سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کشمیری عوام اپنے 16 اگست کے منتظر

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

باسمہ تعالی
کشمیری عوام اپنے 16 اگست کے منتظر
ازقلم:عبدالحسین کشمیری

اس وقت کشمیر کے جوار (پاکستان اور ہندوستان) میں ایک 14اگست منانے اور دوسرا 15 اگست منانے میں مصروف ہے۔ ایک کے لئے چودہ اگست ہی سب سے بڑی نعمت ہے اور دوسرے کے لئے پندرہ اگست .اس بیچ میں کشمیری مظلوم و محکوم قوم چودہ اگست بھی جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں اور پندرہ اگست بھی مناتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ کشمیری خود اپنے سولہ اگست کے انتظار میں ہیں۔

 آج تک کشمیری عوام ہندوستان اور پاکستان کی جشن آزادی کو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت مناتے آئے ہیں جس میں کوئی سیاسی (سیاسی جماعتیں) اور کوئی روزی روٹی کے لئے(ملازمین اور اسکے ملحقات) مناتے ہیں. البتہ مسلم طور پر ابھی تک کشمیری عوام نے نہ چودہ اگست کو اور نہ ہی پندرہ اگست کو قومی جشن آزادی کے طور پر منا یا ہے۔ اور وہ دن بھی دور نہیں کہ جب انشااللہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع کرے گا اور ممکن ہے کہ وہ سولہ اگست عنوان حاصل کر جائے تو پھر جس طرح ہم آج تک خواستہ یا نخواستہ طور چودہ یا پندرہ اگست کی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں کل چودہ اور پندرہ اگست منانے والے اپنے اپنے ملک میں سولہ اگست کی محفلوں میں شرکت ضرور کریں گے جو کہ نہ کسی کی جیت ہو گی نہ کسی کی ہار. البتہ ایک خوشگوار اور دوستانہ ماحول کی مثال ہو گی . اور ایسے ماحول کو قائم کرنے کے لئے کشمیر کے ہمجوار دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کو چاہئے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے کے لئے اپنے محفوظات اور شرایط کو واضح طور بیان کرے کہ کشمیر کو اپنی آزادی اور خود مختاری واپس دینے کے لئے کن کن اصولوں اور ضوابط کا آزاد اور خود مختار کشمیر کو خیال رکھنا ہوگا جس کو عوامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک حمایت حاصل ہو۔

 کشمیر میں چودہ اگست منانا یا پندرہ اگست منانا نہ پاکستان کی کشمیر پر گرفت ثابت کرتا ہے نہ ہی ہندوستان کی کشمیر پر قانونی اور عقلی جواز کو ثابت کرتا ہے۔ میں چونکہ خود ایک کشمیری  ہوں اسلئے دوسروں کے بجائے اپنی مثال دوں گا کہ میں نے اپنے اسکولی دور میں ہر سال پندرہ اگست منایا ہے ، یعنی پہلی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک میں ہر سال پندرہ اگست کی تقریب میں شرکت کرتا تھا اور پانچویں جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک پندرہ اگست کی تقریب میں کلیدی رول ادا کرتا تھا لیکن بچپن سے لیکر کبھی بھی مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں اپنے ملک کشمیر کا جشن آزادی مناتا ہوں۔ میرا عقیدہ رہا ہے کہ ہم ہندوستان کا جشن آزادی مناتے ہیں جو کہ اسکول میں الزامی طور پر منانا ہے اور یہ میری مخصوص سوچ نہیں ہے اکثر کشمیری طالب علموں سے سوال کریں وہ یہی جواب دیں گے ، کوئی ایک کشمیری طالب علم پندرہ اگست کو قومی جشن آزادی کے طور پر نہیں مناتا بلکہ ہندوستان کی جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں اور پندرہ اگست کی تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔

 اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان نے خود بھی کشمیر کو کبھی بھی اپنا مسلمہ حصہ قبول نہیں کیا ہے بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور ثابت کرتا آیا ہے کہ کشمیر پر اسکا غاصبانہ قبضہ ہے اور اسکا عنوان بدلنے کے لئے ہر قسم کی حکمت عملی اپناتا رہتا ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ ہر نیک یا بد کام اپنے اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اور ہندوستان بھی اپنے غاصبانہ کردار کے نقوش چھوڑتا رہتا ہے جس طرح پاکستان کشمیر کے نسبت اپنی کمزور اور بچکانہ سیاستوں کی وجہ سے خود ہی پٹتا رہتا ہے البتہ ہندوستان بھی اپنے آپ کو اس حقیقت سے مستثنا نہ کرے۔ اگر چہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کے مقابلے میں ہندوستان کی کشمیر پالیسی مضبوط اور شاطرانہ ہے لیکن دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی بالکل کھوکھلی ہے اور ہندوستان کی کشمیر پالیسی اندر سے کھوکھلی البتہ باہر سے قدرے مضبوط ہے لیکن اندرونی کھوکھلا پن اپنا اثر دکھا کر رہے گا۔ ہندوستان کی قومی تقریبوں کا ڈرامہ رچانا ، اپنے جمہوری دعوے کی مجبوری کے سبب انتخابات کرانا اور بظاہر منتخب نمایندوں کی پکار اور فریاد کو ردی ٹوکریوں میں ڈالنا اور اسکے مقابلے میں اپنے کسی ادارے سے کسی ایک معمولی فرد کی رپورٹ پر ایک کشمیری سیاسی شخص یا جماعت ، یا کسی تاجر یا کمپنی ، یا افسر یا ادارے کے وجود کو محو کرنا یا ناکارہ بنانا۔ ہر کشمیری پر ایک ہندوستانی حاکم ، اور ہر کشمیری ادارے کا کلیدی اختیار ہندوستانی کے ہاتھ دینا ایک نہ ایک دن سولہ اگست کے سورج کو طلوع کرواکے ہی رہے گا۔

 کشمیر کو سیاسی حقوق دلوانے پر روک لگانا آخر کب تک چلے گا ، کیا ہندوستان خود برطانی سامراج سے آزادی حاصل کرکے پندرہ اگست منانے کو اپنی جدوجہد آزادی کا صبح کہے گا اور خود کشمیر پر غاصبانہ قضبہ جما کر سامراجی مزاج اور حکمت عملی کو کشمیریوں پر اپنا کر رات کی اندھرے میں رکھنا چاہتا ہے ، آخر کب تک۔ جب تک سورج طلوع نہیں کرتا اندھیرے میں چراغ جلائے جاتے ہیں اور جو کوئی کشمیر کے چراغوں کو غل کرتا ہے یا اسکی روشنی بلکل دھیمی کردیتا ہے وہ در اصل خود سورج کو طلوع ہونے کی بھی دعوت دیتا ہے۔ اس طرح جو کوئی بھی کشمیر کو جس قسم کی بھی حکمت عملی کے تحت غافل رکھنے کی سعی لا حاصل کرتا رہے گا وہ در اصل کشمیر کو سیاسی استحکام و آزادی دلانے کا غیر شعوری طور حمایت کرتا ہے۔ جب انگریز ہندوستان پر حکومت کرتے تھے،اس وقت بھی آج کل کے ہندوستانی حکمرانوں کی طرح انگریز بھی صرف مرکزی کردار اپنے دائرے اختیار میں رکھتے تھے اور باقی حکومت تو ہندوستانی ہی کرتے تھے۔ مگر آخر کار انگریزوں کے قاعدے قانون کی حفاظت کرنے والے اور انگریزوں کے نام پر ہندوستان پر حکومت کرنے والے ہندوستانی آخر کار ہندوستانی عوام کی حقیقی مانگ (سیاسی استقلال و آزادی) کے حصول کی جذبے کے سامنے ناکام پڑ گئے اور دیر سویر حقیقت کو تسلیم کر گئے اور ہندوستان کی آزادی کا حصہ دار بنے اور ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد جس نے انگریزوں کی حمایت کی تھی وہ بھی ہندوستانی کہلایا اور جس نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے ہر قسم کی مصیبت مول لی وہ بھی ہندوستانی کہلایا ، اگرچہ اس بیچ بر صغیر کے اس عظیم عوامی طاقت کو بکھرنے کے لئے ہونے والی سازشوں کو بھی کامیاب ہونے کا موقعہ فراہم ہو گیا۔

غرض اگر دیکھا جائے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھی بہت زیادہ خامیاں موجود تھیں ، جس کے آثار ابھی تک محو نہیں ہو پا رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہندوستانی عوام نے دنیا کے سب سے بڑے سامراج برطانیہ کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا اور اپنے لئے اپنی سیاسی استقلال کا عنوان حاصل کیا اور اگر ظرافت کے ساتھ تجزیہ کرنے بیٹھیں تو معلوم پڑے گا کہ ابھی تک برطانیہ، ہندوستان سے خارج نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح کشمیر عوا م کی جدوجہد آزادی میں سینکڑوں خامیاں موجود ہو سکتی ہیں لیکن یہ حقیقت پر مبنی تحریک ہے اپنا مقصد دیر یا سویر حاصل کرکے ہی رہے گی اگر چہ سیاسی استقلال حاصل کرنے کے بعد جس طرح برطانیہ کے نقوش ہندوستان پر ابھی بھی موجود ہیں کشمیر میں بھی ہندوستان کے نقوش باقی رہ جائیں تو اس میں بظاہر کوئی ہرج بھی نہیں۔

 اللہ سے یہی دعا کریں گے کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے حکام کو حقیقت سمجھنے اور اسے بیان کرنے کی جرئت عطا فرمائے اور ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر امن و امان کے ساتھ آزادی کا دن دیکھنا نصیب کرے۔ اس امید کے ساتھ جہاں پر پاکستان چودہ اگست جشن آزادی پاکستان اور ہندوستان پندرہ اگست جشن آزادی ہندوستان مناتا ہے ہمارے لئے سولہ اگست کو یوم جشن آزادی کشمیر منانا نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی