سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ایران -پاکستان دوستی کا مستقل روشن نظر آ رہا ہے

 اردو مقالات مکالمات

ایران -پاکستان دوستی کا مستقل روشن نظر آ رہا ہے

بسمہ تعالی

 ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

ایران -پاکستان دوستی کا مستقل روشن نظر آ رہا ہے

نیوزنور: پاکستان جس نے  ابھی تک یہ ثابت کردکھایا کہ وہ سعودی عرب کا کھلونا نہیں  بنے گا آئندہ بھی  یقیناً آل سعود کی  بالادستی میں  پاکستان کھلونا  بنتا نظرنہیں آتا اور ایران -پاکستان دوستی کا مستقل روشن نظر آ رہا ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران " پاک ایران تعلقات وقت کی اہمیت ضرورت" کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال :کیا پاک ایران تعلقات وقت کی اہمیت ضرورت؟

ج) ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

اس موضوع کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور انصاف کرنے کیلئے میں   چاہوں گا کہ پہلے پاکستان اورامریکہ  کی یہ جو دوستی رہی ہے اس کا  پچھلا خاکہ  دیکھیں  کہ ایسے میں ایک ایسے سیناریو جو ہمارے سامنے آیا  ہے کو کیسے  ہم سمجھیں۔

 دیکھئے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان صاحب نے سوئیزرلینڈ میں حالیہ داووس کانفرنس کے حاشیے میں اعلان کیا کہ پاکستان چین اور امریکہ کے ساتھ مستحکم روابط بنائے رکھنے کی کوشش میں ہے ۔جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے  بھی امریکہ  سے دوطرفہ روابط کو افغانستان سے نہ جوڑنے کی سفارش کی۔

یہ بات طے ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی طرف سے افغان بحران ڈھیل کی جا رہا ہے اسلئے امریکہ کی طرف سے پاکستان حکومت پر افغانستان بحران کو  لے دباو بنانا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

  یہ  کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہےپاکستان حکومت چاہتی ہوگی کہ امریکہ افغانستان بحران کے حوالے پاکستانی فوج کے ساتھ مذاکرات کرکے کسی نتیجے پر پہنچیں اور امریکہ افغانستان بحران کو پاکستانی حکومت کے ساتھ جوڑے بغیر تجارتی اور سیاسی روابط کو بنائے رکھے کہ جسے امریکہ دوگانہ سیاست کہتا ہے۔

امریکہ اور پاکستان روابط

  یہ بھی ہمیں پتہ چلے  کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان روابط 1948میں شروع ہوئے کہ جب دنیا د و بلاکوں مغربی یعنی امریکہ اور مشرقی یعنی سویت یونین  میں تقسیم تھا۔ اور امریکہ پاکستان کا ہنی مون  1979میں شروع ہوا جب سویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔یہاں امریکہ نے سویت کا مقابلہ کرنے کیلئے عسکری پسندوں تک عسکری سازوسامان پہنجانے کیلئے پاکستانی فوج سے مدد حاصل کی۔   اور پاکستان فوجی سربراہوں نے افغان عسکریت پسندوں تک پہنچنے والی مالی مدد  خود حاصل کرنے کی شرط کے ساتھ تعاون پیش کیا۔

اسطرح امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے عربوں ڈالر پاکستان کی جھولی میں گرتے رہے پاکستانی افواج ترقی کے منازل طے کرتی گئے۔ اور اسی دوران پاکستان میں مذہبی مدارس کے لئے سعودیہ کی طرف سے وسیع پیمانے پر مالی امداد پہنچنی شروع ہوگئی اور ترقی کرتے گئے۔اس کی اپنی داستان ہے   اور میں یہاں پر کچھ اور کہنے کی کوشش کرونگا ۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اور افغانستان سے سویت یونین کی فوج کے انخلا کے بعد  خطے میں  امریکی سیاست میں پاکستان کا مقام  گھٹتا گیا۔ اور اس بیچ ہندوستان جو کہ مشرقی بلاک کا حامی سمجھا جاتا تھا آہستہ آہستہ مغربی ممالک خاص کر امریکہ کے ساتھ روابط بڑھانے لگا۔جس کی طرف  آپ نے بھی اشارہ کیا اور آج کل اس کے اثرات ہم واضح طورپر  دیکھ رہے ہیں   اوراس دور میں جو کہ ایک دہائی  کا چلا اور امریکہ جنوبی ایشیاء کے لئے اپنی نئی سیاست وضع کی یعنی سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے لئے افغانستان کے بغیر کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

سال 2001میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان افغانستان پر حملہ کرنے کے ساتھ دوبارہ سنہری دور شروع ہوا ۔امریکہ کو افغانستان کیلئے پاکستان کی دریائی ، زمینی اور ہوائی لاجسٹیکی حمایت کی ضرورت تھی  اسلئے امریکہ نے پاکستان کوخطے میں نیٹو سے باہر اپنا اتحادی قرار دیا۔اور یہاں پر بھی امریکہ اور پاکستان کی دوستی افغانستان محور رہی ہے۔پاکستان نے جس کے لئے پچھلے 30سالوں میں ایک سو ارب ڈالرسے زائد  کی مدد امریکہ سے حاصل کی ہے جس میں 50فیصد نقد اور باقی عسکری سازوسامان کی شکل میں رہا ہے۔

ادھرافغانستان پر نظر ڈالئے،افغانستان آـبی وسائل سے مالامال ملک ہے کہ جس کے پاس ایکہزار کلومیٹر پر مشتمل ہندوکش کے برف سے ڈھکے پہاڑ ہیں۔اور اب ان آبی وسائل پر مبنی سیاست کا استعمال کرکے ڈیم بنا کر ہماسیہ ممالک از جملہ ایران کے ساتھ روابط طے کرنے لگا ہے۔پاکستان اور ایران کے لئے مہاجر ارسال کرنے والا ملک۔اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطابق آٹھ ہزار ٹن ڈرگس بنانے والا دنیا بھر میں ڈرگس بنانے والا پہلے نمبر کا ملک اورخطے میں دہشتگردی اور انتہا پسندی پھیلانے والا سرکردہ ملک۔

توان حالات کے تناظر میں یہ جو ابھی ایک احساس ہورہا ہے کہ  کیا ایران  اورپاکستان تعلقات  کو کوئی تعمیری  کردار کرنا ہوگا کہ نہیں۔

پاکستان اور ایران دوستی

ایران اور پاکستان کے ۷۰ سالہ پرانے  روابط ہمیشہ نشیب و فراز سے  گذرتے رہے  ہیں  اور ان دو ممالک کے درمیان نزدیکی اور دوری  بہت سارے مواقع پر  علاقائی اور بین الاقوامی حالات  کے تابع رہی ہے ۔ ایران اور پاکستان کے آپسی اتحاد کی راہ میں بہت ساری مشکلیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود علاقائی اور بین الاقوامی حالات ایسی سمت میں جا رہے کہ جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین  تعاون کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہو گئے ہیں ۔

ایران

کیونکہ جو  سیاست میں  بالعموم اور  عالم اسلام میں بالخصوص  جس سیاست نے ظہور کیا، طلوع کیاہے۔  آج چونکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ   کے ایران  آمد کی سالگرہ  ہے اوراسلامی انقلاب کی  کامیابی کی سالگرہ چل رہی ہے اس لئے  یہ بھی بجا ہوگا کہ اس کی طرف اشارہ کرتا چلوں، یہی وہ ایام تھے جب  دنیائی سیاست میں  ایک نئے سورج نے طلوع کیا  اوراس سیاست نے  جو "لاشرکیہ ولاغربیہ" کا نعرہ دیا اور جو 1400 سال پہلے  رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس سیاست  کے سورج کوطلوع کرکے  دکھایاتھا، انسان   اقدار کی بالادستی پر مبنی سیاست ،مسالمت آمیز زندگی پر مبنی سیاست ،حسن ہمجواری پر مبنی سیاست،اور تمام ادیان و مذاہب کےاحترام پر مبنی سیاست کاجو نمونہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نافذ کرکے دکھایا البتہ پھر وہ تصویر بلافاصلہ دھندلی ہوگئی،ایک نئی نہج اس   میں داخل کی گئی ،اور قرآنی سیاست   مشرق و مغرب کی تابعہ داری کے بجائے  خود مختار انسانی اقدار والی سیاست، وہ شجر،وہ نور کا چراغ  جو پوری دنیا کو  روشن کردکھائے  وہ دنیا کو دیکھنے کو نہ ملا۔ اگرچہ اس بیچ حضرت علی علیہ السلام  کے دور میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست  کا نمونہ ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ جس کا خلاصہ ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ جو حضرت علی علیہ السلام نے ایک سیاسی  الہی منشور جو  مالک اشتر کے نام انہوں نے لکھا،مصر کے  حاکم بنانے پر، اور جو آج بھی اقوام متحدہ  میں بہترین  سیاست کے نمونے کے طورپر ثبت و ضبط ہے۔  وہ گڑی ایک بارپھر ہمارے زمانے میں دیکھنے کو ملی،  ایران کے اسلامی انقلاب  کی شکل میں ۔اور بہت سارے لو گ اس چیز کو  یقین کرنا مشکل تھا کہ   کسی بھی ملک کو  تب ہی  کوئی کامیابی  حاصل  ہوگی  جب  وہ کسی  نہ کسی بڑے بلاک  کےساتھ اپنے آپ کو جوڑ دے۔  مگر ایران نے اسلام کے بدولت جو  عملی طورپر کر دکھایا کہ نہیں  آپنے آپ کو صرف اللہ سے جوڑنا ہے ،اللہ کے رسول کے ساتھ جوڑنا ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصیاء علیہم السلام کےساتھ جوڑنا ہے۔  بس یہی راستہ ہے۔ صراط المستقیم  یہی ہے۔ اس میں کامیابی  کی ضمانت ہے۔  اوریہ سب کہنا بڑا  خوبصورت جملہ نظر آتا تھا  اورلوگوں کو  بہکانے کا جملہ بھی قرار دیاجاتا تھا ۔مگر آج چالیس سال  ہوگئے کہ ایران جو  کل تک امریکہ اور مغربی طاقتوں  کا غلام تھا  آج  اس نے ان ہی اصولوں پر ثابت قدم رہ کر اپنی حاکمیت کا قد بلند کرکے  اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔

پاکستان

  پاکستان اتنا عظیم طاقت ہونے کے باوجود ، اگرچہ اسلام  ایٹم بم  بنانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود  اسلامی ممالک میں صرف پاکستان جوہری طاقت ہے جس  کے پاس ایٹم بم  ہے۔ لیکن جوہری طاقت ہونے کے باوجود یہ معمولی  مسئلے کو حل نہیں کرسکتا ہے ،یہ کشمیر کے مسئلے کوحل نہیں کرسکتا ہے ،یہ افغانستان کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتا ہے وغیرہ۔

 کیوں نہ جس طرح انہوں نے  اپنی  فکر سے ،اپنی  لیاقت سے  اپنے آپ کو جوہری طاقت  بنایا ، کیونکہ  اس میں حریف  کا  مقابلہ کرنا نظر میں  تھا کہ ہمارے  مقابلے میں ایسا کوئی دشمن ہے جو  کبھی بھی ہمارے ساتھ  جنگ چھیڑسکتا ہے اور جنگی میدان میں ہم کوئی خامی نہیں رہنی چاہئے۔اسطرح اس میدان میں  انہوں نے اپنے آپ کو  اپنے پیروں پہ کھڑا کرکے دکھایا ۔ اسی طرح اگر انہوں نے  تمام سیاسی مسائل،  تمام اجتماعی مسائل کے بارے میں بھی  اسی طرح خودمختار فیصلہ  لیا ہوتا  تو پاکستان کی  بات ہی کچھ اورہوتی۔جس طرح ایران نے  ایسا   کرکے دکھایا ہے ۔

پاکستان کو اب  احساس ہو رہا ہوگا کہ جب میں اپنے پیروں پہ  کھڑا ہوکر جوہری طاقت بنا، اتنی  بڑی کامیابی حاصل کرسکتا  ہوں دیگر میدانوں میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکتاہوں۔ جب ایران  نے سیاسی ،اقتصادی  اوراجتماعی مسائل  میں اپنے پیروں پہ کھڑا  ہوکے اتنی بڑی کامیابی  حاصل کی  میں کیوں نہ کروں۔

  اورموجودہ حالات میں  اگریہ دونوں ممالک ایران اور پاکستان کہ جنہوں نے اپنا جوہر دکھایا ہے مل کر  کام کرتے  ہیں  پھر تو عالم اسلام کے مسائل بھی بتدریج  حل ہوسکتے ہیں بلکہ  دنیا کے سب سے پیچیدہ  ترین مسائل کا حل ہونا کوئی بڑی بات نہیں  سمجھا جائے  گا۔

سوال : داعش کو عراق اور شام سے  نکال کر افغانستان میں بیٹھایا  جارہا ہےکیوں؟

ج)میں اگرچہ طالبعلم حوزہ علمیہ کا ہوں  مگرمیں پروفیشنلی ایک جرنلسٹ ہوں،  میری  اپنی نیوز ایجنسی ہے (عالمی اردوخبررساں ادارہ"نیوز نور") آپ ان کے مراسلات اورمقالات  کو دیکھیں،  مقصد یہی رہا ہے کہ اردو میڈیا میں استعماری ان سازشوں کو برملا کرسکوں۔ میں بڑے عرصے25 سالوں سے بین الاقوامی صحافت سے عربی  ،فارسی  ،انگریزی اور اردو میڈیا سے جڑا ہوا ہوں، میں نےجس چیز کا فقدان اردو میڈیا میں پایا،  میں اس  کمی کو پورا  کرنےکی کوشش کررہاہوں  کہ  جو ان مسائل کی اصلی تصویر ہے  وہ سامنے لاوں ۔ اسی لئے شواہد کے بنا پر کہہ رہا ہوں کہ  یہاں خطے میں جو ساری جنگ  چل رہی ہے وہ صرف اورصرف اسرائیل  کو بچانے  کیلئے چھیڑی گئی ہے۔ کیونکہ  اسرائیل ہی ان تمام مصائب کی جڑ ہے۔  جب تک اسرائیل ہے تب تک استعماری اوراستکباری منصوبے سارے  کے سارے عملائے جائیں گے۔

 داعش کو اس لئے افغانستان  میں منتقل کیا  کیونکہ عراق اور شام میں کامیاب نہیں ہوئے اب  امت اسلامیہ اوردیگر خودمختار ممالک کے خلاف منصوبہ بندی کرنے کیلئے اسرائیل کو  پیس آف  فائنڈ راحت کی سانس  مل سکے۔استعماری طاقتیں محسوس کررہی ہیں کہ  ماضی کی سیات  اب کھوکھلی  ہوتی جارہی ہیں،اسلئے وہ نئی اسٹریٹجی  بنانے میں  لگے ہیں۔

 جس طرح میں نے پہلے اشارہ  کیاکہ امریکہ نے  پاکستان کو سویت یونین کے مقابلے کیلئے  استعمال کیا تھا، جب دیکھا کہ اب ضرورت نہیں ،رخ بدل دیا اور جب پھرضرورت پڑی دوبارہ  افغانستان کیلئے  ہی پھر پاکستان سے ہاتھ جوڑ کر دوستی بنائی،  کیونکہ اس نے نئی سیاست  بنائی تھی۔ تو اسی طرح  ابھی اسرائیل اپنے آپ کو  بچانے کیلئے نئی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ جو یمن  کی جنگ ہے وہ اصل میں اسرائیل کو بچانے  کیلئے ہے۔اور داعش  بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:یعنی وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے جو فکری  بلاک ہیں  وہ پریشان رہیں؟

ج) جی ،بالکل میں یہی کہنا چاہتا تھا ۔  کیونکہ امت اسلامیہ کی جو اکثریت ہے  وہ ہمارے بھائی اہلسنت تشکیل دیتے ہیں اور ان کو ہمیشہ شیعوں  کے بارے میں ایسا فوبیا پید اکیا گیا ہے جو  ایسے دلائلوں کےسامنے رکھے گئے ہیں کبھی اس حد تک شیعوں کو کافر بھی قراردیتے کیونکہ یہ کوئی بھی کہےگا کہ اگرمکتب اہلبیت ؑ کافر ہوگاپھر   اسلام ہے کہ اگر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فر کہلائے تو پھر مومن  کون ہے جب علی مرتضی ٰ ،حسن مجتبیٰ  ،حسین شہید کربلا ،امام زین العابدین ؑ جب یہ کافر قرارپاتے  ہے تو پھر مسلمان کون رہتا ہے اوراس کا چونکہ عملی نمونہ  کوئی تھا نہیں تو ان کو یقین نہیں ہورہا ہے کہ کوئی  اسلامی بلاک میں  اپنا سراونچا  کرکے سویت یونین سےٹکر لے سکتاہے۔امریکہ جیسےسوپرپاؤر سے ٹکر لے سکتا  ہے اور ہر سیاسی اورمدیریتی میدان میں  ہی نہیں بلکہ سائنس میں جس  مسلمان کو ایک کمپلکس  میں،احساس کمتری میں ڈال دیاجاتا ہے کہ سائنسی پیشرفت صرف  مغربی ممالک  کے دین ہے۔اب تو یہ کہتے ہیں کہ  جناب یہ دراصل  امریکہ اورایران  خود مل بیٹھے ہیں،  وہ سنیوں کے خلاف ہیں۔  یہ نہیں تسلیم کرتے  ہیں کہ ایران  نے مکتب اہلبیتؑ  کی رہنمائی میں یہ مقام حاصل کیا ہے جبکہ اوردیگر ممالک بھی شیعہ ہیں لیکن وہ مغربی نسخے پر عمل پیرا ہیں مگر  یہاں ایران میں جو ولایت فقیہ  کی حکومت قائم ہوگئی  یہ اہلبیت علیہم السلام کا حکومتی نسخہ ہے۔یہ وہ نسخہ جو اہلبیت ؑ نے ہمیں  سیاست کرنے کا طریقہ  بتایا ہے، جس پہ عمل  کرکے ثابت ہوا کہ اسلام کی طاقت کیا ہے۔ اوراس عوامی مذہبی حکومت کی اصلی تصویر کو دنیا کے سامنے  نہ لانے کیلئے جان توڑ کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ  جب یہ تصویر دنیا کے سامنے آئے گی تو امت اسلامی سوپر پاؤر  بنے گی ، تو اس وقت نہ امریکہ سپر پاور رہے گا نہ یورپ کی بالادستی رہے گا۔ جس طرح ابھی ایران کو چھوڑ کر مسلم ممالک کا جھکاؤ امریکہ کی طرف  ہے ،چین کی طرف  ہے روس کی طرف  ہے پھر چین ، روس  اورامریکہ کا جھکاؤ اسلام کی طرف ہوگا۔  تو یہ ایسے طاقت  کے ابھرنے سے ڈرتے ہیں ۔تو افغانستان میں داعش کا  مشن  یہی ہے کہ وہ اسلا کو بدنام کرنے اور اسرائیل  جس نابودی کے ٹریک پر نظر آرہا ہے اس کوبچانے کیلئے، اس کو بچنے کی نئی راہیں تلاشنے کیلئے ایک اور فرصت فراہم کر رہا ہے ۔

سوال : اسرائیل کی  ہماری  میڈیا پر کتنی گرفت ہے ، اسرائیل کے اندر سیاسی صورتحال کیا ہے ؟

ج)اگر ہم خوداسرائیل کے سیاسی تجزکاروں کے قلم دیکھیں کہ  اب ان کے قلم سے  کیا چھلکتا ہے۔ وہ بار بار اس بات  کا اعتراف کرتے ہیں کہ مقاومتی محور  دن بہ دن طاقتور ہوتا جارہا ہے اور ہماری سیاست دن بہ دن کھوکھلی پڑتی جارہی ہے۔ اس لئے وہ تمام تر توجہ ان ممالک کو دے رہے ہیں۔جیسے کہ سعودی عرب    جو کہ پردے کے پیچھے  اسرائیل کا اتحادی ہے  وہ کھل کے آگے آئے۔ ایسا کوئی  مسلمان صحافی نہیں کہہ رہا ہے ۔ اگر آپ اسرائیلی میڈیا پہ نظربنائے رکھیں  گے کہ یہ سبھی حقائق آشکار ہونگے کہ اسرائیل خود کو بحران میں پاتے ہیں ۔

سوال )محمد بن سلمان  نے آل سعود کی تمام دولت ہڑپ کرلی ،اس   خاندان کے اندر تلوار چلنے پر  آل سعود خودبخود دنیا سے فنا ہونے والا ہے ایسے میں  اب اسرائیل کو آل سعود کی کیا ضرورت  رہ گئی ہے ؟

ج) نہیں ایسا نہیں ہے۔  جب تک  ان کا( آل سعود )کا  مسلم امہ پر ہاتھ بناہے  تب ان کی ضرورت باقی ہے۔اس کیلئے پہلے  مسلمان ممالک کی طرف سے ریکشن آنی چاہئے کہ جس کی وہ  ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں ۔کیونکہ  جسطرح خود سعودی عرب کا بادشاہ  اپنے آپ کو خادمین حرمین شریفین  کہلاواتاہے  یہ اسی لئے ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ خوبصورتی کے ساتھ استحصال کیا جائے۔جبکہ  دنیا کے کسی بھی مسلمان  مومن سے پوچھیں  کہ  کیا آپ نے دیکھا کہ یہ صاحب  حرمین شریفین کا خدمت گذار ہے ؟ ہاں استعمار و استکبار کے خادم ضرور ہے۔ ایسے میں جو ان کی چابلوسی نہ کرے حتی   اس کوحج کی اجا زت نہیں ملتی ہے۔ جو اس کی تعین کردہ شرائط مانے اس کو اجازت ہے اور   جو اللہ کی تعین کردہ شرائط کے مطابق حج کرنا چاہئے وہ معیار نہیں ہے۔یعنی وہ عملاً اپنے کو خدا ئی کا دعوی کرتاہے اور دوسروں پر شرک اورکفر کا فتوالگائے جارہا ہے۔

 مگر اس کے باوجود بھی  نام کتنا خوبصورت اعتقادی نام خادمین حرمین شریفین استعمال  میں لاتے ہیں۔ اسطرح ان ہی حربوں سے فائدہ اُٹھارہا ہے کہ  کسی نہ کسی بہانے  امت اسلامی پر  اپنا ہاتھ بنائے رکھے۔جس   کیلئے جو  مسلم ممالک کے سربراہ ہیں  جو کہ نام کے مسلمان  اور کام کے اسلام اورمسلمانوں کے  دشمن ہیں ان کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

  اگر ایکطرف امریکہ جمہوریت  کی بات کرتا ہے اپنے آپ کو جمہوریت کا  دعویدار دار کہلاتے ہیں  مگر دوسری طرف آپ دیکھے کہ کس طرح ان ہی   آمروں اورڈکٹیٹروں کے حامی  بنے ہوئے ہیں۔ اور  ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں مگر اس کے باوجود  کوئی بھی ان پر انگلی نہیں اُٹھانے کی جرئت نہیں کر رہا ہے ۔

سوال :پاکستان  کا اچانک ایران کی طرف  رجحان بڑنا، کیا یہ آل سعود کی آخری  کرن کی اُمید بھجنے کی علامت ہے؟

ج) دیکھئے یہ بات ماننی پڑےگی کہ  پاکستان میں جذباتی  لوگ نہیں بیٹھے ہیں بلکہ قابل  سیاستمدار، بڑے منجھے ہوئے سیاس  مدار لوگ بیٹھے ہیں وہ جب امریکہ سے باج گیری کر سکتے ہیں جبکہ اس کیلئے  یہ جملہ استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ اور اسی طرح وہ سعودی عرب کا بھی جیب خالی کرتےا ٓئے ہیں۔مگر ان کے جرائم میں جس طریقے سے   امریکہ چاہتا ہے  جو سعودی عرب چاہتا ہے  پاکستان نے ابھی تک  اسطرح اپنے آپ کو ان کا آلہ کار بننے نہیں دیا ۔

سوال: یمن کے اندر کھینچنے کی  کوشش کی گئی انہوں نے بہت  سارے جگہوں پہ  34 ملکی اتحاد اس پہ ڈائریکٹ ایران کے اوپر  جو ہے انہوں نے اس کو  بھیجنے کی کوشش کی  مگر پاکستان نے ہر چیز کو  نائسلی ٹائیٹل کیا ہے ؟

ج) بہت ہی عمدہ طریقے سے بالکل  تو

 ابھی پاکستان  ایک اقتصادی  پیشترفت کےبڑے  نئے افق پہ   آنے جارہا ہے اگر اس کا صحیح استفادہ  کرے ،سلک روڑ ایران نےریسٹور کرکے اب  ٹرین بھی چین سے ایران تک پہنچ گئی ہے اور جو  یہاں اقتصادی  کوریڈور بن رہا ہے وہ خطے کی خوشحالی کے لئے مہم ہے۔اور ایران کی جو سیاست رہی ہے وہ بڑی جامع ہے۔ اگر چہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان ایک سوچ بن چکی ہے  کہ ہندوستان پاکستان کو اپنا  شمن قراردیتا ہے اور پاکستان  ہندوستان  کو اپنا دشمن قرار دیتا  ہے۔

نہ  ہندوستان کیلئے  پاکستان  دشمن ہے اور نہ پاکستان کیلئے ہندوستان دشمن ہے البتہ  کچھ لوگوں کی ایسی فکر ہوسکتی ہے۔

 اگر دیکھا جائے  پاکستان اورہندوستان ایک ہیں۔  مسلمانوں کی آبادی کو لے کر بھی اوراپنے  اقتصادی اورثقافتی مسائل کو لیکر بھی  یہ دونوں دشمن  کی شکل میں   رہنے کے بجائے دوست کی شکل میں بھی  بہت بڑا کردار کرسکتے ہیں ۔

سوال : وہاں پر جو مودی سرکاری آئی ہے وہاں پر  انتہاپسند جماعت  آر آر ایس حاکم ہوئی ہےجو تحریک آزادی کے بانی کے قاتل کو ہیرو اور گاندھی جی کی توہین کرتے ہیں۔

ج)نہیں، ایسا بالکل کچھ بھی نہیں ہے ۔ ا یران نے  ابھی جو سیکولر سیاست کا نقاب نوچ لیا ہے جو  یہاں پر حاکم ہے کیونکہ اسی سیاست نے سیاست اورمذہب  کو الگ کرکے استحصال کیاجاتا رہا ہے  لوگوں کے افکار کےساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور ایسے  میں جو اسلامی اور دین مدار سیاست  جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  ولایت فقیہ کے طورپر پیش کی  وہ اسی کا نمونہ ہے کہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے  ہم دشمنی کے بجائے د وستی کےساتھ  رہ سکتے ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی    ناجایز سیاسی ٹولہ ہے جس کی نابودی کیلئے  دن بھی گننے  ہیں اورکاروائی بھی کرنی ہے وہ اسرائیل ہےباقی سب کے ساتھ دوستی رکھنی ہوگی ۔

سوال :پاکستان  دوستی کےساتھ رہنا چاہتا ہے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتا رہا،مگر جواب دشمنی سے دیا جاتا ہے۔

ج) جب بھی غیروں کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا دشمنیاں دوستی میں تبدیل ہونگی۔  آپ دیکھئے  امریکہ جو خود اُس دنیا میں بیٹھ کر اِ س دنیا میں  حکومت کررہا ہے اس کا یہاں کیا کام ہے۔  جب ہم بھی ایران کی طرح  امریکہ کے ہاتھ کاٹ سکیں گے  ، اسرائیل کےساتھ رابطہ توڑ سکتے ہیں  تو تبھی جاکے ہم نجات  پاسکتے ہیں،دشمنیاں دوستی میں بدل سکتی ہیں۔ جسطرح ایران نے  کردکھا۔یا   ایران نے جو یہی نمونہ  عراق  کو دکھایا،  عراق بچ گیا۔  شام کو دکھایا شام بچ گیا  ۔کیونکہ ان کو بتایا گیا کہ دشمن آپس میں نہیدشمن کررہا ہے  آپ نے ایک دوسرے کو کاٹ مارنا ہے  شامیوں کو کہا خود کاٹو  ماروعراق کو بھی یہی کہا تو لوگ خود اپنے مسائل کو  اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں جو کل  ایک دوسرے کے دشمن  کے نام سے ایک  دوسرے کے مقابلے میں تھے دوست  بن کے ہاتھ ملاکے سرجوڑ کے وہ ان کو ترقی کے راہ پر لانے کیلئے ایران نے ہی ان کو راستہ دکھایا ایران نے  خود یہاں پر  کردوں کےساتھ بعض  مذہبی بنیادوں پر،قبائلی بنیادوں پر یعنی  اہلبیت ؑ کے جوسیاست ہے  جو حضرت علیؑ  نے مالک اشتر کو بتایا  ان ہی لائنز پہ سیاست پہ عمل کرکے دکھایا  پاکستان ضرور آج   نہ کل اس  مالک اشتر کے خط پر عمل کرےگا ہندوستان   ضرور اس پہ عمل کرےگا افغانستان اس پہ ضرور عمل کرےگا  یہ ممکن ہے کہ  ہم اپنے اصلی  دشمن کو پہنچانے  اوردشمن کون ہے  جو انسانیت کا دشمن ہے اس لئے وہ نااُمیدی کی کوئی  بات ہی نہیں ہے  کہ یہی اقتصادی  مسائل ہی تھی شائد اس خطے کوان کو جوڑنے کیلئے  پاکستان ہے ایران ہے  افغانستان ہے شام  ہے یہ خود  اگر بیٹھے اپنے مسائل کا حل نکالے  یہ صحیح ہوگا مگر امریکہ  آکے ڈکٹیٹشن دےگا  معلوم ہے کہ وہ اپنے مفاد مد نظر رکھےگا ۔

سوال : امریکہ کو سی پیک سے بہت تکلیف ہورہی ہے کیوں؟

ج) یہ اسی لئے ہے کہ امریکہ  ہضم نہیں کر پارہا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی سر اٹھاکے جیے۔  دیکھئے اقتصاد  بہتر ہونا کس  انسان کو پسند نہیں ہوگا۔  جب لوگ اپنے اقتصاد ی حالت کو بہتر  ہوتے دیکھ لیں گے  کیا وہ اس سے ناراض ہونگے۔  پورے خطے میں جب لوگ دیکھیں گے کہ ہمارا فائدہ کس طرح ہو رہاہے  پاکستانی ،  ہندوستانی ،ایرانی ،افغانی  لوگ دیکھیں گے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہورہے ہیں اور   اپنے مسائل کو لیکر  اپنا فیصلہ خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو امریکہ ایسی صوتحال نہیں چاہتا ہے کہ کوئی  سراُٹھا ، اپنی فکر اور خود کی صلاحیت کے ساتھ آگے بڑے   اسی لئے اس کو تکلیف ہے ۔

سوال :یہ جو ابھی داعش کے کیمپ دوسے ممالک میں لگا ئے جارہے ہیں اس کا مقصد کیا ہے؟

ج)بس صرف مسلم ممالک کو ڈیسٹبلائز کمزور کرنا ہے۔ جسطرح آپ کے پچھلے  ایک پروگرام میں عفرین پر بات کی کہ   ترکی جو آپریشن کررہا ہے  اس کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ کیا وہ غیر شعوری طور پر اسرائیل کی مدد تو نہیں کررہا ہے۔

دوسرے ممالک میں داعش کو سرگرم کرنے پیچھے جو مقصد ہے اس بارےمیں اپنا کوئی جملہ اضافہ نہیں کررہاہوں  بلکہ حال ہی میں امام خامنہ ای کا ہی جملہ  نقل کررہا ہے کہ  کیوں داعش کو افغانستان  میں شیفٹ کیاگیا  وہ تاکہ اسرائیل کو  نئی شیطانی نقشہ کھیچنے کیلئے راحت کی سانس لینی کی فرصت فراہم ہوسکے۔اب دیکھنا پڑھےگا کہ کس حد تک یہاں افغانستان  ، ایران ،پاکستان ،ترکی ،شام ،عراق  کے جو حکام ہیں،  مسلمانوں کے ذمہ دار حکام جو ہیں یہ ان  مسائل کو کسطرح  سنبھال سکے گیں نمٹ سکیں گے۔  جبکہ اس میں   کوئی دو رائی  نہیں اس میدان    جو اپر ہینڈ   اور بالادستی ایران کی رہے گی، کیونکہ ان کے  مشورے کا نمونہ عراق نے دیکھا  ،شام نے دیکھا جس کا یہاں کے عوام  کےحق میں بہت ہی مثبت اور تعمیری   نتائج ملے ہیں ،افغانستان میں بھی قطاً یہاں کے حکام اس تجربے سے بھر پورر استفادہ کریں گے  جوکہ یقیناً امریکہ  نہیں چاہئے گا،  مگر عوام جب چاہئےگی   وہ سب کچھ ممکن ہے۔

سوال : جغرافیائی حدود کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں ہمسایہ نہیں، کیا  سعودی عرب  کے اثر  و رسوخ کے پیش نظر پاکستان اور ایران کے درمیان گرم جوشی دور دیکھنے کو مل سکتا ہے کیا؟

ج)یقیناً ہم اس کی ہی توقع  کریں گے  ۔میں نے شائد آپ کے کئی پروگراموں میں  اس کی طرف اشارہ بھی کیا  کہ جو ابھی سعودی عرب  کی حالت ہے  ایک زمانے بالکل ایسی ہی صورتحال ایران  میں  بھی تھی ،ہوبہو  چاہئے وہ  بوڑھے شاہ کی یا کےیااس کے بیٹےرضا شاہ کی کہ جب بوڑھے شاہ کی جگہ اس کی جگہ اس کے جوان بیٹے کو تخت پر بٹھایا گیا تھا، صورتحال  ابھی سعودیہ میں تقریباً بالکل  ویسی ہی ہے۔ کل یہی امریکہ سعودی عرب کو سوفیصد پیٹ دکھائےگا جس طرح اس نے ایرانی بادشاہ  کو  پیٹ دکھائی تھی۔ اور اسطرح  وہاں سعودیہ میں ان شاءاللہ ایران کی طررح عوامی حکومت قائم ہوگی اور عوام کی اور امت اسلامی کی دیرانہ آرزو  پوری ہوگی اورحرمین شریفین پہ صرف مسلمانوں کی بالادستی رہے گی اس نامشروع  حکام کے ہاتھ کاٹ کے رہیں گے۔ اس میں کوئی تردید کی بات نہیں ہے صرف اس طرح کہنامشکل کہ  جسطرح امام خامنہ ای  نے اسرائیل کیلئے فرمایا کہ اسرائیل اگلے   25 سال نہیں دیکھیں گا،اسطرح میرے لئے سعودی عرب کے بارے میں  ٹائم فریم دینا مشکل ہے ۔ مگر پاکستان جس نے  ابھی تک یہ ثابت کردکھایا کہ وہ سعودی عرب کا کھلونا نہیں  بنے گا آئندہ بھی  یقیناً آل سعود کی  بالادستی میں  پاکستان کھلونا  بنتا نظرنہیں آتا اور ایران- پاکستان دوستی کا مستقل روشن نظر آ رہا ہے۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی