سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ترکی اور امریکہ کا شام کو لے کر سودابازی

 اردو مقالات سیاسی شام ترکی امریکہ/اسرائیل

ترکی اور امریکہ کا شام کو لے کر سودابازی

ترکی اور امریکہ کا شام کو لے کر سودابازی

نیوزنور:امریکہ اور ترکی دونوں شام کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں  اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر حربہ اختیار کر رہے ہیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق جنوری کے اواخر کی بات ہے کہ جب ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیہودہ بہانے سے ترکی کے شمال پر حملہ کیا لیکن بعض کا یہ ماننا ہے کہ منبج میں امریکہ کی فوج کی موجودگی کے پیش نظر ترکی اور امریکہ کی فوج میں ٹکراو کا احتمال پایا جاتا ہے ، لیکن ان دو ملکوں کے سربراہوں کے جو مقاصد ہیں ان سے کسی اور نتیجے کا پتہ چلتا ہے ۔

اسی سال جنوری کی ۲۰ کو رجب اطیب اردوغان ترکی کے صدر نے عدالت و توسعہ پارٹی کی ایک کانگریس میں اعلان کیا کہ عفرین کے بعد منبج کا علاقہ ترکی کی فوجی کاروائی کا دوسرا نشانہ ہوگا ؛ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب کچھ عرصہ پہلے اسد نے کہا تھا کہ ترکی شام پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ اردوغان نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ عفرین کی کاروائی شام کے نہتے لوگوں کے مفادات کے دفاع کے لیے ہے لیکن جو ہماری کاروائی کے مخالفین ہیں وہ دہشت گردوں کی کاروائی سے چشم پوشی کر رہے ہیں ۔

اردوغان کے کہنے کے پیش نظر ترکی کی  فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقصد کے تحت عفرین  میں  حاضر  ہوئی ہے ۔ حقیقت میں اردوغان ، یے پے گاف کی فوج کو پی کے کے سے وابستہ مانتا ہے ۔ پی کے کے کی فوج امریکہ اور یورپین یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں درج ہے اسی لیے ترکی نے اس وقت بیہودہ دعوے کے ذریعے واشنگٹن کے مقاصد کے خلاف پالیسی اختیار کر لی ہے ۔

لیکن ماجرا اس مسئلے اور عفرین کی سرزمین پر ختم نہیں ہوتا ، گویا عفرین کے بعد منبج واشنگٹن اور آنکارا کے درمیان مذاکرات کا اہم ترین موضوع ہے ۔ رجب طیب اردوغان اس حال میں منبج کو ترکی کی فوج کا اگلا نشانہ بتا رہا ہے کہ  جب امریکہ نے اس سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ترکی کی حمایت والی فوج کا منبج پر حملہ امریکہ کے شدید رد عمل کا باعث بنے گا لیکن یہ دھمکی صرف ایک گیدڑ بھبکی ہے۔

گذشتہ چند دنوں کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے آنکارا میں رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کی امریکہ کی وزارت امور خارجہ کے ترجمان ھدر نائورٹ نے بیان کیا : امریکہ کے وزیر خارجہ اور ریکس ٹیلرسن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے مابین امریکہ اور آنکارا کے روابط کو بہتر بنانے کے دوطرفہ اور فائدہ مند راستے کے انتخاب پر تعمیری گفتگو ہوئی ۔

ناوئرٹ کا بیان ایسی حالت میں سامنے آیا ہے کہ جب اردوغان نے اس ملاقات کے ایک دن بعد کہا تھا : ان لوگوں کو کہ جنہوں نے ہماری حمایت کی ہے اور ان کو کہ جنہوں نے ہمارے خلاف موقف اختیار کیا ہے فراموش نہیں کریں گے ۔

حالیہ چند مہینوں میں اردوغان کے بیانات سے آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اردوغان شام سے امریکی فوج کا انخلاء چاہتا ہے لیکن ظاہر میں اس کی کوشش ہے کہ بیہودہ بہانے بنا کر عثمانی امپراطوری کا راستہ ہموار کرے ، یہ وہ خواب ہے جو کئی سال سے اردوغان کے مغز میں کلبلا رہا ہے ۔

 دوسری جانب واشنگٹن کہ جس کو عرا ق کے مسئلے میں شکست ہوئی ہے اور اس ملک کی سرزمین پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پایا ہے اب اس نے اپنے مقاصد کے لیے دوسرے ملک کا انتخاب کیا ہے اور بے بنیاد بہانے بنا پر کسی بھی قیمت پر اس ملک سے جانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

 قابل ذکر ہے کہ ٹیلرسن نے اس  سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ہمیں سال ۲۰۱۱ کے اشتباہ کو نہیں دوہرانا چاہیے ۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کا ماننا ہے کہ امریکی فوجوں نے جلدی میں عراق کی سرزمین کو چھوڑ دیا تھا ، اور یہ اشتباہ باعث بنا کہ عراق میں القاعدہ کا باقی رہنا داعش میں تبدیل ہو گیا ۔

حقیقت میں واشنگٹن نے ایک نامعلوم سیاست اختیار کر رکھی ہے ایک طرف وہ کرد نیم فوجیوں کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری طرف معتقد ہے کہ شام میں اس کی موجودگی مستقبل میں دہشت گردوں کے گروہ وجود میں آنے کی راہ میں رکاوٹ بنے گی ۔

ایک طرف امریکہ کی حکومت شام سے نکلنا نہیں چاہتی اور دوسری طرف چونکہ وہ ترکی کی حلیف ہے تو قطعا یہ کھینچا تانی اس ملک اور ترکی کے لیے اچھی ثابت نہیں ہو گی ۔

شام کی سرزمین پر امریکہ اور ترکی میں ساز باز ،

بین الاقوامی مسائل کے  ماہر حسن لاسجری نے فارسی نیوزپوٹل جوان کے ساتھ ایک گفتگو میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ شام ترکی اور امریکہ کے درمیان کشمکش کا میدان ہے ، کہا : اس وقت شام کو لے کر ترکی اور امریکہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اور دوسری طرف ترکی والے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اپنی سلامتی کے مسائل کو بہانہ بنا کر شام میں داخل ہو چکے ہیں  تا کہ اس طرح اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں  ۔

بین الاقوامی مسائل کے اس ماہر نے اپنی بات جاری رکھی : دوسری طرف امریکہ کہ جس نے اس سے پہلے اپنی فوج منبج میں تعینات کر رکھی تھی اب وہ چاہتا ہے کہ کرد نیم فوجیوں کے ذریعے اس ملک میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نیا کردار ادا کرے ۔

لاسجری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دونوں ملکوں کے حکام کے ذریعے اس مسئلے کا حل دو مختلف معانی کا حامل ہو سکتا ہے ، مزید کہا : ایک یہ کہ دونوں فریق کردار ادا کریں اور ظاہر میں ڈیپلومیٹیک ادبیات سے کام لیں لیکن حقیقت میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں یا یہ کہ دونوں ایک مقصد کے پیچھے ہیںاور وہ ہے شام کے علاقوں کے ٹکڑے کرنا ۔

اس نے تصریح کی : البتہ اس دوران ترکی اور امریکہ کے مابین اس ملک کی سرزمین پر تفاہم ہونا واقعیت سر زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے اور اس وقت امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کردوں کی توجہ حاصل کرنے کے علاوہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ترکوں کو اپنی سلامتی کا کوئی کھٹکا نہ رہ جائے ۔

بین الاقوامی مسائل کے اس ماہر نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ شام کے حالات اور یمن کے حالات میں زیادہ فرق نہیں ہے ،کہا : اس رتبے کی وجہ سے جو شام کا اس علاقے میں ہے اس کی بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قابل توجہ نہیں ہے بلکہ ہمیں ہر روز ایک نئے حادثے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

 بعض کا یہ ماننا ہے کہ منبج میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے پیش نظر ترک فوج کی ان کے ساتھ لڑائی کا احتمال پایا جاتا ہے ،لیکن ان دو ملکوں کے حکام کے اصلی مقاصد اور عفرین کے واقعے کے پیش نظر ایسا حادثہ توقع سے بعید معلوم ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ دونوں ملک مل کر شام کو ٹکڑے کرنے کے لیے اقدام کریں ۔

آخر میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ خواہ امریکہ ہو یا ترکی دونوں شام کے ٹکڑے کرنے کے در پے ہیں دونوں اس ملک کو چوٹ پہنچا کر اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ترکی عثمانی امپراطوری کو زندہ کرنا چاہتا ہے اور امریکہ بھی ایک عرصے سے پوری دنیا کے علاقوں کاص مغربی ایشیا پر اپنی لالچی نگاہیں جمائے بیٹھا ہے اس لیے کہ اس کا سب سے بڑا ساتھی یعنی اسرائیل اس علاقے میں ہے اور خطرے میں ہے ۔ لیکن یہ دو ملک شاید بھول چکے ہیں کہ شام کے بھی کچھ ساتھی ہیں جو کسی حکومت کو بھی اس ملک کے ٹکڑے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔    

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی