سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امریکہ کی جنگی آرائش کے مقاصد

 اردو مقالات سیاسی شام امریکہ/اسرائیل

امریکہ کی جنگی آرائش کے مقاصد

امریکہ کی جنگی آرائش کے مقاصد

نیوزنور:ظاہر میں امریکہ کشیدگیوں کو بڑھاوا دینے اور شام میں ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے حق میں امتیازلینے کے در پے ہے ، اور دوسری طرف سعودی عرب اسرائیل اور کچھ دوسرے ملکوں کو اکسانا  نہلے پر دہلے کا کام کر رہا ہے ، لیکن کوئی نہ کوئی بہانہ تو ڈھونڈھنا پڑے گا اور وہ بہانہ ہر قسم کا غیر سنجیدہ اقدام ،یا حریفوں کی طرف سے اس کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہو سکتا ہے اور اس دستاویز کو حاصل کر لینا ایک جنگ میں زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ ک مطابق بین الاقوامی امور کے ماہر حسن لاسجردی نے امریکہ کی جنگی آرائش کے مقاصد کے عنوان سے مقالہ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  شام میں حالیہ کیمیکل حملوں کے بعد کہ جن میں کافی انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں اس انسان دشمن اقدام کے خلاف عالمی سطح پر سخت رد عمل ہوا ہے ۔

شام کے لوگوں پر مشرقی غوطہ اور دوما  میں کیمیکل حملوں کے بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شام میں ہر چھوٹے بڑے کھلاڑی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کو بہانہ بنا کر کوئی اہم کاروائی کی جائے ، اور حکمرانوں کی تند بیانی اور ملکوں کی لشکر کشی ان فیصلوں کا ایک نتیجہ ہو سکتا ہے ۔

ایسے حالات میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ علاقے میں ہیجانی فضا میں شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہےاور جنگ میں الجھے ہوئے دونوں فریق اپنے حریف پر اس اقدام کا الزام لگا رہے ہیں ۔

روس امریکہ کے خطرات کے مقابلے میں اپنی فوجی طاقت  اور جنگی آرائش میں اضافہ کر کے یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ہر نئے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ، اور اس کے مقابلے میں واشنگٹن بھی کشتیاں بھیج کر اور اپنے حملے کی طاقت میں اضافہ کر کے ایک نیا میدان وجود میں لانا چاہتا ہے ۔

ایسے حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ اولا امریکہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے دوسرا یہ کہ اس حملے کا ماڈل کیا ہو گا ۔

اس اہم سوال کے جواب میں شام میں امریکہ کے منصوبے کو درج ذیل صورت میں دکھایا جا سکتا ہے ۔

۱ ۔ شام میں ہونے والی تبدیلیوں میں جو لوگ شام میں موجود ہیں وہ تند اور مہاجمانہ لہجے میں اپنے رقیب کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حالات بہت پیچیدہ ہیں ۔

۲ ۔ فوجی طاقت میں اضافہ اور فوجی طاقت اکٹھا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فریقین کسی بھی طرح کے ممکنہ اقدام کے لیے اپنے رقیبوں کو ناپ تول رہے ہیں ۔

۳ ۔ واشنگٹن میں تبدیلیاں اور بولٹن اور پمپئو جیسے تند رو افراد کو لانا اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ امریکہ کی محتاط پالیسیاں شاید پہلے کی طرح قابل عمل نہ ہوں ۔

۴ ۔ واشنگٹن کے کسی بھی اقدام کا فیصلہ کرنے میں بعض تحریک آمیز عناصر جیسے سعودی عرب اور اسرائیل اور بعض یورپی ملک اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں اور ہر ایک کا اس بحران میں بعض دلایل کی بنا پر فائدہ ہوسکتا ہے ۔

۵ ۔ کیمیکل بمباری شام کی تبدیلیوں میں تکراری کیس ہے اور معمول کے مطابق بعض وجوہات کی بنا پر اس انسان دشمنی کے بعض قصور وار ہمیشہ پردے میں رہ جاتے ہیں ، تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ موضوع یہاں تک کہ اگر سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا بھی ہے تب بھی وہ شام کے سلسلے میں فیصلہ کرنے والوں پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو گا ۔

۶ ۔ گذشتہ دنوں میں ٹرامپ کی رفتار نے امریکہ کے احتمالی اقدام کی پیدگیوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔اس لیے کہ اس نے کچھ عرصہ پہلے شام سے اپنی فوج نکالنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن جلدی ہی اس نے اپنا عقیدہ بدل دیا اور اس سلسلے میں نیا فیصلہ کر نے کا مطالبہ کیا ۔

بہر صورت  علاقے میں رقیبوں کی صف آرائی اور نئی جنگی آرائش کے ساتھ رقیبوں کے لہجے میں تیزی ، اور بعض ملکوں کی نقل و حرکت کے ساتھ سلامتی کونسل سے مسئلے میں مداخلت کرنے کی درخواست ، جنگ کی آگ کو بڑھکانا اور  اس کے اخراجات ادا کرنا یہ ساری چیزیں راکھ کے نیچے چنگاریوں کی حکایت کرتی ہیں کہ شاید بہت سارے جس کے منتظر ہیں لیکن کیا ایسا حادثہ رونما ہونے والا ہے ؟ 

الف : ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ میں جو تند رو افراد کی ٹیم ہے وہ علاقے میں اپنے تند رو افراد کے ساتھ مل کر ٹرامپ کو اکسا رہے ہیں کہ دمشق پر حملہ کرے چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی ،  تا کہ تبدیلیوں کا فائدہ ان کو حاصل ہو لیکن امریکہ کا تاجر صدر جیسا کہ اب تک اندازہ ہوا ہے اس چیز کا ندازہ لگا رہا ہے کہ کون سا طریقہ اس کے فائدے میں ہو گا تا کہ وہ دھمکی بھی دے اور اپنے رقیبوں کو ڈرائے بھی اور شام کی تبدیلیوں کی فضا میں بھی اس کا پلڑا بھاری ہو ۔

ب ۔ ایسی فضا میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرامپ اپنے لہجے کو تیز کر کے چاہتا ہے کہ ایک طرف اپنے ساتھیوں کو جواب دے اور مقابلے میں اپنے حریفوں کو پسپا ہونے پر مجبور کرے اور اگر اس کے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہیں تو پہلی فرصت میں مختصر سا فوجی اقدام کرے اور ضرورت پڑنے پر بحران کو اور زیادہ پھیلائے ۔

آخری بات یہ کہ ظاہر میں امریکہ کشیدگیوں کو بڑھاوا دینے اور شام میں ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے حق میں امتیازلینے کے در پے ہے ، اور دوسری طرف سعودی عرب اسرائیل اور کچھ دوسرے ملکوں کو اکسانا  نہلے پر دہلے کا کام کر رہا ہے ، لیکن کوئی نہ کوئی بہانہ تو ڈھونڈھنا پڑے گا اور وہ بہانہ ہر قسم کا غیر سنجیدہ اقدام ،یا حریفوں کی طرف سے اس کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہو سکتا ہے اور اس دستاویز کو حاصل کر لینا ایک جنگ میں زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔

اب بچتا یہ ہے کہ امریکہ کے شام میں اقدام کا ماڈل کیا ہو گا کہ جس میں خرچہ بھی کم ہو اور وہ اقدام امریکہ پہلے بھی کر چکا ہے اور وہ میزائل کا حملہ ہے اور یہ وہی عراق والا ماڈل ہے جس کو ٹرامپ اختیار کر سکتا ہے یعنی دور سے حملہ اور ضرورت پڑنے پر جنگ کے میدان میں مشقیں ، اور یہ شام میں امریکہ کی جنگ کا آخری ممکنہ طریقہ ہو سکتا ہے ، لیکن میں تاکید کرتا ہوں کہ ٹرامپ کی پہلی ترجیح امتیاز حاصل کرنے کے لیے اپنے رقیبوں کو ڈرانا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو محدود پیمانے پر میزائلی حملہ ، لیکن بہت سارے معتقد ہیں کہ یہ اقدام بین الاقوامی نتائج کا بھی حامل ہو سکتا ہے اور علاقے میں عالمی پہلووں والی جنگ کی آگ بڑھکا سکتا ہے ، لیکن مرد اول کی پریشانی وائٹ ہاوس میں کسی نتیجے تک پہنچنا ہے !  

 

برچسب ها امریکہ شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی