سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

واشنگٹن سے ریاض تک ، کثیر اصلاحات کے پیچھے ولیعھد کا مقصد کیا ہے؟

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب امریکہ/اسرائیل

واشنگٹن سے ریاض تک ، کثیر اصلاحات کے پیچھے ولیعھد کا مقصد کیا ہے؟

واشنگٹن سے ریاض تک ، کثیر اصلاحات کے پیچھے ولیعھد کا مقصد کیا ہے؟

نیوزنو:سعودی عرب   میں اصلاحت  کا مقصد صرف  ولیعھد کے مخالفین کی سرکوبی نہیں ہے بلکہ   یہ   ریاض کی حمایت حاصل کرنے اور  بین الاقوامی نظام کو جواب دینے کی امریکی پالیسی ہے۔  

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کےمطابق  یونیورسٹی کے  پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر احمد بخشایشی اردستانی نے سعودی عرب اور اس کے ولی عہد  کی پالیسیوں میں حالیہ اصلاحات کے طول و عرض اور پوشیدہ اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا۔

 فوجی شعبے میں سعودی عرب کی حالیہ اصلاحات  اور حتیٰ عورتوں کے مسئلے میں انجام دینے والی اصلاحت ، قدرت کو شہزادوں کی دوسری نسل سے تیسری نسل میں منتقل کرنے سے مربوط ہیں ۔  لہٰذا تجزیہ کی سماعت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ سعودی عرب کے جواب ولی عہد محمد بن سلمان صرف  اپنے لئے باعث خطر عناصر کو حذف کرنے یا  مستقبل میں سعودی عر ب کی حاکمیت کی چکر میں ہیں ۔ کیونکہ ولی عہد  کی  پالیسیوں  کا صرف ایک حصہ مخالف اور ممکنہ طور پر خطرناک عناصر کو ہٹانے کے لئے ہے، لیکن باقی  چیزیں ٹرمپ  اور اس  کی ٹیم کی پالیسیوں سے جڑی ہیں ۔

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ٹڑمپ کے داماد (جرد کوشنر) کے ولی عہد کے ساتھ  بہت گہرے روابط ہیں  اور اس تناظر میں ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ ٹرمپ کا سب سے پہلا سفر  سعودی عرب اور مقبوضہ علاقوں کی جانب تھا۔  دوسرے الفاظ میں  ٹرمپ اور اس کی ٹیم  ولی عہد کے متعلق اپنی سیاست کو اقتصادی اور تجارتی روابط کی نظر سے دیکھتی ہے۔  امریکی اور سعودی قرارداد کے تحلیلگر  ان مطالب کو آشکار کرتے ہیں کہ  امریکہ سعودی شھزادے سے سیاسی منافع حاصل کرنے کے علاوہ  اپنی سیاسی حمایت کو عیاں کرتا ہے  کہ جسکا دوسرا حصہ  ریاض میں اصلاحات کی شکل میں نظر آتا ہے۔

ہمیں یاد  ہونا چاہئے  کہ سعودی عرب  کے شاہی خاندان نے امریکہ کے حالیہ انتخابات میں ہلیری کلنٹن کی حمایت کی تھی لیکن اس کا نتیجہ بر عکس نکلا؛  اس بات کی  ایک مثال  شاہ ایران اور خاندان پہلوی کی جرالد فولد کے مقابلے میں جیمی کارٹر کی حمایت کا نمونہ ہے ۔  اور اس زمانے میں خاندان پہلوی کی حمایت کا بر عکس نتیجہ نکلا  اور پھر ایران امریکی مقاصد کو قبول کرنے میں مجبور ہو گیا ؛ جیسے کہ ایران مجبور ہو گیا کہ   مصر اور اسرائیل کو ایک دوسرے سے قریب کرے ۔ لہٰذا موجودہ حالات میں  خاندان سعودی کے سامنے بھی ایسے ہی حالات ہیں ۔

لہٰذا سعودی عر ب کا  ولی عہد اس  بات پر مجبور ہے کہ اپنی حکومت کا مستقبل مضبوط کرنے کے بجائے امریکہ کو ٹیکس ادا کرے اور اس کے منافع کے لئے کام کرے ۔  جیسا کہ ٹرمپ اور اس کی ٹیم نے ولی عہد کے ساتھ  مختلف شعبوں میں اصلاحات پر مشروط تعاون کیا ہے  ۔  کیونکہ جمہوریت پسندوں کی نظر میں ریاض کے ساتھ ان حالات میں تعاون کرنا چاہئے کہ جب وہ ایک ترقی پسند اور متمدن حکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

چند روز قبل اس ملک کی فوجی سطح پر پیش آنے والی اصلاحت کسی حد تک ولی عہد  کے سازشی نظریے کی عکاسی کرتی ہیں اور اس کا حصہ یمن کے حالات سے بھی مربوط ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ سعودی عرب یمن میں کھڑا ہوگا  لیکن یہ انصار اللہ اور عوامی انجمنوں کو شکست نہیں دے سکتا ؛  کیونکہ جب ریاض کو اس میدان میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملے گے تو وہ ایران کے خلاف قرارداد کے ساتھ متصل ہوگا۔ اور یہ قرارداد ایسے حالات میں صادر ہوتی ہے کہ جب وہ باب المندب پر انصار اللہ کے قبصے سے پریشان ہیں  اور اسی لئے یورپی ممالک  یمن کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں  کیونکہ ان حکومتوں کو اس علاقے سے گذرنے والی اپنی تجارتی کشتیوں کی فکر ہے۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی