سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

اسرائیل شام کو ایران کا دوسرا لبنان نہیں بننے دیں گا /ہمارا کھل کر شامی مخالفین کی حمایت کرنا مفید نہیں ہے

 اردو مقالات سیاسی امریکہ/اسرائیل

اسرائیل شام کو ایران کا دوسرا لبنان نہیں بننے دیں گا /ہمارا کھل کر شامی مخالفین کی حمایت کرنا مفید نہیں ہے

صہیونی حکومت کے نمایندے کا شام کے مخالف چینل کو انٹرویو ؛

اسرائیل شام کو ایران کا دوسرا لبنان نہیں بننے دیں گا /ہمارا کھل کر شامی مخالفین کی حمایت کرنا مفید نہیں ہے

نیوزنور:اقوام متحدہ میں صہیونی حکومت کے نمایندے نے پہلی بار مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر شام کے بحران اور واقعات کے بارے میں اپنے نظریات کے بارے میں ، اور شام میں ایران کی موجودگی اور دیگر موضوعات کے بارے میں انٹرویو دیا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد کہ سعودی ویبگاہ "ایلاف" نے کہ جو لندن سے اپ ڈیٹ ہوتی ہے  صہیونی حکومت کے متعدد عہدیداروں کے ساتھ انٹرویو کیا ہے ، شام کے مخالفین کے چینل "اورینٹ"نے کہ جس کا مالک "غسان عبود "ایک شامی تاجر ہے اقوام متحدہ میں صہیونی حکومت کے نمایندے "ڈینی ڈینین" کے ساتھ ایک انٹرویو کیا ہے ۔ تاکہ اس حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کی طرف آگے بڑھے ۔

اس گفتگو کو ایک شامی الاصل امریکی  "ہیوی بوظو" نے "ڈینی ڈینین" کے ساتھ انجام دیا ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ اقوام متحدہ میں صہیونی حکومت کے نمایندے کے ساتھ اس نوعیت کی بات چیت ہوئی ہے ۔

ڈینین نے اس گفتگو میں ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے ہیں اور ممکن ہے کہ ایک دن وہ یہی سلوک اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی روا رکھے ۔ اس نے دعوی کیا کہ ایران لبنان میں ہر طرح کے فیصلے میں مداخلت کرتا ہے اور یہی کام تل ابیب شام میں نہیں ہونے دے گا ۔

ڈینین نے فلسطینی ہسپتالوں میں دہشت گردوں کے علاج معالجے کو شام کے لوگوں کی حمایت قرار دیا اور کہا کہ اس رجیم کی حکومت ان اقدامات کے اخراجات برداشت کرتی ہے اور اس پر فخر کرتی ہے ۔

اس نے ایران پر کچھ دوسرے الزامات بھی عاید کیے کہ وہ شام میں اپنا مرکز بنانا چاہتا ہے تا کہ خلیج فارس سے بحیرہ روم سمندر تک ایک سلطنت بنا سکے اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر جولان کی پہاڑیوں پر حزب اللہ کے نیم فوجیوں کو مستقر کرنا چاہتا ہے،اور اسرائیل اور اس کے اتحادی اس کام کو نہیں ہونے دیں گے۔

ڈینی ڈینین نے اس گفتگو کی ابتدا میں کہا کہ اس کا باپ مصر کے اسکندریہ کے یہودیوں سے تھا جس نے مقبوضہ فلسطین کا سفر کیا تھا ۔

اس کے انٹرویو کا کچھ حصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے :

اورینٹ : آپ شام کے حالات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے ؟

ڈینین : ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مداخلت نہ کریں لیکن جب شام کے واقعات پر نگاہ ڈالتے ہیں اور بشار اسد کے اس کے شہریوں کے ساتھ سلوک کی روش کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا کہ  کوئی شخص اپنی قوم کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کرے ۔ ہم بین الاقوامی سوسائٹی میں اپنے دوستوں سے مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ اس حکومت کو ان جرائم سے روکیں ۔

ڈینی نے آگے ایران پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کیا اور کہا : ایران کوشش کر رہا ہے کہ شام میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس سے فائدہ اٹھائے ، اور مقبوضہ جولان پر حزب اللہ کے ایک مرکز ایجاد کرے جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہے اس لیے کہ ایرانیوں نے لبنان میں اصلی شعبوں کو اپنے اختیار میں کر رکھا ہے۔لبنان آج اپنے فیصلے اکیلا نہیں کر سکتا میرے خیال میں ہم نہیں چاہیں گے کہ مستقبل قریب میں لبنان جیسی صورتحال شام میں بھی دیکھنے کو ملے ۔

اورینٹ : کیوں شام کے سلسلے میں اسرائیل کا کوئی سیاسی موقف دکھائی نہیں دیتا ؟

ڈینین :ہم شام کے لوگوں کی حالت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو جانیں ، لیکن میں مطمئن نہیں ہوں کہ شام کے بعض لوگوں کی آشکارا حمایت ان کی حمایت ہو گی۔یا ان کے لیے مفید ہوگی مثلا ہم نے شام کے کچھ لوگوں کا اپنے ہسپتالوں میں علاج کیا لیکن اس چیز کو ہم نے ذرائع ابلاغ کو نہیں بتایا اور اس کی وجہ اس ردعمل کا خوف تھا کہ ان کو اسرائیل نے مدد پہنچائی ہے ۔ اسرائیل کی حکومت ان شام والوں کے علاج کا خرچہ دیتی ہے اور ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں ۔

اورینٹ : اسرائیل کے امریکہ سمیت بہت سارے اتحادی ہیں کیا اس کے پاس شام کے لوگوں کے رنج کو  دور کرنے کا کوئی سیاسی منصوبہ ہے ؟

ڈینین : ہم اس موضوع کے بارے میں سلامتی کونسل میں بات کریں گے آپ کو توجہ رکھنا چاہیے کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف آراء بڑی تعداد میں ہیں لہذا ہم کوئی بھی منصوبہ پیش کریں گے تو اس کی زبردست مخالفت ہو گی ۔

اورینٹ : کیا اسرائیل والوں کو بھی جو کچھ شام میں ہورہا ہے  اس کی خبر ہے ؟

ڈینین : ہم شام کے واقعات اور وہاں ایران کی موجودگی کے بارے میں ہمیشہ بتاتے رہتے ہیں کیوں ایرانیوں نے آج ہزاروں مسلح افراد داعش کی شکست کے لیے شام روانہ کیے ہیں داعش کو شکست ہو گئی ہے اور اس کا قصہ تمام ہو چکا ہے وہ شام میں اپنے لیے مرکز بنانا چاہتے ہیں اور یہ ہمارے لیے ایک مشکل ہے۔ مثلا ہم نے دیکھا کہ بغیر پائلٹ کا طیارہ شام سے اٹھتا ہے تو اس کا مقصد اسرائیل میں داخل ہو نا تھا ۔ ہم ہر گز ایرانیوں کو شام میں ٹھکانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ ان کو اجازت نہیں دیں گے کہ حزب اللہ کی طرح کے کچھ اور فوجی جولان میں ہماری سرحد پر مستقر کرے ۔ ہم اس منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے کے لیے ہر کام کریں گے ۔

اورینٹ: لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران اسرائیل کی سرحد سے بہت نزدیک ہو چکا ہے اور اسرائیل اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہیں کر رہا ہے ؟

ڈینین: کچھ لوگ آپ کی بات کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سخت جواب دیا ہے ہم نے اس بارے میں علاقے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تحقیق کی اور کچھ اقدامات کیے ہیں مثلا جب ایرانی بغیر پائلٹ کا طیارہ ہماری سرحد کے نزدیک آیا تو ہم نے شام میں ایک فوجی ٹھکانے کو نشانہ بنا کر اس کا جواب دیا ۔

اورینٹ : لیکن اس کے بعد سے اب تک ہم نے اسرائیل کا کوئی نیا موقف نہیں دیکھا ہے ؟

ڈینین: میں جزئیات میں نہیں جانا چاہتا لیکن بطور کلی بتا دوں کہ ہم اجازت نہیں دیں گے کہ ایران شام میں اپنے لیے ٹھکانہ بنائے یا ہماری سرحد کے پاس فوج کو مستقر کرے ۔

اورینٹ : آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ حزب اللہ کو ایران سے مکمل طور پر پیسے اور ہتھیار مل رہے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے تو آج حزب اللہ اسرائیل کے لیے کس نوعیت کا خطرہ ہے ؟

ڈینین : میری نظر میں حزب اللہ اصلی خطرہ ہے بلکہ لبنانیوں کے لیے بھی ایسا ہی ہے اس لیے کہ اگر خدا نخواستہ ہم حزب اللہ کے ساتھ ایک اور جنگ شروع کریں تو اس سے لبنان کے لوگوں خاص کر اس ملک کے جنوب کے لوگوں کا نقصان ہو گا اس لیے کہ حزب اللہ نے جنوب لبنان کو فوجی ٹھکانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔وہ اپنے میزائلوں کو مدارس یونیورسٹیوں اور اقوام متحدہ سے وابستہ ٹھکانوں میں چھپا کر رکھتے ہیں ، اور لبنانیوں کو اپنی فوج کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ کہ میرا ماننا ہے کہ یہ لبنان کی حکومت ہے ، کہ جس کو حزب اللہ سے پریشانی ہونی چاہیے نہ اسرائیل کو ۔

اورینٹ : لیکن حزب اللہ آج وسیع پیمانے پر شام میں موجود ہے ؟

ڈینین : ہمیں توجہ رکھنی چاہیے کہ یہ ایران ہے کہ جو حزب اللہ کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہےاور حزب اللہ سے کہتا ہے کہ اسے کہاں اپنی فوج کو بھیجنا ہے ۔ ایرانی خلیج فارس سے لے کر بحیرہ روم سمندر تک سلطنت ایجاد کر کے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانا چاہتے ہیں یہ ایران کا مقصد ہے اور ہمیں انہیں ایسا کرنے نہیں دینا چاہیے وہ حزب اللہ کو اسی کام کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

اورینٹ : جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اس کام کی ایران کو اجازت نہیں دیں گے تو اس سے آپ کی مراد کیا ہے ؟

 ڈینین : ہم ڈیپلومیسی سے کام کریں گے لیکن اگر کوئی چارہ نہ رہا تو دوسرے طریقوں کو آزمائیں گے اول یہ کہ علاقے اور اقوام متحدہ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے ، اور خطرے کو ان کے سامنے واضح کریں گے ۔ ایران فقط اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطی کے لیے خطرہ ہے یہاں تک کہ امریکہ کے لیے بھی خطرہ ہے ۔ بحیرہ روم میں ایرانیوں کی موجودگی دہشت گردی کو پھیلانے کے لیے ہے اور یہ چیز صرف مشرق وسطی سے مربوط نہیں ہے ۔

اورینٹ : کیا آپ مکمل طور پر شام میں ایران کی موجودگی کے خلاف ہیں یا یہ کہ یہ موجودگی اگر اسرائیل سے ایک معینہ فاصلے پر ہو تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے ؟

ڈینین : اس چیز کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایرانی جہاں کہیں بھی ہوں وہ قتل و غارت اور بد امنی پھیلاتے ہیں یہ حقیقت ہے (سراسر جھوٹ ہے ) وہ یمن میں حوثیوں کی اور غزہ میں حماس کی یا ہر گروہ کی جو امن کو تار مار کرنے کے لیے سرگرم ہے حمایت کرتے ہیں ۔ یہ ایران کی حکمت عملی ہے اور اسی وجہ سے ہم معتقد ہیں کہ بڑے ملکوں کو مل کر کسی بھی علاقے میں ایران کو حاضر نہ رہنے دینے کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے ۔ ان کو شام میں  نہیں ہونا چاہیے (تاکہ شام کو یہ لوگ ہڑپ کر سکیں !!!)وہ داعش کے مقابلے میں اسد کی حکومت کی حفاظت کے لیے شام آئے تھے ۔ لیکن اب داعش کا خاتمہ ہوچکا ہے تو اب وہ شام میں کیا کر رہے ہیں ؟ مسئلہ ایرانی فوج کے اسرائیل کی سرحد سے فاصلے پر ہونے کا نہیں ہے ،ہو سکتا ہے کہ ایران شام میں  میزائل بنانے کا کارخانہ لگائے لیکن ہم اس طرح کا کارکانہ لگانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

اورینٹ : اس وقت بشار اسد کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے ؟

ڈینین: ہمیں امید ہے کہ شام کے لیے کسی اور رہبر کا انتخاب ہو گا کہ جو لوگوں کو اہمیت دے گا ان کو قتل نہیں کرے گا ان پر کیمیکل ہتھیار استعمال نہیں کرے گا اور علاقے میں صلح کی ترویج کرے گا اسد شام میں راہ حل کا حصہ نہیں ہے بلکہ مشکل کا حصہ ہے (چونکہ وہ سعودیہ کی طرح اسرائیل کے تلوے نہیں چاٹتا )

اورینٹ : کیا شام کے بارے میں اور اس ملک میں ایران کی موجودگی کے بارے میں آپ کا اور امریکہ کا موقف ایک ہی ہے ؟

ڈینین : میں امریکہ کی نیابت میں بات نہیں کرنا چاہتا لیکن جب ہم  شام میں ایران کی موجودگی کے خطرات کے بارے میں اپنے شریکوں سے بات کرتے ہیں تو اس کو خطرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کو اجازت نہیں دے گا کہ اپنی موجودہ نقل و حرکت کو جاری رکھے اور وہ ۱۲ مئی کو جوہری سمجھوتے  برجام  کے بارے میں فیصلہ کرے گا اور اس فیصلے کا علاقے پر بنیادی اثر مرتب ہو گا ۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ   ایران دہشت گردی کا حامی ہے لہذا وہ اس مسئلے کے سلسلے میں غافل نہیں رہیں گے ۔

اورینٹ : کیا آپ کی نظر میں خلیج فارس کے ملکوں کے نظریات اور اسرائیل کے نظریات میں1990 کی خلیج فارس کی جنگ کے بعد تبدیلی آئی ہے یا نہیں ؟

ڈینین : جی ہاں تبدیلی آئی ہے آج اس موضوع کو میں اقوام متحدہ میں اور اپنے عرب ساتھیوں کے ساتھ گفتگو میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں ؛ آج بہت سارے ملک اسرائیل کی طرح ایران کو خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کا مانناہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے ۔          

 

برچسب ها اسرائیل

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی