سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے ایران کی چار تجویزیں کیا تھیں ؟

 اردو مقالات سیاسی ایران شام ترکی روس

شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے ایران کی چار تجویزیں کیا تھیں ؟

انقرہ میں سہ فریقی ایران، روس اور ترکی اجلاس پر ایک نگاہ ؛

شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے ایران کی چار تجویزیں کیا تھیں ؟

نیوزنور:اس اہم رپورٹ میں آپ انقرہ میں سہ فریقی ایران، روس اور ترکی اجلاس کی جزئیات سے آگاہ ہوں گے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق جمہوری اسلامی ایران کے صدر  جمہوریہ حجت الاسلام شیخ حسن روحانی نے ایران روس اور ترکی صدور کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے3اپریل کی شام کو تہران سے آنکارا کے سفر کا آغاز کیا ۔

صدر  حسن روحانی نے ترکی کی طرف جانے سے پہلے تہران میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا : ایران ، ترکی اور روس کے صدور کی بیٹھک میں بحث کا موضوع شام اور اس ملک کے مستقبل کے حالات ہیں ۔

آپ نے آگے کہا : یہ شام کے موضوع پر ایران ترکی اور روس کے صدور کی  دوسری بیٹھک ہے ۔ پہلی بیٹھک روس کے شہر" سوچی" میں منعقد ہوئی تھی ، اس کے بعد شام کے مخالفین اور حکومت کے طرفداروں کی ایک کانفرنس ایک اہم قدم کے طور پر شام کے مستقبل اور اس ملک میں جمہوریت کے بارے میں منعقد ہوئی تھی ۔

ایران کےصدر جمہوریہ نے مزید کہا : حقیقت میں یہ مسایل" آستانہ" کے مذاکرات کے سلسلے کی کڑی ہیں کہ جہاں شام میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور کم کشیدگی والے چار علاقے معین کیے گئے ۔ کہ جن میں تین ملکوں "ایران" ،"ترکی"، روس" اور "شام" کی فوج موجود ہے ۔

آپ نے شام میں قومی  نسلی اختلافات اور خارجی مداخلت کے جاری رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار خیال کیا : بد قسمتی سے اب بھی کچھ  حکومتیں دہشت گردوں کو تقویت پہنچا رہی ہیں اور امریکی فوجیں بھی کہ جو شام میں مکمل حکومت کی تشکیل کے خلاف ہیں اور اس ملک کے ٹکڑےکرنا چاہتی ہیں اب بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں موجود ہیں ۔

4اپریل کی دوپہر سہ فریقی مذاکرات کا آغاز ہوا اور صدر حسن روحانی نے اس بیٹھک میں تاکید کی کہ شام کے بحران کا نہ کوئی فوجی حل ہے ، اور نہ اس کو خارج سے تحمیل کیا جا سکتا ہے ۔

شام کے بحران کے حل کے لیے صدر حسن روحانی کی چار تجویزیں ،

روحانی نے  تین ملکوں کی مشترکہ کوششوں کی مزید کامیابی کے لیے درج ذیل چار تجویزوں پر زور دیا ،

۱ ۔ شام کے بحران کا حل نہ فوجی ہے اور نہ اسے بیرونی طاقتوں کی جانب سے تھوپا جا سکتا ہے ۔ شام کا مستقبل شام کے لوگوں کے جمہوری انتخاب کے طریقے سے طے ہو گا ۔ جمہوری اسلامی ایران نے شروع سے ہی تاکید کی ہے کہ شام کے بحران کا حل فوجی نہیں ہو سکتا ، اسی لیے اس نے چار تجویزیں پیش کی تھیں ۔ شام  کے قومی مذاکرات کی کانگریس نے شام کے بحران کے پر امن حل و فصل کے کام کو شروع کرنے کیے لیے مناسب راستہ فراہم کر دیا ہے ۔ شامی کی شامی کے ساتھ گفتگوطرفین کے لیے قابل قبول راہ حل تک پہنچنے کے لیے ،منجملہ قانون اساسی میں ضروری اصلاحات کیے جانے اور آزاد اور سالم انتخابات کرائے جانے تک جاری رہنی چاہیے ۔ شام کی حکومت کی نوعیت اور شکل کو معین کرنے کے لیے باہر والوں کی مداخلت صرف بحران کو آگے بڑھا سکتی ہے ۔

۲ ۔ پورے شام میں انسانی حالت افسوس ناک ہے ، اور بین الاقوامی سوسائٹی کی ذمہ داری ہےکہ شام کے تمام علاقوں تک انسانی امداد پہنچائیں ۔ اس سلسلے میں شام کی حاکمیت کی مخالفت کیے بغیر  یہ اطمئنان ہونا چاہیے کہ یہ امداد تیزی کے ساتھ شام کے تمام علاقوں میں کہ جہاں ضرورت ہو پہنچ جائے ۔ شام کے بے گناہ شہری چاہے وہ "غوطہ" میں ہوں یا" عفرین" میں یا" فوعا اور کفریا" میں ہوں عالمی سطح پر ان کی حمایت ہونی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے واقعی کوشش، اور اس ملک کی تعمیر نو کے لیے مناسب مواقع فراہم کرنا ، اور بے گھر افراد کو اپنے گھروں میں واپس لانے کے حالات سازگار کرنا ہماری اور عالمی سوسائٹی کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے ۔ جمہوری اسلامی ایران بھرپور طریقے سے شام کی تعمیر نو میں شریک ہونے کے لیے تیار ہے ۔

۳ ۔ قومی حاکمیت ، ارضی سالمیت ، اور شام کا  اتحاد اور استقلال ہر حال میں محترم سمجھا جانا چاہیے ۔ شام میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی اس ملک کی موافقت کے بغیر غیر قانونی ہے اوراسے اب ختم ہونا چاہیے شام کی سرزمین پر غیروں کا نظر رکھنا اور اس ملک کو ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنا کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے ، جس سے شام میں امن و مصالحت کو خطرہ لا حق ہو گا ۔

۴ ۔ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شام میں تمام دہشت گرد گروہوں کے نابود ہونے تک جاری رہے ۔ وہ ملک جوشام میں ابھی تک دہشت گردوں کی کامیابی کی تمنا رکھتے ہیں، انہیں ہوش میں آنا چاہیے اور ان کی مدد کرنا بند کر کے اس سے زیادہ اپنے آپ کو شام کے لوگوں کے مقابلے پر کھڑا نہ رکھیں ۔

اس  دو روزہ سفر میں صدر جمہوریہ ایران کا دوسرا پروگرام ترکی کے صدر اردوغان کے ساتھ بات چیت کرنا تھا ۔صدر حسن روحانی  نےترکی کے اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کہا: ایران اور ترکی کو مختلف میدانوں میں اپنے تعلقات اور تعاون کو جیسے سرحدی امور میں تعاون ، منظم جرائم کا مقابلہ کرنے میں تعاون ،  ماحولیات میں تعاون ، سیاحت میں تعاون ، منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون  کسٹم اور ٹرانزیٹ کے امور میں تعاون بینکوں میں تعاون توانائی کے سلسلے میں تعاون ، اور تجارتی تعلقات  میں قومی کرنسی سے استفادہ کرنے میں تعاون کو پہلے سے زیادہ اونچی سطح پر لے جانا چاہیے اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے مشترکہ کمیشن کو کوشش کرنی چاہیے ۔

ایران کے صدر نے  اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بینکوں کے روابط کو توسیع دینے کی وجہ سے تہران اور آنکارا کے تعلقات اور تجارتی اور اقتصادی  تال میل میں رونق پیدا ہو گی ، یاد دلایا : ترکی کے ساتھ تعلقات کو بڑھاوا دینا ایک دوست ، ہمسایہ اور مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے ایران کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔

 ایران اور ترکی میں نتیجہ خیز تعاون کی خاطرعنقریب ترکی میں اعلی تعاون کمیٹی کی تشکیل ،

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی اس ملاقات میں بتایا : اس اجلاس کو بہترین انداز میں منعقد کرنے کے لیے ایران نے جو اہتمام کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ملک علاقائی سطح پر تعاون کو بڑھاوا دینے میں کس قدر سنجیدہ  ہیں ۔

صدراردوغان نے مختلف میدانوں میں ایران اور ترکی کے مابین ہر طرح کے تعلقات اور تعاون کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں کوشش اور جدو جہد کرنے کی ضرورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اظہار خیال کیا : ایران اور ترکی کے مابین کارآمد تعاون کے لیے ایک اعلی کمیٹی کا اجلاس عنقریب ترکی میں ہو گا ۔

ترکی کے صدر  جمہوریہ نے ایران اور ترکی کے آپسی تعاون اور رائے مشورے کو ، علاقائی مسایل کے حل و فصل کی خاطر خاص کر دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں سے جنگ کے سلسلے میں تعمیری اور مثبت  قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ آپسی  روابط کو مزید توسیع اور تقویت دی جائے ۔

صدراردوغان نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تہران اور آنکارا کے مابین تجارتی اور اقتصادی روابط کی توسیع میں اور کاروباری لین دین میں قومی کرنسی کا استعمال شایان شان تاثیر رکھتا ہے ، مزید کہا : مستقبل قریب میں ترکی کے حکام کی ایک بلند پایہ وفد ایران اور ترکی کے درمیان ترجیحی تجارت کے سلسلے میں ایک سمجھوتہ کرنے کے لیے تہران جائے گی ۔

روسی صدر جمہوریہ پوتین کے ساتھ دو طرفہ بات چیت ، تجارتی روابط میں قومی کرنسی سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر تاکید ،

صدرروحانی نے اپنے روسی ہم منصب سے بھی ملاقات اور گفتگو کی اور کہا : قومی کرنسی سے تجارتی روابط اور لین دین میں استفادہ دونوں ملکوں کو تعلقات اور تعاون میں اپنے مد نظر مقاصد تک پہنچنے کو نزدیک تر کر دے گا ۔

اگر  جوہری سمجھوتے برجام کے منافع سے استفادہ نہ کر پائے تو ہم نیا فیصلہ کریں گے ،

جمہوری اسلامی ایران کے صدر نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ برجام کے سلسلے میں سب کو اپنے اپنے وعدے کی پابندی کرنی چاہیے، تاکید کی : اگر ایسے حالات پیدا ہوں کہ ہم "برجام" کے منافع سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ، تو ہم نیا فیصلہ کریں گے ۔

ایرانی اقتصاد کے میدان میں روس کی طرف سے سرمایہ لگانے کا اہتمام ،

صدرپوتین نے اس ملاقات میں اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ روس اور ایران کے روابط اعلی سیاسی ، اقتصادی ، اور توانائی اور دفاعی کے میدان  جاری رہیں گے ، کہا : روس ایران میں مختلف اقتصادی میدانوں میں مزید سرمایہ لگانے پر مصمم ہے ۔

روس کے صدر جمہوریہ نے یاد دلایا : ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ بینکی کاروبار کو تقویت دے کر تجارتی لین دین میں دونوں ملکوں کی قومی کرنسی کو استعمال کریں ۔

صدرپوتین نے ایران کی طرف سے جوہری سمجھوتے " برجام" میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پابندی  پر تاکید کرتے ہوئے، اظہار خیال کیا: اس سمجھوتے میں تمام فریقوں کی طرف سے پابندی لازمی ہے اور بین الاقوامی سوسائٹی کو "برجام" کی پایداری کی حمایت کرنی چاہیے ، اس لیے کہ "برجام" کو کسی بھی طرح کا نقصان علاقے اور عالمی سطح پر ڈیپلومیسی میں خدشہ ہے ۔

روحانی ،اردوغان اور پوتین کی پریس کانفرنس کے موضوعات ،

صدرروحانی :جمہوری اسلامی ایران کے نقطہ نظر سے  شام کی مشکل کا حل فوجی نوعیت کا نہیں ہے ۔شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل و فصل ہونا چاہیے ۔ کسی ملک کو شام کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے شام کا مستقبل شام کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔

صدراردوغان : ہم اپنے ایرانی اور روسی دوستوں سے مل کر اس چیز کے درپے ہیں کہ شام کی سلامتی کے لیے مل کر کام کریں ، اس لیے کہ شام کی مشکل کا راہ حل صرف سیاسی اور مذاکراتی ہے ۔ ساری دنیا کو توجہ کرنی چاہیے کہ ہر صورت میں شام کا استقلال ، اس کی سرزمین اور دہشت گردوں سے مقابلہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔

صدرپوتین: ہمارا مقصد پورے شام میں امن اور آشتی پیدا کرنا ہے ، تینوں ملک یعنی ایران ، روس اور ترکی شام کی حکومت کی تقویت میں شریک ہیں ۔ شام کے اتحاد ، استقلال اور اس کے ملک کی سالمیت کی حفاظت ہونا چاہیے ۔ شام والوں کو خود اپنا مقدر طے کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے ۔ دہشت گرد گروہوں کی کوشش ہے کہ قومی آشتی کو نقصان پہنچائیں اور اسی سلسلے میں وہ بھڑکانے والی کاروائیاں کر رہے ہیں۔

اس سفر کے اختتام پر4اپریل کی شام کو صدر جمہوریہ ایران واپس لوٹے ، اور تہران ہوائی اڈے پر ان کے نائب اول نے ان کا استقبال کیا ۔               

برچسب ها ایران ترکی روس شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی