سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کیا"واپسی مارچ"صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کی ایک نئی حکمت عملی ہے؟

 اردو مقالات سیاسی فلسطین

کیا"واپسی مارچ"صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کی ایک نئی حکمت عملی ہے؟

کیا"واپسی مارچ"صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کی ایک نئی حکمت عملی ہے؟

نیوزنور:جمعے کے روز ہزاروں اہلیان غزہ کی موجودگی میں شروع ہونے والا عظیم واپسی مارچ کہ جس میں اب تک 16 افراد شہید اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں ،   عظیم مقاصد اور آشکارا  پیغامات کا حامل ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق  فلسطینی جرنلسٹ اور کالم نگار "عوض ابودقہ" نے غزہ کے گرد و نواح میں ہزاروں فلسطینیوں کی جانب سے شروع ہونے والے "واپسی مارچ "کی تحلیل کرتے ہوئے لکھا کہ اس مارچ کا پہلا پیغام یہ تھا کہ ہماری ملت زندہ ہے اور اسی طرح زندہ رہے گی  اور صہیونی حکومت کے  خلاف جاری فلسطینی عوامی جدو جہد کا رخ بدلنے کے لئے کی جانے والی سازشیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچیں گی۔

اس جلوس کے دیگر پیغامات میں سے ایک یہ ہے کہ ملت فلسطین صہیونی حکومت  کا مقابلہ کرنے کے لئے نئے اور کلاسیک طریقے اختیار کرنے پر قادر ہے  اور انہوں نے عوامی فکر کو  اپنے رنج و غم اور صہیونی جنایت کاروں کی طرف مبذول کیا ہے۔

ابو دقہ کی تحریر کے مطابق اس عظیم تحریک کے پیغامات میں سے ایک یہ بھی تھا   کہ فلسطین کی نوجوان نسل ہر گز دشمن کی جانب سے اپنے اجداد کی بے وطنی ،کہ 1948 میں جنہوں نے اس کا  تلخ ذائقہ چکھ لیا تھا  ، کو ہر گز فراموش نہیں ہونے دیں گے ، اور ہم  دیکھ رہے ہیں کہ انہی اجداد کی نسل جدید نے  اسرائیلی فوج کی پرواہ کئے بغیر   "واپسی کا مارچ" شروع کیا ہے  اور صہیونی فوج کو یہ واضح پیغام دیا ہے   گذشتہ ایک دہائی کے زخم ہر گز اس بات کی وجہ نہیں بن سکتے  کہ ہم اپنے بنیادی حق اور اپنی سرزمین کو فراموش کر دیں ۔

اس عظیم مارچ کے پیغامات میں سے ایک پیغام یہ بھی تھا کہ   فلسطینی عوام جس نقطے پر جمع ہوئی ہے وہ ان کے اصول ان کے حقوق اور ان کا اتحاد ہے  اور اس مارچ میں شامل تمام افراد  ہر طرح کی مسلح مقاومت سے ہٹ کر ، فلسطینی پرچم کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے  اتحاد کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے ہیں ۔

اس مارچ کا ایک پیغام امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ کے نام اس بات پر مبنی تھا  کہ اس کی جانب سے  "صدی کے معاہدے "، اور" قدس کو صہیونی پایتخت" بنانے والے اقدامات کا جواب ضرور دیا  جائے گا اور انہیں فلسطینی عوام کی جانب سے محکم جوابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 اسی طرح یہ عظیم عوامی مارچ  ایک جدید فلسطینی مقاومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ جس میں تمام احزاب ، گروہ اور سیاسی جماعتیں ایک پرچم تلے صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے جمع ہوئی ہیں  کہ اس صورت میں ان کا موقف  متحد ہوگا اور یہ چیز فلسطینی مسئلے پر اثر انداز ثابت ہوگی۔ 

ملت فلسطین نے اس مارچ سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ قوت ایمانی اور فولادی جذبوں کے ساتھ اس بات پر قادر ہیں کہ اپنا حق لے سکیں  اور اسلامی و عربی ممالک کی مجرمانہ خاموشیاں اور منافقتیں کہ جو شاید ان کے داخلی مسائل کے پیش نظر ہوں بلا شک صہیونی فوج کے مقابلے میں فلسطینی مقاومت پر اثر انداز ہوں گی لیکن اس حد تک اثر انداز نہیں ہو سکتیں  کہ جو فلسطینیوں کو ان کا حق لینے سے روک سکے۔ 

ابو دقہ نے فلسطینیوں کی جانب سے غزہ اور متنازعہ علاقوں کے درمیان  1948  میں بنائی جانے والی سرحدوں اور دیواروں کو کامیابی کے ساتھ عبور کرنے کے متعلق لکھا  کہ فلسطینی ایک بار پھر اس بات  میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اسرائیلی کاروائیوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں  اور ہر لمحہ ایک نئی جنگ کا احتمال پایا جاتا ہے  اور اسی بارے میں صہیونی روزنامے "معاریو" نے  اپنے جمعہ کے شمارے میں  مقبوضہ غزہ کے گرد و نواح کے علاقوں کے حالات کو کوکر پریشر سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا کہ وہاں بخار جمع ہو رہا ہے اور وہ پھٹنے کی زد پہ ہے اور اس تحریک آزادی کے رہبران کہ جواس کوکر پریشر کی سیٹی ہیں ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں ۔

ابو دقہ نے آخر میں لکھا  کہ یہ عظیم عوامی تحریک  اس مارچ کی طرف سیاست اور میڈیا کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے متجاوز اور ظالم صہیونی حکومت کا چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے۔            

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی