سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

سعودی عرب اور ترکی کا ہنی مون تمام

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب ترکی

سعودی عرب اور ترکی کا ہنی مون تمام

اسرائیل الیوم کی تحلیل ؛

سعودی عرب اور ترکی کا ہنی مون تمام

نیوزنور:صہیونی روزنامے اسرائیل الیوم نے لکھا ہے : شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کو آگے بڑھانے کی پالیسیوں نے ، ایران کے ساتھ تعاون کی تقویت اور سعودیوں کی تل ابیب سے قربت سے ناراضگی  نے آنکارا اور ریاض کے روابط کو متشنج کر دیا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق صہیونی روزنامے اسرائیل الیوم نے ایک مضمون میں ،کہ جس کا عنوان ہے ؛ ترکی اور سعودی عرب کا ہنی مون تمام ، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان  کی مصر کے ایک روزنامے الشروق کے ساتھ اس کے قاہرہ کے تازہ سفر میں کی گئی گفت گو  کی تحلیل کرتے ہوئے اس میں ترکی پر حملہ کیا اور اس ملک کو شرارت کی مثلث کا ایران اور اسلامی تندرو گروہوں کے ساتھ ایک کونہ قرار دیا ۔

عبری زبان کے اس روزنامے نے لکھا ہے : بن سلمان نے ترکی پر عثمانی امپراطوری قائم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عاید کیا ، لیکن اس کے باوجود کہ آنکارا میں سعودی عرب کی سفارت نے بیان دیا کہ بن سلمان کی مراد اخوان المسلمین تحریک اور دوسرے اسلامی تندرو گروہ تھے نہ کہ ترکی ، لیکن پھر بھی ریاض اور آنکارا کے روابط میں کشیدگی نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔

اسرائیل الیوم نے مزید لکھا ہے : یہ کشیدگی ترکی کی قطر کی حمایت اور شام کے بارے میں سمجھوتے کے حصول کی راہ میں ایران اور روس کے ساتھ اس کے تعاون کے بعد پیدا ہوئی تھی ۔ آنکارا نے اس سمجھوتے کو اہم قرار دیا ہے چونکہ وہ شام کے شمال میں کردوں کی پیش قدمی روکنے اور بے گھروں کی ایک اور موج کے اٹھنے کو روکنے  کے درپے ہے  خاص کر ایسے میں کہ جب اس وقت ۳۔۵ میلین شامی بے گھر ترکی میں اس ملک کے لیے مشقت بار بنے ہوئے ہیں ۔

اس روزنامے نے لکھا ہے : سعودی عرب نے بھی آنکارا کی مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی  پر شدید تنقید پر اور اسی طرح ترکی جو اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے اور قاہرہ نے جو بے رحمی کے ساتھ  اس تحریک کو قلع قمع کیا تو جن لوگوں کو سیاسی جلاوطن کیا گیا تھا وہ بھاگ کر استانبول چلے گئے جس سے کھینچا تانی میں اضافہ ہو گیا ۔

اسرائیل الیوم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ترکی محمد بن سلمان کی علاقائی نمائش کا اصلی کھلاڑی تھا ، مزید لکھا : آنکارا نے ایران کے روز افزوں نفوذ کو روکنے کی کوشش کی اور ترکی علاقے کی ایک سنی مذہب طاقتور حکومت ہے تو وہ ایران کے خلاف ایک بھاری پلڑے کو وجود میں لا سکتی ہے ۔

 اس روزنامے نے اپنی بات جاری رکھی : اہل سنت کی داخلی کشیدگی علاقائی حکومتوں کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان شگاف سے کم نہیں ہے اور سعودی عرب اخوان المسلمین کے محور کو کہ جس میں ترکی اور قطر شامل ہیں آئیڈیالوجیک خطرہ شمار کرتا ہے ۔

اسرائیل الیوم نے آگے کہا : مصر کے روزنامے الشروق کے ساتھ سعودی عرب کے ولی عہد کی ایک گفتگو میں قطر کے ساتھ بحران کو لمبا اور کھچنے والا قرار دیا ، اور سعودی عرب کی یہی نا امیدی کہ جو قطر والوں کے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے ہے ترکی کے ساتھ خصومت کی بھی وجہ ہے ۔

اس مضمون میں آگے آیا ہے : ترکی مغرب کے ساتھ شدید بحران اور علاقائی سطح پر نسبتا اکیلا ہونے کی وجہ سے ممکن حد تک ایران کے ساتھ اپنے طبیعی روابط کو بچا کر رکھے گا اور ریاض اور تہران کی کشمکش میں اس سے زیادہ مداخلت سے پرہیز کرے گا اور اس کی وجہ بھی ترکی کی ایران سے وابستگی اور توانائی کو ایران سے حاصل کرنا ہے ، اس کے علاوہ کہ ترکی ایران کے ساتھ اپنی تجارت کے حجم کو بڑھانا  چاہتا ہے وہ ایران کے اوپر سے اقتصادی پابندیاں برطرف کیے جانے کی بھی کوشش میں ہے ۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ترکی اور سعودی عرب میں موجودہ کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو ختم کر دے گی ۔ مثال کے طور پر ترکی دہشت گردی کے خلاف اسلامی گٹھبندھن میں شامل ہو چکا ہے جس کی بنیاد سعودی ولی عہد نے ۲۰۱۵ میں رکھی تھی اور ان ملکوں نے آپسی کارآمد تعاون کے لیے شورائے رہبری بھی تشکیل دی تھی جیسا کہ سعودی عرب اور ترکی امریکہ کے یروشلم کو اسرائیل کا پایتخت بنائے جانے کے اقدام کو لے کر بھی ایک دوسرے سے کشیدگی رکھتے ہیں ۔

سعودی عرب جو ایران کے بارے میں ٹرامپ کی سیاست کا حامی ہے وہ قدس کے مسئلے میں امریکہ کے مقابلے پر نہیں ہے اسی لیے وہ اس کوشش میں ہے کہ وائٹ ہاوس کی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان صلح کرانے کے منصوبے کی مدد کرے خاص طور پر ایسے کہ فلسطینیوں کو ٹرامپ کا منصوبہ تسلیم کرنے کے لیے نرمی اختیار کرنے پر مجبور کرے ۔

دوسری طرف ترکی یروشلم کے مسئلے میں امریکی سیاست پر تنقید کرنے والوں میں سر فہرست ہے ، اور حال ہی میں آنکارا اور عمان بھی اس مسئلے میں ایک دوسرے کے نزدیک آئے ہیں اس کے باوجود کہ اردن سعودی عرب کی اقتصادی امداد پر انحصار کرتا ہے اور یروشلم کے بارے میں ترکی اور اردن کی ملی جلی سیاست امریکہ کی سفارت کے تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے پہلے تک مشکلیں ایجاد کر سکتا ہے ۔

ریاض کی نظر میں اہل سنت کے درمیان شگاف سے اسرائیل کے ساتھ ایران کی مخالفت میں ملنے  کی اہمیت کو تقویت ملے گی اس کے باوجود اسرائیل کے فلسطین کے  ساتھ سمجھوتے کی پیشرفت کے بغیر سعودی عرب یروشلم کے بارے میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھا سکتا ۔

اس کے علاوہ سعودی عرب کے ولی عہد کی گہری سیاست کہ بعض جس کو عجولانہ کہتے ہیں  علاقے میں مخالفین کے رد عمل کا سامنا کرے گی ۔ان میں سے کچھ رد عمل ممکن ہے کہ ہر چیز سے پہلے تہران اور آنکارا کی طرف سے اسرائیل کو مشکل میں ڈال دیں ۔

اسرائیل الیوم نے آخر میں لکھا ہے : بعید معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد لمبی مدت تک کوئی بھی دو ملک سعودی عرب اور اسرائیل سے زیادہ ایران کے خطرے کے بارے میں ایک دوسرے کے مشابہ نظریہ رکھتے ہوں گے اور اس سلسلے میں سعودی عرب اور ترکی کے ہنی مون کا اختتام ریاض اور یروشلم کے درمیان گہرے روابط کا سر آغاز ہو گا ۔       

برچسب ها ترکی سعودی عرب

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی