سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کوریا کے ساتھ مذاکرات کے موقعے پر جوہری معاہدے برجام کی اصلاح یا اس کا الغاء ، یعنی امریکہ ناقابل اعتماد ہے

 اردو مقالات سیاسی ایران امریکہ/اسرائیل

کوریا کے ساتھ مذاکرات کے موقعے پر جوہری معاہدے برجام کی اصلاح یا اس کا الغاء ، یعنی امریکہ ناقابل اعتماد ہے

اوباما کا مشیر ؛

کوریا کے ساتھ مذاکرات کے موقعے پر جوہری معاہدے برجام کی اصلاح یا اس کا الغاء ، یعنی امریکہ ناقابل اعتماد ہے

نیوزنور:مشرق وسطی/مغربی مشرق میں امریکہ کے صدر کے سابقہ مشاور نے تاکید کی کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے موقعےپر برجام کی اصلاح یا  اس کا لغو کیا جانا اس پیغام کا حامل ہو گا کہ واشنگٹن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ، فیلیپ گوردون کہ جو سال ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۵ تک امریکہ کے سابقہ صدر باراک اوباما کا مشرق وسطی کے امور میں مشاور تھا اور وائٹ ہاوس میں کام کرتا تھا اس نے ایک مقالہ ،  ایران کے جوہری سمجھوتے کے بارے میں ، اور برجام کے بارے میں امریکہ کی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کے بارے میں ہونے والے مذاکرات کے ساتھ مربوط ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔

فارین پالیسی نام کے نشریے نے مشرق وسطی کے امور میں باراک اوباما کے سابقہ مشاور کے اس مقالے کو ؛ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے موقعے پر ایران کے جوہری سمجھوتے کی اصلاح ایک وحشتناک خیال ہے ، کے عنوان سے منتشر کیا ہے ۔

فارین پالیسی نشریے کی رپورٹ کی بنیاد پر شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون کے ساتھ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرامپ کی قریب الوقوع ملاقات کے مختلف پہلووں  کے بارے میں تشویش کے متعدد دلایل موجود ہیں ۔ ان میں سے کچھ واقعیتیں اور دلیلیں  ہیں ؛ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرامپ کا  امریکی اعلی حکام یا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشورہ کیے بغیر ملاقات کی دعوت کو فورا مان لینا ، مشرقی ایشیا کے مسائل کی خبر رکھنے والے ماہرین کی تعداد کا کم ہونا ، جنوبی کوریا میں سفیر کا نہ ہونا ، اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے پیمان سے متعلق جزئیات پر مکمل عبور حاصل کرنے پر ٹرامپ کا زیادہ مایل نہ ہونا ۔

 اس کے علاوہ یہ اشارہ بھی ضروری ہے کہ  زیادہ احتمال یہ ہے کہ دونوں رہنما شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سلسلے میں ملاقات کے لیے مشترکہ موضوع ڈھونڈھ نکالنے پر قادر نہیں ہوں گے ۔

اس رپورٹ کی بنیاد پر ٹرامپ اور اس کے کچھ مشاور منجملہ مایک پامپئو ، جو اس ملک کے وزیر خارجہ رکس ٹیلرسن کی جگہ ٹرامپ کی طرف سے امیدوار ہے ، ابھی سے شمالی کوریا کے رہنما کے ساتھ ملاقات کو اپنے لیے ایک نمایاں کامیابی قرار دے رہا ہے حالانکہ اس بات کا احتمال کم ہی ہے کہ اس ملاقات کا نتیجہ پیونگ یانگ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی صورت میں نکلے گا ۔

گودرون نے آگے تاکید کی ہے : یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ مذاکرات میں شکست سے ٹرامپ اپنا آپا کھو بیٹھے ، اور شمالی کوریا اگر امریکہ کی درخواستوں کو رد کرتا ہے تو اس صورت میں وہ شمالی کوریا سے نمٹنے کے طریقہء کار کے بارے میں کوئی فیصلہ کر بیٹھے ۔

ٹرامپ اور اس کے کچھ مشاورین شمالی کوریا کے رہبر کے ساتھ ملاقات  اور مذاکرات کو تہران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو لغو کرنے کی محکم دلیل مانتے ہیں ۔ ان کا استدلال ہے کہ ایران کے ساتھ ٹھوس اور سخت سلوک اس کو یہ پیغام دے گا کہ ٹرامپ سنجیدہ ہے اور شمالی کوریا کے ساتھ کوئی بھی امکانی سمجھوتہ ایران کے ساتھ سمجھوتے سے زیادہ جامع اور زیادہ باریک بینی پر مبنی ہونا چاہیے ۔

 اس مقالے کے قلمکار نے مزید لکھا ہے : برجام کی اصلاح سے اس شرط کی بنیاد پر جو ٹرامپ نے رکھی ہے کہ جس میں ایران کے بیلسٹیک میزائل پر پابندیاں اور ایران کے علاقائی اقدامات کی روک تھام اور یورینیم کی غنی سازی پر جو دس سے پندرہ سال کی پابندیاں ہیں ان پر پہلے سے زیادہ اور باریک بینی پر مبنی نظارت وغیرہ شامل ہیں ،اور یہ شمالی کوریا کے رہنما کے لیے اس پیغام کی حامل ہیں کہ پیونگ یانگ کو اسی طرح کی پابندیوں کو قبول کرنا ہو گا یا ان کو رد کرنے کے جو نتائج ہیں ان کو بھگتنا ہوگا ۔

فارین پالیسی کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ تہران اور پیونگ یانگ کے جوہری پروگرام کو اس طرح ایک جیسا بنانے کی مشکل یہ ہے کہ یہ چیز ناقابل عمل ہے ۔ بہت زیادہ احتمال پایا جاتا ہے کہ تہران ٹرامپ کی شرائط اور پابندیوں کو نہیں مانے گا ۔ اگر ایسا کچھ ہو جائے اور ایران اسے مان لے تو اس کی وجہ سے شمالی کوریا کے ساتھ اس طرح کا سمجھوتہ نہیں ہو پائے گا ۔

فارین پالیسی کے مقالے میں آگے آیا ہے کہ یہ درست ہے کہ یورپ کی حکو متیں ایران پر میزائل کے سلسلے میں پابندیاں لگانے ، اس کے بارے میں تحقیق کرنے اور ایران کے جوہری پروگرام پر سخت اور مضبوط  پابندیاں لگانے کی کوشش میں ہیں ۔ لیکن اس بات کو مان لینا ہوگا کہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ ٹرامپ کی جارحانہ اور اصلیت سے دور شرطوں کو قبول نہیں کریں گے چہ جائیکہ روس ، چین اور ایران۔

اس کے علاوہ یہ کہنا چاہیے کہ شمالی کوریا اس وقت ایک طاقت ہے اور اس کے پاس جوہری ہتھیار ہے اور یہ چیز پیونگ کے ساتھ مذاکرات کے شرایط کو تہران کے ساتھ مذاکرات سے متفاوت بنا دیتی ہے ۔

اس پر مستزاد یہ کہ برجام کو پھاڑ دینا یا ٹرامپ کی طرف سے اس کو نظر انداز کر دینا ، شمالی کوریا کو یہ پیغام دے گا کہ امریکہ ایران کے جوہری سمجھوتے کے سلسلے میں بین الاقوامی وعدوں اور سمجھوتوں کا چاہے اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاس کیا ہو اور جوہری توانائی کی ایجینسی نے ایران کی فعالیت کے صلح آمیز ہونے کی تائیید کی ہو ، پابند نہیں ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔

وائٹ ہاوس کے اس سابقہ عہدیدار کے لکھنے کے مطابق جو لوگ برجام کی اصلاح کے حامی ہیں وہ اس چیز کو مد نظر رکھیں کہ جس طرح ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے تک پہنچنا مشکل تھا اسی طرح شمالی کوریا پر دباو ڈالنے کے لیے امریکہ کے ہتھکنڈے بہت محدود ہیں ، اس لیے کہ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے ، اور جب ایران کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فوجی کاروائی کے پہلو کا انتخاب کافی نہیں تھا تو یہ چیز شاملی کوریا کے لیے صادق آتی ہے اس لیے کہ اس مسئلے کا نقصان لاکھوں قربانیوں کی صورت میں ہو گا ۔

اس رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت زیادہ تر عراق پر صدام کی حکومت سے مشابہ ہے  نہ کہ موجودہ ایران سے ۔ اس لیے کہ وہ رائے عامہ اور ان کے مطالبات پر زیادہ دھیان نہیں دیتا اور اس ملک میں واقعی معنی میں انتخابات منعقد نہیں ہوتے ۔ اور یہی چیز باعث بنتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے میں زیادہ پختہ اور خود سر ہے ۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا پر جو حکومت حکمراں ہے وہ ایٹمی ہتھیار کی موجودگی کو اپنی بقاء کا ذریعہ مانتی ہے ۔   

برچسب ها امریکہ برجام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی