سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

صہیونیت کوتسلیم کرنے سے اٹھا بن سلمان کی بریک فیل اصلاحات سے پردا

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل

صہیونیت کوتسلیم کرنے سے اٹھا بن سلمان کی بریک فیل اصلاحات سے پردا

صہیونیت کوتسلیم کرنے سے اٹھا بن سلمان کی بریک فیل اصلاحات سے پردا

نیوزنور:قدس شریف میں متنازعہ صہیونی حکومت کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے پیچھے آل سعود کے جوان ولی عہد کا مقصد علاقے  میں اثر و رسوخ حاصل کرنا ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ دنوں میں  اور غزہ میں عظیم عوامی مارچ کے پانچویں روز میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان  نے ایک چونکا دینے والے  بیان میں اعلان کیا  کہ  فلسطینیوں کی طرح اسرائیلیوں کو بھی اپنی سر زمین پر رہنے کا حق حاصل ہے ۔ یہی ایک جملہ قارئین کے اذہان کو اس چیز کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ بن سلمان کا مقصد ، سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے ؛ یہ وہ موضوع ہے کہ جو تقریبا ۷۰ سال پہلے اسلامی ممالک کی "ریڈ لائین" تصور کیا جاتا تھا ۔  یہ اتفاقات ایسے حال میں رو نما ہوئے ہیں کہ جب اس سے پہلے" ریاض" اس کے لئے راستہ  ہموار کر چکا تھا   اور اسی بنیاد پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  کیا ان اقدامات کو "محمد بن سلمان" کی اصلاحی پالیسیوں کا حصہ بتایا جا سکتا ہے؟  اور اگر ایسا ہے تو سعودی جوان ولی عہد کے ایسے خطرناک اقدامات کا مقصد کیا ہے؟ موجودہ وقت میں  کیوں "صہیونی حکومت"،" آل سعود "کی خارجی پالیسیوں کا مرکز ہے؟

 اسرائیل کے ساتھ مشترکہ منافع یا مشترکہ دشمن؟

سعودی عرب کے جوان ولی عہد محمد بن سلمان نے مجلہ" اٹلانٹک" کو دئے گئے اپنی انٹرویو میں  صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے ملک کے مشترکہ منافع کے بارے میں بیان دیا ۔ بن سلمان کے مطابق، امن برقرار رکھنے کی صورت میں "سعودی عرب"،" خلیج  فارس تعاون کونسل کے ممالک" اور" مصر" اور" اردن" سمیت دیگر ممالک کے درمیان بہت سے مشترکہ مفادات موجود ہیں۔

اس نے بیان کیا : ہمارا اعتقاد ہے کہ  یہ" اسرائیلیوں" اور "فلسطینیوں" کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر زندگی بسر کریں ۔  سعودی عرب کے جوان ولی عہد نے  دعوی کیا ہے کہ ہم "مسجد الاقصیٰ"  اور" فلسطینی عوام" کے حقوق کے بارے میں فکر مند ہیں، لیکن ہمیں  کسی دوسرے ملک سے کوئی پریشانی  نہیں ہے۔ 

اس نے مزید کہا تھا: اگر امن قائم رہتا ہے تو " اسرائیل" اور" خلیجی ممالک" کے مشترکہ مفادات ہوں گے ، اور یہ ہر ملت کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں صلح اور امن کے ساتھ زندگی بسر کرے۔  اور حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے   خلیج فارس تعاون کونسل میں رہبری کا کردار ادا کیا ہے ؛  اس بنا پر ، اس مدت میں محمد بن سلمان کے اظہارات    "بیت المقدس "پر قابض صہیونی حکومت کے متعلق عربی ممالک کے نقطہ نظر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ،  لیکن یہ  بات ،کہ  "ریاض" اور" تل ابیب" کے مشترکہ مفادات کون سے ہیں، قابل سوال ہے ؟  شاید یہ احتمال پیش کیا جا سکتا ہے کہ مشترکہ منافع سے محمد بن سلمان کا مطلب مشترکہ دشمن ہو  یعنی وہ" فوج" کہ جس نے علاقے میں "ریاض" کے اثر و رسوخ کو کم کر دیا ہے  اور علاقے میں" صہیونی حکومت" کی جارحانہ پالیسیوں کے لئے  مانع بن گئی ہے۔

بہر حال اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ محمد بن سلمان کے یہ اقدامات بغیر کسی تیاری   کے انجام پا رہے ہیں ،  کیونکہ "تل ابیب "کے سفر کے دوران مخفی ملاقاتیں ،  صہیونی جارحیت کے مقابلے میں نرم رویہ اختیار کرنا ، " دہلی" سے "تل ابیب" کی پروازوں کے لئے سعودیہ کا فضائی راستے کا دوبارہ کھل جانا ،  امریکی  سفارت خانے کی "قدس "منتقلی پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سیاسی گٹھ بندھن کرنا ،  یہ سب ایسے موارد میں سے ہیں کہ  جس کے ذریعے   "منحوس اسرائیلی حکومت" کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کی وجہ سے فلسطینیوں اور جہان اسلام کے متعلق  محمد بن سلمان کے خائن چہرے سے آخری پردہ بھی ہٹ گیا ہے ۔ 

امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدوں کا مقصد تل ابیب کے ساتھ روابط قائم کرنا ہے۔

سعودی ولی عہد صہیونی حکومت کو تسلیم کر کے علاقے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے در پے ہے۔

ایک لبنانی اخبار نے گذشتہ سال سعودی وزیر خارجہ "عادل الجبیر" کی جانب سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو لکھے گئے ایک مخفی خط کو منتشر کیا کہ جس کا متن   صہیونی حکومت کے ساتھ سعودی عرب کے روابط کے متعلق تھا ۔ اس خط میں عادل الجبیر نے اظہار کیا : محمد بن سلمان ، سعودی عرب کے ولی عہد ، لازم ہے کہ میں آپ  کے ساتھ  ،  امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات برقرار کرنے کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ سعودی  تعلقات کو بہتر بنانے کے متعلق گفتگو کروں ۔ سعودی عرب نے  ڈونلڈ ٹرمپ کےساتھ  اسٹریٹجک تعلقات قائم کرتے ہوئے یہ عہد کیا ہے  کہ سعودی عرب اور امریکہ کے مفادات مشترکہ ہوں گے۔  کیونکہ دنیائے  اسلام و عرب میں  سعودی عرب مسائل کے حل کے لئے قابل ترین ملک ہے  اور مسئلہ فلسطین کسی صورت میں قابل حل نہیں ہے ، مگر یہ کہ سعودی عرب ان کی حمایت کرے کیونکہ سعودی عرب مسلمانوں کا قبلہ ہے۔

اس  خط میں  اسرائیل کے  ایٹمی  ہتھیاروں  اور صہیونی حکومت کی فوجی طاقت کے متعلق مزید آیا ہے:  ابتدا میں دنیائے عرب سعودی عرب اور اسرائیل کے روابط کو تسلیم نہیں کریں گے ،   لیکن اسرائیل کی طاقت  اور  عربی ممالک کی اقتصادی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، مشرق وسطیٰ  کے حالات بدل جائیں گے  اور صلح و امن قائم ہو جائے گا ۔  اس خط میں دعویٰ کیا گیا ہے : سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان روابط قائم کرنے کا مطلب سعودی عرب کی جانب سے عربی ممالک کے خطرے کو قبول کرنا ہے  اور سعودی عرب ان روابط میں وارد نہیں ہوگا مگر یہ کہ محسوس کرے کہ امریکہ کی ایران کے ساتھ دشمنی سچی ہے۔ اس بنا پر ان مسائل کے متعلق  بن سلمان کا امریکہ کا دو ہفتے کا دورہ  بے اثر نہیں تھا ۔

اپنی سرحدوں سے باہر اصلاحات کرنا در اصل طاقت میں اضافے کے لئے ہے

ایسا لگتا ہے کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی داخلی اصلاحی پالیسیوں کو  ملک سے باہر لے جانا چاہتے ہیں تاکہ  صہیونی حکومت کی مدد سے اپنی جاہ طلبی کی خؤاہش کو عملی جامہ پہنا سکے۔ اس  سعودی جوان نے اپنے مخالفین کو اپنی قدرت سے آگاہ کرنے اور چالیس شہزادوں کو فساد برپا کرنے کے بہانے قید کروانے کے بعد  اپنی نیات کو ایک حد تک آشکار کر دیا ہے ، لیکن اب جب کہ اصلاحی پالیسیوں کو ملک سے باہر لے جانے کی نوبت آئی ہے  تو اسے ایک  خارجی طاقت کی ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے وہ یہ سب انجام دے سکے ۔ اور اسی طرح  طاقت میں اضافے کے ساتھ سعودی عرب کی سیاست  میں بھی تبدیلی آئی ہے۔  اور اسی وجہ سے ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے ۔  ٹڑمپ پیسے کا خواہاں ہے اور بن سلمان امریکی ہتھیاروں کی مدد سے امنیت لانا چاہتا ہے ۔

 یمن میں آل سعود کی جارحانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کو مغربی ممالک کی تائید اور خاموشی کی ضرورت ہے تاکہ بن سلمان  علاقے میں اپنی مرضی کے مطابق کام کر سکے  اور اسی طرح امریکہ بھی مسئلہ فلسطین کے متعلق اسلامی ممالک کے درمیان اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ بھی سیاسی مفاہمت کا طالب ہے ۔ 

خارجی سیاست میں ریاض کے اصلاح طلب اہداف

محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں اپنے آپ کو ایک اصلاح طلب شخص کے طور پر متعارف کروایا ہے  اور عورتوں کے مسائل میں آزادی دے کر سعودی عرب کی جوان نسل کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن صرف داخلہ پالیسیوں سے اس کے عزائم پورے نہیں ہو سکتے ،  اس بنا پر ایک دوسرا راستہ خارجی پالیسیوں کا ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنے مقاصد کو انجام دے سکتا ہے۔  اور اس درمیان بالترتیب دو راستے پائے جاتے ہیں کہ جن کے ذریعے اس کے مقصد کو عملی جامہ پہنایا  جا سکتا ہے ۔  پہلا یہ کہ  دنیائے اسلام کے اصلی حریف اسرائیل کے ساتھ روابط برقرار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے  اور دوسرا  حالیہ واقعات کو مزید طول دینا اور اس کے ذریعے ایک بہترین موقع فراہم کرنا  کہ جس کا مصداق شام کی جنگ میں دخالت اور یمن کی جنگ کو مزید طولانی کرنا ہے ۔

اس  اصلی حریف یعنی اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ریاض کی خارجہ پالیسیوں میں حل ہو جائے تاکہ بہترین طریقے سے امریکہ کی خارجی حمایت حاصل ہو جائے ۔  مخفی ملاقاتیں ،  صہیونی حکومت کے ایٹمی نظام اور اس کی فوجی طاقت کے متعلق اظہار خیال ، اور بالآخر    اسرائیل تک مستقیم پرواز کی ممنوعیت کو ختم کرنے  کا مقصد صرف اور صرف وہی تھا کہ جو بیان کیا جا چکا ہے   اور یہ سب اس حد تک ہو چکا ہے  کہ صہیونی حکومت کے متعلق سعودی ولی عہد کے بیانات اور اظہارات نے سیاسی  مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

اس بنا پر   صہیونی حکومت کے ساتھ سعودی تعلقات کے وجوہات کو تین دلائل کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔  ایٹمی طاقت کا حصول اور تل ابیب کے ساتھ ایک محکم رابطہ بر قرار کرنا ۔  اور یہ احتمال بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ  بن سلمان سعودی عرب میں پائے  جانےوالے معدنی ذخائر اور یورینیم کے پیش نظر  صہیونی حکومت کے ساتھ ایک اقتصادی معاملہ کرنا چاہتا ہے ۔

2۔ مسلمان ممالک میں مصر وہ پہلا ملک ہے کہ جس نے انور سادات کے ذریعہ صہیونی حکومت  کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے ۔  اب جب کہ قاھرہ ایک داخلی جنگ میں گھرا ہوا ہے ، تو یہ سعودی عرب کے لئے بہترین فرصت ہے کہ وہ اپنے آپ کو عربی ممالک میں سب سے بڑا بنا کر پیش کرے اور وہ اس راستے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا ۔

3۔ ایران کے ساتھ دشمنی  کو ان روابط میں بہتری کی وجہ مانا جا سکتا ہے ، علاقے میں جاری حالیہ واقعات میں  دخالت  اور پھر منہ توڑ شکست نے  محمد بن سلمان کو تل ابیب کے ساتھ روابط برقرار کرنے پر بضد کر دیا ہے ۔

لیکن سیاست کی دنیا میں تمام پیش بینیوں کے ساتھ جس چیز کا انتظار ہوا تھا ویسا نہیں ہوا ،  لہذا انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہئے کہ محمد بن سلمان کی بلا روک اصلاحات کہاں پہنچیں گی۔       

برچسب ها محمد بن سلمان

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی