سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

داعش والوں نے پولیس کے ایک افسر کی توہین کی /بات اس زمانے کی ہے کہ جب داعش والوں نے ایزدیوں کے علاقے پر حملہ کیا تھا

 اردو مقالات سیاسی عراق

داعش والوں نے  پولیس کے ایک افسر کی توہین کی /بات اس زمانے کی ہے کہ جب داعش والوں نے ایزدیوں کے علاقے پر حملہ کیا تھا

داعش والوں نے  پولیس کے ایک افسر کی توہین کی /بات اس زمانے کی ہے کہ جب داعش والوں نے ایزدیوں کے علاقے پر حملہ کیا تھا

نیوزنور:اس پولیس افسر کا نام عواد تھا ، اس کو فوجی لباس اور جوراب پہننے کے جرم میں ایک الیکٹرانیک کھمبے کے ساتھ اپنے محل خدمت کے سامنے باندھا گیا اور اسے اذیت دی گئی ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق "نوزی شمدین" ایک عراقی قلمکار ہے جو سال ۱۹۷۳ میں موصل میں پیدا ہوا تھا اور وکالت کے شعبے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۸ سال تک وکالت میں مشغول رہا ، اس کے بعد اس نے روزنامہ نگاری کا کام شروع کر دیا ۔

عراق کے مختلف روزناموں منجملہ وادی الرافدین ، اور مستقبل العراق میں اور عراق سے مہاجرت کے بعد سال ۲۰۱۴ میں المدی میں سرگرم عمل رہا ، اس کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ ناروے چلا گیا ۔

وہاں بھی مختلف روزناموں میں کہ جو عربی زبان میں منتشر ہوتے تھے اس نے کام شروع کر دیا ۔ کتاب ، شظایا فیروزہ ، فیروزہ کے باقیات ، جو اس کی داستانوں کی تیسری کتاب ہے جو دہشت گرد گروہ داعش کے ہاتھوں شہر موصل اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضے کے بارے میں ہےجس میں اس نے اسارت کے زمانے  میں ایک ایزدی لڑکی پر کیا بیتی ، اس کو لکھا ہے ۔

گذشتہ قسطوں میں ہم نے بتایا کہ ام نھود گاوں کے بانی شیخ حامد کا ایک اکیلا تعلیم یافتہ لڑکا مراد تھا ۔ موصل پر داعش کے قبضے سے چند ماہ کی بد امنی نے اس کو سال ۲۰۱۴ میں اپنے دیہات واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ وہاں عورتیں اور لڑکیاں اس کا دل جیتنے کے لیے ایکدوسری پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ وہ ان کو بہن کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ لیکن اسی دوران تقدیر اسے ایک پیاز بیچنے والی ایزدی لڑکی فیروزہ سے آشنا کر دیتی ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب موصل پر داعش نے مصیبت بار اور دردناک گرمیوں میں قبضہ کیا تھا ۔

شظایا فیروزہ (فیروزہ کے باقیات ) ،

سنجار کے پہاروں کے مشرق کے عرب نشین دیہات اس  خیال سے کہ وہ داعش کے حملوں سے امان میں رہیں گے موصل پر اس گروہ کے قبضے کے بعد ہفتوں تک ایسے لوگوں کی مہمان نوازی کرتے تھے کہ جو امارت اسلامی یعنی داعش کے ہاتھوں سزاوں سے بچنے کے لیے اطراف کے دیہاتوں میں جا کر پناہ لیتے تھے ھشام کا بیٹا عواد بھی انہی افراد میں سے تھا کہ جس کو داعش کی شرعی عدالت نے توبہ کرنے ، داعش کی بیعت کرنے اور عدالت کے اخراجات کے طور پر ۲۰۰ ڈالر نقدی ادا کرنے کی سزا سنائی تھی چنانچہ وہ ام نھود کے دیہات کی طرف واپس جانے پر مجبور ہو گئے تھے ۔

دیہات والوں نے ان کو دیکھنے کے لیے ایک لائن بنا رکھی تھی وہ چاہتے تھے کہ جو کچھ دوسری دنیا میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں معلوم کریں اور اس کو اس پر کہ جو کچھ ذرائع ابلاغ میں چھپتا ہے منطبق کریں ۔

ھشام نے تفصیل کے ساتھ موصل پر قبضہ ہونے اور فوجیوں کے فوجی چھاونیوں سے بھاگنے ، اور شہر پر اور منجملہ حساس مراکز پر اور فوجی اور سرکاری  اور سلامتی کے اہم ٹھکانوں پر قبضے سے لے کر ، اور اپنے غیر فوجی لباس میں داعش کے ہاتھوں سے بچنے کے لیے ایک گھر سے دوسرے گھر تک  بھاگنے کی داستان کو بیان کیا ۔

اس کا باپ عواد یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح  پولیس اور سیکیریٹی فورس کو داعش کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ کس عجیب انداز میں ایک گولی چلائے بغیر داعش کے سامنے تسلیم ہو گئے اور سینکڑوں قیدی ،اور مجرم جیل خانوں سے بھاگ کر  داعش کے ساتھ جا کر مل گئے ۔

عواد کی روایتوں کا ایک بڑا حصہ داعش کے عناصر کے ساتھ اس کی مخالفتوں پر مشتمل ہے ۔ داعش والوں نے اس سے کہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کی طرح فوجی لباس اتارے اور غیر فوجی لباس پہنے  ،لیکن اس کے انڈر وئیر اور ایک جوراب کی وجہ سے اس کو موصل کے مرکز میں باب الشط کے محلے میں بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ باندھ کر مارا پیٹا گیا ۔

البتہ اس نے نہ دوستوں اور جاننے والوں بلکہ اپنے بیٹے سےبھی نہیں کہا کہ کس طرح داعش نے اس کو مارا ہے اور اس کی توہین کی ہے اس نے روایت کے اس حصے کو راز کی طرح سینے میں چھپا رکھا تھا ۔

داعش نے ایزدی عورتوں اور لڑکیوں کا کیا حشر کیا ،

ایسی حالت میں کہ جب لوگ موصل کی آزادی میں مشغول تھے ، اور مراد نے اس مشغولیت کو موقعہ سمجھا تا کہ فیروزہ  سے اطلاعات حاصل کر لے ۔لہذا اس نے مرغا بیچنے  اور فیروزہ سے اطلاعات حاصل کرنے کے بہانے  کئی بار ایزدیوں کے دیہاتوں میں آنا جانا کیا ۔ ایک سال صبر کرنے اور تلاش و جستجو کرنے کے بعد  آخر کار وہ گھر کہ جس کی اسے تلاش تھی وہ اسے مل گیا ۔

اگلی صبح پیاز خریدنے کے لیے وہیں گیا جہاں ہمیشہ جاتا تھا ، پہلی بار اس نے اپنے اندر ہمت پیدا کی تھی ، جب وہ پیاز کو تھیلے میں ڈال رہا تھا تو اس نے فیروزہ سے اپنا تعارف کروایا ؛ میرا نام مراد ہے ۔۔۔

ایک کالا بھاری ہاتھ میرے سینے پر لگا اور مجھے زمین سے اٹھا کر دیوار کے ساتھ چپکا دیا میں ایک گڑیا کی طرح ہو گیا تھا کہ جو دیوار سے چپکی ہو ۔۔۔ میرے ہاتھ پیر گویا شل ہو گئے تھے اور میرا مغز کام نہیں کر رہا تھا وحشت میرے پورے وجود پر چھا گئی تھی ، میں سوچ رہا تھا کہ شاید مر چکا ہوں اور دوسری دنیا میں چلا گیا ہوں ،میں بہار کے بادلوں کی طرح رورہا تھا اور میری سانس پھول رہی تھی ،کہ میرے باپ کی آواز نے مجھے  ہوش دلایا ۔۔۔ فیروزہ۔۔فیروزہ۔۔۔۔

میں نے جب آنکھیں کھولیں تو معلوم ہوا کہ جو کچھ میں نے دیکھا وہ صرف ایک خواب تھا ، میں نے خدا کا شکر ادا کیا میں لوٹ پوٹ رہا تھا اور اپنے ڈراونے خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا ،کہ اتنے میں پے در پے دھماکوں کی آوازوں نے جو ہمارے دیہات کے قریب سے قریب تر ہو رہی تھیں میری نیند اڑادی ۔

باہر بہت سردی تھی اور میں کوشش کر رہا تھا کہ جب تک انور کی گاڑی آتی میں چند منٹ بستر میں ہی پڑا رہوں ۔ لیکن بھیانک سناٹے نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کی ، یہاں تک کہ مرغوں کی بھی آواز نہیں نکل رہی تھی ۔۔۔اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک اور دھماکے آواز کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ اس کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا دھماکہ ۔۔ اس فرق کے ساتھ کہ آوازیں ہمارے مکان سے نزدیک ہو رہی تھیں۔ میں نے وحشت زدہ ہو کر اپنی دو بہنوں کولی اور نعام کو نیند سے جگایا ۔بھاگتا ہوا کمرے کی طرف گیا ۔۔ پھوپھی کی حالت ڈر کے مارے بری ہو رہی تھی وہ بھی ننگے پاوں ہم سے آ ملی ۔۔۔ وہ ابھی نیند میں تھیں ۔۔ نیند سے آلودہ حالت میں اس نے مجھ سے دھماکوں کے بارے میں پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر  اور جواب تو میرے پاس تھا ہی نہیں اس نے مجھے اور میری بہن کو گود میں لینے کی کوشش کی ۔

ڈرنا نہیں ، یہ دھماکے ہم سے دور ہیں۔۔۔ ہمارے اس فقیر گاوں میں کسی کو کیا ملے گا کہ وہ اس پر حملہ کریں گے ۔

لیکن دھماکے تھے کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ہمارے پاوں کے نیچے زمین کانپ اٹھی ۔ ہم اپنے کمرے کی کچی چھت کے گرنے کے خوف سے بستر میں چھپ گئے ۔میری پھوپھی دعا کر رہی تھی اور خدا سے اور ہر کسی سے مدد مانگ رہی تھی ۔۔ کچھ دیر کے لیے دھماکے کی آوازیں رکیں اور سناٹا چھا گیا ۔۔ میں نے یہ سوچ کر کہ سب کچھ ختم ہو گیا ، اپنا سر اٹھایا ۔۔ اپنی پھوپھی کو ہلایا کہ جو سوچ رہی تھیں کہ قیامت آ گئی ہے اور لگاتار زور زور سے دعا پڑھ رہی تھیں ۔

ہم کمرے سے باہر نکلے اور صحن میں جمع ہوئے ۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے ہمارے سرو گردن سے پسینہ بہہ رہا تھا اور ہاتھ بے حس ہو چکے تھے ۔ سب جیسے شاک کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔ اس مدت میں اونچی اونچی گاڑیوں کی آواز سنائی دی کہ جو دیہات کی جانب حرکت میں تھیں ان میں سے کچھ گاڑیاں ہمارے گھر کے پاس رکیں اور کچھ لوگ ان سے اترے ۔۔۔ وہ عربی زبان میں کچھ نعرے لگا رہے تھے  کہ ہمیں ان میں سے صرف اللہ اکبر سمجھ میں آرہا تھا ۔      

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی