سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

بشارالاسد کو ایک عادل حاکم اسرائیل کےخلاف ٹکر لینے والا مسلمانوں کی طرف سے صف اول کا مجاہد قرار دیتا ہے

 اردو مقالات مکالمات انقلاب اسلامی ایران سیاسی شام امریکہ/اسرائیل ھدایت ٹی وی کے ساتھ

بشارالاسد  کو ایک عادل حاکم اسرائیل کےخلاف ٹکر لینے والا مسلمانوں کی طرف سے صف اول کا  مجاہد قرار دیتا ہے

بسمہ تعالی

وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ.

 ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

بشارالاسد  کو ایک عادل حاکم اسرائیل کےخلاف ٹکر لینے والا مسلمانوں کی طرف سے صف اول کا  مجاہد قرار دیتا ہے

نیوزنور: بشارالاسد  کو ایک عادل حاکم، ایک مومن حاکم،  فقیہ مجہتد جامع الشرایط، جس  کی سیاست ،جس کی دیانت  اور جس کے علم وفضل وتقویٰ کو دشمن بھی تسلیم کرتا ہے  وہ کہتا ہے کہ ؛بشارلااسد  ابھی اسرائیل کےخلاف ٹکر لینے والا مسلمانوں کی طرف سے صف اول کا  مجاہد ہے اسلئے ہمیں اس کو مضبوط کرنا ہے،  کیونکہ اس نے استقامت دکھائی ہے۔  مگر  اس کے مقابلے میں کہنے والے کہتے ہیں کہ وہی  ظالم ہے۔ وہی جابر ہے۔ وہی خونخوار ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران "شام کے بارے میں زمینی حقائق " کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کہ جس میں لندن، بریکفد، پاکستان،جرمنی اور امریکہ سے آنلاین کالر نے حصہ لے کر موصوف سے سوالات پوچھے کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال:شام کے زمینی حقائق کیا ہیں؟

جواب)آجکل کے زمانے میں  حقائق زیادہ دیر تک چھپتے نہیں ہیں،  میں نے پچھلے ہفتے  نیوریاک ٹائمز میں ایک تحلیل  چھپی دیکھی جس کا میں نے نیوزنور پر ترجمہ کرکے شائع کیا،  جس میں سی آئی اے کے آفیسر"اسٹیون ایل ھال" کہ جو تیس سال تک سی آئی اے میں خدمات انجام دینے کے بعد سال 2015 میں سبکدوش ہو چکے ہیں ان کے بارے میں  یہ رپورٹ  نیویارک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی تھی کہ جس میں  اس نے خود کہا کہ امریکہ ہر جگہ  کسطرح اپنے حق میں ماحول بناتا ہے اور اس حوالے سے کیا کررہا ہے۔سی آئی اے کے ایک اور انٹلی جنس آفیسر "  لاک کے جانسن"  جو اس کا ساتھی رہا ہے اس نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اس قسم کی  کاروائی کرنے کا طریقہ 1947ء سے شروع کیا ہوا ہے۔  جانسن نے روزنامہ  نیویارک ٹائمز  کو یہ بھی بتایا کہ ہم  پمپلٹ،  ایس ایم ایس پیغام رسانی کے  نظام کو استعمال کرتے ہیں اورغیر ملکی اخبارات میں غلط معلومات  پھیلاتے ہیں ہم اس سلسلے میں  کیش بیگ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ امریکی  محاذ کو ایک ایک سرحد پر برُی شکست  ہورہی ہے اس لئے ایسے ہتھکنڈوں کا بازار گرم کرنے لگے ہیں۔آج جب شامی حکومت  پورے اقتدار میں ہے اورحالات پر قابو پایا ہوا ہے تو ایسے میں اس کو  کیا ضرورت آن پڑی  وہ ایسی حرکت کرے جس سے اس کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے۔

اورمزے کی بات دیکھیں کہ  جنہوں نے شامی حکومت کے خلاف عام شہریوں کا قتل عام ثابت کرنے کی نمائش رچائی تھی، آج کل چونکہ ہر کسی کے ہاتھ میں سمارٹ فون  ہوتا ہے انہوں نے بھی اس منظر کو اپنے کیمرے میں قید کرلیا جس میں دیکھا جا رہا ہے کہ کفن کے نیچے کوئی مردہ نہیں بلکہ زندہ لوگ ہیں جو ڈرامہ رچا رہے ہیں اوران کو ڈسپلے پہ  رکھاگیاتھا،جو کہ  اسی جو کیش بیگ جو سی آئی اے آفیسر کے بقول اس کا آوٹ پٹ ہے۔ اورایسی ڈیماسٹریشن دینے کیلئے انہوں نے جن بچوں پہ  کفن اوڑھ کے رکھا تھا کہ  دیکھئے کس طرح شامی حکومت عوام کو،  بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتی ہے ۔اور کفن سے ڈھکے ان  بچوں میں سے کچھ کو  اس کپڑے سے تکلیف ہوتی نظر آتی ہے ،کسی کو کھجلی آتی نظر آتی ہے، یہ بھی تو دنیا نے دیکھا۔ تو ان استعماری طاقتوں کے یہ ہتھکنڈے ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں، شیطانی جال ایسا ہی  ہوتا ہے۔  مگر شیطانی جال مکڑھی کے جال کے مانند ہوتا ہے بہت ہی کمزور، اس کے مقابلے  مومنوں  کی حقیقت ایک دن عیاں ہوتی ہے ،اگرچہ اس میں دیر لگتی ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس وہ وسائل ،وہ ذرائع نہیں ہوتی ہے  کہ  جسے وہ اپنی حقانیت کو ظاہر کریں۔ توایسے میں  بات ظرافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔جیسے کہ آپ نے ابھی امام خامنہ ای  کے ساتھ شامی وفد   کی ملاقات کی طرف اشارہ کیا۔

ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای مدظلہ العالی کے ساتھ آج جمعرات پہلی مارچ ظہر کوشام کے وزیر اوقاف  اور شام کے  علماء پر مشتمل علماء کے وفد نے ملاقات کی جس میں  امام خامنہ ای نے شام کو اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف  سرحد قرار دیتے ہوئے جمہوری اسلامی ایران  کی طرف سے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف شام  کی مدد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کامیابی آخر کار مؤمن اور مجاہد ملت کی تقدیر ہے اور اس کے لئے شیعہ سنی مشترکات  کی بنیاد پر ایک ساتھ استقامت کرنی ہوگی۔اور ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ وہ دن دیکھیں گے جب آپ قدس میں نماز جماعت پڑھیں گے۔

یہ بہت بڑی  خبر ہے۔ بڑی  خوشخبری ہے جو امام خامنہ ای نے آج  شام کے وفد کو  بتایا کہ؛  وہ دن دور نہیں کہ آپ قدس میں نماز جماعت پڑھیں گے اور مجھے امید ہے کہ ہم سب اس دن کو دیکھ ہی لے گے کہ جس دن آپ قد س میں نماز جماعت پڑھ رہے ہونگے۔ اورانہوں نے اس حوالے سے مزید  یہ  بھی فرمایاکہ؛  یہ دن بھی زیادہ دور نہیں، بہت جلد ہی آنے والا ہے خواہ ہم جیسے ہوں یا نہ ہوں ۔کچھ عرصہ قبل صہیونی کہتے تھے کہ اگلے پچیس سالوں میں ہم ایران کے ساتھ یہ کرینگے وہ کرینگے۔ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ تم اگلے پچیس سال کو پہنچ ہی نہیں سکو گے۔

 یعنی جو پرڈکشن امام خامنہ ای نے  کی ہوئی  ہے کہ اسرائیل اگلے پچیس سال  نہیں دیکھے گا اوریہ اسی لئے اپنے بچاو کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں،جھوٹی تصویریں  بناتے ہیں تاکہ اپنے حق میں ماحول تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں ،جو کہ اب ممکن نہیں ،اب ان کی سازشیں چاک ہو چکی ہیں۔

سوال: باقاعدہ  مسئلہ صاف نظر آتا ہے اسلام دشمن کو للکارا جارہا ہے کہ آئندہ پچیس سال نہیں دیکھوگے  یہ امام خامنہ ای کا جملہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے نقل کیا ،تو ایسے میں بشار اسد کا کیا کردار  ہے۔؟

ج)بات تو یہی ہے۔ آج امام خامنہ ای نے بہت سارے مبہم سوالات کا جواب دیا ہے۔ امام خامنہ ای نے شام کے صدر بشار اسد  کے موقف کو سرا ہا ہے ، جبکہ بشارلااسد کو  خونخوار اوردرندہ صفت انسان  بیان کرتے ہیں۔ اورامریکہ اوراسرائیل  کو بہشت کے  ملائک قراردیا جاتا ہے۔  مگر اسکے مقابلے میں  امام خامنہ ای جیسا مرد مومن ،مرد مجاہد  بشارالاسد کے موقف کو سراہاتے  فرمایا:شام اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف  صف اول کی سرحد ہے کہ جس پر بشار اسد  ایک بڑے مبارز کی شکل میں ابھرا ہے اور بے شک ثابت قدم رہا اور یہ ایک ملت کے لئے بہت ہی مہم ہے۔

امام خامنہ ای نے ملتوں کی ذلت کا سبب ان کے خود فروختہ رہبر قرار دیتے ہوئے فرمایا:  جس ملت کا رہبر اسلام اور اسلامی ہویت کے ساتھ ظاہر ہو جائے دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے، جس طرح کہ جمہوری اسلامی ایران جو اب چالیسویں سال میں داخل ہو رہا ہے نے دکھایا  جس کے خلاف پہلے دن سے ہی دنیا کی تمام طاقتیں امریکہ ، سویت یونین، نیٹو، خطے کے ارتجاع متحد ہوئے کہ جمہوری اسلامی ایران کو تباہ کریں لیکن یہ انقلاب برپرجا رہا اور رشد کر گیا۔ اور ثابت کردکھایا کہ ضروری نہیں کہ جو کچھ امریکہ ، یورپ او ر ایٹمی طاقتیں چاہیں وہی ہو سکتا ہے۔اگر سبھی مقاومتی عناصر متحد رہیں دشمن کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔

  ان کو ڈر اس بات کا ہے  جس کی وضاحت آج   امام خامنہ ای نے شامی علماء کے وفد کے ساتھ ملاقات کے دوران کی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں نہیں چاہتے کہ اسلام کی اصلی طاقت ظاہر ہو جائے اسی لئے ظالم کو مظلوم دکھایا جارہا ہے اورقاتل کو مظلوم دکھایا جارہا ہے تو یہ سب  ان کی ناکامی اور ناتوانی ظاہر کررہا ہے۔

سوال : اب جبکہ مسلمانوں کے پاس مقاومتی محور  موجود ہےکیا آپ ظہیر قین کے ڈھونڈتے ہیں؟

ج) ہاں،البتہ  اس میں بصیرت کی ضرورت  ہے۔ امام خامنہ ای نے آج اس کی طرف بھی اشارہ کیا  کہ :ہم اس شیعہ کو جسے لندن کی اور اس سنی کو کہ جسے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہو قبول ہی نہیں کرتے کیونکہ اسلام کفر ظلم اور استکبار کا مخالف ہے ۔

تو جو  شیعہ سنی کے اندر خودفروختہ افراد ہیں  جو   مسلمانوں کی اصلی تصویر کو بگاڑ  رہے ہیں  جب تک نہ ہم  اپنے صفوں کو ان سے الگ نہ کریں تو یہ ساری تصویر واضح  نہیں ہوگی ۔

سوال: اس کے لئے تھوڑے ہی لوگ ہونے چاہئے ،مگر نہیں ہیں ،کیا ان کے درمیان ایمان نہیں  اتراہے ۔؟

ج)حقیقت میں آپ نے صحیح کہا  کہ ایمان ہی نہیں اُتراہے، ا گر ایمان ہوتا تو اس مرد مجاہد  امام خامنہ ای کی  بات پہ یقین کرتے۔جو نیکی ہیلی اقوام متحدہ میں بیٹھ کر جھوٹ کہتی ہے  اس کو یہ لوگ  گویا قرآنی آیات تسلیم کرتے ہیں۔ مگر امام خامنہ ای  جس بات کو بتارہے ہیں اس کو نکارتے ہیں یہ تو ایمان کی کمی ہی ہے۔

 لندن سےآنلاین سائل:

ایک کالر ہمارے ساتھ ہیں وہ آپ سے سوال کرنا چاہتے ہیں؛ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا میڈیا نہیں ہے،اتنے سارے مسلمان ممالک ہیں کوئی ایسا مسلمان ملک نہیں جو جھوٹے پروپگنڈے کا توڑ کر سکے اس میدان میں کوئی ترقی نہیں ہوتی ہے ، کیوں؟

ج)آپ نے درواقعہ امام خمینیؒ  کے وصیت نامے  کے جملے کو دوہرا یا۔  انہوں نےاپنے وصیت نامے میں پہلے ہی نکات میں  مسلمانوں کے لئے اپنے آزاد و خودمختار ذرائع ابلاغ کے  ہونے کی تاکید کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔   ایران نے ایسا ذرائع ابلاغ قائم کیا ہے اوراس میدان میں ایک عالمی اسلامی  اتحاد  بھی بنایاگیا ہے ۔اس کے علاوہ  جو آپ پریس ٹی وی[PressTv] کو دیکھ رہے ہیں  یہ ایران کی انگریزی سیٹلائٹ چینل ہے۔  آپ العالم[Alalam.ir] دیکھئے وہ عربی  میں ہے۔ آپ ہسپان ٹی وی وی[HispanTv] وہ سپینش /ہسپانوی میں  ہے[SaharTv]اردو،کرمانسی،کردی، بالکانی ، آذری اور فارسی میں[Irib.ir] ہے۔ مگر ہر جگہ پر اس میڈیا پہ  بین لگی  ہوئی ہے۔ اور مذے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں بین  لگنا،لندن میں بین لگنا، ہندوستان میں بین لگنا، کشمیر میں بین لگنا وغیرہ سمجھ میں آجاتا ہے  مگر اسلامی ممالک میں ان پر بین لگنا وہ سوال  ہے کہ جو کیا جانا چاہئے۔

سوال ھدایت ٹی وی: آخرپھر کب یہ ممالک ایمان لائیں گے ۔؟

ج )اگر ہم چاہتے ہیں کہ  ہماری بات سنی جائے، ہماری  بالادستی رہے  اللہ نے ہمیں اس حوالے سے نسخہ دیتے ہوئے فرمایا ہےکہ" وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ.   " : اگرایمان لے او تمہاری برتری ہے۔گویا ان لوگوں کی ایسی سیاست  ان کے ایمان کی کمزوری بتا رہی ہے۔ ایک طرف  اللہ وعدہ کررہا ہے کہ  تم میرے وعدوں پر ایمان لےآو ،میں تمہاری بالادستی ثابت کردکھاونگا۔مگر یہ لوگ کہیں گے کہ نہیں   امریکہ  سوپر پاؤر  ہے،  ایٹمی پاؤر ہے ، اقتصادی پاؤر ہے  ان کےمقابلے میں ہماری کیا  چلے گی۔ایسے میں اللہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑرہا ہے۔

یہ المیہ ہے،اگرچہ مسلکی تعصب کے رنگ میں بات کرنا  اچھا نہیں لگتا   کیونکہ امام خامنہ ای اس سے منع کرتے ہیں  کہ جس سے مسلکی تعصب  کو  ہوا ملے وہ بات نہ کریں۔  مگر المیہ ہے کہ اکثر اسلامی ممالک یہ جان کے  کہ ایران  اہلبیت ؑ کا پیرو ہے تعصب سے کام لیتے ہیں۔  اورایران کا نام لینا یعنی تشیع کا نام لینا ہے اور تشیع یعنی امام جعفر صادق ؑ  کا نام لینا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام لینا یعنی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  کا نام لینا ہے جس سے  معلوم ہوتا ہے اصل میں ان کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی ہے  ۔جب  ایران کا شیعہ بادشاہ  طاغوتی تھا ،  امریکہ کا نوکر تھا، اسرائیل کا نوکر تھا  تب سبھی ان ممالک کا چہیتا تھا اور  بعض عرب ممالک میں  کوئی اپنی بیٹی دے کر اپنی ہمدلی کا مظاہہ کررہاتھا اور اس وقت شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔

منچسٹر سے آنلاین فون کالر:شام میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کی کارستانی ہے۔

ج)الحمداللہ اسی طرح اگر  عوام کی دل کی بات زبان پہ آجائے  شاید ان حکاموں کو عقل آجائے ۔ دیکھئے بشارالاسد  کو ایک عادل حاکم، ایک مومن حاکم،  فقیہ مجہتد جامع الشرایط، جس  کی سیاست ،جس کی دیانت  اور جس کے علم وفضل وتقویٰ کو دشمن بھی تسلیم کرتا ہے  وہ کہتا ہے کہ ؛بشارلااسد  ابھی اسرائیل کےخلاف ٹکر لینے والا مسلمانوں کی طرف سے صف اول کا  مجاہد ہے اسلئے ہمیں اس کو مضبوط کرنا ہے،  کیونکہ اس نے استقامت دکھائی ہے۔  مگر  اس کے مقابلے میں کہنے والے کہتے ہیں کہ وہی  ظالم ہے۔ وہی جابر ہے۔ وہی خونخوار ہے۔جبکہ اسرائیل کا یہ لوگ نام نہیں لیتے ہیں۔اسرائیل کےساتھ ٹکر لینے کامقصد فلسطین  ہے۔ شام جو اسرائیل سے ٹکر  لے رہا ہے کیوں؟ کیونکہ   فلسطین کے حوالے سے شام کا موقف واضح رہا  ہے ۔شام وہ  اکلوتا عرب ملک ہے جس نے  کسی بھی شکل میں اسرائیل کو  تسلیم نہیں کیا ہے اوروہ  فلسطینیوں کے شانہ بہ شانہ رہا  ہے اور حقیقت میں شام اورفلسطین میں شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مقابلہ ہے ۔ جسطرح محترم کالر نے بھی اشارہ کیا  یہ شیعہ سنی کی جنگ نہیں ہے  یہ اسلام اوراسلام دشمن طاقتوں  کی جنگ اوراس کا  جو محور ہے وہ  اسرائیل اورفلسطین  ہے ۔اورجو فلسطین  کی حمایت کرےگا  وہ اسلامی محاذ ہے  اورجو فلسطین کے خلاف سازش  کیلئے کوئی حرکت کرےگا وہ استعمار کا آلہ کار ہے،یہ ایک  واضح بات ہے۔ اور  اسی بات کو یا نہیں سمجھتے  ہیں کہ کس  سے اسلامی محاذ کو اسلامی مقاومتی محاذ کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور کس بات سے نقصان۔

 جب ہم شیعہ  سنی تفرقے کی بات کرتے ہیں اس وقت دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہا ہے  جسطرح امام خامنہ ای نے آج  بھی فرمایا ،بلکہ بار بار فرماتے ہیں کہ  اسلام کے اصلی دشمن کو پہچان لو دیکھ لو گے کہ وہ  اسلام کے خلاف متحد اورایک ہیں۔ ہمیں اپنے دشمن کی طرف توجہ  مرکوز کرنی ہے نہ کہ  ہم اپنے سنی کو دشمن سمجھےگا اورسنی شیعہ کو اپنا دشمن سمجھے گا۔شیعہ سنی کے درمیان  ایسی کبھی دشمنی نہ تھی نہ ہے ۔اگر شیعوں اورسنیوں کے درمیان اختلافات ہے وہ علمی  ہے، فقیہ ہے ان اختلافات کا  احترام ہے۔ جو شیعہ کا استدلال ہے وہ علمی استدلال ہے۔  جو سنی کا استدلال ہے وہ علمی ہے اس کا احترام  کرنا ہے ۔اورہمارے  اختلافات کوئی جائلوں والا اختلاف نہیں ہے۔  اوریہ چیز دشمن اچھی طرح سے جانتا ہے کہ  مسلانوں کے اندر کوئی  وہ اختلاف نہیں ہے جس سے  وہ ایکدوسرے کے دست گریباں ہوجائیں۔ اگر یہ متحد ہوجائیں تو ان کی خیر نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ جڑ جائیں اور اپنی صلاحیتںوں کو بروی کار لائیں   تو ان اسلام دشمن طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے ہونگے۔اور وہ    یہ دن دیکھنا نہیں چاہتے  اسلئے  ایسی سازشوں کورچایا جارہا ہے۔

سوال : جیسے کہ آپ فرما رہے ہیں  بشارالاسد کو جو سزادی جاتی ہے وہ فلسطین کی حمایت کے لئے ہے اور یہ دنیا جانتی ہے  تو پھر ہمارے صحافی حضرات  کیوں کچھ اور فضا پیش کرتے ہیں؟

ج) میں نے پہلے ہی اس سوال کا جواب دیا  جو سی آئی اے امریکی  خفیہ ایجنسی کے سابقہ آفیسر ل  لاک کے جانسن نے کہاہے کہ   ہم کیش بیگ کا استعمال کرتے ہیں،  کیش بیگ کےذریعے سےہم ان کو خریدتے ہیں  اوراپنے من پسند انداز میں  ہم ماحول بناتے ہیں ۔

سوال : پوری ملت خاموش  کیوں ہے  کیا مکتب اہلبیتؑ کو  شجرہ ممنوعہ قراردیا جاتا ہے یا یہ کہ ظہیر قین کی تلاش ہے؟

ج)یہ عوام کی بات نہیں ہے۔ آپ سنیوں میں  کسی ایک نہیں دکھا سکتے ہیں کہ جو اہلبیتؑ  کے نسبت بغض رکھ رہا ہو۔یہ واضح بات ہے کہ   یہ کچھ پرمننٹ لوگ ہیں  جن کو ایسا ٹاسک دیاگیا ہے ۔البتہ زمانہ  سنیوں میں وقت کے ظہرقین کو ڈھوندتی ہے  جو اپنے عقیدے پر قائم  رہے، جو اپنی سنیت پہ قائم رہے  مگراہلبیت ؑ کےساتھ میدان میں کود پڑے۔ نہ اہلبیت کے محبت میں گھر میں بیٹھ کے درودے پڑھتے رہے اور اپنی اراتمندی ظاہر کے  ۔ ابھی  اہلبیتؑ  کی علم ایران میں بلند ہوئی  ہے اس علم کو حقیقت میں مقاومتی محاذ کہاجاتا ہے  اس کے ساتھ جڑ جانا ہے  تبھی جاکے اسلام دشمن طاقتیں نیست نابود ہوجائیں گے ۔

سوال: مگر وہ  تو  ایسا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ایران کوصرف ایک شیعہ آئیڈیولاجی دیکھتے ہیں۔؟

ج) حقیقت یہ ہے کہ شیعہ ہمیشہ سے ، اول سے ہی مظلوم رہے ہیں۔  آپ جسطرح  دیکھ رہے ہیں کہ حکومت  کے ہاتھ کتنے مضبوط  اورلمبے ہوتے ہیں۔  امریکہ کہاں پہ بیٹھ کے پوری دنیا  کو چلا رہا ہے۔  حکومت اورسوپر پاؤر جو  آجکل کے زمانے میں ہے ماضی میں تھی،البتہ ابھی ان کو پیچیدگیوں کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا  ہے۔ اورشیعہ روز اول سے  ہی حکومت اور سوپر پاویر کے مقابلے میں محکوم رہیے ہیں  مظلوم رہے ہیں  ،چاہئے وہ بنی امیہ  کی حکومت رہی  ہو یا بنی عباس کی رہی ہو،  ہمیشہ ان کے خلاف جو زہر افشانی کی گئی ہے ایسے میں جنہوں نے کل تک  ان شیعوں کو کافر کہا،ان کو اسلام سے خارج قرار دیا  وہ آج  کیسے  کہیں گے کہ یہی تو اصل اسلام ہے، اہلبیتؑ یہی تو ہیں، ایسا کہنا ،اپنی غلطیوں کا اعتراف  کرنا ان لوگوں کو مشکل ہوتا ہے ۔البتہ جو آ زاد فکر کے لوگ ہیں،  عوام جو ہے جو مطالعہ کرتے ہیں  وہ اس قسم کے  تعصب کاشکار نہیں ہیں  وہ انصاف سے کام  لے رہے ہیں۔  جسطرح ابھی فلسطینی  یہ جانتے ہوئے کہ  وہ خود سنی ہیں، مگر اس شیعہ کی اہمیت  کو سمجھ رہے ہیں کہ سنیوں نے  نام نہاد حکام نے کسطرح وہاں  ان کا سودا کیا اگر یہی اہلبیتؑ کے چاہنے والے میدان میں نہیں اترتے ان کی حمایت نہیں کرتے تو ان کا کیا حشر ہوا ہوتا ۔اسی طرح شام  کےساتھ ،اسی طرح عراق کے ساتھ،لبنان ،یمن وغیرہ کے ساتھ  ہر جگہ جہاں پر  بھی سنی مسلمانوں کو  کا سودا کیاگیا اہلبیتؑ  کے چاہنے والے جو امام حسین ؑ  کی اعزداری کی  برکت سے سیاسی داو پیچ سمجھ رہے ہیں کہ کس سے اسلام  کی روح  اصلی شکل  میں باقی رہی ہے۔ جس وقت  بھی اگر کربلا وجود میں آیا ہر اس  زمانے میں سنیوں میں  کربلا کا ظہرقین  اٹھا اور شیعوں میں  بھی کربلا کا  حبیب ابن مظاہر اٹھا ہے ۔اب بھی اسی طرح ظہیر قین،وھب کلبی، علی اکبر کو اور عباس کو اُٹھنا ہے  تبھی جاکے  اسلام اپنی شکل میں محفوظ  رہ سکتا ہے نہیں تو  کربلا جیسی وہ حالت حاکم ہوگی  کہ جس سے پھر یزید اور یزیدیت   کا بول بالا ہوگا۔البتہ آج کا جو دورہے اس میں استعماری  حکام کو  الگ تھلگ ہونا ہی پڑےگا۔ آج یا کل ایسا ہونا ہے،اب  وہ دن دور نہیں  ہے۔ جسطرح کل یہاں ایران میں یہ سوچنا  بہت مشکل تھاکہ  کیا یہاں شاہنشاہیت  کا خاتمہ ہوگا،کبھی ایسا سوچنا بھی  محال سمجھا جاتا تھا۔  مگر جب عوام نے فیصلہ  کیا اور سینہ پیٹ پیٹ کے  حسین حسین کرکے رضا شاہ پہلوی کو ایران سے نکال باہر کیا۔ آج اسلام دشمن طاقتوں کے  کرایہ دار حاکموں کو اسلامی ممالک سے نکالنے کے لئے سینہ پیٹ پیٹ کے  نکالنے کی ضرورت نہیں  ہے بلکہ  درودیں بھیج کر ان کو نکالیں گے ۔تکبیریں سنا کے ان کو فارغ کرنا ہے ۔

 وہ دن بھی دور نہیں کیونکہ اب عوام بیدار ہو رہی ہےجسطرح ابھی گجرات پاکستان سے اس بہن نے بھی خوبصورت طریقے سے  کہا،جبکہ یہ کسی سیاستدان کو کہنا چاہئے تھا، آپ کے ٹی وی کےساتھ رابطہ کرکے  یہ بات رکھنی تھی مگر آپ  نے دیکھا کہ نہ کسی سیاستدان نے نہ  کسی صحافی نے آپ سے رابطہ  کیا بلکہ عام  انسان نے رابطہ کیا اوراُمت کی دل کی دھڑکن  کی بات بتائی۔ تو یہ کب ہوگا جب اُمت خاموشی توڑےگی اوریہ کوئی معجزہ نہیں   یقینا ہونے والا ہے۔

سوال : ترکی نہ اسرائیل سے روابط توڑتا ہے نہ ہی امریکہ سے مگر اسلام اور مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے کا دعوی کررہے ہیں کیا ایسا دوہرا معیار نہیں ہے ؟

ج) بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ اسی  کھیل کا حصہ ہے جسے عالم اسلام میں غالبا کھیلا جا رہا ہے اور عوام کی   معصومیت کو دیکھئے کہ   ان کو ان شیطانی سازشوں اورچالوں کو نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ترکی کیا کررہا اس کو سمجھنے کیلئے  برصغیر کی طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں جو کہ چونکا دینے والی بات بھی نہیں  ۔ہمارے  دو کشمیر ہیں بلکہ تین ہیں ،ایک پاکستان زیر  انتظام کشمیر ہے کہ جسے آپ آزاد کشمیر کہتے ہیں۔  اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتا ہے وہ صرف آزاد کشمیر کا نام دینے کے بجائے  پہلے ہی دن اس کو ایک آزاد ملک تسلیم کرتا  تو پھر دیکھا جاتا کہ ہندوستان اپنے زیر انتظام  کشمیر کو پھر کیسے اپنے  قبضے میں باقی رکھ سکتا ہے۔ایسا  نہیں کیا جا رہا ہے اوراس مسئلے کو لے کر مسلمانوں کے نام پر کتنا خون بہایاگیا اور نام نہاد دشمنی کا راگ الاپ کرآسان کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ترکی بھی ایسا ہی کررہا ہے شام میں اور دوسرے لوگوں  کے فکروں کو،  جذباتوں کو  ان کو کیش کرنے کیلئے نمائشی حربے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔  مگر جو چیزیں فتنے کی جڑ ہیں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ روابط ایسے اصلی  اشیو کو اڈریس کرنا، ایسے موضوع کو  کبھی ہاتھ میں نہیں لیا  جاتا ہے  اسی لئے عوام کی بیداری لازمی ہے،  تبھی اصلاح  ممکن ہوگی  جس کے لئے مسلسل ایسے سوالات اُٹھائے جائیں تاکہ جواب ڈھونڈنے کیلئے عملی حرکت وجود میں آئے۔

سوال: جو ترکی سے دو کلر گیس کی دو ٹرالیاں شام پہنچائی گئی اسے کہاں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جرمنی سے ایک اور کالر: جو 56 ممالک ہیں وہ کس کی غلامی کررہے ہیں یہ  سب کو پتہ ہے ان کو پانچ سال کے لئے ٹوپیاں پہناتے ہیں اور عوام پر مسلط کرتے ہیں ۔؟

ج)جو  کلر گیس کی دو ٹرالیاں  لائی گئی وہ بھی اسی کھیل کا  حصہ ہے اب دیکھنا ہے کہ کب اور کیسے اس کو استعمال  کیا جائےگا اور پھر کہا جائےگا  یہ فوج نے استعمال کیا ہے۔  جسطرح آپ نے  بیچ میں سفید ٹوپی والوں کی بات کی اور میں نے پرسوں  بھی ان کے بارے میں بتایا تھا کہ  یہ وہی دہشتگرد ہیں ۔ان کی پول کھل گئی  ہے ایسے ایویڈنس  اور ثبوت سامنے آئے ہیں کہ جہاں دیکھا گیا یہ سفید ٹوپی والے عوام کو بچانا ہے بجائے  ہر  بار پہلے ان دہشتگردوں کو بچانے  کا کام کرتے ہیں۔ تو یہ سب اسی کھیل کا حصہ ہے جو استعماری طاقتیں ہماری صلاحیتوں کو ضائع کرنے کیلئے استعمال میں لاتی ہیں ۔دشمن کو پتہ ہے کہ ان  کے اندر بہت ساری صلاحیتیں ہیں جبکہ ہمیں خود ان اکثر صلاحیتوں کا پتہ نہیں ہوتا ہے جو دوسرےا س کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ جسطرح  آپ کے اس مہمان کالر نے  جو  بات کہی حقیقت  یہی ہے ٹوپی پہنانا یا تاج پہنانے والے یہ کوئی اور ہیں۔اسی لئے ا ن حکام کو پتہ ہے کہ اگر ان کی بات نہیں بڑھائیں گے  وہ ان کی ٹوپی اُتاریں گے،اسی لئے ان کو اپنے پانچ سال اور اپنا دورہ بچانے کی فکر رہتی ہے اوریہ سلسلہ روکنے کیلئے  عوامی بیداری کی  بات کررہے ہیں ۔ وہ تبھی ممکن ہو  کہ جب آپ اسی طریقے سے عوامی افکار کو جنجوڑے گے ، ان کو سوچنے پہ مجبور کریں گے اور  دونوں پہلو سامنے  رکھیں گے کہ دشمن آپ کیلئے کیا کررہا ہے اوردوست آپ کیلئے کیا کررہا ہے اورآپ دشمن  اوردوست کے درمیان کیسے فرق  کریں گے۔جس کے حوالے سےحضرت علی ؑ فرماتے کہ؛ عقلمند وہ نہیں کہ جو غلط اورصحیح کےدرمیان فیصلہ کرسکے  بلکہ عقلمند وہ ہے جو دو غلط کے درمیان زیادہ غلط اور کم غلط کو تشخیص دے سکے اور دو صحیح میں زیادہ صحیح کو تشخیص دے سکے،  اسے بصیرت کہتے ہیں۔  جب تک نہ ایسی بصیرت امت  میں دیکھنے کو ملے تب تک یہ لوگ اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے ،جذباتی  مناظر پیش کرتے رہیں گے اورعوام کے جذبات کے ساتھ استحصال  کرتے رہیں گے ۔

سوال: مسلمان میڈیا پر  صہیونی لابی رنگ کیوں نظر آتا ہے؟

ج)ہم دونوں ایک ہی بات کو الگ الگ انداز میں کرتے ہیں۔اس وقت اردومیڈیا خصوصاً پاکستان کی بات کریں کیونکہ ہم  اردوزبان میں بات کررہے ہیں اس لئے اردو میڈیا کو لیتے ہیں کیا  آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا کسی ٹی وی  چینل نے، کیا کسی اخبار نے آج کی اس خبر کو کہ  عیسیٰ نخیفی  جو سعودی عرب کا ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہے کو حکومت کی سیاست پر اعتراض آمیز جملہ استعمال کرنے کیلئے  صرف یہ جملہ لکھنا کہ حکومت  زیادتی کررہی ہے ، یہ لفظ استعمال کرنے کے لئے  چھ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔

سعودی عرب میں  عیسی نخیفی کے بارے میں  کوئی بات نہیں کر رہا ہے کہ  اس کاجرم کیا تھا  بات کررہے۔ اس کے مقابلے میں  دیکھئے کہ اقوام متحدہ میں  سعودی عرب کو  یمن کے بارے میں ا نکے ایفرٹس کو سرایا گیا ہے اور کمترکسی نے  اس پہ کوئی اعتراض  کیا کہ جو سعودی عرب چارسالوں سے یمن میں  نہتے لوگوں پہ بمباری کررہا ہے اس  کو اقوام متحدہ  امریکہ نوٹ آف تھینکس  دے رہا ہے۔

 آپ المیہ دیکھئے  کہ  کس طرح مسلمان صحافی بی بی سی  اور وئس آف امریکہ کی رپورٹنگ کو آنکھیں بند کرکے نقل کرتے ہیں ،ایسے میں ان صحافی حضرات سے پوچھیں  کیا آپ نے نوم چومسکی  کا نام سنا ہے۔جواب میں کہیں گے ،  کیوں نہیں سنا ہے، اتنے بڑے معروف شخصیت ہیں ۔امریکہ کے ہیں وغیرہ۔تو پھر ان سے پوچھیں کیا آپ نے بی بی سی اور وئس آف امریکہ اور سی این این سے کوئی بات  ان کی پڑھی ہے؟ بی بی سی کو چھوڑیں وہ تو برطانیہ کا ہے وہ چونکہ خود  امریکہ کے ہیں کیا آپ نے اسی سی این این کے ذریعہ ان  کی بات سنی ہے؟ سی این این ان کی بات کو کیری نہیں کرتا ہے اس کے ہمنوا بھی   نہیں کررہے ہیں۔ کیوں؟   کیونکہ وہ امریکی مظالم  کے خلاف بات کررہا ہے  کہ جو امریکہ کی  عوام مخالف  پالیسیاں ہیں  ان  کی بات کررہا ہے ۔اس کے مقابلے میں نام چامسکی کو کون جگہ  دیتا ہے پریس ٹی وی جو ایرانی میڈیا ہے۔امریکی شہری خود کہتے ہیں کہ پریس ٹی وی وئس آف وئس لس پیپل ہے ،بے زبانوں کی زبان ہے ۔دوسری طرف دیکھیں ہمارے پاکستان  میں دوسرے ممالک میں پریس ٹی وی سے نفرت ہے جبکہ دنیا بھر کے آزاد افکار کے غیر مسلمان اسی  اسلامی میڈیا  کو اسی  پریس ٹی وی، العالم،ہسپان  ٹی وی وغیرہ  کو اپنے ترجمان تسلیم کرتے ہیں۔کیونکہ   جو بھی بے گناہ جس کے فریاد کوئی نہیں سنتا یہ میڈیا اس کا ترجمان بنتے ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلم ممالک پوری ان پر بین لگائے بیٹھے ہیں اور کوئی اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا،  اس پہ کوئی بات نہیں کررہا ہے، اس پہ کوئی خاموشی نہیں توڑ رہا ہے ۔ تو ایسے میں آپ کس پہ روئیں گے اپنے نادان دوستوں پہ یا دانا دشمن پر۔

سوال : میں اسی دُکھ کو پکڑ رہاہوں بار بار کہارہاہوں کہ ایمان کب لاوگے،  جو تمہارے طاقت کا محور ہے اسے دور بھاگ رہے ہوکیوں۔؟

ج)اس میں اگر ہم تعصب کی بات بھی کریں  گے ،تعصب کے تناظر میں  بھی شیعوں کے پاس  اسکے بغیر کوئی اوپشن  ہی نہیں ہے  ان کو سنیوں کےساتھ  مل کے چلنا ہے اورسنیوں کیلئے بھی اس کے علاوہ  کوئی اوپشن نہیں ہے کہ ان کو شیعوں کے ساتھ مل کے چلنا ہے،  یہ طے ہے۔ اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے، خوشحال رہنا ہے  ان دونوں بھائیوں شیعہ اور سنی کو کو  جو اسلام کے دوپر ہیں  ان کو ایک دوسرے کے تال میل کےساتھ چلنا ہو گا ۔

 

برچسب ها بشارالاسد شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی