سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

سعودی عرب اصلاحات کی تیغ کی دہار پر

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب

سعودی عرب اصلاحات کی تیغ کی دہار پر

سعودی عرب اصلاحات کی تیغ کی دہار پر

نیوزنور:عربوں کی رہبری کے خیال نے اس وقت ریاض کو بھاری اخراجات کے بوجھ تلے داب دیا ہے ، یہاں تک سعودی حکمرانوں کو اس چیز  نے کچھ تبدیلیاں کرنے پر مجبور کیا  کہ گذشتہ برسوں میں جن کو اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے ، اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ تیزی سے ہونے والی ان اصلاحات نے اس ملک کی اندرونی سیاست کو بھی متائثر کیا اور ان کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ جن کی سعودی عرب کی حکومت کی تشکیل کے زمانے سے اب تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر عباس پروردہ نے ایک مقالے میں جس کا موضوع "سعودی عرب اصلاحات کی تیغ کے دہار پر" ہے ،جس میں محرر نے سعودی عرب میں اصلاحات  کے اسباب اور ان کے نتائج کا جائزہ لیا اور لکھا : سیاسی لحاظ سے 2017کا سال سعودی عرب کے لیے جب سے سعودی بادشاہی وجود میں آئی ہے تب سے اب تک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس عرب ملک پر جس پر بوڑھے اور سبک مغز سلطنتی خاندان کی حکومت ہے جس کی بنیاد" وہابی تعلیمات" پر استوار ہے ، اس نے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ جو اس محتاط عربی ملک کی روایتی فضا کے ساتھ سازگار نہیں ہیں بلکہ اس کے ڈھانچے کو بکھیرنے والے شمار ہوتے ہیں ۔ ایسی حالت میں ان اصلاحات کے کیا نتائج ہوں گے ان کے بارے میں ابھی بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ، اس کے محرکات اور نتائج علاقائی تائثرات کے اعتبار سے بھی اہم ہیں ۔ توضیح دینےکی ضرورت نہیں ہے کہ گذشتہ چند سال میں  سعودی عرب میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کا تعلق مشرق وسطی /مغربی مشرق زمین سے رہا ہے ، اس معنی میں کہ ان  کی جڑیں علاقے میں موجود معاملات اور مسائل سے جڑی ہوئی ہیں ۔اور عموما ایک طرف علاقے کی تبدیلیوں اور دوسری جانب داخلی مطالبات کی پیروی کرتی ہیں ۔ ساتھ ہی یہ کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے جو دنیائے عرب میں رونما ہوئی ہیں سعودی عرب اپنے آپ کو دنیائے عرب کا رہبرو رہنما سمجھنے لگا ہے ۔

 عربوں کی رہبری کے خیال نے اس وقت ریاض کو بھاری اخراجات کے بوجھ تلے دبا دیا ہے ، یہاں تک سعودی حکمرانوں کو اس چیز  نے کچھ تبدیلیاں کرنے پر مجبور کیا  کہ گذشتہ برسوں میں جن کو اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے ، اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ تیزی سے ہونے والی ان اصلاحات نے اس ملک کی اندرونی سیاست کو بھی متائثر کیا اور ان کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ جن کی سعودی عرب کی حکومت کی تشکیل کے زمانے سے اب تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ساتھ ہی علاقے کی تبدیلیوں کی جانچ پڑتال اور داخل میں ان کی تاثیر ، اور ان تمام چیزوں پر سعودی عرب کی خارجی سیاست کے رد عمل کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ سعودی عرب آنے والے برسوں میں کس مقام پر کھڑا ہو گا ۔

اگر گذشتہ سال میں سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کی دستہ بندی کرنا چاہیں تو شاید ان تبدیلیوں کو چار بڑے گروہوں میں بانٹا جا سکتا ہے جو درج ذیل ہیں :

·         ۱ ۔ حکومت کے ڈھانچے میں محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے سے تبدیلی اور اس کے سیاسی ڈھانچے کے کچھ حصے کی پاکسازی ،

·         ۲ ۔ عوام اور خاص کر عورتوں کو شہری امتیاز دیا جانا کہ جس کی اس بادشاہی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ،

·         ۳ ۔ خلیج فارس میں اپنے روایتی اتحادیوں کے ساتھ کھلی جنگ ، خاص کر قطر کے خلاف ، کہ جس کی وجہ سے روابط منقطع ہوئے،اس ملک پر پابندیاں لگیں اور خلیج فارس  تعاون کونسل کے ٹکڑے ہونے کا آغاز ہوا ۔

·         ۴۔ ایران کے خلاف جنگ کے محرک کے تحت اسرائیل کے ساتھ اتحاد کو برملا کرنا ،

یہ چاروں نوعیت کی تبدیلیاں ایک دوسری سے جڑی ہوئی تھیں، اور ایک دوسری پر تاثیر اور تائثر کی حامل تھیں ۔جو کچھ سعودی عرب میں ہو رہا ہے اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیےجو کچھ اس ملک میں اصلاحات کے عنوان سے ہو رہا ہے اس کو جاننا ضروری ہے ۔

چار دہائیوں پر مشتمل اصلاحات کے حسب و نسب کی پہچان ،

سعودی عرب میں اصلاحات کی مختصر تاریخ کو چار دہائیوں کی بنیاد پر چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ جن کی سب سے اہم خصوصیت ، عجلت پسندی اور  ان کا رد عمل کے تحت ہونا ہے ۔ گذشتہ چار دہائیوں میں سعودی عرب میں تبدیلی کو چار اصلی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، کہ جن کے  آغاز کا تعلق سال ۱۹۷۹ سے ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا ، اور دوسری طرف ۲۰ نومبر ۱۹۷۹ کو ایک انتہا پسند وہابی باغی نے مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا تھا ۔

پہلا دور

پہلا دور : اس کا آغاز ۱۹۸۰ کی دہائی سے ہوا کہ جو سعودی عرب کی حکومت کے ۱۹۷۹ عیسوی کے اسلامی انقلاب کے پھیلنے کے خوف کا نتیجہ تھا ۔اور بغیر اس کے کہ آیندہ نگری پر مبنی کوئی منظم منصوبہ بنایا جائے ، اس نے ایک رد عمل کے طور پر اس زمانے کی مشکلات کو حل کرنے منجملہ شیعوں کے مطالبات سے نمٹنے   اور سلطنت پر شدت پسند وہابیوں کا دباو ڈالنے  کی کوشش شروع کی ۔ اگر چہ اس دور میں حکومت نے شیعوں کے کچھ مطالبات ماننے کے لیے اقدامات کیے ، لیکن ان کے سیاسی مطالبات کو تسلیم نہیں کیا ۔

دوسری طرف مکہ میں خانہ خدا پر قبضہ جو ایک شدت پسند وہابی" جھیمان العتیبی"  نے کیا تھا جو سلطنت پر تنقید کرتا تھا ، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ باغی خاندان حاکم کے اخلاقی فساد اور مذہبی اصول سے انحراف سے سبکی محسوس کر رہے تھے ، اس چیز نے سعودیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ انہوں دینی اور مذہبی امور کے لیے بہت سارا بجٹ مخصوص کیا ۔اس چیز نے سعودی عرب کی خارجی سیاست پر کافی اثر ڈالا کہ جو داخلی سطح پر ہونے والی تنقید کی آواز کو دبانا چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ہزاروں سعودیوں کو حکومت کی طرف سے افغانستان میں "سویت یونین" کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے اکسایا گیا اور خارج میں مذہبی دعوت کی بڑے پیمانے پر حمایت کی گئی جس سے افغانستان اور پاکستان میں عرب جہادیوں کا ایک گروہ وجود میں آگیا ، عربی جہادی گروہوں نے بعد کی دہائیوں میں مزید انتہا پسند جہادی گروہ تیار کیے جن میں "طالبان" ، "القاعدہ" اور "داعش" سب سے زیادہ جانے پہچانے ہیں ۔

دوسرا دور

دوسرا دور ، سعودی عرب میں ۱۹۸۰ کی دہائی میں اقتصادی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے بعد کویت پر صدام حسین کے حملے اور ۱۹۹۱ میں امریکہ کے عراق پر حملے کےبعد کہ سعودی عرب نے جس پر وسیع پیمانے پر سرمایہ لگایا تھا اور جس کی وجہ سے سعودی عرب کی سرزمین پر امریکہ کا فوجی ٹھکانہ وجود میں آیا تھا ، نئے سرے سے سعودیہ قصر سلطنتی پر متعدد گروہوں کی طرف سے اصلاحات کی انجام دہی کے لیے دباو ڈالا گیا ، لیکن اس بار جو دباو پڑا وہ حکومت کے اندر کی لیبرل یا سیکولر لابیوں کی طرف سے تھا کہ جو سعودی بادشاہی میں عریضہ نویسی کا سرا ٓغاز تھا ۔ ان عریضوں میں تنقید کرنے والوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نئی تنظیمیں بنائی جائیں اور حکومت کے اندر جو گھٹن کا ماحول ہے اسے ختم کیا جائے اور لوگوں کو حکومت میں زیادہ سے زیادہ شریک کیا جائے اور سیاست اور تنظیموں کے اندر آزادی کی فضا قائم کی جائے۔ساتھ ہی جو مذہبی انتہا پسند تھے انہوں نے ملک کو مغربیت کی طرف لیجانے اور امریکہ کی پیروی کرنے کی مذمت کی اور اصرار کیا کہ علماء اور اسلام کے کردار کو  حکومت میں تقویت دی جائے۔

سلطنتی خاندان کہ جس کو ۱۹۷۹ کی طرح، ہر طرح کے دباو کا سامنا تھا اس نے دو رخی سیاست اختیار کر کے رد عمل ظاہر کیا ۔ ایک طرف اس نے سب سے طاقتور ناراض افراد کو اور خاص کر اسلام پسند مخالفین کو کچلنا شروع کیا اور یہ کام ۹۰ کی دہائی کے آخر تک اس کے دستور کار میں شامل رہا اور دوسری طرف مختلف گروہوں کو تسکین دینے اور ان سے ہمدردی دکھانےکے لیے کوشش کی اور نمایاں سیاسی شخصیت اور اعتبار فراہم کیا یہ سیاست ۱۹۹۲ تک جاری رہی کہ جب مجلس شوری بنائی گئی تھی، جو قابل نمونہ اقدامات تھے لیکن ان کے نتائج بہت تھوڑے تھے ۔ اس دورخی اسٹریٹیجی کا مقصد داخلی اور خارجی دباو کو کنٹرول کرنا اور سازش کے دائرے کو محدود کرنا اور سلطنتی خاندان کو اطمئنان دلانا تھا کہ سیاسی طاقت پر اپنے انحصار کو بچا کر رکھے اور اسی کے مطابق عمل کرے ۔

تیسرا دور

تیسرا دور ، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے القاعدہ کے نیو یارک پر حملوں کے بعد سعودی عرب نے خود کو خاص کر امریکہ کی جانب سےشدید خارجی سیاست کے روبرو پایا ۔ اس لیے کہ ہوائی جہاز کو ہائی جیک کرنے والے ۱۹ خود کش دہشت گردوں میں سے  ۱۵  اس کے ملک کے تھے ۔ ایسے حالات میں کہ جب امریکی حکام ریاض پر کھل کر تنقید کرنے سے احتراز کر رہے تھے ، لیکن خصوصی محافل میں سعودی عرب کے جہادی گروہوں کو خیراتی اداروں کی طرف سے مالی اور اطلاعاتی حمایت فراہم کیے جانے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے تھے یہاں تک کہ کچھ مواقع پر تو امریکہ اور سعودی عرب کے روابط کی ماہیت پر انگلی اٹھنے لگی ۔ داخلی سطح پر ایسی حالت میں کہ ۱۱ ستمبر کے حملوں نے سعودی حکمرانوں کے اندام پر لرزہ طاری کر رکھا تھا ، بہت سارے اصلاح طلب گروہوں منجملہ لیبرالوں ، اسلام پسندوں اور شیعوں نے ان حملوں کو سیاسی ، اجتماعی اور تعلیمی نظام میں تبدیلی کی خاطر دباو ڈالنے کو ایک مناسب موقعہ قلمداد کیا ۔ عام طور سے دباو کا سلسلہ"عبد اللہ شاہ" کے نام عریضہ نویسی کی صورت میں تھا۔ کہ جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مشروطہ کی  نوعیت کی سلطنت قائم کی جائے   وزارتوں کو الگ کیا جائے  اور بیان کی آزادی دی جائے  ۔حکومت بھی اصلاح طلبی پر مبنی مطالبات کا کھلے دل سے جواب دیتی تھی ۔ شاہ عبد اللہ نے  ۲۰۰۳ اور ۲۰۰۴ کے برسوں میں اصلاح طلبوں کے ساتھ قومی گفتگو کے تین دور منعقد کیے ۔ ان نشستوں نے سابقہ دہائیوں کے ایک طرفہ بات چیت کے سلسلے کو توڑنے کو ظاہر کیا ۔ اگر چہ جب مشروطہ کی حکومت کے بارے بحث کی گئی تو پہلے جو حکمران سرتسلیم خم تھے ان کا صبر دھمکی اور اصلاح طلبوں کی گرفتاری میں تبدیل ہو گیا لیکن  آخر میں ۲۰۰۵ میں میونسپلٹی کے انتخابات ہوئے اور عورتوں کو شاختی کارڈ دیے گئے کہ جن کے پاس پہلے شناختی کارڈ نہیں تھے اور یہ  انتہا پسند مذہبی گروہوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ تیسرے دور کی بہترین اصلاحات تھیں ۔

چوتھا دور ،

اصلاحات کی اس فصل کو سعودی عرب میں اصلاحات کا طوفانی ترین دور شمار کیا جاتا ہے ، چونکہ سال ۲۰۱۱ میں اور عربی انقلابات کے آغاز کے ساتھ نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ تمام عربی حکومتوں میں لوگوں کی طرف سے رد عمل دکھایا جا رہا تھا ، جہان عرب میں لوگوں کے اعتراضات کا سلسلہ طول پکڑنے کے ساتھ ہی سعودی عرب نے پہلے مرحلے میں داخلی انتہا پسند گروہوں کے ساتھ احتیاط اور دباو کی سیاست اختیار کی ، لیکن لیبیا ،شام اور عراق میں جب اعتراضات فوجی مرحلے میں داخل ہو گئے اور مسلح گروہ پھیل گئے تو سعودی عرب نے موجودہ موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا اور ایک تیر سے دو شکار کی سیاست اختیار کرتے ہوئے داخلی جہادی گروہوں کو عراق اور شام کی طرف متوجہ کیا اور اس اقدام سے ایران کے ساتھ نیابتی  /پراکسی جنگ کو بھی بڑھاوا دیا ، اوراپنی اندرونی مشکلات کی وجہ خارج کے حالات کو قلمداد کیا ۔ سعودیوں کی یہ سیاست زیادہ دیر تک نہیں چل سکی اور عراق اور شام میں اس کی نیابتی فوج کی پے در پے شکست کے بعد داخلی دباو نے تیزی کے ساتھ سعودی حکمرانوں کے گلے کو دبانا شروع کر دیا ۔ یہ ایسی حالت میں تھا کہ سعودی عرب دو سال پہلے سے خود کو یمن میں خرچیلی جنگ میں الجھا چکا تھا ، جس نے سعودی عرب کی اقتصادی مشکلات کو دوگنا کر دیا تھا ۔

اس بنا پر ایک بار پھر سعودیوں کی طرف سے داخلی اور خارجی تبدیلیوں کے مقابلے میں پہلے جیسا جانا پہچانا رد عمل ہونا شروع ہو گیا ۔ ، اس بار داخلی دباو کو کم کرنے کے لیے محمد بن سلمان نے کہ جو ۳۲ سال کا ہے بوڑھوں کے بادشاہی کے نظام میں ولی عہدی کا عہدہ قبول کیا اور اس کے بعد عجلت میں فساد کے خلاف جنگ ، اقتصادی ترقی ، شہری آزادی اور عورتوں کی آزادی اور دوسرے تمام اقدامات کا آغاز ہوا ۔ گذشتہ سال جو سہولتیں سعودی عرب کی عورتوں کو دی گئیں ، ان کی اس ملک کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، جیسے گاڑی چلانے یا موٹر سائکل چلانے کی آزادی ، فتوی دینے کی آزادی ،عمومی مقامات پر نغمہ سرائی کرنے کی آزادی موسیقی کے پروگراموں میں شرکت اور کھیل کے اسٹیڈیموں میں جانے کی آزادی  وغیرہ۔

سعودی عرب کی عورتوں کو سال ۲۰۱۸ کی ابتدا سے کھیل کے اسٹیڈیم میں جا کر نزدیک سے میچ دیکھنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ چار دہائیوں کے بعد سنیما گھر کھل جائیں گے موسیقی اور ماڈل کی نمائش کے پروگرام سعودی عرب کے مختلف شہروں میں منعقد ہوں گے ۔اور حکومتی ٹی وی پر عورتوں کے گانا گانے سے پابندی کو توڑ دیا گیا ہے شاید سعودی عرب کے سماج کی ظاہری شکل و صورت اتنی بدل جائے گی کہ گویا چند دہائیوں سے ایسی رہی ہو لیکن یہ سب امتیازات شہری حقوق کی ظاہری صورت ہے ،لیکن سعودی عرب کی سیاست کی گہرائی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ اس معنی میں کہ سعودی عرب میں سلطنت کے اختیارات جوں کے توں رہیں گے قانون وہی رہے گا اور بجٹ کی تقسیم میں لا قانونیت کا دور دورہ جاری رہے گا ۔ سعودی عرب کے سیاسی نظام میں سر فہرست سلطنتی نظام ہے ،کہ جس کی حیثیت ۱۹۳۲ سے نمایاں توجہ کی حامل ہو چکی ہے ۔ آل سعود کے اونچے درجے کے افراد کہ جن میں سے زیادہ تر سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز کے پوتے پڑپوتے ہیں بڑی بڑی پوسٹوں پر فائز ہیں ۔ ایسی حالت میں انجام شدہ اصلاحات صرف ظاہری نوعیت کی ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کا مونہہ بند کرنا ہے ۔

اس وقت بھی جو سعودی عرب میں فساد کے خلاف  مبارزہ ہو رہا ہےاور اس ملک کے دسیوں شہزادوں اور سرمایہ داروں کو گرفتار کیا گیا ہے وہاں پر آزاد عدلیہ کے فقدان اور ذرائع ابلاغ کی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے اقدامات مبہم اور ناقابل توجیہ ہیں ، ان اقدامات سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ یہ کاروائیاں محمد بن سلمان کے رقیبوں سے بدلہ لینے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر ہیں ۔ اس لیے کہ محمد بن سلمان کی دولت کے بارے خبریں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں منتشر ہوئی ہیں جو ان اقدامات کے نمائشی ہونے کی تائیید کرتی ہیں دسمبر ۲۰۱۷ کے اوائل میں روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے فاش کیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے فرانس میں ایک محل خریدا جس کی قیمت ۳۰۰ میلین ڈالر ہے اور وہ دنیا کا سب سے مہنگا محل ہے ۔ اس کے علاوہ  روایتی ڈھانچے اور مذہبی تنظیموں کے ہوتے ہوئے کہ جو آج بھی خاندان آل سعود کی مشروعیت کی بنیاد شمار ہوتی ہیں ، تو ان اصلاحات کے مستقبل کو بھی ناقابل اجتناب مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ موجودہ سیاسی حالات میں سعودی عرب کا کوئی بھی حکمران دینی تنظیموں اور اداروں کے رد عمل کو نظر میں رکھے بغیر سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ سرکاری اور غیر سرکاری مذہبی شخصیتیں اکثر مدارس ، یونیورسٹیوں ، مسجدوں اور ریڈیو اور ٹی وی  وغیرہ پر حکومت کی نظارت ہے ۔روایتی طور پر سرکاری دینی ادارے سیاسی حکومت کے اجرائی امور سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ۔ بلکہ وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ حکام کی حمایت کے معاملے میں اسلامی قوانین کے اجرا اور اخلاقی ضوابط پر عمل کی ضمانت کو یقینی بنائیں ۔ مذہبی تنظیمیں بھی سعودی عرب کے سیاسی ڈھانچے کا کافی موئثر حصہ ہیں ۔ زیادہ تر علماء اپنی تنخواہیں حکومتی اداروں سے جہاں وہ ملازم ہیں  اور مشغول تدریس ہیں دریافت کرتے ہیں دوسرے علماء جو حکومت سے تنخواہ لینے والوں میں شمار نہیں ہوتے ممکن ہے کہ ان کا تعلق ایسی تنظیموں سے ہو کہ جو حکومت سے بجٹ لیتی ہیں ۔اس بنا پر مذہبی تنظیموں میں سرکاری اور غیر سرکاری ہونے کے اعتبار سے جدائی ناممکن معلوم ہوتی ہے ۔ روز نامہ نیویارک ٹائمز نے اسی موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے : تبدیلیوں اور اجتماعی اصلاحات کی رفتار اس قدر زیادہ تھی  کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے جو محتاط ادارے ہیں وہ حکومت کی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے پر قادر نہیں ہو ں گے اور معاشرے کا جو محتاط طبقہ ہے وہ زیادہ کھلی اجتماعی فضاکی خاص کر عورتوں کو اجازت نہیں دے گا ۔

عجلت پسندانہ اصلاحات ،

اگر گذشتہ تین سال میں سعودی عرب کے طریقہ کار پر دھیان دیں تو ان تمام طریقوں میں ایک خصوصیت مشترک ہے اور وہ سعودیوں کے طریقہ کار کا  داخلی میدان میں اور خارجی سیاست کے میدان میں عجلت پسندی اور رد عمل پر مبنی ہونا ہے ، اس عجولانہ طریقے کا نتیجہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس کا غیر موئثر ہونا ہے ۔ خاص کر سعودی عرب کا یمن پر بے منطق حملہ  کہ جس کی وجہ سے یمنی رنج و الم میں مبتلاہوئے ہیں ان کا قتل عام ہوا ہے ، لیکن سعودی عرب کو بھی اس کی وجہ سے بھاری سیاسی اور اقتصادی  نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کو دو پیسے کا بھی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔وہ اصلاحات جن کو سعودی عرب والوں نے سال ۲۰۱۷ میں ولی عہد کی رہبری میں شروع کیا ہے ، وہ بھی اسی طریقے کے تابع تھیں ، جو بالکل عجلت پسندانہ ، بغیر تحقیق کیے ہوئے صرف دکھاوے کی خاطر ، داخلی مطالبات کے انبار کو دبانے کے لیے اور علاقے کے بحران سےنمٹنے کی غرض سے ہیں، وہ اصلاحات جو سعودی عرب میں شروع ہوئی ہیں وہ اوپری نوعیت کی اصلاحات ہیں ، وہ سیاسی اور اجتماعی مطالبات جو گہرائی تک موجود ہیں ان کو گہرائی تک مان لیے جانے کے بجائے  ان کو نہیں مانا ہے.جلد بازی میں کی جانے والی ان اصلاحات کے دلایل درج ذیل ہو سکتے ہیں ۔ پرانے اندرونی ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ ، ناراضگیوں کی وجوہات کی لمبی فہرست، جیسے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ، مالی منابع کی تقسیم میں منظم طریقے سے بے انصافی برتے جانے کی وجہ سے مالداروں اور فقیروں میں شگاف پیدا ہونا ، دربار سے منسوب افراد اور شہزادوں کے درمیان سیاسی فساد  کا ہونا اور بڑے پیمانے پر  رینٹ لینے میں اضافہ ،مذہبی اقلیتوں خاص کر شیعوں کی ناراضگی ، تیل کی قیمت میں کمی ، علاقے میں سعودی عرب کی بے جا مداخلتوں اور یمن کی جنگ کی وجہ سے بجٹ میں خسارہ ۔ ایک تخمینے کے مطابق سعودی عرب کی ۲۳ میلین کی آبادی میں سے سال ۲۰۰۲ میں ۴۵ فیصد آبادی ان افراد پر مشتمل ہے جن کی عمر ۱۵ سال سے کم ہے ، اور اس وقت سے اب تک ۱۵ سال گذرنے کے بعد حکومت کی طرف سے جوانوں کی دھماکہ خیز انداز میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کی تکمیل کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا ، ساتھ ہی یہ کہ اس زمانے میں تیل کی بھاری آمدنی کے باوجود سعودی عرب میں مدارس میں کمی تھی ، ہسپتالوں کی تعداد کم تھی اور لوگ ضروریات زندگی کی عدم فراہمی کی وجہ سے گلہ مند تھے ۔

احتیاط کی سیاست کو چھوڑ کر خطرات کے دروازے پر دستک ،

وہ رویہ جو محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں شروع کیا ہے وہ گذشتہ عمر رسیدہ شہزادوں کے احتیاط آمیز رویے کے بر خلاف ہے۔یہیں سے سعودی عرب کی مشکلیں اس کی سرحد سے باہر رفتہ رفتہ بڑھتی گئیں ۔

خاص کر جب ڈونالڈ ٹرامپ امریکہ کا صدر بنا تو سعودیہ والے کہ جن کو شرارتیں کرنے کا بہت شوق تھا ٹرامپ اور اس کے شدت پسند مشاوروں کے جھانسے میں آ گئے ، اور علاقائی سطح پر اور خاص کر ایران کے خلاف مخاصمت پر مبنی اقدامات میں انہوں نے شدت پیدا کر دی، جب کہ ان سے پہلے والے حکمران علاقائی تعلقات کے سلسلے میں زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ علاقائی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے بہت سارے افراد کا کہنا ہے کہ اس کا یہ متھورانہ اور غیر سنجیدہ رویہ سعودی عرب کے جوان ولی عہد کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ  ہے کہ جو اس وقت قصر سلطنتی میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بن سلمان خارج اور داخل دونوں جگہ مسایل کو جنم دے رہا ہے اور وہ ہر چیز کو بدل کر رکھ دے گا ۔ لیکن اس راستے میں وہ ایک نامعلوم سمت کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے مستقبل کا اس کے پاس کوئی نقشہ راہ نہیں ہے ۔ اسی سلسلے میں جارج ٹاون یونیورسٹی کے تجزیہ نگار " شیرین ھانٹر  "کا ماننا ہے کہ بن سلمان سے پہلے سعودی عرب کی خارجی اور داخلی سیاست میں بہت احتیاط سے ، شیخیاں بگھارنے سے ہٹ کر اور موجودہ روایت کا احترام  کرتے ہوئے کام لیا جاتا تھا،لیکن اصلاحات میں تبدیلی کے باوجود ، موجودہ خلافت کو جو سلطنتی خاندان کے ساتھ صلاح مشورے کی بنیاد پر تھی اسے ایک مطلق العنان حکومت میں تبدیل کرنا اصلاح نہیں ہے اور دولتمند شہزادوں کو گرفتار کرنا اور ان کے اموال کو ضبط کرنا فساد کو نہیں مٹائے گا ، لہذا جو اس نے اصلاحات کا پروگرام بنایا ہے یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے چراغ کی لو بھجنے سے پہلے تیز ہو جاتی ہے ۔

خارجی سیاست کے نتائج ،

سعودی عرب  نے ایران کے اسلامی انقلاب  کے بعد کی چار دہائیوں میں ایران کے مقابلے میں بین الاقوامی نظام میں طاقتوں کے درمیان توازن برقرار کرنے کے پیمانے سے استفادہ کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ریاض نے حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدے ہیں اور اس کے لیے اس نے اربوں ڈالر مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ کی جھولی میں ڈالے ہیں ۔ ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کا یہی توازن سازی کا کام علاقے میں دوستی اور دشمنی کے نئے نمونے تراشنے پر منتہی ہوا ہے اور ریاض کو کہ جو کئی سال تک امریکہ کا اصلی اتحادی رہا ہے اس کام نے اس کو" تل ابیب" کے اتحادیوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے کہ جو ایران کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ دوستی اور دشمنی کے نمونوں میں تبدیلی سعودی عرب کے لیے یہاں تک آگے بڑھی ہے کہ اس نے سابقہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایسی جنگ شروع کر دی ہے کہ جس کا انجام نامعلوم ہے ۔ قطر کے ساتھ قطع تعلق کہ جو خلیج فارس تعاون کونسل کے چھ ملکوں میں سے ایک تھا ، اس ملک پر چو طرفہ پابندیوں نے کہ جو گذشتہ چار دہائیوں میں سعودی عرب کی مضبوط تکیہ گاہ رہ چکا ہے خلیج فارس تعاون کونسل کو بکھرنے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ، اگر چہ اس سے پہلے بھی اپنے ڈھانچے کی بناوٹ کی کمزوریوں کی وجہ سے اور سعودی عرب کے اس پر تسلط کی بنا پر اپنی ناکامیوں کا مظاہرہ کر چکی ہے اور ان چار دہائیوں میں اس کے رکن ملکوں کے درمیان اس کو زمین بوس کر دینے والا عدم تعاون موجود رہا ہے ۔لیکن ایسا دکھائی  دیتا ہے کہ سعودی عرب ، امارات اور بحرین کی قطر کے ساتھ آشکارا دشمنی اس کونسل کے بکھرنے کا آغاز ہو گا۔

ایک خفیہ گٹھ بندھن کی تشکیل ،

سال 2017وائٹ ہاوس میں ڈونالڈ ٹرامپ کے آنے کا سال ہے ، جس کے بعد سعودی عرب کے نظریات میں ایران کے خلاف شدت پیدا ہوئی ۔ اوباما کے زمانے میں جو سعودی عرب کے ایران کے خلاف نظریات تھے ،مشرق وسطی /مغربی مشرق زمین میں اس کی جدائی طلبی پر مبنی سیاست کے پیش نظر ، کسی حد تک سعودی عرب کی اس لحاظ سے مایوسی کا سبب بنی کہ اوباما ان کے ہر جھگڑے اور تنازعے میں ان کا ساتھ دے گا اسی لیے سعودی عرب والے بعض اوقات امریکہ سے بہت رنجیدہ بھی ہوئے ، لیکن ایران کے مقابلے میں ٹرامپ کے انتہا پسندی پر مبنی نعروں اور خاص کر جوہری سمجھوتے کے بارے میں دھمکی نے آل سعود میں پھر سے اعتماد نفس پیدا کر دیا ، جس کو2017 کے موسم بہار میں ٹرامپ کے سعودی عرب کے پہلے خارجی دورے نے مزید تقویت بخشی ،  اور ہتھیاروں اور تیل  کی قرار دادوں کے بدلے میں سعودی عرب کی طرف سے دل کھول کر ڈالر نچھاور کرنے  کی حکمت عملی اپنے اوج پر پہنچ گئی ۔ امریکہ اور ریاض کی دوستی تہران پر دباو ڈالنے کے لیے اس حد تک آگے بڑھی  کہ ۱۵ دسمبر ۲۰۱۷ کو سلامتی کونسل میں امریکہ کی نمایندہ" نیکی ہیلی" نے ایک غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے  پھٹے ہوئے ایک بڑے میزائل کے ٹکڑوں کی نمایش کی اور نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ٹکڑے اس میزائل کے ہیں جو امریکہ کو سعودی عرب نےامانت کے طور پر دیے تھے تا کہ یہ دکھا سکے کہ ایران سے یمن کو ہتھیار بھیجے گئے ہیں ۔ سعودی عرب کی ایران کے خلاف دشمنی میں شدت پیدا ہونے سے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جس کی وجہ عراق اور شام میں اس کے منصوبوں کی شکست اور ان ملکوں میں امن و استحکام کی واپسی کا احساس تھا " ریاض "کا "تل ابیب" کی طرف مایل ہونا کہ جو اس سے پہلے گذشتہ برسوں میں ہر ایک کی زبان پر تھا، وہ محمد بن سلمان کے اسرائیل کے خفیہ دورے کی خبروں کا بھانڈا پھوٹ جانے سے زیادہ آشکار ہو گیا ۔امریکہ کے صدر کی جانب سے بیت المقدس کو صہیونیوں کا پایتخت بنائے جانے سے کہ جو دسمبر ۲۰۱۷ کے اوایل میں ہوا اور اس کے سامنے سعودی عرب کی رضایت آمیز خاموشی ،اور سعودی عرب کا اس کے مقابلے میں نرم رویہ کہ جس کی وجہ سے  ایک طرف دنیا کے مسلمانوں کے غصے کی آگ بڑھک اٹھی اور دوسری جانب قدس کو پایتخت بنانے سمیت ، صہیونیوں کے تمام مقاصد کی محمد بن سلمان کی طرف سے حمایت پر مبنی کردار  کے بارے میں عرب ملکوں کے بیانات  یہ بتاتے ہیں کہ سعودی والے ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے صہیونیوں کے ساتھ ہو گئے ہیں ۔ حتی کچھ اسرائیلی حکام نے سعودی عرب جو ان کی حمایت کرہا ہے اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے اس ضرب المثل کو کہ میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے ، کھلے عام استعمال کیا ہے ۔ اس کے باوجود کہ ان ذرائع ابلاغ نے ٹرامپ کی طرف سے قطر پر کسی بھی طرح کے فوجی حملے کی مخالفت  پر تاکید کی تھی   ، لیکن سعودیہ والے متعدد جلسوں اور امریکہ کے صدر کے ساتھ اربوں ڈالر کے سودے کرنے کے بعد علاقے میں اپنی دادا گیری جاری رکھنے کے لیے خود کو آزاد سمجھ رہے تھے ۔ اسی بنا پر سعودیہ والوں نے یمن میں جنگ کی آگ مزید بھڑکائی اور عالمی سطح پر جو وہاں کے لوگوں کے قتل عام اور انسانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر اعتراضات ہو رہے تھے ان کو ان دیکھا کر دیا ۔ علاقے میں سعودی عرب کا دوسرا اقدام لبنانی وزیر اعظم "سعد حریری" کا بحران اور اس کو استعفی دینے پر مجبور کرنا تھا ، اور یہ چیز لبنان کو ایک سیاسی اور امنیتی بحران  میں دھکیل سکتی تھی ۔ اگر چہ لبنان کے اجماعی ڈیموکریسی پر مبنی ڈھانچے ، اور لبنان کے سیاسی گروہوں کے کشیدگی سے بچنے کی بنا پر اب تک لبنان میں بن سلمان کے اقدامات بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں ۔

دنیائے اسلام کے لیے سعودی عرب کے کردار کے نتائج ،

سعودی عرب مکہ اور مدینہ میں اہم ترین اسلامی مقامات کا میزبان ہے ، مکہ کے مقدس شہر میں خانہ خدا کا وجود اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرقد مطھر اور اس ملک میں اسلام کی تاریخ سے جڑے ہوئے دوسرے تمام مقامات  نے دنیائے اسلام میں سعودی عرب کو ایک خاص مقام عطا کر رکھا ہے ، اور اس طرح کے مقام و رتبے کی حفاظت کے لیے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے کہ جو اسلامی امور کی بھی رعایت کرے ، اور دنیائے اسلام کے ساتھ مل کر چلے ۔ اگر چہ سعودیہ والوں نے گذشتہ دہائیوں میں اپنے مقام و رتبے کی حفاظت کے لیے کچھ امور کی رعایت کی ہے ،  لیکن جب سے یہ ملک علاقائی تنازعات کے دلدل میں پھنسا ہے اور خود ان کا محرک بنا ہے  تب سے سعودی عرب کا رویہ کھلے عام مسلمان ملکوں کے درمیان اختلاف ڈالنا اور صیونیوں اور امریکی اتحادیوں کے مقابلے میں اسلامی تعاون کو کمزور کرنا بن گیا ہے ۔ سعودیوں نے گذشتہ برسوں میں اس قدر انتہا پسندی دکھائی ہے کہ اس وقت وہ امریکہ اور مغربی بلاک کی اختلاف ڈالنے والی پالیسیوں کے علاقے میں آلہ کار بن چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب اسلامی تعاون کونسل کے رکن ممالک  کے سربراہوں کا ، ٹرامپ کے بیت المقدس کو صہیونیوں پایتخت بنانے کے فرمان کی تحقیق کے لیے  دسمبر کے وسط میں ترکی میں اجلاس منعقد ہوا ، تو سعودی عرب کی طرف سے اس میں شرکت کرنے والی جماعت  وزیر خارجہ کی سطح سے بھی نیچے تھی ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودیہ والوں کی نظر میں اسلامی دنیا کے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

نتیجہء کلام ،

سعودی عرب میں اصلاحات کے آغاز کے بعد کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جوان ولی عہد کی طرف سے ان پر بہت شدت کے ساتھ عمل ہورہا ہے۔ ان کے نتائج کا اندازہ لگانا اب بھی ابہام میں ہے ۔ خاص کر سعودی عرب میں کہ جو ایسا ملک ہے کہ جس کی ایک مرکزی حکومت ہے لیکن اس میں غیر حکومتی سیاسی جماعتوں اور شہری آزادی نہیں ہے ، اور ذرائع ابلاغ بھی آزاد نہیں ہیں ۔ محمد بن سلمان کے جو اصلاح پر اقدامات ہیں ان کے بارے میں دقیق اطلاعات اور سیاسی اجتماعی رد عمل کی گردش کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ اس بنا پر طاقتور مذہبی تنظیموں کے ہونے کے باوجود کہ جن میں سے کچھ  انتہا پسندی کی جانب مایل ہیں ، سعودی عرب میں جو اصلاحات ہوئی ہیں ان کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی جا سکتی  کہ ان کا مستقبل کیسا ہو گا ۔ ساتھ ہی جو اصلاحات ہو رہی ہیں وہ سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلی کے بغیر ہو رہی ہیں ۔ واقعی تبدیلیوں کے لیے اصلاحات کے مناسب ڈھانچے کی ضرورت ہے ،کہ جس کو اصلاحات کی بنیاد کہا جائے ۔ انتخابات کے ذریعے لوگوں کے منتخب نمایندوں کی ایک پارلیمنٹ کا وجود، قانون کو لاگو کرنے کے لیے آزاد عدالتوں کا ہونا ایک ذمہ دار حکومتی قابینہ کا ہونا اور آزاد ذرائع ابلاغ کا وجود کہ جو لوگوں کے مطالبات منوانے کے لیے عام افراد کے نمایندے ہوں اس تحقیق کا نتیجہ واقعی اصلاحات کے نتائج ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر سعودی  عرب کی موجودہ حکومت  ایک مشروطہ بادشاہی میں بدل جاتی ہے  تب بھی اس پر مترتب ہونے والے سازو کار وہی ہوں گے جو مختلف قوتوں والے نظام کی حکومت میں ہوتے ہیں ۔ حالانکہ اصلاحات کے نام سے جو کچھ سعودی عرب میں ہورہا ہے وہ صرف فردی اور خاص کر عورتوں کی آزادی پر مشتمل ہے جس کا مقصد بعض انتہا پسند مذہبی علماء کا مقابلہ کرنا ہے اور حکومت سے وابستہ کچھ مالداروں اور شہزادوں کو گرفتار کرنا ہے کہ جس کی قانونی بنادیں زیادہ واضح نہیں ہیں حقیقت میں واقعی اصلاحات کے مقابلے میں یہ اقدامات صرف دکھاوا ہے ، کہ جس کے نمونے گذشتہ دہائیوں میں بھی دوسرے قالبوں میں دیکھنے کو ملتے رہے ہیں ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف اصلاح نہیں ہو گی بلکہ لوگ مزید ناراض ہو ں گے اور زیادہ خطر ناک ناراض لوگ پیدا ہوں گے ۔                       

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی