سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

متحدہ عرب امارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ؛ لیبیا میں انسانی اسمگلنگ اور یمن میں تشدد

 اردو مقالات سیاسی عرب امارات

متحدہ عرب امارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ؛ لیبیا میں انسانی اسمگلنگ اور یمن میں تشدد

متحدہ عرب امارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ؛ لیبیا میں انسانی اسمگلنگ اور یمن میں تشدد

نیوزنور:امارات نہ صرف ملک کے اندر  بلکہ  اپنی سرحدوں سے باہر بھی حقوق انسانی کی خلاف  ورزیوں جیسے لیبیا میں انسانی سمگلنگ کا مرتکب ہوتا ہے یہاں تک کہ  انسانی حقوق  کی کچھ تنظیموں نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ، متحدہ عرب امارات میں حقوق بشر کی خلاف ورزیاں کوئی نئی بات نہیں ہے  بلکہ ماضی میں بھی اسے حقوق بشر  کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا  سامنا کرنا پڑا ہے۔  اس ملک کو بین الاقوامی تنظیموں ، بشمول یورپین پارلیمنٹ کی جانب سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں منجملہ ،اظہار رائے کی پابندی ، غیر قانونی قید خانوں  ، غیر قانونی سزاوں، صحافت پر پابندی  اور انسانی سمگلنگ کے متعلق سخت تنقید کا سامنا ہے۔ 

ایک انتہائی منظم سیاسی نظام کی مدد سے امارات اپنے مخالفین کی ہر آواز کو دبا دیتا ہے۔  چنانچہ بہار عربی کے واقعے کے بعد امارات کے چند  اخوان المسلمین سے وابستہ نامہ نگار اور ماہرین کہ جنہوں نے  بنیادی قوانین اور  قومی اسمبلی کے انتخابات کے قوانین میں ترمیم اور حقوق انسانی میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا  اور مارچ 2011 میں  امارات کے رئیس  خلیفہ بن زیاد کے نام ایک خط لکھ کر اپنے مطالبات کا اظہار کیا تھا   اس کے بعد  الاصلاح و التوحید اور اخوان المسلمین سے وابستہ کچھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا   اور اس کے بعد امارات نے اس ملک میں  معترضین سے نپٹنے کے لئے سخت سیکیورٹی اقدامات کئے تھے۔

اماراتی شہریوں  کے پاس حکومت کی تبدیلی کے لئے ووٹ دینے  اور کسی سیاسی تنظیم کا حصہ بننے کے حقوق نہیں ہیں   اور چار سال میں ایک مرتبہ  ملی اتحادی کونسل  کہ جو مشاورتی حیثیت رکھتی ہے کے انتخاب کے لئے  ووٹ دیتے ہیں ، جب کہ 2015 کی رائے شماری کے مطابق 32 فیصد عوام نے ووٹ دئے تھے اور ان انتخابات کا قابل توجہ استقبال بھی نہیں کیا گیا۔

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اظہار کی آزادی پر وسیع پیمانے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں ؛  ٹی وی چینلز کے پاس سیاسی یا اقتصادی حالات پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہے ۔  بین الاقوامی کارکنان بھی بہت سے حقوق سے محروم ہیں ؛ امارات نے کار مندوں کے بہت سارے بین الاقوامی حقوق پر دستخط نہیں کئے ہیں ۔

امارات میں بین الاقوامی کار یگروں  کے حقوق کی پامالیاں ، کہ جس میں 90 فیصد افراد اماراتی ہیں ،  کام کے اوقات کا زیادہ ہونے ،  کام کرنے والے افراد کے پاسپورٹ اور بقیہ کاغذات کا اعلی حکام کے ذریعے ضبط کر لینے، تنخواہوں کی دیر سے ادائیگی  اور کارکنوں  کو ملک سے نکالنے کی صورت میں نمایاں ہیں ۔

اسی طرح یہ ملک انسانی سمگلنگ ، بالخصوص بقیہ ممالک سے عورتوں کی سمگلنگ میں ملوث ہے۔

آخر میں  حقوق بشر کے نمائیندوں نے ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں  حقوق بشر کے نمائیندے سارا لی ویتسون سے نقل کردہ ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے خبر نگاروں ، سیاسی کارکنوں اور ناقدین کی غیر منصفانہ گرفتاریوں جیسے اقدامات کئے ہیں  اور حکومت امارات اور اس کے بہت سارے خیر خواہ اس کوشش میں ہیں کہ امارات کی حکومت کو ایک جدید ، پیشرفتہ اور اصلاح کی راہ پر گامزن حکومت کے طور پر متعارف کروائیں  لیکن یہ صرف ایک خیال خام ہے۔

امارات اپنی سرحدوں سے باہر بھی حقوق بشر کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے کہ جس میں قابل ذکر یمن میں نہایت ہی وحشیانہ قید خانے بنانا اور لیبیا میں انسانوں کی سمگلنگ ہے۔

 اسی طرح حقوق بشر کے چند فعال اعضا نے گذشتہ سال 17 اکتوبر کو متحدہ عرب امارات پر پابندی کے عنوان سے ایک بیداری مہم بھی چلائی تھی ، اور اپنے اولین بیان میں اعلان کیا تھا کہ امارات ایک سرکش ملک بن چکا ہے  کہ جسے حقوق بشری کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے  اور شام کے پناہ گزین کہ جو اپنے ملک  واپس نہیں جا سکتے اور ان میں بچے اور  بزرگ موجود ہیں ان کے خلاف وحشتناک اقدام کرتا ہے اور امارات نے گذشتہ ہفتوں میں شام کے پناہ گزینوں کی ایک بڑے تعداد کو ملک سے نکال دیا ہے  اور اس ترتیب کے ساتھ  امارات سے  نکالے جانے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

یمن میں قید خانے

ہر چند کہ امارات  یمن پر سعودی یلغار کے ساتھ ساتھ اس ملک میں داخل ہوا ، لیکن آہستہ آہستہ اس نے اپنے وجود کے دائرے کو وسیع تر کر دیا ہے  یہاں تک کہ امارات جنوب یمن میں سعودی عرب سے زیادہ اپنے منافع کے لئے کام کر رہا ہے  اور یمن میں  امارات کی موجودگی اس حد تک ہے کہ اس نے اپنے مخالفین کو وحشتناک قید خانوں میں ڈال رکھا ہے۔ 

ان حالات میں کہ جب یمن  پر متجاوز ممالک کے اتحاد میں امارات کی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے ، ایک بین الاقوامی تنظیم نے اعلان کیا ہے  اس ملک نے یمن میں مخالفین کو زندانی کرنے جیسے اقدامات کئے ہیں ۔

دیدبان حقوق بشر کہ جو ایک بین الاقوامی سطح کی حقوق بشر کی تنظیم ہے  اس نے اپنی رپورٹ میں امارات کے متعلق لکھا ہے۔

اس حصے میں مرقوم ہوا ہے کہ ابو ظبی کے یمن میں دو قید خانے ہیں اور وہاں قیدیوں کو آزائیں اور تکلیفیں دی جاتی ہیں اس سے بڑھ کر کچھ خبروں میں آیا ہے کہ امارات نے یمن میں 17 زندان بنا رکھے ہیں اور وہاں قیدیوں کو تکلیفیں دی جاتی ہیں ۔ 

جنوبی ملی محاذ سے وابستہ ذرائع نے خبررساں ایجنسی النجم الثاقب کو بتایا کہ کہ شہر عدن میں واقع زندان بیر احمد کہ جو اماراتیوں کے ہاتھ میں ہیں وہاں قیدیوں کو اذیت ناک تکلیفیں دی جاتی ہیں ۔

اسی طرح دید بان حقوق بشر کی رپورٹ میں آیا ہے کہ  امارات یمن میں دو غیر قانونی زندان چلا رہا ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اماراتی حکام نے زیادہ افراد کو قید کرنے کا حکم جاری کیا ہے  اور جبری طور پر افراد کو قید کر رکھا ہے  اور رپورٹ کے مطابق  بہت سارے قیدی کہ جن کی شناخت ہو چکی ہے انہیں یمن سے منتقل کر دیا گیا ہے۔

دیدبان حقوق بشر میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مدیر نے  امریکہ کو دی گئی اپنی رپورٹ میں یمن میں امارات کے اقدامات کی شدید مذمت کی ہے۔

لیبیا میں انسانوں کی سمگلنگ

امارات پر پابندی کے نام سے چلنی والی بیداری مہم کے ترجمان ھنری گرین نے 30 جنوری کو اعلان کیا کہ  امارات    ، لیبیا میں جنرل خلیفہ حفتر کی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہوں کہ جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں کی مالی  مدد کرتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں،  معمر قذافی کے خاتمے  اور خلیفہ حفتر کی فوجوں اور انصار الشریعہ جیسے گروہوں کے درمیان  چھڑنے والی داخلی جنگ کے بعد اپنی موجودگی  کو وسیع تر کر دیا ہے  اس طرح کہ ابو ظبی اس وقت خلیفہ حفتر کو اسلحہ فراہم کرنے والے اصلی عناصر میں شمار ہوتا ہے۔  اسی طرح امارات  کئی مرتبہ انصار الشریعہ کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کر چکا ہے۔

ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ جو چیز حقوق انسانی کی تنظیموں کے لئے مورد توجہ ہے وہ مختلف راستوں سے  لیبیا سے امارات کی طرف انسانوں کی سمگلنگ ہے۔

امارات پر پابندی کے نام سے چلنی والی بیداری مہم کے ترجمان ھنری گرین نے 30 جنوری کو اعلان کیا کہ  امارات    ، لیبیا میں جنرل خلیفہ حفتر کی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہوں کہ جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں کی مالی  مدد کرتا ہے۔

لیبیا میں انسانوں کی غیر قانونی نقل مکانی کے ادارے کے ایک اعلیٰ آفیسر نے بھی روزنامے العربی الجدید کو دئے گئے اپنے انٹرویو میں  متحدہ عرب امارات کی جانب سے غیر قانونی تجارت اور انسانی سمگلنگ بالخصوص افریقی مھاجرین کی سمگلنگ کے متعلق پائے جانے والے شواھد کے متعلق خبر دی ہے۔

اس  آفیسر کے مطابق تنہا اماراتی عہدے دار ہی اس تجارت میں شامل نہیں ہیں بلکہ کچھ اور ممالک بھی اس غیر قانونی سمگلنگ میں شامل ہیں ، لیکن ان کے مقاصد الگ ہیں  جیسے کہ کچھ کو کم تنخواہوں والے کارمند چاہئیں  اور وہ  افیقی مھاجرین کو یورپ منتقل کرتے ہیں  اور بقیہ مالک جیسے کہ امارات کے سیاسی مقاصد ہیں ۔

لیبیا کے اس امیگریشن آفیسر نے مزید کہا:  ان مھاجرین کے متعلق کی جانے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ارتیرہ کا الرشایدہ نامی قبیلہ اس غیر قانونی تجارت کی سر پرستی کرتا ہے اور اس کے علاوہ  موجودہ شواھد منجملہ ٹیلیفون ریکارڈ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ  ابو ظبی انسانی تجارت کی مالی مدد کرتا ہے اور اانسانی سمگلرز کا حامی ہے۔

اس آفیسر کا کہنا تھا:  انسانی سمگلروں کو امارات کی جانب سے ملنے والی امداد میں ریگستانوں میں چلنے والی بہترین گاڑیاں موجود ہیں اور اس کے علاوہ انہیں تسلیحاتی کمک بھی فراہم کی جاتی ہے  البتہ اس  گروہ کی فعالیات  صرف انسانی سمگلنگ تک ہی محدود نہیں ہیں  بلکہ یہ اور بہت سی چیزوں میں فعال ہیں ۔

ان گروہوں  کی حمایت کا ایک اور حصہ انسانی اسمگلنگ  کے اہم مراکز  کو حمایت  فراہم کرنا ہے کہ جس کا ایک نمونہ رمیاس جریامی نامی ایک شخص کی گرفتاری ہے کہ  جو طرابلس میں اریترہ کی سفارت میں ایک کارمن کے عنوان سے کام کرتا تھا  اور اپنے اس عہدے سے سوء استفادہ کرتے ہوئے  لیبیا سے افریقی مھاجرین کی سمگلنگ کے لئے زمینہ فراہم کرتا تھا  جب کہ کچھ لوگ اسے ایک فرار قیدی مانتے ہیں  لیکن یہ ایک واضح مورد ہے جو اس بارے میں خبر دیتا ہے کہ  امارات مسلح افراد کی حمایت سے طرابلس میں اس کام کو انجام دیتا ہے۔

چند مجرم امارات کے زیر حمایت ہیں اور امارات الزنتان میں  اپنے اتحادیوں کی مدد سے اور حفتر کے ساتھ اپنے تعلقات سے استفادہ کرتے ہوئے ان اسمگلرز کی حمایت کرتا ہے۔  اس رپورٹ کی بنا پر جیل سے فرار ہونے والے مجرم ، مغرب طرابلس میں واقع صبراہ کہ جو انسانی سمگلنگ کے لئے بہترین دریائی راستہ ہے ، دیکھے گئے ہیں  اور ابھی بھی  ایک معروف سمگلر مصعب بوقرین کے زیر نظارت طرابلس میں اس فعل قبیح کو انجام دیتے ہیں ۔

اسی وجہ سے گذشتہ 30 جنوری کو  کمپین تحریم امارات ، موسسہ افریقن لایف میٹر ، سازمان اتباع سنگالی ، موسسہ اتحاد علیہ بردگی ( غلامی کے خلاف اتحاد ) اور  بین المللی افریقائی حقوق بشر کی تنظیموں نے ، غلامی اور انسانی سمگلنگ کے خلاف لندن ، پیریس ، واشنگٹن ، اور لاس اینجلس میں امارات کے سفارت خانے کے سامنے بہت بڑے احتجاجات کئے۔

تمام ذکر شدہ مسائل ، اور امارات کے خلاف حقوق بشر کی تنظیموں  کی وسیع مذمت کے باوجود ابھی تک  اقوام متحدہ اور اس کی زیر نظارت  بین الاقوامی تنظیم برائے حقوق بشر ، یا امریکی حکومت کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ؛  اور ایسا لگتا ہے کہ ابو ظبی کے حکام اپنے آپ کو مغرب کی جانب سے اس کے لئے تیار کردہ امنیتی معیاروں پر کھرا دیکھتے ہیں ۔  

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی