سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

یمنی اور شامی مظلوم مسلمانوں کی فریاد سننے کے بجائے نیکی ہیلی کی اندھی تقلید دیکھنا حیران کن ہے

 اردو مقالات مکالمات سیاسی شام امریکہ/اسرائیل ھدایت ٹی وی کے ساتھ

یمنی اور شامی مظلوم مسلمانوں کی فریاد سننے کے بجائے نیکی ہیلی کی اندھی تقلید دیکھنا حیران کن ہے

بسمہ تعالی

 ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

یمنی اور شامی مظلوم مسلمانوں کی فریاد سننے کے بجائے نیکی ہیلی کی اندھی تقلید دیکھنا حیران کن ہے

نیوزنور: آخر ان سے کوئی یہ سوال کیوں  نہیں کرتا ہے کہ نیکی ہیلی کی باتوں کا معیار کیوں اتنا آپ کیلئے قابل قبول ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرکے جو وہ الزام لگاتی ہے کسی بھی مسلمان گروہ پر آپ آنکھیں بند کرکے اس کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے۔ آپ کے بقول کبھی آپ کہتے ہیں کہ وہ فضلا خورمیڈیا ہے  میں نہیں کہوں گا فضلا خور میڈیا مگر سوال ضرور کرتا ہوں کہ ؛ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران "شامی اور یمنی مظلوم مسلمانوں کی فریاد" کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال:شام کے بارے میں بہت ہی تیزی کے ساتھ جو فوٹو اپلوڈ ہورہے ہیں حقیقی میدانی صورتحال کیا ہے ؟

جواب: اگرسوشل میڈیا میں کاپی پیسٹ والے سرگرم افراد اس بات سے  بے خبر ہوں کہ شام میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام حکومت کررہی ہے یا حکومت مخالف صہیونی محاذ لیکن صحافی حضرات جو بین الاقوامی امور پر نظر رکھتے ہوں کیا اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ سوشل میڈیا پر اکثر  سرگرم  نام نہاد اہلسنت ارکان کیوں عین وہی عبارت استعمال کرتے ہیں، کاپی پیسٹ کرتے ہیں جو  اقوام متحدہ میں ہندوستان نژاد امریکی سفیر نیکی ہیلی بیان دیتی ہے اسی کی تکرار ہوتی ہے۔ ایسے میں  کیا ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ نیکی ہیلی کا بیان کیوں آپ کے لئے مذہبی تقدس سے بڑکر نظر آتا ہے ۔

شام کے مشرق میں  شامی فوج کی دہشتگردوں کے  مہم ترین ٹھکانے کا صفایا کرنے کی کاروائی کے دوران ترکی سے  کلر گیس  کی دو ٹرالیاں "ریف" پہنچ گئی  اور"سفید ٹوپی" نامی کاروان فوجی کاروائی کو رکوانے کے غرض سے بین الاقوامی  حمایت کے ساتھ نیا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔

سفید ٹوپی نامی جماعت جنہوں نے خود کو "غیر مسلح شامیوں کا دفاع"نام دیا ہے، ایسی تنظیم جو شامی عوام کو بچانے کیلئے ہے لیکن حلب کے واقعے نے جس بات حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہ یہ کہ اسی جماعت کے ارکان  سفید ٹوپی والے ارکان کے عنوان سے عسکری پسندی کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔عربی پورٹل العہد نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ سفید ٹوپی نامی جماعت عوام میں ماسک تقسیم کرتے ہوئے فوٹو اپلوڈ کرکے  ثابت کرنےکی کوشش کررہے ہیں حکومت عوام کے خلاف کیمکل گیس استعمال کررہی ہے۔جو کھیل 2013 میں غوطہ میں کھیلا گیا تھا جس میں 1300 عام شہری مارے گئے  وہی دوہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس وقت بھی شامی فوج زبردست پیش قدمی  کررہی تھی  تو آج کی جیسی صورتحال بھی ویسی ہے اس وقت بھی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی لیکن عملی طو ر ثابت نہ کرسکے۔

سیزفائیر جو اعلان کیا گیا یہ عسکری پسندوں اور امریکی حمایتی تنطیموں کو راحت پہنچانے کے لئے ہے ۔مشرقی غوطہ کی اہمیت جغرافیائی اعتبار سےدارالحکومت کے  نزدیک ہونے کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے  او ر یہ دہشتگردوں کے کنٹرول میں ہے  ۔اور دہشتگرد علاقہ برزہ اور علاقہ قابون جیسی کاروائی دارالحکومت کے لئے انجام دیں۔مشرقی غوطہ کے خلاف اس بار جو بڑی کاروائی شروع  ہوئی اور جس میں شامی افواج کو روسی جنگی جہاز بھرپور حمایت کرہے ہیں اور اب جب کہ غوطہ مکمل محاصرے میں آ گیا ہے جہاں  امریکی اور بعض یورپی فوج پھنس گئے ہیں اب ان کو حفاظت کے ساتھ نکالنے کے لئے سیز فائر کے بہانے کوشش کی گئی ہے۔

سوال : جو امریکی کولیشن نے حملہ کیا ہے ،دہشتگردوں کی پسپائی ہوئی ہے ایسے میں شامی فوج اپنے عوام کو کیوں  ماررہی ہے ؟

ج)یہ ہر اعتبار سے ناانصافی  ہے۔ آپ دیکھئے شامی حکومت نے اسوقت 75 فیصد سے زیادہ دہشتگردوں کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس لیا ہے ان پر پورا کنٹرول سنبھا ہے یعنی حکومتی افواج اس وقت غالب ہیں  اور کامیابی کی چوٹی کو پارکررہی ہے اور ایسے میں کیوں ایسی کوئی بیوقوف حرکت کرنے کی ضرورت پڑے گی کہ جس سے دشمن کو غالب آنے کی فرصت ہاتھ میں دے،اپنے ہی لوگوں کو کیوں مارے ۔اگر حکومت ایسا کرتی ہےیہ عقل و شعور، فوجی اور سیاسی  اعتبار  کی مردود ہے وہ کیوں ایسا کرے گی ۔

اس سے پہلے بھی اس قسم کے الزامات لگائے گئے  اور پھر  ثابت نہیں ہوا۔ ابھی اس موضوع کو لے کر کہ جو کمیکل ویپن کو استعمال کی بات کی جاتی ہے۔کیا جو کلر گیس سے بھری  دو ٹرالیاں  ترکی سے ریف پہنچائی گئیں اور یہاں پہ استعمال میں لائی گئی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ اور کوئی بتائےکس فوجی حکمت عملی کے تحط، کس حکومتی نظریئے کے تحت شام کو اس کلر گیس کو لانے اور استعمال کرنے کی کیا ضرورت پڑھتی کہ وہ اپنے نہتےشہریوں کو مار ڈالے۔ کس وجہ سے؟ کیا شامی فوج کمزور ہورہی تھی کہ ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبیں گے صنم والی بات کرتے۔حکومت کیلئے اپنے شہریوں کو مارنے کا کیا معنی بنتا ہے ؟۔

 بے گناہوں کو جسطرح مار کے ان کی تصویرے بناکے ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ اسی طریقہ کار کا حصہ ہے کہ  جو امریکہ  ابھی تک اختیار کے ہوئے ہے۔ جبکہ ایکطرف امریکہ خود کہہ رہا ہے کہ داعش انہوں نے بنائی ہے، القاعدہ کو بنایا ہے اوراس کے بعد القاعدہ کے خلاف ہی یہ اپنا آپریشن شروع کرتا ہے۔امریکہ سے یہ سوال  کوئی نہیں کررہا ہے جب دہشتگردوں کو خود بنایا ہے تو اس جرم کی سزا دوسروں کو کیوں دیتے ہو؟

 اگر ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ داعش کو اوباما اور کلنٹن  نے بنایا ہے تو خود اوباما اور کلنٹن کے بجائے داعش کے کے خلاف نام نہاد جنگ لڑرہے ہیں یہ امریکہ جو شیطانی لپا چھپی کا جو کھیل کھیل رہا ہے یہ سب عوام کے اذہان کو گمراہ کرکے انہیں اپنے کھیل کا  حصہ دار بناراہے ۔

 افسوس کا عالم ہے،اکثر مسلمان صحافی امریکہ جو بھی اپنے  حریفوں کے خلاف سرکاری طورالزامات عائد کرتا ہے  کو مقدس آیا ت کی طرف سے تسلیم کرتے ہیں۔امریکہ نے دعوی کیاکہ عراق میں صدام کے پاس ماس ڈسٹرکشن ویپن ہے،چڑھائی اگرچہ وہاں پھر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا،پھر افغانستان، پھر شام بعد میں یمن کو تباہ کیا کس نام پہ؟ کیا جو کچھ امریکہ نے کہا سچ ثابت ہو رہا ہے کہ جھوٹ۔یمن میں ابھی کیا ہورہا ہے، شام میں کیا ہورہا ہےاس کے پیچھے ایک ہی شیطان امریکہ ہے مگر ہمارے اکثر نادان مسلمان صحافی امریکہ شیطان  کو رحمان کہتے ہیں اورجو اس شیطان کے خلاف صف آراء ہو رں ان کو شیطان کہتے ہیں ۔

سوال:شام کے موجودہ حالات میں ترکی کا کیا کردار ہے،خاص کر اس حوالے سے کہ جو اس نے بہت بلند و بالا دعوے کئے کہ وہ  امریکہ کی پالیسز سے بالکل جدا ہورہی ہے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں کس حد تک قابل اطمنان ہے؟

ج)ترکی کا جو ڈیول سٹینڈ ہے اس کے پیش نظر کہنا مشکل ہو رہا ہےاگرچہ باربار ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ ترکی کے میڈیا سٹنٹ بیانات  یا اسلامی حریت کے طورپر کچھ بیانات جو دیتے ہیں اس پر اعتماد کریں مگر جو زمینی حقائق ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ ترکی امریکہ کے مفادات کو حمایت کرنے میں عملی طور  نہیں چوکے گی، اگرچہ ترکی بظاہر امریکہ کے خلاف  بیان بازی کے ساتھ نظر آتی ہے مگر امریکی مفادات کے خلاف ابھی تک کچھ بھی نہیں کررہی ہے،نیز اسرائیلی مفادات کے خلاف بھی عملی طورپر ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔البتہ جو امریکہ اوراسرائیل کا  گیم پلان ہے اس کو عملانے کی کوششوں کوعملی طور پر مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔

 اور اسی  صورتحال کا ایک  اورپہلو ہے وہ جو آپ نے بھی دیکھا یا پڑھا ہوگا کہ سعودی عرب نے فلسطینیوں کو دھمکی دی کہ ؛آپ کو ایران اوراسرائیل میں سے ایک کو چننا ہے۔ تو جس طرح اب سعودیہ کی بات کھل کے آگئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اصل تکلیف  اسلامی مقاومتی محاذ  ایران  سےہے  جو شوگرکوٹٹڈ زہر کو زہر بتا کر اسرائیل کے مفادات کو  نقصان پہنچارہا ہے ، امریکہ کے استعماری مفادات کو نقصان پہنچارہا ہے اور استعماری شیطانی سازشوں کی پول کھولنے کا مرکز ایران  ہے۔ اور تکلیف  ایسے محاذ سے ہے ، شیعہ سنی کوئی موضوع نہیں ہے، دراصل ایران شیعہ مرکز نہیں بلکہ یہ اسلامی مرکز بن گیا ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمان مسالک سنی ہوں یا شیعہ جو مقاومتی محور  میں شامل ہیں وہ ایران کو ریڈ کی ہڈی تسلیم کرتے ہیں اوراسی ریڈ کی ہڈی کو توڑ نے کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی والی استعماری طاقتیں   ایسی فضا سازی کرنے کے درپے ہے تاکہ اس مقاومتی محاذ کی  تعمیری پیشرفت کو تخریبی طور پر پیش  کر رہے ہیں تاکہ مسلمان متحد ہوکر اپنے نفع اورنقصان کا خود فیصلہ نہ کرنے بیٹھیں ۔

سوال : یمن  اور شام کے اندر اتنا بڑا قتل عام ہو رہا ہے ایسے میں اسلامی ممالک  کوئی تعمیری اسٹیند کیوں نہیں لیتے ہیں؟

ج)وہ نہیں لے سکتے ہیں کیونکہ امریکہ کے ایما پر حاکم  ہیں۔  آپ کہی بھی اسلامی ممالک  کے درمیان  ایران کو چھوڑ کر  عوامی حکومت  نہیں دیکھیں گے کہ جن میں عوام کا دور کا بھی عمل دخل نہیں ملتا ہے۔ملک سے باہر سے ہی  ڈرافٹ بنتا ہے کہ کس کو وزیر اعظم بننا ہے وہی بنتا ہے۔ کس کو صدر بننا ہے وہی بنتا ہے۔ کس کی حکومت کو اقتدار میں آنا ہے وہی آتی ہے۔ اگرچہ بظاہر خود مثلاً ووٹ دیتے  ہوئے کسی جگہ نظر بھی آرہے ہیں اور جہاں  آمر حکومتیں ہیں وہاں یہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ مسلمان ممالک کے درمیان ایک ہی ملک میں جمہوری حکومت وجود میں آئی ہے جس نے ملک سے باہر پر اعتماد کرنا چھوڑ کر اپنی عوام پر اعتماد کرنے کا تجربہ کیا اور اس کا فائدہ بھی دیکھا او ڈر اسی بات کا ہے   کہ اس ایک  ملک نے سر اُٹھا کر دکھایا،جی کر دکھایا او اپنے اقتصاد کو بھی اور اپنی ضروریات کو بھی تمام تر مشکلات  کے باوجود بھی خود حل کرکے دکھا یا اگر ہر ایک مسلمان ملک  ایسا ہی کرتا ہے تو امریکہ جو اسوقت دنیا کا سوپر پاؤر ہے کل ان مسلمان ملکوں کے چوکٹ پہ  بیخ  مانگتا نظر آئے گا۔  یہ استعماری طاقتیں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں کہ  جن کےپاس اللہ نے تمام تر قدرتی وسائل مسلمانوں کے پیرو ں کےنیچھے  رکھےہوئے ہیں مگر وہی مسلمان ذلت خواری کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ایسے میں ایک ملک نے سر اُٹھا کر جینا سیکھایا اور ثابت کردیا کہ اگر ہم حقیقت میں اللہ پر ایمان لائیں گے ہم ہی  سوپر پاؤر ہیں۔  ایران اور اسلامی ممالک اسطرح نہ اُبھریں، اسلامی حکومتوں کی بالادستی حاکم نہ ہونے پائے اس بات کا امریکہ کو  ڈر ہے اور اسی لئے ان اسلامی ممالک کو اس طریقے سے  آپس میں اُلجھا کے رکھا ہے تاکہ ان کو سوچنے کا موقعہ میسر نہ ہونے پائے ، وہ سنبھل نہ جائیں اوراپنے مفادات کا فیصلہ خود کرنے نہ بیٹھیں ۔اسی لئے مسلمانوں کے جلتے مسائل کو لے کر یہ نام نہاد اسلامی ممالک ان حالات پہ کوئی سٹینڈ نہیں لے رہے ہیں۔ جتنے بھی مسلمانوں کے مسائل ہیں ان کو حل کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کرتے ہیں ۔جن میں صرف ایک اکلوتی حکومت ہےوہ صرف  اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو مسلمانوں کے کلیدی مسائل کو آپس میں بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ اتحاد کے بارے میں میدانی کام کرتے ہیں ۔جو مسلمانوں کی سائنسی میدان میں پیشرفت ہونی چاہئے اس کے بارے میں کام کرتے ہیں ۔جو مسلمانوں کے اقتصادی مسائل ہیں ان کے بارے میں،ایگریکلچر کے بارے میں ،جس میدان میں مسلمانوں کو آگے ہونا چاہئے ان مسائل کو لے کر میدانی کام کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے، ان کیلئے یہ سوال بھی حل ہے کہ امریکہ کو کیا اور کس سے تکلیف ہے ۔وہ یہ کہ  امریکہ یہ دیکھنا پسند نہیں کرےگاکہ کل جو اتنا فقیر ترین عرب ملک یمن ہے  امریکہ کل اسی یمن کی چوکٹ کی دہیلز پہ بیٹھ کے بیخاری کی طرح  کہے گا کہ ہماری کاغذ پہ دستخط کریں، ہمارے ساتھ یہ کاروبار کریں وہ کاروبار کریں۔غرض مسلمان ممالک کو  بلکہ ہر غیر مسلمان ممالک کو بھی اپنے ممالک کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا جہاں عوام  خود اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ کرسکیں۔عوام کو حکومت اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی تب جاکے وہاں پر بھی ایران کی طرح ایسی تبدیلیاں ملیں گی ۔

سوال :تو پھر جو 34 ملکی اتحاد بنا ہے اس کا کوئی  رسمی کردار نظر کیوں نہیں آ رہا ہے؟

ج)میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ان کے حکام اپنے عوام کے نمایندے نہیں ہیں بلکہ استعماری طاقتوں کے عوامل ہیں ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے ممالک میں جو بھی سیاست کے میدان میں آتے ہیں وہ اپنے سروں کو بیچ کے میدان میں آتے  ہیں۔ کوئی ایک سیاست میں نظر نہیں آرہا ہے کہ جس نے اپنے سر کو بیچے بغیر سیاست  کے میدان میں اُترنے کی جرت دکھائی ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کو عوام کے مفاد میں  فیصلہ ساز مؤقف اختیار کرنا ہوتا ہے تو ان کو ٹیلی فون آجاتا ہے کہ خاموش رہو ،یا بغل میں بیٹھا صاحب کان میں کہتا ہے کہ  اس حوالے کوئی بات نہ کریں۔ تو یہ ایسےلوگ ہیں۔ اگر وہ حقیقی مسلمان حکام عوامی نمایندے ہوتے ،جو عوام کے  دل سے نکل کے حکومت کےاقتدار پر فائز ہوتے اورعوام کےدل کی دھڑکن حکومت بن جائے تبھی جاکے ایسا دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ  جہاں کنہی بھی مسلمانوں کو تکلیف ہوگی تو اس حکومت سے فریاد بلند ہو جائے جو کہ ابھی صرف صرف ایران میں نظرا ٓرہا ہے۔ کیونکہ یہاں انسانی  اقدار کی  بنیاد پرحکومت قائم ہوئی ہے اوراسلامی اقدار یعنی انسانی اقدار ہے ۔اس لئے یہ حکومت کسی پر احسان نہیں کررہی ہے کیونکہ اس کا دعویٰ یہی ہے کہ یہاں اسلامی حکومت ہے اوراسلام کا دعویٰ ہی سلامتی ہے اگرچہ باقی مسلمان ممالک بھی  ایسا دعوی کرتے ہیں اورکئی ممالک تو  اسلامی جمہوریہ بھی نام رکھے ہوئے ہیں مگر حقیقی طورپرنہ یہ  اسلامی ،نہ ہی جمہوریہ اورنہ ہی عوامی ہیں،مگر یہ کہ ان ممالک میں بھی انقلاب دیکھنے کو  ملے جس طرح ایران نے  استقلا ل اور آزادی کے ساتھ انقلاب قائم کیا ہو ہے ۔

سوال :مسلمانوں کے مشکلات کا راہ حل کیا ہے؟ کیا لوگ صرف سوشل میڈیا پر ہی پوسٹ   پوسٹ کرتے رہیں گے ۔۔۔؟

ج)یہ جو سارا میڈیا ہے یہ کن کے ہاتھ میں ہے؟ یہ اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جو سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ  ہے یہ ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ یعنی یہ سوشل میڈیا بھی  آپ کے فائدے کے لئے ہوگا جب یہ آپ کا ہو۔  دیکھئے یہاں ایران میں جو حالیہ واقعہ پیش آیا جو بوالیوں  اور موالیوں نے ماحول بنایا اس  میں بھی سوشل میڈیا نے بڑا رول کیا ،ٹلیگرام پر ایک اکاونٹ سے باضابطہ دستی بم بنانے کا طریقہ بتایا  جا رہا تھااور توڑ پھوڑ  کےآپریشن کیسے کریں  وغیر ہ۔ تو اس پر ایران نےاس کو پہلے فیلٹر کیا پھر اس کو بلا ک کیا اور  اس کا آلٹرنیٹ تیار کرنے میں جھٹ گئے اوردوہفتے کے اندر  نیا پلیٹ فارم  ٹلیگرام کے متبادل کے طور پر عوام کے سامنے رکھا  اور کہا گیا کہ آپ نے جو کچھ کرنا ہے خود کریں اب سب آپ کے اپنے کنٹرول  میں ہے۔ تو جب تک نہ ہر مسائل کیلئے آلٹرنیٹ خود مسلمان نہیں ڈھونڈے گیں تب تک مسائل کا حل نہیں  نکلیں گے۔ چاہئے سوشل میڈیا ہے، چاہئے ٹریڈ ہے،غرض  جب تک نہ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈھنے  کیلئے  ہر ملک میں وہاں کے  لوگ خود حل تلاش  کرنے کیلئے ہمت ناباندھے تب تک کوئی حل نہیں نکلےگا اور امریکہ کا سوپر میسی ایسی رہےگی، اسرائیل کی سوپر میسی ایسی ہی رہےگی۔ کیونکہ اکثر ممالک کے پاس ایسا جوہر نہیں ہے   جن کے پاس ہے وہ اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ الحمداللہ  ایران اس میدان میں تیزی سے آگے بڑ رہا ہے ہر  ایک چوٹی کو ایک ایک کرکے فتح کررہا ہے۔ یہ صلاحیت صرف ایران  کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان ملک کو ایسا ہی کرنا پڑے گا بلکہ  ہر غیر مسلمان ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ  کرنا ہوگا اور ہر ایک میں ایسا جوہر موجود ہے ۔

سوال:یہ جو غوطہ شرقی  میں لڑائی ہورہی  ہے کیا یہ دہشتگردوں کا آخری گڑھ ہے ۔؟

ج)بالکل، جو غوطہ کی جغرافی پوزیشن ہے وہ ٹیکنیکلی  بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ جس طرح میں نے پہلے ہی اشارہ کیا کہ اگر دہشتگرد وہاں پر زیادہ دیر رہتے ہیں بہت کچھ کرسکتے ہیں از جملہ یہ کہ  یہ انڈر گراؤنڈ ٹنلیں بناسکتے ہیں جسطرح کہ  انہوں نے شام کے کچھ علاقے میں ایسا کیا تھااور اس کام کافی مہارت حاصل کر چکے ہیں اس قسم کا آپریشن کرنے کا ہنرسیکھا ہے۔ ان  کا وہاں ٹھکانہ رہنا اس لئے بھی  خطرناک ہے کیونکہ غوطہ دارالخلافہ کے نزدیک ہے یہ وہاں سے ائیر پورٹ کو ٹارگٹ بناسکتے ہیں یعنی زیادہ پریشانیاں کھڑی کرسکتے ہیں اس لئے اس بار فیصلہ کن انداز میں جو آپریشن روس کی حمایت کے ساتھ شروع ہواتھا جس سے دہشتگرد گھٹنے ٹیکنے پہ آئے تھے ۔اس بیچ امریکہ ان کو   بچانے کیلئے آیا اور اس میں امریکہ کا دہشتگرد نواز کردار نظر نہ آئے ایک ماحول بنانے کی کوشش جارہی ہے کہ جس سے شامی فوج انتہائی ظالم ثابت ہو سکے۔ جسطرح آپ نے بھی اشارہ کیا وہاں دہشتگردوں کے سرغنہ افراد کو امریکہ نے ہیلی بوڑد کیا، ان کو نکال باہر کیا اورخود جو امریکی آفیسر پھنسے ہوئے تھے ان کو نکالنے کی کوشش کررہی ہے اگر یہ گڑھ دہشتگردوں کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے وہ بہت بڑی پریشانیاں کھڑی کرسکتے تھے شام کیلئے ۔

سوال:شامی فوجیوں کوکنٹرول سنبھالنے  میں   کتنا وقت رہ گیا ہے ۔؟

ج)جب سخت ترین شرائط تھے، جب سمجھو کہ پانچ فیصد دس فیصد کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں تھا تب حکومت نے ہمت نہیں ہاری تھی اب جبکہ آج 75 فیصد سے زائد ہاتھ میں ہے اس کو کس بات کا ڈر  ہے ۔

سوال:اس میں آپ کیا دیکھتے ہیں کہ لڑائی کتنی باقی رہ گئی غوطہ شرقی   میں ۔؟

ج)حلب میں کیا کچھ  بتایا گیا تھا ، آخر کار جو زمینی حقائق ہوں  وہ سامنے آہی جاتے ہیں ۔  شام میں دہشتگرد  جو بار بار سر اٹھاکر ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلکی اختلافات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کبھی کہتے ہیں یہاں مذہبی جنگ لڑی جا رہی ہے ایران شیعہ ہے اور وہ شام جو کہ سنی ہے پہ قبضہ کررہا ہے، اب سنی شیعوں کے انڈر آئیں گے وغیرہ۔ اور مسلکی تعصب کو وہ بھڑکانے کی ہر وقت کوشش کررہے ہیں اورکبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں بعض سنی ان کے دوکھے میں آ جاتے ہیں۔جبکہ میدانی صورتحال کچھ اور ہے ۔ اگر کبھی آپ  شامی سنی عوام سے پوچھیں وہ آپ کو حقیقی صورتحال بتائیں گے، جس طرح ہم یہاں ایران میں  دیکھتے ہیں کہ وہ حکومت کو کس طرح دعائیں دیتے ہیں ۔جہاں جہاں بھی علاقہ دہشتگردوں کے قبضے سے صاف ہوا ہو اوروہاں کےعوام کے بیانات  کو کوئی بھی میڈیا نہیں دکھاتا کہ شامی عوام کیا کہہ رہی ہے ۔وہ حکومت کے زیر سایہ اپنے آپ کو پر امن اورمحفوظ  محسوس کرتے ہیں  یا یہ   جو امریکی حمایت یافتہ تنظیموں   جو عوامی تحریک وغیرہ جیسے خوبصورت نام  کے عنوان سے وجود میں آرہے ہیں ان پہ اعتماد کررہے ہیں۔  کیونکہ انہوں نے جتنی بار بھی ان پر اعتماد کیا اتنے ہی بار انہوں نے یہ احساس کیاکہ ان کی پیٹ پہ چھرا گونپا گیا۔ وہاں پر جھوٹا پروپیگنڈہ  کرنا کوئی نئی بات  نہیں ہے۔  جب وہاں کے معروف امام جمعہ "علامہ البوطی" کو شہید کیاگیا تو ان کی شہادت  کے بعد جب ان کاتشیع جنازہ ہوا پھر کئی دہشتگردوں نے توبہ کیا اورکہا کہ  ہمیں تو پتہ تھا آپ شیعہ ہیں کیونکہ آپ صرف  ایران کی بات کررہے تھے اورایران کی حمایت کرتے تھے  ۔ہمیں پتہ تھا یہ شیعہ ہے مگر ہم نے دیکھا کہ کسی بھی  اعتبار سے   شیعوں سے نہیں ملتے ہیں  وغیرہ۔ایسے بیان جب آئے پھر کئی دہشتگردوں نے توبہ کرلیا۔ تو ایسی ہی صورتحال تقریبا ً دوہرائی جا رہی ہے۔سب  کو پتہ ہونا چاہئے کہ شام میں شیعہ سنیوں کو نہیں ماررہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ وہاں سنی سنیوں کو ماررہا ہے اور شیعہ ان کے درمیان بیچ بچاؤ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ آپس میں نہیں بلکہ  اپنے دشمن کے ساتھ لڑو۔ مگر دشمن  تعصب کو آلہ کار بناکر اپنا الو سیدھا کررہا ہے۔ اسرائیل اورامریکہ اس اندھے تعصب سے بہت ہی فائدہ اُٹھا رہا ہے

اوراس سے  بڑھ کرکیا یہ سوال غور طلب بات نہیں سے کہ جو کچھ نیکی ہیلی کہتی ہے اسے  اکثر مسلمان صحافی قرآنی آیات سے بھی مقدس ترتسلیم کرتے ہوئے سوشل میڈیا یا پرنٹ میڈیا میں کیری کرتے ہیں ۔کیوں؟ اگرچہ نیکی ہیلی کا نام نہیں لیا جاتا ہے البتہ جب وہ کہتی ہے کہ حوثی  دہشتگرد ہیں  یہ سبھی لوگ ان کو دہشتگردی کہتے ہیں۔ جب یہ حماس کو دہشتگرد کہتی ہے وہ سبھی حماس کو دہشتگرد کہتے ہیں، جب وہ بشارالاسد کو دہشتگردکہتی ہے تو یہ سبھی لوگ اس کو دہشتگرد کہتے ہیں وغیرہ ۔تو ایسا کیوں کیا جاتا ہے کیوں ان کی اندھی تقلید  کی جاتی ہے۔  کیوں  اقوام متحدہ میں امریکی سفیر  جوبیان دیتی ہے ،جو پریس  بریفنگ  دیتی ہے تو وہ اکثر صحافی خاص کر میں  اردومیڈیا پر بھی  نظررکھتا ہوں دیکھتا ہوں کہ  برصغیر کے اکثر صحافی جو بی بی سی کی کاپی پیسٹ ہوتی  ہےیا وائس آف امریکہ کی کاپی پیسٹ ہوتی ہے،کیوں  کبھی بھی یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، اپنے ایمان سے کام نہیں لیتے ہیں، کہ دودوچار کرکے دیکھ لیں حقیقت کیا ہے۔

کیوں ان پہ اتنا اعتماد کرتے ہیں اور کیوں نیکی ہیلی کے مقابلے میں ایران کو اتنا بڑا دہشتگرد اور اتنا بڑا ظالم  ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں یہ نیکی ہیلی  اتنی سچی ہے اور کیوں ایران  اتنا جھوٹا ہے۔ یہ میرا  سوال ہے ان سبھی نیکی ہیلی کے مریدوں سے۔

آخر ان سے کوئی یہ سوال کیوں  نہیں کرتا ہے کہ نیکی ہیلی کی باتوں کا معیار کیوں اتنا آپ کیلئے قابل قبول ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرکے جو وہ الزام لگاتی ہے کسی بھی مسلمان گروہ پر آپ آنکھیں بند کرکے اس کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے۔ آپ کے بقول کبھی آپ کہتے ہیں کہ وہ فضلا خورمیڈیا ہے  میں نہیں کہوں گا فضلا خور میڈیا مگر سوال ضرور کرتا ہوں کہ ؛ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

برچسب ها شام

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی