سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

صہیونی مطبوعات ؛ بن سلمان اور نیتن یاہو ایک سکے کے دو رخ ہیں

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل

صہیونی مطبوعات ؛ بن سلمان اور نیتن یاہو ایک سکے کے دو رخ ہیں

صہیونی مطبوعات ؛ بن سلمان اور نیتن یاہو ایک سکے کے دو رخ ہیں

نیوزنور:صہیونی حکومت کے کچھ روزناموں نے سعودی عرب کے ولی عہد کی باتوں کی جو اس نے ایک امریکی نشریے ایٹلانٹیک کے ساتھ انٹرویو کے دوران کی تھیں کی تحلیل کرتے ہوئے اس کو اور صہیونی حکومت کے وزیر اعظم کو دوسکے کے ایک رخ قرار دیا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد بن سلمان کے امریکی نشریے "ایٹلانٹیک "کو دیے گئے انٹرویو کو دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ منجملہ اسرائیل کے ذرائع ابلاغ میں بہت اچھالا گیا ہے اس طرح کہ اب ذرائع ابلاغ نے سعودیہ کے ولی عہد اور صہیونی حکومت کے وزیر اعظم کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا ۔

"الخلیج الجدید" خبری مرکز نے ایک مقالے میں جس کا موضوع ہے ؛ مطبوعات اسرائیل : بن سلمان اور نیتن یاہو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، ایٹلانٹیک نشریے میں جو محمد بن سلمان کے دیے گئے انٹرویو میں کی گئی باتوں کو  اچھالا گیا ہے اسکے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے امریکی نشریے ایٹلانٹیک کے ساتھ محمد بن سلمان کی باتوں کا اس قدر استقبال کیا ہے کہ ایک روزنامے نے اس بارے میں لکھا ہے کہ بن سلمان اور بن یامین نیتن یاہو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ،

اس سلسلے میں اسرائیل کے بارے میں محمد بن سلمان کی  کچھ باتیں کہ اسرائیل کو بھی حق ہے کہ وہ زمین کا مالک ہو، اسرائیل کے کئی ذرائع ابلاغ کی سرخیاں بنی ہیں ۔

ایک انٹرویو میں کہ جو بن سلمان نے امریکی نشریے ایٹلانٹیک  کے چیف ایڈیٹر جفری گولڈ برگ کو دیا ہے جو خود اس سے پہلے اسرائیل کی فوج میں خدمت کر چکا ہے وہ انٹرویو سوموار کے دن منتشر ہوا ، اس میں سعودی عرب کے ولی عہد نے صہیونی حکومت کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے کہ جو فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے اور لاکھوں فلسطینیوں کو وطن سے نکالنے کے بعد وجود میں آئی ہے اس نے تاکید کی کہ دین میں اسرائیل نام کے ملک کے وجود کے سلسلے میں کسی طرح کی ممنوعیت نہیں ہے ۔

اس نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہودیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی اپنے اجداد کی سر زمین پر اپنی ایک قومی حکومت ہو یا نہیں ؟ کہا : میری نظر میں ہر ملت کو دنیا میں کہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن میں صلح و امن کے ساتھ زندگی بسر کرے اور میرا عقیدہ ہے کہ فلسطین اور اسرائیل نام کی دونوں ملتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی اپنی اپنی زمین ہو ۔

سعودی عرب کے ولی عہد نے مزید کہا : لیکن اس چیز کی خاطر کہ سب کو ثبات اور استقرار حاصل ہو اور معمول کے تعلقات ہوں ہمیں صلح کا ایک سمجھوتہ کرنا چاہیے ، بن سلمان نے اپنی بات آگے بڑھائی : اسرائیل اپنے رقبے کے مقابلے میں ایک عظیم اقتصاد شمار ہوتا ہے اور یہ اقتصاد پوری طاقت سے ترقی کر رہا ہے ۔ طبعا بہت سارے منافع ایسے ہیں کہ جنہیں ہمیں اسرائیل کے ساتھ تقسیم کرنا چاہیے ، اس دوران اگر صلح پائی جاتی ہو تو بہت سارے مفادات اسرائیل اور خلیج فارس تعاون کونسل اور دیگر ملکوں کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔

اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ،

صہیونی روزنامے ھا آرتص  نے بن سلمان کی باتوں کو اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا اور اس سلسلے میں اس نشریے کے فوجی تجزیہ نگار عامر تیغون نے لکھا ہے : ایٹلانٹیک کے ساتھ انٹرویو میں ولی عہد نے جو گفتگو کی ہے وہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ایک حکومت کا مالک ہونے کے حق کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہے ۔

 ھا آرتص کے فوجی تجزیہ نگار  نے مزید کہا ہے :؛بن سلمان کی باتوں نے گولڈ برگ کو اس قدر چونکا دیا ہے کہ اس نے کہہ دیا کہ اب تک کسی عربی رہنما نے اسرائیل کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کہی ۔ تیغون کا عقیدہ ہے کہ اسرائیل کے اقتصاد اور مشترکہ مفادات کے بارے میں بن سلمان کی باتیں ایک اور تعاون کی طرف اشارہ ہے کہ جو ریاض اور تل ابیب کے درمیان وجود میں آ سکتا ہے ۔

دوسری طرف اسرائیلی مرکز گلوبز نے بن سلمان کی باتوں کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور لکھا : سعودی شہزادہ تارخ سازی کر رہا ہے اور اسرائیل کی موجودیت کو سرکاری طور پر تسلیم کرتا ہے ۔

اسی طرح نشریہء ٹائمز آف اسرائیل نے ایک مضمون میں ، سعودی عرب کے ولی عہد نے ، اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے اور مستقبل میں روابط کی بات کی ہے ایٹلانٹیک کو دیے گئے بن سلمان کے انٹرویو کو مکمل طور پر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : بن سلمان نے سعودی عرب اور یہودی حکومت کے درمیان روابط کے استوار ہونے کا استقبال کیا ہے ۔

چونکا دینے والی باتیں ،

اسرائیل کے وزیر اعظم کے قریبی نشریے اسرائیل ھیوم نے سعودی عرب کے ولی عہد کے انٹرویو کی خبر کو منتشر کرتے ہوئے لکھا ہے : بن سلمان اپنی چونکا دینے والی باتوں کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔

اسرائیل ٹی وی کے چینل نمبر ۱۰ نے بھی بن سلمان کی باتوں کو استثنائی باتیں ، قرار دیتے ہوئے لکھا ہے : یہ باتیں بن سلمان کی اسرائیل کی قومی سلامتی کمیٹی کے سر براہ مائیر بن شبات  کے ساتھ ملاقات کے برملا ہونے کے بعد کی گئی ہیں ۔

اسی طرح دو نشریوں بدیعوت آحارانوت اور معاریو نے سعودی عرب کے ولی عہد کی اسرائیل کے اقتصاد کے بارے میں باتوں کاا ستقبال کیا ہے کہ جن کو اس نے اسرائیل اعظم کی مساحت کے ساتھ مقایسہ کرتے ہوئے کیا ہے ۔

دوسری جانب ، ایک اسرائیل مرکز سروگیم کے ایک قلمکار اورئیل بئییری نے محمد بن سلمان کی باتوں کے بارے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات استوار کیے جانے کے بارے میں ایک اور نئی اور سامنے کی دلیل پیش کی ہے ۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ بنیاد مطالعات منطقہء قدس کے محقق یونی بن مناحم نے ، بن سلمان اور نیتن یاہو ایک سکے کے دو رخ ہیں ، کے موضوع کے تحت ایک مقالے میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان باتوں کے بعد دنیائے عرب کی طرف سے سعودیہ کے ولی عہد پر شدید حملہ ہو گا ۔

روابط کی استواری ،

دو نشریوں اسرائیلی ھا آرتص اور برطانوی انڈیپینڈینٹ نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے ایٹلانٹیک نشریے کو اس وقت انٹرویو دیا کہ جب اس نے امریکہ کا دو ہفتے کا دورہ کیا اور ڈونالڈ ٹرامپ سے ملاقات کی اور اس ملک کے یہودی رہنماوں سے ملاقات کی ۔ بن سلمان نے امریکہ میں جن یہودی شخصیتوں سے ملاقات کی ، ان میں ایپاک کے سربراہ ، شمالی امریکہ کے یہودیوں کی انجمنیں ، یہودیوں کا دفاع کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ، اور بنی بریت کی یہودی تنظیم  شامل ہیں کہ جو سب کی سب یہودی تنظیمیں ہیں ۔

سعودی عرب سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ، لیکن حال ہی میں ذرائع ابلاغ پر کچھ رپورٹیں منتشر ہوئی ہیں  جن میں دونوں طرف کے روابط مستحکم ہونے کی بات کہی گئی ہے ۔ اور خبر دی ہے کہ محمد بن سلمان نے تل ابیب کا سفر کیا ہے جب کہ ریاض نے اس سفر کی تکذیب کی ہے ۔

اسرائیل کی قابینہ نے تل ابیب اور سعودی عرب کے روابط کے بہتر ہونے کی بہت امیدیں دلائی ہیں ،اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ریاض اپنے بنیادی اور تاریخی کردار کو اسرائیل اور دیگر عرب ملکوں کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کے دروازے کو کھولنے میں ادا کرے ۔

اس سے پہلے اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے امریکہ اور صہیونی حکومت کے اس قصد سے پردہ اٹھایا ہے کہ وہ ایران کا مقابلہ کرنے اور امریکہ کے منصوبے کہ جو اسرائیل اور عربوں کے تعلقات بحال کرنے   پر مبنی ہے کے دائرے میں صدی کی قرار دادکو آگے بڑھانےکے لیے سعودی عرب کے ساتھ گٹھ بندھن بنانے کے سلسلے میں  ہے ۔

پچھلے مہینے میں سعودی حکام نے ھندوستانی ہوائی کمپنی ائیر انڈیا  کو اجازت دی تھی کہ وہ دہلی نو سے تل ابیب تک اپنی پروازوں میں سعودی عرب کے آسمان سے گذر سکتی ہے ۔ یہ وہ موضوع ہے جس کو اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایک تاریخی واقعہ بتایا ہے کہ جس کے اندر بہت سارے تاریخی ، سیاحتی ، اقتصادی ، ٹیکنالوجیکی اور سیاسی معانی چھپے ہوئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اکیلا ہی اہم نہیں ہے بلکہ جس چیز کی اہمیت ہےوہ اس کا عملی نتیجہ ہے جو اس قدام کے مستقبل میں سامنے آئے گا ۔

امریکہ کا صدر سعودی  عرب کو ایسے ملک کے طور پر دیکھتا ہے جو صدی کی قرار داد کے وجود میں آنےاوراس  کے مثمر ثمر ہونے میں واشنگٹن کی مدد کر سکتا ہے ، ایسی قرار داد کہ جو اسرائیل کے عرب ملکوں اور خاص کر سعودی عرب کے ساتھ روابط کو استوار کرنے اور انہیں وسعت دینے میں اسرائیل کے لیے مدد گار ثابت ہو گی ۔        

 


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی