سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

افریقہ کی شاخ بھی امارات سے نہیں بچ پائی ، سیاسی مداخلت اور فوجی چھاونی کی تاسیس

 اردو مقالات سیاسی مصر ابوظبی عرب امارات جیوبوتی سومالیہ اریترہ لیبیا

افریقہ کی شاخ بھی امارات سے نہیں بچ پائی ، سیاسی مداخلت اور فوجی چھاونی کی تاسیس

ابوظبی ؛ امارات اور علاقے میں ایجاد بحران /

افریقہ کی شاخ بھی امارات سے نہیں بچ پائی ، سیاسی مداخلت اور فوجی چھاونی کی تاسیس

نیوزنور:ابوظبی شمالی افریقہ کے ملکوں میں اپنی موجودگی اور کار کردگی دکھانے کی لگاتار کوششوں میں مصروف ہے جس کی وجہ سے اختلافات اور متعدد جھڑپیں ہو سکتی ہیں اور حالات کے پہلے سے زیادہ خراب ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کےمطابق متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک ہے جو گذشتہ کچھ برسوں سے علاقے  کی ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہو نے  کا شوق اپنے دل میں پروان چڑھا رہا  ہے۔ لیکن اس ملک کے پاس ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہونےکےلیے  بہت ساری چیزوں کا فقدان ہے ۔ جیسے  ملکی وسعت ،آبادی ، فوجی طاقت اندرونی یکجہتی ، اور سیاسی جواز، اور اگر چہ اس کے پاس دو خصوصیتیں موجود ہیں ، ایک حساس موقعیت ، اور دوسری اقتصادی موقعیت ، لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ علاقے میں بحران پیدا کرنا طاقت کے ضروری لوازم کی خالی جگہ کو پر نہیں کرے گا ۔

حالیہ برسوں میں خاص کر بہار عربی کے واقعات کے رونما ہونے کے بعد امارات نے علاقے کے معاملات میں اپنی چادر سے زیادہ پاوں پھیلائے ہیں اور اپنی ان بلند پروزیوں کے راستے میں اس نے اپنے پڑوسیوں سے لے کر یمن ،شام اور افریقہ کی شاخ تک کو نقصان پہنچایا ہے تاکہ ان مفادات کو حاصل کر سکے جو اس کی گنجائش سے بھی زیادہ ہیں ۔

افرقہ کی شاخ میں ابوظبی کا بحران ایجاد کرنے کے پیچھے مقصد ،

متحدہ عرب امارات  نے اپنی  وسعت طلبی کے دائرے  کو افریقی ملکوں تک پہنچا دیا ہے ۔ مصر ، ٹیونس ، سومالیہ ، اریترہ ، جیبوتی اور لیبیا براہ راست اور بالواسطہ طور پر امارات کی اپنے اندر موجودگی اور مداخلتوں کو محسوس کر رہے ہیں ۔ معمول کے مطابق جس وقت کوئی ملک  ضرورت سے زیادہ ذخائر سے بہرہ مند ہو  تو وہ اپنی سرحد کے باہر ہاتھ پاوں مارنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے پہلے کی رپورٹوں میں ہم نے امارات کی قطر اور پھر یمن میں دست درازیوں کی بات کی تھی کہ کس طرح ابو ظبی کے حکام دوحہ کو نقصان پہنچانے کے لیے سعودی عرب سے بھی دو قدم آگے نکل کر کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرتے ۔

ابو ظبی نے اپنی موجودگی کو یمن اور خاص کر عدن میں محدود نہیں کیا بلکہ اس کی کوشش ہے کہ افریقہ میں قدم جما کر چند مقاصد حاصل کرے :

۱ ۔ مغربی حصے سے باب المندب پر تسلط ، ۲ ۔ اخوان المسلمین جیسی تحریکوں کا مقابلہ ، ۳ ۔ اقتصادی سرمایہ گذاری اور افریقی ملکوں کے سستے ذخایر پر تسلط ، ۴ ۔ توانائی کی سپلائی کی حفاظت ،

آگے ہم امارات کی چھ ملکوں ؛ مصر ، ٹیونس ، اریترہ ، سومالیہ ، اور جیبوتی میں موجودگی کے بارے میں اجمالی تجزیہ کریں گے۔

مصر ،

اسلام پسندوں کا مقابلہ ،

بہار عربی کے واقعات میں اخوان المسلمین کی آئیڈیالوجی کے اوج پکڑنے کے ہمراہ ، اور خاص کر مصر میں امارات نے یہ محسوس کیا کہ اس اسلام پسند گروہ کی کامیابی اس ملک کو کاری چوٹ شمار ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ امارات کے حکام کے جواز پر بھی انگلی اٹھے ۔ اسلیے کہ اسی دوران کچھ اماراتی مفکرین اور قلمکاروں نے کہ جن میں سے کچھ اخوان المسلمین سے وابستہ تھے ، ملک کے بنیادی قانون ، اور قومی شوری کے انتخابات کے قانون  میں تبدیلی اور زیادہ آزادی دیے جانے کا مطالبہ کیا ، اور مارچ ۲۰۱۱ میں ایک خط لکھ کر امارات کے سربراہ ، خلیفہ بن زاید سے اپنے مطالبات بیان کیے ، لیکن اس کے بعد بڑی تعداد میں ، جمعیت الاصلاح والتوحید کے کارکنوں کو جو اخوان المسلمین سے وابستہ تھے گرفتار کرلیا گیا اور اس کے بعد امارات نے اس ملک میں انقلابی گروہوں کے نفوذ کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکیوریٹی کے سخت اقدامات  عمل میں لائے ۔

دوسرا مسئلہ کہ جس کی وجہ سے امارات اخوان المسلمین کے خلاف ہے ، ایک نیوز سینٹر مڈل ایسٹ آنلائین ، کا محمد بن زاید کے خلاف کودتا کا دعوی ہے ،  اس نیوز سینٹر کے لکھنے کے مطابق ، حمدان بن زاید نے جو امارات کے ولی عہد محمد بن  زاید کا بھائی ہے سال ۲۰۱۱ میں اس کے خلاف کودتا کا قصد کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ، حمدان بن زاید کا ارادہ تھا کہ قبایل کے سرداروں کی مدد سے امارات میں بادشاہی نظام کی ایسی بنیاد رکھے کہ جس میں آل نھیان کا کوئی حصہ نہ ہو  ، ان تحرکات کی امارات میں اخوانی گروہوں کی طرف سے شدت کے ساتھ حمایت ہو رہی تھی ، لیکن جب کودتا کا  پتہ لگا کر اس کا بھانڈا پھوڑا گیا ، تو محمد بن زاید کا اخوان المسلمین پر غصہ کئی گنا بڑھ گیا ۔

اس بنا پر امارات کی حکومت کا یہ عقیدہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین کا کام تمام کر کے علاقے میں ہمیشہ کے لیے سیاسی اسلام کی نابودی کی ضمانت فراہم کر دے ۔ مصر کی اخوان المسلمیں دنیا میں دیگر اخوانی تحریکوں کی سرغنہ شمار ہوتی ہے ، تو اگر مصر میں یہ تجربہ شکست کھا جائے گا تو وہ دوسرے علاقوں میں بھی حکومت نہیں بنا پائے گی ۔

مصر کے اقتصادیات پر تسلط کی کوشش ،

۳ جون ۲۰۱۳ سے امارات نے  مصر میں کودتا کے ذریعے بننے والی السیسی کی حکومت کی مدد کرنا شراع کی ۔

لیکن مصر میں اقتصادی بحران کے جاری رہنے کی وجہ سے امارات کا دھیان اس طرف گیا کہ مالی امداد مصر کے اقتصادی حالات کی بہتری میں  اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ اخوان المسلمین سے وابستہ بعض اخباری ذرائع  نے بتایا ہے کہ یہ مالی امداد فوجی سربراہوں کے بینک کے کھاتوں میں داخل ہو چکی ہے، بہر کیف امارات نے فیصلہ کیا ہے کہ مال فراہم کرنے والے کے بجائے وہ ایک اقتصادی کمپنی میں تبدیل ہو جائے ۔ اسی لیے اس نے ، بڑے پیمانے پر مصر کے املاک ، اکتشافات ، تیل ، سیاحت ، صنعت ، پیٹروکیمیکل ، غذائی سازو سامان اور زراعت میں سرمایہ گذاری کی اور بہت سارے پروجیکٹ اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ خبری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ۶۳۸ اماراتی کمپنیاں ۱۸ ۔ ۴ ارب درہم یعنی ۵ ارب ڈالر کے سرمائے کے ساتھ مصر میں سرگرم عمل ہیں ۔

مصر کی زمینی اور سمندری حمل و نقل کی کمپنی کی رپورٹ کے مطابق سیاحت کے شعبے میں متحدہ عرب امارات کی کشتیرانی  کی کمپنی کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت طے پایا ہے کہ نہر سویز کے جتنے پروجیکٹ ہیں وہ امارات کی کمپنیوں کے حوالے کر دیے جائیں گے اور اس سلسلے میں پہلی قرار داد میں امارات نے پورٹ سعید کے مشرقی ساحل پر ۱۵۰ میلین ڈالر کے کینٹینر کا انبار لگانے کے پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے ۔

 اس وقت ۶۳۸ اماراتی کمپنیاں ۱۸ ۔ ۴ ارب درہم یعنی ۵ ارب ڈالر کے سرمائے کے ساتھ مصر میں سرگرم عمل ہیں ۔

مصر کی فوج پر تسلط ،

خلیج فارس کے عرب ملکوں نے ہمیشہ ضرورت پڑنے پر مصر کی فوج کی طاقت پر بھروسہ کیا ہے جیسا کہ سال ۱۹۹۰ کی فارس کی جنگ میں ہوا تھا ، ۳ جولائی کے کودتا کے بعد سے ہی امارات نے مصر کی فوج کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی تھی امارات نے جو اس زمانے میں عبد الفتاح السیسی کی جو اس دور میں وزیر دفاع تھا بے حدو حساب مدد کی تھی اس کا مقصد یہی تھا ۔ امارات نے علاقے میں اپنے کچھ مفادات حاصل کرنے کے لیے مصر کی فوج کی طاقت سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے مثال کے طور پر لیبیا کے بحران میں مصر کی فوج کے لڑاکو  طیاروں نے کئی مرتبہ سلفی گروہوں کے ٹھکانوں کو کہ جو جنرل حفتر کے خلاف لڑ رہے تھے نشانہ بنایا تھا ، شاید اسی بنا پر امارات نے جو فرانس کے جنگی  طیاروںرافائل کو خریدنے کے لیے ۵ ۔ ۴ ارب  یورو مصر کو دیے ہیں اس کو سمجھا جا سکتا ہے ۔

اس طرح امارات اور سعودی عرب نے جو یمن پر حملہ کیا ہے اس کے چلتے اگر چہ مصر اپنی پیدل فوج یمن بھیجنے کے لیے تیار  نہیں  ہوا لیکن مصر کی دریائی فوج باب المندب میں کشتیرانی کی حفاظت کے بہانے اور حقیقت میں اندر سے یمن کی فوج کو کنٹرول کرنے کے لیے میدان عمل میں کود گئی۔

سیاسی تسلط ،

امارات کی کوشش ہے کہ خلیج فارس کے عرب ملکوں اور ایران کے درمیان توازن ایجاد کرنے کے مقصد کے تحت اپنے لیے جو اس نے چیلینج مانے ہیں ان کا مقابلہ کرنے اور اپنے منافع کو حاصل کرنے کے لیے مصر کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں لے آئے ۔

اس وقت ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مصر کی صدارت کے لیے امارات کی نظر میں عبد الفتاح السیسی سے زیادہ کوئی مناسب نہیں ہے ۔ فروری ۲۰۱۸ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں نمایندوں کی حالت ایسی ہے کہ ان میں کوئی بھی السیسی کا رقیب نظر نہیں آتا اور وہ انتخابات کے میدان میں تقریبا اکیلا ہے ۔

السیسی امارات کے لیے اس حد تک مطلوب ہے کہ ابو ظبی نے احمد شفیق کو بھی گھاس نہیں ڈالی ۔ احمد شفیق کہ جو مرسی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد امارات کی طرف بھاگ کھڑا ہوا تھا جب اس کے کینڈیڈیٹ ہونے کا اعلان کیا گیا تو امارات میں ابو ظبی کے حکام نے اس کو گرفتار کے مصر روانہ کر دیا۔

احمد شفیق کے گھر والوں نے کہا تھا کہ مصر میں اس کی واپسی کے بعد ان کے لیے اس کے ساتھ رابطہ ممکن نہیں تھا ۔ انہوں نے قاہرہ کے حکام پر خلاف ورزی کا الزام لگایا اور کہا کہ احمد شفیق کو اس کی مرضی کے خلاف قاہرہ کے ایک ہوٹل میں رکھا گیا ہے ۔

ٹیونس ،

ٹیونس بھی ان ملکوں میں سے ہے کہ جس میں زین العابدین بن علی کی بر طرفی کے بعد جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ امارات کے حق میں مفید نہیں تھیں ۔ خاص کر اسلام پسند پارٹی النھضہ ہمیشہ ابو ظبی کی سازشوں کی زد پر تھی ۔

ٹیونس کے انقلاب کے بعد پہلے صدر منصف المرزوقی  نے امارات کو عربی انقلابات کا دشمن قرار دیا ہے ۔

خبری ذرائع کے بقول امارات نے بن علی کی حکومت کے گرنے کے دوسرے دن بعد  جاسوسی چینل بنانا شروع کر دیا جس کو امارات کی اطلاعات کا ایک افسر سرھنگ عبد اللہ الحسونی چلا رہا ہے اور جو شخص ٹیونس میں اس ملک کی قومی سلامتی کی تنظیم میں نفوذ  پیدا کرنے میں کامیاب ہوا اس کا نام ہے سرگرد عبد اللہ خلیفہ حمد سفیان السویدی  جو اسلام سیاسی کے ادارے میں مدیر کے عنوان سے سرگرم عمل ہے ۔

خبری ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیونس کی النھضہ پارٹی کو مئی ۲۰۱۸ کے میونسپلٹی کے انتخابات میں ہرانے کا منصوبہ اسی جاسوسی چینل کا منصوبہ ہے ۔ یہ چینل ٹیونس کی نداء پارٹی میں اور ٹیونس کے صدر قاید السبسی کے قریبی افراد میں اور اسی طرح پارلیمنٹ میں اور سیکیوریٹی اور حکومتی حکام کے درمیان نفوذ پیدا کرنے کی کوشش میں ہے ۔

ٹیونس میں حالیہ اعتراضات کے دوران ٹیونس کی کچھ شخصیتوں نے امارات کی آشکارا مداخلت کی بات کہی ہے ۔ ٹیونس کے مشہور مبلغ ، بشیر ابن حسن علی امارات پر حالیہ اعتراضات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے اور فیس بک کے اپنے صفحے پر ٹیونس کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے : امارات اپنے نمایندوں کے ذریعے اپنے ملک کو تباہ کرنا چاہتا ہے لہذا آپ اس ملک کو ایسا کرنے کا موقعہ نہ دیں ۔

 جو شخص ٹیونس میں اس ملک کی قومی سلامتی کی تنظیم میں نفوذ  پیدا کرنے میں کامیاب ہوا اس کا نام ہے سرگرد عبد اللہ خلیفہ حمد سفیان السویدی ہے جو اسلام سیاسی کے ادارے میں مدیر کے عنوان سے سرگرم عمل ہے ۔

ابو یعروب المرزوقی نے جو ٹیونس کا ایک مفکر ہے ترکی کے چینل آنا تولی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امارات اور فرانس فتنہ اور افراتفری پھیلانے اور انقلاب دشمن افراد کی حمایت کرنے کی کوشش میں ہیں ۔

گذشتہ ماہ دی کی پہلی تاریخ کو امارات نے ٹیونس کی عورتوں کو جو ہوائی جہاز سے سفر کرنے سے روکا تھا اس کی وجہ سے بھی ٹیونس کے معاشرے نے اعتراضات کیے ۔ امارات کے مسئولین نے اس اقدام کی وجہ سیکیوریٹی کے مسائل کو بتایا ، لیکن یہ چیز ٹیونس کے افکار عمومی کے لیے زیادہ قانع کنندہ نہیں تھی ۔ ٹیونس کی الحراک پارٹی کے اجرائی دفتر کے رکن عبد الواحد الیحیاوی نے روسیا الیوم چینل کے ساتھ گفتگو میں اس اقدام کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ انقلاب کے زمانے سے جو سیاسی اختلافات وجود میں آئے ہیں ان کی وجہ سے ابوظبی کے حکام نے یہ اقدام کیا ہے اس نے امارات کے سیکیوریٹی کے بہانے کو رد کیا اور کہا کہ اب تک ایک بھی ٹیونسی خلیج فارس کے دہشت گردی کے واقعات میں شریک نہیں پایا گیا ہے بلکہ تمام دہشت  گردانہی ملکوں کے باشندے تھے لہذا سیکیوریٹی کا بہانہ سچا نہیں ہو سکتا ۔

لیبیا ،

خلیفہ حفتر کے کودتا کے بعد لیبیا میں امارات کی مداخلت طشت از بام ہو گئی ۔ خلیفہء حفتر ۱۹۸۰ میں معمر قذافی کی فوج کے کمانڈروں سے الگ ہوا تھا اور انقلاب کے زمانے میں وہ انقلابی افراد کی زمینی فوج کا کمانڈر تھا ۔ اس کا لیبیا کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بڑے پیمانے پر نفوذ ہے چنانچہ مئی ۲۰۱۴ میں اس نے ایک کاروائی کے دوران اعلان کیا تھا کہ لیبیا کی کانگریس فساد کا شکار ہو گئی ہے اور اس کا دہشت گردوں سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ،اس نے اپنا مقصد دہشت گردوں اور اخوان المسلمین کے خلاف جنگ کو بتایا ، اسی بنا پر جب بھی اخوان المسلمین کے خلاف جنگ کی بات چھڑتی ہے تو امارات کا بھی وہاں سراغ ملتا ہے ۔ سعودی عرب اور امارات نے  معمر قذافی کے جانے کے فورا بعد کوشش کی کہ ترکی اور قطر کو لیبیا میں نفوذ کی اجازت نہ دیں اس بنا پر قذافی کے جانے کے بعد لیبیا امارات اور سعودی عرب کی ترکی اور قطر کے ساتھ رقابت کا میدان بن گیا ۔ آنکارا اور دوحہ نے کوشش کی کہ اسلام پسند گروہوں منجملہ اخوان المسلمین کو اقتدار کی کرسی پر بٹھائیں ۔

 اس بنا پر خلیفہء حفتر کے کودتا کے ساتھ ہی امارات اور سعودی عرب اس کے اصلی ترین حمایت کرنے والوں کے طور پر سامنے آئے ،اور خلیفہء حفتر نے ۲۰ جون ۲۰۱۴ کو قطریوں اور ترکیوں سے کہا کہ ۲۴ گھنٹے کےاندر لیبیا کو ترک کر دیں ۔

لیبیا میں امارات کی موجودگی اور مداخلت کا اوج تب تھا جب اس ملک کے جنگی طیاروں نے لیبیا کے پایتخت طرابلس کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا ۔ ہوا یہ کہ اسلام پسند فوج جو فجر لیبیا کے نام سے موسوم تھی اس نے کوشش کی کہ لیبیا کے ہوائی اڈے کو خلیفہء حفتر کے اتحادیوں سے چھین لیں چنانچہ اس جنگ کے دوران امارات اور مصر کے جنگی طیاروں نے ۳۱ مرداد ۹۳ کو طرابلس کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا اور اس اڈے کو بھاری نقصان پہنچایا یہاں کہ ۹۰ فیصد ہوائی اڈہ تباہ ہو گیا اور ۱۳ ہوائی جہاز بھی تباہ ہو گئے ۔

اس حملے نے لیبیا میں امارات کی بالواسطہ دخالت کو براہ راست اور فوجی دخالت میں بدل دیا اور ان حملوں کی امریکہ کی وزارت خارجہ نے بھی تائیید کی ۔

امارات اس کے بعد سے اب تک لیبیا میں اپنی فوجی موجودگی کے دائرے کو  وسعت دے رہا ہے  اور اس چیز کا اندازہ اس وقت ہوا کہ جب گذشتہ سال اس ملک کے مشرق میں الخادم ہوائی اڈے پر امارات کے مسلح ڈراون کے ہمراہ اے  ٹی ۸۰ ۲ یو نوعیت کے حملہ آور اور جاسوسی طیارے کی تصویریں سامنے آئیں ۔

ایک اور اہم مسئلہ کہ جس کی طرف اشارہ کر دینا چاہیے لیبیا میں انسانوں کی اسمگلینگ کا مسئلہ ہے جو عالمی بن گیا ہے اور اس غائلے میں سب سے زیادہ امارات والوں کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے ، اس موضوع پر ایک الگ مقالہ لکھا جائے گا یہاں پر صرف اسی نکتے کا ذکر کر دینا کافی ہے کہ گذشتہ ۷ بھمن کو امارات متحدہ عربی پر پابندی لگانے والی کئی کمپنیوں اور انسانی حقوق کی دوسری تنظیموں منجملہ افریکن لایوز مٹر  نے امارات کے افریقی ملکوں منجملہ لیبیا سے انسانوں کو اسمگل کرنے میں شریک ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے لندن پیریس اور واشنگٹن میں امارات کی سفارت کے سامنے اجتماعات کیے ۔

  ٹیونس کے انقلاب کے بعد پہلے صدر منصف المرزوقی نے امارات کو عربی انقلابات کا دشمن قرار دیا ہے ،

اریترہ ،

اریترہ کی حساس موقعیت اور اس کے باب المندب کےمغربی حصے میں، اور دریائے سرخ کے ساحل پر اور اسی طرح یمن پر مشرف  ہونے کی وجہ سے امارات وہاں فوجی چھاونی اور متعدد مراکز بنانے کی جانب مایل ہوا ۔ امارات نے ساحل پر اور عصب کے ہوائی اڈے پر کہ جو دریائے سرخ کے کنارے پر ہے فوجی ٹھکانے بنانے کا اقدام کیا ہے عصب کے ساحل پر  سال ۲۰۱۵ میں منتشر شدہ ہوائی تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ پورے ساحل پر اماراتی کشتیاں موجود ہیں جس کا اصلی مقصد باب المندب پر قبضہ کرنا ہے کہ جہاں سے روزانہ ۳۔۳ میلین بیرل تیل خارج ہوتا ہے اور یمن کے سواحل پر تیزی سے دسترسی حاصل کرنا ہے ۔

سیٹیلائٹ کی تصویروں کے مطابق عصب کے ہوائی اڈے پر امارات نے فوجی انفرا اسٹریکچر کی تعمیر ، لکلرک ٹینکوں میراج ۲۰۰۰ طیاروں ہیلیکاپٹروں اور ۳۵۰۰ میٹر تک مار کرنے والے بغیر پائلٹ کے طیاروں کے  کے استقرارکا اقدام کیا ہے ۔

امریکہ کے اسٹریٹفور ادارے کی رپورٹ کے مطابق امارات  یمن کی جنگ تک نہیں بلکہ لمبی مدت تک عصب کے ساحل پر رہے گا  ،۔

اسی عالم میں خبری ذرائع کے بقول امارات کے ولی عہد محمد بن زاید اور اریترہ کے صدر اسیاس افورقی کے درمیان قریبی رابطہ ہے اور افورقی نے اکتوبر ۲۰۱۶ سے جنوری ۲۰۱۷ کے درمیان یعنی تین ماہ میں دو بار ابو ظبی کا دورہ کیا ۔

سومالیہ ،

امارات ان معدود ملکوں میں سے ہے جس کا سومالیہ لینڈ کے علاقے سے رابطہ ہے اور سومالیہ کی مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر اس علیحدگی طلب علاقے کے ساتھ متعدد سمجھوتے کر چکی ہے ۔

سومالی لینڈ اس علیحدگی طلب علاقے کا نام ہے کہ شالی سومالی کے پانچ صوبوں کے قبایل نے ۱۹۹۱ سے اسے اپنے اختیار میں لیا ہے اور یہ سومالیہ سے الگ ہو گئے ہیں سومالی لینڈ کا پایتخت ہرجیسا ہے ۔ ابھی تک کسی ملک نے سومالی لینڈ کو سرکاری طور تسلیم نہیں کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کو صرف سومالیہ سے الگ ہوئے خود مختار علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ امارات نے ہوائی اڈے اور شہر بر برہ کے ساحل کو اجارے پر لینے کا اقدام کیا ہے کہ جس پر مرکزی حکومت نے شدید اعتراض کیا ہے اور اس ملک کے لوگوں نے بھی کئی بار امارات کے اقدام کے خلاف مظاہرے کیے ہیں ۔

فروری ۲۰۱۷ میں امارات نے شہر بر برہ میں جو سومالیہ کے شمال مغرب میں ہے سومالی لینڈ کی پارلیمنٹ سے فوجی چھاونی بنانے موافقت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی جس کے بعد سومالیہ کے نمایندوں نے امارات کو خبر دار کیا کہ اس ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہ کرے ۔

امارات کے اقدامات کی وجہ سے بعض افریقی ملک کہ جنہوں نے ادیس آبابا میں اتحادیہ افریقہ کے تیسویں اجلاس میں شرکت کی تھی انہوں نے سومالیہ میں مداخلت اور اریترہ میں فوجی چھاونی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اتحادیہ افریقہ میں شکایت کرنے کا احتمال ظاہر کیا تھا ۔

ان ملکوں کا ماننا تھا کہ امارات نے سومالیہ میں بد امنی پھیلانے اور اس ملک کے صدر کے خلاف  بغاوت کا اقدام کیا ہے اس کی وجہ خلیج فارس تعاون ملکوں کے بحران میں اس کا موقف تھا ۔

جیبوتی ،

جیبوتی بھی امارات کی موجودگی اور دخالت سے نہیں بچ پایا ہے ۔ ابوظبی نے بہت کوشش کی ہے کہ اس ملک میں بھی فوجی چھاونی ایجاد کرے لیکن جیبوتی کی اجازت کے بغیر امارات کے جنگی طیارے کے جیبوتی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو گئے ۔اس اقدام کے بعد دونوں ملکوں کے حکام کے ایک دوسرے کے خلاف لفظی حملوں میں تیزی آ گئی اور جیبوتی نے اماراتی فوجوں کو ان کی فوجی تنصیبات سے نکال دیا ۔ ابوظبی نے بھی جیبوتی میں اپنی کنسولگری کو بند کیا اور اس ملک کے لوگوں کو اپنے ملک میں داخلے سے روک دیا۔لیکن سال ۲۰۱۶ میں ایک بار پھر امارات کی کنسولگری اس ملک میں کھل گئی ۔

سال ۲۰۱۴ میں بھی امارات کی بنادر کمپنی نے رشوت دے کر دورالیہ پر سامان اتارنے کا امتیاز حاصل کر لیا جو افریقہ میں سامان اتارنے چڑھانے کا سب سے بڑا ساحل ہے لیکن اس ملک کے صدر اسماعیل عمر غیلہ کے راز فاش کرنے کی وجہ سے یہ قرار داد فسخ ہو گئی ۔                   

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی