سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

فدک چینل اور یاسر حبیب

 اردو مقالات مذھبی سیاسی لندنی امریکی تشیع

فدک چینل اور یاسر حبیب

فدک چینل اور یاسر حبیب

نیوزنور:فدک چینل کا مقصد شیعت  کی تبلیغ، اہل سنت کی توہین کے  ذریعہ

عالمی اردو خبررساں ادارہ نیوزنور؛انسان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اسلام دشمن طواغیت کی سازشوں کو ابتداء سے انتہا تک سمجھنے اور عوام کو اس سے باخبر کرنے کے سلسلے میں جب مطالعہ کرتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔جیسے یہ کہ امریکہ کو سب سے بڑا شیطان سمجھنا او سمجھانا ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ:" جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ مبعوث ہوئے تو شیطان نے فریاد بلند کی او ر شیطانوں کو اپنے اردگرد جمع کرلیا اور ان سے کہا کہ اب اس کے لئے کام مشکل ہو گیا۔اس اسلامی انقلاب  میں امریکہ نے جو کہ بڑا شیطان ہے نے اپنے اردگرد شیطانوں کو اکھٹے کر رہا ہے چاہے شیطان کے بچے جو ایران میں ہیں چاہے دیگر جگہوں میں جو شیطان ہیں ان کو اکٹھے کیا ہے اور ہیاہو شروع کیا ہے "۔اور جب نام اہلبیت کا دیا جائے تو ایسے شیطانی چیلے کو سمجھنا مشکل بن جاتا ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ایسے عناصر کا تعارف کراتے ہیں جو قارئین کو ایسے مسائل کو سمجھنے معاون و مددگار ثابت ہو سکیں تاکہ شیطان اور شیطانی چالوں کو سمجھ سکیں۔

انگریزوں نے اثنا عشری شیعوں کے لئے ایک خوبرو، نوجوان اور خوش پوش عالم دین کا انتظام کیا ہے۔لندن میں ان کی ایک امامبارگاہ، ایک ٹی، وی اسٹیشن، ایک اخبار اور ایک حوزۂ علمیہ ہے۔انگریزوں نے انہیں یہ سارے مواقع اس لئے فراہم کئے ہیں کہ وہ منبرپر جاکر تقریر کریں ، شیعوں کے سینہ سپر اور وہابیت کے  سخت دشمن قرار پائیں۔ 

یاسر یحیی عبدالله الحبیب مدیر فدک ٹی وی

یہ ہیں شیخ یاسر یحییٰ عبداللہ الحبیب! ۱۹۷۷ میں پیدا ہوئے اور کویت یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی ۔محض پچیس سال کی عمر میں جب انہیں کویت میں ہیئت خدام المہدی قائم کئے صرف تین سال ہوئے تھے حکومت کویت نے  ان کی انتہاء پسندی کی بنا پرمجبوراً انہیں قید خانہ میں ڈال دیا اور ان کی انجمن تحلیل کر دی۔

لیکن  اس نوجوان پر چونکہ پہلے ہی سے انگریزوں کی نظر تھی لہٰذا  برطانیہ اور امریکہ  کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو انہیں اپنا شکار بنانے میں دیر نہ لگی۔یقیناً کویتی حکام بھی تعجب کر رہے ہوں گے اتنے سارے قیدیوں اور ایذارسانی کے شکار افراد کے درمیان   یہ  تنظیمیں صرف اس نوجوان عالم  پر کیوں اس قدر واویلا مچا رہی ہیں۔ بہرحال  حکام نے دردسر نہ مولنے کی حکمت عملی  پر عمل کرتے ہوئے شیخ  کوتین ماہ بعد آزاد کر دیا۔

جیل سے رہا ہونے کے نوجوان شیخ  کی انگریزوں کے ساتھ دوستی ہو گئی، انہیں برطانیہ میں پناہ مل گئی اور اس ملک کے شمال میں رہاش پذیر ہوگئے۔ دو سال کے بعد  لندن آ گئے اور یہاں اپنی سرگرمیاں تیزی سے شروع کر دیں۔شیعہ نیوزپیپر کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا،  حوزۂ علمیۂ امامین عسکریین قائم کیا اور پھرانگریزوں کی مدد سے ’’فدک‘‘ نامی ٹی، وی اسٹیشن بھی تاسیس کر لیا۔۲۰۱۰ء میں  انہیں ایک بڑی جگہ مل گئی ۔اپنی انجمن کی جگہ پر امام بارگاہ کو منتقل کرتے ہوئے انہوں نے  ’’حسینیۂ سید الشہداء‘‘ نامی ایک بڑی امام بارگاہ قائم کر لی اور نئی جگہ پر ایک کمپلیکس تعمیر کر لیا۔ جہاں حوزۂ علمیہ، انجمن، دفتر، میڈیا سینٹر، فدک سیٹلائٹ چینل، شیعہ نیوز پیپر  اورویب سائٹ وغیرہ سرگرم ہو گئی۔

کویت کے یہ جوان شیخ جن کی عمر اس وقت صرف چھتیس سال ہے لندن سے منبر اور  انگریز حکومت کی جانب سے عطا کردہ دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ  شیعت کا پیغام پوری دنیا میں پہونچ رہے ہیں۔ کیا آپ کو کچھ مشکوک نہیں لگ رہا؟!

سنیوں کی جانب پھینکی گئی آگ نے شیعوں کا دامن جلا ڈالا

مزید وضاحت اور انگریزوں کی جانب سے شیخ الحبیب کی اس قدر حمایت کے اسباب کا صحیح ڈھنگ سے پتہ لگانے کے لئے ہمیں تین سال پیچھے جانا پڑے گا۔ ۱۴۳۱ ہجری کے ماہ رمضان کی سترہ تاریخ  یعنی  زوجۂ رسول اللہﷺ حضرت عائشہ کے یوم وفات پر  برطانوی شیخ نے اپنی امامبارگاہ میں ایک محفل کا انعقاد کیا اور منبر سے  زوجۂ رسولﷺ کوانتہائی گھٹیا اور ناروا نسبتیں دیں۔

انہوں نے  زوجۂ رسولﷺ کے ’نفاق‘ اور ’بے حیائی‘ پر اپنی دلیلیں  دینے کے بعد اس  اس اسٹریٹجک جملہ پر اپنی گفتگو ختم کی کہ:’’اعائشہ کی ہلاکت پر جشن  منانا ایک دینی فریضہ ہے۔ اس لئے کہ  عائشہ کی ہلاکت کا دن  اسلام کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی‘‘۔

ان کی ویب سائٹ نے بھی  بڑے فخریہ انداز سے رپورٹ دی :’’قابل ذکر ہے کہ  فدک چینل نے  اس مبارک محفل اور اس کے مختلف پروگراموں کو کوریج دی۔ اسی کے ساتھ تاریخ میں پہلی بار کسی ٹی، وی اسٹیشن کی پیشانی پر ’’اللہ اکبر۔۔۔ عایشہ فی النار‘‘ کا نعرہ  لکھا گیا! پروگرام کے مختلف حصوں میں  رأس الکفر عایشہ کی ہلاکت پرخوشی اور ان سے برائت کی نعمت پر شکرانہ کے نغمے پیش کئے گئے‘‘۔

یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا جب اس سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ کی توہین پر منبی ان کی کتاب  پرجس میں انہوں نے زوجۂ رسول ﷺ کی بے حیائی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی، شیعوں کے خلاف شدید رد عمل سامنے آ چکا تھا۔

ان کے اس نئے اقدام کا نتیجہ بھی مکمل طور پرشیعوں کے نقصان ہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔سعودی عرب کے مفتی اعظم  شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا:’’یاسر الحبیب کی جانب سے ام المؤمنین  عائشہ کی توہین کے بعد  عرب اور اسلامی ممالک میں شیعت کا پھیلاؤ رک گیا ہے‘‘۔

سعودی عرب کی مساجد کے ائمہ جمعہ و جماعات سے ملاقات کے دوران انہوں نے مزید کہا:’’کویت کے شیعہ عالم یاسر الحبیب کے بیانات کے نتیجہ میں  شیعت کی جانب مائل بہت سے اہل سنت اپنی گمراہی کو چھوڑ کر  صراط مستقیم کی جانب پلٹ آئے ہیں‘‘۔

آل الشیخ نے وضاحت کی:عرب ممالک میں  پھیلے ہمارے ذرائع نے ہمیں خبر دی ہے کہ بہت سے اہل سنت جوکہ شیعہ ہو چکے تھے،  خاص طور پر شمالی افریقہ کے اہل سنت، انہیں یاسر الحبیب کے بیانات کے بعد پتہ چل گیا ہے کہ شیعت ایک باطل مذہب ہے۔ لہٰذا وہ  مذہب حق کی جانب پلٹ آئے ہیں‘‘۔

سعودی عرب کے مفتی اعظم نے  کنایتاً  مزیدکہا: شیعوں نے خود کو مظلومیت اور شہادت  کی دیوار کے پیچھے چھپا رکھا تھا لیکن  اب ان کے چہروں پر سے پردہ ہٹ گیا  اور واضح ہو گیا ہے کہ یہ ایک خبیث قوم ہے۔الحبیب کے بیانات اللہ کی عنایت اور نعمت تھے تاکہ اللہ شیعوں کے باطن کو ظاہر کر دے‘‘۔

اس دوران شیخ الحبیب کے بیانات سے کویت اور سعودی عرب کے شیعوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔دونوں ممالک کے شیعہ علماء؛ شیخ عمری، شیخ حسین معتوق، شیخ حسن صفار، شیخ علی آل محسن، شیخ  عبدالجلیل السمین، شیخ نمر اور سید ہاشم السلمان نے الحبیب کے خلاف سخت موقف اپنایا اور ان سے برائت کا اظہار کیا۔

عالم اسلام کی جانب سے سامنے  آنے والے ردعمل سے واضح ہو گیا کہ اس بار بھی برطانیہ کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں ہیں اور انگریز جاسوسوں نے کویتی شیخ کے انتخاب میں کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ایک بار پھر پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی  پالیسی کامیابی رہی۔خصوصاًجب شیخ  نےاگلے برس پھر اس نوعیت کی محفل کا انعقاد کیا۔

آگ پر پانی

شہرت طلب کویتی شیخ کے بیانات نے وہابیت کو خوب فائدہ پہونچایا اور اول درجہ کے شیعہ علماء کی مخالفت ضروری حد تک اس اقدامات کے نقصانات کم نہ کر سکی۔خطہ میں انقلابات کی لہر چلی اور اس دوران  فرقہ وارانہ اختلافات کا اثر  تقریباً ہر فریق کے موقف میں نظر آ رہا تھا۔

سعودی عرب میں شیخ الحبیب کی نظریات کی بنیاد پر شیعوں کو کافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ احساء کے شیعہ علماء اور دانشوروں کی ایک جماعت  کو رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی امام علی خامنہ ای سے  اس سلسلہ میں استفتاء کرنا پڑا۔ جس کا جواب آگ پر پانی ثابت ہوا،   آپ نے  فرمایا: «یحرم النیل من رموز إخواننا السنة فضلاً عن اتهام زوجه النبی بما یخل بشرفها بل هذا الأمر ممتنع على نساء الأنبیاء وخصوصاً سیدهم الرسول الأعظم»’’اہل سنت برادران کے متبرکات کی اہانت من جملہ پیغمبر اسلامﷺ کی زوجہ  پر تہمت لگانا حرام ہے۔اس میں جملہ انبیاء خصوصاً پیغمبر اکرم حضرت محمدﷺ کی ازواج شامل ہیں‘‘۔

آپ کا یہ فتویٰ الجزیرہ نیوز چینل،  کویت کے روزنامہ الانباء، بڑے پیمانہ پر دیکھی جانے والی ویب سائٹ  محیط، لبنان کے روزنامہ السفیر، لندن سے شائع ہونے والے اخبار الحیات اور مصر کے ریڈیو، ٹیلی ویژن کی ویب سائٹ پر نشر  اور اس پر تبصرے کئے گئے۔

یہاں تک کہ الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ احمد الطیب نے  رہبر انقلاب کے مذکورہ فتویٰ پر مندرجہ ذیل ردعمل ظاہر کیا:

صحابہ رضوان اللہ علیہم  کی توہین اور رسول اللہﷺ کی ازواج کی شان میں  گستاخی کی حرمت پر مبنی حضرت امام علی خامنہ ای کافتویٰ پاکر انتہائی خوشی ہوئی۔ یہ فتویٰ  اہل فتنہ کی کارستانیوں کے خطرات کے صحیح علم اور عمیق ادراک کی بنیاد پر صادر ہوا  اور (حضرت کی)اتحاد بین المسلمین میں  حقیقی معنی میں دلچسپی کا عکاس ہے۔اس فتویٰ کی اہمیت اس بات سے اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کے ایک عظیم عالم ، اہل تشیع کے سب سے بڑے مرجع اور اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔میں علم و فکر کی بنیاد پراور اپنی شرعی ذمہ داری کی روشنی میں  کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کوشش واجب ہے۔ چنانچہ مختلف مسالک کے مابین  نظریاتی اختلافات  علماء اور مفکرین تک ہی محدود رہنے چاہئیں۔ ان کی بنیاد پرامت مسلمہ کے اتحاد کو کوئی گزند نہیں پہونچنی چاہئے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ولا تَنازعوا فتَفشلوا و تَذهب ریحکم و اصبروا إنّ الله مع الصّابرین"

ظاہر ہے کہ اس دوران  العربیہ جیسے وہابی ذرائع ابلاغ کا رد عمل کیا ہو سکتا تھا یہ سبھی جانتے ہیں؛ سینسرشپ اور خاموشی!

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی