سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

چین میں اسلام کی حالت پر ایک تحلیلی نگاہ

 اردو مقالات مذھبی سیاسی چین

چین میں اسلام کی حالت پر ایک تحلیلی نگاہ

چین میں اسلام کی حالت پر ایک تحلیلی نگاہ

نیوزنور: چین میں اسلام سرکاری طور پر ۶۵۱ عیسوی میں پہنچا اور اس کے بعد ہزاروں عربوں اور ایرانیوں کے ذریعے سے منتشر ہوا اور پھیلا ، اس وقت زیادہ تر چین کے مسلمان اہل سنت اور حنفی مذہب والے ہیں جب کہ  تھوڑی سی تعداد میں شیعہ بھی ہیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم کے ایک فاضل محقق  علی امیر خانی  اپنے فارسی مقالے میں چین میں اسلام کی حالت پر ایک تحلیلی نگاہ کے زیر عنوان میں رقمطراز ہیں کہ ؛ چین میں اسلام سرکاری طور پر ۶۵۱ عیسوی میں پہنچا اور اس کے بعد ہزاروں عربوں اور ایرانیوں کے ذریعے سے منتشر ہوا اور پھیلا ، اس وقت زیادہ تر چین کے مسلمان اہل سنت اور حنفی مذہب والے ہیں جب کہ  تھوڑی سی تعداد میں شیعہ بھی ہیں ۔

چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک شمار ہوتا ہے ۔ جو سینٹرل ایشیا اور مدل ایسٹ کے بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

یہ وسیع و عریض ملک  شمال کی طرف سے مغولستان ، مشرقی شمال کی جانب سے روس ، مشرق سے شمالی کوریا ، دریائے زرد اور دریائے چین شرقی سے ، جنوب کی جانب سے جنوبی دریائے چین ، ملک ویٹنام ، لائووس ، میانمار ، برما ، ھندوستان ، بھوٹان اور نیپال سے ، مغرب کی طرف سے ھندوستان ، پاکستان افغانستان تاجیکستان قرقیزستان سے اور شمال مغرب کی جانب سے قزاقستان سے ملا ہوا ہے ۔ چین میں سب سے بڑا مذہب بودھ ازم ہے ، جب کہ دیگر مذاہب کی  تفصیل درج ذیل ہے :

اجداد پرستی ؛ چین کا سب سے قدیمی اعتقادی نظام اجداد پرستی یعنی بزرگوں کا احترام ہے ۔

چین میں ایک بودائی ، یا بودیسم ہے جس کو ساکایامونی کہا جاتا ہے ۔

تائو مذہب : تائوئیزم شروع میں ایک فلسفی نظام تھا جس کا منبع لائوتزو اور چوانگتزو کی تعلیمات پر مبنی تھا جو ترتیب وار چوتھی اور چھٹی صدی قبل مسیح میں زندگی بسر کرتے تھے ۔

مذہب کنفسیوس : ان کا طریقہ سیاسی فلسفے پر استوار تھا جن کا عقیدہ زمانہء قدیم کے خرد مندی پر مبنی عصر طلائی کی جانب واپسی کا تھا ۔

چین میں اسلام سرکاری طور پر ۶۵۱ عیسوی میں پہنچا اور اس کے بعد ہزاروں عربوں اور ایرانیوں کے ذریعے سے منتشر ہوا اور پھیلا ، اس وقت زیادہ تر چین کے مسلمان اہل سنت اور حنفی مذہب والے ہیں جب کہ  تھوڑی سی تعداد میں شیعہ بھی ہیں ۔

سال ۶۳۵ عیسوی میں پہلا نسطوری عیسائی فارس سے چین پہنچا اور اس نے رفتہ رفتہ دین مسیح کو منتشر اور رائج کیا چین میں زیادہ تر عیسائی پروٹسٹ ہیں ۔

اسی طرح دوسرے مذاہب اور فرقے جیسے زردشتی ، مانوی اور  یہودی بھی چین میں پائے جاتے ہیں۔

چین کے پاس ریڈیو اور ٹی وی کے چینل ہیں جو روزانہ ۱۴۲ کی تعداد میں ۳۸  علاقائی اور خارجی زبانوں میں پروگرام نشر کرتے ہیں ۔

سب سے اہم پارٹی کہ جس کی بنیاد ۱۹۲۱ میں رکھی گئی تھی کمیونسٹ پارٹی ہے ۔

 کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کچھ دیگر پارٹیاں بھی محدود فعالیت کی اجازت رکھتی ہیں ، جیسے کومین  انقلابی کمیٹی ، جامعہء ڈیموکریٹیک چین ، اتحادیہ ڈیموکریٹیک چین برائے قومی تعمیر نو ، اتحادیہء چین برائے پیشرفت ڈیموکریسی ، چین کے دہقانوں اور کاریگروں کی ڈیموکریٹیک پارٹی ، جامعہء خود مختار تائیوان ، جامعہء جیوسان ، اور جی گنگ دانگ چین ،

ماضی قدیم سے ہی چین کے تمدن  پر ایک روح حکمفرما تھی جس نے سرزمین چین میں اس ثقافت کو  نہ صرف ہزاروں سال تک نہ صرف بچا کر رکھا بلکہ اس کے سلسلے کو جاری رکھا ۔اور مختلف تمدنوں کے حملوں اور نفوذ کے باوجود اسے  بکھرنے نہیں دیا ۔

چین کا تمدن اور کلچر تین اصول پر استوار ہے : انسان اور نیچر کے درمیان رابطہ ، دائمی ردو بدل ، تمام تمدنوں کو جذب کرنے کی ظرفیت و قابلیت اور موجودہ حالات کے ساتھ انطباق ،

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تین گروہوں جیسے کمیونسٹی آئیڈیالوجی ، اجتماعی سیاسی لیبرالیسم میں وسعت اور کنفیوسیوسی بنیاد پرستی کی تحریک کا دوام چین کی آنے والی دو دہائیوں کی سیاست و ثقافت پر اثر انداز ہو گا ۔ اور یہ تین گروہ چین کے مستقبل کی تقدیر قلمبند کریں گے ۔

چین جمہوریء اسلامی ایران کی جوہری صنعت کی تجہیز میں مدد کرنے والا ایک ملک تھا ، اس نے اس علم کی تعلیم اور ٹیکنالوجی ایرانی سائنسدانوں کو سکھائی اور برجام کے موضوع میں اور بین الاقوامی پابندیوں کے دوران وہ جمہوری اسلامی ایران کا قریبی ساتھی رہا ہے ، اور اس نے روس کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کچھ قرار دادوں پر ویٹو بھی کیا ہے ، اور ایران کے بازار سے بہترین فائدہ اور تجارت چین سے مخصوص ہیں آج چینی سازو سامان نے مختلف کیفیت کے ساتھ ایران کے بازار کو مسخر کر لیا ہے ۔

چین اس وقت سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے جمہوریء اسلامیء ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے ۔

اب تک ایران اور چین کے درمیان چھ ثقافتی سمجھوتوں پر دستخط ہو چکے ہیں ۔ پہلا سمجھوتہ تہران اور پیکینگ یونیورسٹی کے مابین ہے ۔

اب تک چین کی چار یونیورسٹیوں فارسی زبان کا سبجیکٹ لاگو ہو چکا ہے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے پانچ سال بعد اسلام کی چین تک رسائی ہوئی ۔ سعد ابن ابی وقاص سب سے پہلا مسلمان تھا کہ جس نے چین میں قدم رکھا اور شانگھائی کی بندر گاہ پر سب سے پہلے مسجد تعمیر کی ۔ چینیوں  کی مسلمانوں کے ساتھ سب سے پہلی ملاقات سال ۱۳۰ ہجری قمری میں اس وقت ہوئی ، کہ جب چین کی فوج" کوھسین چعیہ" کی رہبری میں زیاد کی رہبری میں مسلمانوں کے آمنے سامنے ہوئی اور چین کی سرحد پر ان کے درمیان زور دار جنگ ہوئی ۔ شروع میں کامیابی چینیوں کو ہوئی لیکن بعد میں ان کی شکست کے بعد مسلمان مرکزی ایشیاء پر مسلط ہو گئے اور یہ فتح اس سرزمین اور مرکزی ایشیا میں مسلمانوں کے نفوذ کا مقدمہ ثابت ہوئی ۔ (۱)

چین کے زیادہ تر مسلمان اس ملک کے مشرق میں صوبہء سین کیانگ میں بستے ہیں یہاں تک کہ اس علاقے کے رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ اس علاقے کی اسلامی روایتیں ایران اور ماوراٗ النھر میں موجود آٹھویں صدی ہجری اور اس کے بعد کی روایتوں کے تابع ہیں جنہوں نے رفتہ رفتہ چین میں نفوذ پیدا کیا ۔ چین میں موجود اسلام اس اعتبار سے کہ وہ شیعہ یا سنی ہو زیادہ مذہبی رنگ نہیں رکھتا ۔ اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ ایران آٹھویں سے دسویں صدی ہجری تک کا اسلام کہ جو چین پہنچا وہ صوفیانہ اسلام تھا جس میں شیعہ سنی دونوں اکٹھا تھے ، اور وہ ایسی چیز تھی کہ بارہ اماموں والا سنی مذہب کہا جا سکتا تھا چین کے اکثر اہل سنت اہل بیت علیہم السلام سے شدید محبت رکھتے ہیں اور وہ ہر سال ماہ رمضان المبارک کی ۱۳ تاریخ کو حضرت زہراء س کے نام سے جشن مناتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام سے والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔آج پورے چین میں چین کی امور ادیان کی تنظیم کے سربراہ کے اظہار نظر کے مطابق (۲) اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا ۲۳ میلیون نفر بتائی جاتی ہے ۔ لیکن غیر سرکاری ذرائع ان کی تعداد ۵۰ سے ۷۰ اور کچھ ۱۰۰ میلین تک بتاتے ہیں ۔ آج چین میں ۳۵ ہزار سے زیادہ مساجد ہیں جن میں ۴۵ ہزار سے زیادہ امام جماعت اور خطیب مسلمانوں کے دینی امور کو چلا رہے ہیں اس ملک کے دس سے زیادہ علوم اسلامی کے تعلیمی مراکز میں ۲۰ ہزار سے زیادہ افراد سر گرم عمل ہیں ۔

چین کے ایغور کے ۹۹ فیصد مسلمان اہل سنت ہیں جن کو چین کی حکومت کچلتی ہے اور انہیں روزہ رکھنے سے روکتی ہے ۔ حالیہ چند برسوں میں عام اجتماعات کے مقامات پر آئمہء جماعات کو رقص کرنے ، مسلمانوں کو سیگریٹ اور الکحلی مشروبات بیچنے پر مجبور کرنے ، مردوں کو داڑھی نہ رکھنے دینے  اور عورتوں کو اس ملک میں حجاب پہننے سے روکنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔

چینیوں کے اسلام کی طرف مایل ہونے کی ایک دلیل ، اس دین کی صلح جویانہ ماہیت اور اس کی تعلیمات کا کنفوسیوس کے دین کے بنیادی مفاہیم کے قریب ہونا ہے جو چینیوں میں رائج ہے ۔ باہر سے آنے والے مسلمانوں کا چینی مسلمانوں سے اختلاط اور شادی بیاہ کرنا اسلام کے ان کے درمیان پھیلنے کا باعث بنا ۔ چینی مسلمانوں نے چین کے اجتماعی ، فنی ،طبی معماری اور ہنری میدانوں میں جو شایان شان خدمات انجام دی ہیں وہ بھی اسلام کے اس ملک میں رہ جانے اور رچنے بسنے کی ایک دلیل شمار ہوتی ہے ۔

چین میں موجود ۵۶ قومیتوں میں سے ۱۰ قومیتوں میں دین اسلام کے ماننے والے پائے جاتے ہیں جو چین کی پوری آبادی کا دو فیصد ہیں۔ چین میں مسلمان قومیں ؛ خویی، اویغور ، قزاق ،تاتار ، ازبک ، سالار ، دانگ جیانگ ، بائوان ، قرقیز ، اور تاجیک ہیں ۔ ان دس اقوام میں سے بعض قوموں جیسے خویی ، میں مسلمانوں کی زیادہ تر تعداد پائی جاتی ہے وہ عرب اور ایرانی مہاجرین کے بومی چینیوں کے ساتھ اختلاط کا نتیجہ ہیں ۔

چین میں اسلامی اور دینی گروہوں کی شناخت ،

چینگ کے دور میں مسلمانوں کے اپنی پہچان بنانے اور اسلامی ماہیت کے احیاء کے دوران میں داخل ہونے  اور اصلاحات کے عصر کے آغاز ، اور دین کی اصلی بنیادوں کی جانب واپسی ، اور اسی طرح مسلمانوں کے کچھ معاشروں کے اختلاط سے دوری اختیار کرنے اور چین کے سنتی کلچر کے ساتھ تال میل پیدا کرنے اور اس سرزمین میں صوفی افکار کے داخل ہونےکے بعد تدریجا مسلمانوں کی متحدہ صفوں میں فرقہ پرستی اور اختلافات کو ہوا دینے کا رجحان پیدا ہوا اور اس کے بعد تین اسلام پسند چینی گروہوں نے جنم لیا ۔

چین میں سنتی اسلام کا دعویدار گروہ ،

چین میں مسلمان معاشروں کی تشکیل میں ایرانی اور عرب تاجروں کے پوتے نواسے ، اور سینٹرل ایشیاء کے مسلمان اور فوجی حکام اور عہدیدار شامل تھے جو چین کے جنوبی سواحل ، شمال مغرب کے علاقوں اور چین کے مغرب میں ساتویں صدی سے چودھویں صدی تک چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں رہتے تھے ۔

اس گروہ میں حنفی مذہب کے مسلمان تھے اور محتاط انداز میں زندگی بسر کرتے تھے ان کی آبادی بہت چھوٹی سی تھی جن میں ہر جماعت پر ایک امناء کمیٹی اور ایک عالم ہوتا تھا یہ گروہ بعد میں قدیمی اور سنتی گروہ کے نام سے مشہور ہوا ۔

صوفیانہ طریقت کا پیرو اسلامی گروہ ،

یہ گروہ سرہویں صدی عیسوی سے پہلے کوئی خاص منزلت نہیں رکھتا تھا ، لیکن کچھ علماء کے فریضہء حج کے لیے جزیرہ نما سعودی عرب کے سفر کے بعد ، یا تعلیم جاری رکھنے کے لیے سفر کے بعد وہ ساری دنیا کے صوفی گروہوں سے آشنا ہوئے اور چین واپس لوٹنے کے بعد وہ صوفی افکار کو سوغات کے طور پر اپنے ساتھ لائے اور تدریجا صوفیانہ طریقتوں نے چین میں رواج پیدا کیا ۔

چین میں اہم ترین صوفیانہ طریقتیں مندرجہ ذیل ہیں : طریقت ، قادریہ ، خوفیہ ، جہریہ اور کبرویہ ،

البتہ یہ ساری طریقتیں چھوٹی چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں ۔

جدید اسلامی افکار رکھنے والا گروہ ،

یہ گروہ مینگ کے افکار کے آخری دور سے مربوط ہے جس مسلمان آرام سے مشرق وسطی میں رفت و آمد رکھتے تھے اور ان علاقوں کی اصلاح طلبی اور احیاء گری پر مبنی تحریکوں سے متائثر ہو کر انہوں نے جدید اسلامی خیالات کو چین میں داخل کیا ۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں مسلمانوں کے حج کا سفر اختیار کرنے اور جوانوں کے مصر کی الازہر یونیورسٹی میں علم حاصل کرنے سے مسلمانوں نے نئے اسلامی افکار چین میں داخل کیے ۔ اور عوامی مفادات رسانی کے اداروں کی بنیاد رکھی اور ان اداروں میں نئے اسلامی خیالات کی ترویج شروع کی جن میں سلفیوں اور اخوان المسلمیں  کے عقاید کی بو شامل تھی ۔

یہ گروہ  مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور قید و بند کے سلسلے میں جو میزبان ملک نے ان کے لیے پیدا کی تھیں ذمہ دار سمجھتا تھا اسی لیے بعض مواقع پر یہ گروہ جنگ و ستیز کا راستہ اختیار کرتا تھا ۔

چوتھا اسلامی گروہ ،

اقتصادی اصلاحات کے آغاز اور ۱۹۷۹ عیسوی میں دروازے کھولے جانے کی سیاست کے شروع ہونے کے بعد چین کے مسلمانوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے ملکوں گروہوں اور دینی  اور اسلامی مراکز کے ساتھ رابطے برقرار کیے ، اور مسلمانوں کے با اثر دینی مراکز ، معاشروں  کے ساتھ دینی اور ثقافتی تعاون اور تبادل نظر پیدا کر کے اسلامی فکر کی ترقی اور اس کے پھیلاو کا دوسرا راستہ آمادہ کیا ۔

اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے چین میں ،

چین میں دو گروہ ہیں کہ جنہیں اعتقادی اور ثقافتی شیعہ کہا جاتا ہے ۔

اعتقادی شیعہ وہ لوگ ہیں کہ جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو سید اوصیای رسول اللہ   اور ان کے بعد کے اماموں کی امامت اور وصی رسول اللہ کے قایل ہیں اور یہ امامیہ اور اسماعیلیہ دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔

ثقافتی شیعہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کو چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی  کہا جاتا ہے ۔

چین کے فرھنگی و ثقافتی شیعہ محبت اہل بیت علیہم السلام اور دینی اعتقاد ات میں اعتقادی شیعوں کے ساتھ بہت سارے اشتراکات رکھتے ہیں اور اعتقادی شیعوں کے مذہب اور ان کی ثقافت سے متائثر ہیں ۔

چین میں اسماعیلی شیعہ غالبا چین کی تاجیک اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو سین کیانگ کے صوبے میں تاشقوغان کے علاقے میں  اور پامیر نام کے پہاڑوں کے دامن میں آباد ہیں اور شش امامی شیعوں کے ماننے والے ہیں اور ان کی تعداد تقریبا ۴۵ ہزار افراد پر مشتمل ہے ، ایک نقل کی بنا پر یہ گروہ  تقریبا دسویں صدی میں شیعہ ہوا تھا اور سترہویں صدی کے اواخر میں اسماعیلیوں سے ملحق ہو گیا تھا ۔

چین میں بہت سارے مسلمانوں کی آداب و رسوم اور ثقافت میں شیعوں کے ساتھ قرابت کے باوجود شیعوں کی تعداد بہت کم ہے اور زیادہ صوبہء سین کیانگ کے یارکند کے علاقے میں رہتے ہیں ۔

بعض چینی مسلمانوں کا شدت پسند گروہوں کی طرف جھکاو ،

سعودی مساجد اور دینی و مذہبی مراکز کی تعمیر کر کے اور بعض علماء اور مساجد کے آئمہء جماعت اور چینی مسلمانوں میں نفوذ رکھنے والی شخصیتوں کو مالی امداد بہم پہنچا کر  اور اسی طرح براہ راست اور بالواسطہ طور پر دانشجو اعزام کر کے چینی مسلمانوں کے اعتقادات اور افکار پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔حالیہ برسوں میں اس نے پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں کے اعزامی طالبعلموں کی حمایت کر کے اس نے چینی مسلمانوں کے اندر نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کی تا کہ وہابی اور سلفی افکار کو  چینی مسلمانوں کے درمیان رائج اور منتشر  کر سکے۔چنانچہ بعض چینی مسلمانوں کا داعش کی طرف کھچنا اور اعزام کیا جانا اور ان کا داعش کے ساتھ ملحق ہونا اسی واقعیت کی عکاسی کرتا ہے ۔

متعدد ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ حال ہی میں بعض چینی رضا کار تکفیری گروہوں سے ملے ہیں ۔ سیکیوریٹی پر مبنی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہداعش میں چینی عناصر خاص کر شام کے شمال مشرق میں کمانڈری اور رہبری کی اونچی اونچی پوسٹوں پر فائز ہیں ۔

ایک فرانسیسی روزنامہ نگار تییری میسان نے ایک مطبوعاتی رپورٹ میں جون ۲۰۱۴ میں تصریح کی تھی : ایغور مسلمانوں کی اقلیت سے تعلق رکھنے والے سینکروں چینی جنگ جو شام کے شمال مشرق میں داعش کے ساتھ ملحق ہوئے ہیں۔ اور ان میں کچھ بہت مختصر مدت میں ان جنگی تجربوں کی بنیاد پر جو انہوں نےسین کیانگ کے علاقے میں کسب کیے تھے کمانڈری کے اعلی عہدوں تک پہنچ گئے ہیں ۔ اور ان میں سے کچھ نئی ٹیکنالوجی اور کچھ بھاری ہتھیاروں کے سلسلے میں مہارت رکھتے ہیں ۔

بنیادی طور پر وہابی افکار اور شدت پسندی پر مبنی تکفیری افکار کی ترویج جو افغانستان اور پاکستان میں اویغوری گروہوں کے درمیان ہورہی ہے وہ ریاض کی مالی حمایت سے ہو رہی ہے ۔ سعودی عرب کی شدت پسندی پر مبنی پالیسیاں چین کے اویغور مسلمانوں کی مشکلات کی ایک وجہ ہے ۔

بعض اسلامی تحریکیں جو چین میں سر گرم عمل ہیں :

۱ ۔ مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک ،

مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کی بنیاد ۱۹۹۳ عیسوی میں رکھی گئی ۔ سوویت یونین کے ٹکڑے ہو جانے کے بعد اس تنظیم نے مرکزی ایشیا ء کے شدت پسند گروہوں کے ساتھ رشتے جوڑے ، اور اس کے بعد افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کا تعاون کیا اب بھی اس کے کچھ افراد نے داعش کی رکنیت اختیار کی ہے ۔

۲ ۔ عالمی اویغور کانگریس ،

عالمی اویغور کانگریس ایک جدائی طلب گروہ ہے جس کی بنیاد سال ۲۰۰۴ میں رکھی گئی تھی یہ گروہ سین کیانگ میں خود کو جمہوریت کے داعی اور انسانی حقوق کے مدافع کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ نے تصریح کی ہے کہ اس کی اعتراضی حرکت مذہبی نہیں ہے ۔ اس کانگریس نے دعوی کیا ہے کہ  چینی زبان کے بڑے پیمانے پر حملے کے ساتھ اویغوریوں کی ثقافتی نسل کشی کرنے اور ان کی شناخت اور ثقافت کو نظر انداز کرنے کے علاوہ چین کی حکومت اویغوریوں کے اقتصادی حقوق کو بھی برباد  کر رہی ہے ۔ان کا اعتراض ہے کہ سین کیانگ کے خن کے علاقے میں چینیوں کی موجودگی عمدا اور ہدایت شدہ طور پر بڑھ گئی ہے ۔ اور چین کی حکومت دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کے بہانے سین کیانگ میں اویغوریوں کو کچلنا چاہتی ہے ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سین کیانگ کے اویغوری جس اسلام کو مانتے ہیں مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے حامیوں کو چھوڑ کر اس کا تعلق بنیاد پرست جعلی اور تکفیری اسلام سے نہیں ہے ۔

اسی دوران بعض علاقائی اور غیر علاقائی ملکوں کی اویغوروں کو آلہء کار بنا کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں نے حالات کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے ترکی اویغوروں کے ساتھ لسانی اور ثقافتی تشابہ کی بنا پر ہم قوم ہونے کے اعتبار سے ان کی حمایت کے طریقے پر عمل کر رہا ہے اور وہ اپنی سرزمین پر دسیوں ہزار اویغوریوں کا میزبان ہے عدالت و توسعہ پارٹی کی حکومت کے دوران اس طریقے میں نئی عثمانی مملکت کی پالیسی کے تحت اور شدت آ گئی ہے ، چنانچہ بعض چینی محافل کا عقیدہ ہے کہ اویغوروں کے کچھ جدائی طلب گروہ ترکی میں سکونت پذیر ہیں اور وہاں سے ٹرینینگ حاصل کر کے ان کو افغانستان اور پاکستان میں بھیجا جاتا ہے ۔

ان کے بعض ذرائع اس بنا پر کہ وہ داعش کے دیگر کے مقابلے میں کم شدت پسند ہیں وہ انہیں چینی داعشی کہتے ہیں وہ عراق کے موصل کے داعش کے قبضے میں آجانے کے بعد اس گروہ سے ملحق ہوئے تھے ۔

چین میں مسجد اور اسلامی انجمن ،

چین میں مسجدی مکاتب اور مدارس کے علاوہ بہت سارے غیر سرکاری دینی مدارس اور حوزہ ہائ علمیہ چین میں موجود ہیں جو مسلمان عوام کی مدد سے بنائے گئے ہیں اور ہزاروں طالبعلم ان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

پوری تاریخ میں چین کے مسلمان مساجد کے اطراف میں رہتے آئے ہیں سال ۱۹۱۱ میں چین کی امپراطوری کے بکھرنے کے بعد مسلمان معاشروں میں تدریجا تبدیلی رو نما ہونے لگی اور مسلمانوں کو جدید اسلام کی تعلیمات کی تبلیغ اور ترویج کی فکر لا حق ہوئی اور انہوں نے احتیاط کے ساتھ بعض تنظیموں اور اداروں کی بنیاد رکھی ۔

قومی اسلامی نجات فیڈریشن ، جامعہء مطالعات اسلامیء چین ،جامعہء فرھنگ اسلامیء چین اور مدرسہء عمومیء اسلامیء چنگ دا ، چین میں قابل ذکر کچھ اسلامی اور عوامی ادارے ہیں ۔

ادیان چین کے امور کی تنظیم نے کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کی بنیاد پر بودائیوں کی انجمن ، دائویسٹوں کی انجمن ،کنفوسیوس کے ماننے والوں کی انجمن ، اور مسیحی وطن پرستوں کے محاذ چین میں انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی تا کہ چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کو مسلمانوں کے درمیان عملی جامہ پہنائے اور وہ مسلمانوں اور حکومت کے درمیان ارتباط کا اصلی راستہ بن جائے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے مذہبی امور پر نظارت رکھ سکے اور کمیونسٹوں کی سیاست کے اصول کو مسلمان نشین علاقوں میں تقویت پہنچا سکے ۔

چین کی حکومت نے جو دینی انجمنیں بنائی ہیں ان کا ایک اور مقصد خود ان کے اعتراف کے مطابق مسلمانوں کو ہوئے نقصان کی تلافی کرنا ، چینی معاشرے میں وحدت اور ہمدلی کے جذبات پیدا کرنا اور مسلمانوں کے اندر حکومت پر اعتماد بحال کرنا ہے اسی لیے انہوں نے تشکیلات کو جنم دیا تا کہ مسلمان حکومت سے وابستہ اسلامی انجمن کی تشکیلات کے زیر سایہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوں ۔ ان مدارس کے خراجات حکومت دیتی ہے اور وہاں سے فارغ ہونے والوں کو امام، جمعہ و جماعات اور استاد مقرر کیا جاتا ہے ۔

اسلامی انجمن میں سب سے بڑی فیصلہ کن کمیٹی ،چینی مسلمانوں کے قومی نمایندوں کی شوری ہے، کہ ہر پانچ سال میں ایک بار جس کی چین کی مختلف انجمنوں کے نمایندوں کی موجودگی میں تشکیل ہوتی ہےاور شوری کی تشکیل  اور اس کے نمایندوں کی تعداد کے بارے میں انجمن کی دائمی کمیٹی میں فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

قومی نمایندوں کی شوری پچھلے دور میں انجام شدہ کار کردگی جائزہ لیتی ہے آیندہ کے لیے پروگرام مرتب کرتی ہے اور انجمن کے پانچ سال کے لیے مقاصد اور دستور العمل کو پاس کرتی ہے اور عملی کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کرتی ہے اور عملی کمیٹی بھی ہر دو سال میں ایک بار ایک اجلاس کے دوران ، اسلامی انجمنوں کی کار کردگیوں اور ان کے امور کی بہبود اور حکومت کے ساتھ اس کی پالیسیوں کی تطبیق کے عمل کا جائزہ لیتی ہے ۔

اس اسلامی انجمن کی ایک دائمی کمیٹی بھی ہوتی ہے ، جس کا انتخاب شورائ نمانیدگان کے ذریعے ہوتا ہے جس کی ذمہ داری شوری کے دستور العمل اور مصوبات کو عملی جامہ پہنانا ہے ۔

اب تک اس انجمن کے سربراہ  جناب برہان شہیدی ، جناب محمد علی جانگ جیہ ، جناب الیاس شن شیاسی ، اور صالح ان شوی رہے ہیں جب کہ اس کے موجودہ سربراہ کا نام امام ہلال الدین  ہے ۔

چین کی انجمن اسلامی کے شعبے درج ذیل ہیں : دفتر روابط بین الملل ، بعثہء حج ، سیاسی مذہبی کارکردگی پر نظارت ، شعبہء انتشارات ، اسلامی ریسرچ اور تحقیقات کا شعبہ، اسلامی علوم کی تعلیم کا شعبہ اور اقتصادی اور تجارتی مبادلات کا شعبہ ،

یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس انجمن کے مطالعات اور تحقیقات کے شعبے نے لاکھوں اسلامی کتابوں کے نسخے ، جیسے قرآن ، تفسیر قرآن ، فقہی کتابیں ، عقاید کی کتابیں ، منبر کے خبوں کے دیوان ، اسلامی ابتدائی نصاب کی تدوین ، پر مبنی چھپوا کر منتشر کی ہیں اور دسیوں اور نیشنل اور انٹر نیشنل سیمینار منعقد کروائے ہیں ۔

اسلامی تعلیمات کے شعبے سے سالانہ بڑی تعداد میں طلاب فارغ التحصیل ہو کر تعلیم جاری رکھنے کے لیے ، مصر ،سعودی عرب ، پاکستان ، لیبیا اور ملیشیا جاتے ہیں اور وہاں سے واپس آنے کے بعد مختلف پوسٹوں پر کام کرتے ہیں ۔

چین میں سرکاری اور غیر سرکاری دینی مدارس ،

۱۹۸۰ کی دہائی میں چین میں عوام اور اہل خیر کی حمایت سے تدریجا مدارس کی تاسیس اور پھیلاو کا کام شروع ہوا ۔سال ۱۹۱۱ میں پہلا دینی مدرسہ صوبہء یون نن میں شہر دالی کے اطراف میں تعمیر کیا گیا ، رفتہ رفتہ ان مدارس میں طلاب کی تعداد بڑھتی گئی ، اور مقامی اور روایتی ارتباط کے چینلوں کے ذریعے  ان مدارس  کے درمیان روابط میں اضافہ ہوا ۔ اب حکومت کی طرف سے ان مدارس کی روڑے اٹکائے جانے کے باوجود ان مدارس کی تشکیلات ایک دوسرے کے ہمآہنگ اور تنظیم یافتہ ہیں ۔

چین کی حکومت اور حکمران کمیونسٹ پارٹی نے غیر سرکاری مدارس کے وجود میں آنے کا مقابلہ کرنے کے لیے انجمن اسلامی کے زیر نظر مختلف شہروں جیسے پیکن ، صوبہء یون نن کے مرکز کونمینگ ، صوبہء شانسی کے مرکز شی ان ، صوبہء لیائونینگ کے مرکز شن یانگ ، صوبہء چینگ خی کے مرکز شی نینگ ، صوبہ سین کیانگ کے مرکز ارومچی ، صوبہء گینسو کے مرکز لنجو اور صوبہء خہ نن کے مرکز جنگ جو میں دس  سرکاری مدارس تعمیر کروائے ہیں ۔

ان مدارس کے تمام اخراجات چین کی حکومت دیتی ہے اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے چین کی حکومت کی نگرانی میں استاد ، امام جمعہ و جماعات اور حکومتی کمپنیوں  اور وزارتخانوں کے مترجم  کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ۔

حکومتی علمی مدارس  میں تعلیم کی مدت ایم اے کے لیے چار سال ، اور ارشد کے تخصصی دورے کے لیے سات سال ہے ۔ ان مدارس میں چینی زبان میں حصول تعلیم ، چین کی حکومت کی سیاست سے آشنائی ، کمپیوٹر کی تعلیم اور خارجی زبانیں سیکھنے پر زور دیا جاتا ہے ۔

سب سے بڑا مدرسہ کیانگ کے علاقے میں ، مدرسہء علمیہ ارومچی ہے جس میں ۲۰۰ سے زیادہ طالب علم ہیں ۔

چین میں مساجد ،

پیکن میں ۷۰ سے زیادہ مسجدیں ہیں ، شہر شانگھائی میں ۸ مسجدیں ہیں جن میں سے ایک مسجد عورتوں کے لیے مخصوص ہے چین کی بڑی مسجدوں میں حمام ، ٹائلیٹ ، وضو خانہ ، کے علاوہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کی جگہ ہوتی ہے مساجد میں شادی بیاہ ، مردوں کے کفن و دفن ، اسلامی معارف کی تعلیم ، مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال ، اسلامی طریقے سے ذبح ، ورزشی مسابقات ، اور نومولودوں کے کان میں اذان و اقامت کہنے جیسے امور انجام پاتے ہیں ۔ ہر مسجد میں ایک پتھر نصب ہوتا ہےجس پر مسجد اور اس علاقے کے مسلمانوں کا مختصر تاریخچہ لکھا ہوتا ہے ۔ چین کی ہر مسجد میں متعدد عالم ہوتے ہیں جن کے حجرے مسجد کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور یہ چینی طلاب کا ایک امتیاز شمار ہوتا ہے وہاں امام جماعت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے جس کی قرائت اچھی ہو نماز کے وقت وہ مسجد کے نمازیوں کو  جماعت پڑھا سکتا ہے۔

شہر شنگھائی چین کے اقتصادی پایتخت کے طور پر مشہور ہے اور اس شہر میں چین کی اسلامی انجمن کی مسجد ، متعدد ثقافتوں اور شناختوں والی اس سر زمین میں پرچم اسلام کی سر بلندی کی علامت ہے ۔

۱۰ ہزار مربع میٹر رقبے پر مشتمل یہ مسجد ایک سنہری گنبد اور ایک ۲۶ میٹر اونچے گلدستے سے مزین ہے کہ جس کے اطراف میں انجمن اسلامیء چین کی عمارت ہے ، اس کے پیچھے ایک بہت بڑا پارک ہے ،جسے عید اور مختلف مناسبتوں اور کبھی نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح عورتوں کے مخصوص ایک نماز خانہ بھی اس مسجد میں موجود ہے ، خطاطی شدہ قرآنی آیات لکڑی کے ٹکڑوں پر اس عبادت کے مکان کو زینت دیتی ہیں ۔

مسجد کی دوسری منزل پر ایک بہت بڑا کتابخانہ ہے ، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ دینی ،قرآنی ،کتابیں اور اسی طرح اسلامی مآخذ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والوں اور ظلاب کے لیے موجود ہیں ۔ اسی طرح اس کتابخانے میں اسلامی کیسیٹوں اور ویڈیوز کا بھی انبار ہے جو دینی اور فقہی احکام  اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دینے کے کام آتی ہیں ۔

جین خونگ وی یا موسی جین جو چین کے مسلمانوں کی اسلامی انجمن کا نائب صدر ، اور شانگھائی کے مسلمانوں کی انجمن کا صدر ، اور مسجد شیائو تائوسی کا امام جماعت کہتا ہے ؛وہ مسجد کہ جس کی تعمیر کو ۹۰ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں ، اس کا دینی مسائل کے بارے میں آگاہی دینے ، مسلمانوں کی اجتماعی مشکلات کی جانچ پڑتال کرنے اور انہیں حکومت کے گوش گذار کرنے میں بہت بڑا کردار ہے شہر شنگھائی کی مسجد مسلمانوں کے لیے بہت ساری ثقافتی سرگرمیاں انجام دیتی ہے ۶ ملازم اور ۲۰ امام جماعت اس مسجد میں مشغول ہیں ۔

چین کی انجمن اسلامی شنگھائی کے ۸۹ ہزار مسلمانوں اور اس شہر سے باہر کے ۱۰ ہزار مسلمانوں کی خدمت کرتی ہے ۔اور یہ کام شہر شنگھائی کی ۸ مختلف مساجد سے انجام پاتا ہے ۔

ہر جمعے کو اسی طرح ماہ رمضان کے ایام میں بڑی تعداد میں مسلمان شنگھائی کی مساجد میں آتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں ۔ اسی طرح چین کے خطباء اور آئمہء جمعہ نماز جمعہ کے خطبوں میں دین اسلام کی تعلیمات  کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں اور دینی مسائل کی تشریح اور توضیح کے لیے آنے والے جوانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ چین  کی انجمن اسلامی یہ دعوی کر رہی ہے کہ یہ انجمن مسلمانوں کے دینی ثقافتی امور اور مشکلات کی دیکھ بھال کرتی ہے ، لیکن بہت سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ انجمن کمیونسٹ پارٹی کی نمایندہ ہے اور یہ مسلمانوں پر نظر رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے اسی لیت بہت سارے مسلمان اس کے کام سے راضی نہیں ہیں ۔

اس کے باوجود حالیہ برسوں میں کمیونسٹ پارٹی اور چین کی حاکمیت نے کسی حد تک اصلاحات  کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور اس نے باریک پالیسیاں بنا کر تمام ادیان خاص کر اسلام کے ماننے والوں کو زیادہ آزادی دے رکھی ہے اور انتہائی چالاکی کے ساتھ ایک ایسا اسلام پیش کرنے کے درپے ہے کہ جو بے خطر ، مسالمت پسند تمام ادیان کے ساتھ تال میل رکھنے والا اور کمینسٹ پارٹی کے تفکرات کے ساتھ سازگار ہو ۔دوسرے لفظوں میں چین کی حکومت  چین کے مسلمانوں کو ایسا اسلام دینا چاہتی ہے کہ جیسا اس وقت انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ میں ہے ۔                       


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی