سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی سیاست ، نہ جینے دو نہ مرنے دو

 اردو مقالات سیاسی امریکہ/اسرائیل فلسطین

غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی سیاست ، نہ جینے دو نہ مرنے دو

غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی سیاست ، نہ جینے دو نہ مرنے دو  

نیوزنور:غزہ کے رہنے والوں نے بتایا ہے کہ صہیونی حکومت کے بارہ سال کے محاصرے میں یہ دور ان کے لیے سب سے سخت دور ہے اور ایک صدی سے غاصب حکومت فلسطینیوں کو عاجز کرنے کے لیے جس منصوبے پر عمل کر رہی ہے اس سے بھی انہوں نے پردہ اٹھایا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں زندگی بہت سخت اور دشوار ہو گئی ہے ۔ دو میلیون فلسطینیوں میں سے  کہ جو اس محاصرہ شدہ  علاقے میں زندگی بسر کرتے ہیں کوئی ایک بھی اقتصادی ، معیشتی اور انسانی بحران سےکہ جو ان کی جان کے لیے خطرہ بناہوا ہے بچا ہوا نہیں ہے اور غزہ میں رہنے والے لوگ اپنی روز مرہ زندگی کے ضروریات میں سے صرف جان بچانے کے لیے لوازمات فراہم کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں ۔

ابو محمد نے ویبگاہ العربی الجدید کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا : ۱۲ سال پہلے سے کہ جب غزہ کا محاصرہ کیا گیا تھا ، اور اس وقت سے ہم پابندیوں کے مدو جزر میں بسر کر رہے ہیں کبھی کبھار رنج و الم کی شدت سے تھوڑی راحت ملتی ہے ، لیکن آج ہم محاصرے اور سختی کے اوج کے زمانے میں ہیں اور اس طرح زندگی کی گاڑی آگے بڑھانا ناممکن ہے ۔

اس نے اپنے ہاتھوں سے راستہ بازار کی جانب کہ جو خریداروں سے خالی تھا اشارہ کیا اور کہا : یہ صرف آنے جانے والوں کا راستہ بن کر رہ گیا ہے جو بازار کے پڑوس کے محلے میں جانا چاہتے ہیں ، غزہ میں آ ج کل زندگی ناقابل برداشت اور دشوار ہو گئی ہے بہت سارے مرد اپنے اہل و عیال کے امرار معاش کی طاقت نہیں رکھتے ۔

جب سے اسرائیل نے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ میں فلسطینی حکومت کی تشکیل کے بعد اس علاقے کا محاصرہ کیا ہے اسرائیلی مطبوعات نے اسرائیل کے اس علاقے کے ساتھ سلوک کے طریقہء کار کو فاش کیا ہے ، اس زمانے میں کہا گیا کہ غاصب حکومت غزہ والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قطرہ قطرہ ٹپکانے کی روش پر عمل کر رہی ہے ، یعنی ضرورت سے بہت کم چیزیں بازار میں بھیجی جاتی ہیں  مگر ایسا  بھی نہیں ہے کہ بازار میں کچھ نہ ہو ۔

کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے رہنے والوں کے ساتھ نہ جینے دو اور نہ مرنے دو والی سیاست اختیار کیے ہوئے ہے ۔ لیکن آج بالکل اس کے خلاف ہو رہا ہےاس طرح کہ اجناس فراوانی کے ساتھ بازار میں آتی ہیں لیکن خود مختار حکومت کی حالیہ تدبیروں اور اقتصادی حالات کے بکھرنے کی وجہ سے غزہ کے رہنے والوں کے پاس کچھ خریدنے کے لیے نقد رقم بالکل نہیں ہے ۔

اس کے باوجود اسرائیل علاقے میں ابتدائی ضرورت کی چیزوں کے داخلے پر ممانعت کا دعوی کر رہا ہے کہ جس سے دو طرح سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور مقاومت کے گروہ اپنی توانائی کے حساب سے اس سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں اور یہ مسئلہ باعث بنا ہے کہ بہت سارے کارخانوں نے کام بند کر دیا ہے اور کاریگر بے کار ہو گئے ہیں ۔ 

فلسطین کے قومی صلح کے مسئلے کے سلسلے میں  بھی نا امیدی  کا سلسلہ جاری ہے ، اس کے باوجود کہ حماس کی ایک اعلی رتبہ جماعت قاہرہ میں براجمان ہے لیکن ظواہر امر سے پتہ چلتا ہے کہ اس سفر کا اب تک مکوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے ، ادھر تحریک فتح کی ایک بلند پایہ جماعت بھی اسی زمانے میں قاہرہ میں موجود تھی ،لیکن انہوں نے ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کی ۔ 

حماس محمد دحلان کے ساتھ تعاون کے خلاف ہے ، جو خود مختار حکومت کے سربراہ محمود عباس سے جدا شدہ فتح کا رہنما ہے لیکن اندرونی طور پر وہ ایسا نہیں چاہتی ، اور قومی صلح کا سمجھوتہ شروع ہونے کے بعد کہ جس میں آشکارا پیچیدگیاں اور دن بدن بڑھتی ہوئی بے اعتمادی ہے اس کا دحلان کے ساتھ بعض مسائل پر سمجھوتہ ہو چکا ہے ۔

چند دن پہلے فلسطین کی قومی وفاقی حکومت کے سربراہ رامی الحمد اللہ نے اعلان کیا کہ فلسطین کی حکومت ان ۲۰ ہزار کام کرنے والوں کو کہ جن کو حماس نے فتح کے ساتھ اختلاف کے بعد منصوب کیا تھا دوبارہ اپنے کام پر واپس بلائے گی لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ حماس غزہ میں اپنے بہت سارے وعدوں پر عمل کرے اور یہ وہ چیز ہے کہ جس پر حماس غزہ کے پچاس ہزار کام کرنے والوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی مضمانت فراہم کرنے سے پہلے قادر نہیں ہے ۔

الحمد اللہ کے بیان پر غزہ کے کام کرنے والوں نے مثبت رد عمل نہیں دکھایا بلکہ انہوں نے دھمکی دی کہ اپنے میدانی اعتراضات کو جاری رکھیں گے اور دن کے کچھ گھنٹوں میں کام بند کر کے وہ ہڑتال پر بیٹھا کریں گے اور قومی وفاق کی حکومت کی طرف سے ان کی حالت کو نظر انداز کیے جانے پر اعتراض کریں گے ۔

دن رات میں ۲۰ گھنٹے غزہ کی بجلی کٹ آف رہتی ہے ۔

غزہ کے لوگوں کی زندگی کا کوئی پہلو بھی غاصب حکومت کی پابندیوں سے متائثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے ۔ بجلی کی کٹوتی بعض اوقات دن رات میں ۲۰ گھنٹے تک جاری رہتی ہے ۔ اور غزہ کے پانی کی بھی یہی حالت ہے کئی گھنٹوں تک لوگوں کے گھروں کا پانی بند رہتا ہے ۔

شاید غزہ کا سب سے زیادہ خطر ناک بحران سلامتی کے شعبے سے مربوط ہے جس کے بارے میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بحران کے سلسلے میں داخلی اور بین الاقوامی فریقوں کی شک میں مبتلا کرنے والی خاموشی کہ جو لوگوں کی زندگی کو بری طرح متائثر کر رہا ہے، سلامتی کی صورتحال انتہائی وخیم ہو رہی ہے ۔

غزہ کے اصلی ہسپتالوں میں معمولی آپریشنوں کی تعداد وسایل کی کمی کی وجہ سے کم ہو رہی ہے ۔

قرار دادی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے طبی عملے نے کام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور وہ بھی اس  صورت میں کہ جب کمپنیاں ان کی تنخواہیں دینے پر قادر نہیں ہیں ۔ اس بناپر کہ ان کو حکومت سے جو بجٹ ملتا ہے وہ انہیں نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے اس سلسلے میں ہرج و مرج پیدا ہو گیا ہے ۔

غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے العربی الجدید کے ساتھ گفتگو میں غزہ میں صحت و سلامتی کی حالت کو بہت خطر ناک بتایا اور کہا : بہت سارے نو مولود بچے وینٹیلیٹر نہ ہونے یاخاص نگہداشت کے وسایل کے فقدان کی وجہ سے اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

اس نے مزید کہا : بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹ کی بنیاد پر غزہ میں صحت و سلامتی کی حالت ایندھن کی کمی کی وجہ سے  بہت خراب ہے غزہ میں بجلی کا ایک ہی پاور اسٹیشن تھا جو بدھوار کی رات کو مکمل طور پر خراب ہو چکا تھا  اسی وجہ سے غزہ میں بجلی کی کٹوتی میں اضافہ ہو گیا ہے ۔

غزہ کی پٹی کے اکثر ہسپتال اور ڈسپینسریاں چاہے سرکاری ہوں یا نیم سرکاری  بجلی کے جنریٹروں کے ساتھ چلتے ہیں جن پر ایک گھنٹے میں دسیوں لیٹر تیل خرچ ہوتا ہے۔ اور یہ بھاری خرچ ہسپتالوں کے لیے اٹھانا مشکل ہے ۔

القدرہ  کا کہنا ہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے حکام کو واقعا اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں نوبت یہ نہ آجائے کہ غزہ کے ہسپتالوں کے صرف ایمرجینسی کے حصوں کو فعال رکھنا پڑے ، اور باقی حصوں کو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند کرنا پڑ جائے ۔

غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان نے اظہار خیال کیا : غزہ کے محاصرے کو ۱۲ سال ہوچکے ہیں اور پابندیوں کی وجہ سے غزہ کی صحت و سلامتی کے حصے کو بہت نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے کوئی فوری نوعیت کا کام نہیں ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے غزہ کے ۲ میلیون فلسطینی جوانوں کی جان کو بحران کا سامنا ہے ۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ وزارت صحت اور اس سے وابستہ لیباریٹریاں خون دینے والوں سے خون لینے پر قادر نہیں ہیں ، چونکہ ان کے پاس خون کی ترکیبات کو جدا کرنے کا سزا و سامان نہیں ہے ، ایسی ھالت میں کہ جب غزہ کے لوگوں کی زندگی کی مشکلات میں ایک ایک کر کے اضافہ ہو رہا ہے ، جس چیز کو صدی کا معاملہ کہا جاتا ہے اس کا خطرہ فلسطین کے لوگوں کے لیے بڑھ رہا ہے غزہ میں رہنے والے فلسطینی گروہوں کا ماننا ہے کہ کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ فلسطینیوں کی نابودی کے منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے فلسطینیوں کو اذیتوں کو تحمل کرنے کا عادی بنانے کی کوشش ہے ۔

غزہ والوں پر مصر کا سفر کرنے پر شدید پابندی ،

غزہ کا ایک بیس سال کا جوان احمد ابو جلالہ گذرگاہ رفح سے عبور کرنے اور مصر میں داخل ہونے کے بعد  یہ سوچ رہا تھا کہ اب اس کی مشکلات کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ کچھ ایسے ہفتے اس کے انتطار میں ہیں جن میں وہ ہر طرح کے رنج و عذاب میں مبتلا ہو گا ۔ چونکہ اس کو ایک سو مسافروں کے ہمراہ  مصر کے ہال میں ۳۲ گھنٹے تک گرفتار کر کے رکھا گیا جب تک کہ وہ بسیں پہنچتیں کہ جن کے شیشوں کے کھلنے اور بند ہونے کا امکان نہیں ہوتا ، اس کے بعد ان کے پاسپورٹ لے لیے گئے اور ان کو مصر کی سیکیوریٹی فورس نے سیدھا ائیر پورٹ روانہ کر دیا ۔

حالانکہ رفح کی گذرگاہ سے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک پہنچنے میں صرف چھ گھنٹے لگتے ہیں ،لیکن ابو جلالہ اور ۳۰ سال کے ایک اور فلسطینی مسافر رندا عبد المعطی نے بتایا کہ اس سفر میں ان کو پانچ دن لگ گئے ۔

فروری کی آٹھ تاریخ کو انہوں نے رفح کی گزرگاہ سے عبور کیا تھا لیکن تین دن ان کو سینا کے مرکز میں مصر کی فوج کی ایک چیک پوسٹ الریسہ اور کمین المیدان پر  لگ گئے ، وہ بھی سینا کے اس خراب ماحول میں جس کی وجہ وہاں پر بد امنی ہے ۔

ابو جلالہ کے بقول لمبی مدت تک بس کے دروازے بند ہونے کی وجہ سے کہ جن کی کھڑکیاں بھی نہیں کھل رہی تھیں بسوں کے اندر بہت گھٹن پیدا ہو گئی تھی یہاں تک کہ مسافروں نے ڈرائوروں سے کہا کہ انہیں بسوں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑنے کی اجازت دی جائے اور اس کے بدلے میں وہ شیشوں کی قیمت پیشگی لے لیں ۔لیکن ڈرائوروں نے مسافروں کی بات نہیں مانی ۔

مصر کی تدابیر کی بنیاد پر چالیس سال سے کم فلسطین کے مسافر جو غزہ آتے ہیں یا وہاں سے جاتے ہیں اور ان کے پاس عربی یا خارجی ملکوں کے پاسپورٹ ہوتے ہیں وہ مصر کے ملک میں داخل نہیں ہو سکتے ، یہی وجہ ہے کہ ان کو بند گاڑیوں میں سخت پہرے میں قاہرہ کے ہوائی اڈے پر منتقل کیا جاتا ہے اور جب تک وہ ہوائی جہاز سے اپنے آخری ٹھکانے پر نہیں پہنچ جاتے وہ آزاد نہیں ہو سکتے ۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جو مسافر غزہ جانا چاہتے ہیں ان کو قارہ کے ہواقئی اڈے پر ایک بند کمرے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے جس کا نام ایک اجڑا ہوا کمرہ رکھا ہے۔اور ان کے ساتھ ہر طرح کا توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور وہ لوگ کہ جن کا تعلق خاص گروہوں سے ہے ، یا وہ تعلیم یا علاج کی کاطر مصر جاتے ہیں ان کو ایک ہفتے سے لے کر  تین ماہ تک کا اقامتی ویزہ دیا جاتا ہے ۔

ملک کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۱۷ میں دوسرے برسوں کے مقابلے میں رفھ کی گذر گاہ بہت کم عرصے کے لیے کھلی تھی ، یعنی صرف ۲۹ دن کھلی اور ۲۲۶ دن بند تھی ۔ جن دنوں میں کھلی تھی ان میں تقریبا ۱۱ ہزار مسافروں نے وہاں سے عبور کیا حالانکہ سال ۲۰۱۶ میں ۴۱ دن کھلی اور ۳۲۴ دن بند تھی ، اور کھلی ہونے کے دنوں میں ۲۶ ہزار ۴۳۱ مسافروں نے وہاں سے عبور کیا ۔

سال ۲۰۱۵ میں غزہ کی گذرگاہ ۳۳ دن کے لیے کھلی اور ۳۲ دن بند تھی اور اس مدت میں ۱۴ ہزار ۶۵۶ افراد کو وہاں سے گذرنے کی اجازت دی گئی سال ۲۰۱۴ میں ۱۲۵ دن کھلی اور ۲۴۰ دن بند تھی سال ۲۰۱۳ میں ۲۶۳ دن کھلی اور ۱۰۲ دن بند تھی سال ۲۰۱۲ میں ۳۱۰ دن کھلی اور ۵۶ دن بند تھی سال ۲۰۱۱ میں ۲۶۹ دن کھلی اور ۹۶ دن بند تھی ۔

قاہرہ کے ہوائی اڈے پر ،

ابراہیم حماد غزہ کا بیس سال کا جوان ایک ہفتے تک رنج و الم برداشت کرنے کے بعد آخر کار قاہرہ کے ہوائی اڈے پر پہنچا اور وہاں پر دوسرے ۲۰۰ مسافروں کے ہمراہ ہوائی اڈے کے ایک ہال میں انہیں بند کر دیا گیا ان مسافروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا کچھ وہ مسافر کہ جو  مصر سے باہر جانا چاہتے ہیں اسی لیے وہ پروازوں کے وقت کا انتظار کرتے ہیں جو انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیں اور باقی والے کہ جو عربی ملکوں یا خارج سے آئے ہوتے ہیں وہ غزہ کی گذرگاہ کی طرف  جانے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ بس کے ذریعے غزہ جا سکیں ۔

ابو حماد نےجس ہال میں فلسطینیوں کو گرفتار کر کے رکھا جاتا ہے اسے زندان سے توصیف کیا اور بتایا : وہاں نہ جگہ اچھی ہے اور نہ ہمیں باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے وہاں فرش بھی نہیں ہے بلکہ ہمیں زمین پر یا کرسیوں پر ہی سونا پڑتا ہے ۔

اگر کوئی مسافر کھانا ، پانی ، سیگریٹ یا موبایل چارج کرنے کا کارڈ خریدنا چاہے تو اس کو نگہبان کو پیسے دینا پڑتے ہیں تا کہ اس کے لیے وہ سامان خرید کر لائے جن کی قیمت معمولا دوگنی ہوتی ہے ۔

گذشتہ ۸ سے ۱۹ فروری کے دوران ۶۰۰ فلسطینی سینا اور قاہرہ کے ہوائی اڈے کے درمیان معلق رہے  خاص کر وہ لوگ کہ جو سینا میں بسوں میں پھنسے رہے تھے اور ھشام العجب غزے کے ایک سرگرم کارکن اور دوسرے سرگرم افراد  اور قاہرہ میں جوان فلسطینی طلاب کی مدد سے امدادی گروہ بنائے تھے تا کہ وہ فلسطینی مسافروں کو ہوائی اڈے پر کھانا اور کمبل وغیرہ فراہم کر سکیں ۔

اسی دوران حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیئہ نے  قاہرہ کے راستے میں پھنسے ہوئے مسافروں کے لیے، ہر ایک کے لیے ۶۰۰ جنیہ امداد کے طور پر دیے ۔

انسانی شرافت کا احترام ،

قانون کے ایک محقق محمد ابو ہاشم کا عقیدہ ہے کہ کسی بھی گذرگاہ یا ہوائی اڈے سے مسافروں کو منتقل کرنے کا مسئلہ اس ملک کی حکومت کا مسئلہ ہے اور یہ موضوع ادلے بدلے کی سیاست  کے تابع ہے لیکن فلسطین والوں کے حالات ایسے نہیں ہیں چونکہ ان کے پاس اس طرح کی کوئی طاقت نہیں ہے ۔

ابو ہاشم نے العربی الجدید کے ساتھ گفتگو میں کہا : مسافروں کو منتقل کرنے کا کام انسانی شرافت کے احترام اور انسانی حقوق کے پامال کیے بغیر ہونا چاہیے ہوائی اڈوں پر بند کمروں میں رکھنا ، آنے جانے سے روکنا ، توہین آمیز انداز میں باز پرس کرنا ، اور مسافروں کے دوسرے برے حالات پیدا کرنا شہری اور سیاسی حقوق کے خلاف ہے ۔

غازی حمد غزہ میں نایب وزیر خارجہ  نے بھی اس سلسلے میں کہا : اب تک مصر والے بہانے کر رہے تھے  چونکہ رام اللہ میں خود مختار حکومت کا رفح کی گذر گاہ پر کنٹرول نہیں ہے اس لیے یہ گذر گاہ بند رہتی تھی لیکن اب جب کہ اس کا کنٹرول خود مختار حکومت کے ہاتھ میں ہے تو یہ راستہ ہمیشہ فلسطینیوں کے لیے کھلا رہے گا تا کہ ان کے رنج و الم میں کچھ کمی واقع ہو ۔             

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی