

طبعا یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ  واشنگٹن ، لندن اور پیریس کے شام کی سرزمین پر   میزائلی حملےبعض جگہوں پر بہت کم نقصان پہنچا پائے ہیں ، لیکن یہ نقصان حملوں سے پہلے جو شور مچایا گیا تھا اس سے کہیں کم ہے اور اس سے خوبصورت ، ہوشمند اور جدید میزائلوں کی رسوائی بھی نہیں چھپ سکتی ۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ روس والے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ شام ایس ۔۳۰۰ سسٹم کے بارے میں غورو فکر کر رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر شام کے دفاعی سسٹم کے ساتھ ایس ۔۳۰۰ بھی جڑ جائے تو پھر امریکہ کا ٹوئٹ باز صدر اپنے میزائلوں کی خوبصورتی کا کون سا ترانہ گائے گا؟   

برچسب ها امریکہ شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی