سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

برطانیہ رشدی کی جان بچانے کے لیے سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے ؟

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

برطانیہ رشدی کی جان بچانے کے لیے سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے ؟

برطانیہ رشدی کی جان بچانے کے لیے سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے ؟

نیوزنور:   امام خمینی رہ کا فتوی سننے کے بعد؛ میں نے محسوس کیا کہ میں مردہ بن چکا ہوں ، گھومنا پھرنا ،  اور بغیر ذاتی محافظ کےخریداری کے لیے بازار جانا ، گھر والوں سے ملنا ،ہوائی جہاز سے سفر کرنا ، یہ سب میرے لیے اس زمانے میں ایک خواب بن کر رہ گیا تھا ۔

  • برطانیہ رشدی کی جان بچانے کے لیے سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے ؟
  • سلمان رشدی ؛ "آدھی رات کے بچے" سے لے کر" چیتے پر مسکررانے" تک
  • شیطانی آیات ؛ وہ کتاب جس نے رشدی کی ہنری زندگی کا خاتمہ کر دیا ،
  • امام خمینی رہ کا فتوی ، وہ کام جس نے فتنے کی آنکھ کو جڑ سے نکال کر پھینک دیا ،
  • امام خمینی کے سلمان رشدی کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مبنی فتوے کے دفاع میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے مظاہرے ،
  • امام خمینی کے سلمان رشدی کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مبنی فتوے کے دفاع میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے مظاہرے ،
  • برطانوی مسلمانوں کا کتاب شیطانی آیات کو نذر آتش کرنا ،
  • وہ فتوی کہ جس کی بنا پر برطانوی حکومت کو سالانہ ایک میلین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں ،
  • صہیونی حکومت کے سابقہ صدر شیمون پیریس کی سلمان رشدی  مرتدکے ساتھ ملاقات ،

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ایک معتبر پورٹل آوینی نے مرتد سلمان رشدی کے بارے میں امام خمینی رہ کے تاریخی فتوے کی سالگرہ کی مناسبت سے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ ؛سال1989   کا سردیوں کا موسم تھا دنیائے اسلام میں جگہ ،جگہ مظاہرے ہو رہے تھے ،14جنوری کی تاریخ سال ۱۹۸۹ کو برطانیہ کے شمال میں" شہر براڈ فورڈ" کے مسلمانوں نے زبردست مظاہرے کیے ۔

پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا عبد الستا ر نیازی ، نوابزادہ نصر اللہ خان ، اور مولانا کوثر نیازی نے اعلان کیا کہ ناموس رسالت کی حفاظت کی خاطر ایتوار کے دن11فروری کو اسلام آباد میں مظاہرہ کریں گے ۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں13فروری کو بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جن میں ۳ افراد شہید اور ۴۰ زخمی ہو گئے ۔ مظاہرے دوسرے دن بھی جاری رہے ، ھندوستان کی پولیس نے  بیٹم اور ٹییر گیس کے ذریعے مسلمانوں کے مظاہروں کو تتر بتر کیا  اور تقریبا ۵۰ افراد زخمی ہو گئے ۔

خبر ایران پہنچی ، بدھوار15فروری کو امام خمینی رہ کے حکم پر  عزائے عمومی کا اعلان کیا گیا ۔ مراجع تقلید نے اپنے دروس کی چھٹی کر دی ، اور مجلس شورای اسلامی ( پارلیمنٹ) ایران کے نمایندوں نے اپنی تقریروں میں شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔ جمہوری اسلامی کا رد عمل یہیں پر ختم نہیں ہوا ، بلکہ14فروری 1989 کو امام خمینی کی جانب سے سلمان رشدی کے قتل کا فتوی منتشر ہو گیا ۔ اس فتوے کی وجہ سے مظاہروں کی آگ پوری دنیا میں پھیل گئی اور اس کے بعد شیطانی آیات کے ساتھ مقابلے کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔

سلمان رشدی ؛ "آدھی رات کے بچے" سے لے کر" چیتے پر مسکررانے" تک  

سر احمد سلمان رشدی سال ۱۹۴۷ میں بمبئی میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ، ۱۳ سال کی عمر میں وہ ہجرت کر کے برطانیہ چلا گیا اور برطانیہ کی شہریت اختیار کر لی ۔ اس نے لکھنے کا کام کتاب" گریموس "سے شروع کیا جو حقیقت میں اس کا پہلا تجربہ تھا ۔ لیکن" آدھی رات کے بچے" ، لکھنے کے بعد اسے شہرت ملی اور ۱۹۸۱ میں وہ بوکر پرائز نامی انعام جیتنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس کی دوسری کتابیں ہیں "  شرم ناول" ،"چیتے پر مسکرانا" کہ جو اس کے نیکارا گوا کے تین ہفتے کے سفر کی رپورٹ ہے اور سینڈنیسٹوں اور انقلابیوں نے جو استعمار کے خلاف حرکت شروع کی تھی اس کا مذاق اڑایا ہے ۔  البتہ یہ ساری کتابیں شیطانی آیات سے پہلے منتشر ہو چکی تھیں ، اور اس نے حالیہ برسوں میں ۲۰۰۵ میں دلقک شالیمار ، اور ۲۰۰۸ میں افسونگر فلورانس ، اور لوکا اور آتش زندگی نام کی کتابیں لکھی ہیں ۔

رشدی برطانیہ فیلم انسٹیٹیویشن کی کمیٹی ، کا رکن ، عصر حاضر کے ہنر کے انسٹیٹیویشن کے مشاورین کا رکن اور انجمن سلطنتی ادبیات انگلستان کا رکن ہے ، کئی برسوں میں جو انعامات رشدی کو ملے ہیں ان سےا ندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ کا سلطنتی خاندان اس پر کتنا مہربان ہے ۔

رشدی کی کہانیاں ہمیشہ چند اصول کے خمیر مایہ کے گرد گھومتی ہیں ، ان میں ایک مشرقی تمدن اور ثقافت پر وار کرنا ، مذہبی مفاہیم اور شخصیتوں کو بے اثر قرار دینا ، اور تسلط کے زیر اثر ملتوں اور ملکوں کی استقلال طلب تحریکوں  پر حملہ کرنا ہے ۔

مثال کے طور پر"آدھی رات کے بچے"  نام کے ناول  میں مقرب الہی پیغمبر  حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک اسیر شکم و شہوت شخص کے طور پر پیش کیا ہے ۔ "شرم" نام کے ناول میں مسلمانوں کے بعض مقدس مقامات کی دوسرے انداز میں توہین کی گئی ہے ۔

آدھی رات کے بچے کے ناول کو اس نے ، ہندوستان ، آزادی ، جمہوریت اور ہندوستانی کلچر کے خلاف لکھا ہے ۔ رشدی کے ملتوں کے خلاف حملے کی شمشیر صرف ایشیا تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ اس نے " ـچیتے پر مسکرانا"  نام کے ناول میں نیکارا گوا کے انقلاب کا مذاق اڑایا ہے ۔

رشدی کی داستانوں میں ایک اور نکتہ بھی ہے اور وہ داستان کے کرداروں کا اخلاقی فساد ہے "آدھی رات کے بچے" نام کے ناول میں سلیم سینائی جو اس داستان کا پہلا کردار ہے جو ایک برطانوی افسر کے ایک ہندوستانی عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے ۔ "شرم" نام کے ناول میں بھی زنا اور ناجائز تعلقات داستان کا اصلی حصہ ہیں اور کئی بار ان کا تکرار ہوا ہے ۔

اگر اس نکتے کو پیش نظر رکھیں کہ ناول حقیقت میں لکھنے والے کے اندرونی حالات کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ اندرونی حالات ہی ہوتے ہیں کہ جن سے ایک اثر وجود میں آتا ہے ، تو اسی سے رشدی کی ذہنیت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیوں وہ ہمیشہ مغرب کے تلوے چاٹتا ہے اور اس کی داستانیں فحشاء و منکر اور فساد اخلاقی سے بھری ہوئی ہیں ۔

شیطانی آیات ؛ وہ کتاب جس نے رشدی کی ہنری زندگی کا خاتمہ کر دیا ،

شیطانی آیات ایک ناول ہے  جس کے ۵۴۷ صفحے ہیں ، جس کو برطانیہ میں سال ۱۹۸۸ میں پنگوئن کے انتشاراتی گروہ کے  ایک پریس وایکینگ نے منتشر کیا تھا ۔ اس کتاب کو ۹ فصلوں میں تیار کیا گیا ہے اس کی اصلی روایت رشدی کی دوسری کہانیوں کی طرح انگلستان میں  وطن چھوڑنے والے ہندوستانیوں پر مشتمل ہے اس داستان کے اصلی کردار ہندوستان کے دو مسلمان کلاکار ہیں ۔

داستان کی فرعی کہانیاں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین پر مشتمل ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی حیات طیبہ کی عکاسی میں ایک مستعار نام "محوند" اور شہر مکہ کا نام "جاھلیا" بتایا گیا ہے ۔ داستان کا دوسرا حصہ ایک ہندوستانی لڑکی عائشہ کی زندگی کی داستان پر مشتمل ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ جبرئیل کی طرف سے اس پر وحی ہوتی ہے وہ اپنے گاوں کے تمام لوگوں کو بے وقوف بناتی ہے کہ وہ پیدل مکہ کے سفر کا آغاز کر رہی ہے ! ۔

کتاب کے ایک اور حصے میں ایک قدامت پرست مذہبی رہنما کو جس کا نام "امام" ہے بیسویں صدی کے اواخر میں دکھایا گیا ہے اس شخصیت کے ذریعے پیریس میں امام خمینی کی جلا وچنی کی زندگی کی طرف شفاف اشارہ کیا گیا ہے ، لیکن اس کا اصلی عنوان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی زندگی سے مربوط ہے ۔ شیطانی آیات میں تین مضمون اور تین اصلی مقولے ہیں :

۱ ۔ دین اور دینی عقیدہ ایک مضمون ہے جس پر سلمان رشدی کی تمام تحریروں میں توجہ دی گئی ہے اور لکھنے والا آکر کار داستان کے اصلی کردار کے کام کو دین سے الگ کرتا ہے اور داستان کے کردار کہ جو زیادہ تر مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہیں دین کے انکار تک پہنچتے ہیں ۔

۲ ۔ اسلام کو ایک ایسا دین بتایا گیا ہے کہ جو (معاذ اللہ خرافات ) اور تمدن ، آزادی  اور جمہوریت سے پچھڑا ہوا ہے اور پیغمبر اسلام کی بار بار تکذیب اور توہین کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلامی انقلاب ایران کو آج کی دنیا کے ایک موئثر موجود کے طور پر توجہ کا محور بنایا گیا ہے اور امام خمینی کو رہبر انقلاب اسلام کے عنوان سے جھٹلایا گیا ہے ۔ در حقیقت شیطانی آیات سے پہلے کی تمام کتابوں کے مضامین کو شیطانی آیات میں جمع کر کے دکھایا گیا ہے ۔

اس کتاب کے منتشر ہوتے ہیں پوری دنیائے اسلام میں جیسے آگ لگ گئی ہو ۔ اس پر اعتراضات کا آغاز رشدی کی جنم بومی سے ہوا۔ ستمبر26سال 1988 کو کتاب شیطانی آیات لندن سے منتشر ہوئی اور26اکتوبر کو ہندوستان اور کچھ دوسرے مسلمان ممالک نے اس کتاب کی فروخت پر پابندی لگا دی ۔ پاکستان اور ہندوستان میں مظاہرے ہوئے لیکن اسلامی شخصیتوں یا تنظیموں کی طرف سے عملی اقدام لازمی تھا تا کہ رشدی کی حمایت کے سلسلے میں برطانیہ کی حکومت کے خلاف اعتراضات میں بھی اضافہ ہو، اور پھر کوئی اتنی آسانی سے مسلمانوں کی توہین نہ کر سکے ۔

امام خمینی رہ کا فتوی ، وہ کام جس نے فتنے کی آنکھ کو جڑ سے نکال کر پھینک دیا ،

اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۵۹۸ کی قبولیت اور ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد مختلف ملکوں کے ساتھ روابط کے سلسلے میں ایران کی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا ۔نومبر10 سال 1988 کو ویانا میں جمہوری اسلامی ایران اور برطانیہ کی حکومت کے مابین نئے سرے سے روابط کے بارے میں اعلان منتشر ہوا ،یورپ والے اور خاص طور برطانیہ یہ سوچ رہے تھے کہ ایران روابط کو بہتر بنانے کی خاطر کتاب شیطانی آیات کے انتشار کے خلاف شدید اعتراض نہیں کرے گا ۔ لیکن پاکستان کی پولیس کے ذریعے اعتراض کرنے والے مسلمانوں کے مارے جانے کے واقعے نے اس موضوع پر پہلے سے زیادہ ایران کی توجہ موڑ دی ۔

حجۃ الاسلام انصاری نے جو امام خمینی رہ کے دفتر کے رکن تھے امام کے فتوے کے صدور کی کیفیت کے بارے میں بتایا : جب سلمان رشدی کی کتاب کے بارے میں امام کو پتہ چلا تو میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کی کہ آقا یہ توہین کی گئی ہے ، آپ کا ارادہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا کہ میں اسی وقت میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ حکومت سے کہہ دیں کہ کل عزائے عمومی کا اعلان کر دیں۔ اور ابھی میں حکومت تک پیغام پہنچا ہی رہا تھا کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ امام کا اعلان صادر ہو چکا ہے اور آپ نے قاطعیت کے ساتھ سلمان رشدی کو موت کے گھاٹ اتارے جانے  کا حکم دے دیا ہے (روزنامہ کیھان ، ۲۴ / ۱ / ۶۸ ، سلمان رشدی کے مرتد ہونے کے بارے میں امام خمینی کے فتوے کا متن :

پوری دنیا کے غیرتمند مسلمانوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ کتاب شیطانی آیات کا مولف کہ جس نے یہ کتاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآۂہ قرآن اور اسلام کی توہین میں چھپواکر منتشر کی ہے اور اسی طرح وہ ناشرین کہ جن کو اس کے مضامین کے بارے میں اطلاع تھی سب کے سب سزائے موت کے حقدار ہیں ۔میں غیرتمند مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ان کو جہاں بھی دیکھیں فورا قتل کر دیں تا کہ کوئی اور اسلامی مقدسات کی توہین کرنے کی ہمت نہ کر سکے ۔ اگر کوئی اس راہ میں مارا جائے تو وہ شہید ہوگا ان شاء اللہ ، اگر کوئی اس کتاب کے مولف تک پہنچ سکتا ہے لیکن خود اقدام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتائے تا کہ اس کو اس کے اعمال کی سزا ملے ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، (صحیفہء امام ، جلد ۲۱ ص ۸۶ )

مغرب کی حیرت ، اور امام خمینی رہ کے فتوے پر امت اسلام کا اجماع ، مغرب والے کہ جو ہمیشہ سے اسلام ، انقلاب اسلامی اور امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں صحیح اطلاع نہیں رکھتے تھے وہ امام کے اس اقدام سے حیرت میں غرق ہو گئے اور اپنا توازن کھو بیٹھے برطانیہ کے وزیر خارجہ "جفری ھاو" نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ابھی مسئلہ واضح نہیں ہے ، جب تک مسئلہ واضح نہ ہو جائے اور بات کی اصلیت سامنے نہ آ جائے وہ کچھ نہیں کہے گا ، بعض نے کوشش کی کہ امام کے فتوے کو ہلکا بنا کر پیش کریں ۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی کار گر پارٹی کے امور کارجہ کے یہودی ترجمان" جیریلڈ کافمین" نے امام کے خیالات کو تمام تہذیب یافتہ ملتوں کے لئے خطرہ بتایا اور کہا : اس طرح کے عقاید کے اسلامی معاشروں میں زیادہ حامی اور طرفدار نہیں ہیں ۔

امام خمینی کے سلمان رشدی کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مبنی فتوے کے دفاع میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے مظاہرے ،

ظاہر تھا کہ مغرب والوں کے تمام تیر نشانہ چوک چکے ہیں ۔ اگر چہ یہ فتوی ایک شیعہ مرجع تقلید کی طرف سے صادر ہوا تھا ، لیکن تمام اسلامی مسالک نے پورے قد کے ساتھ اس کی حمایت کی ۔ تحریک اخوت اسلامی پارٹی کے رہنماوں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حنفی فقہ کے لحاظ سے سلمان رشدی واجب القتل ہے اور امام خمینی کا فتوی قرآن و سنت کے مطابق ہے ۔

 ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے امام اہل سنت والجماعت مولانا سید عبد اللہ بخاری نے کہا : مولف اور متن کتاب سے آگاہی رکھنے والے ناشروں کے  واجب القتل ہونے کے بارے میں امام خمینی کا فتوی انقلاب اسلامی کے رہبر کے نبوغ اور آگاہی کا غماز ہے اور قابل توجہ ہے ۔ دہلی میں نماز جمعہ کے بعد لوگ حرکت میں آ گئے اور رشدی مردہ باد ، برطانیہ مردہ باد اور خمینی زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی ۔

امام خمینی رہ کے فتوے نے عرب ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔شیخ احمد کفتار اور اس وقت کے شام کے مفتی اعظم نے بدھوار ، پہلی مارچ سال 1989کو  رشدی پر مقدمہ چلا کر اس کو سزا دینے کا حکم صادر کیا ۔

لبنان میں اہل سنت کی جنبش توحید اسلامی کے رہنما شیخ سعید شعبان نے قدامت پرست عرب رہنماوں پر خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے اظہار خیال کیا : عظیم اسلامی امت نے اپنے جرتمند عظیم قائد امام خمینی کی حمایت میں کفار کے منہ پر زبردست مکا دے مارا ہے۔ جنوب لبنان کے شیعہ مراجع میں سے علامہ سید محمد حسین فضل اللہ نے بھی کہا : اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان رشدی کے بارے میں امام کا شرعی حکم عالم استکبار اور مغرب پر کاری چوٹ تھی ۔

امام خمینی کے سلمان رشدی کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مبنی فتوے کے دفاع میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے مظاہرے ،

مصر کی اسلامی تحریک نے بھی اعلان کیا کہ وہ رشدی کو موت کی سزا دیے جانے کے فتوے کی حمایت کرتی ہے ۔مسلمانوں کے اعتراضات  اور امام راحل کے فتوے کی حمایت کا دائرہ یورپ تک پھیل گیا ۔ برطانیہ میں سرکاری احتجاج ، اور برطانوی حکومت کو خط لکھے جانے کے علاوہ مظاہرے بھی کیے گئے برطانیہ کے شچمال میں شہر براڈ فورڈ کی مساجد کی شوری کے سیکریٹری سید عبد القدوس  نے اعلان کیا کہ برطانیہ کے مسلمانوں نے قسم کھائی ہے کہ پہلی فرصت میں رہبر انقلاب اسلامی کے فتوے کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔

برطانیہ کی سازمان تبلیغات  اسلامی کے  نائب سربراہ  بشر انصاری نے اظہار خیال کیا : سزا کا حقدار نہ صرف کتاب کا مولف ہے  بلکہ ہر وہ شخص ہے جو اس کے انتشار میں دخیل رہا ہو ۔ جمعیت اسلامیء اندلس اور اسپین نے بھی ایک بیان صادر کر کے امام خمینی رہ کے حکم کی حمایت کی ۔

برطانوی مسلمانوں کا کتاب شیطانی آیات کو نذر آتش کرنا ،

سیّد اوصیای رسول اللہ  امیرالمؤمنین حضرت علی علیہما السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :" یا أَیُّهَا النَّاسُ فَإِنِّی فَقَأْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ" اے لوگو ! میں نے فتنے کی آنکھ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ! شیطانی آیات کے مقابلے میں امام خمینی رہ کا اقدام امیر المومنین علیہ السلام کی اسی حدیث کا مصداق تھا ۔ امام خمینی رہ کے فتوے کی وجہ سے مسلمان یہ جان گئے کہ اس توہین آمیز حرکت کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے سلمان رشدی کا قتل ۔

عالمی سطح پر مسلمانوں کے اعتراضات  اور حکم امام کی حمایت کے اوج پکڑنے کے بعد سلمان رشدی اور اس کی کتابوں کے نشر کرنے والے ادارے نے ایک بیان میں بتایا کہ انہوں نے امریکہ کا اپنا سفر ملتوی کر دیا ہے ۔ پاکستان میں برطانوی سفارت کے دبیر اول نے اعلان کیا کہ برطانیہ کے ادارہء انتشارات پنگوئن نے  شیطانی آیات کے نسخوں کو برطانیہ سے سمیٹ لیا ہے ۔ کتاب کے جرمنی اور فرانس کے ناشرین نے بھی اعلان کیا کہ وہ اس کے ترجمے کو نہیں چھاپیں گے ۔

حالانکہ یہ سوچا جا رہا تھا کہ جمہوری اسلامی جنگ کے بعد اور جنگ بندی قراداد کو تسلیم کر لینے کے بعد بین الاقوامی سطح پر احتیاط سے کام لے گی ، لیکن ایک انقلابی اقدام کے تحت مارچ7سال 1989ایران کی وزارت امور خارجہ نے ایک بیان میں ایک ہفتے کی مدت تمام ہو جانے کے بعد کہ جو اس نے برطانیہ کی حکومت کو توہین آمیز کتاب شیطانی آیات کے سلسلے میں اپنے موقف کی اصلاح کے لیے دی تھی ، مگر اس کی طرف سے کوئی قدم نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے مجلس شورائے اسلامی  [پارلمنٹ ]نے ایران کے برطانیہ کے ساتھ تمام سیاسی روابط توڑ لینے کا فیصلہ کیا ۔

وہ فتوی کہ جس کی بنا پر برطانوی حکومت کو سالانہ ایک میلین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں ،

سلمان رشدی نے ایک برطانوی روز نامے ڈیلی میل کے ساتھ ایک انٹرویو میں  توہین آمیز کتاب لکھے جانے کے جو نتائج اس کو بھگتنا پڑے ہیں ان کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اس نے اس انٹرویو کے شروع میں اپنے ابتدائی  احساسات کے بارے میں  امام خمینی رہ کا فتوی سننے کے بعد بتا یا : وہ کوئی اچھا احساس نہیں تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ میں مردہ بن چکا ہوں ، گھومنا پھرنا ،  اور بغیر ذاتی محافظ کےخریداری کے لیے بازار جانا ، گھر والوں سے ملنا ،ہوائی جہاز سے سفر کرنا ، یہ سب میرے لیے اس زمانے میں ایک خواب بن کر رہ گیا تھا ۔

سلمان رشدی ۱۹۹۸ تک سخت حفاظت میں تھا اور چھپ کر زندگی بسر کرتا تھا ، برطانیہ کی پولیس سلمان رشدی کی حفاظت کے لیے سالانہ ایک ملین ڈالر خرچ کر رہی تھی ، رشدی اس سلسلے میں کہتا ہے : سب سے بڑی مشکل جو تھی اور میں ہمیشہ اس کے بارے میں سوچتا تھا وہ یہ تھی کہ میں نہیں مرا تھا ، اگر میں مر جاتا تو کوئی بھی برطانیہ میں میری سلامتی پر ہونے والے اخراجات پر اعتراض نہ کرتا ۔

اگست 5سال 1989 کو لبنان کے ۲۱ سال کے ایک جوان "مصطفی مازح" نے سلمان رشدی کو قتل کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ۔ جس ہوٹل میں سلمان رشدی ٹھہرا تھا اس کی تیسری منزل پر پہنچنے سے چند منٹ پہلے وہ شہید ہو گیا ۔ ماحول اور لباس کی گرمی اور شہید کی تیزی سے نقل و حرکت رشدی تک پہنچنے سے پہلے بمب کے پھٹنے کا باعث بن گئی ۔ اس شہید کے جنازے کو آٹھ ماہ بعد برطانیہ کی حکومت نے اس کے گھر والوں کو دیا ۔

رشدی کو سال ۲۰۰۷ میں برطانیہ کی ملکہ کی جانب سے شوالیہ کا لقب ملا جس پر برطانیہ کے اندر اور باہر مختلف ملکوں میں شدید رد عمل ظاہر کیا گیا ۔ اس کے باوجود اس کی حفاظت پر ہونے والے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک بار برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلز نے اعلان کیا تھا کہ سلمان برطانیہ کے ٹیکس دینے والوں کے لیے ایک بہت ہی خرچیلا سپاہی ہے !

ہوائی کمپنی بریٹش ائیر ویز نے ۱۹۹۸ تک اپنے ہوائی جہازوں میں رشدی کے سفر پا پابندی لگا رکھی تھی اور ائیر کنیڈا نے بھی چند سال تک رشدی کو اپنے جہازوں میں بیٹھنے سے روک رکا تھا ۔ سلمان رشدی کے ایک محافظ "ران اوانس" نے اپنی ایک کتاب میں رشدی کے امام راحل کے فتوے سے ڈرنے کے بارے میں لکھا ہے : سلمان رشدی اپنی جان کے خوف سے ہمت نہیں کر پاتا تھا کہ اپنے کسی دوست آشنا سے ملاقات کرے اور اپنے دس سال کے بیٹے ظفر کو بھی خود سے ملنے کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔

وہ ان تمام برسوں میں انتہائی ڈر ڈر کے زندگی بسر کر رہا ہے اس لیے کہ جمہوری اسلامی کے حکام امام کے فتوے پر عمل کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ امام خامنہ  ای رہبر معظم انقلاب نے امام خمینی رہ کی رحلت کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمانوں کے سوالوں کے جواب میں مذکورہ حکم کے ناقابل تغییر ہونے کے بارے میں دسمبر1990 کو اعلان کیا تھا کہ حضرت امام رضوان اللہ تعالی علیہ کا تاریخی اور ناقابل تغییر حکم کفر آمیز شیطانی آیات کے مولف کے بارے میں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی اس حکم کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے  میں پابندی ، اسلام کے عالمی کفر کے ساتھ مقابلے کے میدان میں اپنے ابتدائی ثمرات کو ظاہر کرے گی اور مغربی استکبار کہ جس نے ایک ارب مسلمانوں کے مقدسات پر حملےکو  مسلمانوں کو رسوا کرنے اور دنیا میں اسلامی تحریکوں  کے محرکات کو دنیا سے مٹانے کے لیے مقدمہ بنا رکھا تھا ۔ لیکن وہ رسوا ہو کر ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے  ۔    

صہیونی حکومت کے سابقہ صدر شیمون پیریس کی سلمان رشدی  مرتدکے ساتھ ملاقات ،

مغربی ذرائع ابلاغ کے چینلوں نے اب تک بار ہا اعلان کیا ہے کہ اس مولف کی سزائے موت کے حکم کو ایران نے واپس لے لیا ہے لیکن ہر بار رہبر معظم انقلاب حضرت امام خامنہ ای مدظلہ العالی  نے اس بات کو جھٹلایا اور اعلان کیا کہ ایک مرجع تقلید کے شرعی حکم کا کوئی توڑ نہیں ہوتا اور اس کے مرنے کے بعد بھی تمام مسلمانوں پر واجب العمل ہے ۔ آخری بار آیۃ اللہ العظمی امام  خامنہ ای کے حاجیوں کے نام سال2004 کے پیغام میں سلمان رشدی کا خون مباح ہونے اور خدا کے حکم پر عمل کیے جانے کی تاکید کی گئی تھی ۔            

برچسب ها سلمان رشدی

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی