سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امریکہ سعودی عرب سے شام کے بہانے4ارب ڈالر کاباج لینے کے درپے

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب شام امریکہ/اسرائیل

امریکہ  سعودی عرب سے شام کے بہانے4ارب ڈالر کاباج لینے کے درپے

امریکہ  سعودی عرب سے شام کے بہانے4ارب ڈالر کاباج لینے کے درپے

نیوزنور:سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان اور ٹرامپ میں دسمبر سال ۲۰۱۷ میں ہوئی ٹیلیفون پر بات چیت میں امریکہ کے صدر کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ جو امریکی فوج کے شام سے اخراج میں تیزی لا سکتا تھا ؛ اور وہ تھا شام میں امریکہ کے اخراجات کے لیے ۴ ارب ڈالر کی درخواست ، اور اس گفتگو کے آخر میں اس پر توافق بھی ہو گیا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے اس رقم کا مطالبہ کرنے کا ٹرامپ کا بہانہ یہ تھا کہ وہ شام کے ان علاقوں کی تعمیر نو کرنا چاہتا ہے کہ جن کو امریکی گٹھ بندھن نے داعش سے آزاد کروایا ہے لیکن منصوبہ یہ تھا کہ ان علاقوں کو تقویت پہنچا کر ان کو شام کی فوج کی دسترس سے  اور پھر سے داعش کے پاس چلے جانے سے  دور رکھا جائے ۔

سعودی عرب شام میں امریکی گٹھ بندھن کا ایک اہم ترین رکن تھا لیکن حالیہ برسوں میں اس نے شام کی جنگ سے اپنے پاوں کھینچ لیے تھے۔ لیکن ٹرامپ کے لیے تمام اعضاء کا اپنے حصے کی رقم ادا کرنا ایک اہم اور بنیادی موضوع ہے ۔ٹرامپ کی نظر میں سعودی عرب کی طرف سے ۴ ارب ڈالر ان مقاصد کے لیے کہ جن کی تکمیل   یہ ملک شام میں امریکہ سے چاہتا ہے یعنی ایران کو شام سے نکالنا اور اسد کی حکومت کو ختم کرنا ، ایک معقول رقم ہے ۔ وہ بھی اس مقام پر کہ جہاں خود  امریکہ یہ دکھا رہا ہے کہ اس نے ۲۰۰ میلین ڈالرشام  میں اپنے نفوذ والے علاقوں کے ثبات کی تقویت پر خرچ کیے ہیں !دوسری جانب ٹرامپ کی کوشش یہ ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ شام کی جنگ سے باہر نکلے ، وہ بھی ایسے موقعے پر کہ جب اس نے داعش کے خلاف کامیابی کی ایک تقریر میں امریکی فوج کو سرکاری طور پر مبارکباد دی تھی ۔

پینٹاگون کی سیاست تقریبا باراک اوباما کے زمانے سے ہی یہ تھی کہ وہ شام کی اندرونی جنگ میں براہ راست الجھنے سے پرہیز کرے اور اس ملک میں صرف امریکہ کے پراکسی وار کرنے والوں پر اکتفا کرے ۔ اس طرح کی جنگ امریکہ کے لیے کامیاب تھی ۔ اگرچہ داعش کو بہت سارے علاقوں میں شکست ہو گئی لیکن اسد کو شام میں امریکہ پر برتری حاصل تھی اور اس سے امریکہ میں بہت سارے سیاستمدار وحشت زدہ تھے اور اس  چیز نے شام میں امریکہ کی موجودگی کے ماجرا کو پیچیدہ کر دیا  ہے ۔

گذشتہ ہفتے جمعرات کے دن امریکہ کی کمان کے مرکز کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہ جو اس وقت مشرق وسطی پر نگران ہے امریکہ کی کانگریس میں حاضری دی اور اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسد نے ایران اور روس کی مدد سے شام کی جنگ جیت لی ہے ، کہا کہ میں نہیں سوچتا کہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا  کہ ایران اور روس نے اسد کو صرف برتری دلائی ہے جس کی اسے ضرورت تھی ۔

کانگریس میں یہ سوال بہت اہم ہے اس لیے کہ شام سے داعش کے نکل جانے کے بعد اب امریکہ کی سب سے بڑی فکر اسد اور ایران کو باہر نکالنا ہے ۔ اگر چہ امریکی کمانڈر بیان کر رہے ہیں کہ شام میں ان کا مقصد صرف داعش کی نابودی ہے ۔بعض امریکی حکام نے  حال ہی میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کا مقصد شام میں ایران کے مقابلے میں رکاوٹ کھڑی کرنا اور جنگ کے بعد حکومت کے امور میں اپنا مضبوط کردار ادا کرنا ہے ۔

سینیٹر لینڈسی گراہم ایک امریکی حکمران ہے جو داعش کی شکست کے بعد شام میں امریکی فوج کے کردار کو بڑھانے کی فریاد بلند کر رہا ہے ۔ اس نے جمعرات کے دن ووٹل سے پوچھا : کیا آپ کے مقاصد میں شام میں اسد ایران اور روس کا مقابلہ کرنا نہیں ہے ؟ ووٹل نے جواب دیا : سینیٹر صاحب یہ بات درست ہے لیکن خارجی سیاست نے کیا مقاصد معین کیے ہیں ان کی مجھے خبر نہیں ہے ۔ اس وقت ہماری توجہ داعش کی شکست پر ہے ۔

دوسرے حکام منجملہ نیکی ھیلی نے جو اقوام متحدہ میں امریکہ  کی سفیر ہے بیان کیا ہےکہ شام میں صلح و ثبات اسد  کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے اور حال ہی میں کچھ دوسرے امریکی حکام نے بیان کیا ہے کہ امریکی فوجیں ایران کی وجہ سے شام کے شمال سے نکلنے پر قادر نہیں ہیں۔

ان حالات میں اگر چہ ٹرامپ نے کاخ سفید میں قدم رکھتے ہی  شام میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرنے کی تائیید کی تھی ، لیکن وہ امریکی فوج کے اس ملک میں لمبی مدت تک رہنے سے بچنا چاہتا ہے ۔ ٹیلرسن کو اس وقت وزارت خارجہ سے نکال دیا گیا ہے اور اگر چہ یہ مشخص نہیں ہے کہ اسد اور شام کا موضوع  بھی ٹرامپ اور اس کے مابین اختلاف کی وجہ تھا لیکن امریکہ کی خارجی سیاست میں اب بھی یہ موضوع ایک سنجیدہ مسئلہ اور اصلی مشکل بنا ہوا ہے ۔

امریکہ کی بڑی پریشانی ان اخراجات کے بارے میں ہے جو اس نے شام کی آزاد فوج پر اب تک خرچ کیے ہیں ، اس کے بعد شام میں ثبات اور اسد اور ایران کو باہر نکالنے پر کتنا خرچہ ہونے والا ہے اس سے پتہ چلے گا کہ امریکہ شام میں کتنی مدت تک رہنے والا ہے ۔ حالانکہ کچھ امریکی جنرل شام میں داعش کے نسخہ نمر ۲ کے وجود میں آنے سے پریشان ہیں ۔

ایسے حالات میں ٹرامپ کے نزدیک واحد علاج یہ ہے کہ وہ سعودی عرب جیسے ملک سے باج کا مطالبہ کرے ۔ ایک امریکی عہدیدار نے بیان کیا ہے کہ جو ۴ ارب ڈالر مانگے گئے ہیں ان کا کچھ حصہ ان ۴۰۰ قیدیوں کے لیے ہے  جو اس وقت داعش کی قید میں ہیں تا کہ ان کو شام میں موجودہ  اجتماعی جیل خانوں سے انفرادی جیل خانوں میں منتقل کریں ۔

لیکن اس کا ایک بڑا حصہ شام میں سعودی عرب نے جو کچھ خرچ کیا ہے اس کے متعلق ہے جس کا مطالبہ ٹرامپ نے بغیر کسی تکلف کے ملک سلمان سے کر دیا ہے ، اس لیے کہ اس کے بقول سب کو چاہیے کہ اپنا اپنا حساب پاک کریں ۔ سعودی عرب اور واشنگٹن کے حکام نے ۴ ارب کی اس باج خواہی کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے ۔ لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ۸ ارب ڈالر کے مقابلے میں جو امریکہ نے شام میں مختلف طریقوں سے خرچ کیے ہیں یہ ۴ ارب شام میں جنگ چھیڑنے کی اس ملک کے لیے ایک معمولی سی قیمت ہے ۔        

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی