سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امریکی فوج میں عورتیں یا باربیوں کی فوج ؟

 اردو مقالات سیاسی امریکہ/اسرائیل

امریکی فوج میں عورتیں یا باربیوں کی فوج ؟

عراق میں ایک امریکی فوجی عورت نے بتایا :

امریکی فوج میں عورتیں یا باربیوں کی فوج ؟

نیوزنور:میرے پاس ایک چاقو ہے ، جو عراقیوں کے ڈر سے نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھی جنگجووں کے خوف سے ہے ۔اس طرح کے نقل شدہ اقوال اور  چشم دید گواہوں کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کی ڈیوٹی فوجی کی نوعیت کی ہونے کے بجائے زیادہ تر جنسی نوعیت کی ہے تا کہ اس طرح مرد فوجیوں کی جنسی خواہشوں کی تکمیل ہو سکے اور جنگ کے میدانوں میں لڑنے کے لیے ترو تازہ ہو جائیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق آج کل امریکہ میں عورتیں اکثر فوجی مناصب اور عہدوں پر  فائز ہو سکتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہیں ۔ امریکہ کی فوجی عورتیں دنیا کے مختلف مقامات پر کام کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں اور وہ افغانستان ، عراق کوریا اور دوسرے ملکوں میں موجود ہیں ۔

حالیہ برسوں میں اس ملک میں عورتوں کے فوج میں بھرتی ہونے کا رجحان شدت سے بڑھ گیا ہے اور اس وقت فوج میں ۱۵ فیصد سے زیادہ عورتیں ہیں ۔

ایک اہم سوال جو اس سلسلے میں ذہن میں متبادر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا بنیادی طور پر عورتوں کا مزاج جنگ اور قتل و کشتار کے ساتھ کہ امریکی فوج کا خاص طریقہ ہے سازگار ہے ؟ کیا جنگ کرنے اور دشمن کو قتل کرنے کے لیے ایک خاص ظرافت کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس پر عورتوں کو عمل کرنا چاہیے ؟ کیا عملی میدان میں فوجی عورتیں ، مردوں کی طرح فوجی کاروائیاں کرتی ہیں اور دشمن کے افراد کو قتل کرتی ہیں اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری وغیرہ کرتی ہیں ؟ خود امریکیوں ہی کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں اور اصلیت کچھ اور ہی ہے ۔

واقعیت کا دوسرا رخ ،

فروری سال ۲۰۱۱ عیسوی میں ایک حادثہ پیش آیا  اور باعث بنا کہ مذکورہ سوالات جیسے سوالوں کی جانب سب کی توجہ مرکوز ہو اور امریکی فوج میں عورتوں کی موجودگی کے خلاف سوال اٹھایا جائے ۔ اس مہینے میں کچھ امریکی فوجی عورتوں نے اس ملک کی عدالت میں ایک شکایت کی ہے اور پینٹاگون پر عورتوں پر زیادتیوں کے ہلا دینے والے اعداد و شمار  کو اس ملک کی فوج میں نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے ۔ اسی طرح رابرٹ گیٹس  جو اس وقت کا وزیر دفاع ہے اور ڈونالڈ رامسفیلڈ جو سابقہ وزیر دفاع تھا ، پر بھی الزام لگا ہے  کہ  ان کی مدیریت میں کام کرنے والے اداروں نے عورتوں کے خلاف خشونت اور جنسی تجاوز کو تسلیم کیا ہے لیکن وہ ان اقدامات کا صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔غیر سرکاری اور سرکاری تنظیموں کی جانب سے منتشر شدہ  اعداد وشمار کے مطابق ایک تہائی امریکی فوجی عورتیں عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں ، اس کے علاوہ ۷۰ فیصد فوجی عورتوں نے بتایا ہے کہ ان کو ان کے فوجی ہمقطاروں نے جنسی آذار و اذیت کا نشانہ بنایا ہے ۔ ایک اور مطالعے کے مطابق مجموعی طور امریکہ کی فوج میں کام کرنے والی ۹۰ فیصد عورتوں کو کسی نہ کسی طرح جنسی آذار و اذیت اور خشونت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اسی طرح جو عورتیں عصمت دری کا نشانہ بنتی ہیں ان میں بھی ۹۰ فیصد ایسی ہیں جو کسی کے آگے شکایت نہیں کرتیں ۔

خصوصی فوجی کمپنیوں میں اس طرح کی خشونت کے اعدادو شمار کہیں زیا دہ ہیں اور عورتیں زیادہ تر مرد فوجیوں اور افسروں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک عورت جس کا نام جونز ہے عراق میں اس کے ساتھ اس کے فوجی ساتھیوں نے گینگ ریپ کیا ، اس نے جب اس بات کی شکایت کی تو بدلے میں اس کو ایک کینٹینر میں بند کر دیا گیا اور اسے کھانے پانی اور علاج سے محروم کر دیا گیا ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ان عورتوں کی تعداد کہ جنہیں ان کے ساتھی فوجی جنسی تجاوز اور خشونت کا شکار بناتے ہیں ان سے کہیں زیادہ ہے کہ جو دشمن کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں ۔لیکن اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے اصلی ذرائع ابلاغ اس طرح کی خبروں کو نشر نہیں کرتے ۔

جو چیز تجاوز کے مسئلے سے زیادہ اہم ہے ، وہ تجاوز کے بعد عورتوں کا قتل یا ان کی خود کشی ہے منتشر شدہ اعداد و شمار کے مطابق ایک بڑی تعداد میں امریکی فوجی عورتیں معمولا غیر جنگی دلایل ، اور عمدتا تجاوز کی وجہ سے اپنی جان گنواتی ہیں ۔ صرف ۲۰۰۸ میں عراق میں ۹۴ امریکی فوجی عورتوں کی ان وجوہات کی بنا پر جان چلی گئی ، لیکن یہ منتشر شدہ تعداد اصلی تعداد سے کہیں کم ہے ۔

رنگین پوست عورتیں امریکی فوجیوں کی جنسی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ ،

 میرو سلاوا فلورس  نے ایک مقالے میں، جس کا عنوان ہے ؛ امریکی فوج میں لاتینی امریکہ کی عورتوں پر تجاوز ، عورتوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے جو لاتینی امریکہ کے ملکوں ہزاروں امیدیں اور خواب سجا کر امریکی فوج میں بھرتی ہوتی ہیں اور خود امریکہ کی وفادار شہری ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں تا کہ اپنے لیے روزی کا ذریعہ بنا سکیں لیکن جو سرنوشت ان کے انتظار میں ہوتی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے ۔ مقالہ نگار کی تحقیقات کے مطابق حالیہ برسوں میں بہت ساری رنگین پوست عورتیں جو امریکی فوج میں بھرتی ہوئی ہیں وہ نسل پرست یہودیوں اور گوروں کے توسط سے تجاوز کا شکار بنی ہیں ۔ اس کا ماننا ہے کہ ان عورتوں کو صرف گورے اور یہودی فوجیوں کی تفریح اور سرگرمی کے لیے فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے اور ان کی خواہشات کی تکمیل کے ذریعے میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ اس نے آگے پانچ رنگین پوست عورتوں کی زندگی کا کہ جن پر تجاوز کیا گیا تھا جائزہ لیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ پینٹاگون اور اس کے کحکام منجملہ رامسفیلڈ  اور پال ویلفویٹز کا کثیف راز یہ ہے کہ وہ رنگین پوستوں کو صرف فوجیوں کے تجاوز اور ان کی لذت کا سامان فراہم کرنے کے لیے فوج میں بھرتی کرتے ہیں ۔

عورتیں امریکی فوج کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ،

امریکی فوجی عورتوں کے اظہار خیال کے مطابق عورتوں کو فوج میں ایک پست اور ذلیل جنس کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہ اپنے ساتھی جنگجو مرد فوجیوں کے جنسی کھلونوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ ایک امریکی فوجی کا اس سلسلے میں کہنا ہے : امریکی فوج اس لیے عورتوں کو بھرتی کرتی ہے تا کہ وہ مردوں کو خوش کریں اور ان کی خواہشات پوری کریں اور انہیں ترو تازہ رکھیں ۔ویٹنام کی جنگ میں کچھ فاحشاوں کو بھرتی کیا گیا تھا کہ جو مرد فوجیوں کے اختیار میں رہتی تھیں ، لیکن عراق کی جنگ میں ایسی عورتوں کو بھرتی نہیں کیا گیا بلکہ فوجی عورتوں سے ان کا کام لیا جاتا ہے ۔ عورتوں کی عصمت دری کے سلسلے میں جو پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں ان کے پیش نظر درج ذیل فرضیے قابل اثبات ہیں :

·         ۔ بڑی تعداد میں عورتوں کی عزت لوٹ لی جاتی ہے ۔

·         ۔ جو لوگ اس کی شکایت کرتے ہیں ان کو آذار و اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

·         ۔ مجرمین کو ان پر لگے الزامات کی کوئی بھاری قیمت نہیں چکانی پڑتی ، بلکہ کبھی تو ان کی پرموشن ہو جاتی ہے ۔

·         ۔ذرائع ابلاغ ان مسائل کو اہمیت نہیں دیتے اور فوجی حکام بھی ان مسائل کو معمولی اور سماج کا حصہ مانتے ہیں ۔

جو کچھ کہا گیا اس کے اور نقل شدہ اقوال اور  چشم دید گواہوں کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کی ڈیوٹی فوجی کی نوعیت کی ہونے کے بجائے زیادہ تر جنسی نوعیت کی ہے تا کہ اس طرح مرد فوجیوں کی جنسی خواہشوں کی تکمیل ہو سکے اور جنگ کے میدانوں میں لڑنے کے لیے ترو تازہ ہو جائیں ۔

کیوں شکار بننے والے شکایت نہیں کرتے ؟

امریکی ذرائع منجملہ خود پینٹا گن کا ماننا ہے کہ امریکی فوج کے جنسی تجاوز کے جو معاملے سامنے آتے ہیں ان کی تعداد اصل معاملوں سے کہیں زیادہ کم ہے ۔ تحقیقات کے نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ تجاوز کے ۹۰ فیصد واقعات کی  بعض وجوہات کی بنا پر شکایت نہیں کی جاتی، فوج کی فضا ایسی ہے کہ کوئی شکایت کرنے کی ہمت نہیں کر پاتا ۔ اور جو بھی شکایت کرتا ہے اسے خائن اور نالایق قرار دے کر اس کی تفتیش کی جاتی ہے ۔یہاں تک کہ فوج کے ایک افسر نے ایک عورت کے اعتراض کے جواب میں کہ جسے شکار بنایا گیا تھا کہا یہ چیزیں معمول کے مطابق ہیں اور ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ بہتر ہے کہ یہ کام دوستوں اور  جنگی ساتھیوں کے توسط سے ہو نہ کہ دشمنوں اور خارجی سپاہیوں کے توسط سے ۔ دوسری طرف ایسا واقعہ قیدی وغیرہ بننے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے ، لہذا دوستوں کی طرف سے تجاوز ایسے واقعات کے لیے تیار رہنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔

الجزیرہ چینل کی رپورٹ کے مطابق جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے پچاس فیصد سے زیادہ چونکہ ان کے مدارک اور شواہد نہیں ہوتے اس لیے ان کے بارے میں تحقیق نہیں کی جاتی ۔ اسی طرح اکثر مواقع پر شکار بننے والوں آذار، اذیت اور توہین کا نشانہ بنایا جاتا ہے نہ کہ مجرموں اور ملزموں کو ، مثال کے طور پر ایک شخص جس کا نام "جنیفر ڈایر" ہے نے بتایا کہ  تجاوز کی رپورٹ دینے کے بعد اس کو تین دن تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور دھمکی دی گئی کہ بے بنیاد الزام لگانے اور غلط رپورٹ دینے کے جرم میں اس پر مقدمہ چلایا جائے گا ۔کچھ دوسرے بھی ایسے نمونے ہیں کہ جن لوگوں پر تجاوز کا الزام لگتا ہے ان پر نہ صرف مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ ان کی پرموشن ہوتی ہے اور ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔

اسی طرح کچھ ایسے نمونے بھی ہیں کہ جب کوئی عورت اپنی عصمت دری کی رپورٹ دیتی ہے تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے مثال کے طور پردوشیزہ" ماریا لاترباخ" کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کا یہی حشر ہوا تھا ۔ اسی طرح روز نامہ لاس اینجلیس ٹائمز نے ایک مقالے میں لکھا ہے : شکار بننے والیوں کی سرزنش  اور عصمت دری کرنے والوں کا ساتھ دینے کی ثقافت باعث بنی ہے کہ عصمت دری سے متعلق واقعات کی تحقیق نہیں کی جاتی ۔

آن ریم نے اس سلسلے میں لکھا ہے : ان پرانے سپاہیوں کی کہ جن پر عصمت دری کا الزام ہوتا ہے کی  تدفین کے کام کو پر افتخار طریقے سے اور شان و شوکت کے ساتھ انجام دیے جانے  سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ بد ترین جنسی خشونت بھی باعث نہیں بنتی کہ اس شخص کی فوجی خدمات پر انگلی اٹھائی جائے ۔ جس کی فوجی جب اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں تو بے خوف ہو کر عصمت دری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ مقالہ نگار نے آگے لکھا ہے : یہ بات کنایہ آمیز ہے کہ عصمت دری کو جنگی جرائم میں شمار کیا جاتا ہے ، لیکن فوج خود ان جرائم کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ شکار ہونے والوں کو اپنی فریاد سنے جانے کی کوئی امید نہیں ہے اس لیے کہ اکثر واقعات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔پینٹاگن کے اعداد وشمار کے مطابق سال ۲۰۰۶ عیسوی میں تقریبا ۲۹۷۴ عصمت دری کے واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی جن میں سے صرف ۲۹۲ واقعات کی جانچ کی گئی اور بہت کم مجرموں پر جرمانہ عاید کیا گیا ۔ سزائیں جو دی جاتی ہیں وہ جرم کے مطابق نہیں ہوتیں ۔ اور جن لوگوں کے خلاف حکم صادر کیا جاتا ہے ان کا صرف رتبہ کم کیا جاتا ہے یا ان کی تنخواہ میں معمولی سی کمی کی جاتی ہے ۔ اسی طرح  شکار بننے والے  مذاق اڑائے جانے اور آزارو اذیت کے خوف سے زیادہ تر کیس داٰر کرنے کی جرائت نہیں کرتے ۔

جو چیز دلچسپ معلوم ہوتی ہے وہ امریکی حکام کا ا س موضوع کے سلسلے میں رد عمل ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان نے گیند کو امریکی سماج کی فیلڈ میں پھینکا ہےاور ایک غیر ذمہ دارانہ بیان میں اظہار خیال کیا ہے ۔         

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی