سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

قطری روزنامہ: ابو ظبی اسرائیل کی جنگی مشین ہے

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل ابوظبی

قطری روزنامہ: ابو ظبی اسرائیل کی جنگی مشین ہے

ابو ظبی اور ریاض کے اختلافات یمن میں  برملا ہو گئے   ؛

قطری روزنامہ: ابو ظبی اسرائیل کی جنگی مشین ہے

نیوزنور:قطری روز نامے نے لکھا ، امارات یمن پر تسلط حاصل کرنے  کے ساتھ ساتھ سمندری علاقوں پر تسلط جمانے کی فکر میں ہے ، تاکہ اس صورت میں  وہ بڑی طاقتوں پر قابو پانے کے عنوان سے امریکہ کے اصلی وکیل کے طور پر جانا جائے اور سعودی عرب کے اعزاز پر قابض ہو سکے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق یمن کی جنگ کے طولانی ہونے اور ریاض کے اپنے اہداف تک نہ پہنچ پانے کے ساتھ ساتھ  اس جنگ کے آغاز کے تین سال بعد ،  یمن کے خلاف دو اصلی عربی  اتحادی ممالک امارات اور سعودی عرب کے اختلافات  ظاہر ہو رہے ہیں ، جب کہ وہ  اس کوشش میں ہیں کہ ان اختلافات کو چھپا دیا جائے ۔

یہ اختلافات اس وقت ظاہر ہوئے کہ جب اس اتحاد نے مارچ 2015 میں طوفان قاطع نامی آپریشن کے ذریعے جنوبی علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا ۔  2016 سے ان علاقوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کے بعد ابو ظبی اور ریاض کی فوجی صورتحال ان علاقوں میں کشمکش کا شکار ہوئی کہ جس نے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور جنگ جاری رہنے  کے ساتھ اور مشترک ھدف نہ ہونے کی وجہ سے یمن پر قبضہ کرنے کا ہدف ان تنازعات میں گم ہو گیا۔

قطر کے الشرق روزنامے کی ویبسائیٹ نے  "سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جنگ کا میدان" کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں  سیاسی تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھا: طوفان قاطع نامی آپریشن کی ابتدا سے ہی عرب امارات یمن میں اپنے تسلظ کو بڑھانے کی کوشش میں ہے؛ جب کہ سعودی عرب کے لئے یہ علاقہ سونے کی کان کے مانند ہے کہ  جسے وہ اپنے اثر و رسوخ کے لئے ایک منفرد علاقہ سمجھتا ہے  جب کہ ابو ظبی نے اپنے تسلط کو بڑھانے اور سعودی عرب کے نفوذ کو محدود کرنے کے لئے سیاسی پالیسیوں سے کام لیا ہے اور یہ حالیہ اختلافات ایک نا قابل بازگشت نقطے کی جانب پلٹتے ہیں ۔

یمن کی جنگ میں غیر متوقع پیشرفت ، اس جنگ میں سعودی عرب اور امارات  کے طریقہ کار میں اختلافات کی نشاندہی کرتی ہے اور   ماہرین کی نظر میں یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ  جو جنگ میں کمزوری اور معینہ مقصد تک پہنچنے میں ناکامی کا باعث ہے کہ جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

لیکن ہر صورت میں یہ یمن کی مظلوم عوام ہے کہ جو جنگ کی بھاری قیمت ادا کرتی ہے۔ سعودی اتحاد کے بے فائیدہ اور مسلسل ہوائی حملے کہ جو ہزاروں لوگوں کے قتل عام کا باعث ہیں  سعودی اتحاد کی ناکامی ، اور اس بیہودہ جنگ کو روکنے کے لئے بین الاقوامی دباو کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

ابو ظبی ،  اور ریاض کو ہٹانے کے ذریعہ یمن کے جنوب پر قابو پانے کی خواہش۔

امارات ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ جو یمن کے  آباد جزائر اور اسٹریٹیجک علاقوں پر قبضہ جمانے کی لالچ سے لبریز ہے؛  یہ ایک  ایسا موضوع ہے کہ جو حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر تسلط جمانے کی راہ میں رکاوٹ ہے  اور اس خفیہ حکم نامے کے درمیان یمن کی جنگ میں داخل ہونے کے عربی اتحاد کا ہدف گم ہو گیا ہے۔

ابو ظبی نے واضح طور پر یمن کی مشروعیت کو نشانہ بنایا ہے کیونکہ منصور ہادی کی حکومت کا دفاع کرنے کی آڑ میں آزاد شدہ علاقوں سے اس کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے ۔

آپاچی ہیلی کاپٹر، امارات نے منصور ہادی کی جمہوری حکومت  کے خلاف اپنی وفادار  فورسز کی حمایت میں 2017 میں ایک سے زائد مرتبہ حصہ لیا ہےاور منصور الہادی کے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے  تاکہ امارات سے وابستہ افواج مکمل طور پر جنوبی علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیں ۔

ابو ظبی نے  جنوب مشرقی یمن کے تیل اور گیس سے لبریز علاقوں اور سواحل حضر موت میں اپنے نفوذ میں اضافہ کیا  جب کہ سعودی عرب نے حضر موت کے صحراوں پر اکتفا کر لیا  اور خجیر کے سرحدکے علاقے سے سرحدیں ہٹا کر یمن میں 26000 کلو میٹر تک داخل ہوچکا ہے۔

اسی طرح امارات   مشرق یمن کے المہرہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے  کہ جسے مسقط اپنی قومی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے ، جب کہ متحدہ عرب امارات عمان کو نشانہ بنانے سے تجربہ حاصل کر چکا ہے۔ 

اسی طرح امارات  جنوب مغربی یمن کے شمالی مارب  اور تعز کے علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے اور یمنی  کارکنان کے مطابق ابو ظبی منصور ہادی کے تحت کنٹرول علاقوں میں اپنا تسلط جمانے کا خواہاں ہے۔  

سیاسی معاملہ ، امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلاف کی وجہ ہے۔

یمنی سیاسی معاملے پر سعودی عرب اور امارات کے اختلافات دو سال سے جاری ہیں جنوبی علاقوں پر  تسلط کے بعد  ابو ظبی  علی عبد الصالح کی فوج کی از سر نوع تشکیل   اور اصلاحی فوج کے خلاف جنگ کی کوشش میں ہے  کہ جو ابو ظبی کے دعوے کے مطابق  یمن میں اخوان المسلمین کی ایک شاخ ہے۔

ابو ظبی ریاض کو اس بات پر متفق کرنے پر کامیاب ہو گیا تھا تاکہ پہلی بار عبد اللہ صالح کے ساتھ مل کر مشترکہ سیاسی اھداف پیدا کرے اور یمن کے سیاسی اور فوجی نقشے میں تبدیلی لائے  اور پھر عبد اللہ صالح کے ساتھ سیاسی حل کے لئے کوشش کرے کہ ابو ظبی کو اس کا اصلی بانی بنا کر پیش کرے  اور  فوجی نقشے کو تبدیل کرتے ہوئے یمن میں ایک سیاسی اتحاد قائم کرے۔

ان حالات میں  4 دسمبر 2017 کو عبد اللہ صالح کی ناگھانی موت نے اس نقشے کو خاک میں ملا دیا کہ جس کا مقصد امارات اور سعودی عرب کی موافقت سے  حوثیوں کے خلاف عوامی تحریک ایجاد کرنا ، اور حوثیوں کو ایران کا آلہ کار ثابت کرنا تھا ۔

عبد اللہ صالح کی جانب سے صنعا کی بغاوت میں اس اتحاد کی شکست کے بعد ، ریاض نے ابو ظبی کو اصلاحی فوج کی جانب  کھینچا اور 13 دسمبر کو سعودی عرب کے ولی عہد  محمد بن سلمان اور امارات کے ولی عہد محمد بن زاید نے یمنی فوج کے رئیس محمد الیدومی اور جنرل سیکریٹری عبد الوھاب الانسی کے ساتھ ملاقات کی۔   

ان حالات میں   یمنی سیاسی ذرائع کے مطابق  امارات کا اصرار تھا کہ علی عبد اللہ صالح کا فرزند احمد  کہ جو امارات میں مقیم ہے اس کو جانشین بنا دیا جائے باوجود اس کے کہ اس پر بین الاقوامی مقدمہ چل رہا ہے   اس کو  یمنی عوامی پارٹی کا رئیس بنا کر  یمن میں ایک سیاسی اور فوجی میدان آمادہ کیا جائے۔

ان ذرائع نے کہا کہ  علی عبد اللہ صالح کی موت کے ساتھ ہی مغربی یمن میں تنازعات کی آگ کو بھڑکانے کے پیچھے ابو ظبی کا مقصد  مغرب یمن  پر تسلط قائم کرنا  اور الحدیدہ کی بندرگاہ پر قبضہ کرنا ہے  اور یہ موضوع امارات کی  ان سازشوں کی نشاندھی کرتا ہے کہ جو دو سال سے کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ 

آل سعود کا یمن کی دلدل میں پھنس جانا۔

یمنی نامہ نگار اور سیاسی ماہر یاسین التمیمی  نے  یمن میں جنگ کے اصلی اھداف کے خطرے کے متعلق بات کی اور سعودی عرب کو وصیت کی کہ اس موضوع کو سنجیدگی سے لے ، اس نے مزید کہا: سعودی عرب ان سازشوں کا حصہ ہے کہ جن میں وہ خود پھنس چکا ہے ، ابو ظبی سوائے ایک شاکل مجازی کے کوئی عربی ملک نہیں ہے وہ صہیونی کی جنگی مشین ہے کہ جس کا رخ ہمارے ملک اور ہماری قوم کی جانب ہے۔ 

التمیمی نے کہا: سعودی عرب یمن کے خطرناک دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے ۔  اور یمن میں ہر روز ایسے واقعات رو نما ہو رہے ہیں جو اس کے لئے فائیدہ مند نہیں ہیں ۔

یمن میں سعودی عرب اور امارات کے تنازعات کا مستقبل

ریاض اور ابو ظبی یمن کی جنگ کے حوالے سے کشمکش کے سائے میں ہیں اور ان کا اتحاد اپنے ھدف تک رسائی حاصل کرنے  میں ناکام ہو چکا ہے اور جنگ جاری ہے ،منصور ہادی کی حکومت کے ایک برجستہ عہدے دار نے پیشن گوئی کی  کہ سال 2018 میں امارات اور سعودی عرب کے پاس دو راستے ہیں پہلا یہ کہ یمن کی جنگ سے خارج ہونے کے لئے ہر سیاسی راستے کو قبول کر لیں   یا ان کے تنازعات چلتے رہیں اور جنگ نا معلوم مدت تک جاری رہے۔

اس یمنی عہدے دار نے  اپنی شناخت  ظاہر نہ کرنے  کی شرط پر  الشرق کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا : یہ دونوں راستے بہت سخت ہیں  یعنی حوثیوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت کرنے کا مطلب  سعودی عرب اور امارات کی شکست ہے   جیسا کہ جنگ کا اسی طرح سے جاری رہنا  ان دونوں ملکوں پر بین الاقوامی دباو کے بڑھنے کا باعث بن رہا ہے  اور ان کے اختلافات فاش ہعنے کی حد تک پہنچ چکے ہیں ۔

اس نے اظہار کیا کہ سب سے زیادہ نقصان یمنی عوام کا ہے کیونکہ ان کے مصائب نا قابل بیان حد تک پہنچ چکے ہیں جب کہ تمام گروہ صرف اپنے اہداف کی حصول یابی کے در پے ہیں  اس بات پر توجہ کئے بغیر  اس جنگ کی بھاری قیمت یمنی عوام ہزاروں لاشیں ، مکانوں کے ملبے اور ہزاروں زخموں کی صورت میں  ادا کر رہے ہیں ۔  

لیکن یمنی مصنف ایمن نبیل نے  یمن میں سعودی عرب اور امارات کے تنازع کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا: یہ جنگ بہت اہم ہے کیونکہ یہ یمن کی جغرافیائی اور سیاسی میدانوں میں امارات کی دخالت کی نشاندھی کرتی ہے ؛ ابو ظبی نے اس تاریخٰ فرصت سے استفادہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر سیاسی ، مالی اور فوجی قوت لگا دی ہے تاکہ یمن کو برباد کیا جائے ۔

امارات  نے جنوبی یمن کے تسلط کے متعلق  اپنی واضح حکمت عملی کو آگے بڑھانےکا عزم کیا ہوا ہے  چونکہ وہ اس کی آڑ میں مشرق وسطیٰ کے سمندروں پر قبضہ جمانا چاہتا ہے تاکہ اس کی آڑ میں بین الاقوامی طاقتوں کو  کو اپنے حق میں لیتے ہوئے  سعودی عرب کے کردار کو ختم کرتے ہوئے اپنے آپ کو  مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا  اصلی وکیل معرف کروائے۔  

 یہاں یہ لگتا ہے کہ یمن کے خلاف فوجی یلغار  کے مقصد میں سعودی عرب کے پاس کوئی نقطہ نظر نہیں ہے اور یمن اوردریائے سرخ  میں متحدہ عرب امارات کے اثر و رسوخ کا سامنا کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے. اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ  کہ سعودی عرب کا یمن میں اپنے موجودی کے متعلق کوئی نقطہ نگاہ ہے یا نہیں ؛  ہر حال میں اس کو یمن کی جنگ کی قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی