سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ بشارت الہی" وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ" کا پرتو

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ بشارت الہی" وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ" کا پرتو

بسمہ تعالیٰ

ازقلم: ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی/اسلامی انقلاب کی سالگرہ مبارک ہو؛

انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ بشارت الہی" وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ" کا پرتو

نیوزنور: کیا اگر گیارہ فروری کو جوکہ ایک مسلمان قوم کی لاشرقیہ و لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ کے نعرے کے ساتھ استعماری اور استکباری قوتوں خاص کر امریکہ اور اسرائیل سے جان جھڑا کر خود مختار اسلامی جمہوریہ ایران کی شکل میں وجود میں آیا ، اس نعمت الہی کے تکریم اور اپنی خود مختاری کے حصول کی نوید کے طور پر  یوم فتح  مبین منا کر اپنے عوام کے عوام کے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا جاتا اور دشمنوں کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کرنے کا ابتکار عمل کا مظاہرہ کیا جاتا؟

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق مدیر اعلی نیوزنور حاج عبدالحسین موسوی،قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی نےانقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کی مناسبت ایک مختصر مقالے میں لکھا ہے کہ ؛گیارہ فروری ایرانیوں کی خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی شادمانی کا دن ہے ،کیونکہ اسلام صرف ایرانیوں کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا  ہے،ایران اسلام کا اکلوتا قلعہ ہے ،ایران مسلمانوں کا تاج اور پہچان ہے ، کیونکہ یہ دنیا کا اکلوتا اسلامی ملک ہے جس  ملک کا آئین قرآن اور سنت  پر مبنی ہے۔ اکلوتا ملک ہے  جس کی سیاست اور دیانت توحیدی ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس کا سربراہ قرآن اور سنت کا عالم مدیر اور مدبر ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس میں نہ صرف تمام اسلامی مسالک  کا مقام و منزلت محفوظ ہے بلکہ  دیگر غیر اسلامی مذاہب کی منزلت اور مقام بھی محفوظ ہے  ، ان میں بعض  مذاہب کہ جنکے عقاید اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کا بھی بھر پور احترام اور ان کے حقوق محفوظ ہیں ۔ایسی سیاست ایرانی نہیں بلکہ اسلامی ہے  اسی لئے ہر انصاف پسند انسان کو اس اسلامی نظام سے محبت اور انس ہے ۔  

فروری سال 1979 عیسوی میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب جسے بیسوی صدی کا معجزہ کہا جاتا ہے جس   کے وقوع پذیر  ہونے سے عالمی سیاسی  معیار ہرج  و مرج میں مبتلا ہوگئے اور آج تک  اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں کیونکہ اس اسلامی انقلاب نے عالمی سیاسی معیار کو یک سر مسترد کرکے الہی منشور کو کامیابی اور کامرانی کا حقیقی راز ہونے کا دعوی کیا اور آج تک عملی طور اسے ثابت کرنے مین  سرخ رو ہوتے جا رہے ہیں اور اسکے مقابلے میں ہر سال استکباری منصوبے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں اور ہر ایک ناکامی کے بعد پہلے ناکامی کو چھپانے کے لئے نیا منصوبہ پیش کرکے پیہم مشکلات سے دچار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف  ہر مستضعف طبقے میں ایک نئ جان پیدا ہورہی ہے اور عوامی طاقت کا آفاقی مظاہرہ دنیا کے  سامنے مسلسل آر رہا ہے ۔اس طرح قرآنی بشارت «وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ.» [اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں] ( سوره قصص آیه 5)کی تفسیرہوتی نظرآرہی ہے۔کیوں نہ ہو، کیا اللہ نے اپنے اوپر واجب نہیں کیا کہ مومنین کو نصرت عطا کرے گا۔وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاؤُوهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أَجْرَمُوا وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ۔[ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بد لہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے](سورہ روم آیت 47)

فروری  1979 نے  غلامی کی زنجیر وں میں جگڑے  مستضعف لوگوں کے حوصلے بلند   کئے  اور تحریک آزادی اور ظلم ستیزی کی صدائیں دنیا بھر کے ہر گوشے کنارے سے نئ آب و تاب کے ساتھ بلند ہونے لگیں  خاص کر فلسطین ، کشمیر  ، لبنان ، افغانستان ، الجزائر ، مصر  وغیرہ میں اس کے نمایاں آثار نظر آنے لگے۔ مستضعفان عالم کے درمیاں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص اخوت اور برادری کی لہر دوڑ نے لگی اور یہ اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی نعمت مانی جاسکتی ہے کہ جس سے سب سے زیادہ خائف  عالمی استکبار ہے اور وہ مسلسل انصاف پسند لوگوں میں خاص کر مسلمانوں کے درمیاں یکجہتی دیکھنا برداشت نہیں کرتا ہے اور نفاق و تفرقہ قائم رکھنے سے اپنے سیاسی دن گزارنے میں اپنی خیر سمجھتا ہے ۔البتہ فروری 1979 نے عالمی بڑی طاقتوں کو بکھرنے کی گتنی سویت یونین کے بکھرنے سے شروع کی ہے   اور مظلوم قوموں کو آزادی اور اپنے حقوق ملنے کی شروعات ہوئی ہے ۔

 یہاں پر پوچھا جا سکتا ہے کہ اس اسلامی انقلاب میں ایسی کیا خوبی موجود ہے کہ اسکے اثرات اسقدر جامع بتائے جاتے ہیں ۔ جی ہاں ایرانی  اسلامی انقلاب کسی دوسرے انقلاب کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے ۔ دنیا نے کئ انقلاب دیکھے ہیں لیکن ایک قرآن شناس ، حدیث شناس اور علوم اسلامی کا ماہر استاد کی قیادت میں وقوع پذیر ہونے والا استثنائی انقلاب ہے ۔صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیدا ہونے والے عالم دین کی قیادت میں رونما ہونے والا انقلاب تاریخ اسلام کا ایک نیا باب ہے ۔

ایران میں وقوع پذیر ہونے والا اسلامی انقلاب دنیا کے کسی بھی انقلاب کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے ۔دنیا نے صنعتی انقلاب دیکھا ۔ روسی انقلاب دیکھا ، فرانسیسی انقلاب دیکھا ۔ چینی انقلاب دیکھا اور کئ قسم کے انقلاب دیکھے لیکن ہر ایک انقلاب نے اپنے ملک یا آس پاس تک اثرات مرتب کئے لیکن  ایران میں رونما ہونے والے انقلاب  سے نہ صرف ملک میں تحول پیدا ہو گیا یا قرب و جوار کے ملکوں پر اثرات مرتب  ہوئےبلکہ پوری دنیا کو تحت الشعاع میں لایا کیونکہ یہ اسلام شناس ماہر عالم ربانی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تھا  اور چونکہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کی روشنی میں رونما ہوا  ہے اس لئے نہ صرف مسلمانوں پر اثرات مرتب کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ غیر مسلمانوں میں  اسلامی آفاقی تعلیمات کی طرف راغب کر گیا ۔

 اس سے بڑ کر  اللہ اکبر کے نعرے کی  عظمت کو  بیان  کرنے اور اس کا عامیانہ تفسیر بیان کرتے ہوئے عالمی  استکبار کو ذلیل اور نا تواں کرتا رہا ہے ۔ مغرب اور مشرق کی سیاست کو ٹھکراکر  قرآنی سیاست نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو"لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ"(بقرہ 279)  کو اپنا نصب العین بنایا اور قرآن آئے روز اسکی عزت کو حیثیت کو چار چاند لگاتا رہا ہے ۔

ابھی اسلامی انقلاب کو کامیاب ہوئے39سال  ہو گئے  ہیں، عالمی استکبار 1979 سے لیکر آج تک  ہر روز نئے تدبیروں  کے ساتھ اسلامی انقلاب کو ناقص نظام ثابت کرنے میں کھلم کھلا میدان میں نبرد آزما ہے  اور ہر سال پہلے سال سے زیادہ  یہ عالمی استکباری طاقتیں ذلیل اور حقیر پڑتی جارہی ہیں اور اسلامی انقلاب پہلے سے زیادہ طاقتور اور سرخ رو ہوتا نظر آتا ہے ۔یہ سب صرف اسلام کی برکات ہیں ۔ اسلام کی تعلیمات پر ایمان کا نتیجہ ہے ۔ غیروں سے وابستگی توڑنے اورایک خدای واحد پر ایمان اور اسلامی تعلیمات پر یقین کامل  رکھنے کا نتیجہ ہے ۔

گیارہ فروری ایرانیوں کی خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی شادمانی کا دن ہے ،کیونکہ اسلام صرف ایرانیوں کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا  ہے،ایران اسلام کا اکلوتا قلعہ ہے ،ایران مسلمانوں کا تاج  اور پہچان ہے ، کیونکہ یہ دنیا کا اکلوتا اسلامی ملک ہے جس  ملک کا آئین قرآن اور سنت  پر مبنی ہے۔ اکلوتا ملک ہے  جس کی سیاست اور دیانت توحیدی ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس کا سربراہ قرآن اور سنت کا عالم مدیر اور مدبر ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس میں نہ صرف تمام اسلامی مسالک  کا مقام و منزلت محفوظ ہے بلکہ  دیگر غیر اسلامی مذاہب کی منزلت اور مقام بھی محفوظ ہے  ، ان میں بعض  مذاہب کہ جنکے عقاید اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کا بھی بھر پور احترام اور ان کے حقوق محفوظ ہیں ۔ایسی سیاست ایرانی نہیں بلکہ اسلامی ہے  اسی لئے ہر انصاف پسند انسان کو اس اسلامی نظام سے محبت اور انس ہے ۔

گیارہ فروری ایرانی انقلاب نہیں ہے اسلامی انقلاب ہے اگر ایرانی انقلاب ہوتا  ایران کی اسلامی حکومت  اپنی ولادت کے ساتویں مہینے میں مسئلہ فلسطین  کو اجاگر کرنے کے لئے سر بہ کف نہیں ہوتا ۔ سات فروری 1979 کو بانی انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی حاج سید روح اللہ موسوی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ  یہ کہہ کر :"میں عالم اسلام کےہرایک مسلمان اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ غاصب اسرائیل اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو، جو کہ «ایام قدر»ہےاورفلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے موثر بھی ثابت ہو سکتا ہےکو«روزقدس»انتخاب اور مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کے لئے مظاہروں کا اہتمام کرنے کی اپیل کرتا ہوں ۔"( صحیفہ امام جلد 9ص267)۔

معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت اپنے آپ کو ایرانی حکومت کے عنوان سے جدا  کرنے کا اعلان کر رہی ہے  کیونکہ ایسا  روڑ میپ سامنے رکھنے سے ایران اپنے ملکی مفادات کو بالای طاق رکھ رہا ہے اور اسلام کے گہرے زخم کی مرحم  کرنے کے لئے مرثیہ خواں  ترجمان بن کر اسلامی مفادات کی ترجمانی کرتا ہے ۔اسی طرح اسلام اور مسلمین سے وابستہ ہر مسئلہ کو اجاگر کرنے میں ایران کی اسلامی حکومت پیش گام رہتی ہے ۔ اسی وجہ سے اسلام اور انصاف کے ساتھ محبت رکھنے والا انسان اس اسلامی حکومت کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور ان کے کاموں میں اپنے آپ کو شریک تصور کرتا ہے ۔ ان کی خوشی اور ان کے غم میں اپنے آپکو برابر شریک سمجھتا ہے ۔

ایران میں قوم پرست جماعتیں  بھی موجود اور فعال  ہیں جو صرف قومی مفادات کو  مد نظر رکھ کر اپنے ملک کی ترقی اور آرام زندگی کے طالب ہیں  جن کی پشت پناہی عالمی استکبار خاص کر امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں ۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں ایسی طاقتیں متحرک ہوئی تھیں  جس سے امریکا کی امیدیں بڑنے لگی تھیں ، لیکن ایران کی اکثریت نے قوم پرست نعروں کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ ہمارے لئے اسلام عزیز ہے قوم نہیں۔ہم نے انقلاب اللہ اکبر ، اور یاحسین کی صدائیں بلند کرکے حاصل کیا ہے ۔ وطن پرستی کے جذبے سے نہیں ۔ ایران میں قوم پرست جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایران میں جمہوریہ ایران رہے اسلام حذف کیا جائے ۔  یعنی اسلامی جمہوری ایران کے بجائے جمہوری ایران رہ جائے لیکن وہاں کی باغیرت مسلمان عوام نے اس بات کو ٹھکرادیا کہ ہم صرف اسلام کے نام پر جینے مرنے کے لئے تیار ہیں ، قوم ، ترقی اور خوشحالی کے نام پر نہیں ۔

ایران میں اسلامی حکومت ہونے کے باجود اسلام مخالف جماعتیں موجود ہیں جن کی پشت پناہی کا امریکہ رسمی طور اعلان کرتا ہے اور جمہوری اسلامی ایران میں سے اسلامی حذف کرنے  کےلئے کروڑوں ڈالروں کے منصوبے کا رسمی اعلان کرتا ہے  اور غیر رسمی طور پر اس منصوبے پر کتنا خرچ کرتا ہوگا اندازہ لگایاجا سکتا ہے ۔

ایران کی اسلامی حکومت، اسلامی تشخص اور اسلامی تعلیمات کی حفاظت کرنے کے لئے 39 سال سے  طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں جھیل رہا ہے  لیکن اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے نہیں جھکتا ہے اور اعلان کرتا رہتا ہے کہ اللہ ہمارا ناصر اور مددگار ہے اور دنیا شاہد ہے کہ  قریب چالیس سالوں سے جھیل رہے اقتصادی پابندیاں ، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ ، داخلی انتشار پیدا کرنے کی انتھک کوششیں  جاری ہونے کے باجود اسلامی ایران دن دگنی رات چگنی ترقی کے منازل کس تیزی کے ساتھ طے کررہا ہے  کیا یہ سب خدا کی مدد اور عنایت کے بغیر ممکن ہے ۔  یقینا یہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی برکات کا نمونہ ہے   ۔

اسلامی انقلاب کی برکات کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں یہ جاننے کی بڑی کوشش کررہا ہوں کہ کشمیر میں اسلامی انقلاب  سے دوری پیدا کرنے کی کیوں کر غیر شعوری کوشش کی جاتی ہے ۔میں یہاں پر قومی تعصب سے متاثر  دوسرے اقوام سے آنکھیں چرا کر ابھی صرف کشمیر کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا  کہ 1979 کے بعد جب اسلامی انقلاب کی کرنیں ایران سے باہر دیگر اقوام پر پڑنے لگیں تو ان کو ذائل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا اور وہ سلسلہ جاری ہے ان کی بات نہیں کروں گا  لیکن چونکہ کشمیر کے بارے میں عینی شاہد ہوں کہ شعوری یا غیر شعوری طور کشمیری عوام کو جو کہ اسلامی انقلاب کے ساتھ گہری وابستگی اور محبت رکھتے ہیں کو اسلامی انقلاب سے دور رکھنے کو ہر ممکن کوشش ہوتی  رہی ہے۔  جیسے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ یوم قدس کو یوم کشمیر کا نام دے کر کشمیر کی تحریک کو اسلامی پیکر سے جدا کر کے بیان کرنا اور خاص کر یوم قدس کو شیعوں تک ہی محدود رہنے دینا ۔اسی طرح گیارہ فروری جو کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن ہے اور دنیا بھر میں اسلام پسند لوگ اس دن کو خوشی کے طور پر مناتے ہوئے اپنے لئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حاصل ہونے والی آزادی کے لئے دعا کرتے ہیں اس کو بھی کشمیر میں اسلامی رنگ سے جدا کرکے قومی دائرہ تک محدود کیا جانے لگا ہے ۔

ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ  کو 1979 میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے  یوم قدس کا نام دیکر مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے مخصوص کردیا جس سے فلسطینی عوام کی بھی ڈھارس بندھی اور مسئلہ فلسطین  کے بارے میں مسلمانوں کی آوازین بلند ہونے لگیں لیکن کشمیر میں  اسکا نام بدل دیا گیا ، اور یوم قدس کو یوم کشمیر کے نام پر  منانے پر زور دیا جانے لگا  ۔ جبکہ اگر کشمیری عوام یوم قدس منانے اور مسئلہ قدس کے حل ہونے میں اپنی گہری دلچسپی دکھاتے ہوئے مثالی مظاہرو ں کا اہتمام کرتے شاید کل فلسطینی عوام کسی اورایک دن کو یوم کشمیر بنانے کا اعلان کرتے کیونکہ مظلوم کو دوسرے مظلوم کی حالت بہتر سمجھ میں آتی ہے  لیکن ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر  کسی منصوبے کے شکار ہیں جو کشمیر کو اسلام کے پییکر سے جدا کرکے دیکھنا چاہتا ہے ۔

 جب ہم یوم قدس منائیں گے اور فلسطینی یوم کشمیر منائیں گے تب یہ حرکت اسلامی بن گئ  کیونکہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے حصے کو اس کے درد کا احساس ہوتا ہے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح کچھ طاقتیں ایران اور دوسرے ممالک میں اسلامی رنگ کو ختم کرکے قومی اور نسلی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں نیز قرآنی اسلام کے بجائے انتہا پسند اسلام کا رنگ چڑہاتے ہیں اور   کشمیر اس حوالے سے الگ نہیں یہاں اس قسم کی تحریک ہر تحریک سے زیادہ سرگرم ہے جیسے کہ یہاں پہلے یوم قدس کا عنوان تبدیل کرکے یوم کشمیر نام دے کر قوم پرستی کا جھنڈا بلند کیا گیا اور پھر گیارہ فروری کو یوم مقبول بٹ کے نام پر منانے کا عنوان دے کر قوم پرستی کی ایک اور سنگ میل رکھی جارہی ہے اور اب انتہا پسند اسلام کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش نظر آرہی ہے۔

 کیا اگر گیارہ فروری کو جوکہ ایک مسلمان قوم کی لاشرقیہ و لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ کے نعرے کے ساتھ استعماری اور استکباری قوتوں خاص کر امریکہ اور اسرائیل سے جان جھڑا کر خود مختار اسلامی جمہوریہ ایران کی شکل میں وجود میں آیا ، اس نعمت الہی کے تکریم اور اپنی خود مختاری کے حصول کی نوید کے طور پر  یوم فتح  مبین منا کر اپنے عوام کے عوام کے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا جاتا اور دشمنوں کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کرنے کا ابتکار عمل کا مظاہرہ کیا جاتا؟

اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ ایران جو کہ اس وقت مسلمانوں کی مقاومت کا محور ہے اور جو ولایت فقیہ سیاسی الہی منشور کے تحت خود بھی خود مختار بن گیا اور پھرلبنان، عراق ، شام،یمن اور فلسطین کیلئے خودمختاری کی راہ ہموار کرنے میں مدد کرکے اسلام دشمن طاقتوں خاص کر امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو خاک میں ملاتا رہا کو جملہ مقاومتی مجاہدوں کے ساتھ اشرار کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین ۔

والسلام

عبدالحسین

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی