سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

محمد بن سلمان کے خلاف ممکنہ کودتا کو روکنے کے لیے سعودی فوج کے کمانڈروں کا اخراج

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب

محمد بن سلمان کے خلاف ممکنہ کودتا کو روکنے کے لیے سعودی فوج کے کمانڈروں کا اخراج

رپورٹ ؛

محمد بن سلمان کے خلاف ممکنہ کودتا کو روکنے کے لیے سعودی فوج کے کمانڈروں کا اخراج

نیوزنور:ملک سلمان نے اپنے بیٹے کی بادشاہی کے راستے کو آسان بنانے کے لیے فوج سے اپنے مخالفوں کو نکال دیا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق سعودیوں کے بادشاہ ملک سلمان بن عبد العزیز نے اپنے مخالفوں کو کچلنے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بار فوج کے کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے اور فوج کے کچھ اعلی افسروں کو برطرف کر کے سعودی عرب کے فوجی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں ۔

ملک سلمان نے سلطنتی احکام کے ذریعے جنرل عبد الرحمان بن صالح بنیان کو جو فوج کا چیف آف اسٹاف  ہے اور اسی طرح ہوائی اور زمینی فوج کے کمانڈروں کو جو فوج کے سب سے بڑے کمانڈر شمار ہوتے ہیں برطرف کر دیا ہے ۔ ملک سلمان نے سعودی خاندان کے مخالفوں کو نکالنے اور کچلنے کو سلسلے کو جاری رکھتے ہوئےکچھ شہروں کے مئیروں کو بھی نکال کر ان کی جگہ دوسرے افراد کو رکھا ہے ۔

سعودی عرب کے بادشاہ نے سال ۲۰۱۵ میں کہ جو اس کی سلطنت کے شروع کا پہلا سال تھا کوشش کی کہ اجتماعی سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں تبدیلیاں ایجاد کرے اور مخالفوں کو کچل کر اور سیاسی اصلاحات انجام دے کر اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے حکومت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرے تا کہ وہ آل سعود کی بادشاہی کے سلسلے کو آگے بڑھا سکے ۔

اگر چہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن اس ملک کی فوج کے کمانڈروں کو نکالنے میں اور دوسری تبدیلیوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔ سعودی عرب والے ۳ سال سے یمن کے ساتھ بر سر پیکار  ہیں لیکن ابھی تک صنعاء  میں اپنے مقاصد تک نہیں پہنچ پاے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس ملک کی فوج کے اعلی حکام ہمیشہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے مخالف رہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ فوجی حکام کے اجتماعی طور پر اخراج کا مقصد اپنے بیٹے کے راستے سے بادشاہت تک پہنچنے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی حکومت میں اصلاحات کا اصلی منصوبہ ساز اور اس ملک کی نیئ  پالیسیوں کی راہ کو متعین کرنے کا ذمہ دار شمار ہوتا ہے  وہ جس وقت صرف انتیس سال کا تھا تو باپ نے اسکو وزارت دفاع کا قلمدان دے دیا تھا  وزیر دفاع بننے کے بعد محمد بن سلمان کا سب سے پہلا اقدام یمن میں جنگ کا آغاز تھا کہ جو اب تک جاری ہے  اور دن بدن اس ملک میں اس کے جرایم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

مخالفیں کو کچلنا اور ممکنہ کودتا کو روکنا سعودی عرب کی فوج کے کمانڈروں کے اخراج کے اصلی دو مقصد ہیں۔

مجلس شورای اسلامی ایران (پارلیمنٹ) کی خارجہ سیاست اور قومی سلامتی کے کمیشن کے سابقہ رکن سید باقر حسینی نے ایران کے نیم سرکاری نیوزپورٹل" جوان" کے نامہ نگار کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا کہ  آل سعود کی فوج کے کمانڈروں کا اخراج سعودی عرب کے آیندہ بادشاہ کے راستے کو صاف کرنے کے مقصد سے ہوا ہے اس نے سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان کی طرف سے اس ملک کے فوجی ڈھانچے میں پیدا کی گیئ تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے اظہار خیال کیا حالیہ برسوں میں سعودی عرب کو جو لگاتار شکست کا سامنا ہوا ہے خاص کر یمن کی جنگ میں اس کو اس خراج کا اہم ترین سبب شمار کیا جا سکتا   ہے اس لیے کہ یہ طے پایا تھا کہ انتہای کم مدت میں صنعاء پر قبضہ کر لیا جاے گا لیکن وہ اس جنگ میں کوی کامیابی حاصل نہیں کر پاے بلکہ انہیں پہ در پہ ہزیمتیں اٹھانی پڑی ہیں   اس نے یہ بیان کرتے ہوے کہ محمد بن سلمان کے فوج میں بہت سارے مخالف ہیں تصریح کی کہ ملک سلمان نے اپنے بیٹے کے خلاف فوج کے ممکنہ کودتا کو روکنے کے لیے ان کمانڈروں کو جو ولی عہد کے مخالف تھے نکالا ہے اور اس طرح اس نے اپنے بیٹے کے راستے کو ہموار کرنے کی کوشش کی  ہے ۔

حسینی نے یہ بیان کرتے ہوے کہ اس وقت سعودی عرب کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے بیان کیا تبدیلیاں لانے کے لیے جو راستہ آل سعود نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں ہے اور وہ بےشک حکومت اور اس ملک کے بادشاہ کو بہت ساری مشکلوں  میں ڈال دے گا ۔

پارلیمنٹ کی خارجی سیاست اور قومی سلامتی کے کمیشن کے سابقہ رکن نے سعودی عرب کی فوج کے کمانڈروں کے اخراج سے یمن کی جنگ پر مرتب ہونے والے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوے تصریح کی ہے کہ یہ بات طے ہے کی سعودیہ والے یمن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ان کمانڈروں کی جگہ کسی کو بھی رکھ دیں تب بھی حالات ایسے ہیں کہ وہ صنعاء میں کوی موثر اقدام نہیں کر سکتے۔

  اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا سعودی عرب نے اب تک یمن کے بےگناہ لوگوں پر بہت ظلم ڈھاے ہیں لیکن اس پر  اسے شکست کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ۔کمانڈروں کی تبدیلی سعودیوں کے لیے اس جنگ میں شکست کے سلسلے کو روکنے میں مفید نہیں ہو سکتی ۔

حسینی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یمن کی سرزمین پر سعودی عرب کا حملہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، اور یہ بھی طے ہے کہ حملہ آورملکوں کو تاریخ کے ہر دور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ، اظہار خیال کیا : یمن کے لوگوں اور انصار اللہ کی مقاومت سعودیوں کی اس جنگ میں اپنے مقاصد تک نہ پہنچنے کا باعث بنی ہے اور اسی کی وجہ سے  ان کو پسپا ہونا پڑا ہے ۔

پارلیمنٹ کی خارجی سیاست اور قومی سلامتی کے کمیشن کے سابقہ رکن نے بیان کیا :افسوس کی بات ہے کہ عالمی سوسائٹی یمن میں آل سعود کے جرائم اور جنایات کے سلسلے میں خاموش ہے اور اس نسل کشی کو روکنے کے لیے اس نے اب تک کوئی موئثر قدم نہیں اٹھایا ہے ۔

اس نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جن میں اس نے دعوی کیا ہے کہ ایران جیسے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تغییرات کا عمل ضروری ہے ، مزید کہا : ہم اس ملک میں بہت ساری تبدیلیوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودیہ والے ان تبدیلیوں کے ذریعے ایران کے سلسلے میں بھی کچھ مقاصد کے حصول کے درپے ہیں ، لیکن واضح ہے کہ اگر اس ملک کے تمام نظامی اور انتظامی تبدیل ہو جائیں تب بھی وہ جمہوریء اسلامی کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں کر سکتے ۔

حسینی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ سعودی عرب کا بادشاہ اپنے مخالفین کو کچلنے کی توجیہ کرنے میں بہانہ سازی کر رہا ہے، تصریح کی : سعودی حکمرانوں کا تبدیلیوں کے سلسلے میں دعوی اصل میں ان کے اصلی ناپاک مقاصد جیسے اپنے مخالفین کو کچلنا ، وغیرہ کے لیے ایک پوشش ہے اس لیے کہ یہ جمہوریء اسلامی کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے مگر یہ کہ پہلے اپنی نابودی کی ضمانت فراہم کر لیں ۔

پارلیمنٹ کی خارجی سیاست اور قومی سلامتی کے کمیشن کے سابقہ رکن نے کہا : خاندان آل سعود ان کاموں کے ذریعے سعودی عرب میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تا کہ اس طرح کسی حد تک مخالفین کے اقدامات سے بچا رہے ۔

اس نے یاد دلایا ؛ سعودیہ والے دنیا کی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے اور اپنے اقدامات کی توجیہ کرنے کے لیے دعوی کر رہے ہیں کہ  یہ تبدیلیاں جمہوریء اسلامی ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہیں ، اس لیے کہ ایسے افراد کو بر سر اقتدار آنا چاہیے جو تہران کے سخت خلاف ہوں ۔

خاندان آل سعود کے دوسرے پروگراموں میں سے ، سعودی عرب کے فوجی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کے سلسلے میں ایک پروگرام یہ ہے کہ اس نے پہلی بار عورتوں کو فوج میں بھرتی ہونے اور خدمت کرنے کا پروانہ صادر کیا ہے تا کہ فوج میں جو کمی ہے اس کو دور کر سکے ۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب کا بادشاہ اور ولی عہد آل سعود کے تسلط پسند نظام کے بے کار اور فرسودہ ہونے کو سمجھ گئے ہیں ۔ لیکن بہتر اصلاحات کی کوشش کرنے کے بجائے وہ اس کوشش میں ہیں کہ مخالفوں کو کچل کر اور اعلی عہدیداروں کو بر طرف کر کے ظاہر میں شفافیت کا مظاہرہ کریں ۔

سعودی عرب کے فوجی سسٹم میں تبدیلیوں کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یمن کے ساتھ جنگ ۲۱ ویں صدی  کا ایک انسانی حادثہ شمار ہوتی ہے اور اگر عالمی سوسائٹی اس سلسلے میں اپنی خاموشی کی مہر کو توڑ دے تو بلا شک وہ اس سلسلے میں سعودی عرب کی مذمت کرے گی اور آل سعود کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا  اس نقصان کے بدلے میں جو اس نے صنعاء پر حملہ کرکے اس کو پہنچایا ہے  ۔

یمن میں بحران پیدا کرنا کہ جو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کام تھا سعودی عرب کے مالی صندوقوں کے خالی ہو جانے کا باعث بناہے جو اس ملک کے اقتصاد کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور دوسری جانب اس خاندان کے مخالفین کی ناراضگی میں اضافے کا باعث بنا ہے جو آل سعود کے لیے بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے ۔      

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی